Search

Κηρύγματα

مضمون 9: رومیوں (رومیوں کی کتاب پر تفسیر)

[باب3-2] گناہوں سے نجات صرف ایمان کے وسیلہ ہے <رومیوں۱:۳۔۳۱>

<رومیوں۱:۳۔۳۱>
”پس یہودی کو کیا فوقیت ہے اور ختنہ سے کیا فائدہ؟ ہر طرح سے بہت۔ خاص کر یہ کہ خدا کا کلام اُنکے سپرد ہوُا۔ اگر بعض بے وفا نکلے تو کیا ہوُا؟ کیا اُنکی بے وفائی خدا کی وفاداری کو باطل کر سکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ خدا سچا ٹھہرے اور ہر ایک آدمی جھوٹا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ تو اپنی باتوں میں راستباز ٹھہرے اور اپنے مقدمہ میں فتح پائے۔ اگر ہماری ناراستی خدا کی راستبازی کی خوبی کو ظاہر کرتی ہے تو ہم کیا کہیں؟ کیا یہ کہ خدا بے انصاف ہے جو غضب نازل کرتا ہے؟ (میں یہ بات انسان کی طرح کہتا ہوں)۔ ہرگز نہیں۔ ورنہ خدا کیونکر دنیا کا انصاف کریگا؟ اگر میرے جھوٹ کے سبب سے خدا کی سچائی اُس کے جلال کے واسطے زیادہ ظاہر ہوئی تو پھر کیوں گنہگار کی طرح مجھ پر حکم دیا جاتا ہے؟ اور ہم کیوں بُرائی نہ کریں تاکہ بھَلائی پیدا ہو؟ چنانچہ ہم پر یہ تہمت لگائی بھی جاتی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ اِن کا یہی مقولہ ہے مگر ایسوں کا مُجرم ٹھہرنا انصاف ہے۔ پس کیا ہُوا ؟کیا ہم کچھ فضلیت رکھتے ہیں؟ بالکل نہیں کیونکہ ہم یہودیوں اور یونانیوں دونوں پر پیشتر ہی یہ الزام لگا چکے ہیں کہ وہ سب کے سب گناہ کے ماتحت ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے کہ کوئی راستباز نہیں۔ ایک بھی نہیں۔ کوئی سمجھدار نہیں۔ کوئی خدا کا طالب نہیں۔ سب گُمراہ ہیں سب کے سب نِکمے بن گئے۔ کوئی بھَلائی کرنے والا نہیں۔ ایک بھی نہیں۔ اُن کا گلا کھُلی ہوئی قبر ہے۔ اُنہوں نے اپنی زبانوں سے فریب دیا۔ اُن کے ہونٹوں میں سانپوں کا زہر ہے۔ اُن کا مُنہ لعنت اور کڑواہٹ سے بھرا ہے۔ اُن کے قدم خون بہانے کیلئے تیز رو ہیں۔ اُن کی راہوں میں تباہی اور بد حالی ہے۔ اور وہ سلامتی کی راہ سے واقف نہ ہُوئے۔ اُن کی آنکھوں میں خدا کا خوف نہیں۔ اَب ہم جانتے ہیں کہ شریعت جو کچھ کہتی ہے اُن سے کہتی ہے جو شریعت کے ماتحت ہیں تاکہ ہر ایک کا مُنہ بند ہو جائے اور ساری دنیا خدا کے نزدیک سزا کے لائق ٹھہرے۔ کیونکہ شریعت کے اعمال سے کو ئی بشر اُس کے حضور راستباز نہیں ٹھہرے گا۔ اِسلئے کہ شریعت کے وسیلہ سے تو گناہ کی پہچان ہی ہوتی ہے۔ مگر اب شریعت کے بغیر خدا کی ایک راستبازی ظاہر ہوئی ہے جس کی گواہی شریعت اور نبیوں سے ہوتی ہے۔ یعنی خدا کی وہ راستبازی جو یسوع مسیح پر ایمان لانے سے سب ایمان لانے والوں کو حاصل ہوتی ہے کیونکہ کچھ فرق نہیں۔ اِسلئے کہ سب نے گناہ کیِااور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔ مگر اُس کے فضل کے سبب سے اُس مخلصی کے وسیلہ سے جو مسیح یسوع میں ہے مُفت راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں۔ اُسے خدا نے اُس کے خون کے باعث ایک ایسا کفارہ ٹھہرایا جو ایمان لانے سے فائدہ مند ہو تاکہ جو گناہ پیشتر ہو چکے تھے اور جن سے خدا نے تحمل کر کے طرح دی تھی اُن کے بارے میں وہ اپنی راستبازی ظاہر کرے۔ بلکہ اِسی وقت اُس کی راستبازی ظاہر ہو تاکہ وہ خود بھی عادل رہے اور جو یسوع پر ایمان لائے اُس کو بھی راستباز ٹھہرانے والا ہو۔ پس فخر کہاں رہا؟ اِس کی گنجائش ہی نہیں۔ کونسی شریعت کے سبب سے؟ کیا اعمال کی شریعت سے؟ نہیں بلکہ ایمان کی شریعت سے۔ چنانچہ ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ انسان شریعت کے اعمال کے بغیر ایمان کے سبب سے راستباز ٹھہرتا ہے۔ کیا خدا صرف یہودیوں ہی کا ہے غیر قوموں کا نہیں؟ بیشک غیر قوموں کا بھی ہے۔ کیونکہ ایک ہی خدا ہے جو مختونوں کو بھی ایمان سے اور نا مختونوں کو بھی ایمان ہی کے وسیلہ سے راستباز ٹھہرائے گا۔ پس کیا ہم شریعت کو ایمان سے باطل کرتے ہیں؟ ہر گز نہیں بلکہ شریعت کو قائم رکھتے ہیں۔“
 
 

لوگوں کی بے وفائی خدا کی نجات کو باطل نہیں کر سکتی ہے

 
پولوس رسول بیا ن کر تا ہے کہ شریعت کی تکمیل اور خدا کے فضل کی مخلصی ہمیں ہما رے کا موں کے ذریعے نہیں، بلکہ ایما ن کے وسیلہ دی گئی ہے۔ ہم خدا کی نجا ت کے وسیلہ راستباز ٹھہر ے اور اپنے سب گنا ہوں سے نجا ت پا چکے ہیں۔” پس یہو دی کو کیا فوقیت ہے اور ختنہ سے کیا فا ئد ہ؟ ہر طر ح سے بہت۔ خاص کر یہ کہ خدا کا کلام اُنکے سپرُد ہوا۔ اگر بعض بے وفا نکلے تو کیاہُو ا؟ کیا اُنکی بے وفا ئی خدا کی وفا داری کو با طل کر سکتی ہے۔ ہر گز نہیں! “ (رومیوں۳: ۱-۴)۔
یہودی کو یہ فو قیت ہے کہ خدا کا کلام اُنکے سپرد ُہوا۔ وہ اپنے با پ دادا سے اُسکا کلام سُنتے رہے اورزندہ رہے۔ کیو نکہ خدا نے اپنا کلام اُنہی کے سپر د کیا اور یہ اُن کو بخشا گیا، اِس لئے وہ خیا ل کر تے کہ وہ یو نا نیوں سے بہتر ہیں۔ جبکہ، خدا کا کلام کہتا ہے کہ خدا نے یہودیوں کو تر ک کر دیا کیو نکہ انہوں نے یسو ع کا جس نے اُنہیں اُنکے گنا ہو ں سے رہا ئی دی یقین نہ کیا۔
پو لو س کہتا ہے، ” اگر بعض بے وفا نکلے تو کیا ہُو ا؟ کیا اُنکی بے وفا ئی خدا کی وفا
داری کو با طل کر سکتی ہے؟ ہر گز نہیں!“ لو گو ں کی بے وفا ئی خدا کی نجا ت کو با طل نہیں کر سکتی۔”خدا کی وفا داری“ کا مطلب ” خدا کی صداقت ہے “ اِس کا مطلب ہے کہ اگر چہ یہودی اِس پر یقین کر یں یا نہ کر یں تو بھی خدا کی وفا داری اور گنا ہوں سے نجا ت کبھی بے اثر نہیں ہوسکتی۔ خدا کا کلا م وعدہ کر تا ہے کہ آیا وہ اِس پر یقین کریں یا نہ کر یں یہ مو قوف نہیں ہو سکتی۔
 اگر یہو دی ایما ن نہیں لائے تو غیر اقوام ایما ن لا ئیں گی۔ خدا فرماتا ہے کہ جو کوئی بھی ایما ن لا ئے گنا ہوں سے نجا ت پا ئے گا۔ اِس لئے ،خدا نے یہودیوں کو تر ک کیا کیونکہ وہ سچا ئی کے اُس کلام پر ایمان نہ لائے جو خدا کے وعدہ کے عین مطابق پورا ہُوا ،حالانکہ یہ کلام یہودیوں کے سپرد کِیاگیا تھا۔
نیچے دیئے گئے پو لو س رسو ل کے اِس دعو یٰ کی پیر وی کرتے ہیں: خدا نے نجا ت کی نعمت تمام بنی نو ع انسا ن کو عطا کی ہے۔ خدا فرماتا ہے کہ اُس نے پر انے عہد نا مہ میں اِس کا وعدہ کیا اور نئے عہد نا مہ میں اپنے اِکلو تے بیٹے یسوع مسیح کو اِس دنیا میں بھیج کر اِس وعدہ کو پور ا کِیاہے۔ بعض لو گ خد ا کی خو شخبر ی پر ایما ن رکھتے ہیں، لیکن بعض نہیں رکھتے۔ اِسطر ح جو کو ئی ایما ن لاتا ہے وہ مبا رک اور خدا کا فر زند ٹھہر تا ہے، جیسا کہ اُس نے وعد ہ کیا۔ اور خدا کی نعمتیں مو قوف نہ ہو نگی چاہے کتنے ہی لوگ اِس پر ایمان لانے سے مُنکر کیوں نہ ہوں۔
 
 

