Search

খ্রীষ্টীয় বিশ্বাসের উপরে যে প্রশ্নগুলি প্রায়শই করা হয়ে থাকে

বিষয় ১: জল ও আত্মা হতে নুতন জন্ম প্রাপ্ত হওয়া

1-24. کیا آپ ایسا نہیں سوچتے کہ یسوؔع کے بپتسمہ کو نجات کے لئے ناگزیر سمجھنا خوشخبری میں اُسکی صلیبی موت کو رَدّ کردے گا ؟

یسوؔع کا بپتسمہ اور اُسکی صلیبی موت ہماری نجات کے لئے مساوی طور پر لازمی  ہیں۔ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آیا کوئی ایک دوسرے سے زیادہ اہم ہے۔ تاہم، مشکل یہ ہے کہ آجکل زیادہ تر مسیحی صرف یسوع کےصلیبی خون سے واقف ہیں۔وہ ایمان رکھتے ہیں  کہ وہ معاف ہوچُکے ہیں کیونکہ وہ صلیب پرمرگیا ،مگر یہ فقط صلیب ہی نہیں ہے جسکے سَنگ یسوؔع نے دُنیا کے گناہ اُٹھالئے ۔چونکہ اُس نے یوؔحنا اِصطباغی  سے بپتسمہ لیااور اپنی پیٹھ پر دُنیا کے تمام گناہ برداشت کئے ،یوں  اُسکی صلیبی موت عملی طور پر  ہمارے تمام گناہوں کی سزاہو سکتی  تھی۔
یسوؔع کے بپتسمہ کے بغیر صرف صلیب پر ایمان رکھنابالکل ایسے ہی ہے جیسےکوئی آدمی خُداوند کے سامنےاُس  پر ہاتھ رکھنے کے بغیرکوئی قربانی پیش کرے۔وہ  لوگ جو ایسی قربانیاں چڑھاتے تھےاپنے گناہوں سےرہا نہیں ہوسکتے تھےکیونکہ اِس قسم کی قربانی خلافِ شرع قربانی تھی، جسے خُداوند خُداقبول نہیں کرسکتا تھا۔خُداوند نے موسیٰؔ کو بلایا اوراُسے جائے  ملاپ کے خیمہء اجتماع سے یوں فرماتے  ہوئے حکم دیا، ’’اگر اسکا چڑھاواگائے بیل کی سوختنی قربانی ہو تو وہ بے عیب نرکو لاکر اسے خیمہ ء اجتماع کے دروازہ پر چڑھائے تاکہ وہ خود خُداوند کے حضور مقبول ٹھہرے ۔ اور وہ سوختنی قربانی کے جانور کے سر پر اپنا ہاتھ رکھے تب وہ اسکی طرف سے مقبول ہو گا تاکہ اسکے لئے کفّارہ  ہو۔‘‘(احبار۱:۳- ۴)۔
خُداوندعادل اور قانون پسند ہے۔وہ ہمارے گناہوں کو دھونے کے سلسلے میں منصف اور راست قربانی کا نظام قائم کر چُکا ہے ۔ جب ہم شریعی قربانی پیش کرتےہیں، تو وہ قربانی خُداوند کے حضور ہماراکفّارہ دینے کے لئے منظور ہوتی ہے۔ہاتھ رکھنے کے بغیر،کوئی قربانی خُداکو منظور نہیں ہو سکتی۔اِسی طرح،اگر ہم اُس پر اپنے ایمان میں سے یسوؔع کا بپتسمہ خارج کر تے ہیں،توہم اِس قسم کے ایمان کے ساتھ گناہوں کی بخشش حاصل نہیں کر سکتے۔
سب سے زیادہ عام مغالطوں میں سے ایک جس پر آج کے مسیحی ایمان لاتے ہیں یہ ہے کہ وہ فقط یسوؔع کے اُن کےنجات دہندہ ہونے کا اِقرار کرنے کے وسیلہ سے نجات یافتہ ہو سکتے ہیں ،کیونکہ خُداوند محبت ہے۔بے شک،کتابِ مقدّس ارشاد فرماتی ہے، ’’جو کوئی خُداوند کا نام لیگا وہ نجات پائے گا۔‘‘(اعمال۲:۲۱،رومیوں۱۰: ۱۳)،جب کہ یہ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ’’جو مجھ سے اے خُداوند اے خُداوند ! کہتے ہیں اُن میں سے ہر ایک آسمان کی بادشاہی میں داخل نہ ہو گامگر وہی جو میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلتا ہے۔‘‘ (متی۷ :۲۱)۔
یہ اِقرار کرنے کے سلسلے میں کہ یسوؔع نجات دہندہ ہے، ہمیں نجات کی اُس شریعت کوجاننا چاہئے جسےخُدا قائم کر چُکا ہے ۔ اگر ہم سادگی سے یسوؔع کے نام پر ایمان لانے کے وسیلہ سے نجات یافتہ ہو سکتےہیں، تو عہدِ عتیق کے قربانی کے نظام کے متعلق اور اُن کے متعلق جو متی۷:۲۱میں بے راہ روی پر چلتے ہیں کسی بھی صورت میں صحائف کو لکھنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہو گی ۔
