Search

Проповеди

مضمون 10: مُکاشفہ(مُکاشفہ کی کتاب پر تفسیر)

[باب2-2] وہ ایمان جو شہادت کو قبول کرسکتا ہے <مُکاشفہ ۱:۲ -۷>

وہ ایمان جو شہادت کو قبول کرسکتا ہے
<مُکاشفہ ۱:۲ -۷>
 
 
ہم میں سے بیشتر کے لئے ، شہادت ایک غیر مانوس لفظ ہے ، لیکن اُن لوگوں کے لئے جو غیر مسیحی تہذیب میں پرورش پاچکے ہیں ،اُن کے لئے تو یہ اور بھی اجنبی ہے۔ یقینی طور پر لفظ "شہادت" ایک ایسالفظ نہیں ہے جس کا ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں اکثر سامنا کرتے ہیں؛ ہم اِس لفظ کوالگ اور متفرق محسوس کرتے ہیں ، کیوں کہ یہ ہماری اصل شہادت کوتصور کرنےکےلئےکافی حد تک غیر حقیقی ہے۔ بہر حال ، مُکاشفہ کی کتاب کے باب ۲ اور ۳میں اِس شہادت پر بات چیت کی گئی ہے ، اور اِس کے کلام سے ہمیں اپنے دلوں میں شہادت کاایمان قائم کرنا چاہئے — یعنی، جس ایمان سے ہم شہید ہوسکتے ہیں۔
رومن شہنشاہ اپنے لوگوں پر سلطنت کے مطلق حکمران تھے۔ اپنے علاقے پر مطلق طاقت کو استعمال کرتے ہوئے ، وہ کچھ بھی کرسکتے تھے جس کی اُن کے دلوں کوخواہش ہوتی تھی۔ بہت ساری جنگیں لڑیں اور جیتیں ، رومن سلطنت نے اپنی حکومت کے تحت اَن گنت قوموں کو اپنے ماتحت کِیا ، فتح کی گئی قوموں کی طرف سے دیئے جانے والے خراج سے خود کومالا مال کِیا۔ ایک جنگ بھی نہ ہارنے کے بعد ، چھوٹی سی قوم دُنیا کی عظیم سلطنتوں میں شامل ہوگئی۔ صرف آسمان ہی اُن کی طاقت سے فتح کی گئی حدوں سےباہر تھا۔ یہ طاقت اتنی بڑی تھی کہ آخر کار وہ لوگوں کے ذریعہ زندہ دیوتاؤں کی طرح پوجے جانے لگے۔
مثال کے طور پر ، شہنشاہوں کے لئے اُن کی شکل کے مجسمے بنانا اور لوگوں کو اُن کے سامنے جھکنے کے لئے کہناکوئی معمولی بات نہیں تھی۔ شہنشاہوں کے لئے جنہوں نے اپنے آپ کو خدا سمجھنے کا اعلان کیا تھا ، یسوع میں ایمانداروں کا پھیلاؤ اُن کی مطلق طاقت کے لئے سنگین خطرہ کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔ مسیحیوں کے اجتماع کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ، انہوں نے ایمانداروں کو ستانے ، گرفتارکرنے ، جیل بھیجنے اور بالآخر اُن کے ایمان کے لئے پھانسی دینے کے لئے جابرانہ پالیسیوں کاسہارا لیا۔ یہ اِس تاریخی پس منظر کے خلاف ہے کہ ابتدائی مسیحی ایذارسانی سے بچنے کے لئے تہہ خانوں جیسی جگہوں پر زیر زمین چلے گئے، اور یہ ایذارسانیاں ہی ہیں جو اُن کےراستباز ایمان کے دفاع کے لئے شہادت کو قبول کرنے کابنیاد ی کام تھیں۔
یہی وجہ ہے کہ ابتدائی کلیسیاکے دور میں شہید اُٹھے۔ یقینا ً،اُس وقت کے مقدسین کو،صرف شہنشاہوں کے اختیار کو تسلیم کرنے سے انکار کرنے پر شہید نہیں کیا گیا تھا۔ اُنہوں نے اپنے دنیاوی اختیار کو پہچان لیا ، لیکن اُنہوں نے اِس اختیار کو قبول نہیں کِیا جب اُس نے اِنھیں مجبور کیا کہ وہ انسان کو خدا کی حیثیت سے پوجیں اور یسوع کو اپنے دِلوں سے نکال دیں ، یہاں تک کہ اپنی جان کی قیمت پربھی۔ رومن شہنشاہوں نے مسیحیوں کو حکم دیا کہ وہ یسوع کا انکار کریں اور اُن کی نہ صرف شہنشاہ بلکہ دیوتاؤں کی حیثیت سے بھی پوجا کریں۔ اس طرح کے ناکارہ اور ناپسندیدہ مطالبات کے آگے ہتھیار نہ ڈالتے ہوئے ، ابتدائی مسیحیوں کو مسلسل ایذارسانی کا سامنا کرنا پڑا اور اپنے ایمان کے دفاع کی خاطر شہید کردیئے گئے ،آخرکار ۳۱۳ ء میں میلان ایڈکٹ (Edict of Milan)اُن کے لئے مذہبی آزادی لایا۔ ہمارے سامنے ایمان کے اِن آباؤ اجداد کی طرح ، ہمیں، بھی ،اپنے ایمان کوردّ کرنے کے بجائے راستباز موت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایشیا کوچک میں سات کلیسیاؤں کے بارے میں عبارت نہ صرف اُس وقت کے حالات اور واقعات کی وضاحت ہے، بلکہ آنے والی دُنیا کے بارے میں بھی مُکاشفہ ہے۔ اِس میں یہ مُکاشفہ پایا گیا ہے کہ خدا کے خادمین اور اُس کے مقدسین اپنے ایمان کے دفاع کے لئے شہید ہوجائیں گے۔ بالکل اُسی طرح جس طرح رومن سلطنت کے زمانے میں ، ایک وقت آئے گا جب ایک مطلق حکمران اُبھرے گا جیسے رومی شہنشاہت کا جدید دور ہر ایک کو اپنے ظالم اقتدار کےماتحت کرتا ہے، اُس کی شبیہ کے مجسمے بنا تےہوئے، سب کو اُسےسجدہ کرنے کی ضرورت ہوگی ، اور وہ مطالبہ کرےگا کہ خُدا کی طرح اُس کی عبادت کی جائے۔ یہ ہمارے موجودہ وقت سے بہت دور نہیں ہے ، اور جب یہ دور آجائے گا ، بہت سارے مقدسین ابتدائی کلیسیاکے مقدسین کی شہادت کے نقش قدم پر چلیں گے ۔
لہذا ہمیں نصیحت کے کلام کواپنے دلوں میں رکھنا چاہئے جو ہمارے خُداوندنے آسیہ کی سات کلیسیاؤں کو دیا تھا۔آسیہ کی سات کلیسیاؤں کو سلام ، حوصلہ افزائی اور نصیحت کرتے ہوئے ، خدا نے اُن سے وعدہ کیا تھا کہ "جو غالب آئے" وہ " زندگی کے درخت سے کھائے گا ، جو خدا کے فردوس کے بیچ میں ہے" ، اور "زندگی کا تاج" حاصل کرے گا،" " کھانے کے لئے پوشیدہ من، "" صبح کا ستارہ ، "اور بھی بہت کچھ! یہ خدا کا وفادار وعدہ ہے کہ اُن لوگوں کو جو اپنی شہادت کے ذریعے غالب آئیں گے ، وہ آسمان کی تمام ابدی نعمتیں عطا کرے گا۔
پھر ، ابتدائی کلیسیاکےمقدسین کو کس طرح اُن کی شہادت کا سامنا کرنا پڑا؟ پہلی بات جو ہمیں یاد رکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ جو لوگ شہید ہوسکتے تھے وہ خدا کےخادمین اور اُس کے مقدسین تھے۔ ہر ایک کو شہید نہیں کیا جاسکتا۔ صرف وہی لوگ جو یسوع کو اپنا نجات دہندہ مانتے ، ایذارسانی میں ہتھیار نہیں ڈالتے،اوراپنے ایمان پر قائم رہتےاور خداوند پر بھروسہ رکھتےہیں وہ شہادت کا سامنا کرسکتے ہیں۔
یوحنارسول، جسے ہم یہاں دیکھتے ہیں کہ پتمس کےجزیرے میں اپنی جلاوطنی میں اِفسُس کی کلیسیاکی سرزنش کرتاہے، وہ یسوع کے بارہ رسولوں میں سے آخری زندہ تھا۔ دوسرے تمام رسول پہلے ہی شہید ہوچکے تھے، اِسی طرح دوسرے مقدسین بھی۔ تاریخی طور پربولتے ہوئے ، آسیہ کی سات کلیسیاؤں کےمقدسین اَن گنت مسیحیوں میں سے صرف چند ایک تھے جو ۳۱۳ ء تک شہید ہوگئےتھے۔ رومی حکام کے ظلم و ستم سے بھاگتے ہوئے ، وہ لفظی زیرزمین چلے گئے ، اُن کی پہنچ سے بچنے کے لئے غاریں کھودیں اور دعا کے لئے تہہ خانے کے نام سے جانے والے زیرزمین قبرستانوں میں جمع ہوگئے — ان سبھوں نے اور کبھی بھی ، اپنے ایمان کے ساتھ غداری نہیں کی اور خوشی خوشی اپنی شہادت کو قبول کرلیا۔
یہاں خدا کی طرف سے سرزنش کے باوجود ،اِفسُس کی کلیسیا سمیت، آسیہ کی سات کلیسیاؤں کے خادمین اور مقدسین بھی، سب کو شہید کردیا گیاتھا۔کس نے اُنہیں شہید ہونے کے قابل کیا یہ خداوند پر اُن کا ایمان تھا۔ اُن سب کا ایمان تھا کہ خداوند ہی خدا تھا ، کہ اُس نے اُن کے سارے گناہوں کو مٹا دیا ، اور وہ چرواہا تھا جو اُن سب کو ہزار سالہ بادشاہی اور نئے آسمان اور زمین کی طرف لے جائے گا۔ یہی ایمان اور اُمید کاثبوت ہے جس نے انہیں شہادت کے ذریعے اپنے تمام خوف اور موت کے درد پر غالب آنے کے قابل بنایا۔
اب ہم آخری دور میں جی رہے ہیں۔ یہ زیادہ دور نہیں کہ دُنیا ایک حاکم کے تحت متحد ہوجائے گی اور مطلق طاقت کا حامل حکمران اُبھرے گا۔ یہ زبردست حکمران ، جیسا کہ مکاشفہ ۱۳ میں درج ہے ، مقدسین کی زندگیوں کو دھمکائے گا اور مطالبہ کرے گے کہ وہ اپنے ایمان کو ترک کردیں۔ لیکن ہم ، آخری اوقات کےمقدسین ، اُس کی دھمکیوں اور جبر پر غالب آنے اور اپنی شہادت کے ذریعہ اپنے ایمان کا دفاع کرنے کےقابل ہوں گے ، کیونکہ ہمارا وہی ایمان ہےجو ابتدائی کلیسیاکے مقدسین کا تھا۔
آیات ۴ تا ۵میں ، خدا نے اِفسُس کی کلیسیا کو سرزنش کرتے ہوئے کہا ، " مگر مُجھ کو تُجھ سے
یہ شِکایت ہے کہ تُو نے اپنی پہلی سی مُحبّت چھوڑ دی۔ پس خیال کر کہ تُو کہاں سے گِرا ہے اور تَوبہ کر کے پہلے کی طرح کام کر اور اگر تُو تَوبہ نہ کرے گا تو مَیں تیرے پاس آ کر تیرے چراغ دان کو اُس کی جگہ سے ہٹا دُوں گا۔"اِس کا کیا مطلب ہے؟ اِس کا مطلب ہے کہ اِفسُس کی کلیسیانے پانی اور رُوح کی خوشخبری چھوڑ دی تھی۔ ابتدائی کلیسیا کے تمام مقدسین ، بشمول اِفسیوں کی کلیسیا ، پانی اور رُوح کی خوشخبری پر ایمان رکھتے تھے۔ یہ اِس لئے تھا کہ یسوع کے شاگردوں نے پانی اور رُوح کی خوشخبری سب کو پھیلادی تھی اور منادی کی تھی۔ اِس طرح یہ خوشخبری جو اُس وقت کے مقدسین نے رسولوں سے حاصل کی وہ پوری خوشخبری تھی ، جھوٹی نہیں ، انسان کی بنائی ہوئی خوشخبری نہیں جو صرف صلیبی خون پر یقین رکھتی ہے۔
