<متی ۳:۱۳-۱۷>
’’ اُس وقت یسوؔع گلیلؔ سے یردؔن کے کنارے یو حناؔکے پاس اُس سے بپتسمہ لینے آیا۔ مگر یوؔحنا یہ کہہ کر اُسے منع کرنے لگا کہ میں آپ تجھ سے بپتسمہ لینے کا محتاج ہوں اور تومیرے پاس آیا ہے؟۔یسوؔع نے جواب میں اُس سے کہا اب تو ہونے ہی دے کیونکہ ہمیں اِسی طرح ساری راستبازی پوری کرنا مناسب ہے۔ اِس پر اُس نے ہونے دیا۔ اور یسوؔع بپتسمہ لے کرفی الفور پانی کے پاس سے اوپر گیا اور دیکھو اُس کے لئے آسمان کھل گیا اور اُس نے خُداکے رُوح کو کبوتر کی مانند اترتے اور اپنے اوپر آتے دیکھا ۔اور دیکھو آسمان سے یہ آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خُوش ہوں۔‘‘
کیا کوئی ایسا آدمی ہے جوہنوز گناہ سے دُکھ اُٹھا تا ہے؟
کیا ہمارا گناہ کا بندھن ختم ہو چُکا ہے؟
جی ہاں۔
ہماراخُدا وند خُدائے خالق تمامتر لوگوں کی گناہ کی بیڑیاں کاٹ چُکا ہے۔ وہ تمام لوگ جو گناہ تلے
مشکل وقت میں ہیں گناہ کے غلام ہیں، البتہ اپنے چُھٹکارے کے ساتھ ہمارے خُداوند نے اُنہیں بالکُل کاٹ ڈالا۔ اُس نے ہمارے تمام پاپوں کو دُور کردیا ۔کیا کوئی ایسا آدمی موجودہے جوہنوز گناہ سے دُکھ اٹھاتاہے؟
ہمیں سمجھنا چاہئے کہ پاپ کے خلاف ہماری جنگ ختم ہو چُکی ہے۔ ہم گناہ کے باعث دوبارہ کبھی دُکھ برداشت نہیں کریں گے۔ ہماراگناہ کا بندھن اُسی وقت ختم ہو گیا جب یسوؔع نے ہمیں اپنے بپتسمہ اور خون کے ساتھ مخلصی بخشی۔ہمارے تمام گناہ معاًاُسی لمحے ختم ہو گئے۔ خداوند خداٰ کا بیٹا ہمارے تمام گناہوں کا کفارہ دے چُکا ہے۔ خُدائے عالم نے، یسوؔع کی وساطت سےہمارے تمام گناہوں کی قیمت ادا کر دی، جس نےہمیں، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے، آزاد کر دیا۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ لوگ کتنا زیادہ اپنے گناہوں کے باعث دُکھ اُٹھاتے ہیں؟ اِس امر کا آغاز آدمؔ اور حواؔ کے دَور سے ہوا۔یعنی نسلِ انسانی گناہوں سے دُکھ اُٹھائے یہ آدمؔ سے میراث میں ملاہے۔
اِس کے باوجود ہمارے ربِ عالم نے ایک عہد باندھا جو پیدایش۳:۱۵میں مرقوم ہے، اور وہ عہد یہ تھا کہ وہ تمام پاپیوں کو آزاد کرے گا۔ اُس نےفرمایا کہ نوعِ انسان پانی اور رُوح کی وساطت سے یسوؔع مسیح کی قربانی کی بدولت اپنے گناہوں سے رہائی پائیں گے۔ جب وقت آپہنچا، توربِ قادرنے ہمارے نجات دہندہ، یسوؔع کو بھیجا کہ ہمارے درمیان زندگی بسر کرے۔
اُس نے یہ وعدہ بھی فرمایا کہ وہ یسوؔع کے آگے آگےیوؔحنا بپتسمہ دینے والے کو بھیجے گا اوراُس نے اپنا وعدہ وفا کیا۔
مرقس۱:۱۔۸بیان کرتا ہے،’’یسوؔع مسیح ابنِ خُدا کی خُوشخبری کا شروع ۔ جیسا یسعیاہؔ نبی کی کتاب میں لکھا ہے کہ دیکھ میں اپنا پیغمبر تیرے آگے بھیجتا ہوں جو تیری راہ تیار کرے گا ۔بیابان میں پکارنے والے کی آواز آتی ہے کہ خُدا وند کی راہ تیار کرو۔اس کے راستے سیدھے بناؤ۔یوؔحنا آیا اور بیابان میں بپتسمہ دیتا اور گناہوں کی معافی کے لئے توبہ کے بپتسمہ کی منادی کرتا تھا۔ اور یہودؔ یہ کے ملک کے سب لوگ اور یروشلیمؔ کے سب رہنے والے نکل کر اس کے پاس گئے اور انہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کرکے دریای ِ یردؔن میں اس سے بپتسمہ لیا۔ اور یوؔحنا اونٹ کے بالوں کا لباس پہنے اور چمڑے کا پٹکا اپنی کمرسے باندھے رہتا اور ٹڈیاں اور جنگلی شہد کھاتا تھا۔اور یہ منادی کرتا تھا کہ میرے بعد وہ شخص آنے والا ہے جو مجھ سے زورآور ہے ۔میں اس لائق نہیں کہ جھک کر اس کی جو تیوں کا تسمہ کھولوں۔ میں نے تو تم کو پانی سے بپتسمہ دیا مگر وہ تم کو رُوح القدّس سے بپتسمہ دے گا۔‘‘
یوؔحنا اِصطباغی، گواہ اورخُوشخبری کاپیشرو
یوؔحنا اِصطباغی کون ہے؟
آخری سردار کاہن اور نوع ِانسان کا نمائندہ
یونانی میں بپتسمہ ‘βάπτισμα (báptisma)’ ,کا خاص الخاص مطلب ’پانی میں ڈبونا ‘ ہے ،البتہ یہ لفظ’دھو نے،دفن کرنے، غوطہ دینے،یاسلسلہ وار منتقل کرنے‘ پر بھی عائد ہوتا ہے۔ جب یسوؔع نے بپتسمہ لیا تو حق تعالیٰ کی راستبازی پوری ہو گئی۔یونانی میں لفظ’راستبازی‘ ”“Δικαίωση (dikaiosune) ہے ،جس کا مطلب ’بالکل ٹھیک‘ہے اور اِس کامطلب’بے حدمناسب‘ ’انتہائی معقول‘یا ’سراسرٹھیک حالت‘بھی ہے۔
یسوؔع نے اِس لئے بپتسمہ لیاتھا تاکہ وہ انتہائی معقول اور ٹھیک طریقے سے نجات دہندہ بن سکے۔لہٰذا،وہ لوگ جو یسوؔع کے بپتسمہ اور صلیب،پر ایمان رکھتے ہیں وہ ربِ عالم کی طرف سے نجات کی بخشش حاصل کرتے ہیں۔
عہدِ جدید، میں یوؔحنا اِصطباغی عہدِ عتیق کا آخری سردار کاہن ہے۔ آئیں متی ۱۱:۱۰-۱۱پر غور کریں۔نوشتہ فرماتا ہے کہ یوؔحنا اِصطباغی نسلِ انسانی کا نمائندہ ہے،اور عہدِ جدید کےدَور میں سردار کاہن کے طور پر؛اُس نےجہانِ فانی کے تمام تر گناہ یسوؔع پرمنتقل کردیئے؛ اِس لحاظ سے عہدِ عتیق کی اعلیٰ ترین
کہانت کی خدمت سرانجام دی۔
یسوؔع نے سرتا سرخود یوؔحنا کی گواہی دی۔ اُس نے ،متی۱۱:۱۳- ۱۴میں فرمایا،’’کیونکہ سب نبیوں اور توریت نے یوؔحنا تک نبوت کی۔اور چاہو تو مانو۔ایلیاہؔ جو آنے والا تھا یہی ہے۔‘‘چنانچہ یوؔحنا اِصطباغی، جس نے یسوؔع کو بپتسمہ دیا، وہ سردار کاہن ہارؔون کی نسل اور آخری سردار کاہن تھا۔کتابِ مقدّس عہدِ عتیق میں یوؔحنا کے ہاروؔن کی نسل سے ہونے کی بھی گواہی دیتی ہے (لوقا۱:۵، ۱۔تواریخ۲۴:۱۰)۔
تب کس بنا پریوؔحنا بیابان میں اکیلا ،اونٹ کے بالوں کی پوشاک پہنے ہوئے رہتا تھا؟ یہ بِلا دلیل
سردار کاہن کی خدمت تھی۔ تمام نسلِ انسانی کے نمائندہ کے طور پر ،یوؔحنا اِصطباغی لوگوں کے بیچ میں نہیں رہ سکتا تھا۔ پس، اُس نے لوگوں کو پکار کر کہا،’’ تو بہ کرو، اے سانپ کے بچو!‘‘ اور یسوؔع کے پاس لوگوں کو لانے کے سلسلے میں اُنہیں توبہ کے موافق پھل لانے کے لئے بپتسمہ دیا ،جو اُن کے تمامتر گناہ اُٹھانے والا تھا۔سب سے بڑھ کر، یوؔحنا بپتسمہ دینے والے نے ہماری نجات کے واسطےدُنیا کے گناہوں کویسوؔع پرسلسلہ وار منتقل کر دیا جب اُس نے یسوؔع کے سر پر اپنے ہاتھ رکھے۔
بپتسمہ کی دو اقسام
کیوں یوؔحنا اصطباغی نے لوگوں کو بپتسمہ دیا؟
لوگوں کی اپنے تما م گناہوں سے توبہ کرنے اورنجات کے واسطے یسوؔع کے بپتسمہ پرایمان لانے میں پیشوائی کرنے کے لئے
یوؔحنا بپتسمہ دینے والے نے پہلے لوگوں کو اور اِس کے بعد یسوؔع کو بپتسمہ دیا ۔ پہلے’ توبہ کا بپتسمہ‘تھاجوپاپیوں کو خُدائے برترکی طرف رجوع لانے کے لئے بُلاتا تھا۔ بہت سارے لوگوں نے جنہوں
نے یوؔحنا کی معرفت خداوند خداٰ کے متبر ک الفاظ سُنے اپنے بتوں کو ترک کر دیا اوراُس واحد کی طرف رجوع لائے۔
ثانوی بپتسمہ یسوؔع کا بپتسمہ ہے ،ایسابپتسمہ جس نے کل عالم کے تمامتر گناہ یسوؔع پر منتقل کر دئیے ۔یوؔحنا بپتسمہ دینے والے نے حق تعالیٰ کی راستبازی کو پورا کرنے کے لئے یسوؔع کو بپتسمہ دیا۔دوسرےلفظوں میں، یسوؔع نے یوؔحنا بپتسمہ دینے والے کی معرفت تمام خلقِ خُدا کو اُن کے گناہوں سے بچانے کے واسطے بپتسمہ لیا (متی۳:۱۵)۔
کس بنا پر یوؔحنا کویسوؔع کو بپتسمہ دینا پڑا؟کل عالم کے گناہوں کو مٹانے کے سلسلے میں ،خُدائے حق کویوؔحنا کو اجازت دینی پڑی کہ یسوؔع پر تمام گناہ سلسلہ وار منتقل کردے تاکہ وہ لوگ جو اُس پر ایمان لائیں
وہ نجات یافتہ ہو سکیں۔
یوؔحنا اِصطباغی خداوند خداکاایسا خادم تھا جس کاکام بپتسمہ کے وسیلہ سےجہان کے تمام گناہوں کویسوؔع پر منتقل کرنا ،اور تمامتر نسلِ انسانی کو توبہ کرانے کے سلسلے میں یسوؔع کی گواہی دینا اوراپنے گناہوں سے نجات بخش خُوشخبری پر ایمان لانے کے وسیلہ سے دُھلنا تھا۔چنا نچہ یوؔحنا کو بیابان میں تنہا رہنا پڑا۔ یوؔحنا بپتسمہ دینے والے کے دَور میں، اسرائیل کے تمام لوگ بدعنوان اور باطن تک قبیح تھے۔
اِس کےبعدخُدائے برتر نے عہدِ عتیق میں، ملا کی۴:۵-۶میں فرمایا،’’دیکھو خُدا وند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پیشترمیں ایلیاہؔ نبی کو تمہارے پاس بھیجوں گا۔اور وہ باپ کا دل بیٹے کی طرف اور بیٹے کا باپ کی طرف مائل کرے گا۔ مبادامیں آؤں اور زمین کو ملعون کروں۔‘‘
رب العالمین کی نظروں میں، اسرائیل کے تمام لوگ جو پیشتریہوواؔہ کی پرستش کرچُکے تھے، بدعنوان تھے۔ کوئی بھی آدمی اُس کے آگے راستباز نہیں تھا۔ ہیکل کے مذہبی رُہبان مثلاً، کاہن ، عالمِ شرع،اور فقیہ بالخصوص اتھاہ باطن تک قبیح تھے۔ اسرائیلی اوراُن کے کاہن حق تعالیٰ کی شریعت کے مطابق شریعی قربانیاں نہیں چڑھاتے تھے۔
کاہن ہاتھ رکھنے اور خون چڑھانے کی رسم کو ترک کرچُکے تھے،جو خداوند خداٰ اُنہیں اُن کے گناہوں
کی معافی کے لئے عطا کرچُکا تھا۔ یہ بات درج ہے کہ ملا کیؔ کے دَور میں کاہن عین مین شریعی قربانی کا نظام ،یعنی ہاتھ رکھنے اورقربانی کے جانور کا خون چڑھانے کوترک کرچُکے تھے۔
لہٰذا ،یوؔحنا اِصطباغی اُن کے ساتھ نہیں رہ سکتا تھا۔ وہ بیابان میں چلا گیا اور چلایا؟بھلا اُس نے کیا کہا؟ مرقس ۱:۲- ۳میں بمطابق یسعیاہؔ نبی یوں مرقوم ہے،’’ دیکھ میں اپنا پیغمبر تیرے آگے بھیجتا ہوں جو تیری راہ تیار کرے گا۔ بیابان میں پکارنے والے کی آواز آتی ہے کہ خُدا وند کی راہ تیار کرو۔اس کے راستے سیدھے بناؤ۔‘‘
بیابان کی آواز نے لوگوں کو توبہ کے بپتسمہ کے لئے پُکارا۔’ توبہ کا بپتسمہ‘ کیا ہے جس کے متعلق کتابِ مقدّس بات کرتی ہے؟ یہ وہ بپتسمہ ہے جس کے لئے یوؔحنا اِصطباغی چلایا؛یعنی وہ بپتسمہ جس نے لوگوں کویسوع کی طرف واپس بُلایاتا کہ وہ اُس پر ایمان لائیں جو اُن کے تمام گناہ اٹھا لے گااور نجات یافتہ
ہوں۔ تو بہ کا بپتسمہ اُن کے واسطے نجات تک مشعلِ راہ تھا۔
’’توبہ کرو اوربپتسمہ لو۔ ہمارے نجات دہندہ یسوع کو بھی ہمارے تمام گناہ اٹھانے کے لئے اِس
طریقے سے بپتسمہ لینا ہوگا۔ ‘‘یوؔحنا بپتسمہ دینے والے کی پکار یہ تھی کہ یسوؔع کل عالم کے گناہوں کو اٹھائے گااور تمام لوگوں کی نجات کی خاطر صلیب پر سزا برداشت کرے گا، تاکہ وہ رب العالمین کی طرف واپس رجوع کریں۔
’’میں تو تمہیں پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں،لیکن وہ تمہیں رُوح القدّس سے بپتسمہ دے گا ‘‘ (مرقس ۱ :۸)۔ ’تمہیں رُوح القدّس سے بپتسمہ دے گا‘ اِس نوشتے سے مرادہمارے تمام گناہوں کو دھوڈالنا ہے۔ بپتسمہ دینے مطلب’دھونا‘ہے ۔دریائےیردؔن پریسوؔع کا بپتسمہ ہمیں بتاتا ہے کہ ابنِ خُدانے اِس طریقے سے بپتسمہ لیا تھااور ہمیں بچانے کی خاطر ہمارے تمامتر گناہ اُٹھا لئے۔
چنانچہ، ہمیں اپنی پاپی زندگیوں سے پِھرنا ہے اور اُس پر ایمان رکھنا ہے۔وہ ایسا برّہ ہے جس نے کل عالم کے گناہ اٹھالئے۔ یہی نجات کی خُوشخبری ہے جس کی یوؔحنا بپتسمہ دینے والے نے گواہی دی۔
گناہوں کے کفّارہ کے لئےسردار کاہن کی تفویض
کس نےنجات کی راہ تیار کی؟
یوحنا ؔاصطباغی نے
یسعیاہؔ نبی نے پیشینگوئی کی،’’یروشیلمؔ کو دلاسا دو اور اسے پکار کر کہو کہ اس کی مصیبت کے دن جو جنگ و جدل کے تھے گزر گئے۔ اس کے گناہ کا کفارہ ہوا اور اس نے خُداوند کے ہاتھ سے اپنے سب گناہوں کا بدلہ دو چند پایا۔‘‘(یسعیاہ۴۰: ۲)۔
یسوؔع مسیح نے ہمارے تمام گناہ بِلا مستثنیٰ اُٹھا لئے؛موروثی گناہ ،موجودہ گناہ اور بِلا شک مستقبل کے گناہ بھی، اُس کے بپتسمہ کی وساطت سے دُھل گئےتھے ۔ اُس نے ہم سب کو چُھڑایا۔ ہم سب کوخُدائے
قادر کی مخلصی کے متعلق جاننا چاہئے۔
اپنےتمام گناہوں سے رہا ہونے کےسلسلے میں،ہمیں یقیناًخُوشخبری پر ایمان رکھنا چاہئے جو بیان
کرتی ہے کہ یوؔحنا بپتسمہ دینے والے نے بپتسمہ کی وساطت سےیسوؔع پر تمام گناہ منتقل کر دئیےتھے۔
ہمیں یوں سوچ کر،غلطی کے شکار نہیں ہونا چاہئے،’’چونکہ خداوند خداٰ محبت ہے، اِس لئے ہم فقط یسوؔع پرا یمان لانےکے باعث آسمان کی بادشاہی میں داخل ہو سکتے ہیں، بِلا شک گو ہمارے باطنوں میں گناہ موجود ہوں۔‘‘
اپنے تمام گناہوں سے مُکتی پانے کے سلسلے میں، ہمیں اُس کے بپتسمہ اور صلیب پر ایمان لانا چاہئے، جس کے ذریعہ سے یوؔحنا بپتسمہ دینے والے نے دُنیا کے تمام گناہ یسوؔع پر منتقل کر دیئے۔یہ’پانی‘ کےتوسط سے ہے کہ یوؔحنا بپتسمہ دینے والے نے نوعِ بشر کے تمام گناہ یسوؔع پر سلسلہ وار منتقل کردیئے۔
خداوند خداٰ نے ہمیں بچانے کے لئےجو پہلا کام کیاوہ یہ تھا کہ یوؔحنا بپتسمہ دینے والے کو دُنیا میں بھیجا۔ خداوند خداٰ کے پیغمبرکے طور پر، یوؔحنا اِصطباغی شاہِ عالم کے ایلچی کے طور پر بھیجا گیاتھا، جس نے دُنیا کے تمام گناہ بپتسمہ کے ذریعہ سے یسوؔع پرسلسلہ وار لاد دئیے۔ اُس نے تمام نسلِ انسانی کی خاطرشاہی کہانت کی خدمت سرانجام دی۔
خداوند خداٰ نے ہمیں بتایا کہ اُس نے اپنے پیغمبر یوؔحنا اِصطباغی کو ہمارے پاس بھیجا۔’’دیکھ میں اپنا پیغمبر تیرے آگے بھیجتا ہوں ۔‘‘تیرے آگے کا مطلب یسوؔع کے آگے ہے۔کس بنا پرخداوند خداٰ نے یسوؔع کے آگے یوحنا ؔ کو بھیجا؟ لہٰذا اِس بنا پر بپتسمہ کے ذریعہ سے ،دُنیا کے تمام گناہوں کو یسوع،ابنِ خُدا، پرسلسلہ وار لادنا تھا۔وہ تیرے آگے’’ تیری راہ تیار کرے گا۔‘‘یہ ہے کہ اِس حوالے کا حقیقی طور پر کیا مطلب ہے۔
