Search

Проповіді

مضمون 9: رومیوں (رومیوں کی کتاب پر تفسیر)

[باب1-5] وہ جو حق کو ناراستی سے دبائے رکھتے ہیں

<رومیوں۱۸:۱-۲۵>
” کیونکہ خدا کا غضب اُن آدمیوں کی تمام بے دینی اور نا راستی پر آسمان سے ظاہر ہوتا ہے جو حق کو ناراستی سے دبائے رکھتے ہیں۔ کیونکہ جو کچھ خدا کی نسبت معلوم ہو سکتا ہے وہ اُنکے باطن میں ظاہر ہے۔اِس لئے کہ خدا نے اُس کو اُن پر ظاہر کر دیا۔ کیونکہ اُس کی اَندیکھی صفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اور الوہیت دنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعے سے معلوم ہو کر صاف نظر آتی ہے ۔یہاں تک کہ اُن کو کچھ عُذر باقی نہیں۔ اسلئے کہ اگرچہ اُنہوں نے خدا کو جان تو لیا مگر اُسکی خدائی کے لائق اُسکی تمجید اور شکر گزاری نہ کی بلکہ باطل خیالات میں پڑگئے اور اُن کے بے سمجھ دلوں پر اندھیرا چھا گیا۔ وہ اپنے آپ کو دانا جتا کر بیوقوف بن گئے۔ اور غیر فانی خدا کے جلال کو فانی انسان اور پرندوں اور چوپایوں اور کیڑے مکوڑوں کی صورت میں بدل ڈالا۔ اِس واسطے خدا نے اُنکے دلوں کی خواہشوں کے مطابق اُنہیں ناپاکی میں چھوڑ دیاکہ اُنکے بدن آپس میں بے حُرمت کئے جائیں۔ اِس لئے کہ اُنہوں نے خدا کی سچائی کو بدل کر جھوٹ بنا ڈالااور مخلوقات کی زیادہ پرستش اور عبادت کی بہ نسبت اُس خالق کے جو ابد تک محمود ہے۔ آمین۔“
 
 

کسِ پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے؟

 
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پولوس رسول نے بالکل ایسی ہی خوشخبری کی منادی کی جیسا کہ ہم خوشخبری کی منادی کر رہے ہیں۔کِس پر خدا کا غضب نازل ہوتاہے؟ خدا کی عدالت گنہگاروں کیلئے ظاہر ہوئی جو حق کو
ناراستی سے دبائے رکھتے ہیں، یعنی، جو گناہ میں ہیں اور سچائی کو اپنے باطل خیالات سے دبائے رکھتے ہیں۔
پولوس جو کہ رسول ہے صاف طور پر بیان کرتا ہے کہ سب سے پہلے ،خدا کا غضب اُن پر ظاہر
ہوتا ہے جو حق کو ناراستی سے دبائے رکھتے ہیں۔ خدا اُن کو عدالت میں لائے گا۔ کونسا قہر خدا کے قہر کی مانند ہوگا؟ خدا کا غضب اُن کے جسم اور روحوں دونوں کو جہنم میں جھونک دے گا۔
ہم کو یہ خیال نہیں کرناچاہیے کہ صرف جسم ہی کی عدالت ہوگی کیونکہ آدمیوں میں روح بھی موجود ہے۔اِسلئے ،خدا جسم اور روح دونوں کی عدالت کریگا۔ یہاں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو خدا کی سچائی کو اپنے دنیاوی خیالات سے بدل دیتے ہیں۔ یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو گناہ کا جامہ پہن کر راستباز کی مخالفت کر تے ہیں۔ خدا کا غضب اور اُسکی عدالت اُن پر ظاہر ہوئی ہے جنہوں نے گناہ کے وسیلہ اپنے دلوں کو سخت کیا اور خدا کے خوف کو نہیں مانا۔
پولوس رسول رومیوں۱:۱۷ میں فرماتا ہے، ” راستباز ایمان سے جیتا رہے گا۔ “ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ خدا کا غضب اور عدالت اُن پر ظاہر ہوتا ہے جو حق کو ناراستی سے دبائے رکھتے ہیں۔
 
 

بے اعتقاد خدا کے قہر تلے ہیں

 
خدا نے دنیا میں حقیقی نجات کو نافذ کیا۔ خدا کی محبت اور سچائی زمین پر رچ بس گئی ہیں۔ اِسلئے ،خدا کی محبت اور سچائی سے آنکھ چرانے کا کوئی عُذر بھی باقی نہیں رہا ہے۔ خدا اُن سب کی عدالت کریگا جو سچائی کی خوشخبری پر ایمان نہیں لاتے اور جو اِسکی مخالفت کرتے ہیں۔
آئیں اُن لوگوں کے متعلق خیال کریں جنہوں نے حقیقی خوشخبری کی محبت کو حاصل نہیں کیا ہے۔ہم وہ دیکھ سکتے ہیں جو خدا نے پیدا کیا: یعنی پانی، گھاس، درخت، آسمان، پرندے وغیرہ ۔ یہ چیزیں کیسے خدا کی تخلیق کے بغیر معرضِ وجود میں آسکتی ہیں۔ بائبل مقدس بیان کرتی ہے، ” چنانچہ ہر ایک گھر کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ہوتا ہے مگر جس نے سب چیزیں بنائیں وہ خدا ہے“ (عبرانیوں۳:۴)۔کیا یہ اُن کا گناہ نہیں کہ وہ خدا اور سچائی کے کلام پر ایمان نہیں لائے؟
 اسلئے، اُن لوگوں کے لئے یہی مناسب ہے کہ خدا اُن کی عدالت کرے جو گناہوں کی معافی کے فضل پر ایمان نہیں لائے۔ وہ نظریہ ارتقا پر زور دیتے ہیں۔ وہ اِس بات پر ڈٹے رہتے ہیں کہ کائنات خود بخود ارتقاء پذیر ہوئی ہے۔ اُنکے خیال میں پہلے پہل، تقریباً ڈیڑھ کروڑ سال پہلے یہاں ایک زور دار دھماکہ ہوُا جسے بِگ بینگ کہتے ہیں، اور یہ کہ پھر اچانک زندگی وجود میں آگئی ۔ وہ کہتے ہیں کہ زندگی کی اصل
حقیقت بدلتی گئی، اور یہ مچھلیوں، درندوں اور آخر کار انسانوں میں تبدیل ہو گئی۔ اگر یہ نظریہ درست تھا تو بنی نوع انسان ایک یا دو ہزار سال بعدکسی اور زندگی میں تبدیل ہو چکا ہوتا۔
” کیونکہ اُس کی اَن دیکھی صفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اور الوہیت دنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعہ سے معلوم ہو کر صاف نظرآتی ہیں ۔ یہاں تک کہ اُنکو کچھ عُذر باقی نہیں “ (رومیوں۱:۲۰)۔ اگرچہ لوگ ظاہراً خدا کے کمالات اور عجائباتِ فطرت کے وسیلہ دیکھ سکتے ہیں کہ خدا زندہ ہے تو بھی وہ خدا کا انکار کرتے اور اُسے رد کر دیتے ہیں۔ بے ایمان خدا کے قہر میں ہیں۔ بہت سارے لوگ خدا کے شُکر گذار نہ ہوتے اور نہ ہی اُسکے نام کوجلال دیتے تھے اسلئے،پس وہ اپنے خیالات میں بے اثر ٹھہرتے ہیں۔اُنکے بے سمجھ دلوں پر اندھیرا چھا گیا: وہ اپنے آپکو دانا جان کر بیوقوف بن گئے،اور غیر فانی خدا کے جلال کو فانی انسان اور پرندوں اور چوپایوں اور کیڑے مکوڑوں کی صورت میں بدل ڈالا۔ خدا کی عدالت ظاہری طور پر اُن آدمیوں کا انتظار کر رہی ہے۔ وہ سب لوگ جو نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئے خدا کی عدالت کا سامنا کریں گے۔ خواہ وہ یسوع پر ایمان رکھیں یا نہ رکھیں۔
 