لیکن یہاں یہ کہا گیا ہے کہ اِفسُس کی کلیسیاکے خادم نے اپنی پہلی محبت چھوڑ دی تھی۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اِفسیوں کی کلیسیا کے خادم نے اپنی کلیسیاکی خدمت میں پانی اور رُوح کی خوشخبری ترک کردی تھی۔ یہ ہے کیوں خداوند نے کہا کہ وہ چراغ دان کو اُس کی جگہ سے ہٹا دے گا جب تک کہ وہ توبہ نہ کریں۔ چراغ دان کو اُس کے پاس سے ہٹانے کا مطلب کلیسیا کو ہٹانا تھا ، جس کا مطلب یہ تھا کہ، رُوح القدس اب اِفسُس کی کلیسیامیں کام نہیں کرسکتاتھا۔
اِفسُس کی کلیسیا کے خادم کے لئے ، پانی اور رُوح کی خوشخبری کی طرف لوٹنا دراصل کوئی ایسا مشکل کام نہیں تھا۔ بلکہ یہ اِس کا سب سے کم مسئلہ تھا۔ جس چیز نے اُسے مشکل میں مبتلا کیا وہ یہ تھا کہ وہ اپنے دل میں پانی اور رُوح کی خوشخبری پر ایمان رکھتے ہوئے، اپنی بات پر واضح طور پر منادی کرنے میں ناکام رہا۔ اُس نے اپنی کلیسیا میں اُن تمام لوگوں کو قبول کیا جنہوں نے محض یسوع کا اپنا نجات دہندہ کے طور پر اِقرار کیا ، یہاں تک کہ اگر وہ پانی اور رُوح کی خوشخبری پر ایمان نہیں رکھتے تھے ، جب حقیقت میں ایمانداروں کے لئے پانی اور رُوح کی خوشخبری پر اپنے ایمان کےاِقرار کامطلب شہادت کے لئے تیار رہنا ہے۔
لہذا ، اُس نے دوسرے الفاظ میں ، اُن تمام لوگوں کا خیرمقدم کیا جو اُس کی کلیسیا میں آئے تھے
اِس سے قطع نظر کہ اُن کا خدا اور اُس کی پانی اور رُوح کی خوشخبری پر وہی ایمان تھا یا نہیں۔ چونکہ خدا کی کلیسیا میں داخل ہونے کے لئے بہت زیادہ قربانیوں کی ضرورت تھی ، اور چونکہ اِفسُس کی کلیسیا کے خادم کو خوف تھا کہ یہ قربانیاں بہت سے لوگوں کو کلیسیامیں شامل ہونے سے روکیں گی ، لہذا وہ قطعی سچائی کی عین مطابق شرائط میں منادی کرنے میں ناکام رہا تھا۔
لیکن چونکہ جہاں سچائی نہیں ہے وہاں رُوح القدس نہیں رہ سکتا ، خُدا نے فرمایاکہ وہ چراغ دان کو ہٹا دے گا۔ یہ اِفسُس کی کلیسیا کے خادم اور مقدسین کے کاموں کی کمی کی وجہ سے نہیں ہے کہ خدا نے کہا کہ وہ کلیسیا کو ختم کردے گا؛ بلکہ ، اِس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اب کلیسیا میں نہیں رہ سکتا ہے کیوں کہ اب اِس میں سچائی نہیں پائی جاتی ہے۔
یہ ایک مطلق ضرورت ہے کہ خدا کی کلیسیاپانی اور رُوح کی خوشخبری کی پیروی کرے۔ خدا کے خادمین اور مقدسین کو نہ صرف اِس خوشخبری پرایمان رکھنا چاہئے بلکہ اِس کی عین اور مطلق شرائط میں منادی اور تعلیم بھی دینی چاہئے ، کیونکہ صرف اِس خوشخبری میں ہی ہم خدا کی محبت ، اُس کا فضل اور ہمارے لئے اُس کی تمام نعمتیں پاسکتے ہیں۔
اس خوشخبری کی منادی کرنے کے بجائے ، اِفسُس کی کلیسیا کے خادم نے اپنی جماعت میں اُن لوگوں کو قبول کِیا جو صرف صلیبی خون پر ایمان رکھتے تھے۔ لیکن حتیٰ کہ ایک نئے سرے سے پیدا ہوئے خادم، مقدس ، یا کلیسیا ،کے لئےبھی اگر وہ پانی اور رُوح کی خوشخبری جس نے یسوع کے بپتسمہ اور اُس کے صلیبی خون کے ساتھ اُن کے تمام گناہوں کو مٹایا، پر ایمان رکھتے ہوئےابھی اِس کی منادی نہیں کرتےتوہمارےخُداوند کےسارےکام بیکار کردیتے ہیں۔
اگرچہ ہم خداوند کی نگاہوں کےسامنےناکافی ہیں ، اگر ہم اِس خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں اور اِس کی منادی کرتے ہیں تو ، خداوند ہم میں رُوح القدس کی حیثیت سےسکونت اور کام کرسکتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر خدا کے خادمین یا مقدسین خامیوں سے بھرے ہوئےہیں ، توخُداوند اُن کی رہنمائی اپنے کلام اور تعلیم کے ذریعہ کرسکتا ہے۔ پانی اور رُوح کی خوشخبری کی کلیسیامیں رُوح القدس پایا جاتا ہے ، اور اِس میں رُوح القدس کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ کلیسیا مقدس ہے۔
خدا کے خادمین یا مقدسین کے لئے کوئی پاکیزگی نہیں ہوسکتی ہے اگر وہ پانی اور رُوح کی خوشخبری کی منادی نہیں کرتے ہیں۔ وہ یہ کہنے کے قابل ہوسکتے ہیں کہ اُن کے پاس اب کوئی گناہ نہیں ہے ، لیکن
جہاں پانی اور رُوح کی خوشخبری کی منادی نہیں کی جاتی ہے وہاں پاکیزگی نہیں مل سکتی ہے۔
پانی اور رُوح کی یہ خوشخبری وہ خوشخبری ہے جس پر ابتدائی کلیسیاکے مقدسین ایمان رکھتے تھے ، وہ خوشخبری جو اعلان کرتی ہے کہ خداوند بپتسمہ کے ساتھ دُنیا کے سارے گناہوں کو اُٹھانے اور صلیب پر اپنی موت کے ساتھ اِن سب کو مٹانے کے لئے انسانیت کو بچانے اِس زمین پر آیا تھا۔ اُس نے اپنے بپتسمہ کے ساتھ ہماری ساری کمزوریوں اور کوتاہیوں کو دور کِیا۔ خدا نے ہماری کمزوریوں اور
کوتاہیوں سے ہونے والے تمام گناہوں کودور کِیا ، اور وہ ہمارا ابدی چرواہا بن گیا ہے۔
اتنے زیادہ مبارک ہونے کے بعد ، کوئی کیسے رومن شہنشاہ کو خداوند میں بدل سکتا ہے اور اپنے دیوتا کی حیثیت سے کسی بشر کی عبادت کرسکتا ہے؟ چونکہ خدا کا فضل اتنا عظیم اور بکثرت تھا ، کسی رومی شہنشاہ کےلالچ اور دھمکیاں مقدسین کو اِس کی محبت سے انکار کرنے پر مجبور نہیں کرسکتی تھیں ، اور اُنہوں نے اپنے ایمان کا دفاع کرنے کے لئے اپنی مرضی اور خوشی سے شہادت قبول کرلی۔ اُنہوں نے اُن دونوں دھمکیوں سے انکار کِیا جن کی وجہ سے اُنہیں اپنے ایمان کو ترک کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی گئی اور اُنہیں دنیاوی فوائد کے لئے اپنا ایمان ترک کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے سرکاری عہدوں پراُن کی تقرری کی پیش کش کی گئی۔ کوئی چیز اُنہیں اپنے ایمان سے دستبردار ہونے اور اپنے خدا کو چھوڑنے کے قابل نہیں بناسکتی تھی ، اور یہ لازوال وفاداری ہی ہےجس نےاُنھیں شہید ہونے کےقابل بنایا۔
شہیدوں کے دل خُدا کے فضل اور محبت کی شکرگزاری سے بھر گئے جس نے اُنہیں پانی اور رُوح کی خوشخبری کے ذریعہ اُن کے گناہوں سے نجات دلائی۔ وہ لوگ جن کا ایمان خدا کی محبت سے برگشتہ نہیں ہوسکتا جس نے اُنہیں ہمیشہ کے لئے اُنکے گناہوں سے آزاد کیا تھا وہ پھِرجانے کی بجائے شہادت کو گلے لگا لیتے ہیں۔ وہ وقت آئے گا جب، رومن شہنشاہوں نے ابتدائی کلیسیاکے مقدسین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اُنکی الوہیت کو تسلیم کریں اور اُنھیں دیوتاؤں کی طرح پوجیں ، ہمیں ،بھی، اپنے ایمان کو ترک کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ جب ایسا ہوگا تو ،ہمیں ایمان کے آباؤاجداد کے نقش قدم پر چلنا چاہئے اور شہادت کے ساتھ اپنے ایمان کا دفاع کرنا چاہئے۔
اگرچہ ہم کوتاہیوں سے بھرےہوئے ہیں ، خُدا نے ہم سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے ہماری ساری کوتاہیوں اور گناہوں کو اپنے اوپر لے لیا ہے۔ اِس سے قطع نظر کہ ہم اُس کی فضل کے آگے کتنے ہی کم ہیں ، اُس نے ہمیں اپنے بازوؤں میں قبول کرلیا ہے۔ اُس نے نہ صرف ہمیں گلے لگایا ، بلکہ اُس نے گناہ اور تباہی کے تمام مسائل حل کردیئے اور ہمیں ہمیشہ کے لئے اپنے بچے اور اپنی دلہن بنا لیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کبھی بھی اُس پر اپنے ایمان کو ترک نہیں سکتے ،اور کیوں ہم اپنی مرضی اور خوشی سے اس کے نام کے لئےشہادت کو قبول کرتے ہیں۔ شہادت پہلی محبت کا دفاع کرنا ہے جوخدا نے ہمیں دی ہے۔ یہ ہمارے انسانی جذبات کی پیداوار نہیں ہے ، بلکہ اِس کی بجائے حقیقت پر ایمان ہے کہ خدا نے ہماری کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود ہمیں اپنی تمام نعمتیں عطا کیں ہیں۔ یہ ہماری خواہش کی طاقت سے نہیں ہے کہ ہم شہید ہوسکیں ، بلکہ یہ اپنے خدا کی عظمت پر ہمارےایمان سےہے۔
یقیناً،ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے مُلک یا نظریہ کے لئے شہید ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے راسخ عقیدے پر نہ جھکنے والے ایمان کو صحیح سمجھتے ہیں اور یہاں تک کہ اِس کی خاطر اپنی جانیں دینے کو تیار ہیں۔ لیکن ہمارے بارے میں کیا خیال ہے؟ خدا کے وہ بچے جو پانی اور رُوح کے ذریعہ یسوع مسیح میں اپنے ایمان کے ذریعے نئے سرےسے پیدا ہوئے ہیں وہ کیسے شہید ہوسکتے ہیں؟ ہم شہید ہوسکتے ہیں کیونکہ ہم خوشخبری کے لئے بہت شکر گزار ہیں جس کے ساتھ ہمارےخُداوند نے ہمیں پیار کیا اور بچایا ہے۔ کیونکہ خدا نے ہماری بےشمار کوتاہیوں کے باوجود ہمیں قبول کِیا ہے ، کیوں کہ اُس نے ہمیں رُوح القدس عطا کِیا ہے ، اور اِس لئے کہ اُس نے ہمیں اپنے لوگ بنایا ہے اور ہمیں اُس کی موجودگی میں ہمیشہ رہنے کے لئے برکت دی ہے ، ہم اُسے کبھی بھی ترک نہیں کرسکتے ہیں۔
