Search

Khotbah-Khotbah

مضمون 3: پانی اور رُوح کی خوشخبری

[3-7] کہانت بدل گئی <عبرانیوں۷:۱۔۲۸>

 کہانت بدل گئی

<عبرانیوں۷:۱۔۲۸>

’’ اور یہ ملکِ صِدق ؔسالمؔ کا بادشاہ ۔ خُدا تعالیٰ کا کاہن ہمیشہ کاہن رہتا ہے ۔ جب ابرہامؔ بادشاہوں کو قتل کرکے واپس آتا تھا تو اِسی نے اُس کا اِستقبال کِیا اور اُس کے لئے برکت چاہی۔ اِسی کو ابرہامؔ نے سب چیزوں کی دہ یکی دی۔ یہ اوّل تو اپنے نام کے معنی کے مُوافق راستبازی کا بادشا ہ ہے اور پھر سالمؔ یعنی صلح کا بادشاہ۔ یہ بے باپ بے ماں بے نسب نامہ ہے ۔ نہ اُ س کی عمر کا شروع نہ زندگی کا آخر بلکہ خُدا کے بیٹے کے مشابہ ٹھہرا ۔ پس غورکرو کہ یہ کیسا بزرگ تھا جس کو قوم کے بزرگ ابرہامؔ نے لوٹ کے عمدہ سے عمدہ مال کی دہ یکی دی ۔ اب لاوی ؔ کی اولاد میں سے جو کہانت کا عہد پاتے ہیں اُن کو حکم ہے کہ اُمت یعنی اپنے بھائیوں سے اگر چہ وہ ابرہام ؔ ہی کی صُلب سے پیدا ہوئے ہوں شریعت کے مطابق دہ یکی لیں۔ مگر جس کا نسب نا مہ اُن سے جُدا ہے اُس نے ابرہامؔ سے دہ یکی لی اور جس سے وعدے کیے گئے تھے اُس کے لئے برکت چاہی ۔ او ر اِس میں کلام نہیں کہ چھوٹا بڑے سے برکت پاتاہے ۔ اور یہاں تو مرنے والے آدمی دہ یکی لیتے ہیں مگر وہاں وہی لیتا ہے جس کے حق میں گواہی دی جاتی ہے کہ زندہ ہے ۔ پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ لاویؔ نے بھی جو دہ یکی لیتا ہے ابرہامؔ کے ذریعہ سے دہ یکی دی۔ اس لئے کہ جس وقت ملکِ ؔصِدق نے ابرہامؔ کا اِستقبال کِیا تھا و ہ اُس وقت تک اپنے باپ کی صُلب میں تھا۔ پس اگر بنی لاویؔ کی کہانت سے کاملیت حاصل ہوتی (کیونکہ اُسی کی ماتحتی میں اُمت کو شریعت ملی تھی ) تو پھر کیا حاجت تھی کہ دوسرا کاہن ملکِ ؔ صِدق کے طورکا پیدا ہو اور ہارونؔ کے طریقہ کا نہ گِنا جائے ؟ ۔ اور جب کہانت بدل گئی تو شریعت کا بھی بدلنا ضرور ہے۔ کیونکہ جس کی بابت یہ باتیں کہی جاتی ہیں وہ دوسرے قبیلہ میں شامل ہے جس میں سے کسی نے قربانگاہ کی خدمت نہیں کی ۔ چنانچہ ظاہر ہے کہ ہمارا خُداوند یہوداہؔ میں سے پیدا ہُوا اور اِس فرقہ کے حق میں موسیٰ ؔ نے کہانت کاکچھ ذکر نہیں کِیا۔ اور جب ملکِ ؔ صِدق کی مانند ایک اور اَیسا کاہن پید ا ہونے والا تھا ۔ جو جسمانی احکام کی شریعت کے مُوافق نہیں بلکہ غیر فانی زندگی کی قوت کے مطابق مقرر ہو تو ہمارا دعویٰ اور بھی صاف ظاہر ہو گیا ۔ کیونکہ اُ س کے حق میں یہ گواہی دی گئی ہے کہ تُو ملکِؔ صِدق کے طورپر ابد تک کاہن ہے ۔ غر ض پہلا حکم کمزور اور بے فائدہ ہونے کے سبب سے منسوخ ہو گیا۔ (کیونکہ شریعت نے کسی چیز کو کامل نہیں کِیا )اور اُ س کی جگہ ایک بہتر اُمید رکھی گئی جس کے وسیلہ سے ہم خُدا کے نزدیک جا سکتے ہیں ۔ اور چونکہ مسیح کا تقرر بغیر قسم کے نہ ہُوا ۔ (کیونکہ وہ تو بغیر قسم کے کاہن مقر ر ہوئے ہیں مگر یہ قسم کے ساتھ اُس کی طرف سے ہُوا جس نے اِس کی بابت کہا کہ خُداوند نے قسم کھائی ہے اور اُس سے پھریگا نہیں کہ تُو ابد تک کاہن ہے )۔اِس لئے یسوعؔ ایک بہتر عہد کا ضامن ٹھہرا۔ اور چونکہ موت کے سبب سے قائم نہ رہ سکتے تھے اِس لئے وہ تو بہت سے کاہن مقرر ہوئے ۔ مگر چونکہ یہ ابد تک قائم رہنے والا ہے اِس لئے اس کی کہانت لازوال ہے ۔ اِسی لئے جو اُس کے وسیلہ سے خُداکے پاس آتے ہیں وہ اُنہیں پوری پوری نجات دے سکتا ہے کیونکہ وہ اُن کی شفاعت کے لئے ہمیشہ زندہ ہے ۔ چنانچہ اَیسا ہی سردار کاہن ہمارے لائق بھی تھا جو پاک اور بے ریا اور بیداغ ہو اورگنہگاروں سے جُدا اور آسمانوں سے بُلند کِیا گیا ہو ۔ اور اُن سردار کاہنوں کی مانند اِس کا محتاج نہ ہو کہ ہر روز پہلے اپنے گناہوں اور پھر اُمت کے گناہوں کے واسطے قربانیاں چڑھائے کیونکہ اِسے وہ ایک ہی بار کر گذراجس وقت اپنے آپ کو قربان کِیا۔ اس لئے کہ شریعت تو کمزور آدمیوں کو سردار کاہن مقرر کرتی ہے مگر اُس قسم کا کلام جو شریعت کے بعد کھائی گئی اُس بیٹے کو مقررکرتاہے جو ہمیشہ کے لئے کامل کِیا گیا ہے۔‘‘

 

 

یسوعؔ نے آسمانی کہانت کا انتظام کِیا

 

کون بر تر ہے ، سردارکاہن ملکِ ؔ صِدق یا ہارون ؔ کے نسب نامہ کا زمینی سردار کاہن؟

سردار کاہن ملکِؔ صِدق

 

پرانے عہد نامہ میں ، ملکِؔ صِدق نامی ایک سردار کاہن موجود تھا ۔ ابرہامؔ کے دَور میں ، کِدرلاعمر ؔ اور بادشاہوں نے اُس کے ساتھ اتحادکِیا ، اُن کے ساتھ سدومؔ اور عمورہؔ کی تما م اشیا اُٹھا لیں ۔ ابرہامؔ نے اپنے تربیت یافتہ نوکروں کو لیَس کیِا ، جو اُس کے گھرانے میں پیداہوئے تھے ،اور اُنہیں کدِرلاعمرؔ اور اُس کے اتحادیوں کے خلاف جنگ کے لئے بھیجا۔

وہاں، اُس نے کدِرلاعمرؔ ، عیلامؔ کے بادشاہ اور اُس کے ساتھ اتحادی بادشاہوں کو شکست دی اور اپنے بھتیجے لوطؔ اور اُس کے مال ومتاع کوواپس لایا۔ اپنے دُشمنو ں کو شکست دے کر واپس آنے کے بعد، ملکِؔ صِدق سالمؔ کا بادشاہ اور خُدا کاسب سے اعلیٰ کاہن ، روٹی اور مَے لایا اور ابرہامؔ کو برکت دی ۔ اور ابرہامؔ نے اُسے ہر چیز کا دسواں حِصہ دیا پیدائش۱۴باب)۔

کتابِ مقدس میں سردار کاہن ملکِؔ صِدق اور اُس کے نسب نامہ کے سردار کاہنوں کی عظمت تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ سردار کاہن ملکِؔ صِدق ’’صُلح کا بادشاہ ‘‘،اور ’’راستبازی کا بادشاہ‘‘، بے باپ ، بے ماں اور بے نسب نامہ تھا۔ نہ دِنوں کا شروع اور نہ زندگی کا آخر رکھتے ہوئے ،بلکہ خُد اکے بیٹے کی مانند بنا ، وہ ابدی کاہن کے طورپر قائم رہتاہے۔

کتابِ مقدس ہمیں یسوعؔ مسیح کی عظمت پر ، جو ملک ِؔصِدق کے نسب نامہ کا سردار کاہن تھا ، نئے عہد نامہ میں یسوعؔ کی کہانت اور پرانے عہد نامہ کے سردار کاہن ہارونؔ کے ساتھ موازنہ کرنے کے وسیلہ سے احتیاط کے ساتھ غور کرنے کے لئے کہتی ہے۔

 لاویؔ کی اولاد کاہن بنتے تھے اور لوگوں سے دہ یکی اکٹھی کرتے تھے ، یہ ہی، اُن کے بھائی ، حتیٰ کہ گو وہ ابرہامؔ کی نسل تھے ۔لیکن جب ابرہامؔ نے سردار کاہن ملکِ صِدق کو دہ یکی دی ، لاویؔ تب تک اپنے باپ کی صُلب میں تھا۔

کیا پرانے عہد نامہ کے کاہن یسوعؔ سے بڑے تھے ؟ یہ کتابِ مقدس میں واضح کِیا گیا ہے ۔ کیا یسوعؔ زمینی سردار کاہنوں سے بڑاہے؟ کس کو کس سے برکت ملنی چاہیے ۔ عبرانیوں کے مصنف نے اِس کے بارے میں شروع سے بات کی۔ ’’اور اِس میں کلام نہیں کہ چھوٹا بڑے سے برکت پاتا ہے۔‘‘ ابرہامؔ نے سردار کاہن ملکِ ؔ صِدق کے وسیلہ سے برکت پائی۔

ہمیں کیسے اپنے ایمان میں زندہ رہنا ہے ؟ کیا ہمیں پرانے عہد نامہ کے پاک خیمہء اِجتماع کے قربانی کے نظام کے وسیلہ سے خُدا کے احکامات پر انحصار کرنا چاہیے، یا کیا ہمیں یسوعؔ مسیح پر انحصار کرنا چاہیے جو ہمار ے پاس اپنی پانی اور روح کی قربانی کے وسیلہ سے آسمانی سردار کاہن کے طورپر آیا؟

انحصار کرتے ہوئے ہم کس تشریح کو چُنتے ہیں ، ہم آیا برکت یافتہ یا لعنت یافتہ ہیں ۔ کیا ہم خُد اکے کلام کے مطابق زندہ رہتے اور ہر روز قربانیاں گذرانتے ہیں ، یا کیا ہم نجات پر ایمان رکھنے کو چُنتے ہیں جو یسوعؔ ہمیں پانی اور خون کے ساتھ ایک ہی بار ہمیشہ کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنے کے وسیلہ سے عطا کرچکا ہے ؟ ہمیں اِن دو میں سے ایک کو چُنناہے۔

پرانے عہد نامہ کے دَور میں ، اسرائیل کے لوگوں نے ہارونؔ اور لاویؔ کی نسل کی طرف دیکھا۔ نئے عہد نامہ کے دِنوں میں ، اگر ہم سے پوچھا جاتا ہے کون بڑا ہے ، یسوعؔ یا ہارون ؔ کے نسب نامہ کے کاہن، تب ، سوال کے بغیر ، ہم جواب دے سکتے ہیں کہ یسوعؔ بڑا ہے ۔ لیکن جبکہ لوگ اِس حقیقت کو واضح طورپر جانتے ہیں ، چند ایک اپنے ایمان میں اِس کی پیروی کرتے ہیں ۔

 کتابِ مقدس ہمیں اِس سوال کا ایک یقینی جواب دیتی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ یسوعؔ ، جو ایک مختلف قبیلہ سے تھا جس میں سے کوئی بھی کبھی قربانگاہ پر خدمت نہیں کر چکا تھا ، نے آسمانی کہانت کو سنبھالا۔’’اور جب کہانت بدل گئی تو شریعت کا بھی بدلنا ضرور ہے۔‘‘

خُد انے موسیٰؔ کی معرفت اسرائیل کے لوگوں کو احکامات اور شریعت کی۶۱۳ تفصیلی شِقیں دی تھیں۔ موسیٰؔ نے لوگوں کو شریعت اور احکامات کے مطابق رہنے کے لئے کہا اور لوگ اِس طرح کرنے کے لئے مُتفِق ہوئے۔

 

کیوں خُدا نے پہلے عہد کو ایک طرف کر دیا اور دوسرے کو قائم کیِا؟

کیونکہ انسان پہلے عہد کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لئے انتہائی کمزور تھا۔

 

کتابِ مقدس میں ، اسرائیل کے لوگوں نے توریت : پیدائشؔ ، خروجؔ ، احبارؔ، گنتیؔ او ر استثناؔ میں دیئے گئے خُد اکے احکامات کے وسیلہ سے زندگی بسر کرنے کی قسم اُٹھائی۔ خُدانے اُن کے لئے ہر حکم کا اعلان کِیا اور اُنہوں نے ہچکچاہٹ کے بغیر ہر حکم پر ’’ہاں‘‘ کہا۔

 تاہم ، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ استثناؔ کے بعد، یعنی یشوعؔ سے ، وہ کبھی خُدا کے احکام کے مطابق نہیں رہے ہیں۔ ۱۔سلاطین اور ۲۔سلاطین سے یعنی قاضیوں سے، اُنہوں نے اپنے راہنماوٴں کی بے عزتی شروع کردی ، اور بعد ازیں ، وہ اِتنے گل سڑ چکے تھے کہ اُنہوں نے پاک خیمہء اِجتماع کے قربانی کے نظام کو بدل ڈالا۔

اور آخر کار ملاکیؔ میں ، وہ قربانی کے لئے خُدا کی ایک بے عیب قربانی کو پیش کرنے کی ہدایت کے

باوجود غیر مناسب جانور لائے۔ اُنہوں نے کاہنوں سے کہا، ’’مہربانی سے اِ سے نظر انداز کریں۔ مہربانی سے اِسی ایک کو قبول کریں۔‘‘ خُد اکی شریعت کے مطابق قربانیاں گذراننے کی بجائے، اُنہوں نے اِسے اپنی مرضی کے ساتھ بدل دیا۔

اسرائیل کے لوگوں نے کبھی بھی خُداکی شریعت کو مکمل طورپر قائم نہ رکھا حتیٰ کہ پرانے عہد نامہ کے دَور میں ایک بار بھی نہیں۔ وہ بھول گئے اور سادگی سے نجات کو نظرانداز کردیا جو نظام میں ظاہر کی گئی تھی ۔ اس لئے خُدا کو قربانی کے نظام کو تبدیل کرنا پڑا ۔ یرمیاہ میں خُدا نے کہا، ’’ میں

اسرائیل کے گھرانے اور یہوداہؔ کے گھرانے کے ساتھ نیا عہد باندھونگا۔ ‘‘

آئیے ہم یرمیاہ۳۱:۳۱۔۳۴ دیکھیں ۔ ’’دیکھ وہ دن آتے ہیں خُداوند فرماتا ہے جب میَں اسرائیل کے گھرانے اور یہوداہؔ کے گھرانے کے ساتھ نیا عہد باندھونگا۔ اُس عہد کے مطابق نہیں جو میَں نے اُن کے باپ دادا سے کِیا جب میَں نے اُن کی دستگیری کی تاکہ اُن کو ملکِ مصرؔ سے نکال لاوٴں اور اُنہوں نے میرے اُس عہد کو توڑا اگرچہ میَں اُن کا مالک تھا خُداوند فرماتا ہے ۔ بلکہ یہ وہ عہد ہے جو میَں اُن دنوں کے بعد اسرائیل کے گھرانے سے باندھونگا ۔ خُداوند فرماتا ہے میَں اپنی شریعت اُن کے باطن میں رکھو نگا اوراُن کے دل پر اُسے لکھونگا اور میَں اُن کا خُدا ہونگا اور وہ میرے لوگ ہونگے ۔ اور وہ پھر اپنے اپنے پڑوسی اوراپنے اپنے بھائی کو یہ کہہ کر تعلیم نہیں دینگے کہ خُدا وند کو پہچانو کیونکہ چھوٹے سے بڑے تک وہ سب مجھے جانیں گے خُداوند فرماتا ہے اس لئے کہ میَں اُن کی بدکرداری کو بخش دُونگا اوراُن کے گناہ کو یاد نہ کرونگا۔ ‘‘

