Search

សេចក្តីអធិប្បាយ

مضمون 8: رُوح القّدس

[8-12] رُوح القدس سے معمور اپنی زندگی گزارنے کے لئے <ططس۱:۳ ۔۸>

رُوح القدس سے معمور اپنی زندگی قائم کرنے کے لئے
<ططس۱:۳ ۔۸>
اُن کو یاد دِلا کہ حاکموں اور اِختیار والوں کے تابع رہیں اور اُن کا حکم مانیں اور ہر نیک کام کے لئے مستعد رہیں۔ کسی کی بدگوئی نہ کریں۔ تکراری نہ ہوں بلکہ نرم مزاج ہو ں اور سب آدمیوں کے ساتھ کمال حلیمی سے پیش آئیں۔ کیونکہ ہم بھی پہلے نادان۔ نافرمان۔ فریب کھانے والے اور رنگ برنگ کی خواہشوں اور عیش و عشرت کے بندے تھے اور بدخواہی اورحسد میں زندگی گذارتے تھے۔ نفرت کے لائق تھے اور آپس میں کینہ رکھتے تھے۔ مگر جب ہمارے منجی خُدا کی مہربانی اور انسان کے ساتھ اُس کی اُلفت ظاہر ہوئی۔ تو اُس نے ہم کونجات دی مگر راستبازی کے کاموں کے سبب سے نہیں جو ہم نے خو د کیے بلکہ اپنی رحمت کے مطابق نئی پیدائش کے غسل اور رُوح القدس کے ہمیں نیا بنانے کے وسیلہ سے۔ جسے اُس نے ہمارے منجی یسوعؔ مسیح کی معرفت ہم پر اِفراط سے نازل کِیا۔ تاکہ ہم اُسکے فضل سے راستبازٹھہر کر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید کے مطابق وارث بنیں۔ یہ بات سچ ہے اور میں چاہتا ہُوں کہ تُو اِن باتوں کا یقینی طو رسے دعویٰ کرے تاکہ جنہوں نے خُدا کا یقین کِیا ہے وہ اچھے کاموں میں لگے رہنے کا خیال رکھیں۔یہ باتیں بھلی اور آدمیوں کے واسطے فائدہ مند ہیں۔‘‘
 
          
ہم کیسے رُوح القدس سے معمور زندگی گزار سکتے ہیں؟
ہمیں خُد اکی مرضی سمجھنی چاہیے اور اِس کے مطابق خوشخبری کی منادی کرنی چاہیے۔
 
وہ جو یسوعؔ پر ایمان رکھتے ہیں اور رُوح القدس کی معموری رکھتے ہیں کو یقینا رُوح القدس سے معمور ایک زندگی گزارنی چاہیے۔ مسیحیوں کے لئے، رُوح القدس سے معمور ایک زندگی یہ ہوتی ہے کہ خُد اکیا مطالبہ کرتا ہے۔ ہمیں یقینا اُس کے احکامات کی پیروی کرنی چاہیے۔ تب کیسے ہم رُوح القدس سے معمور ایک زندگی گزار سکتے ہیں؟ ہمیں یقینا توجہ دینی چاہیے اِس کے بارے میں پولوسؔ رسول نے کیا کہا۔
 
 

 رُوح القد س سے معمور ایک زندگی گزارنے کے لئے کیا ضرور ی ہے؟

          
ططس ۳:۱ میں پولوسؔ نے کہا، ” اُن کو یاد دِلا کے حاکموں اور اِختیار والوں کے تابع رہیں اور اُن کا حکم مانیں اور ہر ایک نیک کام کے لئے مستعد رہیں۔“ سب سے پہلے، اُس نے ہمیں حاکموں اور اِختیار والوں کے تابع رہنے، فرمانبرداری کرنے اور نیک کام کرنے کے لئے مستعِد رہنے کو کہا۔ اُس کا کیا مطلب تھا یہ تھا کہ ہم رُوح القد س سے معمور ایک زندگی نہیں گزار سکتے ہیں اگر ہم دُنیا کے قوانین کی نافرمانی کرتے ہیں۔ بیشک، اگر دُنیا کے حاکم اور قوانین سچائی کے خلاف چلتے ہیں، ہمیں اُن کی فرمانبرداری نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن اگر قوانین ہمارے ایمان کو نقصان نہیں پہنچاتے ہیں، ہمیں یقینا سلامتی سے خوشخبری کی خدمت کرنے کے لئے اُن کی فرمانبرداری کرنی چاہیے۔
 ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے رُوح القدس کی معموری حاصل کی۔ہم کیسے رُوح القدس سے معمور
ایک زندگی گزارنے کے قابل ہوتے اگر ہم نے دُنیاوی قوانین توڑے ہوتے؟ اِس لئے، رُوح القدس سے معمور ایک زندگی گزارنے کے سلسلے میں، ہمیں یقینا دُنیا کے قوانین کی پیروی کرنی چاہیے۔ وہ جو رُوح القدس کی معموری حاصل کر تے ہیں کو یقینا معاشرتی قاعدوں کی فرمانبرداری کرنی چاہیے۔ ہم خُدا کے ساتھ چل سکتے ہیں صرف جب ہم دُنیا کے قوانین کی پابندی کرتے ہیں۔
فرض کریں ہم میں سے کوئی گرجاگھر کے راستہ پر ایک جُرم سرزد کر چکا تھا۔ کیا وہ سکون کے ساتھ خُداوند کی خدمت کرنے کے قابل ہو گا؟ زمین پر کیسے وہ خُداوند کی تعلیمات کے مطابق زندہ رہنے کے قابل ہو گا اگراُس نے قانون سے باہر زندگی گزاری؟ ہمیں یقینا معاشرتی قاعدوں کو جبکہ رُوح کے موافق چلتے ہوئے نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔ قانون کو نقصان پہنچانے سے کچھ اچھا حاصل نہیں ہوتا ہے۔ ہمیں یقینا قانون کی فرمانبردار ی کرنے کے وسیلہ سے سلامتی کو قائم رکھنا چاہیے۔ ہمیں یقینا جب کہ خوشخبری کی منادی کرتے ہوئے سیدھی سادی زندگیاں گزارنے کے لئے جدوجہد کرنی چاہیے۔ رُوح القدس کی بھرپوری کے ساتھ زندہ رہنے کے لئے، معاشرے کے قوانین کی پابندی کرنا مقدسین کے لئے عقلمندی ہے۔
 