خدا نے ہم سے نئے آسمان اور زمین کا وعدہ بھی کِیا ہے ، اور اِسی اُمید کے لئےہی ہم اپنے ایمان کو ترک نہیں کرسکتے ہیں۔ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کیا ہوتا ہے— حتیٰ کہ اگر مخالفِ مسیح آخری وقت میں ہمیں دھمکیاں دیتااور موت تک ایذا رسانی دیتا ہے— ہم اپنے خُداوند اور اُس کی پانی اور رُوح کی خوشخبری سے کبھی انکار نہیں کرسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ہمیں مخالفِ مسیح کے پاؤں پر گھسیٹا اور موت کے گھاٹ اُتار دیا جائے توبھی ،ہم خدا کے فضل اور محبت سے کبھی بھی پھِر نہیں سکتے جس نے ہمیں بچایا ہے۔ جیسا کہ کہاوت ہے ، حتیٰ کہ "ہماری لاشوں پر بھی نہیں" ہم خداوند کے ساتھ غداری کریں گے۔ ہم دوسرے کام کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں ، لیکن ایک ایسی چیز ہے جس سے ہم کبھی بھی شکست نہیں کھائیں گے: ہم مسیح کی محبت کو نہ تو چھوڑیں گے اور نہ ہی غداری کریں گے جس نے ہمیں بچایا ہے۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ مخالفِ مسیح ہم پر رحم کرے گا کیوں کہ ہم کوتاہیاں رکھتے ہیں؟ بالکل نہیں! وہ لاپرواہی نہیں کرسکتا! لیکن ہمارے خُداوند نے ہماری تمام تر مشکلات کو خود پر اُٹھا کرہمیں مکمل اور کامل بنایا اورہماری جگہ اُس کی عدالت ہوئی۔ قطع نظر اس سے کہ ہم کتنے ہی کمزور اور ناکافی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم خداوند کی نجات کی محبت کو نہیں چھوڑ سکتے جس نے ہمیں پانی اور رُوح کی خوشخبری کے ذریعے نجات بخشی ہے ، اور کیوں ہم اِس پہلی محبت میں اپنے ایمان کو ترک نہیں کرسکتے ہیں۔ کسی بھی چیز کو ترک نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ ہم اِسے پہلے اپنے دلوں میں ترک نہ کریں۔
اِسی طرح ، اگر ہم اپنے ایمان کو اپنے دل کی گہرائیوں میں رکھتے ہیں تو ، ہم اپنے ایمان کا بہت حد تک دفاع کرسکتے ہیں ، چاہے ہمیں کتنی ہی دھمکیوں ، لالچ یا جبر کا سامناکرنا پڑے۔ اگر ہم اپنے دلوں میں ہمارے لئے خدا کی انمول محبت کو جانتے ہیں ، اور اگر ہم اِس محبت کو آخری دم تک تھام لیتے ہیں تو ، ہم آخری دن تک خوشخبری کا دفاع کرسکتے ہیں۔ اُن لوگوں کے لئے جو ایمان میں چلتے ہیں ، شہادت کو گلے لگاناکبھی مشکل نہیں ہے۔
ہم سب کو اپنی شہادت کے امکان پر کچھ سنجیدہ سوچ رکھنی چاہیے۔ شہادت صرف درد اور اذیت برداشت کرنا نہیں ہے۔ ہمارا جسم ایسا ہے کہ سوئی کا تھوڑا سا بھی چبھونا ناقابل برداشت درد لا سکتا ہے۔ایسی جسمانی تکلیفوں کا مقابلہ کرنا شہادت کےمتعلق نہیں ہے۔ بلکہ ، شہادت آپ کا اپنی جان دینے کے بارے میں ہے۔ محض جسمانی تکلیفوں کا شکار نہیں ، بلکہ حقیقت میں اپنی زندگی گنوانا ہی شہادت کے متعلق ہے۔ جب مخالفِ مسیح یہ مطالبہ کرے گا کہ ہم اُسے پکاریں اور خدا کی حیثیت سے اُس کی عبادت کریں تو، ہم اپنی موت تک انکار کریں گے۔ کیونکہ صرف خداوند ہمارا خدا ہے اور وہ واحدہماری عبادت کا مستحق ہے ، یہ صرف اتنا ہی مناسب ہے کہ ہم اُس کے نام کے دفاع کے لئے شہید ہو جائیں گے۔ ہم اِس ایمان کوکسی بھی چیز کے لئےبدل نہیں سکتے ہیں۔
کیا مخالفِ مسیح ، جو خدا کا انکار کرتا ہے اور خدا کے معبود کی حیثیت سے عبادت کرنے کا مطالبہ کرتا ہے ، واقعتا ًاِس کی عبادت کا مستحق ہے؟ بالکل نہیں! دُنیا اور کائنات کو تخلیق کرنے کا اختیار صرف خدا ہی کے پاس ہے۔ زندگی اور موت پر اکیلے اُس کا اختیار ہے ، وہ تنہا بےعیب ، بے گناہ ، اور تمام مخلوقات سے پہلے مکمل طور پرراستباز ہے ، اور وہ واحد اختیار رکھتاہے کہ وہ دنیا کے سارے گناہوں کو دور کرے۔ پھر مخالفِ مسیح کا کیا ہوگا؟ مخالفِ مسیح کے پاس صرف ایک چیز ہے دنیاوی طاقت۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اُس کے لئے اپنےخُداوند کو نہیں بدل سکتے ہیں ، اور یہی وجہ ہے کہ ہم کبھی بھی خداتعالیٰ پر اپنے ایمان کے ساتھ پھِر نہیں سکتے ہیں۔
خدا ہی وہ ہے جو یقیناً ہمیں ہمیشہ کے لئے خوش رکھے گا۔ وہ اُن لوگوں کو جلالی بدنوں میں زندہ کرے گا جو یسوع مسیح پر ایمان رکھ کر بے گناہ بنائے جاچُکےہیں اور اُن کے لئے ہزارسالہ بادشاہی اور نئے آسمان اور زمین کے دروازے کھول دے گا۔ لیکن مخالفِ مسیح کے سامنے جھکنے والوں کو دائمی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا اور شیطان کے ساتھ جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ یہ کرنا سب سے بے وقوف ہوگا اگر ہم عارضی تکلیف اور ایذارسانی کے ڈر سے مخالفِ مسیح کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنی دائمی خوشیوں کو پھینک دیتے ہیں ۔ اس حقیقت کو جانتے ہوئے ، جو لوگ اپنے دلوں میں پانی اور رُوح کی خوشخبری پرایمان رکھتے ہیں وہ دلیری کے ساتھ مخالف ِمسیح کے خلاف کھڑے ہوں گے ، شہید ہوجائیں گے ، اور اُن کی قربانی کے انعام کے طور پر ابدی خوشیاں حاصل کریں گے۔
آپ اور مَیں ، ہم سب کو شہید ہونا ہے۔ کوئی غلطی نہ کریں: جب کالےگھوڑے کا دور ختم ہوجائے گا ، زردگھوڑے کا دور آجائے گا ، اور پھر ، مخالف ِمسیح کا ظہور ہوگا اور سات نر سنگوں کی آفتیں شروع ہوں گی۔ مخالف ِمسیح یقینی طور پر اُٹھے گا ، ہم مقدسین یقینی طور پر شہید کردئیےجائیں گے ، اور ہمارے جی اُٹھنے کے ساتھ ہی ہم یقینی طورپر اُٹھا لئےجائیں گے۔ اور ہم یقینی طور پر ایک ہزار سال کی بادشاہی میں داخل ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سب خوشی سے شہید ہوجائیں گے جب مخالف ِمسیح ہم پر ایذارسانی کرےگااور ہماری موت کا مطالبہ کرےگا ۔
کلاسک فلموں میں سے ایک ، کیو وادِس (Quo Vadis )نے بہت سارے مسیحیوں کی تصویر کشی کی ہے جنہوں نے اپنے ایمان کے دفاع کے لئے اپنی جانیں نچھاور کیں اور حمد کے گیت گائے اور حتیٰ کہ اُنھیں موت کی سزا دی گئی تھی۔ یہ فلم بذاتِ خود ایک افسانہ ہے ، لیکن اِس کا تاریخی پس منظر تمام سچ ہے —یعنی، بہت سے مسیحیوں نے اپنے ایمان کا دفاع کرنے کے لئے اپنی جانیں دیں۔ انہوں نے ایسا کیوں کِیا؟ کیونکہ رومن حکام نے اُن سے جو مطالبہ کِیا —خدا کا انکار کریں ، اُس کی بجائے دوسرے معبودوں کی پوجا کریں، اور اپنےایمان کو ترک کریں—ایسی چیز نہیں تھی جسے وہ قبول کرسکتے تھے۔
اگر وہ رومن شہنشاہوں کے مطالبہ کے مطابق اپنے خدا کو بدل چکے ہوتے تو ،وہ سب کچھ بدل چکےہوتے۔ شہنشاہ اُن کا دیوتا بن جاتا ، اُن کو اپنی جابرانہ حکومت کے تابع کر دیتا ، اور وہ جنگ میں اُس کے پیادوں کی طرح مر جاتے۔ نہ تو وہ گناہ سے نجات پائیں گے ، اور نہ ہی وہ نئےآسمان اور زمین میں داخل ہونے کےقابل ہوسکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ایمان سے پھِر نہیں سکے اور اِس کے بجائے خوشی اور حمد کےساتھ اپنی یقینی موت کا سامنا کرنے کا انتخاب کِیا۔ حتیٰ کہ وہ مرتے ہوئے بھی خُداوند کی حمد کے گیت گاسکتے تھے کیونکہ اُن کی اُمید اُن کی موت کے درد سے کہیں بڑی تھی۔
پانی اور رُوح کی خوشخبری کا دفاع کرنا ہمارے لئے بالکل ضروری ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اُمید کے ساتھ زندگی گزاریں ، یہ ایمان رکھتے ہوئے کہ ہماری موت خوشی اور جلال سے بھری ایک نئی دُنیا میں ابدی زندگی کی منتظر ہے۔
کیا آپ نے کبھی خُداوند کے لئے تکلیفیں برداشت کیں ہیں؟ کیا آپ نے کبھی اپنی غلطیوں یا خامیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ خداوند کی خاطر واقعتا ً تکلیف اُٹھائی ہے؟ اگر ہماری تکلیف خُداوند کے لئے ہے تو ، ہمارے سارے درد حتیٰ کہ زیادہ خوشی میں بدل جائیں گے۔ جیسا کہ پولوس رسول نے اِس خوشی کا اظہار کِیا ، "کیونکہ میری دانِست میں اِس زمانہ کے دُکھ درد اِس لائق نہیں کہ اُس جلال کے مُقابل ہوسکیں جو ہم پر ظاہر ہونے والا ہے" (رومیوں ۸: ۱۸)۔ کیونکہ جلال کی خوشی جو ہمارے اندر ظاہر ہوگی وہ خداوند کے لئےہمارے دُکھ درد سے کہیں زیادہ ہے ، ہمارے تمام موجودہ دُکھ ہمارے ایمان کی عظیم خوشی اورشادمانی کے نیچے دفن ہو جائیں گے۔
دوسرے لفظوں میں ، ابتدائی کلیسیا کے مقدسین اور شہداء اپنے درد کو دور کرسکےاور خُداوندکے لئے اپنی جانیں دے سکے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جو خوشی اُن کا انتظار کر رہی ہے وہ اُن کے موجودہ دُکھوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اُن کی شہادت تکلیف کا برداشت کرنا اور ایذارسانی کا سہنا اُن کی قابلیت کا نتیجہ نہیں تھی ، بلکہ اُن کی اُس جلال کے لئے اُمید تھی جواُن کا منتظرتھا۔
