Search

ΣΥΧΝΕΣ ΕΡΩΤΗΣΕΙΣ για την Χριστιανική Πίστη

Θέμα 1: Αναγέννηση εξ ύδατος και Πνεύματος

1-23. یوؔحنا کی معرفت تو بہ کا بپتسمہ کیا ہے ؟

یوؔحنا بپتسمہ دینے والا خُدا کا خادم تھا جو یسوؔع سے چھ ماہ پہلے پیدا ہواتھا،ملاکی کے صحیفہ میں پہلے ہی پیشینگوئی ہوئی تھی،یعنی کہ وہ عہدِ عتیق کاآخری نبی ہوگا۔
’’تم میرے بندہ موسیٰؔ کی شریعت یعنی ان فرائض و احکام کو جو میں نے حوربؔ پر تما م بنی اسرائیل کے لئے فرمائے یاد رکھو۔دیکھو خُدا وند کے بزرگ اور ہولنا ک دن کے آنے سے پیشتر میں ایلیاہؔ نبی کوتمہارے پاس بھیجونگا۔اور وہ باپ کا دل بیٹے کی طرف اور بیٹے کا باپ کی طرف مائل کریگا ۔ مبادا میں آؤں اور زمین کو ملعون کروں۔‘‘(ملاکی۴:۴- ۶)۔
جس وقت یسوؔع پیدا ہوا، اُسوقت بنی اسرائیل کے لوگ خُدا کے عہد کے کلمات کو ترک کر چُکے تھے اورغیر معبودوں کی عبادت کرتے تھے ۔ وہ قربانیوں کے طورہ پر  اندھے اور عیب دار جانورچڑھاتے تھے، اور خُدا کی ہیکل کو کاروبار کی جگہ بنا لیا تھا۔ یسوؔع مسیح کی ، بھی، موسیٰؔ کی توریت اور صحائفِ انبیا میں پیشینگوئی ہوئی ہے۔ شریعت نوعِ انسان کو گناہ کا علم بخشتی ہے ، یہ دکھا کر کہ کیسے وہ گناہ گار ہیں (رومیوں۳:۲۰)۔اِس بنا پر شریعت کی کتابوں میں تحریرشدہ کسی ایک حکم پر عمل نہ کرنا گناہ ہے۔
عہدِ عتیق میں ،ایک گناہ گار جو شریعت کی دفعات میں سے کسی ایک کی نافرمانی کرتاتھاتو وہ خیمہ ء اجتماع کے سامنے گناہ کی قربانی لاتا تھا، اپنے ہاتھ اُس پر اپنے گناہ سلسلہ وار منتقل کرنے کے لئے گناہ کی قربانی کے سر پر رکھتاتھا، اورگناہ بخشوانے کے لئے اور خُدا کے ساتھ  دوبارہ  ملاپ کرنےکے لئے گناہ کی قربانی کو ذبح کرتا تھا۔ اِس کے بعد،  کاہن اُسکا کچھ خون لیتا اور اُسے سوختنی قربانی کی قربانگاہ کے سینگوں پر لگاتاتھا اوراُس کا باقی ساراخون قربانگاہ  کی بنیادپر انڈیل دیتاتھا ۔
 تاہم،بنی اسرائیل کے لوگ اپنی اَن گنت روز مرّہ کی قربانیوں کا لحاظ کئے بغیراپنے  تمام  گناہوں
سے آزاد نہیں ہوسکتے تھے۔ لہٰذا، خُدا نے اُنکے لئے ایک مستقل آئین، یعنی یومِ کفّارہ بنایا۔ اِس بنا پر یہ وہ وقت  تھاجب خُدا ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو اُن کے سال بھرکے گناہ معاف کرتا تھا۔ اُس دن ہاروؔن، سردار کاہن، دو بکرے لیتا اور اُن  پر؛ ایک خُداوندکے لئے اور دوسری عزازؔیل کے بکرے کے لئےچٹھیاں ڈالتا ۔اِس کے بعد،وہ خُداوند کےلئے بکرے کے سر پر اُس پربنی اسرائیل کےلوگوں کے تمام سال بھر کے  گناہ لادنےکے لئےاپنے ہاتھ رکھتاتھا۔ اِس کے بعد ہاروؔن  اُسے ذبح کرتا اور اُسکا خون رحم گاہ کے اوپر اورسامنےسات مرتبہ چھڑکنے کے لئے لیتا تھا۔
جب وہ پاک مقام کاکفّارہ مکمل کر لیتا، تو وہ دوسراجانور چڑھاتا تھا۔ وہ زندہ بکرے کے سر پر اپنے ہاتھ رکھتا اوراُس پراسرائیلیوں  کے تمام سال بھر کے گناہوں کا اِقرار کرتاتھا۔اِس طریقۂ عمل کی بدولت،اُن کے تمام سال بھر کے گناہ اُس پرسلسلہ وار منتقل ہو جاتےتھے،اور وہ کسی مناسب آدمی کے ہاتھ بیابان میں بھجوا  دیاجاتاتھا۔اِس طریقے سے اسرائیل کے لوگ اپنے سال بھر کے گناہوں سے مخلصی حاصل کرتے تھے۔