وہ کون آدمی ہے جس نے ہماری راہ تیار کی تاکہ ہم نجات حاصل کرسکیں اور آسمان پر جاسکیں؟ یوؔحنا اِصطباغی۔ ’ تیرے ‘ کا مطلب یسوؔع ہےاور’میرے‘ کا مطلب خود خُدا ئے قادر ہے۔لہٰذا جب اُس نے فرمایا،’’دیکھ میں اپنا پیغمبر تیرے آگے بھیجتا ہوں جو تیری راہ تیار کرے گا ۔‘‘تواِس کا کیا مطلب ہے؟
کسے ہماری راہ تیار کرنی ہے تا کہ ہم آسمان پر جا سکیں؟یوؔحنا اصطباغی نے ہمارے تمام گناہ یسوؔع پرسلسلہ وار منتقل کردیئے تاکہ ہم ایمان لائیں کہ اُس نے اُن کویکسر دھو ڈالا؛اُس کی ذمہ داری یسوؔع مسیح کو بپتسمہ دینے کے وسیلہ سے گناہوں کو منتقل کرنا تھی۔ یہ لوگ یسوؔع اور یوؔحنا تھے جنہوں نے ہمارے
لئے سچائی پرایمان لانا اور نجات حاصل کرنا ممکن بنایا۔
ہماری نجات کا انحصار کس بات پر ہے؟ اِس کا انحصار اِس بات پر ہے کہ کیا آیا ہم یسوع، ابنِ خُدا
کے راست کاموں اور اِس حقیقت پر ایمان رکھتے ہیں کہ خداوند خداٰ کا پیغمبر ،یوؔحنا اصطباغی دُنیا کے تمام گناہ اُس پر سلسلہ وار منتقل کرچُکا تھا۔ ہم سب کو گناہوں کی معافی کی خُوشخبری سے واقف ہونا چاہئے۔ خُدا باپ نے اپنے پیغمبر کو آگے بھیجا، جو اُس کے بیٹے کو بپتسمہ دے گا، اور اُسے تمام نسلِ انسانی کا نمائندہ بنایا۔ اِس دستور کے مطابق، اُس نے ہماری خاطر چُھٹکارے کا کام مکمل کیا۔
خداوند خداٰ نےاپنے خادم یوؔحنا اِصطباغی کو بھیجا کہ وہ اسکے بیٹے کو بپتسمہ دے ،تاکہ وہ اُن لوگوں کے لئے نجات کی راہ تیار کر سکے جویسوؔع پر ایمان رکھتے تھے۔یہی وجہ ہے کیوں یوؔحنا نے یسوؔع کو بپتسمہ
دیا۔ یوؔحنا اِصطباغی کی وساطت سے یسوؔع کا بپتسمہ خداوند خداٰ کی مخلصی کی تکمیل تھا جس کے توسط سےنوعِ انسان کے تمامتر گناہ اُس پر سلسلہ وار منتقل ہو گئے تاکہ تمام لوگ یسوؔع پر ایمان لاسکیں اور آسمان پر جا سکیں۔
یہاں تک کہ وجودِ بشری کے مستقبل کے گناہ بھی یسوؔع کے بپتسمہ کے ذریعہ سے اُس پرمنتقل ہو گئے۔یسوؔع اور یوؔحنا اِصطباغی نے مل کر ہم سب کے لئے آسمان کی راہ تیار کی۔ اِس طریقے سے، خداوند خداٰ نے یوؔحنا اِصطباغی کے توسط سے مخلصی کے بھید کو آشکارا کیا۔
نوعِ انسان کے نمائندہ کے طور پر ،یوؔحنا نے یسوؔع کو بپتسمہ دیا تاکہ ہم اپنی مخلصی پر ایمان لاسکیں اور آسمان پر جاسکیں۔ اُ س نے یسوؔع پربپتسمہ کے وسیلہ سے ہمارا تمام گناہ لاد دیا۔یہ مخلصی کی پُر مسرت خبر، یعنی خُوشخبری ہے۔
کیوں یوؔحنا اِصطباغی پیدا ہواتھا؟
کس کےطُفیل سے ہم یسوؔع پر ایمان لا سکتے ہیں؟
یوحناؔاصطباغی
ملا کی۳ :۱ میں ،یوں رقمطراز ہے،’’ دیکھو میں اپنے رسول کو بھیجوں گا اور وہ میرے آگے راہ درست کرے گا۔‘‘ آپ کوکتابِ مقدّس کا بغور مطالعہ کرناچاہئے۔ کیوں خداوند خداٰ نے یسوؔع کے آگے اپنے پیغمبر کو بھیجا؟ کیوں یوؔحنا اِصطباغی یسوؔع سے ۶ماہ پہلے پیدا ہواتھا؟
ہمیں سمجھنا چاہئے کہ کتابِ مقدّس کا خلاصہ کیا ہے؟ عہدِ عتیق سردار کاہن ہارؔون کی ذمہ داری
کو بیان کرتا ہے۔ ہارؔون موسیٰؔ کا بڑا بھائی تھا۔ خداوند خداٰ نے اُس کو اور اُس کے بیٹوں کو کاہنوں کے طور پر مسح کیا۔ دوسرے لاوی اُن کے زیرِ اثر خدمت کرتے تھے،وہ اُن کے پاس ہم آہنگ برتن وغیرہ لاتے تھے، روٹیوں کے لئے آٹا گوندھتےتھے اور اِسی طرح کے کام سرانجام دیتے تھے،جبکہ اِسی اثنا میں ہارؔون کے بیٹے پاک خیمہء اجتماع کے اندر قربانی گزرانتے تھے۔
ہارؔون کے بیٹے اپنے ہی درمیان برابربرابر خدمت بانٹنے کے لئے مسح تھے،مگر یومِ کفارہ پر،جو ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو ہوتا تھا ، سردار کاہن اکیلااپنے لوگوں کے سال بسال گناہوں کے کفارہ کی قربانی گزرانتا تھا۔
لوقا۱:۵میں،یوؔحنا اِصطباغی کے نسب نامہ کے متعلق رُو داد پائی جاتی ہے۔ ہمیں یسوؔع کو ٹھیک طور پر سمجھنے کے لئے خداوند خداٰ کے اِس پیغمبر کو ٹھیک طور پر سمجھنا چاہئے ۔ہم یسوؔع کے متعلق زیادہ سوچنے پر مائل ہیں ،دوسر ی جانب یوؔحنا اِصطباغی کے متعلق بہت کچھ نظر انداز کردیتے ہیں، جو اُس کے آگے آگے آیاتھا۔ میں اِسے سمجھنے میں آپ کی مدد کروں گا۔
’’یسوؔع مسیح ابنِ خداوند خداٰ کی خُوشخبری کا شروع ۔جیسا یسعیاہؔ نبی کی کتاب میں لکھا ہے کہ دیکھ میں اپنا پیغمبر تیرے آگے بھیجتا ہوں جو تیری راہ تیار کرے گا ۔‘‘(مرقس ۱:۱۔۲)آسمانی خُوشخبری کا آغاز ہمیشہ یوؔحنا اِصطباغی سے ہوتا ہے۔
جب ہم یوؔحنا اِصطباغی کے متعلق اچھی طرح سیکھتے ہیں ،توصاف صاف سمجھ جاتے ہیں اوریسوؔع کی نجات کی خُوشخبری پر ایمان لاتے ہیں ۔ یہ بالکل اُن تمام سفیروں سے سننے کے مترادف ہے جنہیں ہم تمام قوموں کی صورتِ حال جاننے کے سلسلے میں پوری دُنیا میں روانہ کرچُکے ہیں۔جب ہم یوؔحنا اِصطباغی کے متعلق جان لیتے ہیں، توہم خداوند خداٰ کی نجات کو بہت اچھے طریقےسے سمجھ سکتے ہیں۔
البتہ ، یہ کس قدر قابلِ افسوس بات ہے کہ دورِ حاضر میں بہت سے مسیحی یوؔحنا کی اہمیت نہیں سمجھتے ۔ خداوند خداٰ نے یوحنا اصطباغی کو اِس لئے نہیں بھیجا کیونکہ وہ بیزار تھااور اُس کے پاس کچھ اور کرنے کو نہیں تھا۔ عہدِ جدید کی تمام اناجیلِ اربعہ یسوؔع کی نجات کے متعلق بیان کرنے سےقبل یوؔحنا اِصطباغی
کے متعلق بیان کرتی ہیں۔
لیکن آج کے دَور کے مبشرینِ انجیل اُسے سراسر نظر انداز کرتے ہیں اور لوگوں کو بتاتے ہیں کہ فقط یسوؔع پر ایمان لانا نجات حاصل کرنے کے لئے کافی ہے۔ دراصل وہ لوگوں کی اپنی تمام زندگیاں گناہ گاروں کے طور پر رہنے اورجہنم میں فنا ہونے کے واسطے راہ نُمائی کر رہے ہیں۔ اگرسب مسیحی یوؔحنا اِصطباغی کے کردار کو سمجھنے کے بغیربس یسوؔع پر ایمان رکھتے ہیں، تومسیحیت کسی دُنیا وی مذہب کی طرح بگڑ جائے گی۔کس بنا پر آپ اپنے گناہوں سے نجات یافتہ ہو سکتے ہیں اگر آپ سچائی سے واقف نہیں ہیں؟یہ ناممکن ہے۔
نجات کی خُوشخبری نہ تو اتنی سادہ ہے اور نہ ہی اتنی آسان ہے۔لہٰذا بہت سے لوگ گمان کرتے ہیں کہ نجات ہمارے صلیب پر ایمان میں پائی جاتی ہے اِس لئے کہ یسوؔع ہماری خاطر صلیب پر مؤا۔ اِس صورت میں، اگرآپ گناہوں کے منتقل ہونے کی مکمل سچائی کو جانے بغیربس اُس کی مصلوبیت پر ایمان رکھتے ہیں ، توایسا ایمان مکمل مخلصی کی طرف راہ نُمائی نہیں کرے گی،اِس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ چاہے آپ کا ایمان کتنابھی مضبوط ہو۔
خداوند خداٰ نے یوحناؔبپتسمہ دینے والے کو بھیجا تا کہ سنسار جانے کہ نجات کی تکمیل کیسے ہونے والی تھی اورکس طرح یسوؔع دُنیا کے گناہ اُٹھائے گا۔ صرف جب ہم پوری سچائی سے واقف ہوں گے تو ہم سمجھیں گے کہ یسوؔع ابنِ خُدا ہے، جس نے ہمارے تمام گناہ اپنے اوپر لے لئے۔
یوؔحنا اِصطباغی ہمیں نجات کی سچائی کے متعلق بتاتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ وہ کس بنا پر گواہی دینے کے لئے آیا کہ یسوؔع خداوند خداٰ اورحقیقی نور تھا۔اُس نے واضح طورپر جتایا کہ وہ خودتو نور نہیں تھا، بلکہ وہ نور کا گواہ تھا۔ اُس نے یوؔحنا ۱ باب میں بھی گواہی دی کہ وہ وہی تھا جس نے یسوؔع کو بپتسمہ دینےکی وساطت سے نجات کی خُوشخبری تیار کی۔
اگر ہمارے پاس نجات کے متعلق یوؔحنا اِصطباغی کی گواہی نہ ہوتی، توکس بنا پر ہم یسوؔع پر ایمان لاسکتےتھے؟ہم نے کبھی بھی یسوؔع کو نہیں دیکھا،اور جب ہم مختلف تہذیبوں اور مذاہب سے رُجوع لاتے ہیں، تو یہوواہؔ پراپنے خداوند خداٰ کے طور پر ایمان لانا کیسے ممکن ہے؟
پوری دُنیا میں ایسے متنوع مذاہب ہونے کے باعث، ہم کیسےیسوؔع مسیح کو جان سکتے ہیں؟ ہم
کیسے جان سکتے تھے کہ یسوؔع ،درحقیقت ابنِ خُداتھا، جس نے جہان کے تمام گناہ اپنے اوپر لینے کےتوسط سے ہمیں رہائی بخشی؟
ہمیں عہدِ عتیق میں سے شروع سے لے کر مخلصی کے نوشتے ڈھونڈکر پڑھنے اور جاننے کی ضرورت
ہے کہ یسوؔع ہمارا نجات دہندہ ہے ۔ ہمیں صحیح ایمان لانے کے لئے صحیح علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔حقیقی علم کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ یسوؔع پر ایمان لانے اور نجات حاصل کرنے کے سلسلے میں ، ہمیں نجات کی اِس خُوشخبری کو جس کی یوؔحنا اِصطباغی نے گواہی دی اور اِس میں اُس کے کردار کو جاننا چاہئے۔مسیح پر جامع ایمان رکھنے کے لئے، ہمیں نجات کے متعلق صداقت کو جاننا چاہئے۔
لہٰذا، جیسا کہ یسوؔع نے فرمایا،’’اور سچائی سے واقف ہو گے اور سچائی تم کو آزاد کرے گی۔‘‘ ہمیں یسوع میں مخلصی کی سچائی کو جاننا چاہئے۔
کتابِ مقدّس میں پائی جانی والی شہادتیں
کس نکتہ سے اناجیلِ اربعہ کا آغاز ہوتا ہے؟
یوؔحنا اصطباغی کی آمد سے
آئیں ہم کتابِ مقدّس میں سے مخلصی کے تمام شواہدکا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے آگے بڑھیں۔ آئیں ہم اِس بھید کو بے نقاب کریں کہ اناجیلِ اربعہ یوؔحنا اِصطباغی کے متعلق کیا فرماتی ہیں، یعنی اِس کے متعلق کہ وہ کون تھا،کس بنا پر اُسے ’نسلِ انسانی کا نمائندہ‘ یا’ آخری سردار کاہن‘ کہا گیا، کس طرح اُس کی وساطت سے دُنیا کے تمامتر گناہ یسوؔع پر سلسلہ وار منتقل ہوئے تھے،اورآیا یسوؔع نے ہمارے تمام تر
پاپوں کو اپنے اوپر لیا تھا یا نہیں۔
ہمیں اِس حقیقت کی طرف توجہ کرنی چاہئے کہ اناجیلِ اربعہ کا آغازیوؔحنا اِصطباغی سے ہوتا ہے۔ تنزیلِ یوحنا۱:۶خُوشخبری کے اہم ترین حقائق میں سے ایک کے متعلق بیان کرتی ہے۔ یہ انجیل ہمیں بتاتی ہے کہ کس نے یسوؔع پر دُنیا کے تمام ہی گناہوں کو سلسلہ وار لادنے کا فرض سرانجام دیا۔’’ایک آدمی یوؔحنا نام آموجود ہوا جو خُدا کی طرف سے بھیجا گیا تھا ۔یہ گواہی کے لئے آیا کہ نور کی گواہی دے
تاکہ سب ا سکے وسیلہ سے ایمان لائیں ۔‘‘(یوحنا۱: ۶-۷)۔
انجیل فرماتی ہے،’’ تاکہ سب ا سکے وسیلہ سے ایمان لائیں ۔‘‘ اور یعنی وہ’’ گواہی کے لئے آیا کہ نور کی گواہی دے۔ ‘‘وہ نور یسوؔع مسیح ہے۔ اِس کا مفہوم ہے کہ یوؔحنا یسوؔع کی گواہی دینے کے لئے آیا تاکہ سب لوگ اُس کے وسیلہ سے ایمان لاسکیں۔ اب آئیں ہم انجیلِ مقدّس بمطابق متی کے باب ۳ پر گہری نظر ڈالیں۔
متی۳:۱۳- ۱۷ میں ہے،’’اس وقت یسوؔع گلیلؔ سے یردؔن کے کنارے یوحنا ؔکے پاس اس سے بپتسمہ لینے آیا۔ مگر یوؔحنا یہ کہہ کر اسے منع کرنے لگا کہ میں آپ تجھ سے بپتسمہ لینے کا محتاج ہوں اور تومیرے پاس آیا ہے؟۔یسوؔع نے جواب میں اس سے کہا اب تو ہونے ہی دے کیونکہ ہمیں اسی طرح ساری راستبازی پوری کرنا مناسب ہے۔ اِس پر اُس نے ہونے دیا۔ اور یسوؔع بپتسمہ لے کرفی الفور پانی کے پاس سے اوپر گیا اور دیکھو اس کے لئے آسمان کھل گیا اور اس نے خُدا کے رُوح کو کبوتر کی مانند اترتے اور اپنے اوپر آتے دیکھا ۔اور دیکھو آسمان سے یہ آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خُوش ہوں۔‘‘
کیوں ہمیں یوحنا کا نسب نامہ سمجھنے کی ضرورت ہے؟
کیونکہ کتابِ مقدّس ہمیں بتاتی ہے کہ یوحناؔ تمام نسلِ انسانی کا سردار کاہن ہے۔
یوؔحنا اِصطباغی نے دُنیا کے تمام گناہوں کی بخشش کو پایہ ء تکمیل تک پہنچانے کے لئے یسوؔع کو بپتسمہ دیا۔وہ بپتسمہ جو یسوؔع نے یوحنا ؔ سے لیا ہماری نجات کے واسطے اہم ترین واقعہ تھا۔لیکن جامع سچائی کو سمجھنے اوراِس پر پوری تفصیل سے ایمان رکھنے کے لئے ،ہمیں پہلے یوؔحنا اصطباغی کا بہت قریب سے مطالعہ کرنا چاہئے۔
لوقا۱:۱۔۱۴میں،’’چونکہ بہتوں نے اس پر کمر باندھی ہے کہ جو باتیں ہمارے درمیان واقع ہوئیں ان کو ترتیب وار بیان کریں۔جیسا کہ انہوں نے جو شروع سے خود دیکھنے والے اور کلام کے خادم تھے ان کو ہم تک پہنچایا۔اِس لئے اے معزز تھیفلسؔ میں نے بھی مناسب جانا کہ سب باتوں کا سلسلہ شروع سے ٹھیک ٹھیک دریافت کرکے ان کو تیرے لئے ترتیب سے لکھوں۔ تاکہ جن باتوں کی تونے تعلیم پائی ہے ان کی پختگی تجھے معلوم ہو جائے۔یہودؔیہ کے بادشاہ ہیرودؔیس کے زمانہ میں ابیاہؔ کے فریق میں سے زکریاؔ ہ نام ایک کاہن تھا اور اس کی بیوی ہارؔون کی اولاد میں سے تھی اور اس کا نام الیشبعؔ تھا۔ اور وہ دونوں خُدا کے حضور راستباز اور خُداوند کے سب احکام و قوانین پر بے عیب چلنے والے تھے۔ اور ان کے اولاد نہ تھی کیونکہ الیشبعؔ بانجھ تھی اور دونوں عمر رسیدہ تھے۔جب وہ خُدا کے حضور اپنے فریق کی باری پر کہانت کا کام انجام دیتا تھا تو ایسا ہوا۔ کہ کہانت کے دستور کے موافق اس کے نام کا قرعہ نکلا کہ خُداوند کے مقدس میں جا کر خُوشبو جلائے۔ اور لوگوں کی ساری جماعت خُوشبو جلاتے وقت باہر دعا کر رہی تھی۔ کہ خُدا وند کا فرشتہ خُوشبو کے مذبح کی دہنی طرف کھڑا ہوااُسکو دُکھائی دیا۔ اور زکریاؔہ دیکھ کر گھبرایا اور اس پر دہشت چھا گئی۔ مگر فرشتہ نے اس سے کہا اے زکر یاہ!خوف نہ کرکیونکہ تیری دعا سن لی گئی اور تیرے لئے تیری بیوی الیشبعؔ کے بیٹا ہوگا۔ تو اس کانام یوؔحنا رکھنا۔اور تجھے خُوشی و خرمی ہو گی اور بہت سے لوگ اُس کی پیدایش کے سبب سے خُوش ہوں گے۔‘‘