عام طور پر ، لوگ اِس تکلیف کو یہ سوچ کر برداشت کرتے ہیں کہ اُنہیں صرف اِسی کے ساتھ گزرکرنا ہے۔ یہ ایک مشکل اور تھکا دینے والی جنگ ہے۔ جب اُن کی برداشت مایوس کن نتائج لاتی ہے تو ، اُن کی مایوسی اور بھی بڑھ جاتی ہے—وہ تمام دُکھ کچھ بھی نہیں ہیں! لیکن ہمارے مسیحیوں کے لئے، ہمارے صبرکی خوشیاں اور شادمانی عظیم بن جاتی ہے ، کیوں کہ ہم اپنی اُمید اور انعام کی یقین دہانی میں بےخوف ہیں۔ اگر ہم اُس کےوفادار خادمین کی حیثیت سے اپنے پورے دل سے خداوند کی خدمت کے لئے اپنے ذہن مرتب کرتے ہیں تو ، ہم جانتے ہیں کہ جو خوشی اور راحت ہماری منتظر ہے وہ ہماری موجودہ قربانیوں کے درد سے کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ تمام مشکلات اِس خوشی میں دفن ہیں ، اِس لئے ہم سب اپنی زندگیاں خداوند کے لئےجی سکتے ہیں اور یہاں تک کہ اُس کی خاطر اپنی شہادت کو گلے لگا سکتے ہیں۔
لوگوں میں رُوح ، جذبات ، خیالات اور ایمان ہوتا ہے۔ نئے سرے سےپیدا ہونے والی جانوں کے لئے، کیونکہ ہمارےخُداوند کی رُوح اُن میں سکونت کرتی ہے ، اُن کاراستبازی کے لئے ایذارسانی برداشت کرنا ہی اُنھیں جلال کے لئے ناقابل بیان خوشی اور شادمانی دے سکتا ہے جو اُن کی منتظر ہے۔ لیکن اگر وہ پہلی محبت چھوڑ دیتے ہیں تو ،خُداوند چراغ دان کو ہٹانے سے دریغ نہیں کرے گا۔
اگر وہ لوگ جو خوش دلی سے پانی اور رُوح کی خوشخبری پر اپنے سارے دل اور جانوں سے خدمت کر رہے ہیں ،ایساکرنا چھوڑدیں تو ،اِس کا مطلب صرف یہ ہوسکتا ہے کہ اُنہوں نے خوشخبری کی خدمت کی خوشی کو آہستہ آہستہ چھوڑ دیاتھا ، اپنی پہلی محبت کو، چاہے وہ اِس خوشخبری کو پوری طرح سے نہیں چھوڑتے۔ وہ اب بھی اپنے ذاتی ایمان پر قائم رہ سکتے ہیں ، لیکن اگر وہ اب خوشخبری کی منادی کرنےمیں فخر محسوس نہیں کرتے اور اب اِس کے بارے میں واضح سمجھ نہیں رکھتے کہ نجات پانے کےلئےکیا ضروری ہے — کہ صلیب پرخون نجات کے لئےکافی نہیں ہے تو —پھر اُن کا ایمان کمزور ہوجائے گا ، اور اُن کی شہادت اُن کے لئے ناقابل رسائی ہوجائےگی۔ خدا تب اُن کے چراغ دان کو اُسکی جگہ سے ہٹا دےگا۔
خوشی اور ثابت قدمی سے خوشخبری کی خدمت کرنے والے خوشی سے شہادت قبول کر سکیں گے کیونکہ اُنہوں نے اپنی پہلی محبت کبھی نہیں چھوڑی ہوگی۔ کیونکہ یہ لوگ خدا کی طرف سے مسیح کی محبت پر ایمان رکھنے اور اِس کی منادی کرنے میں بابرکت تھے ، ان کو شہید کیا جاسکتا ہے۔ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ کتنے قابل یا ذہین ہیں؛ اگر آپ پانی اور رُوح کی خوشخبری نہیں پھیلاتے ہیں تو ،کلیسیاکو اُسکی جگہ سے ہٹا دیا جائے گا۔ یہ ایک اہم پیغام ہے کہ خدا چاہتا ہے کہ ہم اِسے سمجھیں۔ اگر ہمیں اِس حقیقت کا ادراک اور اِس پر یقین ہے تو ، ہم آخری وقتوں میں اپنے دلوں کو نیا کرسکتے ہیں اور خُداوندکے نام کے لئے شہید ہونے کے اہل ہو سکتے ہیں۔
وہ بنیادی جوہر کیاہے جو ہمارے ایمان کو سنبھالتا ہے؟ یہ پانی اور رُوح کی خوشخبری ہے۔ اگر یہ پانی اور رُوح کی خوشخبری نہ تھی تو، ہمارے ایمان کے کاموں کا کیا فائدہ ہوگا؟ ہمارے اپنے ایمان کو برقرار رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ خدا نے ہم سے پیار کِیا ہے اوراپنی پانی اور رُوح کی خوشخبری کے ساتھ ہمیں اپنے بازوؤں سے گلے لگا لیا ہے۔ چونکہ یہ محبت لاتبدیل محبت ہے جو ہمیں جلال دیتی ہے ، ہم اپنے ایمان کو برقرار رکھنے اور اِس کی منادی کرنےاور اِسے پھیلانےکےقابل ہیں ۔
ہماری کمزوریوں کے باوجود ، ہم خدا کی طرف آخر تک بھاگ سکتے ہیں ، کیونکہ پانی اور رُوح کی خوشخبری نے ہمیں بچایا ہے ، اور اِس لئے کہ اس خوشخبری میں مسیح کی محبت پائی جاتی ہے۔ ہم کوتاہیوں سے بھرے پڑے ہیں ، لیکن چونکہ ہم پانی اور رُوح کی خوشخبری جو ہمارے خُداوند کی محبت سے بھری ہوئی ہے ، ملبوس ہوچکےہیں ، ہم اپنے بھائیوں ، بہنوں ، خدا کے خادمین اوردُنیا کی تمام رُوحوں سے محبت کرسکتے ہیں۔ بنیادی طور پر ، کامل محبت انسان کی رسائی سے باہر ہے۔ کیونکہ ہمارے درمیان کوئی پیار نہیں ہے ، ہم کسی اَور سے محبت کرنے کے قابل نہیں ہیں بلکہ خود غرضی میں صرف اپنےآپ سے۔ بہت سارے لوگ اِس سطح زمین پر ظاہر ہونے والی چیزوں سے دھوکہ کھا رہے ہیں ، چمکتے ہوئےاگواڑے کی طرف لبھاتے ہوئے جو صرف سَرسَری ہے۔ وہ لوگوں کواُن کےپاس کیا مادی اور ظاہری املاک ہیں کےمطابق پرکھتےہیں۔ لیکن سچےایمانداروں میں خدا کی محبت ہے۔ یہ وہی چیز ہے جو ہمیں ہمارے خداوند کی کامل محبت ، خوشخبری پھیلانے کے قابل بناتی ہے۔
ہمارا خُداوند اِس زمین پر آیا ، ہماری تمام کوتاہیوں کو قبول کرنے کے لئے بپتسمہ لیا ، اور ہمیں
بچانے کے لئےہمارے تمام گناہوں سے پاک کِیا۔ پھر ، ہم کبھی بھی اُس کی پہلی محبت کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں جس نے ہمیں خدا کے فرزند بنا دیا ہے؟ ہم بہت سارے پہلوؤں میں کم پڑسکتےہیں، لیکن ہمیں کبھی بھی اِس سچائی پر اپنے ایمان میں کمی نہیں کرنی چاہئے۔ ہمیں اِس خوشخبری کی منادی اپنے پورے ایمان کے ساتھ کرنی چاہیے۔ایذارسانی کے وقت جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہوگی وہ پانی اور رُوح کی خوشخبری پر یہی ایمان ہے۔ جب ہم آزمائشوں اور پریشانیوں کا سامنا کرتے ہیں تو ، اپنے ایمان کا دفاع کرنے اور مشکلات پر غالب آنے کی طاقت صرف پانی اور رُوح کی خوشخبری پر ایمان سے آئے گی۔ اِس خوشخبری کی طاقت سے ہی ہمارے چہرے خوشی سے چمک سکتے ہیں حتیٰ کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں جن بے شمار جدوجہدوں کا سامنا کرتے ہیں اِن سے تھک جاتے ہیں۔ یہ ہمارےخُداوند کی محبت ہے۔
بعض اوقات لوگ شریعت پرستی کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا نے اُن کے کئے ہوئے کاموں کے لئے اُنہیں برکت دی۔ مَیں ، یقیناً، یہ تجویز نہیں کروں گا کہ یہ سراسر غلط ہے ، کیونکہ خُداوندنے کہا ہے کہ وہ اُن لوگوں سے محبت کرے گا جو اُس سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن اِس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہم نے کیا کِیا ہے بلکہ خدا نے ہم سے ایسی محبت رکھی ہے کہ ہمیں بے گناہ بنا دیا۔ کیونکہ خدا تمام وعدوں کو جانتا ہے جو اُس نے ہم سے کئے ہیں ، اور چونکہ وہ ہمارے سارے گناہوں کو جانتا ہے ، اِسی لئے ، وہ اپنی کامل مرضی اور محبت سے ، ہمیں گلے لگا کر کامل بناتا ہے۔صرف اُس کی برکتوں کی وجہ سے ہی ہم خوشی سے رہ سکتے ہیں۔ یہ ہےکیونکہ خدا نے ہمیں اپنے لوگ اور اپنے خادم بنایا ہے کہ ہم خداوند کے لئے کام کر سکتے ہیں ، اُس کےجلال میں ملبوس ہوسکتے ہیں ، دوسروں کو خوشخبری کی منادی کرسکتے ہیں اور ،جب، وقت آتا ہے تو اُس کے نام کے لئے شہید ہوجاتے ہیں۔ وہ واحد ہے جو ہمیں اِن تمام کاموں کے قابل بناتا ہے۔
کیووادِس(Quo Vadis) میں شہید ہونے والی خواتین کو حمد کےگیت گانے کے لئے ایسی طاقت کہاں ملی حتیٰ کہ اُنہیں موت کی سزا دی جارہی تھی۔ اُنہوں نے ہمارےخُداوند کی محبت میں قوت پا ئی۔ چونکہ مسیح کی محبت بہت عظیم تھی ، وہ شہادت کو حمد کے ساتھ گلے لگاسکے۔
یہی اصول ہماری اپنی زندگیوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ہم اپنی زندگی بسر کرتے ہیں کیونکہ خُداوند نے ہمیں ایسا کرنے کے قابل بنایا ہے؛ یہ ہمارے اپنے کاموں کی وجہ سے نہیں ہے کہ ہم خدا کے فرزندوں اور خادمین کی حیثیت سے زندہ رہتے ہیں۔ ہم نے اِس کے مستحق ہونے کے لئے کچھ نہیں کِیا۔ یہ خدا کی ہمارے لئے لاتبدیل اور کامل محبت ہے اور اِس محبت پر ہمارے ایمان کی بدولت ہی ہم آخر تک اُس کی پیروی کرسکتے ہیں ، حتی کہ ہم کبھی کبھار ٹھوکر کھاتے ہیں۔ یہ طاقت خدا کی طاقت ہے ، ہماری نہیں۔ شہادت صرف اُسی خدا کی محبت سے ممکن ہے جس نے ہمیں کامل بنایا ہے— صرف خدا کے فضل سے ہی ہم شہادت کو قبول کرسکتے ہیں۔ اِس سچائی کو یاد رکھنا ،کہ یہ خدا ہی ہے جو آپ کو شہید ہونے کے قابل بناتا ہے ، اور اپنے آپ کو شہادت کے لئےتیار کرنے کی کوشش میں اپناوقت ضائع مت کریں ، گویا اِس کے بارے میں آپ کچھ بھی کرلیں۔ پانی اور رُوح کی خوشخبری پر صرف ہمارا ایمان ہی ہمیں آخری سانس تک خُداوند کی حمد کے قابل بنائے گا۔
خداوند نے آسیہ کی سات کلیسیاؤں سے فرمایا: "جو غالِب آئے مَیں اُسے اُس زِندگی کے درخت میں سے جو خُدا کے فِردوس میں ہے پَھل کھانے کو دُوں گا۔" زندگی کا درخت نئےآسمان اور زمین میں پایا جاتا ہے۔ وہاں خدا کا تخت ہے ، قیمتی پتھروں سے بنے گھر ، اور زندگی کے بہتے ہوئے پانی۔ غالب آنے والوں کے لئے ، خدا نے اُس کے فردوس کا وعدہ کِیا ہے ، جہاں وہ کامل طور پر اُس کے ساتھ ہمیشہ رہیں گے۔
جو لوگ غالب آتے ہیں وہ پانی اور رُوح کی خوشخبری پر اپنے ایمان کے ساتھ ایسا کرتے ہیں۔ اِس
