<اعمال۴:۱۔۸>
”اور اُن سے مل کر اُن کو حکم دیا کہ یروشلیمؔ سے باہر نہ جاؤ بلکہ باپ کے اُ س وعدے کے پور ا ہونے کے منتظر رہو جس کا ذکر تم مجھ سے سُن چکے ہو۔ کیونکہ یوحنا ؔ نے تو پانی سے بپتسمہ دیا مگر تم تھوڑے دنوں کے بعد رُوح القدس سے بپتسمہ پاؤ گے۔ پس اُنھوں نے جمع ہو کر اُس سے یہ پوچھا کہ اَ ے خُداوند! کیا تُو اِسی وقت اسرائیل کو بادشاہی پھر عطا کرے گا؟۔ اُس نے اُن سے کہا اُن وقتوں اور معیادوں کا جاننا جنھیں باپ نے اپنے ہی اختیار میں رکھا ہے تمہارا کام نہیں۔ لیکن جب رُوح القدس تم پر نازل ہوگا تو تم قوت پاؤ گے اور یروشلیمؔ اور تمام یہودیہ ؔ اور سامریہؔ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہوگے۔“
کیا رُوح القدس کی سکونت خُدا کی نعمت ہے یا کیا یہ کسی کو اپنی ذاتی کوششوں کی وجہ سے بخشی جاتی ہے؟
یہ اُس شخص کو بخشی گئی ایک نعمت ہے جو اپنے گناہوں کی معافی حاصل کرتا ہے، اور خُدا کے وعدے کی تکمیل کے مطلب پرمشتمل ہے۔
ایک دفعہ میں نے دُعا کے وسیلہ سے رُوح القدس کی مانند کسی چیز کے شعلوں کو حاصل کرنے کا تجربہ کِیا۔ لیکن یہ شعلے زیادہ دیر تک باقی نہ رہے، اور جلد ہی گناہ کے ڈھیر کے سامنے بجھ گئے ۔ تاہم ، اب
میں آپ کو رُوح القدس کے بارے میں سچ دکھانا چاہتا ہُوں، جو ہم میں ابدیت کے لئے سکونت کرے گا، جھوٹی رُوح کے وسیلہ سے نہیں جو آسانی سے گناہ کی وجہ سے بُجھ جاتا ہے، بلکہ سچی خوشخبری کے وسیلہ سے۔ رُوح القدس جو میں اِس پیغام کے وسیلہ سے اب آپ سے متعارف کرواؤں گا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو آپ دُعاؤں کے وسیلہ سے نہیں، بلکہ صِرف پانی اور رُوح کی خوشخبری پر ایمان کے وسیلہ سے حاصل کر سکتے ہیں۔
میں اِس کتاب کے وسیلہ سے آپ کی 1رُوح القدس کی معموری حاصل کرنے کے لئے راہنمائی کرنا چاہتا ہُوں۔ آپ احساس کریں گے کہ رُوح القدس اِس پیغام کی حوصلہ افزائی کرتا ہےجو میں آپ تک پہنچا رہا ہُوں۔ اِس وقت ہمارے لئے رُوح القدس کی معموری کو حاصل کرنایہ خُدا کی حتمی خواہش ہے۔ آپ رُوح القدس کی سکونت کے بارے میں سیکھ سکتے ہیں اور اِس واحد کتاب کے وسیلہ سے اِسے حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر یہ کتاب آپ کے لئے کافی نہیں ہے، میں آپ کو میری شائع کی گئی پچھلی دو کتابوں کو پڑھنے کی نصیحت کرتا ہُوں۔ آپ اِن کتابوں کے وسیلہ سے خُدا کے سامنے کامل ایمان حاصل کریں گے۔
1روح القدس نئے سرے سے پیدا ہوؤں کے دلوں میں سکونت کرتاہے، وہ جو پانی اور رُوح کی خوشخبری پر ایمان رکھنے کے وسیلے اپنے تمام گناہوں سے معا ف ہو چکے ہیں۔ وہ ایک ہی بار راستباز کے اندر آتا ہے، وہ اُن میں ہمیشہ رہتا ہے، اور جب تک وہ خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں انہیں کبھی نہیں چھوڑتا۔ وہ راستباز کو سزا دیتا ہے، انہیں با ئبل میں خدا کی مرضی جاننے کے لئے، اس دنیا میں موجودمشکلات آزمائشوں پر قابو پانے کے لئے مضبوط بناتا ہے، اور انہیں روح کے پھل کثرت سے برداشت کرنے کی اجازت دیتا ہے۔خُدا راستباز کے بدن کی تعریف کرتا ہے خُدا کے مندر کے طور پر جسمیں رُوح القدس سکونت کرتا ہے۔( اعمال ۲:۳۸۔۳۹، یوحنا۱۴ :۱۶، ۱۶:۸۔۱۰، ۱ کرنتھیوں ۳:۱۶،۶:۱۹، گلتیوں ۵:۲۲۔۲۳)