جوکوئی سچائی پر ایمان لا تاہے اُس کی عظیم محبت کو پا سکتا ہے

 
پس ہر کو ئی سچا ئی کے کلام کو سُن کر اور ایما ن لا کر خدا کی عظیم محبت کو حا صل کر سکتا ہے، لیکن بے ایما نو ں کا دعو یٰ ہے کہ خدا جھو ٹا ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے، کہ خدا اپنے وعدہ کو پورا کر نے کیلئے بے ایما نوں کو اپنی نجا ت سے نکا ل با ہر کر ے گا کیو نکہ اُنہوں نے گنا ہوں کی معا فی اور اُسکے فضل کو رد کیِا ہے۔
پو لوس کہتا ہے۔ ” کیا اُنکی بے وفا ئی خدا کی وفا داری کو با طل کر سکتی ہے؟ ہر گز نہیں!“ خدا نے وعدہ کیِااور پوری وفا داری سے ایک ہی مر تبہ سب لو گو ں کو جلال اور نجا ت کی نعمت عطا کی۔
 با ئبل خد ا کی اِس نعمت کے متعلق کیا کہتی ہیں؟با ئبل مقدس کہتی ہے کہ خد ا، با پ ،نے اپنے پیا رے بیٹے کو بھیجا اور اُن سب کو جو اُسکے اکلو تے بیٹے کے وسیلے گنا ہوں کی معا فی پر ایما ن لا ئے ہیں اُن کو فضل کے وسیلہ اپنے فرزند بننے کا حق بخشا ہے۔یہ ازل ہی سے اُس کا منصوبہ تھا کہ وہ تما م اِنسا نوں کو اپنے جلال سے مُلبس کریگا اور اپنی راستبازی کے وسیلہ گناہوں سے نجا ت دے کر اپنے فرزند بننے کا حق بخشے گا۔اور اُس نے بڑی وفاداری سے اِسے پور ا کِیا۔ اس لئے، ایما ندار خدا کے کلام کےمطا بق مبا رک ہیں ،مگر بے اِیما نوں کی اِس کے مطا بق عدالت ہو گی۔
یہ بڑا واجب ہے کہ بے ایما ن جہنم کی آگ میں ڈالے جا ئیں۔ خد ا نے ایک قانو ن مقرر کیا تا کہ ہم اِس کلام پر ایما ن لا کر نجا ت پا سکیں۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اگر چہ لو گ اِس کلام پر ایما ن نہ لائیں ،تو بھی خدا کی وفا داری کبھی با طل نہ ہو گی۔خدا کی نجا ت کی وفا داری کو قبو ل کر نے سے ہمارا شما ر اُسکے مبا رک لو گو ں میں ہو تا ہے۔ خدا فرماتا ہے ” بلکہ خدا سچا ٹھہرے اور ہر ایک آدمی جھو ٹا۔ چنا نچہ لکھا ہے کہ تو اپنی باتوں میں راستباز ٹھہرے اور اپنے مقد مہ میں فتح پا ئے “ (رومیوں۳:۴)۔
ہر ایک آدمی جھو ٹا ہے۔ خدا سچا ہے۔ کیوں؟ کیو نکہ خدا کہتا ہے۔ ” چنا نچہ لکھا ہے کہ تو اپنی با تو ں میں راستباز ٹھہر ے اور اپنے مقدمہ میں فتح پا ئے “ خدا فرماتا ہے کہ اُس نے پیشتر سے یہ وعدہ کیا ہے کہ جس پر لعنت کرنا مقصود ہو گا اُس پر لعنت کرونگا اور جس پر برکت کرنا مقصود ہو گا اُسکو بر کت دونگا۔ یہ خدا کا عدل ہے کہ ایما نداروں پر بر کت اور بے ایما نوں پر لعنت کرے۔ خدا نے فرمایا ،” بلکہ خدا سچا ٹھہرے اور ہر آدمی جھو ٹا ۔“
” تو اپنی با تو ں میں راستباز ٹھہرے اور اپنے مقد مہ میں فتح پا ئے “وہ فرماتا ہے کہ و ہ لو گو ں کو اپنے کلام کے مطا بق نجا ت دے گا۔ کلام مجسم ہُوا ،ہمارے درمیا ن رہا اور ہمیں مخلصی دی۔ اِس لئے، خد اوند اپنے کلام کے وسیلہ راستباز ٹھہرا ہے۔
خدا وند نے شیطا ن کو خدا کے کلام سے شکست دی۔ خداوند اپنے ، شیطان اور تمام روحانی مخلوق کے سامنے صادق اور مخلص ہے کیونکہ اُس نے اپنے وعدے کو پورا کیا۔ تاہم،انسان مخلص نہیں ہے۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ اُن کو یہاں سے کچھ فائدہ نہیں تو وہ فوراً اپنا رویہ بدل لیتے ہیں ۔ اِ س کے بر عکس ،خدا اپنے وعدوں کو کبھی نہیں بھو لتا۔اِس لئے پو لو س رسول فرماتا ہے کہ ہما رے ایما ن کی بنیا د خدا کے کلام پر ہو نی چا ہیے۔
 
 
ہماری ناراستی خدا کی خوبی کو ظاہر کرتی ہے
 
رومیوں۳ :۵ بیا ن کر تا ہے۔ ” اگر ہما ری نا راستی خدا کی راستبازی کی خو بی کو ظا ہر کر تی ہے تو ہم کیا کہیں؟ کیا یہ کہ خدا بے انصا ف ہے جو غضب نازل کر تا ہے؟ (میں یہ با ت انسا ن کی طر ح کہتا ہو ں) ۔“ تما م اِنسا ن نا راست ہیں، لیکن اگر اُنکی نا راستی خدا کی نجا ت کی راستبازی کی خو بی کو ظا ہر کر تی ہے تو ہم کیا کہیں؟
خدا کی راستبازی ہمارے گنا ہوں اور نا راستی کی وجہ سے اور زیادہ ظا ہر ہو ئی۔ خدا واقعی ہی سچا ہے۔ وہ نجا ت کا خدا وند، نجا ت دہند ہ اور حقیقی خدا ہے جس نے اپنے کلام سے ہمیں بچا نے کا وعدہ کیِااور اپنے اِس وعدہ کو پورا کِیا۔ اگر خدا کی راستبازی کی خو بی ہما ری کمزوریوں کی وجہ سے ظا ہر ہو ئی تو ہم کیا کہیں؟ ہما ری کمزوریا ں خدا کی راستبازی کواور زیادہ ظا ہر کرتی ہیں کیونکہ ہم مرنےکےدن تک گُناہ کرتے ہیں۔
کیسے ہم جا نیں کہ خدا محبت کا خدا وند ہے؟ ہم اپنی کمزوریوں سے یہ جا ن سکتے ہیں۔ خدا کی محبت ہما رے وسیلے ظا ہر ہو ئی کیو نکہ اپنی زندگی کے آخری دن تک گنا ہ ہم سے ہو جا تا ہے۔ خدا وند کہتا ہے کہ اُس نے دنیا کے گنا ہ ایک ہی بار اور ہمیشہ کیلئے مٹا دیئے ہیں۔ اگر وہ صر ف اچھے لو گوں کو ہی جو گنا ہ نہیں کر تے محبت کر تا ہے تو پھر خدا کی محبت ناقص ہو ئی۔ یہ اُسکی بے ریا محبت کی خو بی نہیں کہ ہم گنہگاروں کے ساتھ جو کبھی سچی محبت نہیں کر سکتے کسی معا ہد ے کے تحت مفاہمت کر ے۔
ہم اِنسا ن نا راست ہیں، اور خدا کو دغا دیتے ہیں۔ ہم اِس پر ایما ن نہیں رکھتے اور خدا کے نزدیک کسی طو ر سے بھی اچھے نہیں۔ گنہگار وہ ہیں جو صرف بر ائی کر تے ہیں، لیکن یسوع ،وہ ہے جس نےہمیں تما م گنا ہوں اور بدکا ریوں سے نجا ت دی ،اور ہمیں خدا کی محبت سے معمور کیا۔
خد ا فرماتا ہے کہ جب اِنسا ن شیطا ن کی گمرا ہی میں پڑ کر دوزخ میں جا نے کیلئے تیا ر تھے تو یہ اُسکی راستبازی اور محبت کی خو بی تھی کہ اُس نے اپنے اِکلو تے بیٹے کو ہمیں شیطا ن کی تا ریکی اور لعنتوں سے بچا نے کیلئے بھیجا۔ یہی خدا کی محبت اور فضل ہے ۔
پولوس کہتا ہے ” اگر ہما ری ناراستی خدا کی راستبازی کی خو بی کو ظا ہر کر تی ہے تو ہم کیا کہیں؟ “ اِس عبارت میں ایما نداروں اور بے ایما نو ں کے خیا لا ت کو تقسیم کر دیا گیاہے۔ بے ا یما نوں کو خدا کی با دشا ہت میں داخل ہونے کیلئے اچھا بننے کی کو شش کرنی چا ہیے ،تا کہ وہ خدا کے مبا رک لو گ ٹھہر یں۔ مگر پو لوس اِس کے بر عکس دلیل دیتا ہے، ” اگر ہما ری نا راستی خدا کی راستبازی کی خو بی کو ظا ہر کر تی ہے تو ہم کیا کہیں؟ “ پولوس کہتا ہے کہ ہم انسا ن خدا کی راستبازی کو پورا نہیں کر سکتے لیکن صرف اُسکے سا منے گناہ کرسکتے ہیں اور ہما ری بر ائی خدا کی سچی محبت کو ظا ہر کرتی ہے۔ ہاں! یہ سچ ہے۔ تما م انسا ن بُرے ہیں اور راستباز ٹھہرنے کے لائق نہیں ہو سکتے، لیکن خدا وند نے اُنہیں اُنکے تما م گناہو ں سے رہا ئی دی۔
 
 
ہم نے خدا کی راستبازی کے وسیلہ مخلصی پائی ہے
                    
پولوس رسو ل کہتا ہے کہ انسا ن کبھی بھی اپنے آپ سے راستباز نہیں ٹھہر سکتے اِس لئے کہ وہ گنا ہوں کے پھندے میں جکڑے ہو ئے ہیں۔ خداوند نے ایسے گنہگاروں سے محبت کی اور اُنہیں گنا ہوں سے مخلصی بخشی۔ ہمیں اُسکی کا مِل محبت کی ضرورت ہے کیو نکہ ہم ہر روز گنا ہ سے بچ نہیں سکتے۔ ہم نے صر ف یسو ع کی بے ریا محبت، اُسکے مُفت فضل، اور نجات کی نعمت سے یسوع مسیح کے وسیلہ رہا ئی پا ئی ہے۔
پولو س رسو ل فرماتا ہےکہ اُن کی نجا ت خدا کی راستبازی کی مر ہون منت ہے۔ یہ سب کچھ خدا نے اپنی راستبازی کو ظا ہر کر تے ہوئے کِیاکہ تمام گنہگاروں کو اُنکے گنا ہوں سے رہا ئی دی۔ پولوس کہتا ہے کہ خوشخبری پر ایمان لانا اُسے مخلصی دیتا ہے۔ خدا کی راستبازی پانی اوررُوح کی خوشخبری میں ظاہر ہو تی ہے ۔ہماری نجات خُدا کےاُس راستباز کام پر انحصار کرتی ہے جو اُس نے ہمارے لئےکیِا۔ اِس لئے، گنہگا ر اپنے تما م گنا ہوں سے ایما ن کے وسیلے رہا ئی پا تے ہیں۔وہ جونئے سرے سے پید ا نہیں ہوئے خیا ل کر تے ہیں کہ وہ اپنے ظاہری نیک کاموں کے ذریعے ہی خدا کی بادشاہی میں داخل ہو سکتے ہیں۔
پو لو س کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم دانستہ طور پر برا ئی کر یں، لیکن لوگ آخرکارجہنم میں چلے جاتےہیں کیونکہ وہ خدا کی راستبازی حاصل کیے بغیر نیک کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ضر ور ہے کہ وہ اپنی تبدیلی کیلئے سچے دل سے توبہ کریں اور خدا کی نجا ت پر جو اُس نے اُنہیں اتھا ہ گڑے سے بچنے کیلئے دی ایما ن لائیں۔
کو ن خدا کے سا منے راستباز ٹھہر سکتا ہے؟ کو ئی نہیں۔ پھر کیسے ایک گنہگار اپنے تمام گنا ہوں سے رہا ئی پا سکتاہے؟ ضر ور ہے کہ وہ اپنے خیا لا ت کو تبد یل کرے۔ پولوس رسول کہتا ہے کہ اُس نے ایما ن سے نجا ت پا ئی۔لیکن لو گ کیا سوچتے ہیں؟ لو گو ں کا خیا ل ہے کہ وہ اچھے کاموں کے ذریعے نجا ت پا سکتے ہیں، اس لئے ایسے لوگ رہا ئی نہ پا سکیں گے۔ وہ جنہوں نے یسوع پر ایما ن لانے کے ذریعے اپنے گناہوں کی کا مل نجات پا ئی، وہ صرف خدا کی راستبازی پر فخر کر تے اور اِسی کا پر چا رکر تے ہیں۔
تاہم، وہ جو نئے سر ے سے پیدا نہیں ہوئے ،اگر چہ وہ یسوع پر ایما ن رکھتے ہیں ، خیا ل کر تے ہیں
کہ اپنے اچھے کا موں کے سبب آسما ن کی با دشا ہی میں جا سکتےہیں، اور اگر وہ اچھے کا م نہ کریں تو وہ دو زخ میں جا ئیں گے۔اُنکا ا یما ن درست نہیں۔ پولوس رسول کا ایما ن بالکل ایسا ہے جیسا کہ نئے سر ے سے پیدا ہونے والے ایما نداروں کا۔ وہ جو نئے سر ے سے پید ا نہیں ہو ئے، اگر چہ وہ یسو ع پر ظاہری ایمان رکھتے ہیں، اُنکا ا یما ن درست نہیں کیو نکہ وہ اپنے ایما ن پر اپنے کا موں کو تر جیح دیتے ہیں۔ ہمیں اپنے ایمان میں ہمارےنیک کاموں کو شامل کرنے کی وجہ سے نجات نہیں ملی، بلکہ ہمیں خدا کی راستبازی پر ایمان لانے سے نجات ملی ہے: یسوع کے بپتسمہ، اور صلیبی موت پر ایما ن لانے سے ۔
 