خُدا نے کہا کہ وہ ایک نیا عہد قائم کریگا ۔ وہ پہلے ہی اسرائیل کے لوگوں کے ساتھ ایک عہد قائم کر چکا تھا ، لیکن وہ خُدا کے کلام کے مطابق زندہ رہنے میں ناکام ہوگئے ۔ اس طرح ، اُس نے اپنے لوگوں کے ساتھ نجات کا ایک نیا عہد قائم کرنے کا فیصلہ کیِا ۔

وہ خُداکے سامنے ایک قسم اُٹھا چکے تھے ، ’’ہم ضرور صرف تیری پرستش کرینگے اور تیرے کلام اور احکامات کے مطابق زندہ رہیں گے ۔ ‘‘خُدا اُنہیں بتا چکا تھا ،’’تمہیں میرے سامنے دوسرے دیوتاوٴں کو نہیں رکھنا ہوگا ، ‘‘ اور اسرائیل کے لوگ کہہ چکے تھے ،” یقینا ہم کبھی کسی دوسرے دیوتا کی پرستش نہیں کرینگے ۔ صرف تُو ہمارا واحد خُدا ہے ۔ کوئی دوسرا ہمارا خُدا نہیں ہو سکتا ہے۔ ‘‘ لیکن وہ اپنی قسم کو قائم رکھنے میں ناکام ہوگئے ۔

شریعت کا دل دس احکامات پر مشتمل ہے : ’’میرے حضور تُو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔ تُو اپنے لئے

کوئی تراشی ہوئی مُور ت نہ بنانا ۔ نہ کسی کی صُور ت بنانا ، یا کسی چیز کی مانند نہ بنانا اور اُن کے سامنے نہ جھُکنا اور نہ اُن کی خدمت کرنا ۔ یاد کر کہ تُو سبت کا دن پاک ماننا۔ تُو خُداوند اپنے خُدا کا نام بے فائدہ نہ لینا۔ اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کرنا۔ تُو خون نہ کرنا۔ تُو زنا نہ کرنا ۔ تُو چوری نہ کرنا ۔ تُو اپنے پڑوسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دینا۔ تُو اپنے پڑوسی کے گھر کا لالچ نہ کرنا۔ ‘‘ (خروج ۲۰باب)۔

یہ مزید۶۱۳تفصیلی شِقوں میں بھی تقسیم کِیا گیا ہے جو اُنہیں اپنی تمام زندگیوں میں قائم رکھنی تھیں۔ ’’بیٹیوں کے ساتھ کیا نہ کرنا اور بیٹوں کے ساتھ کیا نہ کرنا ، اورسوتیلی ماں کے ساتھ کیاکرنا۔۔۔‘‘ خُدا کی شریعت نے اُن کو تمام اچھی چیزیں کرنے کا اور کوئی بُری چیز نہ کرنے کا حکم دیا ۔ یہ دس احکام اور۶۱۳تفصیلی شِقیں ہیں ۔

تاہم، تمام نسلِ انسا نی کے درمیان حتیٰ کہ ایک شخص بھی موجود نہیں ہے جو اُس کی شریعت کی تمام شِقوں کو قائم رکھ سکا ہو ۔ اِس لئے خُدا کو اُن کے تمام گناہوں سے اُنہیں بچانے کے لئے دوسری راہ کو متعین کرناپڑا۔

کب کہانت بدلی؟ یسوعؔ کے اس دُنیا میں آنے کے بعد ،کہانت بدل گئی۔ یسوعؔ نے ہارونؔ کے نسب نامہ کے تمام کاہنوں سے کہانت لے لی۔ اُس نے خیمہء اِجتماع کی قربانی کو ایک طرف رکھ دیا جو کہ لاویؔ کے نسب نامہ کے کاہنوں کا پیدائشی حق تھا ۔ اُس نے اکیلے ہی اعلیٰ آسمانی کہانت کا انتظام کِیا۔

وہ اِس دُنیا میں، ہارونؔ کی نسل کے طورپر نہیں ، بلکہ یہوداہؔ ، بادشاہوں کے گھرانے کے طورپر آیا۔ اُس نے اپنے بپتسمہ اور صلیب پر اپنے خون کے وسیلہ سے اپنے آپ کو ایک قربانی کے طورپر پیش کیا اور تمام نسلِ انسانی کو اُن کے گناہوں سے نجات دی۔

اپنے آپ کو قربان کرنے کے وسیلہ سے اُ س نے ہمارے لئے گناہ کے مسئلے کو حل کرنا ممکن بنا دیا۔ اُس نے اپنے بپتسمہ اور خون کی قربانی کے وسیلہ سے نسلِ انسانی کے تمام گناہوں کو دھو ڈالا۔ اُس نے ہمیشہ کے لئے تمام گناہ کے واسطے ایک ابدی قربانی پیش کی۔

 

 

کہانت میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ شریعت میں بھی ایک تبدیلی موجود تھی

                                       

نجات کا بدلا ہُوا قانون کیا ہے ؟

یسوع ؔ مسیح کی ابدی قربانی

                                

 پیارے دوستو، پرانے عہد نامہ کی کہانت نئے عہد نامہ میں بدل گئی۔ پرانے عہد نامہ کے دنوں میں ، ہارون کی نسل ، لاویؔ کے گھرانے کے ، درمیان میں سے سردار کاہن ، نے اسرائیلیوں کے پچھلے سال کے گناہوں کے واسطے کفارہ دینے کے لئے قربانی گذرانی۔ سردارکاہن پاک ترین مقام میں داخل ہوتا تھا ۔ وہ قربانی کے جانور کے خون کے ساتھ رحم گاہ کے سامنے جاتا تھا۔ صِرف سردار کاہن پردے کے پیچھے جا سکتا تھا ، جو کہ پاک ترین مقام تھا۔

لیکن یسوعؔ کے آنے کے بعد، ہارونؔ کی کہانت اُس کے پاس منتقل ہوگئی۔ یسوعؔ نے ابدی کہانت سنبھال لی۔ اُس نے اپنے آپ کو پیش کرنے کے وسیلہ سے ابدی کہانت کا انتظام کِیا ، تاکہ تمام نسلِ انسا نی اپنے تمام گناہوں سے نجات یافتہ ہو سکے۔

پرانے عہد نامہ میں، سردار کاہن کو اپنے تمام لوگوں کے لئے انتظام کر نے سے پہلے بچھڑے کے سر پر اپنے ہاتھوں کو رکھنے کے وسیلہ سے اپنے گناہوں کا کفارہ دینا پڑتا تھا۔ ہاتھوں کے رکھے جانے کے وسیلہ سے وہ اپنے گناہوں کو ، یہ کہتے ہوئے لادتا تھا، ’’اَے خُدا، میں گنا ہ کر چکا ہوں ۔‘‘ تب وہ جانور کو ذبح کرتا اور رحم گاہ پر اور اُس کے سامنے اُس کا خون سات مرتبہ چھڑکتا تھا۔

اگر سردار کاہن ہارونؔ خود مکمل نہیں تھا ، آپ تصور کر سکتے ہیں لوگ کتنے کمزور تھے ۔ لاوی ؔ کا بیٹا ، سردار کاہن ہارونؔ بذاتِ خود گنہگار تھا۔ اس لئے اُسے اپنے ذاتی گناہوں اور اپنے خاندان کے لئے کفارہ دینے کے واسطے ایک بچھڑا گذراننا پڑتا تھا۔

یرمیاہ ۳۱باب میں خُداوند نے کہا، ’’میَں عہد کو توڑونگا میَں تمہارے ساتھ عہد باندھ چکا

ہوں ، لیکن تم اِس پر قائم نہیں رہے ۔ اس لئے میَں عہد کو ایک طرف رکھوں گا جو تمہیں پاک نہ کر سکا اور تمہیں نجات کا ایک نیا عہد دُوں گا۔ میَں تمہیں مزید اپنے احکام کے وسیلہ سے نہیں بچاوٴنگا ، بلکہ تمہیں پانی اور روح کی خوشخبری کے وسیلہ سے نجات پیش کرونگا۔‘‘خُدانے ہمیں نیا عہد دیا ۔ جب وقت آیا ، یسوعؔ انسان کی شکل میں ، اِس دُنیا میں آیا ، دُنیا کے گنا ہ اُٹھانے کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا اور ہمیں بچانے کے لئے صلیب پر خون بہایا جو اُس پر ایما ن رکھتے ہیں ۔ اُس نے اپنے بپتسمہ کے وسیلہ سے تمام نسلِ انسانی کے گناہوں کو اُٹھا لیا۔

خُدا کی شریعت ایک طرف رکھ دی گئی اور بدل گئی۔ اسرائیل کے لوگ نجات یافتہ ہوسکتے تھے اگر وہ خُدا کی شریعت کے مطابق زندہ رہتے ، لیکن وہ اَیسا کرنے میں ناکام ہو گئے ۔ ’’اس لئے کہ شریعت کے وسیلہ سے تو گناہ کی پہچان ہی ہوتی ہے۔‘‘ (رومیوں ۳:۲۰)۔

خُدا اسرائیلیوں کو احساس دلانا چاہتا تھا کہ وہ گنہگار تھے اور کہ شریعت اُنہیں نہیں بچا سکتی تھی۔ اُس نے اُنہیں پانی اور روح کی نجات کی شریعت کے وسیلہ سے نجات دی ، اُن کے اعمال کے وسیلہ سے نہیں ۔ اپنی لامحدود محبت میں خُدانے ہمیں ایک نیا عہد دیا جس کے وسیلہ سے یعنی ہم یسوعؔ کے بپتسمہ اور خون کے وسیلہ سے دُنیا کے تمام گناہوں سے نجات یافتہ ہو سکتے ہیں۔

اگر آپ اُس کے بپتسمہ اورخون کا مطلب جانے بغیر یسوعؔ پر ایمان رکھتے ہیں ، آپ کا سارا ایمان بے فائدہ ہے ۔ جب آپ یہ کرتے ہیں ، آپ اُس سے زیادہ مصیبت اُٹھاتے ہیں جب آپ یسوعؔ پر بالکل ایمان نہیں رکھتےتھے ۔

خُدا نے کہا کہ اُسے نسلِ انسانی کو اُن کے گناہوں سے بچانے کے لئے ایک نیا عہد قائم کرنا تھا ۔ نتیجہ کے طورپر ، اب ہم اپنے کاموں کی شریعت کے وسیلہ سے نہیں ،بلکہ پانی اور خون کے وسیلہ سے نجات کی راستباز شریعت کی معرفت نجات یافتہ ہوتے ہیں۔

یہ اُس کا ابدی وعدہ تھا اور اُس نے ہمارے لئے اپنا وعدہ پورا کیِا جو یسوعؔ پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور اُس نے ہمیں یسوعؔ کی عظمت کے بارے میں بتایا ۔ اُس نے ہمیں پرانے عہد نامہ میں ہارونؔ کے نسب نامہ کے کاہنوں کے ساتھ اُس کا موازنہ کرنے کے وسیلہ سے بتایا کہ وہ کتنا عظیم ہے۔

ہم یسوعؔ کے پانی اورخون کے وسیلہ سے نجات پرایمان رکھنے کی معرفت خاص بن جاتے ہیں ۔ مہربانی سے اِس پر احتیاط کے ساتھ غور کریں ۔ کوئی معنی نہیں رکھتا آپ کا پاسبان کتنا پڑھا لکھا اور خوش گفتار ہے، وہ کیسے یسوعؔ سے بڑا ہو سکتا ہے ؟ کوئی راہ موجود نہیں ہے ۔ ہم صِرف پانی اور خون کی خوشخبری کے وسیلہ سے نجات یافتہ ہو سکتے ہیں ، کبھی بھی سادگی سے خُدا کے احکامات کی فرمانبرداری کے وسیلہ سے نہیں۔ کیونکہ کہانت بدل گئی تھی، یعنی نجات کی شریعت بھی بدل گئی تھی۔

 

 

خُدا کی محبت کی برتری

 

کون سی چیز برتر ہے ، خُد اکی محبت یا خُدا کی شریعت؟

خُدا کی محبت

 

ہم صِر ف نجات یافتہ ہو سکتے ہیں جب ہم یسوعؔ پر ایمان رکھتے ہیں ۔ یہ جانتے ہوئے کہ یسوعؔ نے ہمیں کیسے بچایا ، ہمار ے لئے خُد اکی محبت کتنی عظیم ہے ۔ تب ، احکامات کے ایمان اور خُدا کی محبت کی عظمت کے ایمان کے درمیان کیا فرق ہے؟

 قانون دان خُدا کے کلام کی بجائے اپنی ذاتی فرقہ ورانہ الٰہی تعلیم اور ذاتی تجربات کے ساتھ زیادہ اہمیت کومنسلک کرتے ہیں ۔ تاہم ، یسوعؔ پر سچا اور روحانی ایمان پانی اور روح کے وسیلہ سے پوری کی گئی نجات کی عظمت پر ایمان رکھنے کی معرفت حاصل ہوتا ہے۔

 حتیٰ کہ آج ، بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ موروثی گناہ معاف کیا جاتا ہے ، لیکن کیا اُنہیں روزمرہ کے گناہوں کے لئے ہر روز توبہ کرنی ہے ۔ بہت سارے لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور پرانے

عہد نامہ کے احکام کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ اب تک یسوعؔ کی نجات کی برتری سے بے خبر ہیں جو پانی اور روح کے وسیلہ سے حاصل ہوئی تھی۔

پرانے عہد نامہ میں ، اسرائیلیوں کو اپنے گناہوں سے نجات یافتہ ہونے کے لئے خُد اکی شریعت کے مطابق زندگی گزارنی پڑتی تھی ،لیکن وہ نجات یافتہ نہ ہو سکے ۔ کیونکہ خُداوند ہماری کمزوریاں جانتا ہے اور حقیقت کہ ہم نامکمل ہیں ، اُ س نے اپنے احکامات کو ایک طرف رکھ دیا۔ہم کبھی بھی تنہا اپنے کاموں کے وسیلہ سے نجات یافتہ نہیں ہو سکتے ہیں۔ یسوعؔ نے کہاکہ وہ ہمیں اپنی پانی اورروح کی خوشخبری کے وسیلہ سے نجات دے گا۔ اُس نے کہا، ’’میَں تم میں سے سب کو تمہارے گناہوں سے بذاتِ خود آزاد کرونگا۔‘‘ خُد انے اِسی طرح پیدائش میں پیشنگوئی کی تھی۔

’’وہ تیرے سر کو کچلے گا اورتُو اُس کی ایڑی پر کاٹیگا ‘‘(پیدائش ۳: ۱۵) ۔آدمؔ اور حواؔ کے

گناہ کر نے اور گرنے کے بعد، اُنہو ں نے خُدا سے اپنی بدکار ی چھپانے کے لئے ایک کوشش کے طورپر انجیر کے پتوں کے کپڑے بنائے ۔ خُدا نے اُنہیں بلایا اور نجات کی علامت کے طورپر چمڑے کے کپڑے پہنائے۔ پیدائش نجات کے دو قسم کے کپڑوں کے بارے میں بات کرتی ہے۔ایک انجیر کے پتوں سے بنے ہُوئے تھے اوردوسرے چمڑے سے بنے ہُوئے تھے ۔ کون سے آپ سوچتے ہیں بہتر ہیں۔ بے شک، چمڑے کے کپڑے بہتر ہیں کیونکہ جانور کی زندگی انسان کوبچانے کے لئے پیش کی جاتی تھی۔

انجیر کے پتوں کے کپڑے جلد ہی مرجھا جاتے ہیں۔ جس طرح آپ جانتے ہیں ، انجیر کا پتا پانچ اُنگلیوں کے ساتھ ایک ہاتھ کی مانند نظر آتا ہے۔پس ، انجیر کے پتوں کے کپڑے پہننے کا مطلب ہے کسی کا اپنے اچھے اعمال کے پیچھے چھُپنا۔ اگر آپ نے انجیر کے پتوں کے کپڑے پہنے اور بیٹھ گئے ، پتے جلد ہی ٹکڑوں میں پھٹ جائینگے ۔ جب میں ایک بچہ تھا میں سپاہی کی مانند کھیلنے کے لئے اراروٹ کے پتوں کی زرہ بکتر بنایا کرتاتھا ۔ کوئی معنی نہیں رکھتا میں نے کتنی احتیاط کے ساتھ اُنہیں پہنا وہ دن کے آخر تک پھٹ کر علیٰحدہ ہو جاتے تھے ۔ اِسی طریقہ سے ، نسلِ انسانی کا نازک گوشت پاکیزگی کو ناممکن بناتاہے۔

لیکن پانی اور خون کی نجات نے ، یسوعؔ کے بپتسمہ اور اُس کی صلیبی موت نے گنہگاروں کو خُدا کی محبت کی عظمت کی گواہی دینے کے لئے ضرورت سے زیادہ بچایا۔ یہ ہے کیسے خُدا کی محبت خُداکی شریعت سے برترہے۔