 

ہمیں یقینا ہمارے دلوں میں عاجزی رکھنی چاہیے

 
پولوسؔ نے کہا، ” کسی کی بدگوئی نہ کریں۔ تکراری نہ ہوں بلکہ نرم مزاج ہو ں اور سب آدمیوں کے ساتھ کمال حلیمی سے پیش آئیں۔“ رُوح القدس سے معمور ایک زندگی گزارنے کے لئے، ہمیں یقینا کسی کی بدگوئی نہیں کرنی چاہیے، صُلح کے قابل بنیں، نرم مزاج ہو ں اور تمام آدمیوں کو حلیمی دکھائیں۔
اُن کے دلوں میں جو نئے سِرے سے پیدا ہوئے ہیں، عاجزی، ضبطِ نفس اور نرم مزاجی موجود ہے۔ یہ رُوح القدس کی وجہ سے ممکن ہے جو ہم میں سکونت کرتا ہے۔ پولو سؔ نے ہمیں بتایا کہ ہمیں یقینا ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے کی معرفت خوشخبری کو تباہ نہیں کرنا چاہیے۔ بے شک، ہمیں یقینا لڑنا چاہیے جب معاشرتی قانون خوشخبری کے خلاف جاتے ہیں۔ لیکن جب یہ ایسا نہیں کر تے ہیں، ہمیں یقینا امن سے زندہ رہنا چاہیے۔ ہمیں یقینا دوسروں کو ہمارے بارے میں یہ سوچنے کا سبب بننا چاہیے، ”اگرچہ وہ بعض اوقات ایک شیر کی مانند جنگلی نظر آتا ہے، وہ ایک کبوتر کی مانند واقعی پُرامن ہے۔ مسیحیت میں اُس کا عقیدہ اُسے یقینا شائستہ اور ایک باشعور آدمی بناتا ہے۔“
جسم کی خواہشات میں کوئی نرم مزاجی یا حلیمی موجود نہیں ہے۔ لیکن رُوح القدس کی معموری کے وسیلہ سے اور خُداوند کے وسیلہ سے جس نے ہمیں ہمارے گناہوں سے بچایا ہم دوسروں کے ساتھ نرم مزاج ہو سکتے ہیں۔ کسی کو معاف کرنا جو میرے خلاف ایک خوفناک غلطی کر چکا ہے حقیقی ”معافی ہے اور اُس سے اپنی ذات کے اندر گہرائی سے حلیمی کے ساتھ پیش آنا حقیقی ”حلیمی ہے۔ یہ میرے لئے کسی کے واسطے مہربان ہونے کا بہانہ کرنا، حلیمی نہیں ہے جب میں واقعی اُس کے لئے نفرت رکھتا ہُوں۔ حلیمی سے معمور ایک دل اور معافی رکھنا نئے سِرے سے پیدا ہوئے مسیحیوں کا باطنی اخلاق ہے۔
ہمیں یقینا نرم مزاجی بھی رکھنی چاہیے جب لوگ ہمارے ساتھ غلط کرتے ہیں۔ جہاں تک وہ
خوشخبری کو روکنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں، ہمیں یقینا ہر کسی کے ساتھ نرم مزاج ہونا چاہیے۔ لیکن اگر وہ کرتے ہیں، ہمیں یقینا نرم مزاجی کی روشنی کو سچائی کی روشنی کے ساتھ بدلنا چاہیے۔ نرم مزاجی صرف خُدا کی سچائی میں پائی جاتی ہے، پس وہ جو مخالفت کرتے، مداخلت کرتے یا خُدا کے کلام پر اِلزام تراشی کرتے ہیں نرم مزاجی کے ساتھ پیش آنے کے مستحق نہیں ہیں۔
خُدا اُن کو معاف نہیں کرتا جو اُس کی مخالفت کرتے ہیں بلکہ اُن سے قیمت ادا کرواتا ہے۔ خُدا نے ابرہامؔ سے کہا، ”جو تجھے مبارک کہیں اُن کو میَں برکت دُونگا اور جو تُجھ پر لعنت کرے اُس پر میَں لعنت کرونگا (پیدائش ۱۲:۳)۔ لو گ جو سچی خوشخبری کی مخالفت کرتے ہیں بچنے کی کوئی راہ نہیں رکھتے ہیں۔ وہ تباہی سے بچنے کے قابل نہیں ہوں گے جو نہ صرف اُن کی زندگیوں کو بلکہ اُن کے بچوں کی تیسری نسل تک کو بھی تباہ کرے گی۔
 ہمیں کیوں تحمل بردار اور حلیم ہونا ہے؟ جس طرح یہ ططس ۳:۳ میں لکھا ہُوا ہے، ” کیونکہ ہم بھی پہلے نادان۔ نافرمان۔ فریب کھانے والے اور رنگ برنگ کی خواہشوں اور عیش و عشرت کے بندے تھے اور بدخواہی اورحسد میں زندگی گذارتے تھے۔ نفرت کے لائق تھے اور آپس میں کینہ رکھتے تھے۔“ ہم نئے سِرے سے پیدا ہونے سے پہلے اِن لوگوں کی مانند تھے۔ پس ہمیں یقینا اُنھیں برداشت کرنا اور معاف کرنا چاہیے کیونکہ ایک بار ہم بھی اُن کی مانند تھے۔