یہاں،لوقا ؔ، یسوؔع کا شاگرد،ہمیں یوؔحنا کا نسب نامہ تفصیل سے بتاتا ہے ۔لوقاؔ ، یسوؔع کا شاگرد،شروع سے یوؔحنا کے سلسلۂ نسب کی وضاحت کرتا ہے۔ لوقاؔ تھیفلسؔ نامی ایک آدمی کو خُوشخبری کی تعلیم دے چُکا تھا ،جو ایک مختلف تہذیب سے تعلق رکھتا تھا اور خُدا وند کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا۔
چنانچہ ، اُسے یسوعؔ،یعنی گناہ گاروں کے نجات دہندہ ،کے متعلق تعلیم دینے کے سلسلے میں ، لوقاؔ
نے سوچا کہ اُسےیوؔحنا اِصطباغی کے شجرۂنسب کوتفصیل سے واضح کرنے کی ضرورت تھی۔ جیسا کہ ہم بھی مختلف نسلوں سے غیر قوم کے لوگ ہیں،ہم یسوؔع کی نجات کو نہیں سمجھ سکتے بشرطیکہ یہ بات بالخصوص درجہ بدرجہ واضح نہ کی جاتی۔آئیں ہم ڈھونڈیں کہ تفصیلات کیا ہیں۔
لوقا۱:۵۔۹میں ،وہ بیان کرتا ہے،’’یہودؔیہ کے بادشاہ ہیرودؔیس کے زمانہ میں ابیاہؔ کے فریق میں سے زکریاؔ ہ نام ایک کاہن تھا اور اس کی بیوی ہارؔون کی اولاد میں سے تھی اور اس کا نام الیشبعؔ تھا۔ اور وہ دونوں خُدا کے حضور راستباز اور خُدا وند کے سب احکام وقوانین پر بے عیب چلنے والے تھے۔اور اُن کے اولاد نہ تھی کیونکہ الیشبع با نجھ تھی اور دونوں عمر رسیدہ تھے۔ جب وہ خُدا کے حضور اپنے فریق کی
باری پر کہانت کا کام انجام دیتا تھا تو ایسا ہوا۔ کہ کہانت کے دستور کے موافق اس کے نام کا قرعہ نکلا کہ خُداوند کے مقدس میں جا کر خُوشبو جلائے۔‘‘
یہاں،اُسی دوران ایک واقعہ رُونما ہوا جب زکریاؔہ کہانت کے دستور کے موافق ،خداوند خداٰ کی خدمت سر انجام دے رہا تھا۔ لوقاؔ نے صاف صاف گواہی دی کہ زکریاؔ ہ ہارون کی نسل سے تھا۔ تب، زکریاہ کس فریق سےتعلق رکھتا تھا؟یہ انتہائی اہم نکتہ ہے۔
اُس نے وضاحت کی،’’جب وہ خُدا کے حضور اپنے فریق کی باری پر کہانت کا کام انجام دیتا تھا۔‘‘ہم دیکھ سکتے ہیں کہ لوقاؔز کریاہؔ کے متعلق اِس قدر جانتا تھا کہ اُس نے نجات کی خُوشخبری دونوں زکریا ہؔ اور الیشبعؔ کو ظاہر کرنے کے ذریعے سےواضح کی۔
یوؔحنا اِصطباغی زکریاہؔ اور اُس کی بیوی الیشبعؔ کے ہاں پیدا ہوا، جو ہارؔون کی بیٹیوں میں سے ایک تھی۔ اب آئیں ہم، زکریاہؔ، یوؔحنا کے باپ کے شجرۂنسب پر غور کریں۔
یوحناؔاِصطباغی کا سلسلۂنسب
یوحناؔاصطباغی کس کی نسل سے تھا؟
ہاروؔن، سردار کاہن کی
یوؔحنا اِصطباغی کا نسب نامہ سمجھنے کے لئے ،ہمیں عہدِ عتیق میں سے۱۔تواریخ ۲۴:۱-۱۹کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
’’اوربنی ہارؔون کے فریق یہ تھے۔ہارونؔ کے بیٹے ندبؔ۔ ابیہوؔ۔الیعزرؔ اور اتمرؔ تھے۔ اور ندبؔ اور ابیہوؔاپنے باپ سے پہلے مرگئے اور ان کے اولاد نہ تھی سو الیعزؔر اور اتمرؔ نے کہانت کاکام کیا۔ اور داؤدؔ نے الیعزرؔاور اتمرؔ کے بیٹوں میں سے صدوق ؔاور اتمر کے بیٹوں میں سے اخیؔ ملک کو ان کی خدمت کی ترتیب کے مطابق تقسیم کیا۔ اور اتمرؔ کے بیٹوں سے زیادہ الیعزرؔکے بیٹوں میں رئیس ملے اور اس طرح وہ تقسیم کئے گئے کہ الیعزرؔ کے بیٹوں میں آبائی خاندانوں کے سولہ سردار تھے اور اتمرؔ کے بیٹوں میں سے آبائی خاندانوں کے مطابق آٹھ۔ اس طرح قرعہ ڈال کر اور باہم خلط ملط ہو کر وہ تقسیم ہوئے کیونکہ مقدس کے سرداراور خُدا کے سرداربنی الیعزرؔ اوربنی اتمرؔ دونوں میں سے تھے۔اور نتنی اؔیل منشیؔ کے بیٹے سمعیاہؔ نے جو لاویوں میں سے تھا۔ ان کے ناموں کو بادشاہ اور امیروں اور صدوق ؔکاہن اور اخیؔ ملک بن ابیاترؔ اور کاہنوں اور لاویوں کے آبائی خاندانوں کے سرداروں کے سامنے لکھا۔ جب الیعز رؔ کا ایک آبائی خاندان لیا گیا تو اتمرؔ کا بھی ایک آبائی خاندان لیا گیا۔ اور پہلی چِٹّھی یہویریبؔ کی نکلی۔ دوسری یدعیاہؔ کی ۔تیسری حارمؔ کی چوتھی شعوریمؔ کی۔پانچویں ملکیاہؔ کی۔ چھٹی میامینؔ کی ۔ساتویں ہقوضؔ کی ۔آٹھویں ابیاہؔ کی۔ نویں یشوعؔ کی۔ دسویں سکا نیاہؔ کی۔ گیارھویں الیاسبؔ کی۔ بارہویں یقیمؔ کی۔ تیرھویں خفا ہؔ کی۔ چودھویں یسباب ؔکی۔ پندرھویں بلجاہؔ کی۔ سولھویں امیرؔ کی۔ سترھویں حزیر ؔکی۔ اٹھارھویں فضیضؔ کی۔ انیسویں فتحیاہؔ کی۔ بیسویں یحز قیلؔ کی۔ اکیسویں یاکنؔ کی۔ بائیسویں جمولؔ کی۔ تیئیسویں دلاؔیاہ کی۔ چوبیسویں معزیاہؔ کی۔ یہ ان کی خدمت کی ترتیب تھی تاکہ وہ خُداوند کے گھر میں اس قانون کے مطابق آئیں جوان کو ان کے باپ ہارؔون کی معرفت ویسا ہی ملا جیسا خُدا وند اسرائیل کے خُدا نے اسے حکم کیا تھا۔‘‘
آئیں ہم دسویں آیت دوبارہ پڑھیں۔ ’’ساتویں ہقوضؔ کی۔ آٹھویں ابیاہؔ کی۔‘‘داؤدؔ بادشاہ کے دَور میں،بہت سارے کاہن تھے،اِس لحاظ سے اُن کی باضابطہ خدمات کے لئے قواعدو ضوابط مقرر کرنے کی بھی ضرورت تھی۔ چنانچہ داؤدؔ نے ہارؔون کے تمام بیٹوں کےحصے میں چٹھیاں ڈالیں تاکہ قربانی ترتیب سےچڑھائی جائے۔(جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں ،ہارونؔ موسیٰؔ کا بڑا بھائی تھا۔خداوند خداٰ نے موسیٰؔ کو اپنا نمائندہ مخصوص کیا،اور ہاروؔن کو اسرائیل کے لوگوں کے رُوبرُوپاک خیمہء اجتماع میں سردار کاہن مقر ر کیا۔)
دوسرے تمام لاویوں کو کاہنوں کے تابع کیا اور ہارونؔ، اور اُس کے بیٹوں نے، خداوند خداٰ کے حضور تمام قربانیاں چڑھانے کی ذمہ داری سنبھالی۔ داؤدؔ کے قرعہ ڈالنے سے قبل ، کاہنوں کو جو ہارؔون کی نسل سے تھے ، ہر بار قرعہ ڈالنا پڑتاتھا اور اِس سے بہت زیادہ بے ترتیبی پیدا ہوتی تھی۔
چنانچہ ، داؤدؔ نے ہر ایک فریق کو ترتیب وار رکھنے کے سلسلےمیں ایک نظام تشکیل دیا۔وہاں بالترتیب ۲۴فریق تھے، جن کا آغاز ہارؔون کے پوتوں سے ہوا،اور آٹھواں فریق ابیاہؔ کاتھا ۔ یوں ارشاد ہے،’’ابیاہؔ کے فریق میں سے زکریاہؔ نام ایک کاہن تھا۔ ‘‘غرض، زکریاہؔ ابیاہؔ کے فریق میں سے کاہن تھا، اور وہ دونوں سردار کاہن، ہارؔون کی نسل میں سے تھے۔ اِس بنا پر زکریاہؔ ،ابیاہؔ کے فریق سے کاہن تھا جویوؔحنا اِصطباغی کا باپ تھا۔
ہم کتابِ مقدّس میں سے جانتے ہیں کہ وہ اپنے ہی خاندانوں کے اندر شادیاں کیا کرتے تھے۔اِس طرح، یعقوبؔ نے اپنی ماں کی طرف سے اپنے سگے ماموں کی بیٹی سے شادی کی۔یہ شجرۂ نسب کی وہ وضاحت ہے جو دقیق اہمیت کی حامل ہے۔صحیفہ فرماتاہے،’’ابیاہؔ کے فریق میں سے زکریاہؔ نام ایک کاہن تھا۔‘‘
چنانچہ ،وہ یقینی طور پر ہارؔون کی نسل سے تھا۔ کون؟زکریاہؔ ،یعنی یوؔحنا اِصطباغی کا باپ ۔ یہ یسوؔع کی مخلصی، اوریوؔحنا اِصطباغی کی خدمت ، اور یسوؔع پر دُنیا کے گناہوں کو منتقل کرنے کی وضاحت میں ایک
انتہائی اہم حقیقت ہے۔
صرف ہارؔون کے بیٹے کاہنوں کے طور پر خدمت کریں گے
کون عہدِ عتیق کے دَور میں اُتّم کہانت کی خدمت سر انجام دے سکتے تھے؟
ہارونؔ اور اُس کے مقررہ فرزند
اِس صورت میں ،کتابِ مقدّس کہاں مخصوص کرتی ہے کہ ہارؔون کے بیٹوں کوکاہنوں کے طور پر خدمت کرنی چاہئے؟آئیں ہم اِسے تلاشں کریں۔
گنتی۲۰:۲۲-۲۹میں،’’ اوربنی اسرائیل کی ساری جماعت قادسؔ سے روانہ ہو کر کوہِ ہورؔ پہنچی۔ اور خُداوند نے کوہِ ہورؔ پر جوادومؔ کی سرحد سے ملا ہوا تھا موسیٰؔ اور ہارؔون سے کہا۔ہارونؔ اپنے لوگوں میں جاملے گا کیونکہ وہ اس ملک میں جو میں نے بنی اسرائیل کو دیا ہے جانے نہیں پائے گا اِس لئے کہ مریبہؔ کے چشمہ پر تم نے میرے کلام کے خلاف عمل کیا۔ سوتوہارونؔ اور اس کے بیٹے الیعزرؔ کو اپنے ساتھ لیکر کوہ ہورؔ کے اوپر آجا۔اور ہارؔون کے لباس کو اتار کر اس کے بیٹے الیعزرؔ کو پہنا دینا کیونکہ ہارون ؔوہیں وفات پا کر اپنے لوگوں میں جاملے گا۔ اور موسیٰؔ نے خُداوند کے حکم کے مطابق عمل کیا اور وہ ساری جماعت کی آنکھوں کے سامنے کوہ ہورؔ پر چڑھ گئے۔اور موسیٰؔ نے ہارؔون کے لباس کو اتار کر اس کے بیٹے الیعزرؔ کو پہنا دیا اور ہارؔون نے وہیں پہاڑ کی چوٹی پر رحلت کی۔ تب موسیٰؔ اور الیعزرؔ پہاڑ پر سے اترآئے۔ جب جماعت نے دیکھا کہ ہارؔون نے وفات پائی تو اسرائیل کے سارے گھرانے کے لوگ ہارؔون پرتیس دن تک ماتم کرتے رہے۔‘‘
خروج کی کتاب میں،خداوند خداٰ کی شریعت درج ہے،جوارشاد فرماتی ہے کہ ہاروؔن، سردار کاہن کے بیٹے،بِلا چُوں چراں کہانت کی خدمت کو سنبھالیں ،اور مخصوص شدہ بیٹا ہی، جب وہ ۳۰ برس کا ہوجائے تو سردار کاہن کی خدمت کو ویسے ہی سنبھالے ، جیسے اُس کا باپ سنبھالتا تھا۔
خروج۲۸:۱-۵ میں ،’’اور توبنی اسرائیل میں سے ہارؔون کو جو تیرا بھائی ہے اور اُس کے ساتھ اس کے بیٹوں کو اپنے نزدیک کر لینا تاکہ ہارؔون اور اس کے بیٹے ۔ندبؔ اور ابیہوؔ اور اتمرؔ کہانت کے عہدہ پر ہوکر میری خدمت کریں۔ اور تو اپنے بھائی ہارؔون کے لئے عزت اور زینت کے واسطے مقدس لباس بنا دینا۔ اور تو ان سب روشن ضمیروں سے جن کو میں نے حکمت کی رُوح سے بھرا ہے کہہ کہ وہ ہارؔون کے لئے لباس بنائیں تاکہ وہ مقدس ہو کر میرے لئے کاہن کی خدمت کو انجام دے۔اور جو لباس وہ بنائیں گے یہ ہیں یعنی سینہ بند اور افود اور جبہ اور چارخانے کا کرتہ اور عمامہ اور کمر بند۔ وہ تیرے بھائی ہارؔون اور اس کے بیٹوں کے واسطے یہ پاک لباس بنائیں تاکہ وہ میرے لئے کاہن کی خدمت کو انجام دے۔ اور وہ سونا اور آسمانی اور ارغوانی اور سرخ رنگ کے کپڑے اور مہین کتان لیں۔‘‘ خداوند خداٰ نے واضح طور پراُتّم کہانت موسیٰؔ کے بھائی، ہارؔون کے ذمےلگائی۔
کہانت کی خدمت ہر ایرے غیرے کے لئے عام نہ تھی۔ خداوند خداٰ نے موسیٰؔ کوہارونؔ کی سردار کاہن کے طورپر تقدیس کرنے،اور اس کے لئے ٹھیک ویسا ہی لباس تیار کرنے کا حکم دیا جیسا اُس کی طرف سے ارشاد ہوا تھا۔ ہمیں خداوند خداٰ کے فرمودات کوہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
خروج۲۹: ۱-۹میں بھی درج ہے،”اور ان کو پاک کرنے کی خاطر تاکہ وہ میرے لئے کاہن کی خدمت کوانجام دیں تو ان کے واسطے یہ کرنا کہ ایک بچھڑا اور دو بے عیب مینڈھے لینا۔ اور بے خمیری روٹی اور بے خمیر کے کلچے جن کے ساتھ تیل ملا ہو اور تیل کی چپڑی ہوئی بے خمیری چپاتیاں لینا۔ یہ سب گیہوں کے میدہ کی بنانا۔اور ان کو ایک ٹوکری میں رکھ کر اس ٹوکری کو بچھڑے اور دونوں مینڈھوں سمیت آگے لے آنا۔پھر ہارؔون اور اس کے بیٹوں کو خیمہء اجتماع کے دروازہ پر لا کر ان کو پانی سے نہلانا۔ اور وہ لباس لیکر ہارؔون کو کرتہ اور افودکاجبہ اور افوداور سینہ بند پہنانا اور افود کاکاریگر ی سے بُنا ہوا کمر بند اس کے باندھ دینا۔ اور عمامہ کو اس کے سر پر رکھ کراس عمامہ کے اوپر مقدس تاج لگا دینا۔ اور مسح کرنے کا تیل لیکر اس کے سر پر ڈالنا اوراسکو مسح کرنا۔پھر اسکے بیٹوں کو آگے لا کراُنکو کُرتے پہنانا۔ اورہارونؔ اور اُسکے بیٹوں کے کمر بند لپیٹ کر ان کے پگڑیاں باندھنا تا کہ کہانت کے منصب پر ہمیشہ کے لئے ان کا حق رہے اور ہارؔون اور اسکے بیٹوں کو مخصوص کرنا۔“
ہارونؔ اور اسکے بیٹوں کے کمر بند لپیٹنا، اور اُن کے پگڑیاں باندھنا۔۔۔۔۔کہانت کی خدمت ہمیشہ کے لئے اُن کی رہے۔۔۔۔۔اِس طرح تُو ہارون ؔ اور اُس کے بیٹوں کو مقدس کرنا۔۔۔۔۔خداوند خداٰ نے کما حقہ مخصوص کردیا کہ فقط ہارؔون اور اسکے بیٹے ہی کہانت کی خدمت کو دائمی طور پرسرانجام دینے کے لئےمقدس کئے جائیں۔ جب اُس نے بالخصوص ارشاد فرمایا،’’ کہانت کے منصب پر ہمیشہ کے لئے ان کا حق رہے‘‘،تو یہ عائد ہو گیا کہ کہانت بِلا شک یسوؔع کے اس دُنیا میں آنے کے بعد بھی مؤثر رہی۔
لوقاؔنے گہرائی میں جاکر وضاحت کی کہ زکریاہؔ سردار کاہن ہارؔون کی نسل میں سے تھا۔ جب زکریاہؔ خُداوند کی ہیکل میں خداوند خداٰ کے رُوبرُو بااختیار کاہن کے طور پر خدمت سر انجام دے رہا تھا، تو ایک فرشتہ ظاہر ہوا اور اُس نے اُسے بتایا کہ اُس کی دعا سُن لی گئی؛یعنی اُس کی بیوی الیشبعؔ سے اُس کے بیٹا ہو گا۔
زکریاہؔ اِس بات کا یقین نہ کر سکا اور اس نے کہا، ” میری بیوی عمر رسیدہ ہے، کیسے وہ ایک بیٹا پیداکر سکتی ہے؟‘‘ اُس کے شک کی وجہ سے ،خداوند خداٰ نے تھوڑی دیر کے لئے اُس کی زبان بند کر دی تاکہ وہ ظاہر کرے کہ اُس کے الفاظ سچے تھے۔
وقتِ مقرر پر، اُس کی بیوی حاملہ ہوئی اور تھوڑی ہی دیر بعد ،کنواری مریمؔ بھی ، حاملہ ہوئی۔ دونوں واقعات، ہماری نجات کے واسطےخداوند خداٰکی طرف سے یکجان معجزات تھے ۔بدبخت نسلِ انسانی
کو بچانے کے سلسلے میں ، اُسے اپنے خادم یوؔحنا اور اپنے اکلوتے بیٹے یسوؔع کو اِس دُنیا میں بھیجنا پڑا۔ غرض ،خداوند خداٰکو اپنے بیٹے پر اِس دُنیا کے تمام گناہ منتقل کرنے کے سلسلے میں یوؔحنا سے بپتسمہ دلوانا پڑا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے وہ نجات پائے۔
خداوند خداٰ کی خاص دُور اندیشی!
