Search

关于基督教信仰的常见问题解答

话题1:重生于水和圣灵

1-30. اُ چونکہ خُدابڑا مہربان اورہمدرد ہے، توکیا وہ ہمیں راستباز خیال نہیں کرے گا، اگرچہ ہم اپنے باطنوں میں گناہ رکھتے ہیں بشرطیکہ ہم صرف یسوؔع پر ایمان رکھیں؟

خُدا محبت ہے اور منصف بھی ہے ۔اِس بنا پر ،وہ راستی سے گناہ کی عدالت کرتا ہےیعنی اِس بات کی کوئی اہمیت نہیں چاہے کچھ ہوجائے۔ ’’گناہ کی مزدوری موت ہے۔ ‘‘ (رومیوں۶:۲۳)۔ اِس کا مطلب ہے کہ عدالت کے بعدہرگناہ گار کا مقدر جہنم ہے ۔ وہ راستبازوں کو گناہ گاروں سے جدا کرتا ہے،بالکل جس طرح اُس نے روشنی کو تاریکی سے جدا کیا۔ خُدا اُن لوگوں کو راستباز بننےکے لئے بُلاتا ہے، جویہ ایمان لانے کے وسیلہ سے کوئی گناہ نہیں رکھتے کہ یسوؔع نے اپنے بپتسمہ اورمصلوبیت کے وسیلہ سے اُنکےتمام  گناہوں کو دھوڈالا ۔
تاہم، وہ لوگ جو ہنوز، یسوؔع کے بپتسمہ پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے، اپنے اندر گناہ رکھتے ہیں،وہ خُدا کی حضوری میں گناہ گار ہیں ۔ وہ ایسے لوگ ہیں جو پانی پر، دوسرے الفاظ میں، یسوؔع کے بپتسمہ پر ایمان نہیں رکھتے،، بالکل جس طرح نوحؔ کے دَورکے لوگوں نے ایمان نہ رکھا۔ اگر خُداگناہ گاروں  کو، جو ابھی  تک اپنے اندر گناہ رکھتے ہیں، راستباز اور بے گناہ خیال کرتا ہے،تواِس صورت میں وہ یقیناً جھوٹ بول رہا ہے اوراِس طرح  وہ عدالت اوراپنی ساری مخلوقات پر حکومت نہیں کر سکتا۔
اُس نے فرمایا،’’میں شر یر کو راست نہیں ٹھہراؤں گا۔‘‘( خروج ۲۳:۷)۔ شریر وہ لوگ ہیں جو ،پانی اور رُوح کی خوشخبری کو بالائے طاق رکھ کر، جس کے سَنگ خُدا ہمیں انتہائی راست اورمنصفانہ طریقے سے اپنے تمام گناہوں سے مخلصی بخش چُکا ہےاُن کی پیروی کرتے ہیں اورلوگوں کی روایات پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ یسوؔع نے فرمایا،’’ گناہ کے بارے میں اسلئے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لاتے ۔ْ‘‘(یوحنا۱۶:۹)۔واحد گناہ جو اب اِس رُوئے زمین پر باقی ہے اِس حقیقت پر ایمان نہ لانا ہے کہ یسوؔع اپنے بپتسمہ اور صلیب کے وسیلہ سے ہمارےتمام گناہوں کو اُٹھاچُکا ہے ،اور ہمارا نجات دہندہ بن چُکا ہے ۔ یہ اِس بنا پر رُوح القدّس کے خلاف کفر بکنے کا گناہ ہے ،جوہرگز معاف نہیں ہوسکتا۔ اُن کے پاس نجات یافتہ ہونے کا مطلق  کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے جو رُوح القدّس  کے  خلاف  کفر  بکتے  ہیں کیونکہ  وہ
ایمان نہیں رکھتے کہ یسوؔع نے اُنکےتمام گناہوں کو دھوڈالا۔
یوؔحنا رسول نےفرمایا،’’ جو کوئی گناہ کرتا ہے وہ شرع کی مخالفت کرتا ہے اور گناہ شرع کی مخالفت ہی ہے ۔اور تم جانتے ہو کہ وہ اس لئے ظاہر ہوا تھا کہ گناہوں کو اُٹھالے جائے اور اُسکی ذات میں گناہ نہیں۔ جو کوئی اُس میں قائم رہتا ہے وہ گناہ نہیں کرتا۔ جو گناہ کرتا ہے نہ اُس نے اُسے دیکھا ہے اور نہ جانا ہے۔‘‘(۱۔ یوحنا۳:۴- ۶)۔اِس صداقت  پر ایمان نہ لانابدکاری پر عمل کرنا ہے کہ یسوؔع اپنے بپتسمہ اور صلیب کے وسیلہ سے ہمارےتمام گناہ اُٹھاچُکا ہے۔ وہ اُن لوگوں کوآخری روز  رَدّ کردے گا جو ایسی بدی پر چلتے ہیں۔
وہ لوگ جو اُس میں قائم ہیں کوئی گناہ نہیں رکھتےاور وہ اُس  میں شامل ہونے کا بپتسمہ لینے کے وسیلہ سے یسوؔع کے سَنگ ایک ہیں۔ وہ لوگ جو اُسکے بپتسمہ پراپنے عقائد کے وسیلہ سےاُس پر اپنی پوری حیاتیوں کے تمامتر گناہ لاد چُکے ہیں وہ کوئی گنا ہ نہیں رکھتے،حالانکہ گو وہ اپنے جسم کی کمزوری کے باعث ہنوز گناہ کرتے ہیں۔
خُدا اُن کو راستباز بننے کے لئے بُلاتا ہے جو زندگی کی رُوح کی شریعت کے وسیلہ سےاپنے تمام  گناہ یسوؔع پر لاد چُکے ہیں اور پاک باز بن چُکے ہیں۔ وہ اُن کو رُوح القدّس انعام کے طور پر دیتا ہے ۔ رُوح القدّس ہرگز اُن پر نازل نہیں ہوتا جو اپنے باطنوں میں گناہ رکھتے ہیں ۔داؤدؔ نے اپنے زبور میں فرمایا، ’’کیونکہ تو ایسا خُدا نہیں جو شرارت سے خوش ہو۔ بدی تیرے ساتھ نہیں رہ سکتی۔‘‘ (زبور ۵:۴)۔ رُوح القدّس ہرگز اُن لوگوں کے باطنوں میں سکونت نہیں کرتاجو اپنے اندر گناہ رکھتے ہیں۔حتیٰ کہ کوئی گناہ گار جو اپنے اندر رُوح القدّس نہیں رکھتا،الہٰی نظریات اور اپنے ذاتی خیالات کے مطابق، کہہ سکتا ہے کہ وہ گناہ سے نجات حاصل کر چُکا ہے۔تاہم،کوئی آدمی ہرگز نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنے باطن میں گناہ نہیں رکھتا اورایمان کے سَنگ راستباز ہےکیونکہ اُسکا ضمیر اُس پر ضرب لگاتا ہے ۔
چنانچہ  ایسا آدمی  کہتا ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کی نگاہ میں گناہ گارہے، مگردرحقیقت گمان کرتا ہے کہ وہ خُدا کی نگاہ میں راستبازآدمی ہے ۔مگرخُداہرگز کسی گناہ گار کو راستباز نہیں کہتا ۔ ایک گناہ گار اُس کی عدالت کا محکوم ہے اور گناہ گار کو یقیناًنجات یافتہ ہونے کے لئے پانی اور رُوح کی خوشخبری پر ایمان لانا چاہئے ۔