خوشخبری کے علاوہ کوئی بھی دوسری چیز غالب آنا ناممکن بنادے گی ، جو انسان کی طاقت سے نہیں صرف خدا کی طاقت سے حاصل ہوسکتی ہے۔ وہ قوت جو ہمیں غالب آنے کے قابل بناتی ہے وہ صرف خدا کی طرف سے ہے۔ ہمیں اِس کا ادراک اور قدر کرنی چاہئے کہ پانی اور رُوح کی خوشخبری کیسی عظیم ہے اور خدا کی محبت اور اس کی نجات کیسی عظیم ہیں ، کیوں کہ یہی خوشخبری ہمیں شہادت قبول کرنے کا ایمان دے گی۔ ہم سب کمزور ، غیر تربیت یافتہ ، غیر مہذب ، نااہل ، احمق اور جاہل ہو سکتے ہیں ، لیکن ہمارے پاس اب بھی طاقت ہے ، کیونکہ ہمارے دلوں میں پانی اور رُوح کی خوشخبری ہے۔
پانی اور رُوح کی خوشخبری پر ایمان رکھنے والوں کے نام زندگی کی کتاب میں لکھے گئے ہیں۔ دوسری طرف ، جس کا نام زندگی کی کتاب میں درج نہیں ہے ، وہ شیطان کے سامنے گِر پڑے گا اور اُس کےآگے ہتھیارڈال دے گا۔ صرف وہی جن کے نام پانی اور رُوح کی خوشخبری پر ایمان رکھنے کےوسیلہ کتاب حیات میں لکھے گئے ہیں شیطان کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ آپ کو یقینی بنانا ہوگا کہ آپ کا نام واضح اور یقینی طور پر اِس زندگی کی کتاب میں لکھا ہوا ہے۔
جب ہم شہید ہوجائیں گے ، یہ ہمارے ایمان سے ہوگا ، مسیح کی پہلی محبت جو ہمارے خُداوندنے ہمیں دی ہے۔ ہم پریشانی یا خوف کے بغیر اپنی شہادت کا انتظار کر سکتے ہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ ہم میں سکونت کرنےوالا رُوح القدس ہمیں اپنی شہادت کا سامنا کرنے کی طاقت دے گا۔ کیونکہ شہادت کےدُکھوں کا موازنہ آسمان کے جلال سے نہیں کیا جاسکتا جو ہمارا منتظر ہے ، ہم اپنی موت سے خوفزدہ نہیں ہوتے اور اِس کی بجائے دلیری کے ساتھ قیمتی خوشخبری کا دفاع کرنے کے لئے اپنی شہادت کو گلے لگاتے ہیں۔ ہمیں اب کوئی تعجب چھوڑنا چاہئے کہ ہم کس طرح شہید ہوسکتے ہیں ، کیونکہ یہ ہماری کوشش سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سےہے کہ ہم شہید ہوں گے۔
مجھے یقین ہے کہ کسی دن لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ مندرجہ ذیل اعلان کیا جائے گا: "پیارے شہریوں ، نشان حاصل کرنے کا یہ آخری دن ہے۔ آج صرف چند شہریوں کو یہ نشان حاصل کرنا ہے۔ ہم اب تک آپ کے تعاون پر بہت مشکور ہیں۔ نشان حاصل کرنا آپ کے لئے بہت اچھا اور ناگزیر ہے ، کیونکہ یہ ہمارے مُلک کےحکم کوقائم کرنا ہے۔ لہذا ، براہ کرم سٹی ہال میں آئیں اور جلد از جلد نشان حاصل کریں۔ ایک بار پھر میں آپ سے کہتا ہوں ، آپ کے نشان حاصل کرنے کا یہ آخری دن ہے۔ آج کے مقررہ وقت تک جو نشان حاصل نہیں کریں گے اُنھیں سخت سزا دی جائے گی۔ اب ، یہ واضح کرنے کے لئے ، میں اُن لوگوں کے نام لوں گا جنہوں نےابھی تک نشان حاصل نہیں کِیاہے۔" یقیناً ، یہ ایک افسانہ ہے ، لیکن ایسی چیزیں مستقبل قریب میں ضرور ہوں گی۔
ابتدائی کلیسیا کے ایمانداروں نے مچھلی کے نشان سے ایک دوسرے کی شناخت کی۔ اُن میں یہ شناختی نشان تھا۔ ہم ،بھی، بلکہ ایک نشان بنائیں گے جو ہمیں اپنے بھائیوں اور بہنوں کو پہچاننے کے قابل بنائے ، تاکہ ہم ایک دوسرے کے ایمان کی اتنی حوصلہ افزائی کرسکیں کہ وہ شہادت قبول کرسکیں۔
کیونکہ شہادت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے ہم اپنی کوشش سے حاصل کرسکیں ، ہم اپنی پریشانیوں کو ایک طرف چھوڑ سکتے ہیں اور ڈھٹائی کے ساتھ اِس کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ ہماری راستباز موت کےآگے کسی قسم کےخوف کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں وہ سب جو کرنا ہے اِس زمین پر رہتے ہوئے خداوند کے لئے زندہ رہنا ہے۔ ہم اپنے آپ کو خداوند کے حوالے کر سکتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے خدا کے نام کے لئے شہید ہونا ہمارا مقدر ہے۔ آپ کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ اگر آپ نے اپنا مال ضائع ہونے کے خوف سے شہادت سے بچنے کی کوشش کی تو ،آپ کو اِس سے بھی زیادہ دُکھوں اور تباہیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آپ کو لازمی طور پر ایمان کےلوگ بننا چاہئے ، جو یہ جانتے ہوئے کہ وہ مسیح کے لئے شہید ہو جائیں گے ، خداوند کے لئے اپنی زندگیاں اپنے آخری انجام تک گزاریں گے۔
جب ہمیں یہ احساس ہوگا کہ ہم شہید ہو جائیں گے ، تو ہم اپنے ایمان ، ذہن اور اپنی اصل
زندگیوں میں زیادہ سمجھدار ہوجائیں گے۔ یہ علم ہماری حماقتوں کا علاج ہے ، ہمارے سارےدنیاوی کاہلی لگاؤ کو پیچھے چھوڑ نےکی اجازت دیتاہے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیں اپنی جانیں ترک کرنی ہوں گی ، بلکہ یہ کہ ہم خداوند کے لئے زندہ رہیں گے۔ جب تک کہ خدا کی طاقت شیطان کو اتھاہ گڑھے میں نہیں پھینک دیتی ہے ، ہم اُس خداوند کے لئے زندہ رہتے ہیں جس نے ہمیں بچایا ، شیطان اور مخالفِ مسیح کے خلاف لڑااور ان پر غالب آیا، اور فتح کا سارا جلال خدا اور اُسی واحدکو ملے۔ خدا ہم سے جلال حاصل کرنا چاہتا ہے۔ مَیں خداوند کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اُس نے ہمیں ہمارے ایمان کے ساتھ دینے کی اجازت دی ، اُسے جلال دیتا ہوں جو ہمیں اتنا کچھ عطا کرچکاہے ۔
ہمیں یقین ہے کہ خداوند جلد ہی ہمیں لے جانے کے لئے واپس آئے گا۔ جب بہت ساری جانیں آخری وقت میں خدا کی طرف لوٹ جائیں گی ، خدا اُن سب کو اپنے بازوؤں میں لے کر اُن کو لے جائے گا۔ جیسا کہ خُدا نے مُکاشفہ ۳:۱۰ میں فِلدِلفیہ کی کلیسیا سے فرمایا، " چُونکہ تُو نے میرے صبر کے کلام پر عمل کِیا ہے اِس لِئے مَیں بھی آزمایش کے اُس وقت تیری حِفاظت کرُوں گاجو زمِین کے رہنے والوں کے آزمانے کے لِئے تمام دُنیا پر آنے والا ہے۔ " خُدا یقیناً اپنےوعدہ کےکلام کو پورا کرے گا۔
"چُونکہ تُو نے میرے صبر کے کلام پر عمل کِیا ہے، " کےوسیلہ خدا نے مقدسین کی وفادار زندگیوں کا ذکر کِیا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان پر قائم رہتے ہیں اِس سے قطع نظر کہ دوسرے اُن کے ساتھ کیا کر رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں۔ جب خُدا فرماتاہے کہ " آزمایش کے اُس وقت تیری حِفاظت کرُوں گا،" ، وہ کہہ رہا ہے کہ جن لوگوں نے اُس کے حکم کو ثابت قدمی سے قائم رکھا ہے اُن کو ایمان کی آزمائش سے مستثنیٰ کردیا جائے گا۔
جب ایذارسانیوں اور شہادت کا وقت آجائے گا ، دوسرے الفاظ میں ، خُدا سادگی سےہمارےساتھ سرگوشی کرے گا جب ہم وفاداری کے ساتھ اپنی روز مرہ کی زندگی خدمت اور دُعا میں گذاریں گے۔ جب ہم اپنے ذہنوں میں یہ مرتب کریں گے کہ ہمیں شہید ہونا ہے ، تو ہمارے دل گندگی سے صاف ہوجائیں گے ، اور اِس کے نتیجے میں ہمارا ایمان اور بھی مضبوط ہوجائے گا۔ ہمیں اپنی موجودہ زندگی کو خُدا کے سامنے خُدا کے اُس وعدے کو یاد کر کے گزارنا ہے کہ ہماری شہادت کے ساتھ ، ہم سب کو آزمائش کی گھڑی سے دور رکھا جائے گا۔ ہمیں اپنے ایمان سے ،مختصر طور پر، زندہ رہنا چاہئے۔
آج کا دور مُکاشفہ کا دور ہے۔ بہت سارے بے وقوف مسیحی ہیں ، جو خُدا کے کلام کو نظر انداز
کرتے ہوئے ، ایذارسانیوں سے پہلے اُٹھائےجانے کی تعلیمات پر چِپکتےہوئےاپنے جھوٹے ایمان پر رکاوٹ ڈالتے ہیں۔جب آخری دن آئےگا، اُنہیں پتہ چل جائے گا کہ وہ کتنے غلط تھے۔ اُن کے اثر و رسوخ اور طاقت کے دن گنے جاچکےہیں؛ ہمیں جو سب کچھ کرنا ہے وہ صرف اپنی یقینی اُمید کےساتھ رہنا ہے کہ خدا اپنے وعدے کے کلام کو پورا کرے گا۔
جب ہم عظیم ایذارسانیوں کے وسط میں پہنچیں گے تو ، ہم اپنے ایمان کا دفاع کرنے کے لئے شہید ہوجائیں گے ، اور سات پیالوں کی آفتیں شروع ہونے سےتھوڑا پہلے ، خدا کے ذریعہ ہم ہوا میں اُٹھائے جائیں گے ہزارسالہ بادشاہی میں داخل ہوجائیں گے۔ جب ہماری مسیح کے ساتھ حکمرانی کی اُمید پوری ہوجائے گی تو ، اِس زمین پر ہمارے تمام دُکھوں کا بدلہ اُن انعامات سے ہوگا جو ہمارے منتظر ہیں ، اور ہمارا ابدی آسمان اور زمین میں داخل ہوناہمیں ناقابل بیان خوشیوں سے دوچار کر دے گا۔ آج ، ہم ایمان کے ساتھ ، خُداوند کے لئے ، خُدا کے اُس وعدے کی تکمیل کی اُمید میں جی رہے ہیں۔ اُس کے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے اپنے خُداوندپر بھروسہ کرتے ہوئے ، ہم اُس دن کی توقع میں بے تابی کے ساتھ رہتے ہیں جب ہم اُس کے ساتھ اپنے جلالی بدنوںمیں ہمیشہ زندہ رہنے کے قابل ہوں گے۔
میں خُداوند کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اُس نے ہمیں گناہ کی کامل معافی کی خوشخبری دی ، اور ہمیں اُس کی برکت میں کھڑا کرنے کے لئے، اور ہمیں شہادت قبول کرنے کےلئے اُس پر اپنے ایمان کا دفاع کرنے کے قابل بنایا ۔
 