کیسےخداوند خداٰ نے اپنی مخلصی کے کام کے لئے یسوؔع سے پیشترتیار کیا؟
یوؔحنا اصطباغی کو
یسوؔع مسیح نسلِ انسانی کا نجات دہندہ تھا، جو کنواری مریمؔ کے بدن سے پیدا ہوا۔ مریمؔ کی منگنی یوسفؔ سے ہوئی ،جو یہوداہؔ کی نسل سے تھا۔ یسوؔع کو خداوند خداٰ کا عہد پورا کرنے کے لئے یہوداہؔ کی نسل سے پیدا ہونا تھا ،ہو بہو اُسی طرح جیسےیوؔحنا اِصطباغی کو سردار کاہن، ہارؔون کے گھرانے سے پیدا ہونا تھا۔
خداوند خداٰ نے اِن دونوں کو اِس دُنیا میں پیدا کرنے کا انتظام کیا،اِس ترتیب سے کہ یوؔحنا یسوؔع سے قبل پیدا ہو۔ یوؔحنا اِس لئے پیدا ہوا تھاتاکہ وہ یسوؔع کو بپتسمہ دے سکے اور دُنیا کے تمام گناہ اُس پر لاددے۔سردار کاہن کا چشم و چراغ خداوند خداٰ کے عہد کو پورا کرنے کے سلسلے میں ،جو عہدِ عتیق اور عہدِ جدید میں باندھاگیاتھا، کفارہ کی قربانی گزرانتا تھا؛ یعنی کہ یسوؔع کےچُھٹکارے کی خُوشخبری ٹھیک اُسلوب میں مکمل ہونا تھا تاکہ تمامتر لوگ آزاد ہوں۔
خروج کی کتاب میں، خداوند خداٰ نے اسرائیل کو اپنی شریعت اور عہود بخشے؛خداوند خداٰ کی شریعت اور خیمہء اجتماع میں قربانیاں چڑھانے کا نظام، یعنی کاہنوں کے لباس تک،قربانیوں کی تفصیلات ،اور کہانت کی کاہنوں کے بیٹوں تک منتقلی وہاں دستیاب ہے۔خداوند خداٰ نے ہارؔون اور اُسکی نسل کو دائمی طور پر اُتّم کہانت کے لئے مقرر کیا۔
لہٰذا، ہارؔون کی کل نسل قربانیاں چڑھا سکتی تھی اور سردار کاہن صرف ہارؔون کے گھرانے سے
ہوسکتے تھے۔ کیا آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسا کس بنا پر رائج تھا؟ ہارونؔ کے بہت سارے جانشینوں کے درمیان، خداوند خداٰ نے ایک نامی گرامی کاہن زکریاہؔ اور اُسکی بیوی الیشبعؔ کو چنا۔
وہ ارشاد فرماچُکا تھا،’’دیکھ میں اپنا پیغمبر تیرے آگے بھیجتا ہوں۔‘‘ جب خداوند خداٰ نے زکریاہؔ کوارشاد فرمایا کہ وہ الیشبعؔ کو بیٹا جننے کی قوت بخشے گا، اوریعنی اُسے اُس کا نام یوؔحنا رکھنا پڑے گا، تو وہ اِس قدر حیران ہوگیا کہ وہ اُس کے حکم پر گونگا ہو گیا جب تک بیٹا پیدا نہ ہوا اور اُس کا نام نہ رکھا گیا۔
بے شک، وہ بیٹا اُس کے گھر میں پیدا ہوا۔ جب اسرائیل کے دستور کے مطابق بیٹے کا نام رکھنے کا وقت آیا،تو بیٹے کا نام باپ ،یا اُس کے رشتہ داروں میں سے کسی ایک کے نام پر رکھا جاتا تھا۔
’’اورالیشبعؔ کے وضعِ حمل کا وقت آپہنچا اور اُس کے بیٹا ہوا۔ اور اس کے پڑوسیوں اور رشتہ داروں نے یہ سن کر کہا خُداوند نے اس پر بڑی رحمت کی اس کے ساتھ خُوشی منائی۔ اور آٹھویں دن ایسا ہوا کہ لڑکے کا ختنہ کرنے آئے اوراُس کا نام اُسکے باپ کے نام پر زکریاہؔ رکھنے لگے۔مگر اُس کی ماں نے کہا نہیں بلکہ اس کانام یوؔحنا رکھا جائے۔ انہوں نے اس سے کہا کہ تیرے کنبے میں کسی کا یہ نام نہیں۔ انہوں نے اس کے باپ کو اشارہ کیا کہ تو اس کا نام کیا رکھنا چاہتاہے؟۔ا س نے تختی منگوا کر یہ لکھا کے اس کا نام یوؔحنا ہے اور سب نے تعجب کیا۔اُسی دم اس کا منہ اور زبان کھل گئی اور وہ بولنے اورخُدا کی حمد کرنے لگا۔ اور ان کے آس پاس کے سب رہنے والوں پر دہشت چھا گئی اور یہودیہؔ کے تمام پہاڑی ملک میں ان سب باتوں کا چرچا پھیل گیا۔ اور سب سننے والوں نے ان کو دل میں سوچ کر کہا تو یہ لڑکا کیسا ہونے وا لا ہے؟کیونکہ خُداند کا ہاتھ اُس پر تھا۔‘‘(لوقا۱:۵۷- ۶۶)
زکریا ہؔ اُس وقت تک ہنوز گونگا تھا جب اُس کےبیٹا پیدا ہوچُکاتھا۔جب بچے کا نام رکھنے کا وقت آیا،تو رشتہ داروں نے مشورہ دیا کہ بچے کا نام زکریاہؔ رکھنا چاہئے۔ لیکن اُس کی ماں نے اِصرار کیا کہ اس کا نام یوؔحنا رکھنا چاہئے۔ اِس موقع پر،اُس کے رشتہ داروں نے کہا کہ خاندان میں اِس نام کا کوئی آدمی نہیں اور بچے کا نام اُس کے باپ کے نام پر رکھنا چاہئے۔
جب الیشبعؔ اِس نام پر اِصرار کرتی رہی ،تو رشتے دارزکریاہؔ کے پاس آئے اوراُس سے پوچھا کہ بچے کا کیا نام ہو نا چاہئے۔ زکریاہؔ نے ایک تختی منگوائی چونکہ وہ ابھی بھی نہیں بول سکتاتھا، اور اُس نے’یوحنا ؔ‘ لکھا۔ تمام رشتے داراِس غیر عمومی نام کے انتخاب پر ششدررہ گئے۔
لیکن نام رکھنے کے بعد ،زکریاہؔ کا منہ فوراً کھل گیا۔ اُس نے خداوند خداٰ کی تمجید کی اور وہ رُوح
القدّس سے معمور ہو گیا اور نبوّت کرنے لگا۔ اِس طریقے سے،لوقاؔیوؔحنا اِصطباغی کی زکریاہؔ کے گھر میں پیدا ئش کے متعلق بتاتا ہے۔
’’ابیاہؔ کے فریق میں سے زکریاہؔ نام ایک کاہن تھا۔‘‘خداوند خداٰ کے خاص فضل سے، یوؔحنا اِصطباغی ،نسلِ انسانی کا نمائندہ، زکریاہؔ کےہاں پیدا ہوا، جو ہارؔون کی نسل سے تھا۔
یوؔحنا اِصطباغی اور یسوؔع مسیح کے ذریعہ سے،خداوند خداٰ نسلِ انسانی کی نجات کو مکمل کر چُکا تھا۔ ہم اپنے تمام گناہوں سے مخلصی کے کام پر ایمان لانے کی وجہ سے نجات یافتہ ہوئے ہیں جویوؔحنا اور یسوؔع مسیح کی معرفت پایۂ تکمیل تک پہنچا۔
یسوؔع کا بپتسمہ
کیوں یسوؔع نے یوؔحنا سے بپتسمہ لیا؟
کل عالم کے تمامتر گناہوں کو اُٹھانے کے لئے
یوؔحنا اِصطباغی نے گواہی دی کہ یسوؔع خداوند خداٰ کا بیٹا تھا اور اُس نے ہمارے تمام گناہ اُٹھالئے۔وہ یوؔحنا اِصطباغی ہی،خداوند خداٰ کا خادم تھا جوخُدا کی نجات کی گواہی دینے کے لئے بھیجا گیا ۔ اِس کاہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ خداوند خداٰ ہمیں خودنہیں بتاتا کہ وہ ہمارا نجات دہندہ ہے۔خداوند خداٰ کلیسیا میں اپنے تمام خادمین کی وساطت سے ، اوراپنے اُن تمام لوگوں کے منہ کے ذریعے سےکام کرتا ہےجونجات یافتہ ہیں۔
خداوند خداٰ فرماتا ہے،’’یروشلیمؔ کو دلاسا دواور اُسے پکار کر کہو کہ اس کی مصیبت کے دن جو جنگ و جدل کے تھے گزر گئے۔ اور اس کے گناہ کا کفارہ ہوا اور اس نے خُدا وند کے ہاتھ سے اپنے سب گناہوں کا بدلہ دوچند پایا۔۔۔۔ہاں گھاس مرجھاتی ہے ،پھول کملاتا ہے پر ہمارے خُدا کا کلام ابد تک قائم ہے۔‘‘(یسعیاہ۴۰: ۲، ۸)۔
خداوند خداٰ پہلے ہی، تقریباً مسیح کی پیدائش سے سات سو سال پہلے وعدہ فرماچُکا تھا،’’تم اب سےگناہ گار نہیں ہو۔ میں تمہارے تمام گناہوں کا کفّارہ دے چُکا ہوں اور جنگ و جدل ختم ہو چُکی ہے۔ ‘‘ اِس طرح، نجات کی خُوشخبری کی آواز ہم سے تقاضا کرتی ہے۔یہ اِس بنا پر ہے کہ یہ قابلِ استعمال خُوشخبری کہلاتی ہے۔
جب ہم یوؔحنا اِصطباغی کی خدمات کو سمجھ لیتے ہیں، اور اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ دُنیا کے تمام گناہ یوؔحنا اِصطباغی کے ذریعہ سے یسوؔع پر سلسلہ وار منتقل ہو گئےتھے، تو ہم سب اپنے گناہوں سے آزاد ہوسکتے ہیں۔
چاروں انا جیلِ مُبارکہ ہمیں یوؔحنا اِصطباغی کے متعلق بتاتی ہیں،اور ملاکیؔ،عہدِ عتیق کا آخری نبی بھی یوؔحنا اِصطباغی کی گواہی دیتاہے کہ یوؔحنا اصطباغی خداوند خداٰ کا قابلِ استعمال خادم تھا۔ عہدِ جدیدیوؔحنا اِصطباغی کی پیدائش اور اُس کے ذریعہ سے گناہوں کی منتقلی سے شروع ہوتا ہے۔
اِس طرح کس بنا پر ہم اُسے یوؔحنا اِصطباغی پُکارتے ہیں؟اِس لئے کہ اُس نے یسوؔع کو بپتسمہ دیا۔ بپتسمہ کا کیامعنی ہے؟اِس کا مفہوم ’سلسلہ وار منتقل کرنا، دفن ہونا ،دُھلنا‘ ہے–– یہ ہوبہو عہدِ عتیق میں’ہاتھ رکھنے‘ کے مترادف ہے۔
عہدِ عتیق میں ،جب کوئی آدمی گناہ کرتا تھا،تووہ اپنے گناہوں کو قربانی کے بے عیب جانور کے سر پر اپنے ہاتھ رکھنے کے وسیلہ سے،منتقل کر تا تھا، اور قربانی کا جا نور اُن گناہوں کے ساتھ مرجاتاتھا۔’ہاتھ رکھنے کا مطلب’ سلسلہ وارمنتقل کردینا ‘ہے۔چنانچہ ،’ہاتھ رکھنے‘ اور’ بپتسمے‘ کا ضمنی مفہوم مساوی ہے،بِلا شک گو وہ بظاہر مختلف ہیں۔
اِس طرح، یسوؔع کے بپتسمہ کا کیا معنی تھا؟ ہمارے واسطے اُس کا بپتسمہ گناہوں کی مغفرت حاصل کرنے کا واحد طریقہ تھا۔خداوند خداٰ شریعت کو قائم کر چُکا تھاتا کہ گناہ ’ہاتھ رکھنے ‘ کے وسیلہ سے قربانی پر منتقل ہو سکیں۔اِس طریقے سے، عہدِ عتیق کے دَور میں ،گناہ گارلوگوں کو قربانی کے جانورکے سر پر اپنے
گناہ لادنے کےسلسلے میں، اُس کے سر پراپنے ہاتھ رکھنے پڑتے تھے۔اِس کے بعد ، وہ اُس کی گردن کاٹتے تھے اور کاہن سوختنی قربانی کی قربانگاہ کے سینگوں پراُس کا خون لگاتے تھے ۔یہ روزمرّہ کے گناہوں کا کفارہ دینے کا طریقۂ کار تھا۔
تو پھر اِس صورت میں، وہ سال بسال گناہوں کا کفارہ کیسے دیتے تھے؟
اِس صورتِ حال میں،سردار کاہن ہارؔون بنی اسرائیل کے تمامتر لوگوں کے لئے قربانی گزرانتا
تھا۔ چونکہ یوؔحنا اِصطباغی ہارؔون کے گھرانے میں پیدا ہواتھا، تواُس کےلئے سردار کاہن بننا موزوں تھا، اور خداوند خداٰ اُسے اپنے مخلصی کے وعدہ کے عین مطابق، پیدائش سے پیشترآخری سردار کاہن مقرر کرچُکا تھا۔
یوحناؔبپتسمہ دینے والاتمام نسلِ انسانی کا نمائندہ اور آخری سردار کاہن تھا، اِسلئے کہ جب یسوؔع مسیح پیداہوا توعہدِ عتیق کا خاتمہ ہوگیا۔اُس کے علاوہ کوئی دوسرا آدمی نہ تھا بلکہ یوؔحنا اِصطباغی نے عہدِ جدید میں دُنیا کے تما م گناہ یسوؔع پر اُسی طرح سلسلہ وار منتقل کردیئے،ہو بہو جیسے عہدِ عتیق میں ہارؔون اپنے تمام لوگوں کے گناہوں کا کفارہ دیتاتھا؟عہدِ عتیق کے آخری سردار کاہن اور تمام نسلِ انسانی کے نمائندہ کے طور پر،یوؔحنا اِصطباغی نے یسوؔع کو بپتسمہ دینے کے ذریعہ سے دُنیا کے تما م گناہ اُس پر سلسلہ وار منتقل کردیئے جونہی اُس نے اُسے بپتسمہ دیا۔
کیونکہ یوؔحنا نے دُنیا کے تما م گناہ یسوؔع پر منتقل کر دِیئے، اِس لئے پانی اور رُوح کی خُوشخبری پر ایمان ہمیں چُھڑا سکتاہے۔یسوؔع تمام گناہ گاروں کو بچانے کے سلسلے میں برّہ بن گیا،اُس طریقے سے مخلصی کے کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچایاجس طریقے سےخداوند خداٰ منصوبہ بنا چُکا تھا۔ یسوؔع نے ہمیں ارشاد فرمایا کہ یوؔحنا اِصطباغی آخری نبی ، یعنی آخری سردار کاہن تھا جس نے دُنیا کے تمام گناہ اُس پر سلسلہ وار منتقل کردیئے۔
کیوں یسوؔع اِسے خودہی نہیں کرسکتا تھا؟ کیوں اُسےیوؔحنا اِصطباغی کی ضرورت تھی ؟یوؔحنا اِصطباغی کایسوؔع سے چھ ماہ پہلے پیدا ہونابا جواز تھا؛ یہ جواز عہدِ عتیق کی شریعت کو پورا کرنا،یعنی اِس کے وعدوں کوپایۂ تکمیل تک پہنچانا تھا۔
یسوؔع کنواری مریمؔ سےپیدا ہوا تھا اور یوؔحنا اِصطباغی الیشبعؔ نامی ایک عمر رسیدہ اور بانجھ عورت سے پیدا ہواتھا۔
یہ خداوند خداٰ کے عجائب تھے اور اُس نے تمام گناہ گاروں کو بچانے کے لئے منصوبہ بنایا۔ ہمیں گناہ کے خلاف دوامی جنگ سے ، اورمع اپنی وجوہاتِ گناہ گاری کی تمام مصیبتوں سے بچانے کے لئے، اُس نے اپنے خادم یوؔحنا کو اور بعد ازاں اپنے اکلوتے بیٹے ،یسوؔع کو بھیجا۔یوؔحنا اِصطباغی لوگوں کے نمائندہ، یعنی آخری سردار کاہن کے طور پر بھیجاگیا۔
عورتوں سے پیدا ہونے والا جلیل القد ر آدمی
کون رُوئے زمین پر جلیل القدر آدمی تھا؟
یوؔحنا اصطباغی
آئیں ہم متی۱۱:۷-۱۴پر غور کریں۔’’جب وہ روانہ ہو لئے تو یسوؔع نے یوؔحنا کی بابت لوگوں سے کہنا شروع کیا کہ تم بیابان میں کیا دیکھنے گئے تھے؟ کیا ہواسے ہلتے ہوئے سرکنڈے کو ؟ ۔تو پھر کیا دیکھنے گئے تھے؟ کیا مہین کپڑے پہنے ہوئے شخص کو؟دیکھو جو مہین کپڑے پہنتے ہیں وہ بادشاہوں کے گھروں میں ہوتے ہیں۔تو پھر کیوں گئے تھے؟کیا ایک نبی دیکھنے کو؟ہاں میں تم سے کہتا ہوں بلکہ نبی سے بڑے کو ۔یہ وہی ہے جس کی بابت لکھا ہے کہ دیکھ میں اپنا پیغمبر تیرے آگے بھیجتا ہوں جو تیری راہ تیرے آگے تیار کرے گا۔میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو عورتوں سے پیدا ہوئے ہیں ان میں یوؔحنا اِصطباغی سے بڑا کوئی نہیں ہوا لیکن جو آسمان کی بادشاہی میں چھوٹا ہے وہ اس سے بڑا ہے ۔اور یوحناؔبپتسمہ دینے والے کے دنوں سے اب تک آسمان کی بادشاہی پر زور ہوتا رہا ہے اور زور آور اسے چھین لیتے ہیں۔کیونکہ سب نبیوں اور توریت نے یوؔحنا تک نبوت کی۔اور چاہو تو مانو۔ ایلیاہؔ جو آنے والا تھا یہی ہے۔‘‘