 

 

وہ جو اب تک خُدا کی شریعت پر ایمان رکھتے ہیں

                               

کیوں قانون دان ہر روز اپنے کاموں کے ساتھ نئے کپڑے بناتے ہیں؟

کیونکہ وہ نہیں جانتے ہیں کہ اُن کے کام اُنہیں راستباز نہیں بنا سکتے۔

 

وہ جو انجیر کے پتوں کے ساتھ اپنے کپڑے بناتے ہیں قانونی زندگیاں گزار رہے ہیں ۔ اِن گمراہ

ایماندار وں کو اپنے کپڑوں کو ایک باقاعدہ بنیاد پر بدلنا ہے۔ اُنہیں ہر روز نئے کپڑے بنانے ہیں جب وہ گرجاگھر جاتے ہیں ۔ ”پیارے خُدا ، میں نے پچھلے ہفتے بہت زیادہ گناہ کیا۔ لیکن اَے خُداو ند، میں ایما ن رکھتا ہوں کہ تُونے مجھے صلیب پر نجات دی۔ اَے خُداوند ، مہربانی سے میرے گناہوں کو صلیبی خون کے ساتھ دھو دے !‘‘ انہوں نے کپڑوں کا ایک نیا جوڑا بالکل اُسی وقت وہاں پر سِی لیا ۔ ’’واہ، خُداوند کی تعریف ہو ۔ ہیلیلویاہ! ‘‘

لیکن اُنہیں جلد ہی گھر پر کپڑوں کا دوسرا جوڑا بنانا ہے ۔کیوں؟ کیونکہ اُن کے پرانے جوڑے پھٹ چکے ہیں ۔ ’’پیارے خُداوند ، میں پچھلے تین دنوں سے پھر گناہ کر چکا ہوں۔ مہربانی سے مجھے معاف کر دے ۔ ‘‘ وہ باربار توبہ کے نئے کپڑے سیتے اور پہنتے ہیں ۔

 شروع شروع میں کپڑ ے شاید کئی دنوں تک چلیں ، لیکن کچھ دیر بعد، اُنہیں ہر روز ایک نئے

جوڑے کی ضرورت ہے ۔ جس طرح وہ خُدا کی شریعت کے مطابق کبھی زندہ نہیں رہ سکتے ، وہ اپنے آپ میں شرمسار ہو جاتے ہیں ۔ ’’ہائے ، یہ بہت پریشان کن ہے ۔ اَے خُداوند ، ہائے ، اَے خُداوند ، میں ایک بار پھر گناہ کر چکا ہوں !‘‘ اور انہیں توبہ کے نئے کپڑے بنانے ہیں ۔ ’’ہائے خُداوند ، آج انجیر کے پتوں کے کپڑے بنانے بہت مشکل ہیں ۔ ‘‘وہ ایک نیا جوڑا سینے کے لئے سخت محنت کرتے ہیں۔

جب کبھی اَیسے لوگ خُداوند کوپکارتے ہیں ، یہ اُن کے گناہوں کا اِقرار کرناہے۔ وہ اپنے ہونٹوں کو کاٹتے ہیں اور خُدا کے سامنے چلاتے ہیں ، ’’ خُد~ا !‘‘ اور ہر روز نئے کپڑے بنانا جاری رکھتے ہیں ۔ تب ، کیا ہوتا ہے جب وہ اس سے تھک جاتے ہیں؟

 ایک سال میں ایک یا دومرتبہ وہ پہاڑوں پر جاتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں ۔ وہ کوشش کرتے ہیں اور زیادہ مضبوط اور زیادہ مشکل سے پہننے والے کپڑے بناتے ہیں ۔ ’’خُدا، مہربانی سے میرے گناہوں کو دھو دے۔ مہربانی سے مجھے نیا بنا دے۔ اَے خُداوند ، میں تجھ پر ایمان رکھتا ہوں ۔‘‘ وہ رات کے وقت دُعا مانگنے کو زیادہ بہتر خیال کرتے ہیں ۔پس، وہ دن کے وقت آرام کرتے ہیں اور جونہی اندھیرا چھاتا ہے ، وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ درختوں پر لٹکتے ہیں ، یا تاریک غاروں میں جاتے ہیں اور خُداکے سامنے چلاتے ہیں ۔ ’’اَے خُداوند ، میں ایمان رکھتا ہوں !‘‘ ’’میں توبہ کرتا ہوں اور اپنے دل کو ایک پشیمان ذہن کے ساتھ بھرتا ہو ں ‘‘ وہ اونچی آواز میں دُعا مانگتے اور چلاتے ہیں ، ’’میں ایمان رکھتا ہوں ‘‘ اور اس طریقے کے ساتھ وہ خاص کپڑے بناتے ہیں جو وہ اُمید کرتے ہیں کہ ایک لمبے عرصے تک چلیں گے ، لیکن وہ کبھی نہیں چلتے۔

پہاڑی دُعاوٴں کے بعد نیچے آنا یہ کتنا تقویت دہ ہے !ایک تازہ ہَوا کی مانند ، یا پہاڑ کی بارش کی مانند جو درختوں اور پھولوں پر پڑ رہی ہے ، اُن کی روحیں اطمینان اور قادرِ مطلق کے فضل کے ساتھ بھر جاتی ہیں ۔ پہاڑی رُوح سے زیادہ خالص محسوس کرتے ہوئے ، وہ اپنے خاص نئے کپڑے پہن کر دُنیا کاسامنا کرتے ہیں ۔

 لیکن وہ اپنے گھر اور گرجاگھر میں واپس آتے ہیں اور پھر زندگی شروع کرتے ہیں ، کپڑے گندے ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور پھٹنا شروع ہو جا تے ہیں ۔

اُن کے دوست پوچھتے ہیں، ’’آپ کہاں تھے ؟ ‘‘

’’ ہاں میں تھوڑی دیر کے لئے دُور رہا ہوں ۔‘‘

’’ آپ ایسے نظر آتے ہیں کہ آپ کچھ وزن کھو چکے ہیں! ‘‘

’’ جی ہاں ، ٹھیک ، لیکن یہ دوسری کہانی ہے ۔‘‘

وہ کبھی ظاہر نہیں کرتے کہ اُنہوں نے روزہ رکھا ، وہ صِرف گرجاگھر جاتے اور دُعا مانگتے ہیں ۔

’’ میں کبھی عورت کی خواہش نہیں کرونگا ۔ میں کبھی جھوٹ نہیں بولونگا۔میں اپنے ہمسائے کے گھر کا لالچ نہیں کرونگا ۔ میں تمام لوگو ں سے محبت کرونگا۔“

لیکن اُسی لمحے جب وہ ایک خوبصورت چھاتی، پتلی ٹانگوں والی عورت کو دیکھتے ہیں ، اُن کے دلوں میں پاکیزگی فوراً خالص شہوت میں بدل جاتی ہے ۔ ’’دیکھو سکرٹ کتنا چھوٹا ہے !سکرٹ چھوٹے سے چھوٹے ہوتے جارہے ہیں ! میں اُن ٹانگوں کو پھر دیکھ چکا ہوں!ہائے ! نہیں ! ہائے، اَے خُداوند !میں پھر گناہ کر چکا ہُوں! ‘‘

قانون دان پاک نظر آتے ہیں لیکن آپ کو جاننا چاہیے کہ انہیں ہر روز نئے کپڑے بنانے ہیں ۔ قانو ن دان کا ایمان انجیر کے پتوں کے کپڑوں میں ہے ، یعنی غلط ایمان۔ بہت سارے لوگ خُداکی شریعت کے مطابق پاکیزگی کے ساتھ زندہ رہنے کی سخت کوشش کرتے ہیں ۔ وہ پہاڑوں پر اپنے پھیپھڑوں کی انتہا سے چلاتے ہیں اِس طرح اُن کی آواز بالکل پاک آواز کی طرح گونجنی شروع ہو جاتی ہے۔

           قانون دان ایک متاثرکن شخصیت رکھتے ہیں جب وہ گرجا گھر میں دُعائیہ عبادتوں کی راہنمائی کرتے ہیں ۔ ’’آسمان میں قدوس باپ !ہم اس پچھلے ہفتے میں گناہ کر چکے ہیں ۔ مہربانی سے ہمیں معاف کر دے ۔ ۔ ۔‘‘ وہ آنسووٴں میں پھوٹ پڑتے ہیں اور باقی اجتماع اُسی نقشِ قد م پر چلتا ہے ۔ وہ بذاتِ خود سوچتے ہیں ، ’’وہ یقینا پہاڑوں پر دُعا اور روزے میں ایک لمبا عرصہ گزار چکاہے ۔ وہ بہت پاک اور وفادار سُنائی دیتا ہے ۔‘‘ لیکن کیونکہ اُس کا ایمان قانونی ہے ، حتیٰ کہ دُعاکے ختم ہونے سے پہلے ، قانون دان کا دل

خود پسندی اور گناہ کے ساتھ بھرنا شروع ہوجاتاہے۔

جب لوگ انجیرکے پتوں کے نئے خاص کپڑے بناتے ہیں ، وہ شاید دو یاتین مہینوں تک چل سکتے ہیں ۔ لیکن جلد ہی یا بعد میں ، کپڑے چیتھڑے بن جاتے ہیں اور اُنہیں ایک نیا جوڑا بنانا ہے اوراپنی ریا کارانہ زندگیوں کے ساتھ چلنا ہے ۔ یہ قانون دانوں کی زندگی ہے جو نجات یافتہ ہونے کے سلسلے میں شریعت کے مطابق رہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

 اُنہیں انجیر کے پتوں سے مسلسل نئے کپڑے بنانے ہیں۔قانون پسندی انجیرکے پتوں کا ایمان ہے ۔ قانون دان آپ کو بتاتے ہیں ، ’’تم سب پچھلے ہفتے سے گناہ کر چکے ہو ، کیا تم نہیں کر چکے ؟ تب توبہ

کرو۔‘‘

تب وہ آپ پر ایک اونچی آواز سے چلاتے ہیں ۔’’توبہ کرو!دُعا مانگو ‘‘ !

ایک قانون دان جانتا ہے کیسے اپنی آواز کو پاک بنانا ہے ۔ ’’اَے خُداوند ! میں معافی چاہتاہوں ۔ میں شریعت کے مطابق نہیں رہا ۔ میں نے تیرے احکامات کو قائم نہیں رکھا۔’’َ ا ے خُداوند مجھے معاف کردے ،مجھے معا ف کردے ، صِرف ایک مرتبہ اور ۔‘‘

وہ کبھی شریعت کے مطابق زندہ نہیں رہ سکتے ہیں حتیٰ کہ گو وہ اَیسا کرنے کی بہادری سے کوشش کرتے ہیں ۔ حقیقت میں وہ خُدا کی شریعت اور بذات ِ خود خُدا کو للکارتے ہیں وہ خُد اکے سامنے خود پسند ہیں۔

 

 

چُڈال بئی کی مانند

               

خُدا نے کیوں شریعت کو ایک طرف ر کھ دیا ؟

کیونکہ یہ ہمیں گناہ سے بچانے کے لئے بے فائدہ تھی ۔

 

ایک دفعہ ایک نوجوان آدمی چُڈال بئی نامی موجو دتھا ۔۱۹۵۰میں ، کوریا ؔ کی جنگ کے دوران ،

اشتمالی سپاہی آئے اور اُس کے پختہ ایمان کو اُس سے ہٹانے اور اُسے ایک اشتمالی بنانے کے لئے ایک

کوشش کے طورپر سبت کے دن اُسے صحن صاف کرنے کا حکم دیا۔ لیکن اِس مذہبی نوجوان آدمی نے اُن کے حکم کی پیروی کرنے سے انکا رکر دیا ۔ اُنہوں نے زور دیا ، لیکن نوجوان آدمی نے پھر انکار کر دیا۔

آخر کار سپاہیوں نے اُسے ایک درخت کے ساتھ باند ھ دیا اور اُس پر بندوق رکھی۔ ’’تم کسے چاہتے ہو ، صحن کو صاف کرنا یا قتل ہونا ؟‘‘

جب اُسے ایک فیصلہ کرنے کے لئے مجبور کیا گیا، اُ س نے کہا، ’’میں سبت کے پاک دن پر کام کرنے کی بجائے مرنا پسند کرونگا ۔‘‘

’’ تم نے اپنی مرضی چنی ، اور ہم تمہاری فرمانبرداری کرنے میں خوش ہونگے۔‘‘

تب انہوں نے اُسے بلا تاخیر ماردیا۔ بعد میں ، کلیسیا کے راہنماوٴں نے اُس کے نہ ہلنے والے مذہبی ایمان کی یادگاری کے لئے اُس کے مرنے کے بعد اُسے ایک ڈیکن مقرر کیا۔

اُس کی قوتِ ارادی کے باوجود اُس کا مذہبی ایمان غلط تھا۔ وہ کیوں صحن کی صفائی اور اُن سپاہیوں کے سامنے خوشخبری کی منادی نہ کر سکا؟ اُسے کیوں اتنا ضدی ہونا تھا اور اس کے لئے مرنا تھا ؟ کیا خُدا اُسے سبت کے دن کام نہ کرنے کے لئے سراہے گا ؟ نہیں۔

ہمیں ایک روحانی زندگی گزارنی چاہیے۔ ہمارے اعمال نہیں بلکہ خُد اکی حضوری میں ہمارا ایمان اہم ہے ۔ کلیسیا کے راہنما چُڈال بئی کی مانند کسی کی یادگار مناناچاہتے ہیں کیونکہ وہ اپنی برتری اور اپنے ذاتی فرقہ کا صحیح عقیدہ دکھانا چاہتے ہیں۔ یہ بالکل ریاکار فریسیوں کی مانند ہے جنھوں نے یسوعؔ کو للکارا۔

کچھ موجود نہیں ہے جو ہم قانون دانوں سے سیکھ سکتے ہیں ۔ ہمیں روحانی ایمان کے بارے میں سیکھنا چاہیے ۔ ہمیں غورکرنا چاہیے کیوں یسوعؔ کو بپتسمہ لینا او ر صلیب پر خون بہانا پڑ ا تھا ، اور پانی اور روح کی خوشخبری کی فطرت میں تحقیق کرنی چاہیے۔

ہمیں پہلے اُن سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ، اور تب دُنیا کے تمام لوگوں تک خوشخبری پھیلانے کی کوشش کرنی چاہیے ، تاکہ وہ نئے سِرے سے پیدا ہو سکیں ۔ ہمیں اپنی زندگیاں روحانی کاموں کے لئے وقف کرنی چاہیے ۔

اگر آپ کوایک مناد بتاتا ہے ، ’’اُس نوجوان آدمی چُڈال بئی کی مانند بنو۔ سبت کا دن پاک رکھو ،‘‘

 وہ صرف آپ کو اتوار کے دن گرجا گھر میں لانے کی کوشش کر رہا ہے ۔

یہاں ایک دوسری کہانی ہے جو شاید زیادہ روشنی ثابت کر سکے۔ ایک عورت موجود تھی جسے اتوار

کو گرجا گھر جانے کے لئے بہت ساری مصیبتوں سے گزر کر جانا پڑتا تھا۔ اُس کے سسرال والے مسیحی نہیں تھے ، اوراُنھوں نے اُسے گرجا گھر جانے سے روکنے کے لئے سخت کوشش کی۔ اُنھوں نے اُسے اتوار کو کام کرنے کے لئے کہا۔لیکن وہ ہفتے کی رات کو کھیتوں میں چلی جاتی تھی اور چاند کی روشنی میں کام کرتی تھی تاکہ خاندان والے اتوار کو گرجاگھر جانے سے اُسے روکنے کے لئے کوئی بہانہ نہ رکھیں۔

بے شک، گرجا گھر جانا انتہائی ضروری ہے ، لیکن کیا یہ کافی ہے ہر اتوار صرف دکھانے کے لئے پرستش میں آنا کہ ہم کتنے وفادار ہیں ؟ سچے وفادار پانی اور روح کے وسیلہ سے نئے سِرے سے پیدا ہوئے تھے ۔ سچاایمان شروع ہوتا ہے جب کوئی نئے سِرے سے پیدا ہوتا ہے ۔

کیا آپ شریعت کے مطابق زندہ رہنے کے وسیلہ سے اپنے گناہوں سے نجات یافتہ ہو سکتے ہیں ؟ نہیں۔ میں آپ کو شریعت کونظر اندا ز کرنے کے لئے نہیں کہہ رہا ہوں ، لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ انسانی طورپر شریعت کی تمام شِقوں کو قائم رکھنا ناممکن ہے۔