ططس ۳:۴۔ ۸، میں یہ کہتا ہے، ” مگر جب ہمارے منجی خُدا کی مہربانی اور انسان کے ساتھ اُس کی اُلفت ظاہر ہوئی۔ تو اُس نے ہم کونجات دی مگر راستبازی کے کاموں کے سبب سے نہیں جو ہم نے خو د کیے بلکہ اپنی رحمت کے مطابق نئی پیدائش کے غسل اور رُوح القدس کے ہمیں نیا بنانے کے وسیلہ سے۔ جسے اُس نے ہمارے منجی یسوعؔ مسیح کی معرفت ہم پر اِفراط سے نازل کِیا۔ تاکہ ہم اُسکے فضل سے راستبازٹھہر کر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید کے مطابق وارث بنیں۔ یہ بات سچ ہے اور میں چاہتا ہُوں کہ تُو اِن باتوں کا یقینی طو رسے دعویٰ کرے تاکہ جنہوں نے خُدا کا یقین کِیا ہے وہ اچھے کاموں میں لگے رہنے کا خیال رکھیں۔یہ باتیں بھلی اور آدمیوں کے واسطے فائدہ مند ہیں۔ “
کتابِ مقدس کے مطابق، خُدا نے ہمیں ہمارے گناہوں سے نہیں بچایا کیونکہ ہم نے اچھے کام کیے تھے۔ اُس نے ہمیں نئے سِرے سے پیدا ہونے کی برکت دی کیونکہ اُس نے ہم سے محبت کی اور ہم پر ترس کھایا۔ دوسروں لفظوں میں، یسوعؔ مسیح اِس دُنیا میں آیا، بپتسمہ لیا، صلیب پر مر گیا، جی اُٹھا، اور اِس طرح ہمارے تمام گناہوں کو دھو دیا۔ یسوعؔ مسیح جی اُٹھا اور اب خُدا کے دہنے ہاتھ پر بیٹھا ہُوا ہے۔یعنی پھر مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے وسیلہ سے، دُنیا میں تمام نامکمل چیزیں مکمل ہو گئی تھیں۔
خُدا نے ہمیں یسوعؔ مسیح ہمارے نجات دہندہ کے وسیلہ سے رُوح القدس کے ساتھ برکت دی۔ یسوعؔ مسیح نے دُنیا کے تمام گناہوں کو اُٹھانے کے لئے یوحناؔ سے بپتسمہ لیا اور صلیب پر مر گیا تاکہ ہمارے تمام گناہ معاف ہو سکیں۔ ہم نجات یافتہ ہو گئے اور راستباز بن چکے ہیں۔
کتابِ مقدس یہ بھی کہتی ہے، ”تاکہ ہم اُسکے فضل سے راستبازٹھہر کر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید کے مطابق وارث بنیں۔“ اِس کا مطلب ہے کہ ہم ،خُد اکے وارثوں کے طورپر، وہ ہیں جنھوں نے اُس کی ساری دولت اور جلال کو ورثہ میں پایا۔ اِس قسم کی برکت یافتہ زندگی گزارنے کے لئے، ہمیں یقینا رُوح القدس کی بھرپوری میں زندگی گزارنی چاہیے۔ آپ کو یقینا پانی اور رُوح کی خوشخبری پر ایمان رکھنا چاہیے، اپنے تمام گناہوں سے معاف ہونا اور دوسروں تک خوشخبری کی منادی کرنی چاہیے۔
اِس لئے، اپنے گناہوں سے معاف ہونے کے بعد، ہمیں یقینا دوسروں کے فائدے کے لئے کام کرنا چاہیے، ہمیں یقینا دُنیا کے قوانین کو قائم رکھنا چاہیے اور اُن تک خوشخبری کی منادی کرنی چاہیے جو خُدا کی تلاش کر رہے ہیں۔ اور ہمیں یقینا لوگوں کومعاف کرنا چاہیے جو ہمارا قصور کرتے ہیں اور نیکی اور حلیمی کے ساتھ اُن سے پیش آنا چاہیے تاکہ وہ خوبصورت خوشخبری کی منادی کرنے میں مداخلت نہ کر سکیں۔ ”یہ باتیں بھلی اور آدمیوں کے واسطے فائدہ مند ہیں۔“ اگر آپ رُوح القدس کی بھرپوری کی خواہش رکھتے ہیں، آپ کو یقینا یاد رکھنا چاہیے پولو سؔ نے ہم سے کیا کہا۔ یہ شاید کسی خاص چیز کی مانند سُنائی نہیں دے سکتا، لیکن یہ انتہائی اہم الفاظ ہیں۔
 چونکہ ہم اِ س دُنیا میں رہ رہے ہیں، ہم رُوح القدس کے ساتھ نہیں بھر سکتے ہیں اگر ہم اِس دُنیا کے قوانین کی نافرمانی کرنے کے وسیلہ سے دوسروں کے ساتھ کشمکش میں رہتے ہیں۔ اِس لئے ہمیں یقینا قانون کی فرمانبرداری کرنی چاہیے جب تک یہ خُد اکے کلام کے ساتھ جھگڑا نہیں کرتاہے۔ ہمیں یقینا اِس دُنیا کے قوانین کی فرمانبرداری کرنی چاہیے۔ حتیٰ کہ اگر ہم ایمان رکھتے ہیں، قانون کی پیروی کرنا زیادہ بہتر انتخاب ہے اگر ہم زندگیاں گزارنے کی خواہش رکھتے ہیں جو رُوح القدس سے بھری ہوئی ہیں۔ ہمارے لئے اچھے کام کرنے کے واسطے، ہمیں یقینا دُنیا کے قوانین کی پیروی کرنی چاہیے اوراپنے ہمسائیوں کے ساتھ ساتھ چلنا چاہیے۔
 