 
خدا بے ایمانوں کو اُنکی ناپاکی میں چھوڑ دیتا ہے
 
 ”اِس واسطے خدا نے اُنکے دلوں کی خواہشوں کے مطابق اُنہیں ناپاکی میں چھوڑ دیا کہ اُنکے بدن آپس میں بے حُرمت کئے جائیں۔ اسلئے کہ اُنہوں نے خدا کی سچائی کو بدل کر جھوٹ بنا ڈالا اور مخلوقات کی زیادہ پرستش اور عبادت کی بہ نسبت اُس خالق کے جو ابد تک محمود ہے۔ آمین۔ اِسی سبب سے خدا نے اُن کو گندی شہوتوں میں چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ اُن کی عورتوں نے اپنے طبعی کام کو خلافِ طبع کام سے بدل ڈالا۔ اِسی طرح مرد بھی عورتوں سے طبعی کام چھوڑ کر آپس کی شہوت سے مست ہوگئے یعنی مردوں نے مردوں کے ساتھ روسیاہی کے کام کر کے اپنے آپ میں اپنی گمراہی کے لائق بدلہ پایا “ (رومیوں۱:۲۴۔۲۷)۔
یہ عبارت کیا بیان کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟ خدا اُن آدمیوں کو اُنکی خواہشات میں چھوڑ دیتا
ہے جو مخلوقات کی خدمت اور پرستش کرنے میں خوش رہتے ہیں۔ وہ اُنہیں شیطان کے قبضہ میں بھی چھوڑ دیتا ہے۔ خدا شیطان کو منظوری دے دیتا ہے کہ اُنکی خواہشات کے مطابق اُن سے سلوک کرے۔ اسلئے، ضرور ہے کہ ہم خدا پر ایمان لائیں اور ہر طرح سے نجات یافتہ ٹھہریں۔ ” یہاں تک کہ اُنکی عورتوں نے اپنے طبعی کام کو خلافِ طبع کام سے بدل ڈالا۔ اور اسی طرح مرد بھی عورتوں سے طبعی کام چھوڑکر آپس کی شہوت سے مست ہوگئے یعنی مردوں نے مردوں کے ساتھ روسیاہی کے کام کر کے اپنے آپ میں گمراہی کے لائق بدلہ پایا۔ “ یہی خدا سے مُنکر ہونا ہے اور یہی ایڈز کا سبب بن رہا ہے۔
خدا نے طبع کا استعمال بخشا۔ ایک آدمی کو ایک عورت کے ساتھ رہنا چاہیے۔ مگر، یہ حقیقت ہے کہ آدمیوں نے آدمیوں کے ساتھ اور عورتوں نے عورتوں کے ساتھ طبعی کاموں کو خلافِ طبع کاموں سے بدل ڈالا یہ ہمیں دکھاتا ہے کہ اُنہوں نے خدا کی میسر کی گئی طبع کا انکار کیا۔ رومیوں کے نام خط ۱۹۰۰سال پہلے لکھا گیاتھا۔ پولوس رسول نے پیشن گوئی کی کہ جو اپنے نفسانی اعضا کو خلافِ طبع استعمال کرتا ہے اُنکو اپنی نفسانی بے راہ روی کی قیمت سزا کے طور پر ادا کرنی پڑے گی۔ اِن دنوں خدا کا کلام حقیقت میں پورا ہورہا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایڈز خاص طور پر ہم جِنس پرستوں پر غلبہ پا رہی ہے۔
اُنکے لئے یہی موزوں ہے کہ اپنے نفسانی گناہوں کی سزا پائیں۔ خدا کا غضب اُن آدمیوں پر ظاہر ہوا ہے جو طبعی کاموں کو خلافِ طبع کاموں میں بدل دیتے ہیں۔ وہ ایڈز کی سزا پانے کے حقدار ہیں۔ یقینی طور پر یہ بیماری خدا پر بے اعتمادی کے سبب سے آتی ہے۔ خدا بے اعتمادوں کو ناپسندیدہ عقل کے حوالہ کر دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، یقینی طور پر یہ خدا کی لعنت ہے۔
 
 
وہ خدا کی راستبازی کے مخالف ہیں
          
وہ آدمی جو خداکو اپنی عقل میں رکھنا نہیں چاہتا ایسا ہے، ” پس وہ ہر طرح کی ناراستی، بدی، لالچ اور بدخواہی سے بھر گئے اور حسد خونریزی جھگڑے مکاری اور بُغض سے معمور ہو گئے اور غیبت کرنے والے۔بد گو۔ خداکی نظر میں نفرتی اور اَوروں کو بے عزت کرنے والے مغرور شیخی باز بدیوں کے بانی ماں باپ کے نافرمان۔ بیوقوف عہد شکن طبعی محبت
سے خالی اور بےرحم ہو گئے۔ حالانکہ وہ خدا کا یہ حکم جانتے ہیں کہ ایسے کام کرنے والے موت کی سزا کے لائق ہیں۔ پھر بھی نہ فقط آپ ہی ایسے کام کرتے ہیں بلکہ اَور کرنے والوں سے بھی خوش ہوتے ہیں“ (رومیوں۱: ۲۹۔۳۲)۔
کیا جو ’ ایسے کاموں کو عمل میں لاتےہیں ‘ وہ بالکل یہی بُرائیاں کرتے ہیں۔ وہ ایسے کاموں کو کرنے والوں کو پسند بھی کرتے ہیں۔کیا جو آدمی مخالفِ خدا ہیں وہ خدا کے کلام کی تابعداری کرتے ہیں یا کیا وہ راست کام کرتے ہیں۔؟ نہیں۔ بلکہ وہ یہ کہتے ہوئے راستباز وں کو ستاتے ہیں کہ ” تم کافر ہو۔ “ راستبازوں کو یسوع پر ایمان لانے کے بعد راستبازی پر ایمان لانے کے باعث ستایا جاتا ہے۔ وہ مبارک ہیں۔
لوگ اُن کے ساتھ ہی اظہارِ ہمدردی کرتے ہیں جو جسمانی کرامات دکھاتے ہیں۔ تاہم، یہ کہنا بہت عجیب ہے، کہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ دوسروں کے یسوع پر ایمان لانے اور گناہوں سے مخلصی پانے کو رد کرتے اور اعتراض کرتے ہیں۔ایسا کرنا گناہ کا غلام بننے کے مترادف ہے کیونکہ نہ تو وہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ ہی سچائی کے کلام کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔
اِسلئے ،بے ایمان اور شیطان کہتا ہے کہ ہم نہ تو کامل طور پر پاک ٹھہرینگے اور نہ ہی گناہوں کی کامل معافی حاصل کرینگے اگرچہ وہ ہمیں یسوع مسیح پر ایمان لانے کی اجازت دے دیتے ہیں۔بے ایمان اور نافرمان خیال کرتے اور کہتے ہیں کہ ضرور ہے کہ ہم یسوع پر ایمان لائیں تاکہ آسمان میں داخل ہوسکیں حالانکہ اُنکے اپنے دل گناہ آلود ہیں ۔اسی لئے وہ آرام محسوس کرتے ہیں، جب وہ یسوع پر گنہگاروں کی طرح ایمان لاتے ہیں ۔ اگرچہ وہ مسیحی ہیں تو بھی وہ خدا سے ناواقف ہیں اور اُس پر ایمان نہیں لاتے وہ خدا کو اپنے علم میں لائے بغیر ہی اُس کی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ خدا کی راستبازی کی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ سب گناہوں کی اور شیطان کی پوجا کرتے ہیں۔ وہ بھی ،جو اگرچہ یسوع پر ایمان لائے ہیں لیکن نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئے اِسی طرح ہیں۔ یہاں بہت سے مسیحی محض نام کے مسیحی ہیں جو ابھی تک نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئے ہیں۔ جو گناہ کو اپنے دل میں رکھ کر یسوع پر ایمان لاتے ہیں وہ خدا کے سچے کلام اور نئے سرے سے پیدا ہونے والے مسیحیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔جو گناہوں کی معافی پا چکے اور یسوع مسیح کی سچائی پر ایمان لانے کے وسیلہ مقدس ٹھہرائے جا چکے ہیں۔
 
 
جو نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئے نئے سرے سے پیداہونے والوں کے مخالف ہیں
          
پولوس رسول بائبل مقدس میں فرماتا ہے کہ خدا کا غضب اُن آدمیوں پر ظاہر ہوتا ہے جو حق کو ناراستی سے دبائے رکھتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ خدا کی عدالت اُن کی تمام بے دینی اور ناراستی پر آسمان سے ظاہر ہوتی ہے۔ سچائی کے متعلق ہر ایک بات پوری ہوئی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ خداوند ہمارے سب گناہوں کو مٹا چکا ہے۔ خدا اپنی عدالت اُن کے خلاف قائم کرتا ہے جو سچائی کے خلاف ہیں اور اُسے دبائے رکھتے ہیں۔ ہمیں خدا کے کلام کے وسیلہ سیکھنا ہے کہ ایسے سب ایماندار جو نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئے وہ اُن کی عدالت کریگا۔ اگرچہ وہ یسوع پرایما ن ر کھتے ہیں تو بھی خدااُنکی جو نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئے عدالت کریگا۔
ایسے ایماندار جو نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئے، نئے سرے سے پیدا ہونے والو ں کے خلاف اپنے دلوں کی کینہ پروری سے لبریز ہو کر اُن پر بہتان لگاتے ہیں۔وہ جہنم میں جائیں گے۔خدا اُنہیں جہنم میں جھونک دے گا۔وہ بُغض سے پُر ہیں اور ایک دوسرے سے غیبت کرتے ہیں۔ ایسے گنہگار جو اُن راستبازوں کہ خلاف جو گناہوں سے مخلصی پا چکے ہیں اکٹھے ہو کر غیبت کرتے ہیں تو اُنکی عدالت واجِبی ہے۔ کیا آپ کی سمجھ میں آرہا ہے کہ میرا کیا مطلب ہے؟ ہمیں اُن کے ساتھ ہمدردانہ اظہار کرنا چاہیے۔ وہ اپنے گناہوں سے خدا کی مخالفت یہ جانے بغیر ہی کرتے ہیں کہ وہ تو اُسکے خلاف غیبت کر رہے ہیں۔” پاک ہونا اُنکے لئے بڑا عجیب ہے۔ یہ واقعی عجیب ہے۔ “
خدا کی عدالت اُن کیلئے ظاہر ہوئی ہے جو اپنی بدی سے خدا کی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو ایسا کرتے ہیں وہ اِن کاموں سے خوش ہوتے ہیں جو پولوس نے بیان کئے ہیں۔ وہ غیبت کرنے والے اور تہمت لگانے والے بن کر راست ٹھہرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جو مسیحی نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئے ایک دوسرے کی غیبت کرتے اور راستباز پر تہمت لگاتے ہیں۔وہ راستبازوں کی پیٹھ پیچھے برائی اور اُن سے نفرت کرتے ہیں،آپس میں شیخی مارتے،اور اکٹھے ہوکر بدی کی ترکیبیں کرتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ کیسے برائی کی نصحیت کرتے ہیں؟ وہ ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ ہو کر برائی کو عمل میں لاتے ہیں۔وہ راستباز کی مخالفت اِسطرح کے نعروں سے کرتے ہیں جیسا کہ، ” آؤ یسوع پر خوب ایمان لائیں۔ آؤ ایمان کی درست قِسم کو خاطر میں لائیں۔ آؤ دنیا کیلئے نور بنیں۔“ ایسے گناہ کرنا آسان نہیں چنانچہ وہ اِن گناہوں کا ارتکاب کرنے کیلئے اپنے آپ کو پیوستہ کر لیتے ہیں۔
اِسلئے، زبور۲:۴،میں خدا فرماتا ہے، ” وہ جو آسمان پر تخت نشین ہے ہنسیگا۔ خداوند اُن کا مضحکہ اُڑائے گا۔“ کیونکہ زمین کے بادشاہ خدا کے خلاف ہیں۔’ اوہ !یہ عجیب بات ہے۔ مجھے کبھی کچھ نہیں ہوگا قطع نظر اس کے کہ تم نے مُجھے للکارا ہے۔ اے لوگو تم مجھے عدالت کیلئے رشوت دیتے ہو۔ ‘ خدا عدالت کے وقت کا انتظار کر رہا ہے کیونکہ یہ بہت مضحکہ خیز ہے۔
 