 یعقوب ۲:۱۰ کہتاہے ، ’’کیونکہ جس نے ساری شریعت پر عمل کِیا اور ایک ہی بات میں خطاکی وہ سب باتوں میں قصوروار ٹھہرا۔‘‘اس لئے پہلے سوچیں ، آپ پانی اور روح کی خوشخبری کے وسیلہ سے نئے سِرے سے کیسے پیدا ہو سکتے ہیں ۔ تب ، ایک گرجا گھر جائیں جہاں آپ خوشخبری سُن سکتے ہیں ۔ آپ نئے سِرے سے پیدا ہونے کے بعد ایک وفادار زندگی گزار سکتے ہیں ۔ تب، جب خُداوند بلاتا ہے ، آپ اُس کے سامنے خوشی کے ساتھ جا سکتے ہیں ۔

جھوٹے گرجاگھروں میں جا کر اپنا وقت ضائع مت کریں ، غلط قربانیاں گذراننے کے لئے اپنے پیسے مت ضائع کریں ۔ جھوٹے کاہن آپ کو جہنم جانے سے نہیں بچاسکتے ۔ پہلے پانی اور رُوح کی خوشخبری سُنیں اور نئے سِرے سے پیدا ہوں ۔

وجہ کے بارے میں سوچیں یسوعؔ اِس دُنیا میں کیوں آیا ۔ اگر ہم شریعت کے مطابق زندہ رہنے کے وسیلہ سے آسمان کی بادشاہی میں داخل ہو سکتے تھے ،اُسے اس دُنیا میں آنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ اُس کے آنے کے بعد، کہانت بدل گئی ۔ قانون پسندی ماضی کی ایک چیز بن گئی ۔ ہمارے نجات یافتہ ہونے سے پہلے ، ہم نے سوچا ہم شریعت کے مطابق زندہ رہنے کے وسیلہ سے نجات یافتہ ہو سکتے تھے ۔ لیکن یہ مزید سچے ایمان کی ایک علامت نہیں ہے۔

یسوعؔ نے ہمیں دُنیا کے تمام گناہوں سے اپنی محبت کے ساتھ ، اپنے بپتسمہ کے پانی کے ساتھ ، اپنے خون اور روح کے ساتھ نجات دی ۔ اُس نے ہماری نجات یردنؔ پر اپنے بپتسمہ ، صلیب پر اپنے خون،

اور اپنے جی اُٹھنے کے وسیلہ سے مکمل کی۔

خُدانے سابقہ اصولوں کوایک طرف رکھ دیا کیونکہ وہ کمزور اور بے فائدہ تھے ، ’’( کیونکہ شریعت نے کسی چیز کو کامل نہیں کِیا )اور اُس کی جگہ ایک بہتر اُمید رکھی گئی جس کے وسیلہ سے ہم خُداکے نزدیک جاسکتے ہیں ۔ اورچونکہ مسیح کا تقرر بغیر قسم کے نہ ہُو ا۔‘‘ (عبرانیوں ۷:۱۹۔۲۰)۔ یسوع ؔ نے ایک قسم اُٹھائی اور اپنے بپتسمہ اور خون کے ساتھ ہمیں ہمارے تما م گناہوں سے نجات دی ۔ قانون کے مطابق شہادت ایک بے پھل موت ہے ، اور صرف سچاایمان پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھنا ہے۔

ہمیں پھلدار ایمان رکھنا ہے ۔ آپ اپنی روح کے لئے کسے اچھا خیال کرتے ہیں ؟ کیا یہ باقاعدگی سے گرجا میں شرکت کرنا اور شریعت کے مطابق جینا بہترہو گا ،یا کیا خُدا کی کلیسیا میں شرکت کرنا زیادہ بہترہو گا جہاں نئے سِرے سے پیدا ہونے کی پانی اور روح کی خوشخبری کی منادی کی جاتی ہے ،تاکہ آپ نئے سِرے سے پیدا ہو سکیں؟ کونسا گرجاگھر اور کونسا مبشر آپ کی روح کے لئے زیادہ فائدہ مند ہوگا ؟ اس کے بارے میں سوچیں اور ایک کو چُنیں جو آپ کی روح کے لئے اچھا ہوگا۔

 خُد اایک مناد کے وسیلہ سے آپ کی روح کو بچاتا ہے جو پانی اور روح کی خوشخبری کے الفاظ رکھتا ہے ۔ ہر کسی کو اپنی ذاتی روح کے لئے یقینا ذمہ داری اُٹھانی چاہیے۔ ایک حقیقتاً عقلمند ایمانداروہ ہے جو اپنی روح کو خُدا کے کلام کے لئے وقف کرتا ہے۔

 

 

یسوعؔ ایک قسم کے وسیلہ سے کاہن بنا

                           

کیا لاویؔ کے نسب نامہ کی نسل ایک قسم کے وسیلہ سے کاہن بنی تھی؟

نہیں۔ صرف یسوعؔ ایک قسم کے وسیلہ سے کاہن بنا۔

 

عبرانیوں ۷:۲۰۔۲۱کہتاہے ،’’ اور چونکہ مسیح کا تقرر بغیر قسم کے نہ ہُوا۔(کیونکہ وہ تو بغیر قسم کے کاہن مقرر ہوئے ہیں مگر یہ قسم کے ساتھ اُس کی طرف سے ہُوا جس نے اُس کی بابت کہا کہ خُداوند نے قسم کھائی ہے اور اُس سے پھرے گا نہیں کہ تُو ابد تک کاہن ہے)۔ ‘‘

اور زبور ۱۱۰:۴کہتا ہے ، ’’خُد اوند نے قسم کھائی ہے اور پھریگا نہیں کہ تُو ملکِ ؔ صِدق کے طورپر ابد تک کاہن ہے ۔‘‘ خُد اوند نے ایک قسم کھائی ۔ اُ س نے ہمارے ساتھ ایک عہد قائم کیا اور تحریری کلام کے وسیلہ سے اِسے ہمیں دکھایا ۔ ’’میَں ملکَؔ صِدق کی بابت ابد ی سردار کاہن بن جاوٴنگا ۔ ملکِؔ صِدق راستبازی کا بادشاہ، صلح کا بادشاہ اور ابد تک سردار کاہن ہے۔ میں تمہاری نجات کے لئے ملکِؔ صِدق کی بابت ابدی سردار کاہن بن جاوٴنگا۔‘‘

یسوعؔ اس دُنیا میں آیا اور بہتر عہد کی ضمانت بن چکاہے (عبرانیوں۷:۲۲)۔ بچھڑوں اور بکروں کے خون کی بجائے ، اُ س نے ہمارے تمام گناہ دھونے کے لئے بپتسمہ لینے اورصلیب پر خون بہانے کے وسیلہ سے قربانی کے طورپر اپنے آپ کو پیش کیا۔

پرانے عہد نامہ کے دَور میں ، جب ایک سردار کاہن مرتا تھا ، اُس کا بیٹا جب وہ تیس سال کا ہو جاتا تھاکہانت کو جاری رکھتاتھا ۔ جب وہ بوڑھا ہو جاتا اور اُس کا بیٹا تیس سال کی عمر کو پہنچ جاتا ، وہ اپنے بیٹے کو کہانت منتقل کر دیتاتھا۔

سردار کاہن کے بہت سارے بیٹے موجود تھے ۔ پس داوٴدؔ نے ایک نظام مقر ر کِیا جس کے وسیلہ

سے اُن سب نے باری باری اپنا فرض سنبھالا ۔ جس طرح وہ ہارونؔ کی نسل میں سے سب کاہنوں کے طورپر مقرر کیے جاتے تھے ، وہ کہانت کا انتظام کرنے کا حق اور فرض رکھتے تھے ۔ لوقاکہتاہے ، ’’اِبیاہ ؔ کے فریق میں سے ایک زکریاہؔ نامی کاہن تھا۔۔۔جب وہ خُد اکے حضور اپنے فریق کی باری پر کہانت کاکام انجات دیتا تھا تو اَیسا ہُوا ۔۔۔‘‘

یسوعؔ اس دُنیا میں آیا اور ہمیشہ کے لئے کہانت کے انتظام کو سنبھال لیا ۔ وہ اچھی چیزوں کے آنے کے لئے ایک کاہن کے طورپر آیا ۔ اُ س نے پانی اورروح کی نئے سِرے سے پیدا ہونے کی نجات کو پورا کِیا۔

ہارونؔ کی اولاد اپنے جسم میں کمزور اورنامکمل تھی۔ کیا ہوتا جب ایک سردار کاہن مرتا تھا؟ اُس کے بیٹے کہانت کی سرداری کو سنبھال لیتے تھے ، لیکن اَیسی قربانیاں نسلِ انسانی کی نجات کی یقین دہانی کے لئے کبھی کافی نہیں ہو سکتی تھی ۔ نسلِ انسانی کے وسیلہ سے ایمان کبھی بھی ایک سچا اور مکمل ایمان نہیں ہو سکتا ہے۔

نئے عہد نامہ کے دَور میں یسوعؔ اس دُنیا میں آیا ۔ لیکن اُسے مسلسل قربانی پیش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ابد تک ز ندہ ہے۔ اُس نے اپنے بپتسمہ کے ساتھ ہمارے گناہوں کو ہمیشہ کے لئے اُٹھا لیا۔ اُس نے اپنے آپ کو پیش کیا اور اُن سب کو گناہ سے مکمل طورپر آزاد بنانے کے لئے مصلوب ہوا جو اُس پر ایمان رکھتے ہیں۔

اب ، وہ زندہ ہے اورہمارے لئے گواہی دینے کے لئے خُداکے دہنے ہاتھ پر بیٹھا ہوا ہے۔ ’’پیارے باپ ، وہ شاید اب تک نامکمل ہیں ، لیکن وہ مجھ پر ایمان رکھتے ہیں۔ کیا میں نے بہت عرصہ پہلے اُن کے تمام گناہ نہیں اُٹھائے ؟ ‘‘ یسوعؔ ہماری نجات کا ابدی سردار کاہن ہے۔

زمینی کاہن کبھی بھی مکمل نہیں تھے ۔ جب وہ مرتے، اُن کے بیٹے کہانت سنبھال لیتے۔ ہماراخُداوند ہمیشہ تک زندہ ہے ۔ اُس نے ہمارے لئے اِس دُنیا میں آنے ، یوحناؔ اصطباغی سے بپتسمہ لینے اور تب ہمارے تمام گناہوں کے لئے صلیب پر خون بہانے کے وسیلہ سے ابدی نجات کو پورا کیِا۔

’’اور جب اُن کی معافی ہوگئی ہے تو پھر گناہ کی قربانی نہیں رہی۔‘‘ (عبرانیوں ۱۰ :۱۸) ۔ یسوعؔ آخر ی تک وقت ہمار ی نجات کی گواہی دیتاہے ۔ کیا آپ پانی اور روح کے وسیلہ سے نئے سِرے سے پیدا ہو

چکے ہیں ؟

’’چنانچہ اَیسا ہی سردار کاہن ہمارے لائق بھی تھا جو پاک اوربے ریا اور بے داغ ہو اور گنہگاروں سے جُدا اور آسمانوں سے بُلند کیا گیاہو۔‘‘(عبرانیوں ۷:۲۶) ۔’’اس لئے کہ شریعت تو کمزور آدمیوں کو سردار کاہن مقرر کرتی ہے مگر اُس قَسم کا کلام جو شریعت کے بعد کھائی گئی اُس بیٹے کو مقرر کرتا ہے جو ہمیشہ کے لئے کامل کیا گیا ہے ۔‘‘(عبرانیوں۷:۲۸) ۔

آپ کو میں جو بتانا پسند کرونگا وہ یہ ہے کہ یسوعؔ مسیح ، بے عیب نے ، اپنے بپتسمہ کے پانی اور صلیب پر اپنے خون کے وسیلہ سے ایک ہی بار اور ہمیشہ کے لئے ہمارے گناہوں کو دھو دیاہے ۔اُس نے ہمیں ہمارے تمام گناہوں سے اعمال کی شریعت کے وسیلہ سے نہیں ، بلکہ ہمارے تمام گناہ اُٹھانے ا ورہمیشہ کے لئے پرکھے جانے کے وسیلہ سے بچایا۔

کیا آپ ایمان رکھتے ہیں کہ اُ س نے ہمیں ہمارے تمام گناہوں کی ابدی نجات کے وسیلہ سے نجات دی ؟ اگر آپ ایمان رکھتے ہیں آپ نجات یافتہ ہیں۔ لیکن اگر آپ نہیں رکھتے ہیں ، آپ کو اب تک یسوعؔ کی ابدی نجات کے بارے میں بہت زیادہ سیکھنا ہے۔

سچاایمان پانی اورروح کی خوشخبری سے ، سختی سے صحائف پر مبنی ہونے سے حاصل ہوتا ہے۔

ابدی آسمانی سردار کاہن ، یسوعؔ مسیح ، اپنے بپتسمہ اور صلیبی خون کے وسیلہ سے ہمارا ابدی نجات دہندہ بن گیا۔

 

 

ہمیں اپنے ایمان کو پوری طرح سمجھنا ہے

 

’’یسوعؔ پر ایمان رکھنے کا ‘‘کیا مطلب ہے ؟

یسوعؔ کے بپتسمہ اور اُس کے صلیبی خون پر ایمان رکھنا۔

 

ہمیں اِس کے بارے میں سوچنا ہے کہ ہم کیسے دُرست طریقہ کے ساتھ یسوعؔ پر ایمان رکھ سکتے ہیں اور اپنے ایمان کو سیدھا قائم رکھ سکتے ہیں ۔ کیسے ہم یسوعؔ پر مناسب اور دُرست طریقہ کے ساتھ ایمان رکھ سکتے ہیں ۔ ہم یسوع ؔ کے بپتسمہ اور صلیب پر اُس کے خون کی خوشخبری پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے اَیسا کر سکتے ہیں ۔

دُرست ایمان یسوعؔ کے کام پر ، اُس کے بپتسمہ اور خون پر ، اپنے ذاتی غلط نظریات کو شامل کیے بغیر ایمان رکھنا ہے۔ کیا آپ اِس پر سچ کے طورپر ایمان رکھتے ہیں ؟ آپ کی روحانی حالت کیسی ہے ؟ کیا آپ بہت زیادہ اپنے ذاتی کاموں اور کوششوں پر انحصار کرتے ہیں ۔

زیادہ وقت نہیں گزر چکا جب سے میں نے یسوعؔ پر ایمان رکھنا شروع کیا ، لیکن میں نے تقریباً دس سا ل تک شریعت کی وجہ سے تکلیف اُٹھائی۔ آخرکار میں اِس قسم کی زندگی سے تنگ آگیا ؟ حتیٰ کہ میں اپنے آپ کے لئے وہ وقت یاد کرنا پسند نہیں کرتا ۔ میری بیوی یہاں بیٹھی ہوئی ہے وہ جانتی ہے ہمارے لئے یہ کتنا خوفناک تھا۔

’’اتوار کو ، میں کہتا تھا ، جانم ، آئیں آج ہم خوشی منائیں ۔‘‘

’’لیکن آج اتوار ہے! ‘‘

وہ حتیٰ کہ اتوار کے دن کپڑے نہیں دھوتی تھی ۔ ایک اتوار ، میری پینٹ پھٹ گئی ۔ لیکن اُ س نے

مجھے کہا سوموار کے دن تک انتظار کریں۔ حقیقت کے طورپر ، حتیٰ کہ میں زیادہ مستقل تھا جتنا کہ ہم سبت کو دُرست طورپر مانتے ہیں۔ لیکن یہ بہت سخت تھا۔ ہم نے کبھی اتوار کے دن آرام نہیں کیا کیونکہ سبت کو دُرست طورپر قائم رکھنا انتہائی مشکل تھا۔ میں اَب تک اُن دنوں کو یاد کرتا ہوں۔

پیارے دوستو،یسوعؔ پر واقعی ایمان رکھنے کے لئے ،ہمیں اُس کے بپتسمہ اور اُس کے صلیبی خون کے وسیلہ سے ہمارے گناہوں کے کفارے پر ایمان رکھنا ہے ۔ سچا ایمان یسوعؔ کی الوہیت اور انسانیت اور تمام چیزیں جو اُس نے اس دُنیا میں کیِں پر ایمان رکھنا ہے ۔ سچا وفادار اُس کے تمام کلمات پر ایمان رکھتا ہے۔

اس کا کیامطلب ہے ، ’’یسوعؔ پر ایمان رکھیں ؟ ‘‘ یہ یسوعؔ کے بپتسمہ اور اُ سکے خون پر ایمان

رکھنا ہے ۔ اس میں انتہائی گہری سادگی موجودہے۔ ہم سب کو جو کرنا ہے کتابِ مقدس میں دیکھنا ہے اور خوشخبری پر ایما ن رکھنا ہے ۔ ہم سب کو دُرست طریقے کے ساتھ ایمان رکھناچاہیے ۔