لوگ بیابان میں یوؔحنا اِصطباغی کو دیکھنے گئے، جس نے پکارکر کہا،’’اے سانپ کے بچو!توبہ کرو۔‘‘ اور یسوؔع نے فرمایا، ’’تو پھر کیا دیکھنے گئے تھے؟ کیا مہین کپڑے پہنے ہوئے شخص کو؟دیکھو جو مہین کپڑے پہنتے ہیں وہ بادشاہوں کے گھروں میں ہوتے ہیں۔‘‘
یسوؔع نے خود یوؔحنا کی عظمت کی گواہی دی۔ ’’تم کیا دیکھنے گئے تھے؟اُس وحشی آدمی کو جو اونٹ کے بالوں کی پوشاک پہنتاہے اور ایڑی چوٹی تک زور لگا کر چیختا ہے؟اُسے ضرور اونٹ کے بالوں کی پوشاک پہننی چاہئے۔ تم کیا دیکھنے گئے تھے؟کیا مہین کپڑے پہنے ہوئے شخص کو؟ دیکھو جو لوگ مہین کپڑے پہنتے ہیں وہ بادشاہوں کے گھروں میں رہتے ہیں۔ یسوؔع نے گواہی دی کہ البتہ وہ بادشاہ سے بھی بڑا ہے۔’’دیکھو جو مہین کپڑے پہنتے ہیں وہ بادشاہوں کے گھروں میں ہوتے ہیں۔تو پھر کیوں گئے تھے؟کیا ایک نبی دیکھنے کو؟ہاں میں تم سے کہتا ہوں بلکہ نبی سے بڑے کو۔‘‘
قدیم زمانہ میں ،انبیائے اکرام بادشاہوں سے بڑے سمجھے جاتے تھے ۔ یوؔحنا اِصطباغی بادشاہ سے بڑھ کر ،اور نبی سے بھی بڑھ کرتھا۔ وہ عہدِ عتیق کے تمام انبیائےاکرام سے بڑھاتھا۔در حقیقت ،یوحنا،آخری سردار کاہن اورنسلِ انسانی کا نمائندہ ،پہلے، سردار کاہن، ہارؔون سے کہیں زیادہ اہم تھا۔ یسوؔع نے خود گواہی دی کہ یوؔحنا ہو بہو یہی تھا۔
کون نسلِ انسانی کا نمائندہ ہے؟باستثناء خود مسیح کے ،کون اِس رُوئے زمین پراُتّم جلیل القدر آدمی ہے؟ یوؔحنا اِصطباغی۔’’ہاں میں تم سے کہتا ہوں بلکہ نبی سے بڑے کو ۔دیکھ میں اپنا پیغمبر تیرے آگے بھیجتا ہوں جو تیری راہ تیرے آگے تیار کرے گا۔‘‘
یوؔحنا اِصطباغی نے گواہی دی کہ گناہ کے خلاف جنگ کا خاتمہ ہو چُکاتھا۔’’دیکھو یہ خُدا کا برّہ ہے جودُنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے۔‘‘ یہ یوؔحنا اِصطباغی ہی تھا جس نے گواہی دی کہ یسوؔع نے دُنیا کے تمام گناہ اُٹھالئے۔
متی۱۱:۱۱ میں،’’میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو عورتوں سے پیدا ہوئے ہیں ان میں یوؔحنا بپتسمہ دینے والے سے بڑا کوئی نہیں ہوا۔‘‘
کیا عورتوں سے پیدا ہونے والوں کے درمیان یوؔحنا اِصطباغی سے بڑا کوئی اورانسان تھا؟
’’عورتوں سے پیدا ‘‘ہونے کا کیا مفہوم ہے؟۔یہ محاورہ تمام نسلِ انسانی کو بیان کرتاہے۔ آدمؔ اور حواؔ کے علاوہ، تمام بنی نوع انسان عورتوں سے پیدا ہوئے تھے۔ جی ہاں، عورتوں سے پیدا ہونے والے لوگوں کے درمیان ،یوؔحنا اِصطباغی سے بڑا کوئی آدمی برپا نہیں ہوا۔اِس لئے، وہ آخری سردار کاہن، اور نسلِ انسانی کا نمائندہ ہے۔ یوؔحنا اِصطباغی سردار کاہن ،نبی اورتمامتر نسلِ انسانی کا نمائندہ تھا۔
عہدِ عتیق میں ،ہارونؔ اور اُس کے بیٹےخداوند خداٰ کی طرف سے دائمی طور پر خدمت سرانجام دینے کے لئے مقرر ہوئے تھے۔ تمام گناہوں کی صفائی ہارؔون اور اسکے بیٹوں کے ذریعہ سےہوتی تھی ۔ یونہی خداوند خداٰ نے ارشاد فرمایاتھا۔
اگر بعض اور لوگ لاویوں میں سےآگے آتے اور ان کی کہانت میں دخل اندازی کرنے کی جرأت کرتے، تو وہ کما حقہ طور پر مرجاتے۔سب کچھ جو وہ کرنے کے قابل تھے فقط قربان گاہ پر آگ جلانے کے لئے لکڑیاں جمع کرنا ،جانوروں کی کھال اتارنا،چربی چھانٹنا،انتڑیوں کو صاف کرنا اور اُن کے فضلہ کو خیمہ سے باہر لے جانا تھا۔ اگر وہ حسبِ ضرورت بر خود غلط جسمانی طور پرکاہنوں کی خدمت سرانجام دینے کی کوشش کرتے، تووہ مر جاتے۔ یہ خداوند خداٰ کی شریعت تھی۔ وہ اپنی حد کو پھلانگ نہیں سکتے تھے۔
رُوئے زمین پر،یوؔحنا اِصطباغی سے بڑاآدمی برپا نہیں ہوا۔ وہ تمام فانی انسانوں کے درمیان جلیل القدر آدمی تھا۔’’اور یوحناؔبپتسمہ دینے والے کے دنوں سے اب تک آسمان کی بادشاہی پر زور ہوتا رہا ہے اور زور آور اسے چھین لیتے ہیں۔‘‘
نسلِ انسانی کا چُھٹکارہ اُس وقت پایۂ تکمیل تک پہنچا، جب یوؔحنا اِصطباغی نے یسوؔع کو بپتسمہ دیا، اوروہ لوگ جو یسوؔع پر ایمان رکھتے ہیں آسمانی بادشاہی میں داخل ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ ایمان کے وسیلہ سے راستباز بن جاتے ہیں۔
اب، آئیں ہم دیکھیں کیسے یوؔحنا کے باپ نے اپنے بیٹے کی گواہی دی۔
زکریاہؔ ، یعنی یوؔحنا کے باپ کی گواہی
زکریاہ ؔ نے اپنے بیٹے کے بارے میں کیا نبوّت کی؟
یوؔحنا اُس کے لوگوں کونجات کا علم بخشنے کے ذریعہ سے خُدا وند کی راہ تیار کرے گا۔
آئیں ہم لوقا۱:۶۷- ۸۰کا مطالعہ کریں۔’’اور اس کا باپ زکریاہؔ رُوح القدّس سے بھر گیا اور نبوّت کی راہ سے کہنے لگا کہ۔خُداوند اسرائیل کے خُدا کی حمد ہو کیونکہ اس نے اپنی امت پر توجہ کرکے اسے چھٹکارا دیا۔ اور اپنے خادم داؤدؔ کے گھرانے میں ہمارے لئے نجات کا سینگ نکالا۔(جیسا اس نے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کہا تھاجو کہ دُنیا کے شروع سے ہوتے آئے ہیں۔) یعنی ہم کو ہمارے دشمنوں سے اور سب کینہ رکھنے والوں کے ہاتھ سے نجات بخشی۔ تاکہ ہمارے باپ دادا پر رحم کرے اور اپنے پاک عہد کو یاد فرما ئے۔یعنی اس قسم کو جو اس نے ہمارے باپ ابرہامؔ سے کھائی تھی ۔کہ وہ ہمیں یہ عنایت کریگا کہ اپنے دشمنوں کے ہاتھ سے چھوٹ کر۔اس کے حضور پاکیزگی اور راستبازی سے عمر بھر بے خوف اس کی عبادت کریں۔ اور اے لڑکے تو خُدا تعالےٰ کا نبی کہلائے گا کیونکہ تو خُداوند کی راہیں تیار کرنے کو اس کے آگے آگے چلے گا۔ تاکہ اس کی امت کو نجات کا علم بخشے جو انکو گناہوں کی معافی سے حاصل ہو۔یہ ہمارے خُداکی عین رحمت سے ہوگا جس کے سبب سے عالمِ بالا کا آفتاب ہم پر طلوع کرے گا۔تاکہ اُن کو جو اندھیرے اور موت کے سایہ میں بیٹھے ہیں روشنی بخشے اور ہمارے قدموں کو سلامتی کی راہ پر ڈالے۔ اوروہ لڑکا بڑھتا اور رُوح میں قوت پاتا گیا اور اسرائیل پر ظاہرہونے کے دن تک جنگلوں میں رہا۔‘‘
زکریاہؔ نے دو باتوں کی پیشینگوئی کی۔ اُس نے پیشینگوئی کی کہ تمام لوگوں کا بادشاہ آئے گا۔۶۸ سے۷۳آیات تک،اُس نے خُوشی سے نبوّت کی کہ خداوند خداٰ اپنے وعدے نہیں بھولا اور یعنی یسوؔع،ہو بہو
جیسےخداوند خداٰ نے ابرہامؔ سے وعدہ فرمایا تھا، اُس کی نسل کو اُن کے دشمنوں کے ہاتھ سے بچانے کے سلسلے میں کنواری مریمؔ سے پیدا ہوا۔
اَز راہ۷۴آیت ، ’’وہ ہمیں یہ عنایت کریگا کہ اپنے دشمنوں کے ہاتھ سے چھوٹ کر۔ اس کے حضور پاکیزگی اور راستبازی سے عمر بھر بے خوف اس کی عبادت کریں۔‘‘یہ ابرہامؔ اور اسرائیل کے لوگوں کے ساتھ خداوند خداٰ کےوعدہ کی یاد دہانی ہے اور اُس نے نبوّت کی،’’وہ ہمیں یہ عنایت کریگا۔۔۔۔بے خوف اس کی عبادت کریں۔‘‘
اَزراہ۷۶آیت، اُس نے اپنے بیٹے کے متعلق نبوّت کی۔’’اور اے لڑکے تو خُدا تعالیٰ کا نبی کہلائے گا کیونکہ تو خُداوند کی راہیں تیار کرنے کو اس کے آگے آگے چلے گا۔ تاکہ اس کی امت کو نجات کا علم بخشے جو انکو گناہوں کی معافی سے حاصل ہو۔ یہ ہمارے خُدا کی عین رحمت سے ہوگا جس کے سبب سے عالمِ بالا کا آفتاب ہم پر طلوع کرے گا۔تاکہ اُن کو جو اندھیرے اور موت کے سایہ میں بیٹھے ہیں روشنی بخشے اور ہمارے قدموں کو سلامتی کی راہ پر ڈالے۔‘‘
یہاں اُس نے کہا،’’تاکہ اس کی امت کو نجات کا علم بخشے جو انکو گناہوں کی معافی سے حاصل ہو۔‘‘ کس کے وسیلہ سےا ُس نے کہا کہ نجات کا علم بخشا جانے والا تھا؟یوؔحنا اِصطباغی کے وسیلہ سے۔ کیا آپ یہ سب دیکھ سکتے ہیں؟یوؔحنا اِصطباغی،خداوند خداٰ کے فرمودات کی وساطت سے، ہمیں علم النجات بخشنے والا تھا ،کہ یسوؔع خداوند خداٰ کا بیٹا ہے، جس نےکل عالم کے گناہوں کو اُٹھا لیا۔
اب ،آئیں ہم مرقس باب ۱پر غور کریں۔’’یسوؔع مسیح ابنِ خُداکی خُوشخبری کا شروع ۔جیسا یسعیاہؔ نبی کی کتاب میں لکھا ہے کہ دیکھ میں اپنا پیغمبر تیرے آگے بھیجتا ہوں جو تیری راہ تیار کرے گا ۔بیابان میں پکارنے والے کی آواز آتی ہے کہ خُدا وند کی راہ تیار کرو۔اس کے راستے سیدھے بناؤ۔یوؔحنا آیا اور بیابان میں بپتسمہ دیتا اور گناہوں کی معافی کے لئے توبہ کے بپتسمہ کی منادی کرتا تھا۔اور یہودؔ یہ کے ملک کے سب لوگ اور یروشلیمؔ کے سب رہنے والے نکل کر اس کے پاس گئے اور انہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کرکے دریای ِ یردؔن میں اس سے بپتسمہ لیا۔‘‘(مرقس۱:۱۔۵)۔
جب اسرائیلیوں نے یوؔحنا اصطباغی سے سنا،تو وہ غیر اقوام کے بتوں کی پرستش سے پِھرے اور
اُنہوں نےیوؔحنا اِصطباغی سے بپتسمہ لیا۔مگریوؔحنا نے گواہی دی،’’میں نے تم کو پانی سے بپتسمہ دیا تاکہ تم خداوند خداٰ کی طرف رجوع لاؤ۔تاہم ابنِ خُدا آئے گا اور مجھ سے بپتسمہ لے گا تاکہ تمہارے تمام گناہ اِسی طریقۂ کار سے اُس پر منتقل ہو جائیں ۔اور اگرتم اُ س کے بپتسمہ پر ایمان لاؤ گے جس طرح تم مجھ سے بپتسمہ لے رہے ہو، توتمہارے تمام گناہ سلسلہ وار اُس پر منتقل ہو جائیں گے،بالکل جس طرح عہد ِعتیق میں گناہ ہاتھ رکھنے کے ذریعہ سے منتقل ہوتے تھے۔‘‘یہ تھایوؔحنا نے کس بنا پر گواہی دی۔
اِس حقیقت کا مطلب کہ یسوؔع نےیردؔن میں بپتسمہ لیایہ اِس بنا پر تھا کہ اُس نے موت کے دریا میں بپتسمہ لیا۔ہم جنازے پر گاتے ہیں،’’ ♪آخر کار خُوشگوار ماحول میں، ہم اُس دلکش ساحل پر ملیں گے ، ہم اُس دلکش ساحل پر ملیں گے۔ ♪‘‘جب ہم مریں گے ،توہم دریائے یردؔن کو عبور کریں گے۔ دریائے یردؔن موت کا دریا ہے۔ یسوؔع نے موت کے اِس دریامیں بپتسمہ لیا،کیونکہ اُس نے وہاں دُنیا کے تمام گناہوں کو اُٹھا لیا اور’’ گناہ کی مزدوری موت ہے۔‘‘
بپتسمہ جو ہمارے گناہوں کو سلسلہ وار منتقل کرتا ہے
نئے عہد نامہ میں ہاتھوں کا مشابہ کیا ہے؟
یسوؔع کا بپتسمہ
متی۳:۱۳-۱۷میں ،ہم پڑھتے ہیں،’’اس وقت یسوؔع گلیلؔ سے یردؔن کے کنارے یوحنا ؔکے پاس اس سے بپتسمہ لینے آیا۔مگر یوؔحنا یہ کہہ کر اسے منع کرنے لگا کہ میں آپ تجھ سے بپتسمہ لینے کا محتاج ہوں اور تومیرے پاس آیا ہے؟۔یسوؔع نے جواب میں اس سے کہا اب تو ہونے ہی دے کیونکہ ہمیں اسی طرح ساری راستبازی پوری کرنا مناسب ہے۔ اِس پر اُس نے ہونے دیا۔اور یسوؔع بپتسمہ لے کرفی الفور پانی کے پاس سے اوپر گیا اور دیکھو اس کے لئے آسمان کھل گیا اور اس نے خُدا کے رُوح کو کبوتر کی مانند اترتے اور اپنے اوپر آتے دیکھا ۔اور دیکھو آسمان سے یہ آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خُوش ہوں۔‘‘
یسوؔع دریائے یردن ؔپر گیا اوریوؔحنا اِصطباغی سے بپتسمہ لیا۔اُس نے یوحنا کو حکم دیا،’’مجھے بپتسمہ دے۔ ‘‘یوؔحنا نے جواب دیا،’’ لیکن میں تو آپ تجھ سے بپتسمہ لینے کا محتاج ہوں، اور تو میرے پاس آیا ہے؟‘‘آسمان اور زمین کے سردار کاہن ایک ساتھ ملے۔
جیسا کہ عبرانیوں کے خط کے مطابق بیان کیا گیا ہے، یسوؔع مسیح ملکِ صدق کے طور پر، ابد تک سردار کاہن ہے۔اِس کا مطلب ہے یسوؔع انسانی نسب نامہ کے بغیر ہے۔ وہ نہ تو ہاروؔن کی نسل ہے،یا وہ رُوئے زمین پر کسی آدمی کا تخم نہیں ہے۔وہ ابنِ خُدا، یعنی ہمارا خالق ہے۔ وہ جو ہے سو ہے؛ اِس لئے، اُس کا کوئی نسب نامہ نہیں ہے۔یسوؔع نے آسمانی جاہ و جلال کو چھوڑ دیا اور اپنے لوگوں کو بچانے کی خاطر رُوئے زمین پر اُترآیا۔
اِس کی وجہ کہ وہ اِس دُنیا میں اُتر آیا تمام گناہ گاروں کو بچانا تھاجو شیطان کے دغے کے باعث دُکھ میں تھے ۔مزید برآں، اُس نے یوؔحنا اِصطباغی سے بپتسمہ لینے کی معرفت دُنیا کے تمام گناہوں کو اُٹھا لیا۔’’یسوؔع نے جواب میں اس سے کہا اب تو ہونے ہی دے کیونکہ ہمیں اسی طرح ساری راستبازی پوری کرنا مناسب ہے۔ اِس پر اُس نے ہونے دیا۔‘‘
’’اب تو ہونے ہی دے۔‘‘ہونے ہی دے!یسوع نے تمام نوعِ انسانی کے نمائندہ کو حکم دیا اور بپتسمہ لینے کے لئے اپنا سر جھکا دیا۔ عہدِ عتیق میں، جب کوئی قربانی خداوند خداٰ کے حضور گزرانی جاتی تھی،تو خواہ گناہ گار یا سردار کاہن اُس کے سر پراپنے ہاتھ رکھتا تھااور بسلسلہ طور پر گناہوں کو منتقل کر دیتاتھا۔’کسی آدمی کے ہاتھ رکھنے‘ کا مفہوم ’سلسلہ وار منتقل کرنا‘ہے۔