 

کیا آپ رُوح القدس سے معمور ایک زندگی گزارنا چاہتے ہیں؟

 
 افسیوں ۵:۸۔ ۱۱کہتا ہے، ” کیونکہ تم پہلے تاریکی تھے مگر اب خُداوند میں نُور ہو۔ پس نُور کے فرزندوں کی طرح چلو۔ (اِس لئے کہ نُور کا پھل ہر طرح کی نیکی اور راستبازی اور سچائی ہے)۔ اور تجربہ سے معلوم کرتے رہو کہ خُداوند کو کیا پسند ہے۔ اور تاریکی کے بے پھل کاموں میں شریک نہ ہو بلکہ اُن پر ملامت ہی کِیا کرو۔“ یہ حوالہ ہمیں نُور کے فرزندوں کے طورپر چلنے کے لئے اور رُوح کے پھل پیدا کرنے کے لئے کہتا ہے۔
پھر افسیوں ۵:۱۲ ۔۱۳ کہتا ہے، ” کیونکہ اُن کے پوشیدہ کاموں کا ذکر بھی کرنا شرم کی بات ہے۔ اور جن چیزوں پر ملامت ہوتی ہے وہ سب نُور سے ظاہر ہوتی ہیں کیونکہ جو کچھ ظاہر کِیا جاتاہے وہ روشن ہو جاتا ہے۔“ پولوسؔ یہاں کہتا ہے کہ تمام چیزیں جو ظاہر کی جاتی ہیں نُور کے وسیلہ سے ظاہر ہوتی ہیں۔ اگر ایک شخص راستبازی سے زندگی نہیں گزارسکتا ہے، وہ آیا خُدا یا اپنے آپ کی معرفت ظاہر کِیا جائے گا۔ کیا واقع ہوتا ہے جب ایک شخص تاریکی کے کام کرتاہُوا پایا جاتا ہے، اور تب نُور کے وسیلہ سے ملامت کی جاتی ہے؟ اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کے بعد، اُس کا دل جب وہ پھر خُدا کا سامنا کرتا ہے روشن ہو جاتا ہے۔ ”اور جن چیزوں پر ملامت ہوتی ہے وہ سب نُور سے ظاہر ہوتی ہیں کیونکہ جو کچھ ظاہر کِیا جاتاہے وہ روشن ہو جاتا ہے۔“ نُور کے سامنے ظاہر ہونا اچھی بات ہے۔ تب ہم ہماری خطاؤں کو مان سکتے ہیں اور خُدا کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔
اگر ہم واقعی رُوح القدس سے معمور ایک زندگی گزارنا چاہتے ہیں، ہمیں یقینا ہمارے دلوں میں مہربانی رکھنی چاہیے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی شخص اپنے دل میں کوئی گناہ نہیں رکھتا ہے، اِس کا مطلب یہ نہیں ہے اُسے مہربان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں یقینا ہمارے دلوں میں نیکی اور مہربانی کے ساتھ زندہ رہنا چاہیے۔ ہمیں عقلمندی کے ساتھ یقینا منادی کرنی چاہیے اور لوگوں کے لئے دُعا مانگنی چاہیے جو پانی اور رُوح کی خوشخبری کو نہیں جانتے ہیں تاکہ وہ اِسے سمجھ سکیں اور اپنے گناہوں سے معاف ہو سکیں۔ اور ہمیں یقینا دوسروں کو آیا نقصان بھی نہیں پہنچانا چاہیے۔ ہمیں یقینا خوشخبری کے لئے کھانا، سونا اور زندہ رہنا چاہیے اور اِسی طرح دوسروں کی خدمت کرنی چاہیے۔
رُوح القدس سے معمور ایک زندگی گزارنے کے لئے، ہمیں یقینا وقت کی اہمیت کے بارے میں سوچنا چاہیے اورعقلمند آدمیوں کی مانند خوبصورت خوشخبری کی خدمت کرنی چاہیے۔ جب ہم دُنیا سے محبت کرتے ہیں، ہم تاریکی کی ترکیب کا ہدف بن جاتے ہیں اور خُد اکا کام کرنے میں لاپرواہ ہو سکتے ہیں۔ اِس لئے، ہمیں یقینا ہماری آنکھیں خُداوند پر لگانی چاہیے اور کرنا چاہیے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ جب کہ نجات پر ایمان رکھ کر جو خُدانے ہمیں دی، ہمیں یقینا ہر وقت نگہبانی بھی کرنی چاہیے۔ رُوح کی حکمت کے آدمی کو دُنیا کی تاریکی کے ساتھ بھر جانے سے پہلے عالمگیر طورپر خوبصورت خوشخبری کی منادی کرنے کے لئے وقف ہوناچاہیے۔
 