 
اِفسُس کی کلِیسیا کا پس منظر
 
اِفسُس ، سلطنت روم کے آسیہ کوچک خطے کا ایک بڑا بندرگاہی شہر ، تجارت اور مذہبی سرگرمیوں کا ایک مرکز تھا۔ ابتدائی کلیسیاکے وقت ، یہ ایک خوشحال بین الاقوامی شہر تھا؛ اِس کے شمال میں سمُرنا تھا ، اور اِس کے جنوب میں مِیلیتُس تھا۔ فرضی داستان کے مطابق ،لمبی تڑنگی عورت، جنگ کی بہادر دیوی ، نے ۱۲ ویں صدی قبل ازمسیح میں اِس شہر کو سب سے پہلے تعمیر کِیا تھا جب اُس نے اتھینےکے ولی عہد شہزادہ اینڈروکلس کو دیا تھا۔
اِفسُس ، مادی طور پربولتے ہوئے ،مالی طور پر مضبوط شہر تھا ، جس کا مطلب تھا کہ یہ ایک بہت ہی
دنیاوی شہر بھی تھا۔ اِسی لئے خُدا نے اِفسُس کی کلیسیا سے کہا کہ وہ آخر تک لڑیں اور شیطان پر غالب آئیں تاکہ اُس کی پانی اور رُوح کی خوشخبری سے محروم نہ ہو جائیں۔ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ خُدا کا کلام حق کتنا اہم ہے ، اور ہمیں ہر طرح سے اپنے ایمان کا دفاع کرنا چاہئے۔
یوحنا رسول کے ذریعہ ، خُدا نے اِفسُس کی کلیسیا کو لکھا: " کہ جو اپنے دہنے ہاتھ میں سات سِتارے لِئے ہُوئے ہے اور سونے کے ساتوں چراغ دانوں میں پِھرتا ہے وہ یہ فرماتا ہے کہ۔ مَیں تیرے کام اور تیری مشقّت اور تیرا صبر تو جانتا ہُوں اور یہ بھی کہ تُو بدوں کو دیکھ نہیں سکتا اور جو اپنے آپ کو رسُول کہتے ہیں اور ہیں نہیں تُو نے اُن کو آزما کر جُھوٹا پایا۔ اور تُو صبر کرتا ہے اور میرے نام کی خاطِر مُصِیبت اُٹھاتے اُٹھاتے تھکا نہیں۔" اِفسُس کی کلیسیا کی خدا نے اُن کے کام ، صبر ، برائی کو برداشت نہ کرنے اور جھوٹے رسولوں کی آزمائش اور بےنقاب کرنے کی تعریف کی، ثابت قدمی اور صبر کے ساتھ اُس کے نام کی خاطر انتھک محنت کے لئے۔
لیکن اِفسُس کی کلیسیا کی اُن کی غلط کاریوں پر سرزنش بھی ہوئی۔ جیسے عبارت جاری ہے: "مگر مُجھ کو تُجھ سے یہ شِکایت ہے کہ تُو نے اپنی پہلی سی مُحبّت چھوڑ دی۔پس خیال کر کہ تُو کہاں سے گِرا ہے اور تَوبہ کر کے پہلے کی طرح کام کر اور اگر تُو تَوبہ نہ کرے گا تو مَیں تیرے پاس آ کر تیرے چراغ دان کو اُس کی جگہ سے ہٹا دُوں گا۔ البتّہ تُجھ میں یہ بات تو ہے کہ تُو نِیکُلیوں کے کاموں سے نفرت رکھتا ہے جِن سے مَیں بھی نفرت رکھتا ہُوں۔ جِس کے کان ہوں وہ سُنے کہ رُوح کلِیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے ۔ جو غالِب آئے مَیں اُسے اُس زِندگی کے درخت میں سے جو خُدا کے فِردوس میں ہے پَھل کھانے کو دُوں گا۔"
مذکورہ بالا عبارت میں یہ کہا گیا ہے کہ خُدا نِیکُلیوں سے نفرت کرتا ہے۔ یہاں نِیکُلیوں ایمانداروں کے ایک مخصوص گروہ کا حوالہ دیتے ہےجو خُدا کے خلاف کھڑا ہوا تھا ، اُس کی کلیسیااور اُس کی سچائی کے خلاف۔ بالکل ٹھیک نِیکُلیوں نے جو کِیا اُس کے بارے میں تفصیل کے ساتھ پرگُمن کی کلیسیا کی طرف آنے والے بعد کے حوالہ میں مزید تفصیل سے بیان کِیا گیا ہے۔
 