 
راستباز قصداً گناہ نہیں کر سکتا ہے
 
” اگر ہما ری نا راستی خدا کی راستبازی کی خو بی کو ظا ہر کر تی ہے تو ہم کیا کہیں؟ “ با ئبل کہتی ہے کہ ہما ری نا راستی خدا کی راستبازی اور اُسکی محبت کو آشکارا کر تی ہے۔ با ئبل مقد س یہ بھی فرماتی ہے، ” اگر میرے جھو ٹ کے سبب سے خدا کی سچا ئی اُسکے جلال کے واسطے زیادہ ظا ہر ہوئی تو پھر کیوں گنہگا ر کی طر ح مجھ پر حکم دیا جا تا ہے؟ اور ہم کیو ں برائی نہ کریں تاکہ بھلا ئی پیدا ہو؟ چنا نچہ ہم پر یہ تہمت لگا ئی بھی جا تی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ انکا یہی مقولہ ہے۔ مگر ایسوں کا مجر م ٹھہر نا انصا ف ہے“ (رومیوں۳:۷۔۸)۔ بے ایمانوں کے نا م عدا لت کی کتا ب میں قلمبند کئے گئے ہیں اور وہ آگ کی جھیل میں ڈا لے جا ئیں گے۔ اِس لئے، ضرور ہے کہ وہ توبہ کہ وسیلہ تبدیل ہوں اور اُس نجا ت پر ایما ن رکھیں جو پا نی اور خو ن کے وسیلہ پوری ہوئی۔
پولوس رسول نے فرمایا ” کیا یہ کہ خدا بے انصا ف ہے جو غضب نا زل کر تا؟ (میں یہ با ت انسا ن کی طر ح کہتا ہوں) ہر گز نہیں۔“ لوگ پولوس کے اِس مقو لہ کو یہ کہتے ہوئے غلط ثا بت کر تے ہیں ” کیا یہ بے انصا فی نہیں کہ خدا بے ایما نوں پر صرف اِسی لئے غضب نا ز ل کر تااور اُنہیں دوزخ میں بھیجتا ہے کیو نکہ وہ ایما ن نہیں لا ئے کہ یسو ع پہلے ہی اُنہیں گنا ہوں سے رہا ئی دے چکا ہے؟ “ لیکن پولوس کہتا ہے ” کیا یہ کہ خدا بے انصا ف ہے جو غضب نا ز ل کر تا ہے؟بے ایما نو ں کیلئے یہ مناسب ہے کہ وہ دوزخ میں جا ئیں کیو نکہ اُنہوں نے اِس حقیقت کو نہ ما نا کہ خدا ایک عا دل ہے۔“
رومیوں۳:۷بیا ن کرتا ہے کہ ” اگر میرے جھو ٹ کے سبب سے خدا کی سچا ئی اُسکے جلال کے واسطے زیا دہ ظا ہر ہوئی تو پھر کیو ں گنہگاروں کی طر ح مجھ پر حکم دیا جا تا ہے؟ “پھر لو گ پوچھ سکتے ہیں، ” کیا؟ آپ اِس غر ض سے گنا ہ کر یں گے کہ آپ گنا ہوں کی معا فی پا چکے ہیں؟ آپ جھو ٹ پر جھو ٹ کہتے جائیں کیو نکہ آپ خدا کی راستبازی کے ذریعے نجا ت یا فتہ ٹھہرچکے ہیں۔ کیا آپ اِس غر ض سے زیادہ گنا ہ کریں گے؟ “ لیکن با ئبل بتا تی ہے کہ وہ اپنے دلوں کی برا ئی کی وجہ سے ایسے راستے ا ختیا ر کرتے ہیں ،نہ خد ا کی نجا ت کو جا ننے سے اور نہ ہی اُسکی محبت پر ایما ن لانے سے۔
اِسلئے، پو لو س کہتا ہے کہ ہمارے جھوٹ اور گناہ کے باعث خدا کی محبت اور اُس کے جلال کے واسطے اور زیادہ ہوئی۔ لیکن لوگ پولوس کے خیا لات کو یہ کہتے ہو ئے غلط ثا بت کر رہے ہیں ” اگر آپ ایما ن رکھتے ہیں کہ آپ نے ایما ن کے وسیلہ نیک کا مو ں کے بغیر نجا ت پا ئی اِس لئے آپ اور زیا دہ گنا ہ کر سکتے ہیں۔ “ یہ سچ نہیں کہ لو گ محض اپنی مر ضی سے گنا ہ کرتے ہیں۔ وہ گنا ہ کو اِسلئے ترک نہیں کر سکتے کیو نکہ وہ گنا ہ میں پیدا ہوئے تھے۔ سیب کے درخت کیلئے یہ فطر تی بات ہے کہ یہ سیب کا ہی پھل لائے۔ با ئبل مقد س کہتی ہے کہ انسا ن کیلئے یہ فطرتی با ت ہے کہ گناہ اُس سے ہو جائے کیو نکہ وہ گنا ہ میں پید ا ہوا۔ خدا وند نے ایسے گنہگا روں کو اپنی راستبازی کے ذریعے نجا ت دی، اور وہ صرف خدا وند کی نجا ت کو قبول کر نے سے ہی رہا ئی پا ئیں گے۔
” ہم کیو ں برائی نہ کر یں تا کہ بھلا ئی پیدا ہو؟ چنا نچہ ہم پر یہ تہمت لگا ئی بھی جاتی ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اُنکا یہی مقو لہ ہے مگر ایسوں کا مجر م ٹھہر نا انصا ف ہے “ (رومیوں۳:۸)۔ وہ جو جھو ٹے اُستا دوں کی گمراہی کےما تحت ہیں حا لا نکہ وہ یسو ع پر ایمان رکھتے ہیں تو بھی اِسی خودبین طر یقہ سے سو چتے ہیں۔ رومیوں کے نا م خط تقربیا ً ۲۰۰۰سا ل قبل پولوس رسول نے تحر یر کیا۔ بہت سے لوگوں نے اُس وقت اِسی طر ح خیال کِیا، جیسا کہ آج کے بے ایما ن کر تے ہیں۔ جھوٹے ایماندار بالکل اُسی طرح خیال کرتے ہیں، جیسا کہ پولوس کے زمانہ کے بے ایمانوں نے کِیا، یہ کہتے ہوئے ، کیا اگر آپ گنا ہوں کی معا فی پا چکے، بے گناہ اور جا نتے ہیں کہ آپکے مستقبل کے گنا ہ معا ف ہو چکے ہیں تو جان بوجھ کر گناہ کریں؟
بے اعتقادوں کا عمل جسم کے بے ایمان خیالات کے مطابق عمل کرتا ہے۔ وہ اپنے جھو ٹے جسما نی خیا لات کی وجہ سے خدا کی نجا ت کی سچا ئی میں دا خل نہیں ہو سکتے۔ بے شک، راستبا زوں سے بھی گنا ہوں کی معا ف حا صل کر نے کے بعد گنا ہ ہو جا تا ہے،لیکن ایک حد ہے۔ با ئبل بیا ن کرتی ہے کہ گنہگار گنا ہ
کرناجاری رکھتےہیں کیونکہ وہ پانی اور روح کے وسیلہ نئے سرے سے پیدا ہو نے سے پہلے اِس با ت کو نہ تو جا نتے ہیں اور نہ ہی خا طر میں لا تے ہیں کہ وہ گنا ہ کر رہے ہیں۔تا ہم، با ئبل مقد س بتا تی ہے کہ راستباز جان بوجھ کر گنا ہ نہیں کر سکتے کیو نکہ وہ خدا کے تسلط میں ہیں۔
بعض لوگوں نے پولوس رسول کو بتایا، ” کیوں تم برائی نہیں کرتے تاکہ بھلائی پیدا ہو کیونکہ خدا نے تمہیں تمہارے سب گناہوں سے نجات دی ہے۔ آپکے لئے خدا کی راستبازی کو ظا ہر کر نے کیلئے اور زیادہ برا ئی کر نا اچھا ہو گا۔“ پولو س کہتا ہے کہ ایسو ں کا مجر م ٹھہر نا انصاف ہے۔ اُس کا مطلب ہے کہ ایسو ں کی عدالت ہو نا اور دوزخ میں جا نا واجب ہے۔ کیو ں؟ کیو نکہ انہوں نے ایمان پر انحصار نہ کِیا بلکہ اپنے کا موں پر۔
 
 
خدا کی راستبازی کبھی باطل نہ ہو گی
 
پولوس رسول کہتا ہے، ” اگر بعض بے وفا نکلے تو کیا ہُوا؟ کیا اُنکی بے وفا ئی خدا کی وفا داری کو با طل کر سکتی ہے؟ “ کیو نکہ وہ خدا کی نجات پر یقین نہیں رکھتے تو کیا اُنکی بے وفائی خدا کی وفاداری کو باطل کر سکتی ہے؟ اگر لو گ ایما ن رکھیں تو وہ نجات یافتہ ہیں، لیکن اگر وہ ایمان نہ لائیں تو گناہوں کی معا فی کے فضل کو کھو دیتے ہیں۔ خد ا کی راستبازی مضبوطی سے قائم رہتی ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں؟ وہ جوایمان کی پیروی نہیں کرتے وہ جہنم میں جاتے ہیں کیونکہ وہ جہنم میں جانے سے خوش ہیں۔ خدا کے کا م اور نجا ت کا فضل گنا ہوں سے کبھی زائل نہ ہو گا۔ وہ قائم و دائم ہیں۔
خدا وند کی نجا ت کا شر یعت کے کا موں پر منحصرانسانی کوششوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اِس کا واسطہ صر ف ایما نداروں کے ساتھ ہے۔ا یما نداروں نے خدا کی سچا ئی کے مطا بق نجا ت حا صل کی، لیکن بے ایما ن اِس سچا ئی کو رد کر نے کی وجہ سے جہنم میں جا ئیں گے۔ خدا نے ” ایک صد مہ اور ایک ٹھو کر کا پتھر “ کو بھیجا (یسعیاہ۸:۱۴)۔ جو کو ئی یسوع پر ایما ن لا ئے راستباز ٹھہرے اور ابدی زندگی پا ئے گا ،قطع نظر اِس کے کہ وہ کتنا ہی بُرا کیوں نہ ہو۔ جو کو ئی یسوع پر ایما ن نہ لائےگنا ہوں کی مزدوری کی وجہ سے جہنم میں پھینکا جا ئے گا، چا ہے اُسکے کام کتنے ہی اچھے کیو ں نہ ہوں۔ جو گنا ہوں کی معا فی پر یقین نہیں رکھتے اُن
کیلئے یسو ع ایک ٹھو کر کا پتھر اور ایک صدمہ کی چٹان ہے۔
 