’’اَے خُداوند ، تیر ا شکر ہو ۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ یہ میر ی کوششوں کے وسیلہ سے نہیں ہُوا ہے! کیونکہ شریعت گناہ کا علم ہے (رومیوں ۳:۲۰)۔ اب میں یہ سب سمجھتاہوں ۔ میں نے سوچا کہ کیونکہ شریعت اچھی تھی ، کیونکہ یہ خُدا کا حکم تھا ، مجھے کوشش کرنی چاہیے اور اِس کے مطابق رہنا چاہیے۔ میں نے اب تک بہت سخت کوشش کی ، لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ میں یہ سوچنے پر غلط تھا یعنی میں شریعت کے مطابق نہ رہ سکا۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ میں کبھی بھی خُدا کے احکام کو قائم نہیں رکھ سکتا ! اس لئے ، خُد اکی شریعت کے وسیلہ سے ، اب میں احساس کرتا ہوں کہ میرا دل بُرے خیالات اور خطاکاریوں کے ساتھ بھرا ہوا ہے ۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ شریعت ہمارے دل میں گناہ کے علم کو بٹھانے کے لئے دی گئی ہے ۔ ہاں ، تیر اشکر ہو ، اَے خُداوند ۔ میں نے تیری مرضی کو غلط سمجھا اور شریعت کو قائم رکھنے کی اتنی سخت کوشش کی۔ میرے لئے حقیقی طور پرحتیٰ کہ یہ کوشش کرنا خودپسندی تھی۔ میں توبہ کرتا ہوں ۔ اب میں جانتا ہوں کہ یسوعؔ نے بپتسمہ لیا اور میری نجات کے لئے خون بہایا! میں ایمان رکھتا ہوں! ‘‘

آپ کو پورے دل سے اور خالصتاً ایمان رکھناہے ۔ آپ کو صرف کتابِ مقدس کے تحریری کلمات پر ایمان رکھنا چاہیے۔ یہ واحد رستہ ہے کہ آپ مکمل طور پر نئے سِرے سے پیدا ہو سکتے ہیں ۔

یسوعؔ پر ایمان رکھنا کیا ہے ؟ کیا یہ اَیسی چیز ہے جو ہمیں ایک عرصہ کے دوران مکمل کرنی ہے ؟

 کیا ہمارا ایمان ایک مذہب ہے جس کے لئے آپ کو کام کرنا ہے ؟ لوگ دیوتا بنا چکے ہیں ، اور وہ اِن دیوتاوٴں کو جوڑنے کے لئے مذاہب بنا چکے ہیں ۔ مذہب ایک عمل ہے جس کے وسیلہ سے لوگ ایک مقصد تک پہنچنے کے لئے کام کرتے ہیں ، یعنی انسان کو بھلائی کے لئے اُکسانا۔

 تب ایمان کیا ہے ؟ اس کا مطلب ہے خُدا پر ایمان رکھنا اور اُس کی جانب دیکھناہے۔ہم یسوع کی نجات کی طرف دیکھتے ہیں اور اِس برکت کے لئے اُس کا شکر اَدا کرتے ہیں ۔ یہ سچاایمان ہے ۔ یہ ایمان اور مذہب کے درمیان فرق ہے۔ ایک بار آپ ان دوکے درمیان فرق کر سکتے ہیں ، آپ اپنے ایمان کی سوجھ بوجھ کے لئے سو نکات حاصل کریں گے۔

ماہرِ علمِ الہٰیات جو نئے سِرے سے پید انہیں ہوئے ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمیں یسوعؔ پر ایمان رکھنا چاہیے اور پاکیزگی سے رہنا چاہیے۔ کیا کوئی صِرف پاکیزہ ہونے کے وسیلہ سے وفادار ہو سکتا ہے ؟ بے شک ہمیں اچھے ہونا ہے۔ کون اُن میں سے زیادہ پاکیزہ زندگیاں گزارتے ہیں جو ہم میں سے نئے سِرے سے پیدا ہوئے ہیں ؟

لیکن نکتہ یہ ہے کہ وہ گنہگاروں کو یہ کہہ رہے ہیں ۔ اوسط گنہگار کے اندر بارہ اقسام کے گنا ہ موجود ہیں ۔ کیسے وہ پاکیزہ طورپر رہ سکتا ہے ؟ یقینا ، اُس کا ذہن شاید سمجھ سکتا ہے کیا کرنا ہے ، لیکن اُس کا دل اِسے جاری نہیں رکھ سکتا ۔ جب ایک گنہگار گرجا گھر سے باہر قدم نکالتا ہے ، پاکیزہ طورپررہنا محض نظریہ بن جا تاہے ، اور اُس کی فطرت اُسے گناہ کی طرف راغب کرتی ہے ۔

اِس لئے ، ہمیں اپنے دلوں میں فیصلہ کرنا ہے آیا ہم شریعت کے مطابق زندہ رہ رہے ہیں یا یسوعؔ کے بپتسمہ اور اُس کے صلیبی خون پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے ، یعنی آسمان کی بادشاہت کے ابدی سردارکاہن پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے نجات یافتہ ہوں۔

یاد رکھیں کہ یسوعؔ اُن کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں سچاسردار کاہن ہے ۔ آئیں ہم یسوع ؔ کے بپتسمہ او ر اُس کے صلیبی خون کے وسیلہ سے سچی نجات پر ایمان رکھنے اور جاننے کی معرفت نجات یافتہ ہوں۔

 

 

نئے سِرے سے پیدا ہوئے لوگ دُنیا کے آخر سے خوفزد ہ نہیں ہیں

                           

کیوں نئے سِرے سے پیدا ہوئے لوگ دُنیا کے آخر سے بے خوف ہیں ؟

کیونکہ اُن کا پانی اور رُوح کی خوشخبری پر ایمان اُنہیں گناہ سے آزاد کرتا ہے۔

 

جب آپ واقعی نئے سِرے سے پیدا ہوتے ہیں آپ کو خوفزدہ نہیں ہونا ہے کہ دُنیا آخر کی طرف جارہی ہے ۔ کوریاؔ میں بہت سارے مسیحیوں نے دعویٰ کِیا کہ دُنیا ۲۸اکتوبر، ۱۹۹۲ کو ختم ہو جائیگی ۔ اُنہوں نے کہا ، یہ کِتنا کہرام انگیز اور خوفناک ہو گا۔ لیکن اُن کے تمام دعوے جھوٹ میں بدل گئے ۔ واقعی نئے سِرے سے پیداہوئے لوگ پاکیزہ طور پر رہتے ہیں ، وہ آخری لمحے تک خوشخبری کی منادی کر رہے ہیں ۔جب تک یہ دُنیا اختتام تک پہنچتی ہے ، ہم سب کو جو کرنا ہے پانی اور روح کی خوشخبری کی منادی کرنی ہے ۔

جب دُلہا آئیگا ، دُلہنیں جو واقعی پانی اور روح کے وسیلہ سے نئے سِرے سے پیدا ہوئی ہیں یہ کہتے ہوئے ، اُسے بڑی خوشی کے ساتھ مل سکتی ہیں ، ’’ہاں ، آپ آخر کار آ چکے ہیں ! میرا جسم اب تک نامکمل ہے ، لیکن آپ نے مجھ سے محبت رکھی اور مجھے میرے تمام گناہوں سے نجات دی ۔ پس میں اپنے دل میں کوئی گناہ نہیں رکھتی ۔ اَے خُداوند ، تیرا شکر ہو، تُو میرا نجات دہندہ ہے! ‘‘

یسوعؔ تمام راستبازوں کا روحانی دُلہا ہے۔ شادی واقع ہوتی ہے کیونکہ دُلہا دُلہن سے محبت کرتا ہے ، اِدھر اُدھر کوئی دوسری راہ نہیں ہے ۔ میں جانتا ہوں یہ بعض اوقات اس دُنیا میں اس طرح واقع ہوتا ہے ، لیکن آسمان میں، یہ دُلہا ہے جو فیصلہ کرتا ہے آیا شادی کو ہونا ہے ۔ یہ دُلہا یسوعؔ ہے جو اپنی محبت کی بُنیاد پر شاد ی کرنے کو ، دُلہنوں کے علاوہ چُنتا ہے اور نجات پیش کرتا ہے ۔ یہ ہے کیسے آسمان پر شادی ہوتی ہے۔

 دُلہا دُلہنوں کے بارے میں سب جانتا ہے ۔ کیونکہ اُس کی پیاری دُلہنیں اَیسی گنہگار تھی ، اُس نے

اُن پر ترس کھایا اور اُنہیں بپتسمہ لینے اور صلیب پر خون بہانے کے وسیلہ سے تمام گناہ سے بچالیا۔

ہماراخُدا وند یسوعؔ ،ہارونؔ کی نسل کے طورپر اِس دُنیا میں نہیں آیا۔ وہ اِس دُنیا میں ایک زمینی

قربانی پیش کرنے کے لئے نہیں آیا۔ لاویؔ ، یعنی ہارونؔ کی اولاد ، کام کرنے کے لئے کثرت سے موجود تھی۔

حقیقت میں پرانے عہد نامہ کی قربانیوں کا خاص کردار یسوعؔ مسیح بذاتِ خود کے علاوہ کچھ دوسرانہیں تھا ۔ اس لئے ، جب حقیقی چیز اِس دُنیا میں آئی ، اس کے سایہ کے ساتھ کیا ہُوا ؟ سایہ ایک طرف رکھ دیا گیا۔

جب یسوعؔ اس دُنیا میں آیا ، اُس نے کبھی قربانیاں پیش نہ کیِں جس طرح ہارونؔ نے کیِں۔ اُس

نے اپنے آپ کو گنہگاروں کی نجات کے لئے بپتسمہ لینے اور خون بہانے کے وسیلہ سے نسلِ انسانی کو پیش کیِا۔ اُس نے صلیب پر نجات پوری کی۔

اُن کے لئے جو یسوعؔ کے بپتسمہ اور صلیبی خون پر ایمان رکھتے ہیں ، نجات غیر اصطلاحوں میں نہیں آئیگی ۔ یسوعؔ نے ہمارے گناہوں کے لئے کفارہ ایک غیر واضح طریقہ سے نہیں دیا ۔ اُس نے اِسے صاف طورپر کِیا ۔ ’’راہ اورحق اور زندگی میَں ہُوں۔ ‘‘ (یوحنا ۱۴:۶)۔ یسوعؔ اِس دُنیا میں آیا اور ہمیں اپنے بپتسمہ ، اپنی موت ، اور اپنے جی اُٹھنے کے ساتھ نجات دی۔

 

 

پرانا عہد نامہ یسوعؔ کا نمونہ ہے

                        

دوسراعہد قائم کرنے کی کیا وجہ تھی ؟

کیونکہ پہلا عہد کمزور اور بے فائدہ تھا۔

 

پرانا عہد نامہ نئے عہد نامے کا عکس ہے۔ اگرچہ یسوعؔ نے کبھی پرانے عہد نامہ کے سردارکاہنوں کی مانند قربانیاں پیش نہ کیِں ، اُس نے ایک بہتر کہانت کا انتظام کیِا ، یعنی ، آسمانی اَبدی کہانت کا۔ کیونکہ لوگ اس دُنیا میں اپنی پیدائش سے گنہگار ہیں، وہ گنہگار بن جاتے ہیں ، اور وہ کبھی بھی خُدا کی شریعت کے وسیلہ سے راستبازنہیں بن سکتے ہیں ۔ اِس لئے خُدانے دوسرا عہد قائم کیِا۔

ہمارے آسمانی باپ نے اِس دُنیا میں اپنے واحد اِکلوتے بیٹے کو بھیجا اور جواب میں ہم سے اُس کے بپتسمہ ، اُ س کے خون اور اُس کے جی اُٹھنے پر ایمان رکھنے کے لئے کہا۔ یہ خُدا کا دوسرا عہد ہے ۔ دوسرا عہد ہم سے پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھنے کا مطالبہ کرتاہے۔

خُدا وند ہم سے مزید ہمارے اچھے کاموں کے لئے نہیں کہہ رہا ہے ۔ وہ ہمیں نہیں بتاتا ہے نجات یافتہ ہونے کے لئے کیسے رہنا ہے۔ وہ صِرف ہمیں اُس کے بیٹے کے وسیلہ سے نجات پر ایمان رکھنے کے لئے کہتاہے ۔ سب سے بڑھ کر وہ ہمیں اُس کے بپتسمہ اور صلیبی خون پر ایمان رکھنے کے لئے کہتا ہے ۔ اور ہمیں ہاں کہنا ہے۔

کتابِ مقدس میں ، یہوداہؔ کے گھرانے نے بادشاہی کو قائم رکھا۔ اسرائیل کے تمام بادشاہ سلیمان ؔ بادشاہ تک یہوداہ ؔ کے گھرانے سے پیدا ہوئے تھے ۔ حتیٰ کہ بادشاہت کی تقسیم کے بعد، یہوداہؔ کے گھرانے نے ۵۸۶قبل از مسیح میں اِس کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے تک جنوبی بادشاہت کے تخت پر قبضہ رکھا۔ اِس طریقہ سے ، یہوداہؔ کے لوگ اِسرائیلیوں کے لئے قائم رہتے ہیں ۔ لاویؔ کا قبیلہ کاہنوں میں سے ایک تھا ۔ اسرائیل کا ہر قبیلہ اپنا ذاتی کر دار رکھتا تھا۔ خُد انے یہوداہؔ کے قبیلہ سے وعدہ کِیا کہ یسوعؔ اُس کے مراتب میں سے اُٹھے گا۔

 کیوں اُ س نے یہ عہد یہوداہؔ کے قبیلہ کے ساتھ قائم کیِا ۔ اس عہد کو قائم کرنا دُنیا کے تمام لوگو ں کےساتھ ایک عہد قائم کرنے کی مانند تھا کیونکہ اسرائیلی دُنیا کے لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ یسوع ؔ نے اپنا عہد پورا کیِا ، جو اُس کے بپتسمہ ، اُس کی صلیبی موت ، اور اُس کے جی اُٹھنے کے وسیلہ سے نسلِ انسانی کی نجات تھا ۔

 

 

نسلِ انسانی کے گناہ توبہ کے وسیلہ سے دھوئے نہیں جا سکتے ہیں

                                  

کیا انسان کے گناہ توبہ کے ساتھ دھوئے جاتے ہیں ؟

نہیں

 

یرمیاہ ۱۷:۱ میں لکھا ہوا ہے کہ ہر شخص کے گناہ دوجگہ پر لکھے جاتے ہیں ۔ ’’یہوداہؔ کا گناہ لوہے کے قلم اور ہیرے کی نوک سے لکھا گیا ہے ۔ اُن کے دل کی تختی پر اور اُن کے مذبحوں کے سینگوں پر کندہ کیا گیا ہے ۔‘‘

ہمارے گناہ ہمارے دلوں پر لکھے جاتے ہیں ۔ یہ ہے کیسے ہم جانتے ہیں کہ ہم گنہگار ہیں ۔ اس سے پہلے کہ کوئی یسوعؔ پر ایمان رکھنے کے لئے آتا ہے وہ باخبر نہیں ہے کہ وہ ایک گنہگار ہے ۔ کیوں ؟ کیونکہ خُدا کی شریعت اُس کے دل میں غیر حاضر ہے ۔ اس لئے ، ایک بار جب کوئی یسوعؔ پر ایمان رکھتا ہے ، وہ احساس کرتاہے کہ وہ خُد اکے سامنے ایک گنہگار ہے۔

بعض صِرف احساس کرتے ہیں کہ وہ یسوعؔ پر ایمان رکھنے کے بعد ۱۰ سال کے لئے گنہگار ہیں ۔ ’’اَے ،پیارے! میں ایک گنہگار ہوں ! میں سوچتا ہوں میں نجات پاگیا تھا ، لیکن کسی طرح میں اب تک ایک گنہگار ہوں ! ‘‘ احساس ایک دن پیدا ہوتاہے جب ہم حتمی طورپر واقعی اپنے آپ کو جس طرح ہم ہیں دیکھتے ہیں ۔ وہ د س سال کے لئے اتنے خوش تھے لیکن اچانک وہ سچائی دیکھتے ہیں ۔ کیا آپ جانتے ہیں کیوں؟ یہ احساس پیدا ہوتا ہے کیونکہ آخرکار اُن کے سچے گناہ اور خطائیں حتمی طورپر خُدا کی شریعت کے وسیلہ سے صاف ہو جاتی ہیں ۔ اَیسا شخص نئے سِرے سے پیدا ہوئے بغیر ۱۰سال سے یسوعؔ پر ایمان رکھ چکا ہے۔

چونکہ گنہگا ر اپنے د ل سے اپنے گناہوں کو مٹانہیں سکتا ہے ، وہ خُداکے سامنے ایک گنہگار ہی رہتا ہے ۔ بعض ۵سال ، اور دوسرے اس احساس تک پہنچنے کیلئے ۱۰سال لگاتے ہیں ۔ بعض اس احساس تک ۳۰ سال بعد پہنچتے ہیں بعض ۵۰سال بعد ، اور بعض کبھی بھی موت تک اس سچائی کا احساس نہیں کرتے ہیں ۔’’پیارے خُدا ، میں اپنے ذہن میں احکام رکھنے سے پہلے اچھا ہُوا کرتا تھا ۔ میں پُر اعتما د تھا کہ میں شریعت پر اچھی طرح عمل کر رہا ہُوں ، لیکن اب میں احساس کرتاہُوں کہ میں ہر روز گناہ کرچکا ہُوں۔ بالکل جس طرح پولوسؔ رسول نے کہا، ’’ایک زمانہ میں شریعت کے بغیر میں زندہ تھا مگر جب حکم آیا تو گناہ زندہ ہو گیا اور میں مر گیا ۔‘‘ (رومیوں ۷:۹)۔ میں ایک گنہگا ر ہوں حتیٰ کہ میں مسیح پر ایمان رکھتا ہُوں۔

یہ آپ کے ذاتی گناہ ہیں جو آپ کو خُداکے کلام کے مطابق زندہ رہنے سے روکتے ہیں ۔ آ پ

کے گناہ آپ کے دل پرلکھے جاتے ہیں ۔ کیونکہ خُدا آپ کے گناہوں کو وہاں لکھتا ہے، جب آپ دُعاکے لئے اپنے سر کو جھکاتے ہیں ، آپ کے تمام گناہ اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔” حیران کن ! میں گناہ ہُوں جو تم نے سرزد کِیا تھا۔‘‘

” لیکن میں نے ۲سال پہلے تیرا فِدیہ دیا تھا ۔ تم کیوں بالکل اچانک پھر اپنے آپ کو مجھے دکھا رہے ہو؟ تم دُور کیوں نہیں جا چکے ہو ؟ ‘‘

’’ اوئے ، اِتنے گندے مت بنو! میں تیرے دل پر لکھا ہُواہُوں ۔ کوئی معنی نہیں رکھتا تم کیا سوچتے ہو ، تم اب تک ایک گنہگارہو۔‘‘

’’ نہیں! نہیں ‘‘!