 
نِیکُلیوں کی غلط کاریاں
 
مُکاشفہ ۲:۱۴ میں کہا گیا ہے ، " لیکن مُجھے چند باتوں کی تُجھ سے شِکایت ہے ۔ اِس لِئے کہ تیرے ہاں بعض لوگ بلعا م کی تعلِیم ماننے والے ہیں جِس نے بلق کو بنی اِسرائیل کے سامنے ٹھوکر کِھلانے والی چِیز رکھنے کی تعلِیم دی یعنی یہ کہ وہ بُتوں کی قُربانِیاں کھائیں اور حرام کاری کریں۔" اِس عبارت کا باہمی حوالہ گنتی کی کتاب کے باب ۲۲ میں ملتا ہے ، جہاں موآبیوں کے بادشاہ ، بلق کی کہانی درج ہے۔
اُس وقت جب مصر سے خروج کے بعد اسرائیلی کنعان میں موآب کے میدانوں میں پہنچ چکے
تھے، اُنہوں نے اِس زمین کے سات قبیلوں کو فتح کرلیا تھا ، "جَیسے بَیل میدان کی گھاس کو چٹ کرجاتا ہے۔" اِس فتح کے بارے میں سُن کر بلق اُن کے خُدا سے گھبرا گیا ، کیوں کہ اُس کو خدشہ تھا کہ موآبیوں کی قسمت بھی کنعان کے پہلے ہی فتح شدہ قبائل کی پیروی کرے گی۔ بنی اسرائیل کو فتح حاصل کرنے سے روکنے کے لئے کوئی تدابیر اختیار کرنے کی کوشش میں ، بلق نے بلعام ، ایک جھوٹے نبی کوطلب کِیا ، تاکہ وہ اُس کی خاطر بنی اسرائیل پر لعنت کرے۔
بلعام ایک جھوٹا نبی تھا ، لیکن غیر یہودی یہ خیال کرتے تھے کہ وہ خدا کا خادم ہے۔ وہ نہ تو سردارکاہن ہارون کی اولادمیں سے تھا اور نہ ہی لاوی۔ لیکن موآبیوں کے بادشاہ ، بلق ، کو یقین تھا کہ وہ جنہیں بلعام برکت دے ، اُ نہیں برکت ملےگی ، اور جن پروہ لعنت کرےوہ ملعُون ہوں گے۔ اُس وقت ، بلعام ، اگرچہ ایک جھوٹا نبی تھا ، ایک مَعروف جادوگر کے طور پر پورے مُلک میں مشہور تھا۔
لیکن بلق بادشاہ نے بلعام کو جو کچھ کرنے کو کہا وہ اُس کا پابند نہیں ہوسکتا تھا۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ بنی اسرائیل خُدا کے لوگ تھے، نہ صرف بلعام کو خُدا کی طرف سے اسرائیلیوں پر لعنت کرنےکی کوئی اجازت نہیں ہوگی، بلکہ ایسا کرنے کی کوشش بھی صرف اپنے آپ پر ایک لعنت کی طرح ہوگا۔ خُدا کی روحانی طاقت سے مغلوب ، بلعام حقیقت میں بنی اسرائیل کو برکت دینے کے سوا کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ اِس سے ناراض ہوئے ، تب بلق نے بلعام سے کہا کہ وہ اسرائیلیوں پر لعنت کرے جہاں سے وہ اُن کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔
بلعام نے بلق سے خزانےکی بہت بڑی مقدار وصول کی اور بدلے میں اُسےبنی اسرائیل پر لعنت کرنے کا ایک طریقہ سکھایا۔ طریقہ یہ تھا کہ وہ اُنہیں حرامکاری کرنے کے لئے موآبیوں کی قربانیوں میں آنے کی دعوت دے اور اُنہیں اپنی عورتیں مہیاکرے، تاکہ بنی اسرائیل کو خُدا سے اُن کے گناہوں کی سزا مل سکے۔یہ ہے کس طرح جھوٹے نبی بلعام نے بلق کو بنی اسرائیل کو تباہ کرنے کی تعلیم دی۔
خُدا نے کہا کہ وہ بلعام سے نفرت کرتا ہے کیونکہ بلعام پیسوں سے محبت کرنے والا شخص تھا۔ آج کی مسیحی برادری میں بہت سے لوگ ہیں جو بلعام کی طرح ہیں۔ وہ تمام در حقیقت جھوٹے نبی ہیں ، لیکن اِن میں سے بہت سارے اب بھی قابلِ احترام اور تعظیم ہیں۔ لیکن بلعام نے جس چیز کا تعاقب کِیا وہ مادی مال تھا۔ جب اُسے پیسہ کھلایا گیا تو؛ اُس نے برکت دی؛ جب وہ نہیں تھا ، اُس نے لعنت کی۔ آج کی مسیحی برادری میں ، افسوس کی بات یہ ہے کہ، ان میں سے بہت سے لوگ جو خُدا کے خادمین سمجھے جاتے ہیں بالکل بلعام کی طرح ہیں۔ جب خُدا پر ایمان رکھنے والے صرف مادی فوائد کی پیروی کرتے ہیں تو ،وہ جھوٹے نبیوں کی طرح ختم ہوجاتے ہیں۔ یہ ہے کیوں خُدا نِیکُلیوں سے نفرت کرتا تھا۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ خُدا کی کلیسیا اور اُس کے خادمین میں کون سی چیز تباہی لاتی ہے؟ یہ پیسے کی محبت ہے۔ وہ لوگ جو اپنی نظروں کے سامنے صرف مادی فوائد رکھتے ہیں اُنہیں خُدا کے سامنے اپنی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
 
 
کلیسیائیں جو بلعام کی پیروی کرتی ہیں
 
آج ، جیسا کہ رسولوں کے زمانے میں ، بہت ساری دنیاوی کلیسیائیں اور جھوٹے خادمین بلعام کے راستے پر چل رہے ہیں۔ وہ اپنی عیاشی کے لئے اپنے پیروکاروں سے ہر طرح سے پیسہ حاصل کرنے کے لئے ختم ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ، جماعت میں اُن کے درمیان مقابلہ کرنےکی یہ عجیب مہم ہےکہ اُن کے ایمان کی تصدیق اُنکی روحانیت کے ذریعہ نہیں بلکہ اُن کےدنیاوی ہدیوں کے ذریعہ کی جائے، گویا کسی ایماندار کا ہدیہ اُس کے ایمان کی پیمائش کا آلہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ کلیسیامیں زیادہ ہدیہ دینے والوں کا ایمان اُن لوگوں کے ایمان سے زیادہ ہے جو کم دیتے ہیں ، اِس بدعنوان مہم کو فروغ دینے کا واحد مقصد گرجاگھرکومالداربنانا ہے۔
اگر ایماندار اپنے خلوص دلوں سے خُدا اور اُس کی خوشخبری کی خدمت کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو یہ واقعی ایک حیرت انگیز بات ہے۔ لیکن بلعام جیسے جھوٹے نبی ایمانداروں کو اپنا پیٹ بھرنے کےلئےشکار بناتے ہیں۔ وہ اپنے پیروکاروں کو مادی گواہیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اُ کساتے ہیں جیسے ، "میں نے دسواں حصہ وفاداری کے ساتھ پیش کِیا ، اور خُدا نے میرے کاروبار کے ذریعہ مجھے دس گنا برکتوں سے نوازا ہے۔" بلعام سے دھوکہ کھاتے ہوئے ، بےگمان ایمانداروں کا خیال ہے کہ یہ سچے ایمان کا راستہ ہے ، جب کہ حقیقت میں یہ اُن کی غربت ، روحانی اور مادی ، جھوٹے فخر اور بالآخراُن کی اپنی تباہی کا راستہ ہے۔
"نِیکُلیوں کے کام" بلعام کے کاموں کے علاوہ کوئی اور نہیں ہیں۔ جس طرح بلعام نے اپنے لالچ
میں بلق کو بنی اسرائیل کے سامنے ٹھوکرکھانےکاپتھر کھڑا کرنے کا درس دیا ، بہت سے لوگ جو آج کی مسیحی برادری میں خُدا کے خادم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں صرف اپنی جماعت کی جیب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جو لوگ اُن جھوٹے نبیوں سے گمراہ ہوتے ہیں وہ اپنا سارا مال دولت اُن جھوٹے چرواہوں کے حوالے کرنے کے بعد خالی ہاتھ ہوتے ہوئے ختم ہوجاتے ہیں ، اور حتیٰ کہ اِس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ جلد یا بعد میں وہ ہوش میں آجائیں گے اور اُنھیں احساس ہوگا کہ جس چیز پر اُنہوں نے ایمان رکھا تھا وہ سراسر غلط تھا۔ آخر میں ، وہ جھوٹی کلیسیاکو قصوروار ٹھہرائیں گے اور اپنے ایمان کو ترک کردیں گے۔ بدقسمتی سے ، افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ معاملات کی یہ افسوسناک صورتحال اتنی معمولی بات نہیں ہے ، یہاں تک کہ نام نہاد ایوینجلیکل کلیسیاؤں میں بھی۔ بلعام سے دھوکاکھاتے ہوئے، بہت سے ایماندار اِس فریب کے ذریعہ گمراہ ہوئے اور کلیسیاچھوڑ تےہوئےختم ہوگئے۔
صحائف ہمیں بتاتے ہیں کہ خُدا نیکُلیوں کے کاموں سے نفرت کرتا ہے۔ اگر ہم نیکُلیوں کی پیروی کرتے ہیں تو ،ہم خُدا پر اپناایمان کھو دیں گے۔ ہمارے پاس بہت ساری گواہیاں ہیں جو خُدا نے ہمیں دی ہیں ، اور یہ سب رُوحانی طور پر مالدار بنانے والے خزانے ہیں۔ لیکن گواہیوں کا استعمال کرتے ہوئے مادی فوائد کا تعاقب کرنا ایک ایسی چیز ہے جس سے ہمیں بالکل دور رہنا چاہئے ، کیونکہ یہ نیکُلیوں کا طریقہ ہے جس سے بذاتِ خود خُدا نے نفرت کی۔
 
 