 
کوئی گناہ آلودہ شخص راستباز نہیں
 
پولوس رسول اُن کے ایما ن کے متعلق با ت کرتا ہے جو اچھا بننے کا دعویٰ کر تے ہیں، پس لو گ رومیوں کو خدا کے ایسے کلام کا درجہ دیتے ہیں جو ا یما ن کے متعلق بتا تاہے۔ بعض لو گ اُنکے متعلق حیران ہیں جو خود کوراستبا ز کہتے ہیں۔جنکے گناہ یسو ع نے معا ف کئے حقیقت میں صرف وہی راستبازہیں کیو نکہ اُنکے سب گنا ہ مٹا ئے گئے۔ ” یسو ع وفا دار ہے“ کا مطلب ہے ” اُس نے وفا داری سے گنہگاروں کو اُنکے گناہوں سے نجا ت دی۔“ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ’ چھڑائےگئے ‘ گنہگار ہیں،لیکن خُدا کے حضور ایسے لوگ نہیں ہو سکتے ہیں۔ کیسے ایک شخص ابھی بھی گنہگا ر ہو سکتا ہے جبکہ وہ گنا ہوں سے نجا ت پا چکا ہے؟ اگر یسو ع نے ہمیں نجا ت د ی تو ہم نجات یا فتہ ہیں اور اگر یسو ع نے ہمیں نجا ت نہیں دی تو ہم گنہگا رہیں۔ نجات میں کوئی ”درمیانی“ نہیں ہے۔
 کیا کوئی گنا ہ آلود ہ راستباز ٹھہر سکتا ہے؟کوئی گناہ آلودہ شخص راستباز نہیں۔ اگر ایک شخص گناہ رکھتاہے تو وہ گنہگا ر ہے ، لیکن اگر یسو ع پر ایما ن رکھتاہے تو بے گناہ اور راستباز ہے۔ کیسےہم روزانہ ہونے والے اور مستقبل کے گناہوں کےمسئلےکو حل کرسکتے ہیں ؟لو گو ں کا خیال ہے کہ وہ لازما ً گنہگار ہیں کیو نکہ ہر روز گنا ہ کر تے اور جب تک وہ مر تے نہیں کو ئی نہ کوئی گنا ہ اُن سے سر زد ہوتا رہے گا۔ جبکہ ،ہم اُس خو شخبری پر ا یما ن لا نے سے راستباز ٹھہرئے ہیں جو کہتی ہے کہ یسو ع نے دریا ئے یر دن پر تما م دنیا کے گناہ، جس میں مستقبل کے گنا ہ بھی شا مل ہیں اپنے اوپر اُٹھا لئے اور مصلوب ہو گیا۔
” ایک راستبا ز شخص گناہ آلودہ ہو “یہ ایک بیہو دہ با ت معلوم ہوتی ہے ۔کیا یہ سو چنا معقول ہے کہ ایک شخص اگر چہ اُس نے پہلے ہی اپنا قر ض ادا کر دیا ہے تو بھی وہ ابھی تک مقروض ہے۔ فر ض کریں کہ یہاں ایک آدمی تھا جسکے پا س بہت دولت تھی، لیکن جیسے ہی اُسکا بیٹا جو ان ہُوا وہ شہر کے تما م سٹوروں سے ٹا فیاں کر یڈٹ پر خریدنے کی بُری عا دت میں گر گیا۔ مگر، اُس کا امیر با پ جو اپنے بیٹے کی زند گی سے بھی زیا دہ رقم ہر ایک دوکا ندار کو ایڈاونس میں دے چکا ہے۔ اُس کا بیٹا اگر اپنی تمام زندگی بغیر کوئی پیسہ ادا کئے جتنی چا ہے ٹا فیاں کھا نے سے لطف اندوز کیوں ہی نہ ہو وہ کبھی بھی مقروض نہ ہو گا۔
خدا وند نے راستبازی سے ہما رے گنا ہوں کو ایک ہی بار ہمیشہ کیلئے دریا ئے یر دن پر اپنے اوپر اُٹھا لیا اور ہمیں نجا ت دی۔ اُس نے ہم سب کو کا مل طو ر پر نجا ت دی۔ اِس لئے ،ہم کتنے ہی کمزور کیو ں نہ ہوں ہم کبھی بھی دوبارہ گنہگار نہیں ہو سکتے۔ خدا کہتا ہے اگر ہم جو اُس نے کِیا انکا ر نہ کر یں تو ہم راستباز ٹھہرائے
جا ئیں گے۔
 
 
لوگ نفسانی خیالات کے ساتھ نہ تو خوشخبری پر ایمان لا سکتے اور نہ ہی نئے سرے سے پیدا ہو سکتے ہیں۔
          
مسیحی جو اپنی ”رہائی“ کی آپ نشا ند ہی کرے وہ نفسانی عقل سے سوچتا ہے۔ روحا نی عقل ہو نے کیلئے خدا کے کلام پر ایما ن رکھنا چاہیے۔نفسا نی ذہن ایک انسا نی ذہن ہے۔ یہ انسا نی حکمت ہے۔ جسم گنا ہ کو روکنے میں کو ئی مدد نہیں کر سکتا ،ہم یسو ع کے بپتسمہ اور صلیب پر ایما ن لانے کے وسیلہ راستبا ز ٹھہر سکتے ہیں۔با ئبل کہتی ہے کہ ہم گنا ہ کو روکنے کی کو شش کے ذریعے راستبا ز اور پا ک نہیں ٹھہر سکتے ہیں۔
کیا کوئی جس نے یسو ع پر ایما ن لانے کے بعد کبھی گنا ہ نہ کیا پا ک شخص ٹھہر کر آسما ن کی با دشا ہی میں دا خل ہو سکتا ہے؟ کیا گنہگار گنا ہوں کی معا فی کے فضل کے ذریعے راستباز ٹھہر ائے جا تے ہیں؟ یہ نا ممکن ہے کہ آپ اپنی نفسا تی عقل سے راستباز ٹھہر یں۔ جسم کبھی بھی راستباز نہیں ہو سکتا۔ جسم ہمیشہ جب یہ بھوک محسو س کر تا ہے کچھ کھا نے کیلئے مانگتا ہے۔
جسم کا پا ک ٹھہر نا نا ممکن ہے کیو نکہ جسم میں بہت سی خوا ہشا ت اور چا ہتیں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ،ہم صرف یسو ع کے پا نی اور خون پر ایما ن لانے سے ہی راستبا ز ٹھہر تے ہیں۔کیا ہم اپنے آپ سے گنا ہوں سے بچ کر اور خود کو برف کی ما نند سفید بنا کر آسما ن کی بادشا ہت میں داخل ہو سکتے ہیں؟ یہ انسان کی ایک فا خرا نہ سو چ ہے، جو جسم کی خو اہشا ت اور جذبا ت سے بھراہے، کہ گنا ہ کو تر ک کر کے پاک بنناہے۔یہ ناممکن ہے۔
لو گ خو شخبر ی پر ایما ن نہیں لا سکتے اور نہ نئے سرے سے پیدا وہ سکتے ہیں کیو نکہ وہ ا یما ن کے
متعلق نفسا نی عقل سے سوچتے ہیں۔ یسو ع نے کہا ” جو جسم سے پیدا ہو ہے جسم ہے اور جو روح سے پیدا ہوا ہے روح ہے۔“ (یوحنا۳:۶)۔
نفسا نی عقل سے راستباز ٹھہرنا نا ممکن ہے۔ آپ یہ بھی سو چ سکتے ہیں یہ نا ممکن ہے کیو نکہ آپ کل پھر گنا ہ کر یں گے، پھر آپ کیسے تو بہ اور یسو ع پر ایما ن لا سکتے ہیں۔ آپ خیال کر سکتے ہیں، کیسے میں بغیر گنا ہ کےبغیر رہ سکتا ہوں جب کہ ابھی تک میں نے گنا ہ کو جا ری رکھا ہُو ا ہے؟ اگر آپ نفسانی سو چ رکھتے
ہیں جیسا کہ جسم کی ہے تو پھر آپکے لئے راستباز ٹھہرنا ممکن ہے؟جسم کے ساتھ پا ک ٹھہر نانا ممکن ہے۔
 
 
تاہم، خدا ہمیں راستباز ٹھہراسکتا ہے        
 
اگرچہ ایک انسا ن ایسا نہیں کر سکتا تو بھی خدا ہمیں کا مِل نجات دے سکتا ہے۔ خدا ہمارے دلوں کو پاک کر سکتا اور ہمیں یہ اِقرار کرنے کہ ہم راستباز ہیں اور یہ کہ وہ ہمارا باپ اور نجات دہندہ ہے کے ایمان کا اِقرار کرنے کے لائق ٹھہراتا ہے۔ آپکو جا ننا ہے کہ ا یما ن حقیقی کلام پر دل سے یقین لانے سے شرو ع ہو تا ہے۔ یہ سچا ئی کے کلا م سے شر وع ہو تا ہے۔ ہم دل سے حقیقی کلا م پر ایما ن لا نے سے راستبا ز ٹھہر ائے گئے ہیں۔ ہم جسم کے کا موں سے کبھی بھی راستباز نہیں ٹھہر سکتے ہیں۔
تا ہم ،جو نئے سرے سے پیدا نہیں ہو ئے اپنے دل کے خیا لوں سے اپنے آپ کو آزاد نہیں کرا سکتے کیونکہ وہ اپنی سو چو ں میں قید ہیں۔ وہ کبھی بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ راستباز ہیں کیو نکہ وہ نفسا نی عقل سے سو چتے ہیں۔ اِس کے بر عکس، وہ ایما ن جس سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم راستبا ز ہیں خدا کے کلام کی سچا ئی کو جا ننے سے شرو ع ہو تا ہے۔ اگر آپ حقیقتاً نئے سر ے سے پیدا ہو نا چا ہتے ہیں، تو آپ صر ف خدا کے کلام کو ایک مضبوط نئے سر ے سے پیدا ہو ئے شخص سے مُخلصانہ طور پر سننے کے ذریعے یقینی طور پر نئے سرے سے پیدا ہو سکتے ہیں کیو نکہ نئے سرے سے پیدا ہو نے والے مقدس کے سا تھ کا م کرنے سے روح خوش ہوتا اور کاموں کو ظاہر کرتا ہے ” کیو نکہ روح سب با تیں بلکہ خدا کی تہ کی با تیں بھی دریا فت کر لیتا ہے“ (۱کر نتھیوں۲:۱۰)۔ لوگ راستبا زوں کے وسیلہ کلام سننے سے نئے سر ے سے پیدا ہو سکتے ہیں کیو نکہ روح اُن راستبازوں میں جو نئے سرے سے پیدا ہو ئے ہیں بسا ہُو ا ہے۔ میں چا ہتا ہو ں کہ آپ اِسے ذہن میں رکھیں۔ اگر آپ نئے سرے سے پیدا ہونے کے فضل کو حا صل کر نا چا ہتے ہیں تو آپ کو نئے
سرے سے پیدا ہونے والے راستبازوں سے ملنا چاہیے۔
ابراہا م سےاضحا ق اور اسما عیل ہوئے ۔ اسما عیل ایک لو نڈی سے پیدا ہو ا۔ اسما عیل چودہ بر س کا تھا جب اضحا ق پید ا ہُو ا۔ اسما عیل نے اضحا ق کوستایا، جو ایک آزاد عورت (بیوی) سے پیدا ہُوا تھا۔ کون جا ن نشینی کا اصل حق رکھتا تھا؟ اضحا ق، جو آزاد عورت سا رہ ،سے پیدا ہو ا حقدار تھا۔
اضحا ق وراثت کا حقدار اور وعدہ کا فرزند تھااگرچہ اسما عیل بڑا اور جسم میں اضحا ق سے مضبو ط
تھا۔ کیوں؟ اضحاق خدا کے وعدہ کے کلام کے بعد پیدا ہُو ا تھا۔ انسا نی سو چ پر قا ئم ایما ن ریت پر بنا ئے گئے مکا ن کی ما نند ہے۔لو گ صرف اُسی وقت ہی نئے سرے سے پیدا ہو سکتے ہیں جب وہ خدا کے کلام سے سیکھیں اور اِس پر ایما ن لائیں۔
” پس کیا ہُو ا؟ کیا ہم کچھ فضیلت رکھتے ہیں؟ با لکل نہیں کیو نکہ ہم یہو دیوں اور یو نا نیو ں دو نو ں پر پیشتر ہی یہ الزام لگا چکے ہیں کہ وہ سب کے سب گنا ہ کے ما تحت ہیں۔ چنا نچہ لکھا ہے کہ کو ئی راستبا ز نہیں۔ ایک بھی نہیں “ (رومیوں۳: ۹۔۱۰)۔اِس عبا رت کا کیا مطلب ہے؟کیا یہ عبارت ا نسا نی مر تبہ کے نئے سرے سے پیدا ہونے سے پہلےیا نئے سر ے سے پیدا ہو نے کے بعد کی طر ف اشا رہ کر تی ہے؟ ہم سب نئے سر ے سے پیدا ہو نے سے پہلے گنہگا ر تھے۔”کوئی راستبا ز نہیں“انسا ن کی یہ حا لت یسو ع کے دنیا کے تما م گنا ہوں کو مٹادینے سے پہلے کی ہے۔ کو ئی بھی یسو ع پر ایما ن لائے بغیر پا ک نہیں ٹھہر سکتا۔
”آہستہ آہستہ پا کیزگی“کے الفاظ بت پر ستوں کے کا فرا نہ مذاہب سے آئے ہیں۔ با ئبل بیا ن کر تی ہے، ” کوئی راستبا ز نہیں ایک بھی نہیں۔“ کیسے کو ئی اپنی کو شش کے ذریعے پا ک ٹھہرسکتا ہے؟ ایک انسا ن خود سے راستباز نہیں ٹھہر سکتا ۔ ایک بھی نہیں جو خود کے وسیلہ راستباز ٹھہر ے۔ کوئی ایک بھی اپنی جدو جہد سے بے گنا ہ نہیں ٹھہرتا ہے ۔یہ صر ف خدا کے کلام پر ایما ن لا نے سے ہی ممکن ہے۔ با ئبل کہتی ہے۔ ” کو ئی سمجھدار نہیں۔ کوئی خدا کا طا لب نہیں“ (رومیوں۳:۱۱)۔
 