پس ، گنہگار پھر۲سال پہلے سرزد کیے گئے گناہوں کے لئے توبہ کرتا ہے۔ ’’خُدا وند ، مہربانی سے مجھے معاف کر دے ۔ میں اب تک اُن گناہو ں سے اذیت اُٹھاتا ہوں جو میں نے پہلے سر زد کیے تھے ۔ میں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی لیکن وہ اب تک میرے ساتھ ہیں ۔ مہربانی سے مجھے معاف کردے ، کیونکہ میں گناہ کر چکا ہُوں۔‘‘

لیکن کیا وہ گناہ توبہ کے ساتھ دُور ہو جاتے ہیں ؟ کیونکہ لوگوں کے گناہ اُن کے دلوں پر لکھے جاتے ہیں ، وہ پانی اور روح کی خوشخبری کے بغیر کبھی بھی مٹائے نہیں جا سکتے ہیں ۔ صرف پانی اور روح کی خوشخبری کے وسیلہ سے حقیقی فِدیہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ہم صِرف یسوعؔ کی سچی خوشخبری پر ہمارے ایمان کے وسیلہ سے نجات یافتہ ہو سکتے ہیں ۔

 

 

میَں تمہارا نجات دہندہ ہُوںگا

 

ہمیں نئے عہد پر کیسے ردِ عمل ظاہر کر نا چاہیے؟

ہمیں اس پر اپنے دلوں میں ایمان رکھنا ہے اور اس کی پوری دُنیا میں منادی کرنی ہے۔

 

ہمارے خُداوند نے ہمارے ساتھ ایک نیا عہدباندھا ۔ ’’ میں تمہارا نجات دہندہ بنونگا ۔ میں تمہیں پانی اورخون کے وسیلہ سے دُنیا کے تمام گناہوں سے مکمل طورپر آزاد کرونگا۔ میں یقینا اُن سب کو برکت دُونگا جو مجھ پر ایمان رکھتے ہیں ۔‘‘

کیا آپ خُداکے ساتھ اِس نئے عہد پر ایمان رکھتے ہیں ؟ ہم اپنے تمام گناہوں سے نجات یافتہ اور

 نئے سِرے سے پیدا ہو سکتے ہیں جب ہم اُ س کے عہد کے سچ اور پانی اورخون کے وسیلہ سے اُس کی نجات پر ایمان رکھتے ہیں۔

ہم ایک ڈاکٹر پر بھروسہ نہیں کرتے اگروہ ہماری دُرست طورپر تشخیص نہیں کرتاہے ۔ ایک ڈاکٹر کو پہلے اپنے مریضوں کی دُرست طو رپر تشخیص کرنی ہے اور تب مناسب دوائی تجویز کرنی ہے۔ دوائیوں کی تمام اقسام موجود ہیں ، لیکن ڈاکٹر کو صحیح طورپر جاننا ہے کونسی استعمال کرنی ہے ۔ایک بار ڈاکٹر اپنے مریضوں کی دُرست تشخیص کرتا ہے ، اُنہیں شفا دینے کے لئے بہت ساری دوائیاں موجود ہیں۔ لیکن غلط تشخیص کے ساتھ ، وہ تمام اچھی دوائیاں مریض کو صرف بد تر بنا سکتی ہیں۔

اِسی طرح ، جب آپ یسوعؔ پر ایمان رکھتے ہیں ، آپ کو خُدا کے کلام پر مبنی اپنی روح کی حالت کی تشخیص کرنی ہے۔ جب آپ خُدا کے کلام کے ساتھ اپنی روح کا معائنہ کرتے ہیں ، آپ دُرست طو رپر دیکھ سکتے ہیں آپ کی روح کی حالت کیاہے۔ روحوں کا ڈاکٹر کسی چارہ کے بغیر اپنے تمام مریضوں کو شفا دے سکتاہے۔ وہ تمام نئے سرے سے پیدا ہو سکتے ہیں ۔

اگر آپ کہتے ہیں ، ’’میں نہیں جانتا آیا میں گناہوں سے آزادتھا، ‘‘ اس کا مطلب ہےآپ نجات یافتہ نہیں ہیں ۔ اگرایک پاسبان واقعی یسوعؔ کا شاگرد ہے ، اُسے اپنے پیروکاروں کے لئے گناہ کے مسئلے کو

حل کرنے کے قابل ہونا ہے ۔تب ، وہ اُن کے ایمان کے مسائل کو حل کرنا جاری رکھ سکتا ہے اور اُن کی روحانی طورپر راہنمائی کر سکتا ہے ۔ اُسے اپنے پیروکاروں کی صحیح روحانی حالت دیکھنے کے قابل ہوناہے۔

یسوعؔ اس دُنیا میں دُنیا کے تمام گناہ اُٹھانے کے لئے آیا ۔ وہ آیا اور بپتسمہ لیا اور صلیب پر مر گیا ۔ جب اُس نے تمام گناہوں کا فِدیہ دیا ، کیا اُس نے آپ کے گناہ چھوڑ د یئے ؟ پانی اورروح کا کلام تمام ایمانداروں کے گناہوں کو مٹاتاہے۔

خوشخبری طاقتور بم کی مانند ہے۔ یہ اونچی عمارتوں سے لے کر پہاڑوں تک ہر چیز کو اُڑا دیتی ہے۔ یسوعؔ کا کام بالکل اسی طرح ہے۔ وہ اُن کے گناہوں کو مٹاتاہے جو اُ س میں پانی اور روح کی خوشخبری کے ساتھ اُس پر ایمان رکھتے ہیں ۔ آئیں ہم پانی اور روح کی خوشخبری پر نظر کریں جس طرح یہ کتابِ مقدس میں ظاہر کی گئی ہے۔

 

 

پرانے عہد نامہ میں ہاتھوں کے رکھے جانے کی خوشخبری

                                 

پرانے عہد نامہ میں ہاتھوں کی رکھے جانے کا کیا مقصد تھا؟

اِس کامقصدگناہ کی قربانی پر گناہوں کو لادنا تھا۔

 

آئیں ہم گناہوں کی معافی کی خوشخبری کے سچ کو احبار۱:۳۔۴میں سے دیکھیں ۔ ’’اگر اُس کا چڑھاوا گائے بیل کی سوختنی قربانی ہو تو وہ بے عیب نر کو لا کر اُسے خیمہء اِجتماع کے دروازہ پر چڑھائے تاکہ وہ خود خُداوند کے حضور مقبول ٹھہرے ۔ اور وہ سوختنی قربانی کے جانور کے سر پر اپنا ہاتھ رکھے تب وہ اُس کی طرف سے مقبول ہو گا تاکہ اُس کے لئے کفارہ ہو۔‘‘

یہ حوالہ ہمیں بتاتا ہے کہ سوختنی قربانیاں خیمہء اِجتماع کی ملاقات کے دروازے پر خُداوند کے سامنے قربانیوں کے سر پرہاتھوں کے رکھے جانے کے وسیلہ سے گذرانی جانی چاہیے، اور قربانی ایک زندہ

بے عیب جانور ہونا چاہیے۔

پرانے عہد نامہ کے دَور میں ، ایک گنہگار اپنے روز مرّہ کے گناہوں کے لئے فِدیہ دینے کے واسطے قربانی پر اپنے ہاتھوں کو رکھتا تھا ۔ وہ خُداوند کے سامنے گناہ کی قربانی کو ذبح کرتا اور کاہن اُس کا کچھ خون لیتا اور سوختنی قربانی کے مذبح کے سینگوں پر اِسے لگاتا تھا۔ تب وہ باقی خون مذبح کی بُنیاد پر اُنڈیل دیتا تھا اور گنہگار اُس دن کے گناہ کے لئے معاف کیِا جاتا تھا ۔

ایک سال کے گناہ کے لئے ،احبار ۱۶:۶ ۔۱۰ میں یہ لکھا ہُوا ہے ، ’’اور ہارون ؔ خطا کی قربانی کے بچھڑے کو جو اُس کی طرف سے ہے گذران کر اپنے اوراپنے گھر کے لئے کفارہ دے ۔پھر اُن دونوں بکروں کو لے کر اُن کو خیمہء اِجتماع کے دروازہ پر خُداوند کے حضور کھڑ ا کرے ۔ اور ہارونؔ اُن دونوں بکروں پر چِٹھیاں ڈالے ۔ ایک چِٹھی خُداوند کے لئے اور دوسری عزازیلؔ کے لئے ہو ۔ اور جس بکرے پر خُداوند کے نام کی چِٹھی نکلے اُسے ہارون ؔ لے کر خطا کی قربانی کے لئے چڑھائے۔ لیکن جس بکرے پر عزازیلؔ کے نام کی چِٹھی نکلے و ہ خُداوند کے حضور زندہ کھڑا کیا جائے تاکہ اُس سے کفارہ دیا جائے اور وہ عزازیلؔ کے لئے بیابان میں چھوڑ دیا جائے ۔ ‘‘ جس طرح کتابِ مقدس میں بیان کیا گیا ، عزازیلؔ کا مطلب ’’ بجھانا ہے ‘‘ پس ایک سال کے گناہوں کا ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ پر فِدیہ دیا جاتا تھا۔

احبار۱۶: ۲۹۔۳۰ میں یہ لکھا ہوا ہے ، ’’ اور تمہارے لئے ایک دائمی قانون ہو کہ ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو تم اپنی اپنی جان کو دُکھ دینا اور اُس دن کوئی خواہ وہ دیسی ہو یا پردیسی جو تمہارے بیچ بودوباش رکھتا ہو کسی طرح کا کام نہ کرے۔ کیونکہ اُس روز تمہارے واسطے تم کو پا ک کرنے کے لئے کفارہ دیا جائیگا ۔ سو تم اپنے سب گناہوں سے خُداوند کے حضور پاک ٹھہر و گے ۔ ‘‘

یہ دن تھا جس پر اسرائیلی ایک سال کے گناہ کے لئے کفار ہ دیتے تھے ۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا ؟ پہلے ، سردار کاہن ہارونؔ کو قربانی پیش کرنی پڑتی تھی ۔ جو اسرائیل کے لوگوں کی نمائندگی کرتا تھا ؟ ہارونؔ ، خُدانے ہارونؔ اور اُس کی نسل کو سردار کاہنوں کے طورپر منظور کِیا۔

ہارونؔ اپنے اور اپنے گھرانے کے لئے بچھڑے کا فِدیہ پیش کرتا تھا ۔ وہ بچھڑے کو ذبح کرتا اور اُس کا کچھ خون رحم گاہ پر اور اُس کے سامنے سات مرتبہ چھڑکتا تھا ۔ اُسے سب سے پہلے اپنے اور اپنے گھرانے کے لئے فِدیہ دینا پڑتاتھا۔

کفارہ کا مطلب ہے کسی کااپنے گناہوں کو گناہ کی قربانی پر منتقل کرنا اور گناہ کی قربانی کو اپنی جگہ

پر مرنے دینا ۔ گنہگار وہ ہے جسے مرنا چاہیے ، لیکن اپنے گناہوں کے لئے قربانیوں پر اُن کو لادنے کے وسیلہ سے اور اپنی جگہ پر اُ س کے مرنے کے وسیلہ سے کفارہ دے سکتا تھا ۔

اُس کے اور اُس کے گھرانے کے اُن گناہوں کے کفارے کے بعد، وہ ایک بکرا خُدا کے سامنے پیش کرتا تھا جبکہ دوسرا بکرا اسرائیل کے لوگوں کی موجودگی میں عزازیلؔ کے طور پر بیابان میں بھیجواتا تھا۔

ایک بکرا گناہ کی قربانی کے طو رپر گذرانا جاتا تھا ۔ ہارونؔ گناہ کی قربانی کے سر پر اپنے ہاتھوں کو رکھتا اور اقرار کرتا ، ’’ اَے خُدا، تیرے لوگ اسرائیلیوں نے تمام دس احکام اور تیر ی شریعت کی۶۱۳شِقوں کی بے حُرمتی کی ۔ اسرائیلی گنہگار بن چکے ہیں ۔ اَب میں اپنے ہاتھ اِس بکرے پر ہمارے سال بھر کے تمام گناہوں کو دھرنے کے لئے رکھتا ہُوں۔‘‘

وہ بکرے کی گردن کاٹتا اور اُس کے خون کے ساتھ خیمہء اِجتماع کے اندر پاک ترین مقام میں داخل ہوتا۔ تب وہ اُس کا کچھ خون رحم گاہ پراور اُس کے سامنے سات مرتبہ چھڑکتا۔

پاک ترین مقام کے اندر عہد کا صندوق ہے۔ اِس کا سرپوش رحم گاہ کہلاتا ہے ، اور اس کے اندر عہد کی پتھر کی دو تختیا ں ، من کے سونے کا مرتبان ، اور ہارونؔ کا عصا ہے جو پھوٹ پڑا تھا ۔

ہارونؔ کا عصاجی اُٹھنے کو ظاہر کرتاہے ، عہد کی پتھر کی دو تختیاں اُس کا انصاف ، اور من کے سونے کا مرتبان اُس کا زندگی کا کلا م ہے ۔

عہد کے صندوق کے اوپر ایک سرپوش ہے ۔ خون رحم گاہ کے سامنے سات مرتبہ چھڑکا جاتا تھا ۔ جیسے کہ سردار کاہن کے جبہ کے کناروں پر سونے کی گھنٹیاں لٹکی ہوئی تھی، وہ بجتی تھی جب وہ خون چھڑکتا تھا ۔

احبار۱۶: ۱۴۔۱۵ میں ،یہ لکھا ہوا ہے ، ’’پھر وہ اُس بچھڑے کا کچھ خون لے کر اُسے اپنی اُنگلی سے مشرق کی طر ف سرپوش کے اوپر چھڑکے اور سرپوش کے آگے بھی کچھ خون اپنی اُنگلی سے سات بار چھڑکے ۔ پھر وہ خطا کی قربانی کے اس بکرے کو ذبح کر ے جو جماعت کی طرف سے ہے اور اُس کے خون کو پردہ کے اندر لا کر جو کچھ اُس نے بچھڑے کے خون سے کِیا تھا وہی اِس سے بھی کرے اور اُسے سرپوش کے اوپراور اُس کے سامنے چھڑ کے ۔ ‘‘

گھنٹیاں ہر بار بجتی تھیں جب وہ بکرے کا کچھ خون چھڑکتا تھا ، اور تمام اسرائیلی جو باہر جمع ہوتے تھے اُس آواز کو سُن سکتے تھے ۔ چونکہ اُن کے گناہوں کے لئے کفارہ سردار کاہن کے وسیلہ سے دیا جانا پڑتا تھا ، گھنٹیوں کی آواز کا مطلب ہے اُن کے گناہ معاف کیے جا چکے تھے ۔ یہ اسرائیل کے تمام لوگوں کے لئے برکت کی آواز تھی۔