 
جو راستباز کی عدالت کرتے ہیں خدا اُنکی عدالت کریگا
 
وہ جو خدا کی سچائی کے مخالف ہیں اور نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئے گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ جو نئے سرے سے پیدا ہو چکے ہیں وہ بھی اپنے جسم میں ناکاملیت اور بُغض رکھتے ہیں۔ تاہم، حقیقت میں یہ یکسر مختلف ہے۔ ہم خدا پر اور سچائی پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہم خدا کے وسیلہ گناہوں کی معافی حاصل کر چکے ہیں۔ تاہم، وہ لوگ بالکل بھی خدا پر ایمان نہیں رکھتے ہیں۔یہ لوگ ’ خدا کی راستبازی اور خدا کی سچائی کے مخالف ہیں۔ ‘ ” پس اے الزام لگانے والے! تو کوئی کیوں نہ ہو تیرے پاس کوئی عُذر نہیں کیونکہ جس بات کا تو دوسرے پر الزام لگاتا ہے اُسی کا تو اپنے آپ کو مجرم ٹھہر اتا ہے اِسلئے کہ تو جو الزام لگاتا ہے خود وہی کام کرتا ہے “ (رومیوں ۲:۱)۔
پولوس رسول اُن یہودیوں اور مسیحیوں سے جو نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئے اور جو محِض شریعت پر فخر کرتے ہیں سے مخاطب ہے۔ وہ دوسروں کی یہ کہتے ہوئے عدالت کرتے ہیں، ” خون نہ کرنا، زنا نہ کرنا، چوری نہ کرنا اور صرف خداکو ماننا “ حالانکہ وہ خود شریعت پر عمل کرتے نہیں۔ صرف خدا ،اور اُسکے فرزند ،جو نئے سرے سے پیدا ہو چکے ہیں ،خُدا کے کلام کے مطابق عدالت کرسکتے ہیں ۔
اس طرح کے لوگ پرکھے جاتے ہیں، کیونکہ وہ راستبازوں کو اپنی من مانی سے پرکھتے ہیں۔خُدا اُن سب لوگوں کو پرکھے گاجو نئے سرے سے پیدا نہیں ہوچکے ہیں،صرف اتنا کہناہے، شرعی یہودیوں اور مسیحیوں کو۔ خدا کا قہر اُن پر نازل ہو گا جو مذہبی زندگی کی پیروی شریعت کے وسیلہ کرتے ہیں، جبکہ وہ نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئے ،اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر وہ شریعت کی فرمانبرداری نہ کریں تو وہ جہنم میں جائیں گے اور اگر وہ خدا کی شریعت پر عمل کریں تو ہی وہ آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونگے۔ایماندار شخص وہ ہے جو یسوع مسیح پر ایمان لانے کے بعد راستباز ٹھہرتا ہے نہ کہ شریعت کے وسیلہ۔ضرور ہے کہ ہم میں اور اُن میں امتیاز ہو۔جو نئے سرے سے پیدا ہوئے بغیر ہی خدا پر یقین کرتے اور پاک زندگی گذارتے ہیں وہ راستباز کی اپنے معیار کے مطابق ہی عدالت کر تے ہیں۔
تاہم،خدا یقینی طور پر اُنکی عدالت کریگا۔ وہ تو یہ جانتے ہی نہیں کہ وہ اپنے معیارکےمطابق اپنی
عدالت کر رہے ہیں۔ اوہ، اے آدمیو تم جو گناہوں کی معافی کے بغیر ہی اپنے غلط ایمان سے راستباز کی عدالت کر تے ہو، تم خدا کے فضل تک نہیں پہنچ پاؤ گے، کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ تم خدا کی عدالت سے بھاگ سکتے ہو؟ خدا ایسے لوگوں کی عدالت ضرور کریگا۔
 
 
خدا کی عدالت راست ہے
 
” اور ہم جانتے ہیں کہ ایسے کام کرنے والوں کی عدالت خدا کی طرف سے حق کے مطابق ہوتی ہے “ (رومیوں۲:۲) ۔ جو نئے سرے سے پیدا ہوئے بغیر ہی دوسروں کی عدالت کرتے ہیں اگرچہ وہ یسوع پر ایمان رکھیں تو بھی ہمیں یقین ہے کہ خدا کی عدالت اُنکے خلاف حق کے مطابق ہو گی۔
خدا گناہ گاروں کو جہنم میں بھیجتا ہےکیونکہ اُس کی سچائی حقیقی ہے، اور کیونکہ خدا کی عدالت حق کے مطابق ہے۔خواہ کوئی دوزخ میں جاتا ہے یا نہیں اِسکا انحصار پہلے سے مقرر کی گئی اُس تعلیم پر ہر گز نہیں ہے جو یہ منادی کرتی ہے کہ’ خدا بعض لوگوں سے تو محبت کرتا ہے ‘اور بعض سے غیر مشروط طور پر نفرت کرتا ہے۔ ‘ خدا نے بنائے عالم سے پیشتر ہی سب آدمیوں کو مسیح یسوع میں چُن لیا تھا۔ (افسیوں ۱: ۴)
ہر کوئی جو یہ ایمان لاتا ہے کہ یسوع مسیح نے اُسکے سب گناہوں کو مٹا دیا، گناہوں کی مخلصی کو حاصل کرتا ہے۔خدا نے یہ پیشتر سے مقرر کر دیا ہے۔ اسلئے، وہ سب جو نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئے، وہ یسوع پر ایمان لائیں تو بھی جہنم میں جائیں گے۔وہ خدا کی عدالت کے مطابق جہنم میں جائیں گے اور یہی سچائی ہے۔
خدا کی عدالت، جو گنہگاروں کو جہنم میں ڈالتی ہے، برَ حق ہے۔کیوں؟ کیونکہ انہوں نے خدا کی عظیم محبت کو رد کیا اور نہ تو خدا کی مہیا کردہ مخلصی کو حاصل کیا اور نہ ہی اُس پر ایمان لائے۔اِس سچائی کے مطابق جو نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئے یہی اُنکے لئے مناسب ہے کہ وہ جہنم میں جائیں۔
 بعض یہ کہیں گے، ” کیوں خدا نے مجھ تک خوشخبری کی منادی نہیں کی؟ “ کیا اُس نے ایسا نہیں
کیا؟ خدا نے تو کئی مرتبہ خوشخبری کی منادی آپکے لئے کی ہے۔ اپنی آنکھیں کھول کر نجات کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اِس دنیا میں صرف چند ہی گرجا گھرہیں جو حقیقی خوشخبری کی منادی کر تے ہیں۔ تاہم، اگر آپ واقعی اِن کلیسیاؤ ں تک رسائی پاتے ہیں تو آپ اِس سچائی کو پا سکتے ہیں۔ میرے معاملے میں ،یہ ہے کہ میں نے واقعی اسے پانے کی بہت کوشش کی! ایک پیغام کے بعد، جب میں ابھی تک نئے سرے سے پیدا نہیں ہوا تھا ،میں نے دُعا کی ،” اوہ ،خدا وند، اگرچہ میں اِس طور سے لوگوں میں تیرے کلام کی منادی کر چکا ہوں تو بھی میں خدا کے نزدیک گنہگار ہوں۔جو باتیں میں لوگو ں کو بتا رہا تھا مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے میں اپنے آپکو بتا رہا تھا۔ میں گنہگار ہوں۔ مجھ سے ملاقات کر اور مہربانی سے مجھے بچالے۔“
میں نہیں جانتا کہ میں سچائی کو پانے کیلئے کتنی زیادہ کوشش کر چکا ہوں۔ خدا اُن سب سے ملنا چاہتا ہے جو اُس کو ڈھونڈتے ہیں۔خُدا حتیٰ کہ اُن لوگوں کو بھی نجات دینا چاہتاہےجو اُسے نہیں ڈھونڈتے ” جو میری اُمت نہ تھی اُسے اپنی اُمت کہونگا اور جو پیاری نہ تھی اُسے پیاری کہونگا “ (رومیوں۹: ۲۵) خدا فرماتا ہے کہ وہ ہمارا نجات دہندہ ہے جو ہمیں مخلصی دینے کے لئے اِس دنیا میں آ گیا۔ وہ لوگ جو بڑی بیتابی سے خدا کا نظارہ کرنے کیلئے بے چین ہیں یقیناً اُسے پا لینگے۔ بعض لوگوں پر خدا جلوہ گر نہیں ہوا لیکن جب خوشخبری کے مناد اُنکے پاس آکر خوشخبری کی منادی کرتے ہیں تو اُنہیں بھی خدا سے ملاقات کا موقع ملتا ہے۔بعض خوشخبری میں دلچسپی لینگے ،اور بعض نہیں۔وہ آدمی جو جہنم میں جائیں گے مٹ جائیں گے کیونکہ اُنہوں نے خوشی کی بشارت کو رد کر دیا۔
خدا کی سچائی کے مطابق جو جہنم کے وارث ہیں اُن کیلئے یہی مناسب ہے کہ وہ خاتمہ کیلئے جہنم کے حوالہ کئے جائیں۔جو خدا کی بادشاہی میں جانے کے مستحق ہیں اگرچہ وہ کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام نہ دیں تو بھی وہ صحیح امتیاز کے موافق اِس بادشاہی تک رسائی پاتے ہیں۔ یہ سب کچھ خدا کی راست عدالت کے وسیلہ وقوع میں آتا ہے۔
خدا لوگوں کو اپنی جانب داری سے شمار نہیں کرتا کہ ایک کو تو جہنم میں اور دوسرے کو آسمان کی بادشاہی میں بھیج دے۔ بلکہ اِسکی بجائے، وہ حق کے مطابق عدالت کرتا ہے۔ اِسلئے، ضرور ہے کہ ہم خوشخبری کی منادی کریں۔ ” اے انسان! تو جو ایسے کام کرنے والوں پر الزام لگاتا ہے اور خود وہی کام کرتا ہے کیا یہ سمجھتا ہے کہ تو خدا کی عدالت سے بچ جائیگا؟یا تو اُس کی مہربانی اور تحمل اور صبر کی دولت کو ناچیز جانتا ہے اور نہیں سمجھتا کہ خدا کی مہربانی تجھ کو توبہ کی
طرف مائل کرتی ہے“ (رومیوں۲:۳۔۴)۔
 