|
بہت سارے مسیحی رُوح القدس کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس طرح آیا وہ پینتیکُست کے دن پر یسوعؔ کے شاگردوں پر نازل ہُوا تھا۔ بعض لوگ اِس طریقہ کو سرانجام دینے کے وسیلہ سے پیسوں کے بڑے بڑے ڈھیر کما چکے ہیں۔ وہ بہانہ کرتے ہیں کہ رُوح القدس کچھ ایسی چیز ہے جو انسانی کوشش کے وسیلہ سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ وہ رویا، معجزات کرنا، یسوعؔ کی آوازکو سُننا، غیر زبانوں میں بولنا، بیماریوں کو شفا دینا اور بدروحوں کو نکالنا چاہتے ہیں۔ تاہم، وہ اپنے دلوں میں گناہ رکھتے ہیں، اور بُری رُوحوں کے اثر کے ماتحت ہیں (اِفسیوں۲:۱ ۔۲)۔ حتیٰ کہ اب بہت سارے لوگ جانے بغیر زندہ رہنا جاری رکھتے ہیں کہ وہ بُری رُوحوں کی طاقت کے ماتحت ہیں۔ یہی وجہ ہے شیطان تمام اقسام کے طریقے استعمال کر کے مثلاً کرشمات اور معجزات، جو واقعی محض فریب ہیں لو گوں کو لبھاتا اور دھوکا دیتا ہے۔
یسوع ؔ نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا ”یروشلیم ؔسے باہر نہ جاؤ بلکہ باپ کے اُ س وعدے کے پورا ہونے کے منتظر رہو“ (اعمال۱:۴)۔ اعمال میں ظاہر کیے گئے رُوح القدس کو حاصل کرنا ”تجربے“ ”خلوص“ یا ”توبہ کی دُعاؤں“ کے وسیلہ سے نہیں ہے بلکہ اُنھیں رُوح القدس دینا ”خُدا کے وعدے کے لئے منتظر رہنے“ کے وسیلہ سے ہے۔ ہمیں اِس حوالے سے کیا سیکھنا چاہیے یہ ہے کہ رُوح القدس کی سکونت آدمیوں کی زبردستی کی دُعاؤ ں کے وسیلہ سے واقع نہیں ہوتی۔ یہ خُد اکی بخشش ہے، جو صِرف پانی اور رُوح کی خوبصورت خوشخبری پر مکمل ایمان کے وسیلہ سے حاصل کی جا سکتی ہے، جو خُد اباپ اور یسوعؔ مسیح نے بنی نوع انسان کو دی۔ رُوح القدس کی سچی سکونت خوشخبری پر ایمان کے وسیلہ سے واقع ہوتی ہے جو یسوعؔ مسیح نے ہمیں دی۔ خُدا نے ہمیں پانی اور رُوح کی سچائی دی تاکہ ہم رُوح القدس کی سکونت کو حاصل کر سکیں (۱۔یوحنا ۳:۳۔۵)۔
نئے عہد نامہ میں جملہ ” رُوح القدس کا وعدہ“ بہت مرتبہ ظاہر ہوتا ہے۔ پطرس پنتیکُست کے روز رُوح القدس کے بپتسمہ پر اپنے واعظ میں (اعمال۲:۳۸۔۳۹) کہتا ہے، ”یہ خُدا کا وعدہ ہے کہ اُن کو رُوح القدس دے جو خوبصورت خوشخبری پر ایمان رکھنے کے نتیجہ کے طور پر گناہوں کی معافی حاصل کرتے ہیں“۔
رُوح القدس کی معموری اُن کو دی گئی ایک نعمت ہے جو اپنے گناہوں کی معافی حاصل کرتے ہیں، اور خُدا کے وعدے کی تکمیل کے مطلب پر مشتمل ہے۔ نئے عہد نامہ میں رُوح القدس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو خُدا اور آدمیوں کے درمیان سودے بازی کے وسیلہ سے حاصل کی جا سکتی ہے، بلکہ خُد اکی طرف سے ایک وعدہ کی نعمت ہے۔ اِس لئے، رُوح القدس کی سکونت، جس طرح اعمال میں ظاہر کی گئی، کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو دُعاکے وسیلہ سے حاصل کی جا سکتی ہے (اعمال ۸:۱۹۔۲۰)۔