 
خُداوند کی مرضی کو سمجھیں
 
ہمیں یقینا ڈھونڈنے کی کوشش کرنی چاہیے خُدا کو کیا خوش کرتا ہے۔ ہمیں یقینا سیکھنا چاہیے وہ اپنی کلیسیا اور کلام کے وسیلہ سے ہم سے کیا کروانا چاہتا ہے۔ ہمیں جاننا چاہیے ہم خُدا کو خوش کرنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں اور ہمارے واسطے اُس کی مرضی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
لوگ جو اپنے گناہوں سے معاف کیے گئے ہیں وہ ہیں جو نئے سِرے سے پیدا ہوئے ہیں اور جو نئے سِرے سے پیداہوئے ہیں وہ ہیں جو رُوح القدس کی معمور ی رکھتے ہیں۔ وہ جو اپنے اندر رُوح القدس رکھتے ہیں واقعی پاک لوگ اور خُدا کے بیٹے ہیں۔ اُنھیں یقینا رُوح القدس سے معمور ایک زندگی گزارنی چاہیے۔ یہ تمام مقدسین کا فرض ہے۔ ہمیں دوسروں کی ضروریات سے لاپرواہ ہو کر، اپنی ذاتوں پر ہماری صلاحیتیں اور توانائیاں ضائع نہیں کرنی چاہیے۔ ہمیں وقت کی ندی کے ساتھ ساتھ بہنے کے وسیلہ سے خُدا کے کاموں میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔
 اگر ہم خُدا کی محبت کے وسیلہ سے پاک ہو چکے ہیں اور نئی پیدائش حاصل کر چکے ہیں، ہمیں یقینا اُس کا کام جاری رکھنے اور کرنے کے سلسلے میں ایک اچھا شخص بن جانا چاہیے۔ اگر ہم اُس پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے خُدا کے بیٹے بن چکے ہیں، ہمارے لئے نیکی کے لوگ بننا دُرست ہے۔
خُدا کے بیٹوں کا جسم کاملیت سے بہت دُور ہے لیکن یہ خُدا کو خوش کرتا ہے؛ بشرطیکہ ہم خُدا کی مرضی کے بارے میں پریشان ہوتے ہیں اور اچھی چیزیں کرتے ہیں۔ لیکن حتیٰ کہ وہ جو نئے سِرے سے پیدا ہوئے ہیں دوسروں کے ساتھ بدی کرنے کا رُجحا ن رکھتے ہیں اگر وہ صرف اپنے آپ کے لئے زندہ رہتے ہیں۔ ”اور شراب میں متوالے نہ بنو کیونکہ اِس سے بدچلنی واقع ہوتی ہے بلکہ رُوح سے معمور ہوتے جاؤ۔“ (افسیوں ۵:۱۸) کا مطلب ہے کہ ہمیں یقینا جسم کی خواہشا ت کے ساتھ شرابی نہیں بننا چاہیے بلکہ یقینانیکی کے کام کرنے چاہیے۔
پولوسؔ نے افسیوں ۵:۱۹ ۔۲۱ میں کہا، ”اور آپس میں مزامیر اور گیت اور رُوحانی غزلیں گایا کرو اور دل سے خُداوند کے لئے گاتے بجاتے رہاکرو۔ اور سب باتوں میں ہمارے خُداوند یسوعؔ مسیح کے نام سے ہمیشہ خُدابا پ کا شکر کرتے رہو۔ اور مسیح کے خوف سے ایک دوسرے کے تابع رہو۔“ اگر ہم رُوح القدس سے معمور ایک زندگی گزارنا چاہتے ہیں، ہمیں یقینا ایمان رکھنا چاہیے اور نجات کی خوشخبری کی منادی کرنی چاہیے اورظاہر کرنا چاہیے خُدا ہمارے لئے کیا کر چکا ہے۔
 خُدا ہمیں برکت دیتا ہے جب بھی ہم دُعا مانگتے ہیں اور وہ یہ تمام برکات مزامیر اور گیت اور رُوحانی غزلیں ہمارے لئے ایک آواز میں اُس کی تعریف کرنے کے واسطے محفوظ کر چکا ہے۔ ہمیں یقینا تعریف کرنی، شکر کرنا اور اُس کی ستائش کرنی چاہیے۔ ہم رُوح القدس کے ساتھ معمور بابرکت زندگیاں گزار سکتے ہیں جب ہم اُن کے لئے جو اب تک نجات یافتہ نہیں اور ایک دوسرے کے لئے دُعا مانگتے ہیں۔ ہمیں یقینا ہمارے دلوں کی اندرونی گہرائی سے خُدا کا شکر ادا کرنا چاہیے اور یسوعؔ مسیح کی عزت کرنی چاہیے جس نے ہمیں بچایا۔ ہمارے دلوں میں اِن خیالات کے ساتھ، ہمیں یقینا ہماری غلطیاں تسلیم کرنے کے قابل ہونا چاہیے، اور ہمارے گناہوں کی صفائی کے لئے ہماری سمجھ کو ظاہر کرنا چاہیے اور اُس کی فرمانبرداری کرنی چاہیے۔ یہ ہے رُوح القدس سے معمور ایک زندگی گزارنے کا کیا مطلب ہے۔
 