 
یسوع نے اپنی محبت کے وسیلہ پیشتر سے ہی اِس دنیا کے گناہوں کو مٹا دیا ہے
 
پولوس نے اُن مذہبی مسیحیوں، اور گنہگار یہودیوں سے کہا ،جنہوں نے ابھی تک مسیح کی محبت کو نہ پایااور نہ ہی نئے سرے سے پیدا ہوئے تھے کہ ایسوں کی عدالت حق کے مطابق ہو گی۔ وہ جہنم میں جانے کیلئے مقرر ہوئے ہیں۔ لیکن خوشخبری کیا ہے؟ رومیوں۲:۴،میں خدا فرماتا ہے، ” یا تو اُسکی مہربانی اور تحمل اور صبر کی دولت کو ناچیز جانتا ہے اور نہیں سمجھتا کہ خدا کی مہربانی تجھ کو توبہ کی طرف مائل کرتی ہے “ خدا کی محبت سب لوگوں پر ظاہر ہو گئی اور راستی سے غلبہ پا چکی ہے۔
کسی کو بھی خدا کی نجات کے فضل سے محروم نہیں رکھا گیا۔ یسوع نے ساری دنیا کے تمام گناہوں کو مٹا دیا ہے۔ یسوع نے ہمیں کامل کر دیا ہے۔ کیا اُس نے صرف ہمارے خاص خاص گناہو ں کو ہی مٹایا اور ہمارے روزانہ کے گناہو ں کو اُس وقت معاف کرتا ہے جب ہم اُس سے معافی مانگتے ہیں؟نہیں۔ یسوع نے پیشتر سے ہی دنیا کے تمام گناہوں کو ایک ہی بار مٹا دیاہے۔ پھر بھی ،جو خدا کی مخالفت کرتے ہیں وہ اُسکی مہربانی اور محبت کو ناچیز جانتے ہیں۔ ” یسوع نے کیسے ہمیں مخلصی دی؟ اگرچہ کوئی نہ کوئی گناہ مجھ سے ہو جاتا ہے تو پھر کیسے میں کہہ سکتا ہو ں کہ میں پاک ہوں؟ یہ تو بیوقوفی ہے اگرچہ وہ ہمارا خداوند خدا اور نجات دہندہ ہے تو بھی گناہ مجھ سے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ہو جاتا ہے۔جبکہ یہ گناہ مجھ سے ہو جاتے ہیں تو پھر کیسے میرے سب گناہ معاف ہو سکے؟ “
یہ لوگوں کا جسم کے مطابق خیال ہے، حالانکہ خدا دنیا کے سب گناہوں کو اپنی محبت کے وسیلہ پیشتر سے ہی مٹا چکا ہے۔خدا آدمیوں کی بے تمامی اور کمزوریو ں سے آگاہ ہے( کہ جسم بار بار گناہ میں گرتا ہے)۔ اِسلئے، اُس نے بپتسمہ اور صلیب پر اپنے خون بہانے کے ذریعے ایک ہی بار دنیا کے سب گناہوں کو مٹا ڈالا۔ خداوند جسم کی کمزوریوں سے اچھی طرح آگاہ ہے۔” میں نے تم کو مخلصی بخشی کیونکہ میں جانتاہوں کہ جب تک تم جسم کہ خیمہ میں ہو گناہ بار بار تم سے ہوجائیگا۔“
خداوند نے دنیا کے تمام گناہوں کو دھو دیا ہے۔ خداوند ہمیں نجات پانے کے وسیلہ قبول کر چکا
ہے۔خدا وند نے گنہگاروں کے گناہ کی اُجرت ادا کی اور اُنہیں اپنی قدرت اور راستبازی سے پاک کیا (یسوع نے دریائے یردن پر یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بپتسمہ لیا)۔ خداوند نے ہمیں اپنے فرزندٹھہرنے، اور مبارک ٹھہرنے کے لائق کیا اور ہمارے گناہوں کی مزدوری اپنے خون سے ادا کر کے ہمیں اِس قابل کیا کہ آسمان کی بادشاہی میں داخل ہو سکیں۔خداوند نے گنہگاروں کو اپنے راستباز فرزندوں میں بدل دیا۔
 
 
ضرور ہے کہ بے ایمان توبہ کریں اور اپنے دلوں کو خداوند کی طرف پھیریں
 
” یا تُو اُسکی مہربانی اور تحمل اور صبر کی دولت کو ناچیز جانتا ہے اور نہیں سمجھتا کہ خدا کی مہربانی تجھ کو توبہ کی طرف مائل کرتی ہے۔ “ خدا کے یہ الفاظ اُن کے لئے ہیں جو خد اکی مہربانی، تحمل، اور صبر کی دولت کا انکار کرتے ہیں اور جہنم میں جاتے ہیں۔یہ یقینی بات ہے کہ یسوع نے تمام دنیا کے گناہوں کو دور کر دیااور یہ کہ خوشخبری تمام دنیا میں پھیل چکی ہے۔ تاہم، لوگ اِس پر ایمان نہیں لاتے اسلئے وہ ابھی تک جہنم میں جاتے ہیں۔ہم نے اُسکی مہربانی اور تحمل اور صبر کی دولت کو ناچیز جانا تو بھی یسوع نے ہم سب کے گناہوں کو دور کر کے ہمیں دوزخ کی آگ سے بچایا اور ہم سب ایمان لانے والوں کو کامل نجات عطا کی۔یہاں تک کہ اگرچہ جہنم میں جانا ہی ہمیں پسند تھا تو بھی اُس نے ہمیں مفت نجات بخش دی۔
اِسلئے نجات پانے کیلئے ضرور ہے کہ ہم یسوع کےپانی اور خون پر ایمان لائیں۔ ایمان لائیں ،اور مفت نجات پائیں۔ جہنم وہ مقام ہے جو خدا نے اُن کیلئے تیار کیا ہے جو اُسکے نجات کے فضل اور اُسکی مہربانی اور تحمل کی دولت کو ناچیز جانتے ہیں۔ بے ایمان تو پہلے ہی اپنے لئے دوزخ کا ٹکٹ خرید چکے ہیں۔ وہ لوگ جنکا مقدر جہنم ہے توبہ کریں اور ضرور اپنے دلوں کو خداوند کی طرف مائل کریں۔ جب تک آپ حقیقی خوشخبری پر ایمان نہیں لاتے آپ بھی آسمان کی بادشاہت کو خدا حافظ کہتے ہیں۔
 