رُوح القدس صِرف اُن پر نازل ہوتا ہے جو پانی اور رُوح کی خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں جو یسوعؔ نے ہمیں دی۔ یسوعؔ نے اپنے شاگردوں سے رُوح القدس کو بھیجنے کا وعدہ کِیا تاکہ وہ رُوح القدس کی معموری کو رکھ سکیں۔ ” کیونکہ یوحناؔ نے پانی سے بپتسمہ دیا مگر تم تھوڑے دنوں کے بعد رُوح القدس سے بپتسمہ پاؤ گے۔“ (اعمال۱:۵)۔ پس اُس کے شاگردوں نے خُداکے وعدے کے پورا ہونے کا انتظار کِیا۔
کتابِ مقدس میں اُن کے عقائد پر نظر کرنے کے وسیلہ سے جنھوں نے رُوح القدس کی معموری حاصل کی، ہم احساس کرتے ہیں کہ یہ اُن کی کوششوں کے وسیلہ سے نہیں بلکہ خُدا کی مرضی کے وسیلہ سے واقع ہُوئی تھی۔ رُوح القدس کی معموری جو اعمال میں شاگردوں پر نازل ہوئی انسانی کوشش
یا رُوحانی حاصل کی بنیاد پر واقع نہیں ہوئی تھی۔
اُس کے شاگردوں پر رُوح القدس کا نازل ہونا، جس طرح یہ اعمال میں لکھا ہُوا تھا، جلد ہی سچ ہو
گیا۔ یہ بالکل اُسی طرح تھا جس طرح یسوعؔ کہہ چکا تھا، ” تھوڑے دنوں کے بعد ۔“یہ اِبتدائی کلیسیا کے وقت سب سے پہلی برکت تھی۔ صحائف پر نظر کرنے کے وسیلہ سے، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خُدا کا وعدہ روزہ، دعا، یا ذاتی قربانی کے وسیلہ سے نہیں، بلکہ یسوعؔ پر ایما ن کے وسیلہ سے پورا ہُوا تھا۔ یسوعؔ کے آسمان پر جانے کے بعد، ایمانداروں نے گناہوں کی معافی اور اُسی دوران رُوح القدس کی معموری حاصل کی۔
رُوح القدس یسوعؔ کے شاگردوں پر آسمان سے یکایک نازل ہُوا !
”جب عید پنتکُست کا دن آیا تو وہ سب ایک جگہ جمع تھے۔“ (اعمال۲:۱)۔ یسوعؔ کے شاگرد باہم جمع ہوئے جونہی اُنھوں نے اُن پر رُوح القدس کو بھیجنے کے لئے خُدا کے وعدے کے پورے ہونے کاانتظار کِیا۔ اور رُوح القدس آخر کار اُن پر نازل ہُوا۔
”کہ یکا یک آسمان سے اَیسی آواز آئی جیسے زور کی آندھی کا سناٹا ہوتا ہے اور اُس سے سارا گھر جہاں وہ بیٹھے تھے گونج اُٹھا۔ اور اُنہیں آگ کے شُعلہ کی سی پھٹتی ہوئی زبانیں دکھائی دیں اور اُن میں سے ہر ایک پر آ ٹھہریں۔ اور وہ سب رُوح القدس سے بھر گئے اور غیر زبانیں بولنے لگے جس طرح رُوح نے اُنہیں بولنے کی طاقت بخشی۔“ (اعمال ۲:۲۔۴)۔
رُوح القد س اُن پر ”آسمان سے یکایک“ نازل ہُوا۔ یہاں لفظ ”یکایک“ کا مطلب ہے کہ یہ انسانی مرضی کے وسیلہ سے نہیں کِیا گیا تھا۔ مزید برآں، محاورہ ”آسمان سے“ وضاحت کرتا ہے رُوح القدس کہاں سے نازل ہُوا، اور اِس خیال کو بھی بیان کرتا ہے کہ رُوح القدس کی معموری انسانی مرضی یا کوشش کے وسیلہ سے حاصل نہیں کی جا سکتی ہے۔ محاورہ ”آسمان سے“ ظاہر کرتا ہے کہ کہنا رُوح القدس دُعاؤں کے وسیلہ سے حاصل کِیا جا سکتا ہے ایک فریبی دعوہٰ ہے۔
