Search

FAQ on the Christian Faith

Subject 1: Being born again of water and the Spirit

1-27. اِس بنا پریہ ہے کہ میں پہلےہی کیا ایمان لا چُکا اور سیکھ چُکا ہوں جب تک آپ نے اکثر و بیشتر نظر انداز ہونے والے یسوؔع کے بپتسمہ پرمطلق زور نہیں دیا۔اِس صورت میں پانی اور رُوح کی خوشخبری کے متعلق اِس قدر مختلف چیزکیاہے ؟

’’نجات یافتہ ہونے ‘‘ کا مطلب  تمام گناہوں کی بخشش حاصل کرنا ہے۔ اِس کا مطلب نئے سرے سے پیدا ہونا بھی ہے۔ جب کوئی گناہ گار زندگی کی خوشخبری پر ایمان لانے کے وسیلہ سے راستبازبشر بن جاتا ہے،توہم کہتے ہیں،’’وہ یسوؔع کی نجات کے وسیلہ سے پانی اور رُوح سے نئے سرے سے پیدا ہوگیا ہے ۔‘‘ رُوح القدّس اُن پر نازل ہوتا ہےجو راستبازی پا چُکے ہیں اوراَزسرِ نَو پیدا ہو چُکے ہیں اور گواہی دیتے ہیں کہ وہ خُداکی اولادہیں۔لہٰذا، یہ سبھی کچھ آخر کارہو بہو ایک ہی بات ہے؛یعنی گناہوں کی بخشش پانا، رُوح القدّس حاصل کرنا،راستبازی پانا، نئے سرے سے پیدا ہونا، خُدا کے طفل بننا، اور راستباز آدمی بننا۔
یسوؔع نے فرمایا،’’ راہ اورحق اور زندگی میں ہوں۔ کوئی میرے وسیلہ کے بغیرباپ کے پاس نہیں آتا۔‘‘(یوحنا ۱۴:۶) ،جودلالت کرتا ہے کہ صرف یسوؔع ،خُدا کےواحد اکلوتے بیٹے کے وسیلہ سےہی  ہم خُدا کی بادشاہی میں داخل ہو سکتے ہیں۔اب سے آگے، ہمیں جاننا ہے کہ کیسے یسوؔع نے ہمارے تمام گناہ دھوڈالے اور ہمیں اپنے لوگوں کے طور پر شمار کیا ، جو اسکی بادشاہی میں داخل  ہونے کاحق رکھتے ہیں۔ اِس کے باوجود، زیادہ تر مسیحی ابھی تک گمان کرتے ہیں کہ صرف اُسکا نام لینااُنہیں بچا سکتا ہے ۔
وہ ہمیشہ بِلاکتابِ مقدّس کھولے اور بِلا جانےیسوؔع پر ایمان لاتے ہیں کہ وہ ہمیں ہمارے تمام گناہوں سے بچانےکے لئے کیاکر چُکا ہے ۔ خُدارُوح اورقدوسِ واحد ہے جس میں کوئی تغیّر یا تبدیلی موجود نہیں ہے،مگر ہم گناہ گار زندگیاں جیتے ہیں۔ خُداوند کی بادشاہی میں داخل ہونا صرف یسوؔع کے وسیلہ سے ممکن ہے، اور ہم مسیح یسوؔع میں’ زندگی کے رُوح کی شریعت ‘(رومیوں۸:۱-۲)پر ایمان کی بدولت اُس پرتوکل کر سکتے ہیں۔
           یہاں تک کہ بہت سارے لوگ یہ نہیں جانتےکہ یسوؔع نے نجات کی خاطر کیا کیا؛اِس کی بجائے، وہ”اے خُداوند !اے خُداوند!“ پکار تے ہوئے،  اُس پر اندھادھند اَلم غلم ایمان رکھتے ہیں۔ وہ یہ بھی گمان کرتےہیں کہ وہ نجات یافتہ ہیں،مگروہ اپنےباطنوں میں ابھی تک گناہ رکھتے ہیں۔ اگرآپ یسوؔع پراپنے ایمان کے باوجود ابھی تک اپنے مَن میں گناہ رکھتے ہیں ،توپھرآپ کس چیزسے نجات یافتہ ہوئے ہیں؟ اگر کوئی آدمی یہ پوچھتا ہے،’’کیسےیسوؔع نے ہمارے گناہ دھوئے؟‘‘تو لوگوں کی بہت بڑی جماعت جواب دیتی ہے، ’’غالباً اُس نے اُن کو صلیب پردھویا۔‘‘ اِس کے بعد، دوسرے سوال کی بنا پر ،’’ کیا آپ اپنے باطن میں گناہ رکھتے ہیں ؟‘‘ تووہ کہتے ہیں، ’’یقینی طورپر۔کون اِس رُوئے زمین پرقطعی طورپر  گناہ سے آزاد ہو سکتا ہے؟‘‘ یسوؔع نام کا مطلب ہے ،’’یسوؔع……وُہی اپنے لوگوں کو اُنکے گناہوں سے نجات دے گا۔‘‘(متی۱:۲۱)۔ ہم یسوؔع پرگناہ سے نجات یافتہ ہونے کے سلسلے میں ایمان لاتے ہیں۔
تاہم، اگر ہم اپنے قلبوں میں ابھی تک گناہ رکھتے ہیں ،اگرچہ ہم یسوع پر ایمان لاتے ہیں، تو ہم ابھی تک گناہ کے بندھن میں بکے ہوئے گناہ گار  ہیں اوراِس کے مطابق ہماری عدالت ہوگی۔ پولسؔ رسول نےفرمایا،’’پس اب جو مسیح یسوؔع میں ہیں ان پر سزا کا حکم نہیں۔‘‘ (رومیوں۸:۱)۔حسبِ دستور یہ بات یقینی ہے کہ وہ آدمی جو اپنے باطن میں ابھی تک گناہ رکھتاہے وہ ہنوز مسیح یسوؔع کے ساتھ ایک نہیں ہے ۔ وہ کیوں گناہ گارکے طورپر قائم ہیں جو مخلصی یافتہ نہیں ہے  اورنجات سے محروم ہےحالانکہ گو وہ ابھی تک یسوؔع پر ایمان رکھتا ہے ؟یہ اِس بنا پرہے کیونکہ وہ یسوؔع کے بپتسمہ کے وسیلہ سے اُس پر اپنے گناہوں کو لادنےکے بغیر،فقط صلیبی خون پر ایمان رکھتے ہیں۔ لہٰذا ،وہ ابھی تک اپنے قلبوں میں گناہ رکھتے ہیں، جب کہ یسوع اُنکے گناہوں کا لحاظ کئے بغیر صلیب پرمر گیا۔
اُن مسیحیوں میں ایک نمایاں فرق ہےجویسوؔع کے بپتسمہ پر ایمان رکھتے ہیں  اوروہ لوگ جو اُس پر ایمان نہیں رکھتے؛بعض  لوگ یسوؔع کے بپتسمہ پر ایمان لا نے کے وسیلہ سے  مخلصی حاصل کرتے ہیں اور راستباز بن جاتے ہیں ، جبکہ اُسی دوران دوسرے لوگ اُس پر ایمان کے بغیرابھی تک گناہ گاروں کے طور پر رہتے ہیں۔ رُوح القدّس کسی گناہ گار پر نازل نہیں ہوتا۔ وہ صرف راستبازوں پر نازل ہوتا ہے، جو پانی اور رُوح کے وسیلہ سےاَز سرِ نَو پیدا ہوچُکے ہیں ۔
حسبِ معمول ،پولسؔ رسول نے فرمایا،’’کیا تم نہیں جانتے کہ ہم جتنوں نے یسوؔع مسیح میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا تو اسکی موت میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا؟‘‘(رومیوں۶:۳)۔ بہت سارے  لوگ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ یسوؔع نے ہمارے گناہوں کو صلیب پر اُٹھالیامگر ہم ہرگزاِقرار نہیں کرسکتے کہ ہم بے گناہ دل رکھتے ہیں اگرہم یسوؔع کے بپتسمہ پر ایمان نہیں رکھتے۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں ، تو ہم خُدا کے حضور جھوٹ بولنے کے مرتکب ہیں  ،جو  اپنے ہی ذاتی ضمائر کے برخلاف ہیں۔