 
لوگ خداکی محبت کو رد کرنے کے باعث جہنم میں جاتے ہیں
 
” بلکہ تو اپنی سختی اور غیر تائب دل کے مطابق اُس قہر کے دن کیلئے اپنے واسطے غضب کما رہا ہے جس میں خُدا کی سچی عدالت ظاہر ہوگی “ (رومیوں ۲:۵)۔ وہ لوگ جو غیر تائب دل رکھتے ہیں اور وہ لوگ جو توبہ نہیں کرتے جہنم کی آگ میں ڈالے جائیں گے۔ بعض لوگ اِس لئے جہنم میں جاتے ہیں کیونکہ انہوں نے خدا کی عظیم محبت کو رد کر دیا ہے۔ وہ گنہگار جو سرکش دِلوں کے ساتھ خدا کی سچائی کو رد کرتے اور اپنے خیالات کی طرف مائل ہوتے ہیں ،اپنے گناہوں کی اُجرت ادا کرنے کیلئے دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ وہ جو خدا کی محبت کو پانے سے انکار کرتے اور رفتہ رفتہ پاکیزگی تک پہنچنے کیلئے صرف توبہ کی دُعاؤں پر ہی زور دیتے ہیں وہ ضرور ہی جہنم میں جائیں گے۔ وہ خداوند کی محبت کے مُنکر ہونے کے باعث خدا کے قہر کو اُسکے ظہور اور اُسکی حق کےمطابق عدالت کے آنے تک رکھ چھوڑتے ہیں۔
اپنی نجات کے منصوبہ میں، خُدا نے گنہگاروں کو نجات دینے اور راستباز ٹھہرانے کا فیصلہ کیا،یہاں تک کہ اُس نے شیطان جس نے ہمیں گناہ میں پھنسایا کےسامنے ہمیں نجات دی اور راستباز ٹھہرایا۔ خدا نے ہمیں نجات دینے اور پاک ٹھہرانے کیلئے اپنے اکلوتے بیٹے کو اِس دنیا میں بھیجا۔ مگر گنہگاروں نے اُسے قبول نہ کیا۔ اُنہوں نے خدا کی محبت کی خوبی کو رد کرتے ہوئے اُس کے قہر کے پیالہ کو لبریز کِیااور اُسکی راست عدالت اور ظہور اور قہر کے دن تک کے لئے اپنے لئے جمع کر رکھاہے۔ خدا کی راست عدالت اُن سب کو جو اپنے دلوں میں گناہ رکھتے ہیں دورخ میں ڈال دے گی۔
 کیوں؟ کیونکہ خدا نے ساری دنیا کے گناہوں کو دور کر دیا اور اِس دنیا میں ہر ایک کو ایمان کے
وسیلہ نجات دی۔ مگر بے ایمان یقیناً جہنم کی آگ میں جائیں گے۔ وہ سرکش ہیں اور اسی سرکشی کی وجہ سے جہنم میں جاتے ہیں۔ پس آخر کار وہ اپنی اس حماقت پر افسوس کریں گے۔ اگر گنہگار خدا کی عظیم محبت کو قبول نہیں کرتے تو وہ جہنم میں جائیں گے۔
لوگوں کا خیال ہے کہ خدا بے انصاف ہے کیونکہ وہ اپنے اختیار کے پیمانہ کے مطابق کچھ لوگوں کو جہنم میں اور کچھ لوگوں کو آسمان کی بادشاہت میں بھیجتاہے۔ مگر، یہ سچ نہیں ہے۔ خدا نے دوزخ کو اُن لوگوں کے لئے بنایا جنہوں نے اُس کی محبت اور سچائی سے مُنکر ہو کر سرکشی کو ترجیح دی تاکہ اُن کے رہنے کیلئے ایک مناسب جگہ ہو۔
بائبل مقدس فرماتی ہے کہ جہنم ایک ایسی جھیل ہے جو آگ اور گندھک سے جلتی ہے۔ وہاں اُن
کیلئے جنہوں نے گناہ کو ترجیح دی بل کھاتے ہوئے گندے کیڑے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ وہ چلائیں ، ” نہیں ،نہیں۔ میں ایسی جگہ سے نفرت کرتا ہوں۔“ لیکن خدا کہے گا، ” میں تمہارے سب گناہوں کو دھو چکا تھا مگر تم نے کہا کہ اگر میں گناہ میں بھی رہو ں تو جنت میں جانا تو میر ے لئے کوئی بات ہی نہیں۔ اِسلئے ،میں یہ کیڑے تمہیں تمہارے دوست ہونے کیلئے تحفہ میں دیتا ہوں ،کیونکہ تم نے گناہوں کی معافی کو خاطر میں لانا پسندہی نہ کیا۔“ گنہگار کہیں گے ” نہیں ،خداوند، میں اِن سے نفرت کرتا ہوں۔“
خداوند کہے گا ” اگرچہ تم اِس سے نفرت کرتے تھے تو بھی تم اسی کیلئے پکارا کرتے تھے۔“ میں راستبازی کا خدا وند ہوں جو کچھ تم چاہتے ہو میں تمہیں دیتا ہوں۔ میں اُن سب کو انعام میں دوزخ دونگا جو اپنے دلوں میں گناہ کو رکھنا پسند کرتے ہیں۔ یہی خدا کی حق کے مطابق عدالت ہے۔جب تک انسان اِس روئے زمین پر ہے، گناہ اُس سے ہو ہی جاتا ہے مگر پھر بھی اُنہیں خدا کی اُس خوشخبری کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جو دنیا کے گناہوں کو دور کر چکی ہے۔
لوگ اِسلئے جہنم میں جاتے ہیں کیونکہ اُنکے دل سخت ہیں۔ہمیں خدا کے نزدیک سرکش نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں ایمان لانا چاہیے کہ اُس نے پیشتر سے ہی دنیا کے گناہوں کو دور کر دیا تھا۔ اگرچہ یہ ظاہری نہیں تو بھی آپکو ایمان لانا چاہیے۔
 
 
خدا ہمیں بتاتا ہے کہ اُس نے پیشتر سے ہی ہم سے محبت رکھی
 
 خدا ہمیں بتاتا ہے کہ اُس نے پیشتر سے ہی ہم سے محبت رکھی۔ ” میں نے پیشتر سے تمہارے گناہوں دور کر دیاتھا۔“ تمہیں اِس حقیقت پر ایمان لانا چاہیے۔ جب خدا کہتا ہے کہ اُس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے تو ہمیں اِس پر ایمان لانا چاہیے کیونکہ خدا کا کلام سچاہے۔ ایمان خدا کے کلام پر اعتماد سے شروع ہوتا ہے۔ لوگ صرف اُس چیزپر ایمان رکھتے ہیں جو اُن کی چھوٹی سی عقل میں آجاتی ہے اور اُس پر ایمان نہیں لاتے جسے وہ سمجھ نہیں پاتے۔بے ایمان جو خدا پر ایمان نہیں لاتے کہ خدا نے سب گنہگاروں کو اُنکے گناہوں سے نجات دی وہ جہنم میں جائیں گے۔وہ اُن میں سے ہیں جنہوں نے جہنم میں جانے کیلئے اپنے ذہنوں کو تیار کر لیا ہے۔
یہاں چند نمایاں مسیحی تھے جنہوں نے عام اعلان کیا، ” مَیں خدا کے نزدیک اقرار کرتا ہوں کہ
جب تک میں مر نہیں جاتا میں ایک گنہگار ہوں۔“ وہ مر گیا اور یقینی طور پر دوزخ میں گیا۔ اُس نے خدا سے کہا کہ ” مَیں نے اعلانیہ اقرار کیا کہ مَیں خدا کے نزدیک ایک گنہگار ہو ں اور اُسکے نزدیک کبھی بھی راستباز نہیں ٹھہر سکتا ہوں۔“ اُس نے اپنی موت کے وقت تک گنہگار رہنے پر زور دیا۔ اُس نے خدا کی محبت اور سچائی کو آخری سانس تک رد کیا۔ پھر خدا وند نے کہا، ” تم اپنے من گھڑت ایمان میں کافی ایماندار ہو !تمہارے ایمان کے مطابق تمہارے لئے یہی مناسب ہے کہ تم دوزخ میں جاؤ۔ مَیں تمہیں اِ س لئے دوزخ میں بھیجتا ہوں کیونکہ گنہگار آسمان کی بادشاہی میں کبھی داخل نہیں ہو سکتے۔“
 
 
اگر میں ایمان لا چکا ہوتا،
 
پھر وہ آدمی جس نے کہا تھا، ” میں اعلانیہ اقرار کرتا ہوں کہ میں مرنے کے دن تک گنہگار ہوں“ جہنم میں گیا۔ یہاں تک کہ خدا ایسے لوگوں کی مدد ہی نہیں کرتا۔ وہ نہ صرف خود یہ اعلانیہ کہتے ہیں کہ وہ گنہگار ہیں، بلکہ وہ دوسرے ایمانداروں کو بھی جو اُنکے پیرو کار ہیں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ ہم مرنے کےدن تک گنہگار ہیں اور جب تک ہم خدا کے سامنے حاضر کئے جائیں گے تب بھی ہم گنہگار ہی ہونگے تاہم ایسوں کا انجام آنے والے برسوں میں جہنم ہی ہے۔“ اسلئے، بہت سارے ایماندار بھی اِسی مذہبی جڑ کی پیروی کرتے ہیں۔ خُدا نے فرمایا کہ گنہگار دوزخ میں جائیں گے۔ مگر، آج کل کی مسیحیت میں بے شمار مسیحی اِس تعلیم کی پیروی کرتے ہیں۔خدا نے فرمایا کہ ایسے گنہگار جہنم کی آگ کے شعلوں میں یہ کہتے ہوئے ابدی ماتم اور دانت پیسیں گے ” اگر میں ایمان لا چکا ہوتا، اگر میں صرف اِسی پر ایمان لا چکا ہوتا۔“
” اگر میں اِس حقیقت پر ایمان لاچکا ہوتا کہ یسوع نے میرے سب گناہوں کو دور کر دیااور اپنے خیالات کو چھوڑ دیتا ،تو میں آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونے کے لائق ہوتا! “ ” اگر میں ایمان لا چکا ہوتا :اگر میں صرف اِس پر ایمان لا چکا ہوتا۔“ بہت سارے لوگ اِسی طرح بڑبڑاتے ہوئے جہنم میں جا رہے ہیں۔ وہ کہیں گے، ” اگر، اگر،اگر میں ایمان لا چکا ہوتا، اگر میں سچائی کو پا لیتا ،تو میں بھی اُس کا فرزند ٹھہرنے کے لائق ہو چکا ہوتا۔ ” کیوں میں اتنا سرکش ہو چکا تھا۔۔۔۔۔“
ہم جو راستباز ہیں اُس وقت خدا سے پوچھیں گے،”خدا وند، مہربانی سے ہمیں دکھاکہ گنہگار اب کیا
کر رہے ہیں۔ وہ جنہوں نے ہم، راستبازوں کو ستایا۔“ ” نہیں، میرے بچو ،یہ تمہارے لئے اچھا نہیں کیونکہ تمہارادل اُن سے واقفیت کے بعد غمزدہ ہو جائے گا۔ کیا تم واقعی اُن لوگوں کو دیکھنا چاہتے ہوتم جان کر پریشان ہوگے؟ “ ” مہربانی سے ہمیں صرف ایک مرتبہ دکھا دے! “ خداہمیں کسی دن دکھا دیگا کیونکہ وہ بڑا کریم ہے۔پس اِس طرح فرض کریں کہ ہم یہ دیکھتے ہیں۔ ہم وہاں بہت سی چیخ و پکار کو سنیں گے: ” اگر میں ایمان رکھتا، اگر میں ایمان لا چکا ہوتا “ پھر ہم حیران ہونگے کہ ”یہ شور کیسا ہے؟ کیا وہ گا رہے ہیں؟ “ ”دھیان سے سنیں کہ وہ گا رہے ہیں یا ماتم کر رہے ہیں۔“ مرد اور عورتیں اِن شعلوں میں کورس گا رہے اور ماتم کرتے ہیں، ” اگر میں ایمان لا چکا ہوتا۔“
سرکش لوگ جب تک اپنے سرکش راستہ کو درست نہ کر لیں اُس وقت تک وہ جہنم میں جائیں گے۔ واقعی ہمیں مُستقل مزاجی سے سچائی کو مضبوطی سے تھام لینے کی ضرورت ہے۔ آدمی کو غیر فیصلہ کُن نہیں ہونا چاہیے۔ جب ہم ثابت قدم ہو چکے ہیں تو ہمیں ثابت قدم ہی رہناچاہیے۔ ہم سب کو اصل راستہ پر ثابت قدم رہنا ہے۔ کیونکہ جب ہمیں اِس مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے تو ہم اِسے چھوڑ دیتے ہیں۔
 