دوسرے لفظوں میں، کہنا کہ رُوح القدس یکایک آسمان سے نازل ہُوا کا مطلب ہے کہ رُوح القدس کی معموری زمینی طریقوں کے وسیلہ سے، مثلاً غیر زبانوں میں بولنے یا ذاتی قربانی سے واقع نہیں ہوتی ہے۔ یسوعؔ کے شاگرد پہلے ہر قوم کے لوگوں کے سامنے خوبصورت خوشخبری کی منادی کرنے کے لئے غیر زبانوں میں بولے۔ اِس کی وجہ رُوح القدس کی مدد کے وسیلہ سے غیر ملکی زبان بولنے والے یہودیوں کے سامنے اُن کی ذاتی زبان میں خوشخبری کی منادی کرنے کے لئے انہیں اجازت دینا تھی۔ ہر قوم کے لوگوں نے شاگردوں کی بولنے والی زبانوں کو اپنی ذاتی زبان میں سُنا، حتیٰ کہ گو زیادہ تر شاگرد گلیلؔ کے تھے۔
”اور اُنہیں آگ کے شُعلہ کی سی پھٹتی ہوئی زبانیں دکھائی دیں اور اُن میں سے ہر ایک پر آ ٹھہریں۔ اور وہ سب رُوح القدس سے بھر گئے اور غیر زبانیں بولنے لگے جس طرح رُوح نے اُنہیں بولنے کی طاقت بخشی۔“ (اعمال۲:۳ ۔۴)۔ یہاں ہمیں محاورہ، رُوح القدس ”اُن میں سے ہر ایک پر ٹھہرا“ پر خاص توجہ دینی چاہیے۔ شاگرد،جو رُوح القدس کے نازل ہونے کے لئے ایک جگہ پر انتظار کر رہے تھے، پہلے ہی پانی اور رُوح کی نئے سِرے سے پیدا ہونے کی خوشخبری پر ایمان رکھتے تھے۔
آج کل بہت سارے مسیحی اِس حوالے کا یہ حصہ،یہ ایمان رکھتے ہوئے، غلط سمجھتے ہیں کہ جب وہ دُعا مانگ رہے ہیں رُوح القدس کا نازل ہونا آندھی کے چلنے کی مانند ایک آواز کے ساتھ واقع ہوتا ہے۔ تاہم، یہ رُوح القدس کے بارے میں ایک غلط فہمی ہے جو جہالت اور پریشانی سے پیدا ہوتی ہے ۔ کیا رُوح
القدس ایسی آوازیں پیدا کرتا ہے جب وہ لوگوں پر نازل ہوتا ہے؟ نہیں، وہ نہیں کرتا۔
اپنے کانوں کے ساتھ لوگ جو سنتے ہیں وہ آوازیں ہیں جو شیطان پیدا کرتا ہے جب وہ لوگوں کی جانوں کونگل جاتا ہے۔ وہ یہ آوازیں پیدا کرتا ہے جب وہ فریبوں، نقالی آوازوں اور جھوٹے معجزات کے ساتھ رُوح القدس ہونے کا بہانہ کرنے کے وسیلہ سے لوگوں کو پریشانی میں ڈالنے کی کوشش میں کام کرتا ہے۔ لوگ اِن چیزوں کو رُوح القدس کے نازل ہونے کے ثبوت کے لئے غلط سمجھتے ہیں۔ لوگ یہ بھی سوچتے ہیں کہ رُوح القدس ”سُوہا~“ کی آواز کے ساتھ یعنی تیز آندھی کی مانند نازل ہوتا ہے۔ وہ بدرُوحوں سے دھوکا کھا رہے ہیں۔ رُوح القدس کا نازل ہونا جس طرح اعمال میں بیا ن کِیا گیا صرف خوبصورت خوشخبری پر ایمان کے وسیلہ سے حاصل ہُوا تھا۔
پطرس ؔ کا ایمان (۱۔پطرس۳:۲۱) اُسے رُوح القدس کی معموری کو حاصل کرنے کی اجازت دینے کے واسطے بالکل کامل تھا
اعمال ۲ میں پہلی پنتیکُست کے واقعات کو اُبھارنے کے وسیلہ سے، خُد ا سچائی پر زور دینا چاہتا ہے کہ رُوح القدس اُن پر نا زل ہُواچونکہ وہ پہلے ہی پانی اور رُوح کی خوشخبری پر ایمان رکھتے تھے۔ لیکن عموماً لوگ” پنتیکُست “کو اُس وقت کے طور پر خیال کرتے ہیں جب رُوح القدس آسمان سے بعض فوق الفطرت نشانات اور ہنگامہ خیز شور کے ساتھ نازل ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے آج کل بیداری کی عبادتوں میں، یہ ایمان رکھا جاتا ہے کہ کوئی شخص دُعاؤں، روزوں، یا ہاتھوں کے رکھے جانے کے وسیلہ سے رُوح القدس کو حاصل کر سکتا ہے۔ واقعات مثلاً بدرُوحوں سے جکڑے جانا، بے ہوش ہوکر گرنا،کچھ دنوں کے لئے وجد میں آ جانا، یا بے قابو ہو کر کانپنا رُوح القدس کے کام نہیں ہیں۔