 
سب گمراہ ہیں
 
” سب گمراہ ہیں سب کے سب نکمے بن گئے “ (رومیوں۳:۱۲) ۔ کیاانسان خُدا کےسامنے
اہمیت رکھتے ہیں؟انسان خُدا کےسامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔وہ تمام انسان جو ابھی تک نئےسرےسےپیدانہیں ہوئےخُداکے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتےہیں۔ اگرچہ وہ اُن سب کا خالق ہے تو بھی وہ اُسکے خلاف بَڑ بَڑاتے اور آسمان کی طرف اپنی اُنگلیاں اُٹھا کر خدا سے جھگڑا کرتے اور بارش نہ بھیجنے کیلئے اُس سے ناراض ہوتے ۔
خدا نے کہا کہ ” وہ سب گمر اہ ہیں سب کے سب نکمے بن گئے “ کیسے ایک شخص جو دل میں گنا ہ رکھتا ہے خدا کو جلال دے سکتا ہے؟کیسے گنہگا ر ،جو اپنے گنا ہ کے مسئلہ کو حل نہیں کر سکتے ،خدا وند کی تعر یف کرسکتےہیں؟ کیسے ایک گنہگار خدا وند کی تعر یف بیا ن کر سکتا ہے؟ گنہگارخدا کو جلال نہیں دے سکتا۔
اِن دنوں پرستشی منسٹر یاں پھیلی ہوئی ہیں۔ گنہگا ر مکا شفہ کے کلام کا اقتباس لےکر خوشخبری کے گیتوں کی دھُنیں بناتے ہیں۔ ” کہ جو تخت پر بیٹھا ہے اُسکی اور برّہ کی حمد اور عزت اور تمجید اور سلطنت ابد آباد رہے“(مکا شفہ۵:۱۳)۔بے شک خد اوند ہی حمد اور عزت کے لائق ہے، لیکن صر ف راستباز ہی روح اور سچائی سے اُس کی پرستش کر سکتے ہیں۔ کیا آپ کا خیال ہے کہ خدا گنہگاروں کی پرستش کو خو شی سے قبو ل کر تا ہے؟ گنہگا ر قا ئن کی قربا نی کی طر ح حمد و ستا ئش کر تے ہیں۔ اگر چہ وہ خیا ل کر تے ہیں کہ وہ خداوند کی پرستش کر تے ہیں مگر اُن کی پرستش آسمان تک نہیں پہنچے گی۔ کیوں؟ کیونکہ خدا اِن سے خو ش نہیں ہے۔ خدا گنہگاروں کی دُعا کبھی نہیں سنتا (یسعیا ہ۵۹:۱-۲)۔
با ئبل مقدس بیا ن کر تی ہے کہ و ہ سب گمر اہ ہیں اور سب کے سب نِکمے بن گئے۔ ”وہ گمر اہ ہیں“ کے الفاظ کا مطلب ہے کہ اُنہو ں نے خدا کے کلام کو رد کر کے اپنے خیا لات پر توکل کیا۔ خدا کے کلام کے وسیلہ ایسوں کی حقیقی عدالت ہو گی۔صرف خُدا عدالت کرسکتاہے۔ انسا ن عد الت نہیں کر سکتا۔ ”وہ گمراہ ہیں“ کے کلام کا مطلب ہے کہ وہ اپنی سوچوں میں گمراہ ہو گئے۔ وہ ہمیشہ چیزوں کو اپنے خیا ل میں ایسے کہتے ہو ئے پیش کر تے ہیں،” میر ا یہ خیال ہے اور میں ایسے ایما ن رکھتا ہو ں“ اُنہیں اپنے خیا لات کو چھو ڑنا اپنے خیا لات کو دور کر نا ہے ،تا کہ وہ خدا کے کلام سے گمراہ نہ ہو ں۔
جو نئے سر ے سے پیدا نہیں ہوئے خیال کر تے ہیں کہ وہ آپ ہی اپنے منصف ہیں ۔خدا کے کلام میں کیا لکھا گیا ہے اُنکے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ وہ اپنے خیا لات سے لپٹے رہتے اورفیصلہ کر تے ہیں کہ کیا جھو ٹا ہے اور کیا سچا اور اُسی سے یہ کہتے ہو ئے متفق ہوتے ہیں ” میر ا یہ خیا ل ہے اور میں اِس طر ح ایما ن رکھتا ہوں۔ یہ با لکل ایسے نہیں جیسا کہ میں سو چ رہا ہوں۔“ ایسے لوگ کیسے سچائی کو پا سکتے ہیں؟ خدا کہتا ہے کہ تمام اِنسا ن اپنی سو چو ں میں گمراہ ہو چکے ہیں۔ ضرور ہے کہ ہم اپنی سو چو ں میں گمر اہ نہ ہوں ۔اِس کی بجا ئے ضرور ہے کہ ہم خدا وند کی طر ف لو ٹ جا ئیں۔ ہم نے صرف اِسی راستہ سے نجا ت پائی۔ خدا کے
زندہ اور سچے کلام کی سا منے ہما ری عدالت ہوئی۔ پھر راستبازی کیا ہے؟
 
 
ضرور ہے کہ ہم خدا کے کلام کے وسیلہ نئے سرے سے پیدا ہوں
          
خدا کا کلام راستبازی ہے، جو کہ سچا ئی ہے۔ خدا کا کلام قانون ہے، جوایک ’ پیما نہ ‘ کا ذکر کر تا ہے۔ ضر ور ہے کہ ہم جا نیں کہ خدا کی کلام ایک ترازو یا ایک اصولی علامت ہے۔ ” ابتدا میں کلام تھا“ (یوحنا۱:۱) ۔کو ن خدا کے سا تھ تھا ، باپ اور روح القد س؟ وہ کلامِ خدا ہے، اور کلام خدا ہے۔ یسوع مسیح ،ہما را نجات دہندہ اور بادشا ہوں کا با دشا ہ ،کلامِ خدا،ا ور ہما را خدا ہے۔
یہ لکھا ہے کہ کلام ہی اِبتدا میں خد ا کے سا تھ تھا۔ کو ن خدا کے سا تھ تھا؟ کلام مقدس۔اِس طر ح، یسوع کلامِ خدا ہمارا نجات دہندہ اور خدا ہے۔ نجا ت دہندہ خدا ہے۔ کلام اُسکی فطر ت کی ٹھیک ٹھیک نما ئندگی کر تا ہے۔اِسطر ح خدا کا کلام ہما رے خیا لا ت سے مختلف ہے کیو نکہ کلام خد ا ہے۔ ایک انسا ن اپنی نفسانی سو چو ں سے خدا کا کلام کو سمجھنے کی کو شش کر ے یہ ایک احمقانہ کام ہو گا۔
اس لئے، خدا صرف ایسے شخص کو ہی اِستعما ل کر سکتا ہے جو اُس کے کلام میں اور ایما ن میں مضبوطی سے قا ئم رہتا ہے۔ کوئی شخص جو خدا کے کلام پر مضبوطی سے قا ئم رہتا اور وفا دار ہے اور خدا کے سا منے نکما نہیں خدا ایسے شخص کو ہی بر کت دیتا ہے۔
کیا کوئی اچھا ئی کر سکتا ہے؟ کلام، جو خدا ہے، فر ما تا ہے کو ئی راستباز نہیں ،ایک بھی نہیں۔ تاہم،بعض سوچتے ہیں کہ ، ’ یہاں کچھ اچھے شخص بھی ہیں جو بھلائی کرتے ہیں۔ ‘ اصل میں لو گ خدا کے سا منے منا فقت بر تتے ہیں۔ ہم کو یہ جا ن لینا ضر ور ہے کہ ہم نئے سرے سے پیدا ہوئے بغیر کسی طو ر بھی راستباز نہیں۔
تما م اِنسا ن خدا کے خلاف سر کش ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو یہاں تک کہ خداکو بھی خودکےپا ک،نیک اور رحیم ہو نے کا بہا نہ کرتے ہوئےدھو کا دے رہے ہیں ۔ اُنکے لئے خد ا کا چیلنج ہے جو نیک ہو نے کا بہا نہ کر تے ہیں۔ صر ف خدا ہی نیک ہے۔یہ خدا کی مخا لفت اور اُسکی سچا ئی کے خلاف سر کش ہے کہ نئے
سرے سے پیدا ہو ئے بغیر اور اُسکی محبت اور راستبازی پر ایما ن لائے بغیر نیک ہونے کا دعو یٰ کیاجائے۔
کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا صر ف بہت بڑے گنہگا روں کی ہی عدالت کر ے گا؟ جو کوئی بھی نئے
 سرے سے پیدا نہ ہو، اگرچہ وہ ایک مسیحی ہو، تو بھی خدا کے قہر سے بھا گ نہیں سکتا۔ اِس لئے ،دنیاوی زندگی کے ریا کا ری کے راستوں کو چھو ڑ کر خدا کے کلام کو سنیں ۔ نئے سرے سے پیدا ہوں۔ پھر ہی آپ خد اکی عدالت سے بچ سکتے ہیں۔
کیا آ پ نے کبھی ایسے بُر ے شخص کو دیکھا ہے جو نئے سرے سے پیدا نہیں ہُوؤں کے درمیا ن اچھاہونےکاجنون نہیں رکھتاہے؟ لوگ نیک بننے کے جنون میں گِرے ہوئے ہیں۔ کون ایسی تعلیم سیکھاتاہے؟ شیطان۔ ایک انسان اصل میں نیکو کا ر نہیں بن سکتا۔ ایک اِنسا ن نیک زند گی کی طر ف اُس وقت راہنما ئی کر سکتا ہے جب وہ خدا کے سا منے گنا ہ سے آزاد ہو۔ پھر کیا خدا ہمیں یہ بتاتا ہے کہ دانستاً بر ے کا م کر یں؟نہیں۔ خدا ہمیں گنا ہوں کی معا فی حاصل کرنےکے متعلق بتا تا ہے کیو نکہ ہم پیداہونےسےپہلےہی گنا ہ سے گھا ئل ہو ئےتھے اور دوزخ ہمارا مقدر بن چُکی تھی۔ خدا چا ہتا ہے کہ اُسکے سچے کلام پر عمل کریں تاکہ ہم نجا ت پا ئیں۔
 