 
خدا ہر ایک آدمی کو اُسکے کاموں کے موافق بدلہ دیگا
          
خُدا ” ہر ایک کو اُسکے کاموں کے موافق بدلہ دیگا۔جو نیکو کاری میں ثابت قدم رہ کر جلال اور عزت اور بقا کے طالب ہوتے ہیں اُنکو ہمیشہ کی زندگی دیگا “ (رومیوں۲:۶۔۷)۔ خدا ہر ایک شخص کو اُس کے کاموں کے موافق بدلہ دیتا اور اُس کی عدالت کرتا ہے۔ ’بدلہ ‘ کامطلب ہے کہ ’ کاموں کے ساتھ اُس کے موافق اجر پانا۔ ‘ وہ کس قسم کے اشخاص ہیں جو نیکو کاری میں ثابت قدم رہ کر جلال اور عزت اور بقا کے طالب ہوتے ہیں؟ یہ وہی شخص ہے جو یسوع کی کامل نجات پر ایمان رکھتا ہے۔
دنیا میں بہت سے لوگ ہیں، لیکن خدا صرف اُن کو ابدی زندگی عنائت کرتا ہے جو اُسکی راستبازی کیلئے دُکھ سہتے ہیں، اِس بات سے قطع نظر کے دوسرے لوگ اُن کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ وہ اِس سچائی پر ایمان لاتے ہیں۔ خدا ابدی بادشاہت کا انعام اُن سب کو دیتا ہے جو راستباز بننا چاہتے اور نیکو کاری کی زندگی میں چلنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ نیکو کاری میں ثابت قدم رہ کر جلال اور عزت اور بقا کے طالب ہوتے ہیں اور خدا کے بیٹے ٹھہرنا چاہتے ہیں۔ وہ صبر کرتے اور نیکو کاری میں ثابت قدم رہ کر خدا کی راستبازی کی پیروی اور جستجو کرتے ہیں۔ خدا اُن لوگوں کو ابدی زندگی عطا کرتا ہے۔ خدا اِنہیں ابدی طور پر زندہ رہنے اور اِنہیں اپنے فرزند ٹھہرنے کی اجازت دیتا ہے۔ خدا کے بیٹے خدا کی بادشاہت کے مالک ہیں۔
” مگر جو تفرقہ انداز اور حق کے نہ ماننے والے بلکہ ناراستی کے ماننے والے ہیں اُن پر غضب اور قہر ہوگا۔ “ (رومیوں۲:۸)۔ ”مگر اُن پر“ اُن لوگوں کی جماعت سے مخاطب ہے جو مبارک لوگوں کے خلاف ہیں۔ اُ ن پر جو حق کے نہ ماننے والے بلکہ ناراستی کے ماننے والے ہیں ایسوں پر خدا کا قہر اور غضب ہوتا ہے۔ خدا ایسوں کو جہنم میں بھیجتا ہے۔ جو نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئے اور نہ ہی حق کے ماننے والے بلکہ تفرقہ انداز ہیں وہ یک جماعت ہو کر سچائی کی مخالفت کرتے ہیں۔
جو نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئے وہ تفرقہ انداز ہیں اور وہ اُن کے جتھوں کو پسند کرتے ہیں۔
کورین تاریخ کے مطابق، ہمارے باپ دادا نے سیاسی مشکلات میں جتھے بنائے اور ایک دوسرے کا مقابلہ کیا۔ جیتنے والی جماعت حقیقت کے مطابق فیصلہ کرتی کہ بادشاہ کو ن ہوگا۔ جب ’لی‘ گھرانوں کا بادشاہ بنتا تو لی گھرانوں کے آدمیوں کو بلند معاشرتی مقاموں پر فائز کیا جاتا تھا جبکہ دوسروں کو نکال باہر کر دیا جاتایااذیتیں پہنچائی جاتی تھیں۔ لیکن جب شاہی تخت ’ کم‘ خاندان کے پاس آجاتا، تو ہر چیز یکسر بدل جاتی تھی۔ لوگ اپنے فائدہ کیلئے گروہ بندیا ں کر لیتے، نہ کہ انصاف کے مطلب کو حاصل کرنے کیلئے۔  
موجودہ مسیحیت بھی بالکل اسی طرح ہے۔ وہ فرقے اور طبقے بناتے ہیں۔کس لئے؟ کہ ایک جماعت کے طور پر سچائی کے نافرمان بن سکیں۔ اگرچہ یسوع نے دنیا کے گناہوں کو دور کر دیا ہے تو بھی وہ مُتفق ہو کر کہتے ہیں کہ وہ گناہ آلودہ ہیں۔ وہ یہ کہتے ہوئے راستباز ہونے کاعذُر کرتے ہیں کہ وہ گناہ آلودہ ہونے میں درست ہیں جبکہ وہ بدعتی ہیں۔خداوند کہتا ہے کہ گنہگار جو اپنے آپ کو راستباز سمجھتے ہیں،وہ غلط ہیں اور یہ کہ وہ سب جہنم کی راہ کو جاتے ہیں۔
جو حق اور خدا کی فرمانبرداری کرتے ہیں وہ خدا کے کلام کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ ہم ،راستباز ایمان رکھتے ہیں کہ خدا کی عدالت حق کے مطابق ہوتی ہے۔
 
 
کیا مسیحی فرقے ہمیں آسمان کی بادشاہی میں بھیج سکتے ہیں؟
 
مسیحی فرقے ہمیں آسمان کی بادشاہی میں داخل نہیں کر سکتے۔ میر ی بیوی نے جب اپنی ساس سے
کہا کہ ” ایک مذہنی فرقہ آپکو آسمان کی بادشاہت میں نہیں بھیج سکتا “ تو وہ سخت غصہ میں آگئی۔ دوستانہ طور پر بتا رہا ہوں ،میں نہیں جانتا کہ کیوں میری ماں اُسکے اِ س دعویٰ پر طیش میں آ گئی۔ کیا آپ کے خیال میں ایک مذہبی فرقہ آپکو آسمان کی بادشاہی میں بھیج سکتا ہے؟ ہم انفرادی طور پر خدا کے کلام پر ایمان لانے کے وسیلہ نجات پاتے اور آسمان کی بادشاہی میں داخل ہوتے ہیں۔کیا پریسبٹیرین گرجا گھر کا فرقہ آپکو آسمان کی بادشاہی میں بھیج سکتا ہے؟ کیا بپتسمہ دینے والے گرجا گھر کا ایک فرقہ آپکو بھیج سکتا ہے؟ کیا ہولینس گرجا گھر ایسا کر سکتا ہے؟ کیا سیونتھ ڈے ایڈوینٹسٹ گرجا گھر ایسا کر سکتا ہے؟ نہیں۔ ہم صرف اِس صورت میں ہی آسمان کی بادشاہت میں داخل ہو سکتے ہیں جب ہم گناہوں کی اُس معافی پر ایمان لاتے ہیں جو یسو ع نے ہمارے لئے مہیا کی ہے۔
 