 
ہمیں یقینا ہماری باقی زندگیوں میں خوبصورت خوشخبری کی خدمت کرنی چاہیے
 
ہمیں یقینا اچھے کاموں کا منصوبہ بنانا چاہیے اور خوبصورت خوشخبری کے زیادہ جلال کے لئے اُن کا تعاقب کرنا چاہیے۔ خُدا کی کلیسیا کے ساتھ شامل ہو کر، ہمیں مل کر دُعا مانگنی چاہیے اور ہر کسی کی جان کو بچانے کے لئے خُدا کو پُکارنا چاہیے۔ اب تک بہت سارے لوگ موجود ہیں جو نئے سِرے سے پیدا نہیں ہو سکے کیونکہ وہ خوبصو رت خوشخبری کو نہیں جانتے ہیں حتیٰ کہ گو وہ خُدا کو تلاش کر چکے ہیں۔ ہمیں یقینا اِن لوگوں کے لئے یہ کہتے ہوئے دُعا مانگنی چاہیے ” اَے خُدا، مہربانی سے اُنھیں بھی بچا۔“ اور ہمیں یقینا خودغرض چیزوں کا تعاقب نہیں کرناچاہیے بلکہ کھوئے ہوؤں کو بچانے کے لئے خوشخبری کی خدمت میں ہماری ملکیتوں کو پیش کرنا چاہیے۔ دوسروں کی جانوں اور خُدا کی بادشاہت کی وسعت کے لئے زندہ رہنا اچھا کام کرنا ہے۔
اِس قسم کا کام کرنے کا مطلب رُوح القد س سے معمور ایک زندگی گزارنا ہے۔ رُوح القدس کی بھرپوری کے ساتھ زندہ رہنے کا مطلب غیرزبانوں میں بولنے اور معجزات کرنے کی صلاحیت کو رکھنا نہیں، بلکہ سیکھنا ہے کہ کیسے خُدا کو خوش کرنا ہے۔ اِس کا مطلب نجات پر ایمان رکھنا ہے جو خُدا نے ہمیں دی، یعنی نظموں اور زبوروں کے ساتھ خُدا کی تعریف کرنا اور جلال دینا ہے۔ ہمارے پورے دلوں کے ساتھ خُداکاشکر ادا کرنا، تعریف کرنا اور جلال دینا، اورراستبازی کے آلات کے طور پر ہمارے جسموں کے ساتھ اُس کی خدمت کرنا خُدا کی مرضی ہے۔ اُس کے احکامات کی پیروی کرنے کا مطلب رُوح القدس سے معمور ایک زندگی گزارنا ہے۔
رُوح القدس سے معمور ایک زندگی گزارنے کے لئے، ہمیں یقینا ایک دوسرے کی فرمانبرداری کرنی چاہیے۔ اگر ہمیں کوئی نصیحت کرتا ہے، ہمیں یقینا سُننا چاہیے وہ کیا کہتا ہے۔ اِسی طریقے سے، اگر میں اُسے نصیحت کرتا ہُوں، اُسے سُننا چاہیے حتیٰ کہ اگر وہ میرے ساتھ اِتفاق نہیں کرتا ہے۔ اِسی طرح، ہمیں
ایک دوسرے کی فرمانبرداری کرنے اور خُدا کا کام کرنے کے وسیلہ سے یقینا رُوح القدس سے معمور ایک
زندگی گزارنی چاہیے۔
 