 
شیطان ہمیشہ بے ایمانو ں کے وسیلہ جھوٹ کہتا ہے
 
” اُنکا گلا کھلی ہوئی قبر ہے۔ اُنہوں نے اپنی زبا نوں سے فر یب دیا۔ اُنکے ہو نٹو ں میں سانپوں کا زہر ہے۔ اُنکا منہ لعنت اور کڑواہٹ سے بھر ا ہے۔ اُنکے قدم خو ن بہا نے کیلئے تیزروہیں۔ اُنکی راہوں میں تبا ہی اور بد حا لی ہے۔ اور وہ سلامتی کی راہ سے و اقف نہ ہوئے۔ اُنکی آنکھوں میں خدا کا خو ف نہیں “ (رومیوں۳:۱۳-۱۸) ۔
 ” انہوں نے اپنی زبا نو ں سے فر یب دیا۔“ سب لوگ خوب فریب دے رہے ہیں۔ خد اشیطان کے متعلق کہتا ہے،”جب وہ جھوٹ بولتا ہے تو اپنی ہی سی کہتا ہے“ (یوحنا۸:۴۴) ۔ وہ سب جو نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئے وہ کہتے ہیں”میں بالکل سچ بیان کر رہا ہوں۔ یہی سچ ہے،“لیکن وہ سب جھوٹ بول رہے ہیں۔
جو زور دے کر ایسا کہتے ہیں کہ اُن کا کلام جو وہ بیان کر رہے ہیں بر حق ہے وہ جھوٹے ہیں۔ کیا آپ
نے کبھی فریب کرنے والوں کو جب وہ دوسروں کو فریب دینے کی کوشش کرتے ہیں یہ کہتے سنُا ہے، ” کہ میں ایک جھوٹا اور ایک فریبی ہوں؟ “ وہ ایسے کہتے ہیں کہ وہ گویا ہر ایک بات سچ کہہ رہے ہوں۔ وہ یقین دلانے کیلئے کہتے ہیں، ” آؤ میں تمہیں کچھ بتاتا ہوں۔ اگر آپ اِس میں پیسہ لگائیں ،تو آپ بہت سا روپیہ کما سکتے ہیں۔ اگر آپ ایک ملین ڈالر لگاتے ہیں، تو آپ جلد ہی پرنسپل بن جائیں گے اور آپ کچھ سالوں میں دس ملین ڈالر کما سکیں گے۔ یہ ایک بڑی زبردست انویسٹمنٹ ہے۔ کیا آپ رقم لگانا چاہتے ہیں؟ “جو نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئے ہمیشہ اپنی زبان سے فریب دیتے ہیں۔
جب وہ جھوٹ بولتا ہے تو اپنی ہی سی کہتا ہے۔ ایک مبلغ جو نئے سرے سے پیدا نہیں ہوُا ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے۔ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہر کوئی اپنی بہت بڑی رقم کی دہ یکی دے کر دولتمند بن سکتا ہے۔ کیا بائبل مقدس کے کسی حوالہ میں یہ آیا ہے کہ ایک شخص اگر ایلڈر بنے تو امیر بن سکتا ہے؟ کیوں لوگ ایلڈر بننے کی کوشش کرتے ہیں؟ وہ اِسلئے ایلڈر بننے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اُن کا ایمان ہے کہ اگر وہ ایلڈر بنیں گے تو خدا اُنہیں دنیاوی برکات عطا کریگا۔ وہ گمراہ ہو چکے ہیں کیونکہ انکا ایمان ہے کہ اگروہ
ایلڈر بنیں تو دولتمند ہونے کا فضل پاتے ہیں۔ وہ فریب کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔
کیا آپ ایسے ایلڈر بننا پسند کریں گے جو اِس طرح کے فریب کے دھوکے میں پھنسے ہوئے ہیں؟ بہت سے لوگ ایلڈر بننے کے بعد بھکا ری کی زندگی گزارتے ہیں۔ میں اُن میں سے بہت ساروں کو جو میرے ارد گرد رہتے ہیں ۔ جھوٹے رسول جو نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئے اپنی کلیساؤں کے دولت مند کوایلڈر بناتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ ایلڈر اپنی کلیسیاؤں میں بہت بڑی مالی اعانت کریں۔ بعض اوقات وہ اپنے ایلڈروں کو بغیر پیسے کے مقرر کرتے ہیں کیونکہ وہ اُنہیں اپنے اندھے ایلڈر مقرر کرنا چاہتے ہیں۔
وہ عام طور پر کہتے ہیں، ” کہ اگر کوئی ایلڈر بنے تو اُسے دولت کی برکت ملے گی “ یہ ایک جھوٹ ہے۔ بائبل میں اِ س کا ذکر موجود نہیں۔ بائبل فرماتی ہے خد اکے خادم کو دولت کا فضل پانے کی بجائے مسلسل اذیتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خدا وند فرماتا ہے، ” بلکہ تم پہلے اُس کی بادشاہی اوراُس کی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تمکو مل جائیں گی “ (متی۶:۳۳)۔
بائبل بیان کرتی ہے، ” اُنکے ہونٹوں میں سانپوں کا زہر ہے۔“ واقعی انسانوں میں سانپوں کا زہر ہے۔ جو نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئے راستباز شخص سے کیا کہتے ہیں؟ وہ راستبازپر لعنت کرتے اور سانپوں کی طرح پھنکارتے ہیں۔ بائبل مقدس فرماتی ہے، ” انکے قدم خون بہانے کیلئے تیز رو ہیں، اُن کی راہوں میں تباہی اور بد حالی ہے۔ اور وہ سلامتی کی راہ سے واقف نہ ہوئے، اُنکی آنکھوں میں خدا کا خوف نہیں۔“
 
 
شریعت کا کیا مقصد ہے؟
          
اِس عبارت، ” چنانچہ لکھا ہے “ کا مطلب ہے کہ یہ پرانے عہد نامہ کا اقتباس ہے۔ پولوس رسول نے پرانےعہدنامہ سے کئی بار حوالہ دیا۔اُس نے کہا، ” اُنکے قدم خون بہانے کے لئے تیز رو ہیں۔ اُنکی راہوں میں تباہی اور بدحالی ہے اور وہ سلامتی کی راہ سے واقف نہ ہوئے، اُنکی آنکھوں میں خدا کا خوف نہیں۔“ مجھے اُن پر بڑا ترس آتا ہے جو نئے سرے سے پیدا ہونے سے آگاہی پائے بغیر جہنم میں جاتے ہیں۔
رومیوں۳: ۱۹میں قلمبند ہے، ” اب ہم جانتے ہیں کہ شریعت جو کچھ کہتی ہے اُن سے کہتی ہے جو شریعت کے ماتحت ہیں تاکہ ہر ایک کا منہ بند ہو جائے اور ساری دنیا خدا کے نزدیک سزا کے لائق ٹھہرے۔“ خدا شریعت کے مطابق عذاب مسَلط کرتا ہے۔ پولوس اِسی سبب سے کہتا ہے، ” شریعت اُن سے کہتی ہے جو شریعت کے ماتحت ہیں “ کیونکہ خدا نے اُن کو شریعت دی جو نئے سرے سے پیدا نہیں ہُوئے،تاکہ گنہگارروشناس ہوں جوگناہ کو نہیں جانتے اور جو گناہ کو گناہ کے طور پر تسلیم نہیں کرتے، جوکبھی بھی اپنے حقیقی وجود میں ، شریعت پر قائم نہیں رہ سکتے۔خدا نے ہمیں شریعت اِس لئے نہیں دی کہ اِس پر چلیں۔ پھر کیا خدا یہ کہتا ہے کہ وہ شریعت کو تباہ کریگا؟ نہیں۔ اُس نے ہمیں موسیٰ کے وسیلہ شریعت بخشی تاکہ ہم اپنے گناہوں کو پہچان سکیں۔ اُس نے ہمیں شریعت اِس لئے نہیں دی کہ ہم اِسے پورا کریں۔ خدا کی شریعت ایک تعلیم کا طومار ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ ہم کیسے گنہگار ہیں۔
 
 
کوئی بھی شریعت کے اعمال سے راستباز نہیں ٹھہر سکتا ہے
          
رومیوں۳:۲۰بیان کرتا ہے، ” کیونکہ شریعت کے اعمال سے کوئی بشر اُسکے حضور راستباز نہیں ٹھہرے گا اِسلئے کہ شریعت کے وسیلہ سے توگناہ کی پہچان ہی ہوتی ہے۔“ نئے سرے سے پیدا ہونے والے مسیحی جانتے ہیں کہ کوئی بشر بھی شریعت کے اعمال سے راستباز نہیں ٹھہرے گا۔ پولوس رسول اور خدا کے تمام خادم کہتے ہیں، ” کوئی بشر شریعت کے اعمال سے راستباز نہ ٹھہرے گا۔“ کو ئی بشرنہیں جو شریعت کو پورا کرتا اور جو مُستقبل میں اُسے پورا کریگا۔ اِسلئے، ہمیں اِقرار کرنا چاہیےکہ ہم شریعت کے اعمال سے کبھی بھی راستباز نہیں ٹھہر سکتے۔ ہمارے کام ہمیں کبھی بھی راستباز نہیں ٹھہر ا سکتے۔
پولوس رسول یہ جانتا اور ایمان رکھتا تھا۔ کیا ہم شریعت کے اعمال سے راستباز ٹھہر سکتے ہیں؟ کیا شریعت ہمیں راستباز ٹھہر ا سکتی ہے؟ جب آپ کتابِ مقدس کا مطالعہ کرتے ہیں تو ،کیا آپ یہ درُست خیال کرتے ہیں کہ ہمارے بدن یسوع پر ایمان لانے اور نیک کام کرنے کے سبب سے خدا کی بادشاہی میں داخل ہونے کیلئے تبدیل کئے جائیں گے؟ نہیں، یہ سچ نہیں ہے۔یہ جھوٹ ہے۔ یہ حقیقت کہ کوئی آہستہ آہستہ پاکیزگی میں تبدیل ہونے کے ذریعے خدا کی بادشاہی میں داخل ہوسکتا ہے یہ ایک جھوٹ ہے۔ وہ سب لو گ جو نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئے شریعت کے ماتحت ہیں کیونکہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اُنہیں اپنے کاموں سے خدا کے کلام پر پورا اُترنا ہے۔ یہ اُنہیں شریعت پر عمل کرنے اور روزانہ معافی کی دُعا کی کوشش میں مگن رکھتی ہے۔ اُنکی ریاضت اُنکے غلط راستہ کا پہلا قدم ہے۔ شریعت ہمیں گناہ کی پہچان کراتی ہے۔ گنہگار اپنی لا علمی اور اپنے خیالات کی وجہ سے شریعت پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو نجات کی سچائی کےخلاف ہیں اور جسم سے باہر ہیں۔ یہ ایک غلط پسماندہ ایمان ہے۔
مذہبی پاکیزگی کی تعلیم، جو کہتی ہے کہ ہم آہستہ آہستہ راستبازی تک پہنچ سکتے ہیں ،یہ دنیا کے دوسر ےسیکولر مذاہب میں بھی پائی جاتی ہے۔ بُدھ مت میں نروانا کی تعلیم بالکل ایسی ہے، جیسی کہ مسیحیت میں آہستہ آہستہ پاکیزگی میں بڑھنے کی تعلیم ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اُن کے بدن زیادہ سے زیادہ پاکیزگی میں بڑھ رہے ہیں اور وہ ضرور ہی خدا کی بادشاہی میں داخل ہو سکتے ہیں۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ خداوند ہماری جان کو ایک ہی بار ہمیشہ کیلئے مقدس ٹھہراتا ہے۔
یہاں تک کہ راستباز بھی جسم کے وسیلہ مقدس نہیں ٹھہر سکتے ہیں۔ جن کے پاس روح القدس
نہیں وہ مقدس نہیں ٹھہر سکتے ہیں۔ جیسے جیسے وہ اپنے کاموں کو نیک بنانے کی کوشش کرتے ہیں ،ویسے ہی وہ اور زیادہ گنہگار ہوتے جاتے ہیں۔ اِسلئے کیونکہ اُن کے دِلوں میں گناہ پایا جاتاہے۔ اکثر اُن میں سے برائی باہر نکلتی ہے اور وہ اُنہیں غلطیاں کروا دیتی ہے، وہ خود کو جسمانی طور پر صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاہم یہ مشُکل ہے کیونکہ وہ باطنی طور پر گناہ سے بھرے ہُوئے ہیں۔ یہ ایک گنہگار کا حقیقی وجود ہے۔
 یہ عبارت اُن کے مخالف ہے جو گناہوں کی معافی حاصل کر چکے ہیں۔ اگرچہ وہ اپنے بدنوں کو گناہ سے روک نہیں پاتے تو بھی وہ شفاف زندگی کی طرف جا سکتے ہیں۔ گنہگار جو گناہ میں پیدا ہُوئے اپنی تمام
زندگی گناہ کو پھیلاتے ہیں کیونکہ یہ اُن کی مرضی کے خلاف اُن میں سے باہر نکل آتا ہے۔ اُن کے پاس اِسکے علاوہ کو ئی چارہ نہیں لیکن اُنہیں خدا کی سچی خوشخبری سےایک ہی بارہمیشہ کےلئے شِفا حاصل کرنی چاہیے۔خوشخبری خُدا کی سچائی کی ضرب ہے۔ وہ اپنے گناہوں سے خدا کے گناہوں کی معافی کے کلام کو سُننے سے رہائی پا سکتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ نئے سرے سے پیدا ہونے کاکلام سُنیں اور گناہوں کی معافی حاصل کریں۔
 کون مکمل طورپرشریعت پر عمل کر سکتا ہے؟اگر وہ نئے سرے سے پیدا ہُوا ہے تو کیا وہ کامل طور پر شریعت کے مطابق زندگی بسر کر سکتاہے؟ نہیں کوئی بھی نہیں۔ رومیوں میں یہ مرقوم ہے، ”شریعت کے وسیلہ تو گناہ کی پہچان ہی ہوئی۔“ یہ بہت سادہ ہے۔ آدم اور حوا کو شیطان نے اُن کی معصومیت کے زمانہ میں دھوکا دیا اور وہ گناہ کے ماتحت ہو گئے۔ اور گناہ اُن کی اولاد میں مُنتقل ہو گیا جوخدا کے کلام سے واقف نہ تھے۔ اگرچہ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ گناہ میں پیدا ہوئے تو بھی گناہ کے وارث تھے۔
ابراہام اور یعقوب کے وقت کے بعد، اِسرائیلی اپنے گناہ آلودہ وجوداور ایمان کے متعلق بھول گئےجسکے ذریعہ اُن کا باپ دادا ابراہام ایمان سے راستباز ٹھہر ایاگیا۔ اِسلئے خدا نے اُنہیں شریعت کے وسیلہ گناہ کی پہچان دی اور چاہا کہ وہ اُس کے وعدہ پر ایمان لا کر گناہوں کی معافی حاصل کریں۔ کیا آپ اِس پر ایمان رکھتے ہیں؟
 