 
ہمیں خدا کی کلیسیا میں رہنا چاہیے
          
پولوس رسول نے ظاہر ی طور پر گنہگاروں کو جو جہنم میں جائیں گے راستبازوں سے جو آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونگے تمام مسیحیوں سے الگ کر دیا ہے۔ یہودیوں اور یونانیوں کی طرح خوشخبری ہر ایک کیلئے یکساں ہے۔ یہاں یہودیوں کو اسرائیل کیلئے بیان کِیا گیا ہے اور یونانیوں کو غیر قوموں کے طور پر بیان کِیا گیا ہے۔ خدا لوگو ں کی ظاہر ی موجودگی پر نگاہ نہیں کرتا ہے۔ خدا اُس آدمی پر نگاہ کرتاہے جو اپنے دل سے خداکے کلام پر ایمان لاتا ہے۔ کیا آپ ایمان رکھتے ہیں کہ یسوع خدا ہے؟کیا آپ ایمان رکھتے ہیں کہ یسوع ہمارا نجات دہندہ ہے؟ ہم صرف تب ہی آسمان کی بادشاہی میں داخل ہو سکتے ہیں جب ہم یہ ایمان رکھیں کہ یسوع نے اپنے بپتسمہ سے دنیا کےسب گناہوں کو دور کر دیا۔ ہمیں اِس پر ایمان لانا ہے اور اِس سے منہ نہیں موڑنا ہے ۔ روح القدس جو ہم میں بساہوا ہے ہمارے ایمان کو قائم رکھتا اور جب مشکل ہم پر آن پڑتی ہے تو ہمارے دشمنوں کو شکست دیتاہے۔ ہمیں محتاط ہونا ہے۔
بائبل میں، ایک تمثیل بیا ن کی گئی ہے جس میں چار اقسام کی زمین کا ذکر ہے ،مگر کچھ زمین اُن پر
دلالت کرتی ہے جو نجات نہیں پا سکتے۔اُن جگہوں پر بیج بویا گیا او ر جونہی اُگا مر گیا۔ یہ بالکل مرے ہُوئے بیج کی مانند ہے۔ اِس کا انجام قطعی موت ہے۔ پھر کیا ہم اپنے آپ سے اپنے ایمان کو قائم رکھ سکتے ہیں؟نہیں۔ ہم اپنے ایمان کو صرف تب ہی قائم رکھ سکتے ہیں جب خداوند ہمیں ہر ایک مشکل کو برداشت کرنے کی قوت دے اور ہر ایک روحانی بیماری کیلئے چارہ کار مہیا کرے کہ ہم انگور کے حقیقی درخت میں پیوند ہو جائیں۔
خدا کی کلیسیا انگور کی تاک ہے۔ خداوند ہمیں برکتیں، چارہ کار، تشفی، اور اذیتوں کو برداشت کرنے کا ایمان بخشتاہے تاکہ ہم خداکی کلیسیا میں شامل ہو جائیں۔ لیکن اگر ہم انگور کے حقیقی درخت میں قائم نہ رہیں تو ہمارے ساتھ کیا ہو گا؟ ہم فی الفور مر جائیں گے۔ اگرچہ راستبازوں کے دلوں میں بہت سی خوبیاں اور قوتیں ہیں تو بھی اگر ہم نے خود کو اپنی مرضی سے خدا کی کلیسیا کے ساتھ پیوست نہیں کیا تو ہم
شیطان کےحملے کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے اور لازمی بیمار ہو جاتے ہیں۔ کیا آپ یہ جانتے ہیں؟وہ آہستہ آہستہ گر جاتے اور پہلے سے بھی زیادہ بیکار ہو جاتے ہیں۔ بائبل مقدس فرماتی ہے، ” تم زمین کے نمک ہو لیکن اگر نمک کا مزہ جاتا رہے تو وہ کس چیز سےنمکینکیا جائے گا؟ پھر وہ کسی کام کا نہیں سِوا اِسکے کہ باہر پھینکا جائے اور آدمیوں کے پاؤں کے نیچے روندا جائے “ (متی۵:۱۳)۔
یہاں تک کہ اگر راستباز کلیسیا سے جدا ہیں تو پھر وہ کسی کام کے نہیں۔ جب وہ کلیسیا میں رہتے تو اُنکی روشی چمکتی ہے اور وہ مبارک ٹھہر سکتے ہیں۔ مگر جب وہ کلیسیا سے لاتعلق ہو کر زندہ رہتے ہیں تو وہ بدحال ہو جاتے ہیں اور جب وہ کلیسیا سے تعلق کو قطع کر لیتے ہیں تو وہ گمراہی کے گھڑے کی طرف جاتے ہیں اسطرح وہ دنیا پر غالب نہیں آسکتے ہیں۔کب تک آپ اپنے اعتقاد کو قائم رکھ سکتے ہیں؟کب تک آپ خدا کی کلیسیا سے جدا ہو کر قائم رہ سکتے ہیں؟ یہاں تک کہ خدا کے خادمین بھی اسطرح غلبہ حاصل نہیں کر سکتے۔ تاہم،اگر ہم انگور کے حقیقی درخت سے پیوست ہو جائیں،ہمارے گھرانے بچائے جائیں گے، اور بہت سارے لوگ ہمارے وسیلہ گناہوں کی معافی حاصل کر سکتے ہیں۔ لوط اپنی نفسانی خواہش کے بہکاوے میں آ کر کہا ں گیا؟ وہ صدوم کو گیا۔ وہ وہاں خوب رہا۔ لیکن نتیجہ کیا ہوا؟وہ تباہ ہو گیا۔ بائبل مقدس فرماتی ہے کہ وہ سب جو لوطی ہیں تباہ ہو گئے تھے۔ موابی اور عمونی لوط کی بیٹیوں سے پیداہوئے۔
لوط جو کہ راستباز شخص تھا کیوں اُس کی نسل سے خدا کے مخالف پیدا ہوتے تھے؟ اِسلئے کیونکہ وہ کلیسیا سے جدا ہو گیا تھا۔ کیوں میں اپنی کسی بھی مشکل ترین وقت میں مایوس نہ ہوا، اس کا سبب یہ ہے کہ خدا نے اپنی کلیسیا کا خود انتظام کیا۔ جہاں راستباز جمع ہوتے ہیں وہاں خدا اپنی کلیسیا کو برکت دیتاہے اور اُن کا چرواہابنتاہے اور خدا کی کلیسیا ہر ایک مقدس کیلئے ہے۔ یہ اُس کا عہد اور یقین دہانی ہے۔
” اسلئے کہ جنہوں نے بغیر شریعت پائے گناہ کیِاوہ بغیر شریعت کے
ہلاک بھی ہونگے اور جنہوں نے شریعت کے ماتحت ہو کر گناہ کیِااُن کی سزا شریعت کے موافق ہو گی۔ کیونکہ شریعت کے سننے والے خداکے نزدیک راستباز نہیں ہوتے بلکہ شریعت پر عمل کرنے والے راستباز ٹھہرائے جائیں گے۔ اِسلئے کہ جب وہ قومیں جو شریعت نہیں رکھتیں اپنی طبعیت سے شریعت کے کام کرتی ہیں تو باوجود شریعت نہ رکھنے کے وہ اپنے لئے خود ایک شریعت ہیں۔ چنانچہ وہ شریعت کی باتیں اپنے دلو ں پر لکھی ہوئی دکھاتی ہیں اور اُن کا دل بھی اُن باتوں کی گواہی دیتاہے اور اُن کے باہمی خیالات یا تو اُن پر الزام لگاتے ہیں یا اُن کو معذور رکھتے ہیں “ (رومیوں۲:۱۲۔۱۵)۔
ایک شخص جو اِن دنوں گرجا گھر نہیں جاتا خدا کی شریعت سے و اقف نہیں ہے۔پھر اُسکا ضمیر ہی اُسکے لئے شریعت بناتا ہے کیو نکہ وہ بغیرشریعت کے ہے۔اگرچہ وہ برائی کرتا ہے ،پھر بھی وہ اپنے ضمیر میں اِس اچھائی اور برائی سے آگاہ ہے۔پھر،یہ ایک گناہ ہے اور اُسے گناہوں سے مخلصی پانے کیلئے خدا کی تلاش کرنی چاہیے۔جو کوئی خدا کو حقیقت میں تلاش کرتا ہے وہ خدا کو پا لیتا ہے۔
ہمیں خدا کے نزدیک اُس کے رحم کی تلاش کرنی چاہیے اور اُس پر ایمان لانا چاہیے۔ جب ہم اپنی خودی کو ترک کرتے ہیں تو ہمیں اُس پر ایمان لانا ضرور ہے۔ ضرور ہے کہ ہم ایمان سے جیتے رہیں۔ ضرور ہمیں خدا کی کلیسیا میں شامل ہونا چاہیے۔ ہمیں خدا کو تلاش کرنا اور اُس کی کلیسیا میں رہنا چاہیے۔ اگرچہ ہم کمزور اور بُرے ہی کیوں نہ ہوں تو بھی جب ہم کلیسیا میں رہیں تو خدا ہمیں نکال باہر نہ کریگا۔
 
 
یہودیوں کا گناہ
 
پولوس رسول یہودیوں کو اُن سے الگ کرنے کے بعد جو آسمان کی بادشاہی میں داخل ہو رہے ہیں
مکمل پیمانہ سے انہیں خوشخبری کی منادی کرنا شروع کرتا ہے۔
” پس اگر تو یہودی کہلاتااور شریعت پر تکیہ اور خدا پر فخر کرتا ہے۔ اور اُس کی
مرضی جانتا اور شریعت کی تعلیم پا کر عمدہ باتیں پسند کرتا ہے۔ اور اگر تجھ کو اِس بات پر بھی بھروسہ ہے کہ میں اندھوں کا رہنما اور اندھیرے میں پڑے ہوؤں کیلئے روشنی ۔اور نادانوں کا تربیت کرنے والا اور بچوں کا اُستاد ہوں اور علم اور حق کا جو نمونہ شریعت میں ہے وہ میرے پاس ہے۔ پس تو جو اَوروں کو سکھاتا ہے اپنے آپ کو کیوں نہیں سکھاتا؟ تو جو واعظ کرتا ہے کہ چوری نہ کرنا آپ خود کیوں چوری کرتا ہے؟ تو جو کہتا ہے کہ زنا نہ کرنا آپ خود کیوں زنا کرتا ہے؟ تو جو بتوں سے نفرت رکھتا ہے آپ خود کیوں مندروں کو لوٹتا ہے “ ( رومیوں۲: ۱۷۔۲۲)۔
ضرور ہے کہ ہم نیچے دیئے گئے فقروں کو جانیں۔ خدا نے اصل میں یہودی قوم کو بلایا اِسی طرح خدا کا کلام اور قربانی کے ذریعے گناہوں کی معافی کا نظام بھی اُنہی کے سپُرد ہوا۔ اُس نے وعدہ کیا کہ مسیحا یہودیوں کے وسیلہ اِس دنیا میں آئیگا اور اپنے اِس منصوبہ کو یہودی انبیاء کے وسیلہ ظاہر کیا۔ اِسی طرح موسیٰ اوردیگر تمام انبیاء اکرام یہودی تھے۔ تاہم،یہودی یہ سوچتے تھے کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ خدا کو کیسے خوش کر ینگے اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اُس کی شریعت کیا تھی کیونکہ وہ بڑی مستعدی سے اِسے زبانی تلاوت کرتے او رخدا کے کلام کو ہمیشہ یاد کرتے کہ اُس کی شریعت کیا تھی۔ پھر بھی ،پولوس رسول نے کہا، ” پس اگر تو یہودی کہلاتا اور شریعت پر تکیہ کرتااور خدا پر فخر کرتا ہے۔ “ اگرچہ یہودی خدا پر فخر کرتے اور اُس کی قربانیوں کی بے مثال طور پر خدمت کرتے تو بھی وہ نجات یا فتہ نہ تھے۔ جو یسوع پر مکمل طور پر ایمان نہیں رکھتے وہ بالکل بے ایمان کی طرح ہیں۔اِسکا مطلب ہے کہ اُنہوں نے نہ تو خدا کے وعدہ پر یقین کیا کہ وہ انہیں اپنی قربانی کے نظام کی طرح مخلصی دیگا اور نہ ہی یسوع پر نجات دہندہ ہونے کا ایمان رکھا۔
ایسے یہودی جہنم میں جائیں گے کیونکہ اُنہوں نے یسوع کے نجات دہندہ ہونے پر ایمان نہیں رکھا۔ اُن کیلئے مینڈھے کے سر پر بار بار ہاتھ رکھنا بیکار ہو چکا ہے۔ وہ واقعی ایمان نہیں لاتے کہ، ’ ہاتھ دھرنے ‘ کا مطلب ’ گناہوں کو لادنا ‘ ملاکی نبی کے وقت تک ،اور پرانے عہد نامہ کے آخر تک تھا۔ وہ داؤد کے وقت تو اِس پر خوب ایمان رکھتے تھے،لیکن سلیمان کے زمانہ سے اُنکا ایمان ناقص ہو نا شروع ہو چکا تھا۔ بادشاہت کی تقسیم کے دورا ن، اُنہوں نے دوسرے دیوتاؤں مثلاً بعل اور عستارات کی پوجا کی حالانکہ وہ ہیکل میں رسمی قربانیا ں گُذرانتے تھے۔ رسمی قربانیاں گذراننا بالکل خدا پر ایمان نہ لانے کے برابر ہے۔ جب ہم خدا پر ایمان لاتے اور اُس کے کلام پر عمل کرتے ہیں تو خدا مُطمئنِ ہوتا ہے۔
خیمہ گاہ کے قربانی کے نظام میں، ایک شخص کے گناہ ،قربانی کے جانور کے سر پر اُس کے ہاتھ رکھنے سے لاد دئیے جاتے تھے۔ پس وہ خود تو اِس پر ایمان نہیں لاتے مگر دوسروں کو اِس کی تعلیم دیتے ہیں اگرچہ وہ جانتے ہیں کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط پھر بھی ایمان نہیں لاتے۔ یہی یہودیوں کا گناہ تھا۔ خدا کے کلام کی سچائی کو جانتے ہوئے اُس کے کلام پر ایمان نہ لانا اور کلام کی تعلیم لوگوں کو دینا یہ ہی وہ گناہ تھا جو یہودی کرتے تھے۔
یہ بالکل خدا پر ایمان نہ لانے کے برابرہے۔ یہ ایک متعدی گناہ ہے۔ ” پس اگر تو یہودی کہلاتا اور شریعت پر تکیہ اور خدا پر فخر کرتا ہے۔ اور اُس کی مرضی جانتا اور شریعت کی تعلیم پاکر عمدہ باتیں پسند کرتا ہے۔ اور اگر تجھ کو اِس بات پر بھی بھروسہ ہے کہ میں اندھوں کا رہنما اور اندھیرے میں پڑے ہوؤں کیلئے روشنی۔ اور نادانوں کا تربیت کرنے والا اور بچوں کا اُستاد ہوں اور علم اور حق کا جو نمونہ شریعت میں ہے وہ میرے پاس ہے ۔“( رومیوں۲: ۱۷۔۲۰)۔ پولوس یہودیوں کے درمیان بے اعتقادی کے نقطہ کو اُٹھاتا ہے۔
 
