Search

FAQ on the Christian Faith

Subject 1: Being born again of water and the Spirit

1-25. کیا آپ مجھے پانی اور رُوح کی خوشخبری کی وضاحت عطاکرسکتے ہیں؟

اگر ہم کسی سوئی کوباہر کسی جگہ پر کھوبیٹھیں ، تو ہم یقیناًاُسے اُسی علاقے میں تلاش  کریں گے جہاں ہم نے اُسے کھویا تھا۔ تاہم، اُسے گھر کے اندر تلاش کرنے کی کوشش کرنا بالکل فضول لگتا ہے محض اِس بنا پر کیونکہ اندر روشنی ہے ۔ میں آج کی کلیسیاؤں میں بعض ایسےفضول لوگوں کو دیکھتا ہوں۔ اِس بنا پر وہ ایمانداروں کے پانی کے بپتسمہ کے متعلق کتابِ مقدّس  کےبِلا اختتام مباحثوں کے درمیان آسانی سے اُلجھے ہوئے ہیں ،مگر وہ ہرگز خود سے یہ اہم سوال نہیں پوچھتے،’’کیوں یسوؔع نے یوؔحنا اِصطباغی  سے بپتسمہ لیا ؟‘‘ اِس رُجحان  کی وجہ سے، آج کے مسیحی طبقے میں بہت ساری مذہبی جماعتیں اور فرقہ جات پائے جاتے  ہیں۔
 ان متواتر مباحثوں کوانجام تک پہنچانے کے سلسلے میں ، ہمیں خود کو بِگڑے تِگڑےقصبے سے باہر نکالناچاہئے اور اُس جگہ پر واپس  جانا چاہئے جہاں ہم نے اپنی سوئی کھوئی تھی۔اگر ہم خلوصِ دل سے سچائی کو پانا چاہتے ہیں، تو ہمیں جانی بوجھی گھسی پٹی باتوں سے چُھٹکارہ حاصل کرنا چاہئے اسلئے کہ ہم اُسے مذہبی قصبے میں تلاش نہیں کرسکتے ۔ کیوں رسولوں نے یسوؔع مسیح کے بپتسمہ پربہت زیادہ  زور دیا ؟ پانی اور رُوح کی خوشخبری کی صداقت کا بھید  جو اُنہوں نے یسوؔع سے حاصل کیا اُس کا سرتاسر پوری دُنیا میں پرچار کیا گیا ۔
یسوؔع نے فرمایا،’’میں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک کوئی آدمی پانی اور رُوح سے پیدا نہ ہو وہ خُدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتا۔‘‘(یوحنا۳:۵)۔کتابِ مقدّس  ہمیں ارشاد فرماتی ہے کہ یسوؔع ہمیں ہمارے تمام گناہوں سے بچانے کے سلسلے میں  پانی اور خون کے وسیلہ سے آیا(۱۔ یوحنا۵:۶)۔ خون کامطلب اُس کی  صلیبی موت ہے۔اِس صورت میں ، آپ کا ’پانی‘ سے کیامطلب ہے ؟ کیوں یوؔحنا اِصطباغی نے یسوؔع کوبپتسمہ دیا؟ کیوں اُس نےاپنے بپتسمہ سے ذراپہلے اعلان کیا ؟،’’اب تو ہونے ہی دے ، کیونکہ ہمیں اسی طرح ساری راستبازی پوری کرنا مناسب ہے۔ ‘‘(متی۳:۱۵)
میں پورے دل سے اُمید کرتاہوں کہ آپ سمجھ گئے ہیں اورپانی اور رُوح کی خوشخبری پر،خصوصی طور پر یسوؔع کے بپتسمہ پر ایمان لاتے ہیں ۔یہاں پانی اور رُوح کی خوشخبری پر کچھ مختصر وضاحتیں ہیں جو اُس نے اپنے شاگردوں کوعطا کیں۔ رسولوں نے یسوؔع کے بپتسمہ پر سب سے زیادہ زور دیاجب اُنہوں نے خوشخبری کی بشارت دی۔ پولسؔ رسول نے فرمایا، ’’چنانچہ میں نے سب سے پہلے تم کو وہی بات پہنچا دی جو مجھے پہنچی تھی کہ مسیح کتابِ مقدّس  کے مطابق ہمارے گناہوں کے لئے مؤا۔ اور دفن ہوا اور تیسرے دن کتابِ مقدّس  کے مطابق جی اُٹھا۔‘‘(۱۔ کرنتھیوں۱۵:۳- ۴)۔
اِس کا کیا مطلب ہے ،’’مسیح کتابِ مقدّس  کے مطابق ہمارے گناہوں کے لئے مؤا؟‘‘؟ اِس کا مطلب ہے کہ اُس کی موت نے عہدِ عتیق کے اندرخُدا کے بخشے ہوئے طریقہ کے عین مطابق ہمارے تمام گناہوں کاکفّارہ  دیا۔وہ ہماری خاطر عہدِ عتیق کےاندر مکاشفہ اور عہد کے عین مطابق مرگیا۔ عبرانیوں۱۰:۱ بیان کرتا ہے ،’’کیونکہ شریعت جس میں آئندہ کی اچھی چیزوں کا عکس ہے ۔‘‘ آئیں ہم احبار۱:۳-۵میں خصوصی  قربانی پر غور کریں۔ کسی گناہ گار کو اپنے گناہوں کے کفّارہ کے لئے سوختنی قربانی کی تین شرائط کو پورا کرناچاہئے۔
1) وہ بے عیب ذَبیح کو لائے(احبار۱:۳)