یوؔحنا اِصطباغی نے یسوؔع کو بپتسمہ دیا۔یہ عمل عہدِ عتیق میں ہاتھ رکھنے کے مساوی تھا۔ ’سلسلہ وار منتقل کرنا،‘ ’دفن ہونا،‘ ’دھونا،‘ اور ’قربانی چڑھانا،‘سبھی ہم معنی الفاظ ہیں ۔عہدِ جدید اصل حقیقت
ہے جب کہ عہدِ عتیق اُس کا عکس ہے۔
عہدِ عتیق میں جب کوئی گناہ گارکسی برّہ پر اپنے ہاتھ رکھتاتھا، تو اس کا گناہ برّہ پر منتقل ہو جاتا تھا
اور برّے کو قربان ہونا پڑتا تھا۔ جب وہ برّہ مر جاتا، تو اُسے دفنایا جاتاتھا ۔اُس آدمی کےگناہ جو برّہ پر اپنےہاتھ رکھتاتھاقربانی کے جانور پر منتقل ہو جاتے تھے،لہٰذابرّہ گناہوں کی وجہ سے ذبح ہوتا تھا!اِس صورت میں کہ اگر گناہ برّے پر منتقل ہو جاتے تھے،توکیا وہ آدمی جو قربانی کے نظام کے مطابق برّہ قربان کرتا تھابے گناہ بن جاتا تھا؟ جی ہاں۔
آئیں ہم فرض کریں کہ یہ رومال گناہ ہے اور یہ مائیکروفون ،برّہ ہے۔ جب میں اپنے ہاتھ اِس مائیکروفون پر رکھتا ہوں، تو یہ گناہ اِس مائیکروفون ، یعنی برّہ پر منتقل ہو جاتا ہے۔خداوند خداٰ نے خود فیصلہ کیا کہ ایسے ہی ہو گا۔’’اپنے ہاتھ اُس پر رکھو۔‘‘عہدِ عتیق کے دَور میں گناہوں سے چُھٹکارہ پانے کے سلسلے میں ،ہر آدمی کو قربانی کے سر پر اپنے ہاتھ رکھنے پڑتے تھے۔ اِس کے بعد، وہ بےگناہ بن سکتا تھا۔اِسی طرح، یسوؔع کا بپتسمہ دھونے، دفن کر نے اور دُنیا کے گناہوں کو اُس پرمنتقل کرنے کے واسطے تھا۔مِن و عَن یہی ہے کہ اِس کا کیا مطلب ہے۔
ساری راستبازی کو پورا کرنے کا کیا مطلب ہے؟
اِس کا مطلب یسوؔع پر گناہوں کو منتقل کرنے کے وسیلہ سے تمامتر گناہوں کو دھونا ہے۔
لہٰذا، جب یسوؔع نےدُنیا کے تمام گناہ اُٹھانے کے لئے بپتسمہ لیا ،تو کیاوہ واقعی اُس پر منتقل ہو گئے تھے؟ کل عالم کے تمامتر گناہ یسوؔع پر منتقل ہو گئےاورسبھی لوگ چُھوٹ گئے۔ یہ عہدِ عتیق میں جانوروں پر گناہوں کو منتقل کرنے کے عین برابر تھا۔ یسوؔع گلیلؔ سے یردؔن کو آیااوریوؔحنا کو فرمایا،’’اب تو ہونے ہی دے کیونکہ ہمیں اسی طرح ساری راستبازی پوری کرنا مناسب ہے۔‘‘(متی۳: ۱۵)۔
اِس کے بعد، یوحناؔنے یسوؔع کو بپتسمہ دیا ۔اُس نے یوؔحنا کو بتایا کہ اُ ن کے واسطے اُس کے بپتسمہ کے ذریعہ سے ساری راستبازی کو پورا کرنا مناسب تھا۔’ ساری راستبازی‘ کا مطلب’ بالکل معقول اور ٹھیک ‘ ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ’اِسی طرح‘یعنیبپتسمہ کے طُفیل سے ، ساری راستبازی پوری ہوئی تھی۔ اِسکا معنی ہوا کہ یوؔحنا کا یسوؔع کو بپتسمہ دیناٹھیک تھا اور یسوؔع کا یوؔحنا سے بپتسمہ لینا ،اِس بنا پر اُس پر تمام عالم کے گناہوں کو منتقل کرنے کے لئےدرکار تھا۔
خداوند خداٰیسوؔع کے بپتسمہ،صلیب پر اُس کی قربانی اور ہمارے عقیدے کی بنیاد پرچُھٹکارہ عطا کرتا ہے۔ تمام لوگ گناہ سے دُکھ اُٹھاتے ہیں اوراپنے گناہوں کی وجہ سے ابلیس کے ہاتھوں اَذیّت برداشت کرتے ہیں۔
چنانچہ ، اُن کے نجات پانے اور آسمان پر جانے کےسلسلے میں ،تجھ کو،نسلِ انسانی کے نمائندہ اور ہارؔون کے جانشین کے طور پر، مجھے تمام لوگوں کے لئے بپتسمہ دینا چاہئے۔ میں تجھ،یوحناؔ، سے بپتسمہ لوں گا۔اِس کے بعد، مخلصی کا کام پایۂ تکمیل تک پہنچے گا۔
یوؔحنا نے جواب دیا،’’میں سمجھ گیا۔‘‘
لہٰذا، یوؔحنا نے یسوؔع کو بپتسمہ دیا۔ اُس نے یسوؔع کے سر پر اپنے ہاتھ رکھے اور دُنیا کے تمام گناہ یسوؔع پر لاد دیئے۔اِس طرح، یسوؔع وہ نجات دہندہ بن گیا جس نے ہمارے تمام گناہ دھوڈالے۔ اب، اس
کے چُھٹکارے پر ایمان ہمیں بچا سکتا ہے ۔کیا آپ ایمان رکھتے ہیں؟
یردؔن پراپنے بپتسمہ کے بعد ، تمام نسلِ انسانی کے نمائندہ کے ہاتھوں کےطُفیل سے، یسوؔع نے خدمتِ الہٰی میں اپنے پہلے مفادِ عامہ کے کام کے طور پر اپنے بدن پر دُنیا کے تمام گناہوں سمیت سیاحی کی اور ساڑھے تین سال تک خُوشخبری کی منادی کرتارہا۔
اُس نے اُس عورت کو ارشاد فرمایا جوزنا کاری کے فعل میں پکڑی گئی تھی،’’ میں بھی تجھ پر حکم نہیں لگاتا۔‘‘ وہ اُس پر حکم نہیں لگا سکتا تھاکیونکہ اُس نے عورت کے تمام گناہ اپنے اوپر اُٹھا لئے تھے اور اُن کی خاطر وہ صلیب پر اپنی جان دینے پر آمادہ تھا ۔جب وہ گتسمنیؔ نامی جگہ پر دعامانگ رہا تھا،اُس نے تین باردُعا مانگی، باپ کی منت کی کہ خُدا کی سزا کا پیالہ اُس سے ٹل جائے،لیکن جلد ہی اِسے ترک کردیا اور
فرمایا،’’ تو بھی میری نہیں بلکہ تیری ہی مرضی پوری ہو۔‘‘
’’دیکھو! یہ خُدا کا برّہ ہے جو دُنیا کا گناہ اُٹھالے جاتا ہے۔‘‘
کتنےزیادہ گناہ یسوؔع نے اُٹھا لئے؟
کل عالم کے تمامتر گناہ
یوحنا۱:۲۹ بیان کرتا ہے،’’ دوسرے دن اس نے یسوؔع کو اپنی طرف آتے دیکھ کر کہا دیکھو یہ خُدا کا برّہ ہے جودُنیا کا گنا ہ اُٹھالے جاتا ہے۔‘‘یوؔحنا اِصطباغی نے یسوؔع کو بپتسمہ دیا اوراگلے دن ،یسوؔع اُس کی طرف آیا ،یوں اُس نے لوگوں کو بتایا،’’ دیکھو یہ خُدا کا برّہ ہے جو دُنیا کا گناہ اٹھالے جاتا ہے۔‘‘ یہ اُس کی گواہی تھی۔
خداوند خداٰ کا بیٹا اِس دُنیا میں آیا اور اِس کے تمام گناہ اُٹھا لئے۔یوؔحنا اِصطباغی نے دوبارہ گواہی دی۔ یوحنا۱:۳۵- ۳۶میں لکھا ہے،’’دوسرے دن پھر یوحناؔاور اسکے شاگردوں میں سے دو شخص کھڑے تھے۔ اس نے یسوؔع پر جو جار رہا تھا نگاہ کرکے کہا دیکھو یہ خُداکا برّہ ہے!‘‘
خداوند خداٰ کا برّہ اِس حقیقت کا حوالہ دیتا ہے کہ یسوؔع عہدِ عتیق میں ظاہرہوئی قربانی کا سچا اورحقیقی وجود ہے، جو اسرائیل کے گناہوں کی خاطرمراکر تی تھی۔ میرے اور آپ کے لئے، خداوند خداٰ کا بیٹا اور ہمارا خالق، ہمارے تمام گناہوں کواُٹھانے کے لئے اِس دُنیا میں اُتر آیا ؛ اُس نے اِس دُنیا کی تخلیق سےلے کر اُس دن تک جب تک یہ ختم نہیں ہو جاتی،ہمارے موروثی گناہ سے لیکر ہماری تمام بدکاریوں تک ،ہماری کوتاہیوں سے لیکر ہمارے قصوروں تک تمامتر گناہ اُٹھالئے۔ اُس نے اپنےبپتسمہ اور صلیبی خون کے ساتھ ہم سب کو چُھڑا لیا۔
یسوؔع نے ہمارےتمام گناہ اٹھا لئے اور ہمیں ،یعنی ایمانداروں کو،کامل چُھٹکارہ عطا کیا۔ کیا آپ اِسے سمجھتے ہیں؟ ’’یہ خُدا کا برّہ ہے جو دُنیا کا گناہ اٹھالے جاتا ہے۔‘‘
تقریباً ۲۰۰۰سال گزر چُکے ہیں جب وہ اِس دُنیا میں پیدا ہواتھا، اور۳۰بعد از مسیح میں ، یسوؔع
نے ہمارے تمام گناہ اُٹھا لئے۔۱ عد از مسیح وہ سال تھا جس میں یسوؔع پیدا ہواتھا۔ہم مسیح سے پہلے کے دَورکو قبل ازمسیح کہتے ہیں۔تقریباً۲۰۰۰سال گزر چُکے ہیں جب یسوؔع اِس دُنیا میں آیا۔
۳۰بعد از مسیح میں،یوؔحنا اِصطباغی نے یسوؔع کو بپتسمہ دیا، اور اگلےدن،یوؔحنا لوگوں کے سامنے چِلا اُٹھا،’’دیکھو یہ خُدا کا برّہ ہے جو دُنیا کا گناہ اُٹھالے جاتا ہے۔‘‘ ’’ دیکھو!‘‘ اُس نے لوگوں کو یسوؔع پر ایمان لانے کی تلقین کی ،جس نے اُن کے تمام گناہ اُٹھالئے۔ اُس نے گواہی دی کہ یسوؔع خُدا کا برّہ تھا ،وہ برّہ جس نے ہمیں ہمارےتمام گناہوں سے نجات بخشی۔
یسوؔع نے ہمارے تمام گناہ اٹھالئے اور گناہ کے خلاف ہماری دائمی جنگ کو ختم کر دیا۔ اب ہم گناہ کے بغیر ہیں چونکہ خداوند خداٰ کے بیٹے نے اُنہیں اُٹھا لیا۔یوؔحنا اِصطباغی نے گواہی دی کہ یسوؔع ہمارے تمام گناہوں کو ،یعنی دونوں میرے اور آپ کے گناہوں کو بھی اُٹھا چُکا تھا۔’’ یہ گواہی کے لئے آیا کہ نور کی گواہی دے تاکہ سب اس کے وسیلہ سے ایمان لائیں۔‘‘ (یوحنا۱:۷)۔
یوؔحنا کی گواہی کے بغیر، ہم کس طرح جان سکتے تھے کہ یسوؔع نے ہمارے تمام گناہ اُٹھالئے۔کتابِ مقدّس ہمیں اکثروبیشتر بتاتی ہے کہ وہ ہماری خاطر مؤا ،البتہ فقط یوؔحنا اِصطباغی نے واضح طور پرگواہی دی کہ اُ س نے ہمارے تمام گناہوں کو اُٹھالیا۔
دُنیا کا گناہ کتنازیادہ گناہ ہے؟
دُنیا کے شروع سے لے کر آخر تک بنی نوع انسان کے تمامتر گناہ
بہتوں نےیسوؔع کی موت کے بعد اِس حقیقت کی گواہی دی،مگر صرف یوؔحنا نے اُسی دوران گواہی دی جب وہ زندہ تھا۔ بے شک، یسوؔع کے شاگردوں نے بھی یسوؔع کی نجات کی گواہی دی۔ اُنہوں نے گواہی دی کہ یسوؔع نے ہمارے گناہوں کو اُٹھالیا،یعنی وہ ہمارا نجات دہندہ ہے۔
یسوؔع نے دُنیا کا گناہ اٹھالیا۔ عزیز پڑھنے والو،ابھی آپ ۱۰۰برس کے نہیں ہیں کیا آپ سو برس کے ہیں؟جب وہ۳۰برس کا ہو گیا تویسوؔع نے دُنیا کے گناہوں کو اُٹھالیا۔ اِس خاکہ پر غورکریں۔
آئیں ہم یوں کہہ لیں کہ یسوؔع کے آنے سے۴۰۰۰سال قبل کی بات تھی جب پہلا انسان پیدا ہواتھا۔اوریسوؔع کے آنے کے بعد ابھی ۲۰۰۰سال سے تھوڑا سا اُوپر وقت گزر چُکا ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ دُنیا کاخاتمہ کب ہو گا، مگر خاتمہ یقیناًہونے والا ہے۔ وہ فرماتاہے،’’میں الفا اور اومیگا۔ اول و آخر۔ ابتداو انتہا ہوں۔‘‘(مکاشفہ۲۲:۱۳)۔
لہٰذا،یقینی طور پر خاتمہ ہو گا۔ اور ہم اُس نکتہ پر ہیں جو۲۰۱۹کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مسیح نے ۳۰بعد از مسیح میں ہمارے گناہ اُٹھالئے، اور یہ اُس کے صلیب پر مرنے سے تین برس قبل کی بات تھی ۔
’’دیکھو یہ خُدا کابرّہ ہے جو دُنیا کا گناہ اٹھالے جاتا ہے۔‘‘ اُس نے دُنیا کے گناہوں کو، یعنی آپ کےاورمیرے گناہوں کو اُٹھالیا ۔ہم یسوؔع کی پیدائش سے ۲۰۰۰برس اُوپر ہیں اوراپنی عُمریں یسوؔع کے ہمارے گناہ اٹھانے کے تقریباً۲۰۰۰برس بعدمیں گزار رہے ہیں۔ ہم ابھی تک زندہ ہیں اور دن رات مسلسل گناہ کرتے ہیں ،تاہم،یسوؔع خداوند خداٰ کا برّہ ہے جس نے پہلے ہی دُنیا کےگناہوں کو اُٹھالیا ۔
ہم اُسی لمحے سے جینااوراِس دُنیا میں گناہ شروع کردیتے ہیں جونہی ہم پیدا ہوتے ہیں۔کیا ہم سب اُسی لمحے سے گناہ کرتے ہیں جب ہم پیدا ہوتے ہیں ،یا کیاہم ایسا نہیں کرتے ؟–– ہم ایسا کرتے ہیں ––آئیں ہم پورے طریقِ عمل میں سے گزریں۔اُسی دن سے جب ہم پیدا ہوتے ہیں تب تک جب تک ہم ۱۰برس کے نہیں ہو جاتے،کیا ہم گناہ کرتے ہیں ،یا نہیں کرتے ؟–– ہم گناہ کرتے ہیں–– اِس صورت میں ، کیا وہ گناہ یسوؔع پر سلسلہ وار منتقل ہوئے یا نہیں؟–– وہ منتقل ہو گئے–– چونکہ تمام گناہ یسوؔع پر منتقل ہو گئے تھے ، اِس لئے وہ ہمارا نجات دہندہ ہے۔ اگر نہیں ہوئے،توکیسے وہ ہمارا نجات دہندہ بن سکتاتھا ؟ تمام گناہ یسوؔع پر منتقل ہو گئے۔
۱۱سے۲۰برس کی عمر تک، کیا ہم گناہ کرتے ہیں، یا ہم نہیں کرتے؟ ہم اپنے دلوں میں اور عملوں میں گناہ کرتے ہیں۔۔۔۔ہم ایسا کرنے میں بے حد ماہر ہیں۔ ہم گناہ نہ کرنے کی تعلیم پاتے ہیں ،اِس کے باوجود ہم فطرتاً گناہ کرنے کا رجحان رکھتے ہیں۔
خداوند خداٰ ہمیں ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ تمام گناہ یسوؔع پر منتقل ہو گئے تھے۔ وہ جانتاتھا کس بنا پر ہم گناہ گار تھے اِسلئے، اُس نے قبل از وقت اُن تمامترگناہوں کو اُٹھا لیا۔
عموماً ہم اِس دُنیا میں کتنی دیرجیتے ہیں؟آئیں ہم کہہ لیں کہ ہم تقریباً۷۰برس جیتے ہیں۔ اگر ہم اُن تمامتر گناہوں کو باہم جمع کریں جو ہم نے اُن ۷۰ سالوں کے دوران کئے ، تو ہمارا وزن کتنا بھاری ہوگا؟ اگر ہم اُنہیں۸ ٹن وزنی ٹرکوں پر لادیں، تو ہم غالباً۱۰۰سے زیادہ ٹرکوں تک پہنچ جائیں گے۔
ذرا تصور کرنے کی کوشش کریں کہ ہم اپنے پورے دائرہ حیات کے دوران کتنےسارے گناہ کریں گے۔ کیاوہ دُنیا کے گناہ ہیں، یا کیا وہ نہیں ہیں؟وہ دُنیا کے گناہوں کا حصہ ہیں۔ ہم پیدائش سے،۱۰سال تک،۱۰ سے ۲۰ تک،۲۰سے۳۰ تک۔۔۔۔اُس دن تک جب تک ہم مر نہیں جاتے گناہ کرتے ہیں،مگر وہ تمام گناہ دُنیا کے گناہوں میں شامل ہیں جو پہلے ہی یسوؔع پر اُس کے بپتسمہ کے وسیلہ سے منتقل ہو گئے تھے۔
اِنسان کا نجات دہندہ، یسوؔع مسیح
یسوؔع نے کتنے سارےگناہ اُٹھا لئے؟
ہمارے آباؤ اجداد کےگناہ ،ہمارےگناہ ،اوردُنیا کے آخر تک ہماری نسلوں کے تمامتر گناہ
یسوؔع ہمیں بتاتا ہے کہ وہ اُن تمام گناہوں کو دھونے کی خاطر جسم میں آیا۔بصورتِ دیگر، یسوع، خودکو بپتسمہ نہیں دےسکتا تھا، اِس لئےخداوند خداٰ نے اپنے خادم یوؔحنا کو ،تمام بنی نوع انسان کے منتخب نمائندہ کو، اُس کے آگے بھیجا۔جیسا کہ لکھا ہوا ہے، ’’ اُس کانام عجیب مشیر خُدایِ قادر ابدیت کا باپ سلامتی کا شاہزادہ ہو گا۔‘‘ اُس نے خودبخود، اپنی حکمت اور اپنی مشورت کے مطابق، نسلِ انسانی کے نمائندہ کوآگے بھیجا، اوریسوؔع ،خود خداوند خداٰ کا بیٹا، دُنیا کے تمام گناہوں کو منہا کرنے کے لئے جسم میں آیا۔کیا یہ خداوند خداٰ کے عمیق فضل کی اَچرج نجات نہیں ہے؟