            
گناہ کو دل میں رکھ کر یسوع پر ایمان لاناخدا کی بے حُرمتی کرنے کے برابر ہے
          
ہم یہودیوں کی اِس غلطی کو آج کے اکثر مسیحیوں پر لاگو کر سکتے ہیں۔ یہودی بالکل اُن کی طرح ہیں جو یسوع پر ایمان نہیں لائے کہ وہ اُن کو پاک کرنے کہ وسیلہ اُنکے سب گناہوں کو مٹا چکا ہے۔ ” تو جو شریعت پر فخر کرتا ہے شریعت کے عدُول سے خدا کی کیوں بیعزتی کرتا ہے؟ کیونکہ تمہارے سبب سے غیر قوموں میں خدا کے نام پر کفر بکا جاتاہے۔ چنانچہ یہ لکھا بھی ہے“ (رومیوں۲:۲۳۔۲۴) اگر ہم یسوع پر غلط طور سے ایمان لاتے ہیں تو ہم اُسکے نام کو بے حُرمت کرتے ہیں۔اگر ہم یسوع کے کلام پر درست طور سے ایمان نہیں لاتے اور نئے سرے سے پیدا نہیں ہوتے تو یہ بھی خدا کے نام کو بے حُرمت کرنے کے برابر ہے۔
نئے سرے سے پیدا ہوئے بغیر ہی یسوع پر ایمان لائے رکھناخدا کے نام کی بے حُرمتی ہے۔ ”ختنہ سے فائدہ تو ہے بشرطیکہ تو شریعت پر عمل کرے لیکن جب تو نے شریعت سے عدُول کیا تو تیرا ختنہ نامحتونی ٹھہرا۔ پس اگر نامختون شخص شریعت کے حُکموں پر عمل کرے تو کیا اُس کی نامختونی ختنہ کے برابر نہ گنی جائے گی؟ اور جو شخص قومیت کے سبب سے نا مختون رہا اگر وہ شریعت کو پورا کرے تو کیا تجھے جو باوجود کلام اور ختنہ کے شریعت سے عدُول کرتا ہے قصور وار نہ ٹھہرائیگا؟۔ کیونکہ وہ یہودی نہیں جو ظاہر کا ہے اور نہ وہ ختنہ ہے جو ظاہر ی اور جسمانی ہے۔ بلکہ یہودی وہی ہے جو باطن میں ہے اور ختنہ وہی ہے جو دل کا اور روحانی ہے نہ کہ لفظی۔ ایسے کی تعریف آدمیوں کی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہوتی ہے “ (رومیوں۲: ۲۵۔۲۹)۔ ہم سب کو یسوع کے کلام کو پورے دل کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔
 
 
کون پہلے آیا ختنہ یا شریعت؟
 
کون پہلے آیا ختنہ یا شریعت؟ خدا نے اسرائیل کو پہلے کیا دیا؟ ختنہ۔ خدا نے ابراہام کو پہلے ختنہ کے متعلق بتایا۔ ابراہام ۹۹برس کا ہوچکا تھا تو بھی اُسکے کوئی وارث نہ تھا۔ تاہم،خدا نے ۷۵برس کی عمر میں ابراہام کو ایک بیٹا جو اُسکا وارث ہو دینے کا وعدہ کیا تھا۔ خدا نے ابراہام کو بتایا، ” باہر آجا ،میں آسمان کے ستاروں کی طرح تیری اولاد کو بڑھاؤنگا۔ “ ابراہام خدا کے کلام پر ایمان لایا اور ۲۵برس تک اِس وعدہ کے پورا ہونے کا انتظار کیا۔آخر کا یہ وعدہ ۲۵برس کے بعد پوراہُوا۔ اِسلئے ،جب وہ ۱۰۰برس کا ہوا تو اُس کو اُس کا وارث بیٹا بخشا گیا۔ اگرچہ وہ انتظار کے دوران کچھ مایوس بھی ہوا اور بہت سی غلطیا ں بھی کیں تو بھی اُس نے ۲۵برس تک خداکے وعدہ کے پورا ہونے کا انتظار کِیا۔خدا نے اُسے اور اُسکی اولاد کو وعدہ کی سر زمین کنعان کا مُلک دینے کا وعدہ بھی کیا، جو روحانی طور پر آسمان کی بادشاہت پر دلالت کرتا ہے۔
آسمان کی بادشاہی کا وعدہ کرنے کے بعد، خدا نے ابراہام اور اُسکے گھر میں رہنے والے ہر ایک مرد کیلئے ختنہ کا نشان مقرر کیا۔ خدا نے اُنہیں بتایا کہ ختنہ تمہارے اور میرے درمیان ایک عہد کا نشان ہوگا۔ اِسلئے، ابراہام نے اپنے کھلڑی کاٹ کر اپنا ختنہ کِیا۔ اور اُسکے گھر میں رہنے والے ہر ایک مرد نے اِس رسم کو پورا کِیا ۔ختنہ اُس ایمان کی مانند ہے جسکے وسیلہ ہم ایمان لاتے اور حق کی خوشخبری کو حاصل کرتے ہیں۔
 
 
اسرائیل نے دل کے ختنہ کا انکار کِیا
          
 تاہم،اسرائیلی ابراہام کی اولاد ہونے پر فخر کرتے اور مختون ہونے کے باعث ،شیخی میں غیر قوموں سے پوچھتے ہیں۔ ” کیا تُمکو ختنہ دیا گیا؟ “ ضرور ہے کہ ہمارے دل کا ختنہ ہو۔ جب ہم یہ کلام حاصل کرتے ہیں کہ یسوع نے دنیا کے گناہوں کو مٹا دیا اور اِس پر پورے دل سے ایمان لاتے ہیں تو ہم نجات پاتے ہیں۔
اسرائیل سے بڑھ کر کسی دوسرے مُلک پر حملہ نہیں ہُواہوگا۔ وہ تقریباً دو ہزار سالوں سے ایسے گہرے صدمہ میں ہیں جیسا کہ ایک بے گھر آدمی اپنے گھر کیلئے۔ خد اکا قہر اسرائیل پر بھڑکا۔ کیوں؟ کیونکہ وہ ایمان نہ لائے۔
وہ خدا کے نام کی تکفیر کرتے ہیں کیونکہ اگرچہ خدا نے اسرائیل سے محبت کی اور چاہا کہ وہ اِس پر ایمان لائیں کہ خدا نے اُن کے گناہوں کو دور کر دیا ہے، تو بھی وہ ایمان نہیں لائے۔ وہ اسرائیل کا چرواہا بن کر اُنکے دشمنوں کو شکست دینا چاہتا تھا اور اُنہیں برکت اور محبت اور جلال دینا چاہتاتھا۔
اگر وہ اِس پر اپنے دل سے ایمان لائیں اور گناہوں کی معافی پائیں تو خدا اُنہیں اپنا جلال دینے اور
 اپنا فرزند بننے کا حق بخش چکا ہے۔ اسرائیل کی مثال کے وسیلہ، خدا دنیا کے سب لوگوں کو خبردار کرتا ہے کہ اگر اُنہوں نے اُسکے وعدہ کا یقین نہ کِیا،تو وہ جہنم کی آگ میں ڈالے جائیں گے۔
خدا وعدہ کر چکا ہے کہ جو کوئی اُسکی حقیقی خوشخبری پر ایمان لائے وہ سب نعمتیں جنکا یسوع نے وعدہ کِیاہے اگرچہ وہ شریعت کو پورا نہیں کر سکتا تو بھی حاصل کر سکتا ہے۔ خد ا کی عدالت سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ خوشخبری پر ایمان لائیں۔ اِس پر ایمان لائیں، تو آپ نجات پائیں گے اور جہنم کی آگ سے بچنے کے قابل ہو جائیں گے۔
 میری خواہش ہے کہ خداوند کا فضل ہر ایک روح پر بکثرت ہو۔