تاہم ،خُداوند کی نجات کا حیران کن اور کامل طریقہ بیّنہ طور پر کتابِ مقدّس  میں قلمبند ہے۔ بےشک ، ہم احبار۳ اور ۴باب سے واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ ایک گناہ گارکواُس وقت ذَبیح کے سرپر یعنی اُس کے سر پر  اپنے گناہوں کوسلسلہ وار منتقل کرنے کے لئے اپنے ہاتھ رکھنے پڑتے تھے اوراِس کے بعد  اُسے ذبح کرنااور اُس کا خون چھڑکنا پڑتا تھا جب وہ گناہ اور سلامتی کی قربانیاں چڑھاتا تھا۔ ہاتھ رکھنے کے  بغیرکسی قربانی کو چڑھانا یا عیب دار قربانی کو چڑھانا کفّارہ دینےکے لئے انتہائی بے شرع کام تھا۔
دونوں عہودِ عتیق اور جدید کے کلمات  ایک دوسرے کے مساوی اپنےہم جُفت الفاظ رکھتے ہیں (یسعیاہ۳۴:۱۶)۔ یسوؔع کا یردؔن میں بپتسمہ عہدِ عتیق کے اندرکسی گناہ گار کے گناہ کی قربانی کے سر پر ہاتھ رکھنے کے مساوی ہے ۔ جب یسوؔع نے یردؔن میں یوؔحنا اِصطباغی کی معرفت بپتسمہ لیا، تو اُس نے فرمایا،’’اب تو ہونے  ہی  دے  کیونکہ  ہمیں  اسی طرح  ساری  راستبازی  پوری  کرنا  مناسب  ہے ۔‘‘
 (متی۳:۱۵)۔
یہاں’’ساری راستبازی ‘‘کامطلب ’’راستی اور انصاف‘‘ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ یسوؔع کے لئے اِس طریقہ کی بدولت نسلِ انسانی کی خاطر  گناہ کی قربانی بننا مناسب ہے ۔اِس بنا پر  اُسکے لئے مناسب ترین طریقے کے اندر دُنیا کے تمام گناہ اُٹھانے کے لئے ہاتھ رکھنے کی صورت میں یوؔحنا اِصطباغی  سے، قربانی کے نظام کے عین مطابق ،جو ہاتھ رکھنے اور خون پر مشتمل تھا ، بپتسمہ لینا بھی مناسب تھا ،جسےخُدا نے عہدِ عتیق میں قائم کیا۔
نتیجتاً،فقط صلیب پر ایمان رکھنے کا مطلب ہے کہ اُس کی موت کو ہمارے گناہوں کے ساتھ کوئی سروکار نہیں ہے کیونکہ ہمارے گناہ ہرگزیسوؔع کے بپتسمہ کے بغیراُس پرسلسلہ وار منتقل نہیں ہو سکتے۔اِس بنا پر  یہ اُس کے خون کو ناپاک اور اُنہیں دھونے کے نا اہل کے طور پر خیال کرنے کے انجام تک پہنچتا ہے(عبرانیوں ۱۰: ۲۹)۔
 لہٰذا،اُس کا خون حقیقی طور پر ایمانداروں کے باطنوں میں گناہوں کو دھونے میں مؤثر ہوگاصرف اگر وہ ایمان لاتے ہیں کہ اُن کے تمام گناہ اُس وقت اُس پر منتقل ہو گئے تھے جب یوؔحنا اِصطباغی  نے اپنے ہاتھ رکھنے کے وسیلہ سے اُسے بپتسمہ دیا۔یوں، یوؔحنا رسول نے گواہی دی کہ وہ آدمی  جو ایمان لاتا ہے کہ یسوؔع ابنِ خُدا ہے،جو  پانی اور خون کے وسیلہ سے آیا،وہ دُنیا پر غالب آتا  ہے ۔ یسوؔع دونوں پانی اور خون کے وسیلہ سےآیا ،نہ صرف پانی کے وسیلہ سےیا خون کے وسیلہ سے(۱۔یوحنا۵:۴-۶)۔
یسوؔع مسیح نے تمام صحائف میں اپنے متعلق پیشینگوئیوں کو  اپنے شاگردوں پر واضح کیا۔ موسیٰؔ اورتمام انبیاء سے شروع کرکے ،اُس نے دکھایا  کہ عہدِ عتیق میں گناہ کی قربانی وہ خود تھا۔ داؤدؔ نے اُس کی جگہ پر زبور میں فرمایا، ’’دیکھ! میں آیا ہوں ۔ (کتاب کے ورقوں میں میری نسبت لکھاہوا ہے)تاکہ اے خُدا!تیری مرضی پوری کروں۔‘‘ (زبور۴۰: ۷ ،عبرانیوں۱۰: ۷)۔
نتیجتاً،اُس کا بپتسمہ صلیب کی نفی نہیں کرتا،بلکہ درحقیقت خُداوند کی خوشخبری کا لازمی حصہ ہے جو صلیب کے مطلب کو مکمل اور پورا کرتا ہے۔یہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہم اُس وقت تک مخلصی حاصل نہیں کر سکتے جب تک یسوؔع مسیح کا بپتسمہ اور قیمتی خون موجود نہیں ہے۔اِس بنا پر آپ کا نئے سرے سےپیدا ہونے کا کیا  مطلب ہے وہ یہ ہے کہ آپ یسوؔع کے بپتسمہ اوراُس کے صلیبی خون پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے گناہوں کی معافی حاصل کرتے ہیں اور رُوح القدّس کی بخشش پاتے ہیں (۱۔یوحنا۵:۸  ،اعمال۲:۳۸)۔