یہ امر باعثِ استعجاب ہے ،کیا ایسا نہیں ہے؟ لہٰذا،فقط یوؔحنا اِصطباغی سے بپتسمہ لینے کے ذریعہ سے، اُس نے تمام دُنیا بھر میں سے نسلِ انسانی کے سرتاسرگناہوں کو دھوڈالا اورہر آدمی کو مصلوب ہونے کے وسیلہ سے ، آخری اور حتمی طور پر گناہ سے آزاد کر دیا۔اُس نے ہم سب کو آزاد کر دیا۔ اِس کے متعلق سوچیں۔آئیں ہم اپنے تمام گناہوں پر۲۰سے۳۰،۳۰سے۴۰،۴۰سے۶۰، ۷۰تک،۱۰۰سال تک کے،اور آپکے بال بچوں کے گناہوں پر بھی غور کریں۔کیا اُس نے اُن تمام گناہوں کو مٹاڈالا یاکیا اُس نے نہیں مٹایا؟جی ہاں، اُس نے ایسا کیا۔ وہ یسوؔع المسیح،یعنی نسلِ انسانی کا نجات دہندہ ہے۔
چونکہ یوؔحنا اِصطباغی نے ہمارے تمام گناہ یسوؔع پر لاد دیئے ،اور کیونکہ خداوند خداٰ اِسی طرح منصوبہ بنا چُکا تھا، اِس لئے ہم اُس پر ایمان لانے کے ذریعہ سے رہاہو سکتے ہیں۔ کیا آپ اور میں گناہ گار ہیں؟کیا ہمارے تمام گناہ یسوؔع پر سلسلہ وار منتقل ہوئے تھے یانہیں ؟ –– ہم آئندہ گناہ گار نہیں ہیں
کیونکہ ہمارے گناہ پہلے ہی یسوؔع پر منتقل ہو گئے تھے۔––
کون یہ کہنے کی جرأت کرتا ہے کہ دُنیا میں گناہ موجو د ہے؟ یسوؔع نے دُنیا کے تمام گناہوں کو
منہاکر دیا ۔ وہ جانتا تھا کہ ہم گناہ کریں گے، اوراِس طرح مستقبل کے گناہوں کو بھی اُٹھا لیا ۔ ہم میں سے کچھ لوگابھی تک۵۰برس کے نہیں ہوئے اور بِلاشک بعض نے ابھی تک اپنی آدھی زندگی بھی نہیں گزاری،مگر ہم میں سے بعض لوگ، جن میں میں بھی شامل ہوں، اپنے متعلق ایسے بات کرتے ہیں،جیسے کہ ہم ابد تک زندہ رہیں گے۔
ہم میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ہنگامہ خیز زندگی بسر کرتے ہیں۔ مجھے اِس بات کی اِس طرح وضاحت کرنے کی اجازت دیں ۔مئی مکھی کی زندگی کے کل دورانیے کا نصف کتنا ہوتا ہے؟ تقریباً بارہ گھنٹے کا ہوتاہے۔
”میرے خُدا یا! میری فلاں فلاں شخص سے ملاقات ہوئی اور اُس نے مجھ پر مکھی مار گھمایا۔ میں تقریباً جان نکلنے تک پِس گئی، اورتم جانتے ہو ،میں اپنی آدھی زندگی کے دوران کسی ایسے ظالم شخص سے ہرگز نہیں ملی۔“
شام کے۷یا ۸بجے تک، وہ اپنی زندگی کی مدھم روشنی کا، اور تھوڑی دیر بعد ، موت کا سامنا کرتی ہے۔کچھ مکھیاں۲۰گھنٹے تک، کچھ ۲۱تک زندہ رہتی ہیں،اور کچھ۲۴گھنٹے کی طویل عمرگزارتی ہیں۔ شاید وہ اپنےعمربھرکے تجربات کے متعلق باتیں کریں،مگر دوسری جانب ہمیں کیسا لگتا ہے؟ جب ہم۷۰،یا۸۰برس تک جیتےہیں، توشاید ہم کہتے ہیں ،’’ مجھے لطیفہ مت سناؤ۔‘‘ اُن کا تجربہ ہماری نگاہوں میں سراسر کچھ نہیں ہے۔
آئیں ہم اِس تمثیل کوخداوند خداٰ اور اپنے درمیان عائد کریں۔ حق تعالیٰ ابدی ہے۔ وہ ابد یت تک زندہ ہے۔ وہ دُنیا کی ابتدا اور انتہا کا فیصلہ کرتا ہے ۔جیسا کہ وہ ابد تک ہے، تو وہ ابدیت کے وقتی سانچےسے بالا ترابدالآباد ہمیشہ تک زندہ ہے ۔وہ اپنے ابدی مقام سے ہم پر نظر کرتا ہے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے ،اُس نےدُنیا کے تمام گناہوں کو منہا کر دیا،صلیب پر مرگیا ،اورفرمایا ’’تمام ہوا ۔‘‘ وہ تین دن کے بعد جی اُٹھا اور آسمان پر چڑھ گیا۔ اب وہ ابدیت میں مقیم ہے۔ اب، وہ اوپر
سے ہم میں سے ہر ایک کو دیکھ رہا ہے۔
شاید کوئی آدمی کہے، ’’اوہ پیارے ، میں بہت زیادہ گناہ کر چُکا ہوں۔بِلا شُبہ بھلے میں صرف۲۰برس جِیا ہوں،میں حد سے زیادہ گناہ کر چُکا ہوں۔‘‘’’ میں صرف۳۰برس جِیا ہوں اورمیں بہت زیادہ گناہ کر چُکا ہوں۔ یہ بہت ہی زیادہ ہیں۔ میں بھلا کیسے کبھی گناہوں سے بَری ہو سکتا ہوں؟‘‘
دوسری جانب ہمارا خُداوند اپنی ابدیت میں فرمائے گا،”مجھے مت ہنساؤ۔ میں فقط تمہارے ہی فی
الحال موجودہ گناہوں کا فدیہ نہیں ،بلکہ تمہاری پیدائش سے پہلے تمہارے باپ دادا کے گناہوں کا بھی ،اور تمہاری آل اولاد کی تمام نسلوں کے گناہوں کا ،یعنی جو لوگ تمہاری موت کے بعد زندہ رہیں گےاُن سب کا فدیہ دے چُکا ہوں“۔ وہ دوامی وقت کے سانچے سے آپ سے ایسا فرماتا ہے۔ کیا آپ اِس پر ایمان لاتے ہیں؟اِس پر ایمان لائیں اور نجات کی نعمت کوحاصل کریں جو آپ کو مفت بخشی گئی ہے۔ آسمانی بادشاہی میں داخل ہوں۔
خود کواپنے خیالات میں قیدمت کریں بلکہ خداوند خداٰ کے فرمودات پر ایمان لائیں۔’ ہمیں اسی طرح ساری راستبازی پوری کرنا مناسب ہے۔‘خداوند خداٰ کے برّہ نے، جس نے دُنیا کے گناہوں کو اُٹھا لیا ،پہلے ہی ساری راستبازی کو پورا کر دیا گیا ۔یسوؔع دُنیا کے تما م گناہوں کو اُٹھاکرلے گیا۔ کیا اُس نے ایسا کیایا کیا اُس نے ایسا نہیں کیا؟ اُس نے ایسا ہی کیا۔
یسوؔع نے صلیب پر اپنی آخری سانس سےمُطلق پہلے کیافرمایا؟
’’تمام ہوا۔‘‘
یسوؔع مسیح نے اپنے بپتسمہ کے وسیلہ سے ،دُنیا کے تمام گناہ اُٹھالئے،اُس پر پینطُس پیلاؔطس کی عدالت میں موت کا فتویٰ دیا گیا اوروہ صلیب پرمصلوب کیا گیا۔
’’اور وہ اپنی صلیب آپ اُٹھائے ہوئے اس جگہ تک باہر گیا جو کھوپڑی کی جگہ
کہلاتی ہے۔ جسکا ترجمہ عبرانی میں گلگتا ہے ۔وہاں انہوں نے اسکو اور اسکے ساتھ اور دو شخصوں کو مصُلوب کیا۔ ایک کو ادھر ایک کو اُدھر اور یسوؔع کوبیچ میں۔اورپیلاؔطس نے ایک کتابہ لکھ کر صلیب پر لگا دیا۔ اُس میں لکھاتھا۔یسوؔع ناصری یہودیوں کا بادشاہ۔ اس کتا بہ کو بہت سے یہودیوں نے پڑھا۔ اسلئے کہ وہ مقام جہاں یسوؔع مُصلوب ہوا شہر کے نزدیک تھا اور وہ عبرانی۔ لاطینی اور یونانی میں لکھا ہوا تھا۔‘‘(یوحنا ۱۹:۱۷- ۲۰)۔
آئیں ذرا غور کریں اُس کے صلیب پر مصلوب ہونے کے بعد کیا ہوا۔ ’’اسکے بعد جب یسوؔع نے جان لیا کہ اب سب باتیں تمام ہوئیں تاکہ نوشہ پورا ہو تو کہا میں پیاسا ہوں۔وہاں سرکہ سے بھرا ہوا ایک برتن رکھا تھا۔ پس انہوں نے سرکہ میں بھگوئے ہوئے سپنج کو زوفے کی شاخ پر رکھ کر اُس کے منہ سے لگایا۔پس جب یسوؔع نے وہ سرکہ پیا تو کہا کہ تمام ہوا اور سرجھکا کر جان دے دی۔‘‘(یوحنا۱۹:۲۸-۳۰۔)
سرکہ پینے کے بعد ، وہ چِلا اُٹھا،’’تمام ہوا‘‘اوراپنا سرجھکادیااور جان دے دی۔وہ واقعی مر چُکا تھا۔ یسوؔع مسیح تین دن بعددوبارہ زندہ ہو گیا اور آسمان پر چڑھ گیا۔
آئیں ہم عبرانیوں ۱۰:۱-۹کی طرف رُجوع کریں۔’’ کیونکہ شریعت جس میں آئندہ کی اچھی چیزوں کا عکس ہے اور ان چیزوں کی اصلی صورت نہیں ان ایک ہی طرح کی قربانیوں سے جو ہر سال بلاناغہ گزرانی جاتی ہیں پاس آنے والوں کو ہر گز کامل نہیں کر سکتی۔ورنہ ان کا گزراننا موقوف نہ ہو جاتا؟کیونکہ جب عبادت کرنے والے ایک بار پاک ہو جاتے ہیں تو پھر ان کا دل انہیں گنہگارنہ ٹھہراتا۔بلکہ وہ قربانیاں سال بہ سال گناہوں کو یاد دلاتی ہیں۔کیونکہ ممکن نہیں کہ بیلوں اور بکروں کا خون گناہوں کو دور کرے۔ اسی لئے وہ دُنیا میں آتے وقت کہتا ہے کہ تو نے قربانی اور نذر کو پسندنہ کیا۔ بلکہ میرے لئے ایک بدن تیار کیا۔ پوری سوختنی قربانیوں اور گناہ کی قربانیوں سے تو خُوش نہ ہوا۔ اس وقت میں نے کہا کہ دیکھ میں آیا ہوں۔ (کتاب کے ورقوں میں میری نسبت لکھا ہوا ہے) تاکہ اے خُدا! تیری مرضی پوری کروں۔ اوپر تو وہ فرماتا ہے کہ نہ تو نے قربانیوں اور نذروں اور پوری سوختنی قربانیوں اور گناہ کی قربانیوں کو پسند کیا اور نہ ان سے خُوش ہوا حالانکہ وہ قربانیاں شریعت کے موافق گذرانی جاتی ہیں۔ اور پھر یہ کہتا ہے کہ دیکھ میں آیا ہوں تاکہ تیری مرضی پوری کروں۔غرض وہ پہلے کو موقوف کرتا ہے تاکہ دوسرے کو قائم کرے۔‘‘
ابدی چُھٹکارہ
کیسے ہم یسوؔع پر ایمان لانے کے بعد روز مرّہ کے گناہ کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں؟
تصدیق کرنے کے وسیلہ سے کہ یسوؔع پہلے ہی اپنے بپتسمہ کے طُفیل سے تمام گناہ کونابود کرچُکا ہے
دوسرے لفظوں میں،شریعت ،یعنی قربانی کا نظام،آئندہ کی اچھی چیزوں کا عکس تھا۔ عہدِ عتیق کی قربانیوں یعنی بھیڑوں اوربکروں نے، ہم پر ظاہرکیا کہ یسوؔع مسیح آئے گا اور ہمارے تمام گناہوں کونیست کرنے کے سلسلے میں اُسی دستور کے مطابق ہمارے گناہ اُٹھائے گا۔
عہدِ عتیق کے تمام لوگ،داؤدؔ ،ابرہامؔ ،اور دوسرے سب لوگ جانتے اور ایمان رکھتے تھے کہ قربانی کے نظام کا اُنکے لئے کیا مطلب تھا۔اِس نے ظاہر کیا کہ مسیحا،مسیح( مسیح کامطلب ’ ممسوح بادشاہ ‘ہے) کسی روز اُن کے تمام گناہ دھونے کی خاطر آئے گا۔ اُنہوں نے اپنی مخلصی پر ایمان رکھا اوراپنے عقائدکے مطابق نجات پائی۔
شریعت آئندہ کی اچھی چیزوں کا عکس تھی۔اُن کے گناہو ں کی روز بروز، سالہاسال، کی قربانیاں اُنہیں ہرگز مکمل طور پر آزاد نہیں کر سکتی تھیں۔چنانچہ ، کامل اور ازلی ہستی ،وحدتِ بے عیب،یعنی ابنِ خُدا کو،رُوئے زمین پر آنا پڑا۔
یسوع نے فرمایا کہ وہ اپنے باپ کی مرضی کو پورا کرنےکے لئے آیا ہے ،جیسا کہ کتاب کے ورقوں میں لکھا ہے،جو اُسکی بابت لکھی گئی تھی۔’’ اور پھر یہ کہتا ہے کہ دیکھ میں آیا ہوں تاکہ تیری مرضی پوری کروں۔غرض وہ پہلے کو موقوف کرتا ہے تاکہ دوسرے کو قائم کرے۔‘‘ہم اپنے تمام گناہوں سے چُھوٹ گئے ہیں کیونکہ یسوؔع مسیح نے ہمارے گناہ دُور کردیئے،جیسا کہ عہدِ عتیق میں لکھا ہواہے ،اورچونکہ ہم اُس پر ایمان بھی رکھتے ہیں۔
آئیں ہم عبرانیوں۱۰:۱۰کا مطالعہ کریں۔’’اسی مرضی کے سبب سے ہم یسوؔع مسیح کے جسم کے ایک ہی قربان ہونے کے وسیلہ سے پاک کئے گئے ہیں۔‘‘ اُسی مرضی کے سبب سے ہم یسوؔع مسیح کے جسم کے آخری اور حتمی طور پر قربان ہونے کے وسیلہ سے پاک ہو چُکے ہیں۔کیا ہم پاک ہو چُکے ہیں یا نہیں؟–– ہم پاک ہو چُکے ہیں ۔––
اِس کا کیا معنی ہے؟ خُدائے باپ نے اپنے بیٹے کو بھیجا اورہمارے تمام گناہوں کو بپتسمہ کے ذریعہ سے اُس پر لاد دیا ۔اُس نےاِسے قبول کیا اورصلیب پر اُسے آخری اور حتمی طور پر سزا دی۔اِس طریقے سے، اُس نے ہم سب کوخلاصی بخشی جو گناہ کے باعث دُکھ اُٹھا رہے تھے۔ یہ خداوند خداٰ کی رضا تھی۔
ہمیں رہائی بخشنے کے سلسلے میں ،یسوؔع نے خود کو ،آخری اور حتمی طور پر ،بطور ابدی قربانی پیش کیا، تاکہ ہم پاک ہو سکیں۔ ہم پاک ہو چُکے ہیں کیونکہ یسوؔع نے خود ہمارے تما م گناہوں کو پاک کیا اور ہماری خاطر مر گیا تاکہ ہمیں سزا اُٹھانے کی ضرورت نہ رہے۔
عہدِ عتیق کی قربانی ہر روز گزرانی جاتی تھی کیونکہ تمام روز مرّہ کے گناہوں کودھونے کے لئے ایک اور قربانی کی ضرورت ہوتی تھی۔
یسوؔع کا پطرؔس کے پاؤں دھونے کا رُوحانی مطلب
کیا کوئی مزید گناہ ہے جس کی خاطر ہمیں یقیناً توبہ کی دعائیں مانگنی چاہئے؟
جی نہیں
یوحنا۱۳ باب میں،یسوؔع کے پطرؔس کے پاؤں دھونے کی کہانی پائی جاتی ہے۔ اُس نے پطرؔس کے
پاؤں اُسے یہ دکھانے کے سلسلے میں دھوئے کہ پطرؔس مستقبل میں بھی گناہ کرے گا اوراُسے یہ سکھانے کے لئے بھی کہ وہ پہلے ہی اُن تمام گناہوں کا فدیہ دے چُکا تھا۔ یسوؔع جانتا تھا کہ پطرؔس مستقبل میں دوبارہ گناہ کرے گا، لہٰذا، اُس نے برتن میں پانی ڈالا اور اُسکے پاؤں دھوئے۔
پطرؔس نے انکار کرنے کی کوشش کی،البتہ یسوؔع نے فرمایا،’’جو میں کرتا ہوں تو اب نہیں
جانتا مگر بعد میں سمجھے گا۔‘‘ اِس بنا پر اِس حوالہ کایہ مطلب ہے،’تو اِس کے بعد دوبارہ گناہ کرے گا۔ تو میرا انکار کرے گا اورتُو اِس کے بعد بھی کہ میں تمہارے تمام گناہ دھو ڈالوں دوبارہ گناہ کرے گا۔ یہاں تک کہ تو میرے آسمان پر اُٹھائے جانے کے بعد بھی گناہ کرے گا۔چنانچہ ، میں شیطان کو خبردار کرنے کے لئے تمہارے پاؤں دھوتا ہوں کہ تمہیں مت آزمائے کیونکہ میں پہلے ہی بِلا شک تمہارے مستقبل کے گناہوں کواُٹھاچُکا ہوں۔‘
کیا آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ اُس نے پطرؔس کے پاؤں ہمیں یہ بتانے کےسلسلے میں دھوئے کہ ہمیں ہر روز تو بہ کرنی ہو گی؟ جی نہیں۔ اگر ہمیں ہرروز خلاصی کے لئے توبہ کرنی پڑتی ،تواِس کامطلب ہو گا کہ یسوؔع ہمارے تمام گناہوں کوآخری اور حتمی طور پر نہیں اُٹھاچُکاتھا۔