 
رُوح سے معمور ایک زندگی گزارنے کا مطلب یسوعؔ مسیح کو جلال دینا ہے
          
رُوح سے معمور ایک زندگی گزارنے کامطلب یسوع ؔ مسیح کے احکامات پر عمل کرنا ہے۔ آئیں ہم افسیوں ۶:۱۰ ۔۱۳ پڑھنے کے وسیلہ سے ڈھونڈیں اِس کا کیا مطلب ہے۔” آخرکار، میرے بھائیو،غرض خُداوند میں اور اُس کی قُدرت کے زور میں مضبوط بنو۔ خُد اکے سب ہتھیار باندھ لو تاکہ تم اِبلیس کے منصوبوں کے مقابلہ میں قائم رہ سکو۔ کیونکہ ہمیں خون اور گوشت سے کشتی نہیں کرنا ہے بلکہ حکومت والوں اور اِختیار والوں اور اِس دُنیا کی تاریکی کے حاکموں اور شرارت کی اُن رُوحانی فوجوں سے جو آسمانی مقاموں میں ہیں۔ اِ س واسطے تم خُدا کے سب
ہتھیار باندھ لو تاکہ بُرے دن میں مقابلہ کر سکو اور سب کاموں کو انجام دے کر قائم رہ سکو۔‘‘
 رُوح سے معمور ایک زندگی گزارنے کا کیا مطلب ہے؟ اِس کا مطلب خُداوند میں مضبوط ہونا ااور اُسکے اِختیار پر ایمان رکھنا ہے۔ اِس کا مطلب رُوح القدس کی قُدرت کے وسیلہ سے زندہ رہنا ہے جو ہمارے اندر سکونت کرتاہے اور صرف ہماری ذاتی مرضی کے وسیلہ سے زندہ رہنانہیں ہے۔ مزید برآں، اِس کا مطلب ایک دُعائیہ زندگی گزارنا ہے۔ دُعا مانگنے کے وسیلہ سے، ہم مختلف صلاحیتیں اور برکات حاصل کرتے ہوئے ایک زبردست زندگی گزارسکتے ہیں جو خُد اعطا کرتا ہے۔ اِس قسم کی زندگی گزارنے کا مطلب خُد اکے ہتھیار پہننا ہے۔ ہم اتنے کمزور ہیں کہ حتیٰ کہ اگر ہم اُس کے ساتھ چلنے، خدمت کرنے اور خُدا کی فرمانبرداری کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہم رُوح سے معمور ایک زندگی نہیں گزار سکتے ہیں جب تک ہم اُس کے کلام کو نہیں تھامتے ہیں۔
 خُدا کے کلام پر عقیدہ ہمارے رُوحانی اِختیار پر فخر کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ حتیٰ کہ اگر
ہم ایمان رکھتے ہیں، ہمیں یقینا یہ کہنے کے وسیلہ سے خُدا کے تمام ہتھیار پہن لینے چاہیے، ” میں پُر یقین ہُوں یہ اِسی طرح ہوگا جس طرح یہ خُدا کے کلام میں لکھا ہُوا ہے۔“ یہ ہے ایمان جو ہمیں رُوح القدس سے معمور ایک زندگی گزارنے کے قابل کرتاہے۔
کیا آپ میں سے کوئی اِس قسم کی زندگی گزارنے میں مسائل رکھتا ہے؟ تب صحائف کے کلام کو یاد رکھیں اور خُد اکے سارے ہتھیار پہن لیں۔ خُدا نے ہمیں اپنے تمام ہتھیار پہننے کے لئے کہا۔گہرائی سے اپنے دل کے اندر کلام کو لینے کے وسیلہ سے، آپ سیکھیں گے خُدا کے سارے ہتھیار پہننے کا کیا مطلب ہے۔ ہمارا ماحول اور دوسرے لوگ کیا کہتے ہیں کے علاوہ ہمیں یقینا خُد اکے کلام کو مضبوطی سے پکڑنا چاہیے۔ اِس طریقے سے، ہم رُوح القدس سے معمور ایک زندگی گزاریں گے۔
ہم کہاں سے یہ عقیدہ حاصل کر سکتے ہیں؟ مکاشفہ ۳:۲۲ کہتا ہے، ”جس کے کان ہو ں وہ سُنے کہ رُوح کلیسیاؤں سے کیا فرماتا ہے۔“ ہمیں سُننا چاہیے رُوح کلیسیا سے کیا فرماتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ہم خُدا کے کلام کو سُن نہیں سکتے تھے نہ ہی رُوح القدس سے معمور ایک زندگی گزار سکتے تھے بلکہ یہ خُدا کے خادمین کی وجہ سے ہے۔ کِن کے وسیلہ سے رُوح القدس بولتا ہے؟ خُدا اپنی کلیسیا میں مقدسین اور دُنیا کے تمام لوگوں سے اپنے خادمین کے وسیلہ سے بولتا ہے۔
 یہ کہنا ہے، آپ کو ایمان رکھنا چاہیے کہ خُدا کی کلیسیا کی تعلیمات یقینا خُدا کے کلام پر مبنی ہے۔ آپ کو ذہن میں اِس ایما ن کے ساتھ کلیسیا کی تعلیمات کو قبول کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر رُوح القدس کسی مبشر میں سکونت نہیں کرتا،تو اُس کے لئے اپنے ذاتی خیالات کی تعلیم دینا ممکن ہوگا۔ مبشر جو رُوح القدس کی معموری رکھتا ہے رُوح القدس کے اِختیار کے ماتحت خُدا کے کلام کی منادی کرتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے بلکہ کتابِ مقدس کے مطابق بے بنیاد الفاظ کی منادی کرتا ہے، رُوح القدس اُسے روکتا ہے کیونکہ وہ اُس کے دل میں سکونت کرتا ہے۔