2) اُسے ذَبیح کے سر پر اپنے ہاتھ رکھنےپڑتے تھے (احبار۱:۴)۔ یہاں، ہمیں خُدا کی شریعت کو واضح کرلینا چاہئے: ذَبیح کے سر پراپنے ہاتھ رکھنا یعنی اُس پر اپنے گناہوں کو سلسلہ وار منتقل کرناخُدا کی شریعت تھی۔
3) اُسے اپنے گناہ کاکفّارہ  دینےکے لئے اُسے ذبح کرنا پڑتا تھا(۱:۵)۔
یومِ کفّارہ  پر، ہاروؔن اپنے دونوں ہاتھ زندہ بکرے کے سر پر رکھتاتھا، اور  اُس  پر  بنی  اسرائیل  کی
تمام بدکردار یوں اورخطاؤں کا،یعنی  اُن کے تمام گناہوں سے متعلقہ  اِقرار کرتاتھا، اور اُنہیں بکرے کے سرپررکھ دیتا تھا(احبا۱۶:۲۱)۔  اُس وقت ، ہارونؔ اسرائیل کا نمائندہ تھا۔ وہ اکیلا بکرے کے سر پراپنے ہاتھ رکھتاتھا،مگر بنی اسرائیل کے(تقریباً۲۰سے۳۰لاکھ)لوگوں کےسال بھر کے تمام گناہ اُس پر سلسلہ وار منتقل ہو جاتے تھے۔عہدِ عتیق کی قربانی آنے والی اچھی چیزوں کا عکس ہے ۔ یسوؔع نے ہمیں صحائف کے عین مطابق مقدّس  کرنے کے سلسلے میں خُدا کی مرضی کے مطابق خودکو قربان کر دیا۔
سب سے پہلے،یسوؔع خُدا کا بے عیب برّہ بننے کے لئے آدمی کے جسم میں آیا۔ وہ خُدا کاواحد اکلوتا بیٹا ہے اور’’اُس کے جلال کا پرتو ہے‘‘(عبرانیوں۱:۳)۔حسبِ دستور، وہ تمام نسلِ انسانی کی خاطر  گناہ کی قربانی کے طورپر مناسب ہے ۔
دوم، یوؔحنا اِصطباغی نے یسوؔع کو یردؔن میں بپتسمہ دیا۔ بپتسمہ’’ہاتھ رکھنے‘‘کی صورت میں دیاجا تا ہے اور یوؔحنااِصطباغی  ہارونؔ کی نسل اور تمام نسلِ انسانی کا نمائندہ ہے۔جب یوؔحنا نے یسوؔع مسیح کے سر پر اپنے ہاتھ رکھے، تو شریعت کے مطابق دُنیا کے تمام گناہ اُس پر سلسلہ وار منتقل ہو گئےجسے خُدا قائم کر چُکا تھا ۔یسوؔع نے یوؔحنا سے فرمایا،’’اب تو ہونے ہی دے کیونکہ ہمیں اسی طرح ساری راستبازی پوری کرنا مناسب ہے ۔‘‘ اور اُس نے اُسے بپتسمہ دیا۔ ہمارے تمام گناہ بالآخر اُس پرسلسلہ وارمنتقل ہو گئے ۔ اگلے ہی دن،یوؔحنازورسے چلایا ، ’’دیکھو یہ خُدا کا برّہ ہے جو دُنیا کا گناہ اُٹھالے جاتا ہے۔‘‘(یوحنا۱:۲۹)۔
سوم ، یسوؔع،یوں کہہ کر، صلیب پر ہمارے تمام گناہوں کی بخشش کے لئےمرگیا کہ ’’تما م ہوا ‘‘ (یوحنا۱۹:۳۰)وہ  ہمیں خُدا کے حضور راستبازبنانے کے سلسلے میں  مردوں میں سے دوبارہ جی اُٹھا۔یاد رکھیں کہ گناہ کی قربانی گناہوں  کی معافی کے لئے چڑھائی جاتی  تھی۔کسی گناہ گار کو اُسے ذبح کرنے سے پہلے اُسکے سر پراپنے ہاتھ رکھنے پڑتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں،اگر وہ ایک بھی کام  بھول جاتاتھا،اگر وہ ذَبیح  کے سرپراپنے ہاتھ رکھنے خارج کر دیتاتھا، تو وہ اپنے بے شرع عمل کی وجہ سے رہا نہیں ہوسکتاتھا۔ اگر ایک  مسیحی کوئی وہم و گمان نہیں رکھتا کہ اُس کے بپتسمہ کا کیا مطلب  ہے، تو ایساآدمی یقیناًاپنے باطن  میں گناہ رکھتا ہے  اور وہ اپنے ایمان کے باعث مطلق نجات یافتہ  نہیں ہوسکتا ۔
زیادہ تر مسیحی صرف اُس کے راست عمل کانصف حصہ جانتے  ہیں  ۔ یوؔحنا  رسول  اپنے  پہلے  خط  میں خوشخبری کو واضح کرتا ہے: ’’یہی ہے وہ جو پانی اور خون کے وسیلہ سے آیا تھا یعنی     یسو عؔ مسیح وہ نہ فقط پانی کے وسیلہ سے بلکہ پانی اور خون دونوں کے وسیلہ سے آیا تھا۔ اور جو گواہی دیتا ہے وہ رُوح ہے کیونکہ رُوح سچائی ہے۔‘‘(۱۔یوحنا۵:۶)۔کتابِ مقدّس  میں بہت سارے حوالے موجود  ہیں جوتائید کرتے ہیں کہ اُسکا بپتسمہ ہماری نجات کی خاطر اُسکا راست عمل مکمل کرنے کےلئے  کتنا  لازمی  ہے  ۔ تما م مسیحیوں کو
پانی اور رُوح کی خوشخبری کی جانب رجوع کرنا چاہئے۔