رُوح القدس ایک عقلمند شخصیت ہے اور انسان کی شخصیت کو بے عزت نہیں کرتا ہے۔ وہ انسان سے گستاخی کے ساتھ پیش نہیں آتا کیونکہ وہ خُدا کی شخصیت ہے جو ذہانت، جذبہ اور مرضی رکھتا ہے۔ وہ لوگوں پر نازل ہوتا ہے صرف جب وہ پانی اور رُوح کی خوشخبری کے کلام پر ایمان رکھتے ہیں (اعمال۲:۳۸)۔
پطرس ؔ نے گواہی دی کہ رُوح القدس شاگردوں پر نازل ہُوا جس طرح یوایل ؔ نبی کی پیشنگوئی تھی۔ یہ خُد اکے وعدے کی تکمیل تھی، جس نے کہا کہ رُوح القدس صرف اُن پر نازل ہوگا جو اپنے گناہوں کی معافی حاصل کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، رُوح القدس کی معموری اُن کو دی جاتی ہے جو سچائی پر ایمان رکھتے ہیں کہ یسوعؔ نے یوحناؔ کی معرفت بپتسمہ لیا اور تمام بنی نوع انسان کو اُن کے گناہوں سے بچانے کے سلسلے میں مصلوب ہُوا۔ پطرس ؔ کا واعظ، یوایلؔ نبی کی پیشنگوئی کے ساتھ ساتھ، ہمیں دکھاتا ہے کہ ہمیں جاننے کی ضرورت ہے کیوں یسوعؔ نے بپتسمہ لیا اور کیوں ہمیں اِس پر ایمان رکھنا ہے۔ اِس سچائی کو جاننا رُوح القدس کو حاصل کرنے کے لئے مسیحیوں کی راہنمائی کرتا ہے۔
کیا آپ خوبصورت خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں جس کی پطرسؔ گواہی دیتا ہے؟ (۱۔پطرس۳:۲۱)یا کیا آپ اب تک خوبصورت خوشخبری کے لئے غیر ضروری بے فائدہ اور شکی عقائد رکھتے ہیں؟۔ کیا آپ خُدا کے منصوبوں کے علاوہ اپنے ذاتی کام کے وسیلہ سے رُوح القدس کوحاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ حتیٰ کہ اگر کوئی خُدا پر ایمان رکھتا ہے اور اپنے گناہوں کے دھوئے جانے کی اُمید پر توبہ کی دُعائیں پیش کرتا ہے، رُوح القدس کی معموری کو حاصل کرنے کے لئے پانی اور رُوح کی خوشخبری پر ایمان رکھنے کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ موجود نہیں ہے۔
کیا آپ اب تک، پانی اور رُوح کی خوشخبری کا کوئی علم نہ رکھنے کے باوجود،رُوح القدس کی معموری کاانتظار کر رہے ہیں؟ کیا آپ یسوعؔ کے بپتسمہ اور صلیب پر اُس کے خون کے سچے مطلب کو جانتے ہیں، جو آپ کے دل میں رُوح القدس کی سکونت کا سبب بنتا ہے؟ آپ کو جاننا چاہیے کہ رُوح القدس کی معموری ممکن ہے صرف جب آپ پانی اور رُوح کی خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں۔ رُوح القدس کی سچی معموری کی صرف اُن کو اجازت دی جا سکتی ہےجو پانی اور رُوح کی خوبصورت خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہم ہمیں خُدا کااپنی پانی اور رُوح کی خوشخبری دینے کے لئے شکر ادا کرتے ہیں، جو ہمیں رُوح القدس کی معموری حاصل کرنے کی اجازت دیتی ہے