 جب گھنٹیاں سا ت مرتبہ بجتی تھیں اُنہوں نے کہا، ’’اب میں بہت پُرسکون ہُوں ۔ میں تمام سال کے گناہوں کے لئے پریشان رہ چکا تھا ، اور اب میں آزادی محسوس کرتا ہوں ۔‘‘ اور لوگ اپنی

زندگیوں میں ، احساس ِ جرم سے آزادی محسوس کرتے ہوئے واپس چلے جاتے تھے ۔ گھنٹیوں کی آواز اُس وقت بالکل اَیسی تھی جیسے نئے سِرے سے پیدا ہونے کی پانی اور روح کی خوشخبری ہے۔

جب ہم پانی اورروح کی خلاصی کی خوشخبری کو سنتے ہیں اور اپنے دلوں کے ساتھ اِس پر ایمان رکھتے ہیں اور اِسے اپنے منہ کے ساتھ تسلیم کرتے ہیں ، یہ ہے پانی اور روح کی خوشخبری سب کیا ہے ۔ جب سات مرتبہ گھنٹی بجتی تھی ، اسرائیلیوں کے تمام سال بھر کے گناہ صاف کیے جاتے تھے ۔ اُن کے گناہ خُدا کے سامنے دھوئے جاتے تھے ۔

اسرائیلیوں کے لئے ایک بکرا قربان کرنے کے بعد، سردارکاہن دوسرے بکرے کو لیتا اور خیمہء اِجتماع کے باہر انتظار کرنے والے لوگوں کے پاس لے جاتا ۔ جب وہ اِسے دیکھتے ، سردار کاہن ہارونؔ دوسرے بکرے کے سر پر اپنے ہاتھوں کو رکھتا تھا ۔

 احبار۱۶: ۲۱۔۲۲ میں، ’’اور ہارونؔ اپنے دونوں ہاتھ اُس زندہ بکرے کے سر پر رکھ کر اُس کے اوپر بنی اسرائیل کی سب بدکاریوں اور ان کے سب گناہوں اور خطاوٴں کا اقرار کرے اور اُن کو اُ س بکرے کے سر پر دھر کر اُسے کسی شخص کے ہاتھ جو اس کام کے لئے تیار ہو بیابان میں بھجوا دے ۔ اور وہ بکرا اُن کی سب بدکاریاں اپنے اوپر لادے ہوئے کسی ویرانہ میں لے جائیگا ۔ سووہ اُ س بکرے کو بیابان میں چھو ڑ دے۔ ‘‘

سردار کاہن ، ہارونؔ ، دوسرے بکرے (عزازیلؔ ) کے سر پر اپنے ہاتھوں کو رکھتا تھا اور خُدا کے سامنے اسرائیلیوں کے سال بھر کے تمام گناہوں کا اِقرارکرتا تھا ۔ ’’اَے خُداوند ، اسرائیلیوں نے تیرے سامنے گناہ کیِا ۔ ہم نے دس احکام اور تیری شریعت کی سب ۶۱۳ شِقوں کی بے حُرمتی کی ۔ اَے خُداوند ، میں اسرائیلیوں کے سال بھر کے تمام گناہوں کو اس بکرے کے سرپر لادتاہوں۔‘‘

یرمیا ہ۱۷:۱ کے مطابق ، گناہ دو جگہوں پر لکھے جاتے ہیں ۔ ایک اعمال کی کتاب میں اور دوسرے اُن کے دلوں کی تختیوں پر ۔

پس اگر لوگوں کو اپنے گناہوں کے لئے کفارہ دینا ہے ، اُن کے گناہوں کو اعمال کی کتاب سے اور

اُنکے دلوں کی تختیوں سے مٹاناہے۔ یومِ کفارہ پر ، ایک بکرا فیصلے کی کتاب میں تحریر گناہوں کے لئے تھا اور دوسرا اُن کے دلوں کی تختیوں پر کندہ ہوئے گناہوں کے لئے تھا۔

         

 

پرانے عہد نامہ میں قربانی کے نظام کی وسیلہ سے خُدا نے اسرائیلیوں کو کیا دکھایا ؟

کہ نجات دہند ہ آئے گا اوراُن کے گناہوں کو ایک ہی بار اور ہمیشہ کے لئے مناسب ترین طریقہ کے ساتھ دھو دے گا۔

 

 بکرے کے سر پر ہاتھوں کو رکھنے کے وسیلہ سے ، سردار کاہن نے لوگوں کو دکھایا کہ اُن کے سال بھر کے گناہ بکرے پر منتقل ہو گئے تھے ۔ جب گناہ بکرے کے سر پر رکھے جاتے تھے ، ایک مناسب آدمی بکرے کو بیابان میں لے جاتا تھا ۔

فلسطین ؔ ریگستان کی سرزمین ہے ۔ بکراجو اسرائیلیوں کے سال بھر کے تمام گناہوں کو اُٹھاتا تھا اس کام کے لئے مقر ر ہ ایک آدمی کے وسیلہ سے ریگستان میں لے جایا جاتا تھا جہاں نہ پانی اور نہ ہی گھاس موجود تھی۔ لوگ کھڑے ہوتے اور عزازیلؔ کو بیابان میں جاتے دیکھتے تھے ۔

وہ اپنے آپ سے کہتے ، ’’ مجھے مرنا چاہیے ، لیکن بکرا میرے گناہوں کے لئے میری جگہ پرمرے گا ۔گناہ کی مزدوری موت ہے ، لیکن بکرا میرے لئے مرتا ہے ۔ بکرے ، تیرا شکریہ۔ تیر ی موت کا مطلب ہے کہ میں زندہ رہ سکتا ہوں ۔ ‘‘بکرا ریگستان میں دُور دراز لے جایا جاتا اور اسرائیلی ایک سال کے گناہ کے لئے معاف کیے جاتےتھے۔

جب آپ کے دل کے گناہ، گناہ کی قربانی پر لادے جاتے ہیں ، آپ صاف ہو جاتے ہیں۔ یہ بہت سادہ ہے ۔ سچ ہمیشہ جونہی ہم اِسے ایک بار سمجھتے ہیں سادہو تا ہے ۔

 بکرا دُور اُفق میں غائب ہو جاتاتھا ۔ آدمی اِسے چھوڑنے کے بعد اکیلا واپس آتا تھا ۔ اسرائیلیوں کے سال بھر کے تمام گناہ چلے جاتے تھے ۔ بکرا پانی یا گھاس کے بغیر ریگستان میں آوارہ پھرتا ، اور آخر کار

اسرائیلیوں کے گناہوں کی ایک سال کی قیمت کے ساتھ مرجاتا تھا ۔

 گناہ کی مزدوری موت ہے ، اور خُدا کا انصاف مکمل ہو جاتا تھا ۔ خُد ا نے بکرے کی قربانی دی تاکہ اسرائیلی زندہ رہ سکیں۔ اسرائیلیوں کی سال کے دورا ن تمام بدکرداریا ں صاف کی جاتی تھیں۔

 جس طرح ایک دن کے گناہ اور ایک سال کے گنا ہ پرانے عہد نامہ کے دَور میں اِسی طرح معاف کیے جاتے تھے ، یہ خُداکا عہدتھا کہ ہمارے گناہ اِسی طرح ایک ہی بار اور ہمیشہ کے لئے معاف کیے جائینگے ۔ یہ اُس کا عہد تھا کہ وہ ہمارے پاس مسیحا کو بھیجے گا اور ہمیں ہمارے تمام عمر بھر کے گناہوں سے آزادکریگا۔ یہ عہد یسوعؔ کے بپتسمہ کے وسیلہ سے پورا ہوا تھا۔

 

 

نئے عہد نامہ میں پانی اور رُوح کے وسیلہ سے نئے سِرے سے پیدا ہونا

 

کیوں یسوعؔ نے یوحنا ؔاصطباغی سے بپتسمہ لیا ؟

دُنیا کے تمام گناہ اُٹھانے کے وسیلہ سے ، ساری راستبازی پوری کرنے کے لئے ۔ نئے عہد نامہ میں یسوعؔ کا بپتسمہ پرانے عہد نامہ میں بالکل ہاتھوں کو رکھا جانا تھا۔

 

آئیں ہم متی۳:۱۳۔۱۵ پڑھیں ، ’’اس وقت یسوعؔ گلیل ؔ سے یردنؔ کے کنارے یوحناؔ کے پاس اُس سے بپتسمہ لینے آیا۔ مگر یوحناؔ یہ کہکر اُسے منع کرنے لگا کہ میں آپ تجھ سے بپتسمہ لینے کا محتاج ہوں اور تُو میرے پاس آیا ہے ؟ ۔ یسوعؔ نے جواب میں اُس سے کہا اَب تُو ہونے ہی دے کیونکہ ہمیں اِسی طرح ساری راستبازی پوری کرنا مناسب ہے ۔ اِس پر اُس نے ہونے دیا۔ ‘‘

یسوعؔ یردنؔ پر گیا اور یوحناؔ اصطباغی سے بپتسمہ لیا اور اِس طرح کرنے سے ، اُس نے ساری

راستبازی پوری کی۔اُس نے یوحناؔ سے بپتسمہ لیا۔ یوحنا ؔ عورتوں میں سے پیدا ہونے والوں کے درمیان سب سے بڑا تھا ۔

متی ۱۱:۱۱۔۱۲ کہتاہے ، ’’میں تم سچ کہتا ہوں کہ جو عورتوں سے پیدا ہوئے ہیں اُن میں یوحنا ؔ بپتسمہ دینے والے سے بڑا کوئی نہیں لیکن جو آسمان کی بادشاہی میں چھوٹا ہے وہ اُس سے بڑا ہے ۔ اور یوحناؔ بپتسمہ دینے والے کے دنوں سے اَب تک آسمان کی بادشاہی پر زور ہوتا رہا ہے اورزور آور اُسے چھین لیتے ہیں ۔‘‘

 یوحناؔ اصطباغی نسلِ انسانی کا نمائندہ ہونے کے لئے خُدا کے وسیلہ سے چُنا گیا اور مسیح سے ۶مہینے پہلے بھیجا گیاتھا۔ وہ ہارونؔ کی اولاد سے اور آخری سردار کاہن تھا۔ جب یسوعؔ اُس کے پاس آیا، یوحناؔ

اصطباغی نے کہا ، ’’میں آپ تجھ سے بپتسمہ لینے کا محتاج ہوں اورتُو میرے پاس آیا ہے ؟ ‘‘

’’اَب تُو ہونے ہی دے کیونکہ ہمیں اِسی طرح ساری راستبازی پوری کرنا مناسب ہے ۔ ‘‘اُس کا مقصد نسلِ انسانی کو گناہ سے آزاد کرنا تھا تاکہ وہ خُدا کے بیٹے بن سکیں۔ یسوعؔ نے یوحنا ؔ سے کہا ، ’’ہمیں پانی اور روح کے وسیلہ سے نئے سِرے سے پیدا ہونے کی خوشخبری کومکمل کرنا ہے ۔ پس مجھے ابھی بپتسمہ دو۔‘‘

یوحناؔ نے یسوعؔ کو بپتسمہ دیا۔ یہ یسوعؔ کے لئے مناسب تھا کہ دُنیا کے تمام گناہوں کو اُٹھانے کے لئے بپتسمہ لے ۔ کیونکہ اُس نے مناسب ترین طریقہ کے ساتھ بپتسمہ لیا ،یوں ہم اپنے تمام گناہوں سے مناسب طورپر نجات یافتہ ہو گئے ۔ یسوعؔ نے بپتسمہ لیا تاکہ ہمار ے تمام گناہ اُس پر لادے جا سکیں۔

یسوعؔ اِس دُنیا میں آیا اور بپتسمہ لیا جب وہ تیس سال کا تھا ۔ یہ اُ س کی پہلی خدمت تھی۔ یسوعؔ نے دُنیا کے تما م گناہوں کومٹانے کے وسیلہ سے ساری راستبازی کو پورا کیِا ، اِس طرح تمام لوگوں کو مقدس قرار دے کر علیٰحدہ کیا۔

یسوعؔ اس دُنیا میں آیا اور ہمیں ہمارے تمام گناہوں سے مناسب ترین طریقہ کے ساتھ آزاد کرنے کے لئے بپتسمہ لیا ۔ ’’اِسی طرح‘‘ ساری راستبازی پوری کی گئی تھی۔

خُدا نے کہا ، ’’یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں۔ ‘‘ (متی ۳ :۱۷)۔ یسوع مسیح جانتا تھا کہ وہ نسلِ انسانی کے تمام گناہوں کو اُٹھائیگا اور صلیب پر اپنی موت تک خون بہائے گا ، لیکن اُ س نے یہ کہتے ہوئے ، اپنے باپ کی مرضی کی فرمانبرداری کی ، ’’تو بھی نہ جیسا میں چاہتا ہوں بلکہ جیسا تُو چاہتاہے وَیسا ہی ہو ۔ ‘‘ (متی ۲۶ :۳۹)۔ باپ کی مرضی نسلِ انسانی کے تمام گناہوں کو

دھونا اور اِس طرح دُنیا کے لوگوں کو نجات پیش کرنی تھی۔

 پس یسوعؔ فرمانبردا ر بیٹے نے ، اپنے باپ کی مرضی کی فرمانبرداری کی اور یوحنا ؔ اصطباغی سے بپتسمہ لیا۔

یوحنا ۱:۲۹ میں ہے ، ’’دوسرے دن اُس نے یسوعؔ کو اپنی طرف آتے دیکھ کر کہا دیکھو یہ خُدا کا برّہ ہے جو دُنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے ۔‘‘ یسوعؔ نے تمام گنا ہ اُٹھا لیا اور صلیب کے مقام گلگتاؔ پر خون بہایا ۔یوحناؔ اصطباغی نے گواہی دی، ’’دیکھو یہ خُد اکا برّہ ہے جو دُنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتاہے ۔ ‘‘

کیا آپ گناہ رکھتے ہیں یا نہیں؟ کیا آپ ایک راستباز یا ایک گنہگارانسان ہیں ؟ سچائی یہ ہے کہ یسوعؔ نے دُنیا کا گناہ اُٹھا لیا اور ہم سب کے لئے صلیب پر مصلوب ہُوا۔

 

اِس دُنیا کے تمام گنہگاروں کے گناہ کب یسوعؔ پر منتقل ہوئے تھے؟

یسوعؔ نے ہمارے گناہ اُٹھا لئے جب اُ س نے یردنؔ پر یوحنا ؔ اصطباغی سے بپتسمہ لیاتھا۔

                                 

ہمارے اس دُنیا میں پیدا ہونے کے بعد ،حتیٰ کہ ہم ایک سے ۱۰سال کی عمر کے درمیان گناہ کرتے ہیں ۔ یسوعؔ نے اُن گناہوں کو اُٹھا لیا ۔ ہم گیارہ اور بیس سال کی عمر کے دوران بھی گناہ کرتے ہیں ۔گناہ جو ہم اپنے دلوں میں کرتے ہیں اور اپنے عملوں میں کرتے ہیں ، اُس نے اُن سب کو اُٹھا لیاتھا۔

ہم اکیس اور پینتالیس سال کی عمر کے درمیان بھی گناہ کرتے ہیں ۔ اُس نے اُن سب کو اِسی طرح اُٹھا لیاتھا۔ اُ س نے دُنیا کے تمام گناہوں کو اُؔٹھا لیا اور صلیب پر مصلوب ہو گیا ۔ ہم اپنی پیدا ئش کے دن سے اپنے مرنے کے دن تک گناہ کرتے ہیں۔ لیکن اُس نے اُن سب کو اُٹھا لیا۔

’’دیکھو یہ خُدا کا برّہ ہے جو دُنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتاہے ۔‘‘تما م گناہ اُن میں سے ، پہلے آدمی آدمؔ سے لے کر اس دُنیا میں پیدا ہونے والے آخری آدمی تک— جب کبھی وہ ہو سکتا ہے — اُس نے اُن

کو اُٹھالیا۔ اُس نے چُنا اور پسند کیا کہ کن کے گناہوں کو اُسے اُٹھانا ہوگا۔

اُس نے ہم میں سے صرف بعض سے محبت کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ۔ وہ جسم میں آیا اور دُنیا کے تمام گناہوں کو اُٹھا لیا اور صلیب پر مصلوب ہُوا ۔ اُس نے ہم میں سے سب کے لئے عدالت کو برداشت کیا

اور ہمیشہ کے لئے اِس دُنیا کے گناہو ں کو مٹا ڈالا ۔

اُس کی نجات میں سے کوئی بھی انسان باہر نہیں تھا ۔’’ دُنیاکا تمام گناہ‘‘ہمارے سب گناہوں کو شامل کرتا ہے ۔ یسوعؔ نے اُن سب کو اُٹھا لیا۔

 اپنے بپتسمہ اور خون کے ساتھ اُس نے دُنیا کے تمام گناہوں کو صاف کر دیا۔ اُس نے اپنے بپتسمہ کے وسیلہ سے اُن سب کو اُٹھا لیا اور صلیب پر ہمارے لئے پرکھا گیا ۔ یسوعؔ نے صلیب پر مرنے سے پہلے ، اُس نے کہا ،’’تمام ہُوا ‘‘ (یوحنا ۱۹ :۳۰)، مطلب کہ نسلِ انسانی کی نجات مکمل تھی۔