ہم یقینی طور پر اپنے باطنوں میں ابھی تک گناہ رکھتے ہیں اگر ہم یسوع پر اپنے تمام گناہ اُسکے بپتسمہ پر ایمان لانے کے وسیلہ سے سلسلہ وار منتقل نہیں کرتے۔اُن لوگوں کے بموجب جو یسوؔع کے بپتسمہ اور صلیب کی خوشخبری پر ایمان نہیں لاتے، وہ شریعت پرستی میں گرنےاور گمبیھرگناہ گار بننے کا رجحان رکھتے ہیں۔چنانچہ، اِس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ  وہ کیا کرتے ہیں،مثلاًعمیق پہاڑوں پر دُعا مانگنا یادُعائیہ عبادات کے دوران خلوصِ دِل سے معافی کے لئے دُعا مانگنا ، وہ اپنے باطنوں میں پھر بھی گناہ پاتے ہیں۔
یسوؔع نےفرمایا،’’جو مجھ سے اے خُداونداے خُداوند! کہتے ہیں ان میں سے ہر ایک آسمان کی بادشاہی میں داخل نہ ہوگا۔ مگر وہی جو میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلتا ہے ۔ اس دن بہتیرے مجھ سے کہیں گے اے خُداوند اے خُداوند ! کیا ہم نے تیرے نام سے نبوت نہیں کی اورتیر ے نام سے بدرُوحوں کو نہیں نکالا اور تیرے نام سے بہت سے معجزے نہیں دکھائے ؟۔ اس وقت میں ان سے صاف کہدونگا کہ میری کبھی تم سے واقفیت نہ تھی۔ اسے بدکارو میرے پاس سے چلے جاؤ۔‘‘ (متی۷:۲۱- ۲۳)۔
’’اے بدکارو ‘‘کن لوگوں کو بیان کرتا ہے۔ یہ اُن  لوگوں کو بیان کرتا ہے جو فقط صلیب پر ایمان لانے کی وجہ سے اپنے باطنوں میں کامل مخلصی کو حاصل نہیں کر چُکے۔یہ اندھا دھند ایمان ہے،جوخُدا کی طرف سے نہیں ہے۔ ہم بدی پر چل رہے ہیں اگر ہم اِس حقیقت پر ایمان نہیں رکھتے کہ یسوؔع ہمیں اپنے بپتسمہ اور صلیب کے وسیلہ سے نجات بخش چُکا ہے۔ہم دونوں یسوؔع کے بپتسمہ اور صلیب کو جاننے اور ایمان رکھنے سے پیشتریہ نہیں کہہ سکتےکہ  ہم واجب ایمان رکھتے ہیں۔
یسوؔع نے فرمایا کہ  اگر لوگ اَزسرِ نَو پیداہونا چاہتے ہیں، تو یہ صرف پانی اور رُوح کے وسیلہ سے ممکن ہے ۔بالکل جسطرح وہ لوگ سیلاب کے پانیوں سے صرف بچ سکتے تھے بشرطیکہ وہ  نوحؔ کی کشتی میں داخل ہوجاتے، اُسی طرح آپ اپنےتمام  گناہوں کی بخشش  حاصل کرسکتے ہیں اور حقیقی وفادار زندگی جی  سکتے ہیں صرف اگر آپ پانی اور رُوح کی خوشخبری پر ایمان لاتے ہیں۔ پانی اور رُوح کی خوشخبری کے بغیر ، آپ نہ تو گناہوں کی معافی حاصل کرسکتے ہیں اور نہ ہی خُدا کی اولاد بن سکتے ہیں۔