 
مگر اَب شریعت کے بغیر خدا کی ایک راستبازی ظاہر ہوئی ہے
 
رومیوں۳:۲۱بیان کرتا ہے، ” مگر اب شریعت کے بغیر خدا کی ایک راستبازی
 ظاہر ہوئی ہے جِسکی گواہی شریعت اور نبیوں سے ہوتی ہے۔“ پولوس رسول فرماتاہے، مگر اَب شریعت کے بغیر خدا کی ایک راستبازی ظاہر ہوئی ہے۔ ” جسکی گواہی شریعت اور نبیوں سے ہوتی ہے “ کا کلام پر انے عہد نامہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پانی اور روح کی خوشخبری خدا کی راستبازی ہے، جوقربانی کےنظام کے ذریعے ظاہر ہوئی تھی۔ خوشخبری راستبازی کو ظاہر کرتی ہے جو گناہ کی آتشی قربانی کے وسیلہ گناہوں کی معافی کی طرف لے جاتی ہے۔
 رومیوں۳: ۲۲میں لکھا ہے، ” یعنی خد اکی وہ راستبازی جو یسوع مسیح پر ایمان لانے سے
سب ایمان لانے والوں کو حاصل ہوتی ہے کیونکہ کچھ فرق نہیں۔“ ہمارے ایمان ہمارے دِلوں میں ہیں۔ یسوع مسیح ایمان کا بانی اور کامل کرنے والا ہے۔ عبرانیوں ۱۲: ۲میں تحریرکیِا گیا ہے،” ایمان کے بانی اور کامل کرنے والے یسوع مسیح کو تکتے رہیں۔“ ایمان کا بانی اور کامل کرنے والا یسوع ہے اور ہمیں سچے کلام پر ایما ن رکھنا چاہیے،جو کہ خدا ہے ۔ ضرور ہے کہ ہم اپنے گناہوں سے نجات پانے کیلئے نئے سرے سے پیدا ہونے والے خادموں کے ذریعے خد اکا سچا اور حقیقی کلام سُنیں اور ایمان لائیں اور اِس ایمان کے وسیلہ جیتے رہیں۔
خدا فرماتا ہے، ” یعنی خدا کی وہ راستبازی جو یسوع مسیح پر ایمان لانے سے سب ایمان لانے والوں کو حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ کچھ فرق نہیں۔“اِس لئے ،ہم حقیقی کلام پردل سے ایمان لانے کے وسیلہ راستباز ٹھہرے اور اپنے مُنہ سے اِقرار کر کے اپنی کامل نجات کی تصدیق رکھتے ہیں۔ہم اپنے کاموں سے نہیں، بلکہ اپنے ایمان سے نجات پا سکتے ہیں۔ ہم صرف خدا کا اور خدا کی کلیسیا کا شُکریہ ادا کرتے ہیں۔
اگرچہ آپکے سب گناہ مٹا دیئے گئے ہیں تو بھی کیا آپ ابھی تک اپنے کاموں میں بندھے ہُوئے ہیں؟اگر آپ پورے دل سے خدا پر ایمان رکھتے ہیں تو پھر آپ کی جسمانی کمزوری بے معنی ہے اور آپ راستباز ہیں۔ روح القدس گواہی دیتا ہے کہ خدا کا کلام جو آپکے دل میں ہے پکار رہاہے کہ، ” آپ پاک ہیں“ کیونکہ جب ہم کلام سُنتے ہیں تو وہ ہمیں سچے کلام کی سمجھ بخشتا ہے۔ کیا آپ نے خدا کا کلام سننے کے بعد اِس پر ایمان لانے سے نجات پائی؟
” یعنی خدا کی وہ راستبازی جو خدا پر ایمان لانے سے سب ایمان لانے والوں کو حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ کچھ فرق نہیں۔“ جو کو ئی خدا کے کلام پر ایمان لاتا اور سیکھتا ہے ،جو کہ سچائی ہے، اپنے سب گناہوں سے نجات پا سکتا ہے۔
 
 
یسوع نے دنیا کے شروع سے لےکرآخر تک کے سب گناہوں کو دھو ڈالا
 
رومیوں۳:۲۳-۲۵بیان کرتا ہے، ” اِسلئے کہ سب نے گناہ کیِا اور خد اکے جلال سے محروم ہیں۔ مگر اُسکے فضل کے سبب سے اُس کے وسیلہ سے جو مسیح یسوع میں ہے مُفت راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں۔ اُسے خدا نے اُسکے خون کے باعث ایک ایسا کفارہ ٹھہرایا جو ایمان لانے سے فائدہ مند ہو تاکہ جو گناہ پیشتر سے ہو چکے تھے اور جن سے خدا نے تحمل کر کے طرح دی تھی اُنکے بارے میں وہ اپنی راستبازی کو ظاہر کرے۔“
بائبل بیان کرتی ہے کہ سب نے گناہ کیِا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔ ہم اُسکی محبت اور مُفت فضل کے سبب سے مُفت راستباز ٹھہرائے گئے ہیں جبکہ گنہگار جہنم میں جاتے ہیں ۔ خدا کا جلال ہم پر ظاہر ہُوا اور ہم راستباز ٹھہرے۔ یسوع کو خدا نے اُس کے خون کے باعث ایک ایسا کفارہ ٹھہرایا جو ایمان لانے سے فائدہ مند ہو۔
۲۵اور ۲۶آیات بیان کرتی ہیں کہ، ” اُسے خدا نے اُس کے خون کے باعث ایک ایسا کفارہ ٹھہرایا جو ایمان لانے سے فائدہ مند ہو تاکہ جو گناہ پیشتر سے ہو چکے تھے اور جن سے خدا نے تحمل کرکےطرح دی تھی اُنکے بارے میں وہ اپنی راستبازی ظاہر کرے۔ بلکہ اِسی وقت اُس کی راستبازی ظاہر ہو تاکہ وہ خود بھی عادل رہے اور جو یسوع پر ایمان لائے اُس کو بھی راستباز ٹھہرانے والا ہو۔“ یہاں، ” ٹھہرایا “ کا مطلب ہے کہ خدا نے اپنے بیٹے یسوع کو تمام کائنات کے گناہوں کی معافی کیلئے کفارہ ٹھہرایا۔
یسوع نے بپتسمہ کے باعث تمام دنیا کے گناہوں کو دور کر دیا۔یسوع الفا اور اومیگا ہے۔ آئیں اِس دنیا کی اِبتدا اور خاتمہ کے متعلق غور کرتے ہیں۔خُدا نے ہمیں اس ایمان کے ذریعے رہائی بخشی جو دُنیا کے شروع سے لے کر آخر تک کے گناہوں کو دھوڈالتاہے۔ خدا نے سچائی پر ایمان لانے کے وسیلہ یسوع کو ایک ابدی کفارہ ٹھہرایا۔ جب تک میں خوشخبری پر ایمان نہ لایا میں اُس وقت تک اِ س کلام کو سمجھ ہی نہیں پایاتھا، ” جو گناہ پیشتر سے ہو چکے تھے اور جن سے خدا نے تحمل کر کے طرح دی تھی اُنکے بارے میں وہ اپنی راستبازی ظاہر کرے۔“
جب ہم اُس کلام پر ایمان رکھتے ہیں جو کہتا ہے کہ یسوع نے اپنے بپتسمہ اور خون کے باعث ہمارے سب گناہ دھو ڈالے تو ہمارے گناہ دور ہو جاتے ہیں۔ ہم نے ایک ہی مرتبہ گناہوں کی مخلصی حاصل کی، لیکن پھر بھی ہمارا جسم گناہ کر بیٹھتا ہے۔جسمانی گناہ ہماری کمزوریوں کی وجہ سے ہیں۔ تاہم ،بائبل مقدس بیان کرتی ہے، ’’ جو گناہ پیشتر سے ہوچکے تھے اور جن سے خدا نے تحمل کر کے طرح دی۔“ جو گناہ جسم کے وسیلہ اب ہو رہے ہیں یا مُستقبل میں ہو رہے ہیں وہ ایسے گناہ ہیں جو خدا کے خیال میں پیشتر سے ہو چکے ہیں۔
کیوں؟ خدا نے یسوع کے بپتسمہ کو ہماری نجات کا اِبتدائی اور افضل نقطہ ٹھہرایا ہے۔ اِس لئے،
جسم کے موجودہ گناہ ایسے گناہ ہیں جو خدا کی نگا ہ میں پیشتر سے ہیں، کیونکہ گناہوں کی معافی یسوع مسیح کے ساتھ ایک ہی بار ہمیشہ کے لئےہوگئی تھی۔موجودہ گناہ ایسے گناہ ہیں جوپیشتر سے ہی مٹا دیئے گئے تھے۔” جو گناہ پیشتر سے ہو چکے تھے اور جن سے خدا نے تحمل کر کے طرح دی تھی “کے کلام کا مطلب ہے کہ، ”وہ پیشتر سے ہی دنیا کے گناہوں کی مزدوری ادا کر چکا ہے“ دنیا کے تمام گناہوں کو یسوع کے بپتسمہ اور صلیبی خون سے طرح دی گئی تھی۔
اِس لئے، خدا نے پیشتر ہی دنیا کی اِبتدا سے لےکر دنیا کے آخر تک کئےگئےتمام گناہوں کو مٹا دیا ہے۔ اِسطرح خدا کی نگاہ میں تمام گناہ پیشتر سے ہو چکے ہیں۔ اِس دنیا کے لوگ ایسے گناہ کر رہے ہیں جو خدا کے بیٹے نے پیشتر سے مٹا دیئے تھے۔ یسوع نے ۲۰۰۰سال پہلے ہی وہ گناہ دھو ڈالے جو ۲۰۲۰میں کئے جانے کو تھے۔ کیا آپ اسےسمجھ رہے ہیں؟
خدا پیشتر سے ہی اِس دنیا کے گناہوں کو ،جس میں میرے اور آپ کے گناہ بھی شامل ہیں مٹا چکا ہے۔ کیا آپ سمجھتےہیں کہ اِس کا مطلب کیا ہے؟ جب آپ خوشخبری کی منادی دوسرے لوگوں میں کرتے ہیں تو اگر آپ اِس سے اچھی طرح آگاہ نہیں تو پھر آپ پریشانی کا شکار ہو سکتے ہیں۔” جو گناہ پیشتر سے ہو چکے تھے اور جن سے خدا نے تحمل کر کے طرح دی تھی “ کے کلام کا مطلب ہے کہ خدا نے سب گناہ اپنے اوپر اُٹھا لیےاور تقریباً ۲۰۰۰برس پہلے ہی گناہوں کو دور کر چکا تھا۔بنی نوعؔ انسان کےتمام گناہوں کی پہلے ہی دریائے یردن پر یسوع کے بپتسمہ لینےاور صلیب پر خون بہانے کی وجہ سے عدالت ہو چکی ہے۔ خدا نے ہمارے سب گناہوں کو دور کر دیا کیونکہ اُس نے اپنے اِکلوتے بیٹے کو دنیا میں بھیجا اور مکمل طور پر ایک ہی بار ہمیشہ کیلئے تمام انسانوں کو راستباز ٹھہرایا۔ اِسلئے ،خدا اِس دنیا کے گناہوں کی وجہ سےجوتمام لوگوں سے سرزد ہو جاتے ہیں اور اُس کے وسیلےسے پیشتر ہی مٹائے جا چکے تھےاُنہیں مُجرم نہ ٹھہرائے گا، بلکہ اُنکی یسوع کے بپتسمہ اور صلیبی خون پر بے اعتقادی کی وجہ سے اُنہیں مُجرم ٹھہرائے گا۔
کیا آپ سمجھ رہے ہیں کہ پولوس رسول کا مطلب کیا ہے؟ ہم جو نجات یافتہ ہیں اُن کیلئے یہ بڑی
اہمیت کا حامل ہے۔ وہ جو نئے سرے سے پیدا نہیں ہُوئے کیونکہ وہ اِسے خاطر میں ہی نہیں لاتے اِسلئے جہنم میں جائیں گے۔ ضرور ہے کہ ہم سُنیں اور کلام کےصحیح عِلم سے آگاہ ہوں۔ یہ آپکے ایمان اور آپکی دوسرے لوگوں کو خوشخبری کی منادی کرنے میں بہت مدد گار ثابت ہو گا۔
 