یسوعؔ صلیب پر کیوں مصلوب ہُوا تھا ؟ کیونکہ جسم کی جان خون میں ہے ، اور خون کسی کی زندگی کے لئے کفارہ دیتاہے (احبار ۱۷:۱۱ ) ۔ یسوعؔ کو کیوں بپتسمہ لینا تھا؟ کیونکہ وہ دُنیا کے تمام گناہوں کو اُٹھانا چاہتا تھا ۔

’’اِس کے بعد جب یسوعؔ نے جان لیا کہ اب سب باتیں تمام ہوئیں تاکہ نوشتہ پورا ہو تو کہا کہ میں پیا ساہُوں۔‘‘ (یوحنا ۱۹ :۲۸)۔ یسوع ؔ ،یہ جانتے ہوئے مرگیا کہ پرانے عہد نامہ میں خُدا کے تمام عہد یردنؔ پر اُس کے بپتسمہ کے ساتھ اور صلیب پر اُس کی موت کے ساتھ مکمل ہوگئے تھے ۔

یسوعؔ جانتا تھا کہ گناہوں کی معافی اُس کے وسیلہ سے پوری ہوئی تھی اور کہا، ’’تمام ہُوا ‘‘ وہ صلیب پر مر گیا ۔ اُس نے ہمیں پاک کیِا، تین دن بعد مُردوں میں سے جی اُٹھا اور آسمان پر چڑھ گیا ۔ جہاں وہ اَب خُدا کے دہنے ہاتھ پر بیٹھا ہے ۔

 یسوعؔ کے بپتسمہ اور اُس کی صلیبی موت کے وسیلہ سے تمام گناہوں کو دھونا پانی اور رُوح کی نئے سِرے سے پیدا ہونے کی بابرکت خوشخبری ہے ۔ اِس پر ایمان رکھیں ، اور آپ اپنے تمام گناہوں سے معاف کیے جائینگے۔

ہم ہرروز توبہ کے لئے دُعا کرنے کے وسیلہ سے اپنے گناہوں کے لئے کفارہ نہیں دے سکتے ۔ خلاصی ایک ہی بار اور ہمیشہ کے لئے یسوعؔ کے بپتسمہ اور اُس کی صلیبی موت کے وسیلہ سے عطا کی گئی تھی۔ ’’اور جب اِن کی معافی ہوگئی ہے تو پھر گناہ کی قربانی نہیں رہی ۔‘‘ (عبرانیوں۱۰: ۱۸)۔

اب ہم کو جو سب کرنا ہے یسوعؔ کے بپتسمہ اور اُس کی مصلوبیت کے وسیلہ سے گناہوں کی معافی پر ایمان رکھنا ہے ۔ ایمان رکھیں اور آپ نجات یافتہ ہو جائیں گے۔

 رومیوں۵:۱۔۲ کہتاہے ، ’’پس جب ہم ایمان سے راستباز ٹھہرے تو خُداکے ساتھ اپنے خُداوند یسوعؔ مسیح کے وسیلہ سے صلح رکھیں۔ جس کے وسیلہ سے ایمان کے سبب سے اُس فضل تک ہماری رسائی بھی ہوئی جس پر قائم ہیں اورخُداکے جلال کی اُمید پر فخر کریں۔ ‘‘

پاک ہونے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے بلکہ پانی اور رُوح کی نئے سِرے سے پیدا ہونے کی بابرکت خوشخبری پر ایمان رکھناہے۔

 

 

خُدا کی شریعت کا مقصد

 

کیاہم شریعت کے وسیلہ سے پاک ہو سکتے ہیں ؟

نہیں ۔ ہم پاک نہیں ہو سکتے ہیں ۔ شریعت صِرف ہمیں ہمارے گناہوں سے باخبر کر سکتی ہے۔

 

عبرانیوں ۱۰:۹، میں لکھاہواہے ، ’’اور پھر یہ کہتاہے کہ دیکھ میں آیا ہوں تاکہ تیری مرضی پوری کروں ۔ غرض وہ پہلے کو موقوف کرتاہے تاکہ دوسرے کو قائم کرے ۔‘‘ہم شریعت کے وسیلہ سے پاک نہیں ہو سکتے ہیں ۔ یہ صرف ہمیں گنہگار بناتی ہے۔ خُدا کا مقصدہمارے لئے شریعت کی فرمانبرداری کرنا نہیں ہے۔

رومیوں ۳:۲۰ کہتا ہے ، ’’ اس لئے کہ شریعت کے وسیلہ سے تو گناہ کی پہچان ہی ہوتی ہے ۔‘‘ خُدانے اسرائیلیوں کو موسیٰؔ کے وسیلہ سے شریعت دی جب ابرہامؔ کے عہد حاصل کرنے کے بعد ۴۳۰سال گزر چکے تھے ۔ اُ س نے اُنہیں شریعت دی کہ وہ جان سکیں کہ خُد اکے سامنے گناہ کا کیا مطلب ہے ۔ خُد اکی شریعت کی غیر حاضری میں ، نسلِ انسانی گناہ کا کوئی علم نہ رکھتی۔ خُد ا نے ہمیں اپنی شریعت

دی تاکہ ہم گناہ کی سوجھ بوجھ تک پہنچ سکیں۔

پس شریعت کاواحد مقصد ہمیں جاننے کی اجازت دیتاہے کہ ہم سب خُدا کے سامنے گنہگا رہیں ۔ اِس علم کی معرفت ، ہمارا مطلب پانی اور رُوح کی نئے سِر ے سے پیدا ہونے کی بابرکت خوشخبری پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے یسوعؔ کی طرف واپس لوٹنا ہے ۔ یہ شریعت کامقصد ہے جو خُد انے ہمیں دی تھی ۔

 

 

خُداوند ، خُداکی مرضی پوری کرنے کے لئے آچکا ہے

                                        

ہمیں خُدا کے سامنے کیا کرنا ہے ؟

ہمیں یسوعؔ کے وسیلہ سے خُدا کی خلاصی پر ایمان رکھنا ہے۔

 

’’میں آیا ہوں تاکہ تیری مرضی پوری کروں ۔ غرض وہ پہلے کو موقوف کرتاہے تاکہ دوسرے کو قائم کرے ۔‘‘(عبرانیوں۱۰:۹) ۔ کیونکہ ہم شریعت کے وسیلہ سے پاک نہیں بن سکتے ہیں ، خُد انے ہمیں اپنی شریعت کے ساتھ چھٹکارہ نہیں دیا، بلکہ اپنی مکمل خلاصی کے ساتھ ۔ خُد انے ہمیں اپنی محبت اور انصاف کے ساتھ نجات دی۔

’’اُسی مرضی کے سبب سے ہم یسوعؔ مسیح کے جسم کے ایک ہی بار قربان ہونے کے وسیلہ سے پاک کئے گئے ہیں ۔ اورہر ایک کاہن تو کھڑا ہو کر ہر روز عبادت کرتا ہے اور ایک ہی طرح کی قربانیاں باربار گذرانتا ہے جو ہرگز گناہوں کو دُور نہیں کر سکتیں۔ ‘‘(عبرانیوں۱۰:۱۰۔۱۲)۔

وہ خُد اکے دائیں ہاتھ پر بیٹھا کیونکہ اُ س کا خلاصی کا کام مکمل ہو گیا تھا اور اُس کے کرنے کے لئے کچھ اورکام موجود نہیں تھا۔ وہ ہمیں نجات دینے کے لئے پھر نہ بپتسمہ لے گا اور نہ ہی اپنے آپ کو قربان کریگا۔

اب چونکہ دُنیا کے تمام گناہ دھوئے جا چکے ہیں ، اُسے جو سب کرنا ہے اُن کو ابدی زندگی مہیا کرنی

ہے جو اُس پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اب وہ اُن پر رُوح کے ساتھ مہر لگاتاہے جو پانی اور رُوح کی نجات پر ایمان رکھتے ہیں ۔

 یسوعؔ اِس دُنیا میں آیا ،ا وردُنیا کے تمام گناہ اُٹھا لئے اور صلیب پر مر گیا ، اِس طرح اپنا کام مکمل

کر دیا ۔ اب یعنی خُداوندکاکام ختم ہو گیا ہے ، وہ خُدا کے دہنے ہاتھ پر بیٹھا ہوا ہے ۔

ہمیں یقینا ہمارے خُداوند یسوعؔ پر ایمان رکھنا چاہیے جس نے پوری ابدیت تک ہمیں گناہ سے نجات دی ۔ اُس نے ہمیں اپنے بپتسمہ اور خون کے ساتھ ہمیشہ کے لئے کامل بنادیا۔

 

 

وہ جو خُدا کے دُشمن بن جاتے ہیں

 

خُد اکے دُشمن کون ہیں؟

وہ جو یسوعؔ پر ایمان رکھتے ہیں لیکن اپنی دلوں میں گناہ رکھتے ہیں ۔

 

عبرانیوں۱۰:۱۲۔۱۳میں ، خُداوند کہتاہے ، ’’ لیکن یہ شخص ہمیشہ کے لئے گناہوں کے واسطے ایک ہی قربانی گذران کر خُد اکی دہنی طرف جا بیٹھا۔ اور اُسی وقت سے منتظر ہے کہ اُس کے دُشمن اُس کے پاوٴں تلے کی چوکی بنیں۔‘‘اُس نے کہا کہ وہ آخری عدالت تک اُن کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لئے انتظا ر کر یگا۔

اُس کے دشمن اب تک کہتے ہیں ، ’’اَے خُدا، مہربانی سے میرے گناہوں کو معاف کردے ۔ ‘‘ شیطان اور اُس کے پیروکار پانی اوررُوح کی خوشخبری پر ایمان نہیں رکھتے ہیں اور اُس سے معافی مانگنا جاری رکھتے ہیں۔

ہمار ا خُداوند خُدا اُن کو ابھی نہیں پرکھے گا ۔ لیکن یسوعؔ کی آمدِ ثانی کے دن پر ، وہ پرکھے جائیں گے اور ہمیشہ کے لئے جہنم کے سزا وار ٹھہر یں گے ۔ خُدا اِس اُمید پر اُس دن تک اُنہیں برداشت کرتا ہے

کہ وہ توبہ کریں گے اور خلاصی کے وسیلہ سے راستباز بن جائیں گے ۔

 ہمارے خُداوند یسوع ؔ نے ہمارے تمام گناہ اُٹھا لئے اور ہمارے لئے مرگیا جو اُس پر ایما ن رکھتے

ہیں ۔ یسوعؔ کسی دن اُن سب کو دوسری بار آزاد کرنے کے لئے ظاہر ہوگا جو اُس پر ایمان رکھتے ہیں ۔ ’’ہاں ، اَے خُداوند ، مہربانی سے ہمارے پاس جلد آ۔‘‘وہ دوسری مرتبہ آسمان کی بادشاہی میں اُس کے ساتھ ابد تک رہنے کے لئے بے گناہوں کو لینے آئیگا ۔

وہ جو زور دیتے ہیں کہ وہ گنہگار ہیں جب خُداوند واپس آئیگا آسمان پر کوئی جگہ نہیں پائیں گے ۔ آخری دن پر ، وہ پرکھے جائیں گے اور جہنم کے شعلوں میں پھینک دئیے جائیں گے ۔ یہ سزا اُن کا انتظار کرتی ہے جو پانی اور رُوح کے وسیلہ سے نئے سِرے سے پیداہونے پر ایمان رکھنے سے انکار کرتے ہیں۔

 ہمارا خُداوند یسوعؔ اُ ن کو اپنے دشمنوں کے طورپر خیال کرتاہے جو جھوٹ پر ایمان رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے ہمیں کیوں اس جھوٹ کے خلاف لڑنا ہے ۔ یہی وجہ ہے ہمیں پانی اور رُوح کے وسیلہ سے نئے سِرے سے پیدا ہونے کی بابرکت خوشخبری پر ایمان رکھنا ہے ۔

 

 

ہمیں پانی اور رُوح کی خوشخبری پر ایمان رکھنا ہے

                              

کیا اب ہمارے گناہوں کے لئے فِدیہ کی ضرورت موجود ہے یعنی ہمارے تمام قرضوں (گناہوں) کی پوری قیمت اَدا کی جا چکی ہے ؟

نہیں ، بالکل بھی نہیں۔

 

عبرانیوں۱۰:۱۵۔۱۶ کہتا ہے ، ’’اور رُوح القدس بھی ہم کو یہی بتاتا ہے کیونکہ یہ کہنے کے بعد کہ ۔ خُدا وند فرماتاہے جو عہد میں اُن دنوں کے بعد اُن سے باندھونگا وہ یہ ہے کہ میں اپنے قانون اُن کے دلوں پر لکھونگا اور اُن کے ذہن میں ڈالونگا۔ ‘‘

ہمارے تما م گناہوں کو مٹانے کے بعد، اُس نے کہا، ’’جو عہد میں اُن دنوں کے بعد اُن سے باندھونگا وہ یہ ہے ۔‘‘ یہ عہد کیا ہے ؟ ’’ میں اپنے قانون اُن کے دلوں پر لکھونگا اور اُن کے ذہن میں ڈالونگا۔‘‘ہم نے پہلے اُس کی شریعت کے مطابق ایک قانونی زندگی بسر کرنے کی کوشش کی ، لیکن ہم شریعت کے وسیلہ سے حقیقتاً نجات یافتہ نہ ہو سکے۔

بعد میں ہم نے جانا کہ یسوعؔ پہلے ہی اُن کو نجات دے چکا ہے جو اپنے دلوں میں پانی اور رُوح کی نئے سِرے سے پیدا ہونے کی بابرکت خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں ۔ جو کوئی یسوعؔ کے بپتسمہ اور خون پر ایمان رکھتا ہے آزادہوجاتاہے۔

 یسوعؔ نجات کا مالک ہے ۔’’کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلہ سے ہم نجات پا سکیں۔‘‘ (اعمال ۴ :۱۲)۔ یسوعؔ اس دُنیا میں ہمارے نجات دہندہ کے طورپر آیا ۔ کیونکہ ہم اپنے کاموں کے وسیلہ سے نجات یافتہ نہیں ہوسکتے ہیں، یسوعؔ نے ہمیں نجات دی اور ہمار ے دلوں کی تختیوں پر لکھا کہ اُس نے ہمیں اپنی محبت اور نجات کی شریعت کے سا تھ نجات دی۔

’’اُن کے گناہوں اور بے دینیوں کو پھر کبھی یاد نہ کرونگا ۔ اور جب اِن کی معافی ہو گئی ہے تو پھر گناہ کی قربان نہیں رہی۔‘‘ (عبرانیوں۱۰: ۱۷۔۱۸)۔

اب وہ ہمارے غیر شریعی اعمال کو مزید یاد نہیں کرتا۔ اب یعنی کہ وہ تمام گناہوں کو اُٹھا چکا ہے ، ہم ایماندار مزید گناہ نہیں رکھتے جن کے لئے معاف ہونا ہے۔ ہمار ے قرضے پورے اَدا کیے گئے اور دوبارہ اَدا کرنے کے لئے کچھ باقی نہیں بچا۔لوگ یسوع ؔکی خدمت میں ایمان کے وسیلہ سے نجات یافتہ ہوتے ہیں ، جس نے ہمیں اپنے بپتسمہ اور صلیبی خون کے وسیلہ سے نجات دی۔

اب ہم کو جو سب کرنا ہے پانی اور یسوعؔ کے خون پر ایمان رکھنا ہے ۔ ’’اورسچائی سے واقف ہو گے اور سچائی تم کو آزاد کرے گی۔‘‘ (یوحنا۸:۳۲)۔ یسوعؔ کے وسیلہ سے نجات پر ایمان رکھیں۔ گناہوں کی معافی حاصل کرنا سانس لینے سے زیادہ آسان ہے ۔ آپ کو جو سب کرنا ہے اِن باتوں پر ایمان رکھنا ہے جس طر ح یہ ہیں ۔ نجات صِر ف خُدا کے کلام پر ایمان رکھنے سے ہے۔

 ایمان رکھیں کہ یسوعؔ ہمارا نجات دہندہ ہے (یعنی یسوعؔ کے بپتسمہ اور اُس کی صلیبی موت پر ) ،

اور صِرف ایمان رکھیں کہ نجات آپ کی ہے ۔ اپنے ذاتی خیالات کا انکار کریں اور صرف یسوعؔ کے وسیلہ سے نجات پر ایمان رکھیں۔ میں دُعا مانگتا ہوں کہ آپ واقعی یسوعؔ پر ایمان رکھیں گے اور اُ س کے ساتھ ابدی زندگی میں جانے کے لئے تیار ہیں ۔