کردارکے ساتھ ایمان

 
خُدا نے آسیہ کی تمام سات کلیسیاؤں کو نیکُلیوں کے کاموں کے خلاف خبردارکِیا۔ اِس کےعلاوہ،
اُس نےاُن سے یہ وعدہ بھی کِیا کہ جو غالب آئیں گے وہ زندگی کے درخت سے کھائیں گے۔ جب ہم خُداوند کی خدمت کرتے ہیں ، تو ہم ایساایمان کے ذریعے کرسکتے ہیں ،کیونکہ اُس کے چھٹکارے کے لئے ہماری شکرگزاری کی وجہ سے ، اور اِس علم کی وجہ سے کہ پانی اور رُوح کی خوشخبری پھیلانا صرف صحیح کام ہے۔ ہم دوسروں کو دکھاوے کے لئے، یا کسی بھی طرح سے اچھےنظر آنے کے لئےخُدا کی خدمت نہیں کرتے ہیں۔ ایسا کرنا نہ تو حقیقی خدمت ہے اور نہ ہی حقیقی ایمان۔ خُدا کی کلیسیا میں ، ہمیں نیکُلیوں کےسے ان کاموں کے بارے میں زیادہ محتاط رہنا چاہئے۔ یہ ہے کیوں خُداوند نے آسیہ کی تمام سات کلیسیاؤں کو نیکُلیوں کے بارے میں خبردار کِیا۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ بہت ساری کلیسیائیں ، جونئےسرےسے پیدا ہونے والی کلیسیائیں نہیں ہیں ، اتنی بکثرت اور اتنی تیزی سے کیوں بڑھی ہیں؟ وہ بڑھ گئے کیوں کہ اُن کی کلیسیاؤں کوجس چیزنے بنایا وہ جھوٹے ایمان اور جھوٹی گواہیاں تھیں۔ خُدا کے خادمین کو اپنے پیٹ بھرنے کے لئے اپنے ریوڑ سے کبھی بھی فائدہ نہیں اُٹھانا چاہئے۔
حقیقی ایمان اُس نجات پر یقین کر رہا ہے جو خُدا نے ہمیں یسوع کے بپتسمہ ، صلیب پر اُس کےخون ، اور ہماری جگہ اُس کی عدالت کے ساتھ دی ہے۔ لیکن بہت ساری کلیسیائیں ، نئےسرےسےپیدا ہوئیں یا اُن جیسی نہیں ، اپنی جماعتوں کی جیبوں پر چھاپے مارنے کے لئے گواہیوں کا استعمال کرتی ہیں۔ آپ کو اتنا محتاط اور دانشمند ہونا چاہئے کہ یہ پہچان لیں کہ جب آپ کے ایمان کے لئے سچی گواہیاں اصلاح کررہی ہیں اور خُدا کی تمجید کر رہی ہیں ، تو جھوٹے ہی آپ کا اپنا پھندا بنیں گے۔
آج کی دُنیا کی تمام امیر ترین کلیسیاؤں کی قیادت خادمین کے ذریعہ ہورہی ہے جو بلعام کی طرح ہیں۔ کلیسیا کے رہنما جو بلعام کے راستے پر چل رہے ہیں وہ اپنی کلیسیاؤں کو صرف اپنے مادی مفادات کو بڑھانے کے لئے اپنے پیروکاروں کا استحصال کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ بلعام جیسے مسیحی رہنما اپنے پیروکاروں سے مادی گواہیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اُ کساتے ہوئے پیسے بٹورتے ہیں۔ مجھے اُن کے کاموں سے انتہا کی نفرت ہے۔
ایمان کی حقیقی زندگی کا آغاز ایمان کے علاوہ کسی اور سے نہیں ہوتا ہے۔ ہمیں نیکُلیوں کے جال سے بچنے کےلئے جو شیطان نے لگایاہےبہت دانشمند ہوناچاہئے۔ سب کو یہ جان لینا چاہئے کہ نیکُلیوں کے کام کیا ہیں ، اور شیطان کے خادمین سے کبھی دھوکہ نہیں کھاناچاہئے جن کے لالچ کی کوئی حد نہیں ہے۔ خدا کے بندوں کو خاص طور پر اِس سلسلے میں انتہائی محتاط رہنا چاہئے۔ اِس میں خادمین بھی شامل ہیں۔ جب خادمین اپنے مادی املاک کے بارے میں حد سے زیادہ فکر مند ہوجاتے ہیں — وہ کون سی کاریں چلاتے ہیں ، اُن کے گھر کتنے بڑے ہیں ، وہ کتنی بڑی جائیداد کے مالک ہیں ، اُن کے بینک اکاؤنٹس کتنے بھرےہوئے ہیں— وہ اپنی کلیسیاؤں کو لُوٹتے ہوئےختم ہوجاتے ہیں، اُنہیں نیچے نیکُلیوں کے راستے پر دھکیلتےہوئے۔
خُدا نے آسیہ کی سات کلیسیاؤں سے کہا کہ وہ اِس مسئلے پر خصوصی توجہ دیں۔ بلعام کے ایمان والا آدمی صرف مادی فوائد ، خودکی شان بڑھانےکی تلاش میں رہتا ہے، اور آخر کار اُس کا ارادہ ہوتا ہے کہ وہ ایک فرقے کا بانی بن جائے۔ خُدا کی کلیسیاکو بذاتِ خود دنیاوی مال و دولت کی تلاش نہیں کرنی چاہئے۔ جیسا کہ خُدا نے ہم سے وعدہ کِیا ہے کہ وہ اُن لوگوں کو برکت دے گا جو پانی اور رُوح کی خوشخبری کا تعاقب کرتے ہیں ، ہمیں اپنے دنیاوی مال و دولت کو خوشخبری کی منادی کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہئے ، اُس کو اِس زمین پر ذخیرہ کرنے کے لئے نہیں۔
 
 

جھوٹے چرواہوں کو مُسترد کریں

 
یہاں تک کہ اگر نئےسرے پیدا ہونے والے مقدسین بھی نیکُلیوں کے جال میں پھنس جائیں تو وہ برباد ہوجائیں گے۔ ابتدا میں وہ یہ سوچ سکتے ہیں کہ ایسے رہنماؤں کا ایمان حیرت انگیز اور مضبوط ہے ، لیکن جھوٹے چرواہوں کی دھوکہ دہی اُنہیں بالآخر اُنکی تباہی کی طرف لے جائے گی۔
خُدا نے اِفسُس کے کلیسیاکےفرشتہ سے کہا کہ وہ نیکُلیوں کے کاموں سے نفرت کرتا ہے۔ ہر وہ شخص جو نیکُلیوں کے جال میں پھنس گیا ہے اُسے اپنی یقینی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چاہے وہ نئے سرےسےپیداہونے والاایماندار، خُدا کا خادم ، یا کوئی اور ہو ، نیکُلیوں کے ذریعہ جال میں پھنس جانا یقینی تباہی ہے۔ جیسے ایک گھٹیا چرواہا ریوڑ کو موت کی طرف لے جاتا ہے ، جھوٹے نبی خودپرلعنت لاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ خُدا نے اپنے خادمین سے کہا کہ "میری بھیڑوں کو چرا۔" خُدا کے خادمین کو ایمانداروں کی دیکھ بھال کرنی چاہیے کیوں کہ چرواہے اپنے بھیڑبکریوں کو پالتے ہیں ، انہیں خطرے سے بچاتے ہیں اور اُن کی ضروریات کو پوراکرتے ہیں۔ چرواہوں کی حیثیت سے ، اُنہیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ اُن کے ریوڑ گمراہ نہ ہوں ، معلوم کریں کہ اُن کےسامنے کون سے خطرات گھات لگا کر بیٹھے ہیں ، اور اُنہیں اِس طرح کے خطرات کے قریب ہونے سے بچانا ہے۔
مَیں نے اُن لوگوں سے سُنا ہے جو دراصل بھیڑ پالتے ہیں کہ وہ ایک انتہائی ضدی جانور ہیں۔ کیا ہم خُدا کے سامنے اُن ڈھیٹ بھیڑوں کی طرح نہیں ہیں؟ خُدا کے پاس ایک اچھی وجہ تھی جب اُس نے ہمیں بیان کرنےکے لئےبھیڑوں کا استعارہ استعمال کِیا ، کیونکہ وہ بخوبی جانتا ہے کہ ہم اپنے بنیادی جوہر میں کتنے ضدی ہیں۔
کیوں خُدا نے بار بار آسیہ کی سات کلیسیاؤں سے نیکُلیوں ، اِیزبِل اور بلعام کے کاموں کی بات کی؟ اُس نے یہ وعدہ کیوں کِیا کہ غالب آنے والوں کو ، وہ زندگی کے درخت میں سے کھانےکودے گا؟ اُس نے ہمیں جھوٹے نبیوں کے فریبوں سے محتاط رہنے کی تعلیم دینے کے لئے ایسا کِیا۔ ہمیں خدا کے کلام پر غور کرنا چاہئے اور اپنے آپ سے پوچھنا چاہئے ، "پانی اور رُوح کی اصل خوشخبری کیا ہے؟" خُدا کے کلام کو کچھ اِنسانی اسباق کے ساتھ ملانا اور احتیاط سے اِس کو ترتیب دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ خوشخبری ہے۔ آج کی مسیحیت میں بہت سارے خوبصورتی سے تیار کیے گئے خطبات ہیں جن کا پانی اور رُوح کی خوشخبری سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بہت سارے مشہور مبلغین یہاں تک کہ اپنے پیشہ ور تقریرلکھنےوالے رکھتے ہیں جواُن کےلئے اپنی طرف سے خطبات لکھتے ہیں ، اور جو کچھ وہ کرتے ہیں وہ کسی اَور کے تیار کردہ متن سے پڑھا جاتا ہے۔
ہمیں کبھی بھی نیکُلیوں کے جال میں نہیں پھنسنا چاہئے۔ نئےسرےپیدا ہونے والی کلیسیا کو مادی فوائد کاتعاقب نہ کرنے کے لئےسب سے زیادہ محتاط رہنا چاہئے؛ خاص طور پر خادمین کو مستقل محافظ رہنا چاہئے ، لیکن جماعت کے ہر فرد کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔ کلیسیاکے اراکین سے پیسے نکالنے کی کوشش کرنا ، کلیسیاکی فضول اخراجات سے آرائش کرنا ، اور کلیسیا کی عمارتوں کو تعمیر کرنا جو عبادت خانوں سے زیادہ محلات کی طرح نظر آتے ہیں —یہ سب منادی کرتے ہیں کہ خداوند کی واپسی قریب ہے! —یہ سب جھوٹے ایمان کے کام ہیں، بالکل نیکُلیوں کے کام۔
ہمیں خاص طور پر جھوٹے چرواہوں کی طرف دھیان رکھنا چاہئے ، اور اِس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ہم اُن کے عقیدے پر چلنے کے لئے کبھی بھی دھوکہ نہ کھائیں۔ مقدسین کو صرف پیسے سے محبت نہیں کرنی چاہئے۔ بلکہ ، وہ چیز جسےسنبھالنا اور پیار کرنا چاہئے وہ پانی اور خون کی خوشخبری ہے ، خدا کی پہلی محبت۔ ہمیں اپنی وفادار زندگیوں کو اس سچائی کو تھامتےہوئے گزارنا چاہئے کہ خُدا ہمیں مسیح کے پانی اور خون کے ذریعہ بچاچکاہے، اُس دن تک جب ہم یسوع سے ملیں گے۔ ہمیں خدا کے کلام پر یقین رکھناچاہئے کہ یسوع نے اپنے بپتسمہ اور صلیب پر اپنی موت کے ساتھ ہمارے سارے گناہوں کو دور کِیا ہے۔
وہ لوگ جو نیکُلیوں کی پیروی کرتے ہیں وہ کبھی بھی پانی اور رُوح کی خوشخبری کی منادی نہیں
کرتے ہیں۔ وہ پانی اور رُوح کی خوشخبری کے کاموں میں دلچسپی نہیں رکھتے ، بلکہ صرف پیسہ بنانے میں۔ یہ آج کے بلعام ہیں ، جس نے بنی اسرائیل کے سامنے ٹھوکرکھانے کا پتھر رکھا اور انہیں تباہی کی طرف لے گیا۔ آپ کو یہ یاد رکھنا چاہئے۔
بلعام آخر کار یشوع سے مارا گیا۔ جیسا کہ یشوع کی کتاب میں لکھا گیا ہے ، یہ جھوٹا نبی یشوع کی تلوار کے نیچے اُس وقت ہلاک ہوا جب اسرائیلیوں نے کنعان فتح کیا۔ بلعام کو مارا گیا کیونکہ وہ خُدا کا حقیقی خادم نہیں تھا۔ وہ تمام لوگ جو مسیح کا نام معصوم ایمانداروں کا استحصال کرنے اور اپنا پیٹ پالنے کے لئے استعمال کرتے ہیں آج کےبلعام ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ بلعام اپنے لالچ کو پورا کرنے کے لئے ہر قابلِ استعمال ذرائع استعمال کرتا تھا۔
خُدا نے اِفسُس کی کلیسیاکے خادموں سے کہا ، "جو غالِب آئے مَیں اُسے اُس زِندگی کے درخت میں سے جو خُدا کے فِردوس میں ہے پَھل کھانے کو دُوں گا۔" اِس کو مختلف الفاظ میں بیان کرتے ہوئے ، اِس حوالہ کا یہ بھی مطلب ہے کہ جو لوگ کمزورپڑجاتے ہیں اور ہار جاتے ہیں وہ مر جائیں گے۔ بلعام کے راستے پرچلناہارجانا ، کسی کی اپنی موت کا راستہ ہے۔ خُدا نے ہمیں اپناخبردارکرنےوالا کلام دیا تاکہ ہم نیکُلیوں کے جال میں نہ پھنسیں، اور مَیں اِس کےلئےاُس کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ میری مخلص اُمید اور دُعا ہے کہ آپ مادی بہکاوں سےہار نہیں مانیں گے اور خُدا کےوسیلے سے اپنے لالچ کوترک کردیں گے۔