مگریسوؔع نے فرمایاکہ اُس نے ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پاک کر دیا۔ اگر ہمیں ہر روز توبہ کرنی پڑے، تو ہم اِس بنا پر عہدِ عتیق کے دَور میں واپس چلے جائیں گے۔ پھر کون راستبازٹھہر سکتا تھا؟ کون کامل طور پر نجات حاصل کر سکتا تھا؟ یہاں تک کہ اگرہم خداوند خداٰ پر ایمان رکھتے، تو کون گناہ کے بغیر جی سکتا تھا؟
کون توبہ کے وسیلہ سے پاک بن سکتا ہے؟ ہم ہرروزبِلا توقف گناہ کرتے ہیں، اسلئے کیسے ہم ایک ایک گناہ کی معافی مانگ سکتے ہیں؟کیسے ہم اِس قدرڈھیٹ بن سکتے ہیں اوراپنےچُھٹکاروں کے لئے ہر روز اُسکے پیچھے پڑ سکتے ہیں؟ ہم دن کے اختتام پر اپنے صبح کے گناہوں کو ، اور شام کے گناہوں کو اگلی صبح تک بھولنے کا رجحان رکھتے ہیں ۔ ہمارا اپنے تمام گناہوں سے مکمل طور پر توبہ کرنا ناممکن ہے۔
چنانچہ، یسوؔع نے ایک ہی مرتبہ بپتسمہ لیااور اُس نے ایک ہی بار خود کو صلیب پر قربان کیا تاکہ ہم سب ایک ہی باربیک وقت پاک ہو سکیں۔ کیا آپ اِسے سمجھ سکتے ہیں؟ ہم اپنے تمام گناہوں سے ہمیشہ
ہمیشہ کے لئےرہا ہوگئے۔ہم ہر بارجب ہم توبہ کرتے ہیں رہا نہیں ہوتے۔
ہم ایمان لانے کے وسیلہ سےاپنے گناہوں سے نجات پا چُکے ہیں کہ یسوؔع نے ہمارےتمام گناہوں کو یعنی ،آپکے اور میرے گناہوں کو اُٹھا لیا۔
’’اور ہر ایک کاہن تو کھڑا ہو کر ہر روز عبادت کرتا ہے اور ایک ہی طرح کی قربانیاں بار بار گذرانتا ہے جو ہر گز گناہوں کو دور نہیں کر سکتیں۔لیکن یہ شخص ہمیشہ کے لئے گناہوں کے واسطے ایک ہی قربانی گذران کر خُدا کی دہنی طرف جا بیٹھا۔اور اسی وقت سے منتظرہے کہ اس کے دشمن اس کے پاؤں تلے کی چوکی بنیں۔کیونکہ اس نے ایک ہی قربانی چڑھانے سے ان کو ہمیشہ کے لئے کامل کر دیا ہے جو پاک کئے جاتے ہیں۔اور رُوح القدّس بھی ہم کو یہی بتاتا ہے کیونکہ یہ کہنے کے بعد کہ۔خُداوند فرماتا ہے جو عہد میں ان دنوں کے بعد ان سے باندھونگا وہ یہ ہے کہ میں اپنے قانون ان کے دلوں پر لکھوں گا اور ان کے ذہن میں ڈالوں گا۔ پھر وہ یہ کہتا ہے کہ ان کے گناہوں اور بے دینیوں کو پھر کبھی یاد نہ کروں گا۔اور جب ان کی معافی ہو گئی ہے تو پھر گناہ کی قربانی نہیں رہی۔‘‘ (عبرانیوں۱۰:۱۱-۱۸)۔
بالائی ۱۸ آیت میں،بھلا اِس کا کیا مطلب ہے؟’’جب ان کی معافی ہو گئی ہے۔‘‘ اِس کا مطلب ہے کہ خود گناہ کا،یعنی ہر گناہ کا مطلق،بلا مستثنیٰ ،ابد تک کفارہ ہو گیا۔ خداوند خداٰ اُنہیں نابُودکر چُکا ہے اور ہم سب کومعاف کر چُکا ہے۔ کیا آپ اِس پر ایمان لاتے ہیں۔’’اور جب ان کی معافی ہو گئی ہے تو پھر گناہ کی قربانی نہیں رہی۔‘‘
آئیں ہم یہاں تک ہر چیز کا خلاصہ کریں۔ دوسرے لفظوں میں،اگریوؔحنا اِصطباغی یسوؔع پر اپنے ہاتھ نہ رکھتا، اگر اُس نے یسوؔع کو بپتسمہ نہ دیا ہوتا، تو کیا ہم نجات حاصل کرسکتے تھے؟ نہیں،بالکل بھی نہیں! آئیں ہم اُلٹ سوچیں۔ اگر یسوؔع یوؔحنا اِصطباغی کو تمام بنی نوع انسان کے نمائندہ کے طور پر نہ چنُتا
اور اسکے ذریعہ سے تمام گناہ نہ اُٹھاتا،تو کیا وہ ہمارے تمام گناہ دھو سکتا تھا ؟ وہ نہیں دھو سکتا تھا۔
خداوند خداٰ کی شریعت راست ہے ۔یہ بِلا رُو رعایت ہے ۔وہ ایسے ہی نہیں کہہ سکتاتھا کہ وہ ہمارا نجات دہندہ تھا اور اُس نے ہمارے تمام گناہ اُٹھالئے۔ اُسے عملی طور پر ہمارے گناہ اُٹھانےپڑے۔ کیوں یسوؔع ،خداوند خداٰ، ہمارے پاس جسم میں آیا؟ وہ اپنے بپتسمہ کے وسیلہ سے بنی نوع انسان کے تمام گناہ اُٹھانے کے سلسلے میں آیا۔یسوؔع جانتا تھاکہ ہمارے دلوں اور جسم سے تمام گناہ نہیں مٹ سکتے تھے،جب تک وہ جسم میں ابدی قربانی کے طور پرقربان ہونے کےواسطے نہ آتا۔ اگر یسوؔع بپتسمہ نہ لیتا، تو ہمارے گناہ ابھی تک قائم رہتے ۔اگروہ پہلے ہمارے گناہوں کواُٹھائے بغیر مصلوب ہو جاتا، تو اُسکی موت بے معنی ہوتی۔ اُسکا ہمارے ساتھ کچھ سروکا ر نہ ہوتا۔یہ مکمل طور پر بے معنی ہوتی۔
لہٰذا، جب اُس نے ۳۰ برس کی عمر سے اپنی خدمتِ عامہ کا آغازکیا، تو وہ دریائے یردؔن پریوؔحنا اِصطباغی سے بپتسمہ لینے کو گیا ۔ اسکی خدمتِ عامہ کا آغاز۳۰ برس کی عمر سے ہوا اور۳۳ برس کی عمر پر ختم ہو گئی۔جب وہ ۳۰ برس کا تھا،تو وہ یوؔحنا اِصطباغی کے پاس بپتسمہ لینے کے لئے گیا ۔’’اب تو ہونے ہی دے کیونکہ ہمیں اسی طرح ساری راستبازی پوری کرنا مناسب ہے تاکہ تمام لوگ بچ سکیں اور راستباز بن سکیں۔یہ کارِ ہم میں مناسب کام ہے۔ ابھی، مجھے بپتسمہ دے۔‘‘ جی ہاں، یسوؔع مسیح نے
تمام لوگوں کی نجات کے لئے بپتسمہ لیا۔
چونکہ یسوؔع نے بپتسمہ لیا اور ہمارےتمام گناہ اُٹھالئے، اور کیونکہ ہمارے تمام گناہ یوؔحنا اِصطباغی کے ہاتھ رکھنے کے سبب سے اُس پرسلسلہ وارمنتقل ہو گئے،اسلئے خود خداوند خداٰ نے اپنی آنکھیں اُس سے پھیر لیں جب یسوع صلیب پر مر رہا تھا۔حتیٰ کہ گویسوؔع اُسکا اکلوتا بیٹا تھا، تو بھی اُسے اپنے بیٹے کو قربان کرنا پڑا۔
خداوند خداٰ محبت ہے،البتہ اُسے اپنے بیٹے کو مرنے کی اجاز ت دینی پڑی۔اِس کے بعد، تین گھنٹے تک، تمام سرزمین پر اندھیرا چھا یا رہا۔ یسوؔع مرنے سے ذرا سا پہلے چلایا،’’ایلی ایلی لماشبقتنی؟‘‘ جس کا مطلب ہے،’’ اے میرے خُدا! اے میرے خُدا!تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟‘‘ یسوؔع نے ہمارے تمام گناہوں کو کندھا دیا اور صلیب پر ہماری خاطرنیابتہً سزا برداشت کی۔ اِس طرح، اُس نے ہم سب کو بچا لیا۔ یسوؔع کے بپتسمہ کے بغیر ،اُسکی موت بے معنی ہوتی ۔
کیا آپ گناہ گار یا راستباز شخص ہیں؟
ایک راستباز شخص وہ ہےجو اپنے باطن میں کوئی گناہ نہیں رکھتا
اگر یسوؔع اپنے بپتسمہ کے وسیلہ سے ہمارے تمام گناہ اُٹھانے کے بغیر صلیب پر مر جاتا ،تو اُسکی موت نجات کی تکمیل نہ کر پاتی۔ ہمیں کامل طور پررہائی بخشنے کے سلسلے میں ،یسوؔع نے یوؔحنا ،تمام بنی نوع انسان کے نمائندہ سے بپتسمہ لیا،اور صلیب پر سزا برداشت کی تاکہ وہ سب لوگ جو اُس پر ایمان لائیں نجات حاصل کرسکیں۔
چنانچہ،یوؔحنا اِصطباغی کے دنوں سے اب تک ،آسمان کی بادشاہی پر زور ہوتا رہا ہے ۔ کیونکہ یوؔحنا اِصطباغی نےدُنیا کے تمام گناہ یسوؔع پر سلسلہ وار منتقل کردیئےتھے،ہمارے گناہوں کا کفارہ ہو چُکا ہے ۔
لہٰذا اب میں اور آپ خداوند خداٰ کو اپنا باپ کہہ کر پکارسکتے ہیں اور دلیر ی سے آسمان کی بادشاہی
میں داخل ہوسکتے ہیں۔
عبرانیوں ۱۰:۱۸میں ہے،”اور جب ان کی معافی ہو گئی ہے تو پھر گناہ کی قربانی نہیں رہی۔“کیا آپ اب بھی گناہ گار ہیں؟ اب یعنی یسوؔع پہلے ہی آپکے تمام قرضےاداکرچُکاہے،تو کیا آپ کو ابھی بھی قرضےادا کرنے کی ضرورت ہے؟
ایک آدمی تھا جسکو بہت زیادہ شراب نوشی نے بہت سے قرض خواہوں کا مقروض کر دیا ۔ پھر، ایک روز، اسکے بیٹے نے تقدیر سنوار دی اور اپنے باپ کے تمام قرضے ادا کردئیے۔ اسکے باپ پر مزید کوئی قرضہ نہ رہا کوئی معنی نہیں رکھتاوہ ہر بیتِ عامہ کا کتنامقروض رہ چُکا تھا۔
یہ اِس بنا پر ہے کہ یسوؔع نے ہماری خاطر کیا کیا۔ اُس نے ہمارے گناہوں کے لئے پیشگی میں ضرورت سے زیادہدام چُکا دیا۔ فقط ہمارے دائرہِ زندگی کے گناہوں کا ہی نہیں ، بلکہ دُنیا کے تمامتر گناہوں کا دام چُکا دیا۔جب اُس نے بپتسمہ لیا تووہ سب یسوؔع پر منتقل ہو گئےتھے۔تو کیا آپ اب بھی گناہ گار ہی
ہیں؟ نہیں، آپ گناہ گار نہیں ہیں ۔
اگر ہم نے شروع سے اُس مخلصی کی خُوشخبری کو جانا ہوتا، تواِس بنا پر ہمارے لئے یسوؔع پر ایمان رکھنا کتنا آسان ہوتا۔البتہ موجودہ حالات میں، یہ اِس قدر نئی معلوم ہوتی ہے کہ بہت سے لوگ اِس کے متعلق حیران ہوتے ہیں۔
مگریہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔یہ انسانی تاریخ کے ارتقا سے موجود ہے۔ ہم فقط اِسے پہلے نہیں جانتے تھے۔ پانی اور رُوح کی خُوشخبری ہمیشہ ہی پاک نوشتوں میں درج رہی ہے اور ہمیشہ ہی پُر اثر رہی ہے۔ یہ ہر صورت میں موجودرہی ہے ۔ یہاں یہ میرے اور آپکے پیدا ہونے سے پیشترکتابِ مقدّس میں موجود تھی۔ یہ رُوئے زمین کی تخلیق سے یہیں موجود ہے۔
ابدی چُھٹکارے کی خُوشخبری
ہمیں خداوند خداٰ کے آگے کیا کرناچاہئے؟
ہمیں یقیناً ابدی چُھٹکارے کی خُوشخبری پر ایمان لانا چاہئے۔
یسوؔع مسیح ، جس نے ہمارے تمام گناہ دھو ڈالے، اُس نے بِلا شک میرے اور آپکے پیدا ہونے سے پہلے ایسا کردیا۔ اُس نے اُن سب کو منہاکر دیا۔کیا آپ اب بھی گناہ کےہمراہ ہیں؟ –– ہرگز نہیں––پھر اُن گناہوں کے متعلق کیا خیال ہے جو آپ کل کریں گے؟وہ بھی دُنیا کے گناہوں میں شامل ہیں۔
آئیں ہم ابھی کل کے گناہوں کو اُتار دیں۔وہ گناہ جو ہم اب تک کر چُکے ہیں وہ بھی دُنیا کے گناہوں میں شامل تھے، کیا وہ شامل نہیں تھے؟کیا وہ یسوؔع پر منتقل ہوگئے یا نہیں۔جی ہاں، وہ منتقل ہوگئے۔
اِس صورت میں ،کیاکل کے گناہ بھی یسوؔع پر سلسلہ وار منتقل ہوگئے تھے؟جی ہاں، اُس نے بِلامستثنیٰ، اُن سب کو اُٹھالیا۔بِلا شُبہ اُس نے ایک بھی گناہ پیچھے نہیں چھوڑا۔ انجیلِ مقدّس ہمیں بتاتی ہے کہ ہم پورے دل سے ایمان رکھیں کہ یسوؔع نے ہمارے تمام گناہ،سرتاسر ایک ہی ساتھ، اُٹھا لئے، اور اُن
سب کا دام چُکا دیا۔
’’یسوؔع مسیح ابنِ خُداکی خُوشخبری کا شروع۔‘‘(مرقس ۱:۱)۔عالمِ بالا کی خُوشخبری خُوشی کی نوید ہے۔ وہ ہم سے پوچھتا ہے،’’میں نے تمہارے تمام گناہ اُٹھالئے۔ میں تمہارا نجات دہندہ ہوں۔کیا تم مجھ پر ایمان لاتے ہو؟‘‘ لوگوں کی اَن گنت تعداد کے درمیان ،فقط چند ایک جواب دے چُکے ہیں،’’جی ہاں،میں ایمان رکھتا ہوں۔میں ایمان رکھتا ہوں بالکل جیساآپ نےہم سے فرما یا ہے۔ یہ اتنی آسان تھی کہ میں اِسے فوراًسمجھنے کے قابل تھا۔‘‘ وہ لوگ جواِس طرح اپنے عقیدوں کااقرار کرتے ہیں بالکل ابرہامؔ کی مانند راستباز بن جاتے ہیں۔
لیکن دوسرے لوگ کہتے ہیں،’’میں اِس پر ایمان نہیں رکھ سکتا۔یہ مجھے بالکل نئی اوراچرج معلوم ہوتی ہے۔‘‘
اِس کے بعد، وہ پوچھتا ہے،’’ذرا مجھے یہ بتاؤ کیا میں نے تمہارے تمام گناہ اُٹھائے تھے یا نہیں؟‘‘
’’میں نے تعلیم پائی ہے کہ آپ نے فقط موروثی گناہ کواُٹھایا تھا ،البتہ میرے روز مرّہ کے گناہوں کونہیں۔‘‘
’’میں سمجھتا ہوں کہ تم ایمان رکھنے میں بہت شاطر ہوجیسا کہ تمہیں سکھایا گیا ہے۔ تمہیں یقیناًجہنم میں جانا چاہئےکیونکہ میرے پاس تجھ سے کہنے کے لئےکچھ نہیں ہے۔‘‘
اُسکی مکمل نجات پر ایمان رکھناہی ہمیں بچاچُکا ہے۔ وہ تمام لوگ جو اصرار کرتے ہیں کہ وہ گناہ رکھتے ہیں اُنہیں یقیناً جہنم میں جانا چاہئے۔ وہ اپنا انتخاب خودکرتےہیں۔
نجات کی خُوشخبری کا آغازیوؔحنا اِصطباغی کی گواہی سے ہوتا ہے۔چونکہ یسوؔع نےیوؔحنا اِصطباغی کی وساطت سےاپنے بپتسمہ کی بدولت ہمارےتمام گناہوں کو دھو ڈالا،جب ہم ایمان لاتے ہیں تو ہم پاک بن جاتے ہیں۔
پولُسؔ رسول نے اپنے خطوط میں یسوع ؔ کے بپتسمہ کا بہت زیادہ ذکر کیا۔ گلیتوں ۳:۲۷میں لکھا ہے،’’اور تم سب جتنوں نے مسیح میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا مسیح کوپہن لیا۔‘‘ ’مسیح میں شامل ہونے کے بپتسمہ‘ کا مطلب ہے کہ ہم اُس کے بپتسمہ پر ایمان لانے کے وسیلہ سے مسیح کے ساتھ ایک ہیں۔جب یسوؔع نے بپتسمہ لیا،تو ہمارے گناہیوؔحنا اِصطباغی کے ذریعہ سے اُس پر منتقل ہو گئے، اوروہ مکمل طور پر دُھل گئے۔
۱۔پطرس۳: ۲۱ میں لکھا ہے، ”اور اُسی پانی کامشابہ بھی یعنی بپتسمہ یسوؔع مسیح کے جی اُٹھنے کے
وسیلہ سے اب تمہیں بچاتا ہے ۔اس سے جسم کی نجاست کا دور کرنا مراد نہیں بلکہ خالص نیت سے خُدا کا طالب ہونا مراد ہے۔“
صرف وہ لوگ جویوؔحنا اِصطباغی کی گواہی پر،یعنی یسوؔع کے بپتسمہ اور صلیبی خون پر ایمان لاتے ہیں عالمِ بالا سے مخلصی کا فضل حاصل کرتے ہیں۔
اپنے باطن میں یسوؔع کے بپتسمہ کو نجات کے مشابہ کے طور پر قبول کریں اور نجات یافتہ ہوجائیں ۔