 
پھر فخر کہاں رہا؟
          
بائبل مقدس بیان کرتی ہے، ” جو گنا ہ پیشتر سے ہوچکے تھے اور جن سے خدا نے تحمل کر کے طرح دی تھی اُنکے بارے میں وہ اپنی راستبازی کو ظاہر کرے۔“ خدا ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ ماضی کےگناہ پہلے سے ہی مٹا دیئے گئے تھے کیونکہ خدا نے یسوع کو ایک ابدی کفارہ ٹھہرایا۔ اِس لئے، ہم ایمان سے راستباز ٹھہرے۔
۲۶آیت بیان کرتی ہے، ” بلکہ اِسی وقت اُسکی راستبازی ظاہر ہو تاکہ وہ خود بھی عادل رہے اور جو یسوع پر ایمان لائے اُسکو بھی راستباز ٹھہرانےوالاہو۔“ ” اِسی وقت“ خدا نےدنیا کو ابدی زندگی عطا کی تاکہ وہ فنا نہ ہو جائے۔ عین وقت پر ،خدا نے یسوع کو بھیجا کہ اُسکی راستبازی کو ظاہر کرے اور اُسکے وعدہ کو پورا کرے۔ خداوند نے اُسکی راستبازی ظاہر کی۔ خدا نے اپنے اِکلوتے بیٹے کو بھیجا اور اُسے بپتسمہ اور مصلوب ہونے دیا تاکہ ہم پر اپنی حقیقی نجات کے وسیلہ اپنی محبت کو ظاہر کرے۔          
خداوند گنہگاروں کا نجات دہند ہ بن کر آیا۔ ” بلکہ اِسی وقت اُس کی راستبازی ظاہر ہو تاکہ وہ خود بھی عادل رہے اور جو یسوع پر ایمان لائے اُس کو بھی راستباز ٹھہرانے والا ہو۔ “ خدا راستباز ہے اور اِس دنیا کے سب گناہوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دور کر چکا ہے۔ ہم اپنے دل سے یسوع پر ایمان رکھتے ہیں، اِسلئے ہم کوئی گناہ نہیں رکھتے ہیں۔ وہ جو حقیقی طور پر یسوع پر ایمان رکھتے ہیں وہ گناہ سے مبرا ہیں اُس نے اُنکے گناہوں کو دھو کر دور کر دیا ہے بلکہ یہاں تک کہ اُنکے مُستقبل کے گناہوں کو بھی دھو کر نجات دے چکا ہے۔ یسوع نے جو کچھ ہمارے لئے کیِااُس پر دل سے ایمان لانے کے وسیلہ ہمیں نجات ملتی ہے۔ اُس کی نجات کےایمان میں ہمارے کاموں کا٪۱.۰بھی عمل دخل نہیں ہے۔
رومیوں۳:۲۷۔۳۱بیان کرتا ہے، ” اِسکی گنجائش ہی نہیں۔ کونسی شریعت کے سبب سے؟ کیا اعمال کی شریعت سے؟ نہیں بلکہ ایمان کی شریعت سے۔ چنانچہ ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ انسان شریعت کے اعمال کے بغیر ایمان کے سبب سے راستباز ٹھہرتا ہے۔ کیا خدا صرف یہودیوں ہی کا ہے غیر قوموں کا نہیں؟ بیشک غیر قوموں کا بھی ہے۔ کیونکہ ایک ہی خدا ہے جو مختونوں کو بھی ایمان سے اور نا مختونوں کو بھی ایمان ہی کے وسیلہ سے راستباز ٹھہرائے گا۔ پس کیا ہم شریعت کو ایمان سے باطل کر تے ہیں؟ ہرگز نہیں بلکہ شریعت کو قائم رکھتے ہیں۔ “
” شریعت کو قائم رکھتے ہیں “ کے کلام کا مطلب ہے کہ ہم اپنے کاموں کے وسیلہ رہائی نہیں پا سکتے ہیں۔ ہم ناتمام اور کمزور ہیں اور شریعت سے پہلے جہنم کو جاتے تھے۔ مگر خدا کے کلام نے ہمیں راستباز اور کامل کِیاکیونکہ ہم نے اُسکے کلام کے وسیلہ سے نجات پائی۔ خداوند ہمیں بتاتا ہے کہ اگرچہ ہم اپنے سب گناہوں سے نجات پا چکے ہیں تو بھی ہمارا جسم ابھی تک کمزور اور بے تمام ہے، مگر اُس نے ہمیں ہمارے سب گناہوں سے رہائی بخش دی ہے۔ ہم اِس پر ایمان لانے سے خدا کو دیکھیں گے کہ یسوع نے ہمیں نجات دی ہے۔
” پس فخر کہاں رہا؟اِسکی گنجائش ہی نہیں۔ کونسی شریعت کے سبب سے؟ کیا اعمال کی شریعت سے؟ نہیں بلکہ ایمان کی شریعت سے۔“ ہمیں خدا کی قائم کردہ شریعت کو جاننا ضرور ہے اور یہی شریعت اُس کی بادشاہت میں ابدی شریعت ہے۔ خدا فرماتا ہے، ” کونسی شریعت کے سبب سے؟ کیا اعمال کی شریعت سے؟ نہیں بلکہ ایمان کی شریعت سے “ کیا آپ اِسے پوری طرح سمجھتے ہیں؟ خدا نے ہمیں دنیا کی تمام خطاؤں سے نجات دی ہے۔ جب ہم سچائی کے مطابق ایمان لاتے ہیں تو ہم نجات پا جاتے ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ ہمیں شریعت کے کاموں کی وجہ سے نجات نہیں ملی ہے۔
خدا پولوس رسول کے وسیلہ ایمان کی شریعت کے بارے میں رومیوں ۳باب میں بات کر تا ہے، خدا فرماتاہے، ” کیا اُنکی بے وفائی خدا کی وفاداری کو باطل کر سکتی ہے؟ “ (رومیوں۳:۳)ایمان لانے والے سچائی کو مضبوطی سے تھام لیتے اور ایمان نہ لانے والے نیچے گِر جاتے ہیں۔ وہ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ یسوع پر ایمان رکھتے ہیں اور ابھی تک خوشخبری کا کامل ایمان نہیں رکھتے تو وہ جہنم میں جائیں گے۔
 
 
خدا نے ہم سب کو ہمارے سب گناہوں سے مکمل طور پر رہائی دی ہے
          
خدا نے خدا کی شریعت کو اِس لئے قائم کِیاکہ جو کوئی اپنے خیالات کے مطابق ایمان رکھے ایمان کی شریعت سے ٹھوکر کھائے۔ خدا نے ہم سب کو ہمارے گناہوں سے کامل طور پر نجات دی ہے۔ رومیوں ۳باب ایمان کی شریعت کے متعلق بات کرتا ہے۔ ہم سچے کلام پر ایمان لانے کے وسیلہ رہائی پاتے ہیں۔ ہم آسمان کی بادشاہت کے وارث ہیں اور ایمان کے وسیلہ خدا سے صلح رکھتے ہیں۔ بے اعتقادوں کے پاس یہ اطمینان نہیں ہے۔ اِسکی بجائے، وہ جہنم میں جاتے ہیں۔ اِس کا سبب کیا ہے؟ اول تو یہ کہ خدا کے کلام کے مطابق اُنکی عدالت ہوگی کیونکہ اُنہوں نے خدا کے کلام کو حاصل نہ کِیا۔ نجات خد اکی محبت سے مِلتی ہے اور ہم اِس حقیقت کو جاننے اور خداوند نے جو ہمارے لئے کِیااُس پر پورے دل سے ایمان لانے کے وسیلہ نجات پاتےہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں؟
میں خدا کا اُس کی زمینی کلیسیا اور اُس ایمان کیلئے اُسکا شُکریہ ادا کرتا ہوں جو وہ ہمیں دیتا ہے۔ میں خداوند کا شکریہ ادا کر تا ہوں جو ہمیں سچائی، ایمان، اور کلام خدا سے نوازتا ہے، اور ویسا ہی ایمان دیتا ہے جیسا کہ پولوس رسول کا تھا اور جس نے گناہوں کی معافی کے بھید کو اپنی کلیسیا پر ظاہر کِیاہے۔ میں اپنے دل کی گہرائیوں سے اُسکے نام کی حمد کرتا ہوں۔
ہم خداوند کا شکر ادا کرتے ہیں کیونکہ اُس نے اپنے بپتسمہ اور صلیبی موت کے وسیلہ ہمیں نجات بخشی۔ ہمارے پا س دوزخ سے بچنے اور اُس کی کلیسیا میں شامل ہونے کیلئے اِس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہم ایسے گنہگار تھے، جو کبھی بھی فطرت کے وسیلہ نجات نہیں پا سکتے تھے، مگر ہم راستبازی پر ایمان لانے کے سبب سے نجات پا سکتے ہیں۔ ہم جو راستبازی پر دل سے ایمان رکھتے ہیں اُسکے فرزند ہیں کیونکہ راستبازی کیلئے ایمان لانا دل سے ہوتا ہے اور نجات کیلئے اِقرار مُنہ سے کِیا جاتا ہے(رومیوں۱۰:۱۰ )۔