تاہم ، عہدِ عتیق کی شریعت کے مطابق گزرانی جانے والی قربانی اُن کو،جوسال بسال بِلا توقف قربانیاں چڑھاتے تھے ، کامل نہیں کر سکتی تھیں۔ یہ فقط آنے والی اچھی چیزوں(مسیح کے راست کاموں) کا عکس تھیں (عبرانیوں۱۰:۱)۔ اسرائیل کے لوگوں نے یسوؔع مسیح ، نجات دہندہ کا انتظار نہ کیا۔ اِس کی بجائے، اُنہوں نے ، عہدِ عتیق میں انبیائےاکرام  کی باتوں کو چھوڑ کرگناہ گار دُنیاکے غیر معبودوں  کی پرستش کی ۔
اِس طرح،خُدا نے پیشتر بتایا کہ وہ اسرائیلیوں کے دل بحال کرنے ،اُنہیں اُس کی طرف رُجوع کرانے ،اوراُنکےقلبوں کویسوؔع مسیح کو قبول کرنے کے لئے تیار کرنے کے سلسلے میں یوؔحنا اِصطباغی  کو بھیجے گا۔ اِس سے پیشتر کہ یوؔحنااِصطباغی نےیسوؔع کو بپتسمہ دیا ،اُس نے یہودیہؔ کے بیابان میں اسرائیل کے لوگوں کو توبہ کا بپتسمہ دیا۔
اِس بنا پر اُسکا اُنہیں پانی کے ساتھ بپتسمہ دینے کا مقصد اُنہیں  انتظار  کرنے  اور  یسوؔع  پر  ایمان لانے میں راہ نُمائی دیناتھا۔اُس نے اُنہیں سکھایا کہ نجات دہندہ اُس کی معرفت دُنیا کے تمام گناہ اُٹھانےکے
لئے ہاتھ رکھنے کے طریقہ سے بپتسمہ لے گا ، اوراِس کے بعداُنہیں تمام گناہوں سے بچانےکے لئےمصلوب ہوگا۔ اُس نے فرمایا کہ یسوؔع آئے گا اورماضی کی  نامکمل قربانیوں کوصفر کردے گا اور اپنے بدن کے ساتھ ابدی قربانی پیش کرے گا:وہ بپتسمہ کے وسیلہ سے ہمارے تمام گناہ اٹھا لے گا،بالکل جیسے بنی اسرائیل کے لوگ گناہ کی بے عیب قربانی لانے ، اُس پراپنے ہاتھ رکھنے اور عہدِ عتیق کے اندرقربانی کے نظام کے عین مطابق اُسکو ذبح کرنے کے وسیلہ سے  مخلصی حاصل کرتے تھے۔
بہت سارے اسرائیلیوں نے اپنے گناہوں کا اِقرار کیا ، توبہ کی، اور اُس سے بپتسمہ لیا۔ ’’توبہ‘‘ کامطلب ’’کسی آدمی کا اپنے ذہن کو خُداوند کی طرف پھیرنا‘‘ہے۔ عہدِ عتیق کی شریعت کو یاد رکھ کر، وہ یوؔحنا کے پاس آئے اوراِقرار کیا کہ وہ نااُمید گناہ گار تھے جو بچ نہیں سکتے تھے بلکہ مرنے کے دن تک گناہ کرتےہیں ۔اُنہوں نے یہ بھی اِقرار کیا کہ وہ شریعت کے مطابق اپنے نیک اعمال  کے ساتھ آسمان کی بادشاہی میں داخل نہیں ہوسکتے تھے ، اور اپنے ذہنوں کو یسوؔع مسیح کی طرف پھیرا، جوآخری اور حتمی طور پراُن کے تمامتر گناہ ، آسمان کی بادشاہی کا دروازہ کھول کر ،مٹا ڈالےگا ۔
وہ بپتسمہ جو یوؔحنا اِصطباغی  نے بنی اسرائیل کے لوگوں کودیا مندرجہ ذیل تھا۔اُس نے اُنہیں اِقرار کرنے کہ وہ اپنی زندگیوں میں کتنا زیادہ  گناہ کرتے تھے ، توبہ کرنے اور یسوؔع مسیح کی طرف دیکھنے کے قابل کیا ، جو اُس سے،یعنی  سردار کاہن اورتمام نسلِ انسانی  کے نمائندہ سے ، بپتسمہ لے گا اور اُنہیں اُنکے تمام گناہوں سے بچانےکے لئے مصلوب ہو گا، بالکل جب اُس نے اُنہیں بپتسمہ دیا۔ یہ کتابِ مقدّس  کے مطابق  حقیقی توبہ ہے ۔
اِس لئے، یوؔحنالوگوں کے سامنےزور سے چِلایا، ’’میں نے تو تمکو توبہ کے لئے پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں لیکن جو میرے بعد آتا ہے وہ مجھ سے زور آور ہے۔ میں اسکی جوتیاں اُٹھانے کے لائق نہیں۔ وہ تمکو رُوح القدّس اور آگ سے بپتسمہ دیگا۔‘‘(متی۳:۱۱)۔
 یوؔحنا اِصطباغی  نے لوگوں کے باطنوں کویسوؔع کی طرف پھیرا، اُن کے سامنے گواہی دی کہ یسوؔع دُنیا کے تمام گناہوں کو اُٹھالے گا(یوحنا۱:۲۹)اورنیابتہً اُن کی  خاطر  مر  جائے گا۔ یوں ، یسوؔع  نے خود
گواہی دی کہ یوؔحنا ہمیں راستبازی کی راہ دکھانے کے لئے آیا(متی ۲۱:۳۲)۔