رُوح القدس خُدا ہے۔ خُدا کے خادم کا اِختیار بہت زیادہ عظیم ہے کیونکہ خُدا اُس میں سکونت کرتا ہے۔ نئے عہد نامہ میں، یسوعؔ مسیح نے پطرسؔ سے کہا، ”میَں آسمان کی بادشاہی کی کُنجیاں تجھے دُونگا (متی ۱۶:۱۹)۔ آسمان کی بادشاہی کی کنجیاں پانی اور رُوح کی خوشخبری ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، یہ خوشخبری آسمان میں داخل ہونے کی کنجی ہے۔ خُدا نے نہ صرف پطرسؔ کو خُدا کے کلام کی منادی کرنے کا اِختیار دیا بلکہ خُدا کے ہر خادم اور تمام مقدسین کو بھی، جہاں تک وہ نئے سِرے سے پیداہوتے ہیں اور رُوح القدس کی معمور ی رکھتے ہیں۔
رُوح القدس سے معمور ایک زندگی گزارنے کے لئے، ہمیں یقینا خُدا کے تمام ہتھیار پہن لینے چاہیے۔ اگرہم ایمان نہیں رکھتے ہیں، ہمیں یقینا کلیسیا اور خُدا کے خادمین کے اِختیار پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے ہر روز ذہن میں کلیسیاکی تعلیمات رکھنی چاہیے۔ حتیٰ کہ اگر پیغام جو آج آپ سُنتے ہیں کسی فائدہ کا نہیں اور براہِ راست آپ کی زندگی سے تعلق نہیں رکھتا ہے، آپ کو یقینا اِسے ہر حال میں سُننا چاہیے اوراِسے اپنے دل میں لینا چاہیے۔ کتابِ مقدس میں سے الفاظ ڈھونڈیں جو آپ کی روزمرّہ کی زندگی میں ضروری ہیں۔ اُنھیں پکڑ کر رکھیں۔ اِس طریقے سے، آپ ایمان کے مرد ہوں گے۔ تب آپ رُوح القدس سے معمور ایک زندگی گزارنے، خُدا کے ساتھ چلنے اور دُنیا میں اِختیار والوں اور تاریکی کے حاکموں کے خلاف جنگ جیتنے کے قابل ہوں گے۔
آپ شاید پریشان ہوچکے ہیں کیونکہ آپ کو بتایا گیا تھا کہ آپ کو دُنیا کے حکمرانوں کی فرمانبرداری کرنی چاہیے لیکن اب میں کہتا ہُوں کہ آپ کو دُنیا کی تاریکی کے حکمرانوں کے خلاف لڑنا چاہیے۔ رومی دور میں، رومی شہنشاہ اپنے آپ کو خُدا کہلاتا تھا اور قا نون مطالبہ کرتا تھا تمام لوگ اُس کے ساتھ ایک خُدا کے طو رپر پیش آئیں۔ لیکن یہ ایک ایسا کام تھا جو مسیحی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ یہ خُد اکے کلام کے خلاف تھا۔ پس مسیحی اُس وقت کے دوران کوئی چارہ نہیں رکھتے تھے بلکہ رومی شہنشاہ کے خلاف لڑنا، جس نے لوگوں کو اُس کے سامنے جھکنے پر مجبور کِیا جس طرح آیا وہ ایک خُدا تھا۔
اِبلیس سے لڑائی جیتنے کے سلسلے میں، ہمیں یقینا خُدا کے کلام پر ایمان رکھنا چاہیے اور اِسے مضبوطی
سے پکڑنا چاہیے۔ اگر ہم خُدا کے کلام کے مطابق زندہ رہتے ہیں، ہم اُس کی برکت حاصل کریں گے اور اِبلیس کو شکست دینے کے قابل ہوں گے۔ حتیٰ کہ اگر ہم نجات یافتہ ہیں، ہم شیطان کے خلاف جنگ ہار جائیں گے جب تک ہم خُد اکے کلام کو مضبوطی سے نہیں پکڑیں گے۔ خُدا ہمیں خبردار کرتا ہے، ”تمہارا مخالف اِبلیس گرجنے والے شیر ببر کی طرح ڈھونڈتا پھرتا ہے کہ کِس کو پھاڑ کھائے۔“ (۱۔پطرس ۵:۸)۔ کوئی شخص جو خُدا کے کلام پر ایمان نہیں رکھتا آسانی سے شیطان کاشکار
ہو سکتا ہے۔
حتیٰ کہ یسوعؔ شیطان کے خلاف نہ لڑ سکتا اگر یہ خُدا کے کلام میں سے نہ ہوتا۔”اُس نے جواب میں کہا لکھا ہے کہ آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہیگا بلکہ ہر بات سے جو خُد اکے مُنہ سے نکلتی ہے۔“(متی ۴:۴) ۔ اُس نے اِبلیس کو ایمان کے وسیلہ سے کیا لکھا ہُوا ہے سے دُور دھکیلا۔ اور ہمارے بارے میں کیا خیال ہے؟ ہم حکمت کی کمی رکھتے ہیں اور یسوعؔ سے مقابلے کے قابل نہیں ہیں۔ اِس لئے، ہمیں یقینا خُدا کے کلام پر حتیٰ کہ زیادہ مضبوطی سے ایمان رکھنا اور پکڑنا چاہیے۔
ہمیں محض نہیں کہنا چاہیے،میں سوچتا ہُوں کلام دُرست ہے لیکن میں اِس پر مکمل طور پر ایمان نہیں رکھ سکتا۔‘‘ ہمیں یقینا کلام پر مضبوطی سے قائم رہنا چاہیے۔ ”میں ایمان رکھتا ہُوں ہر چیز سچ میں بدل جائے گی جس طرح یہ لکھا ہُوا ہے۔“ یہ مناسب ایمان ہے اور ہمیں خُدا کے تمام ہتھیار پہننے کی اجازت دیتا ہے۔ لوگ جو کہتے ہیں، ”ہر چیز حقیقتاً سامنے آئے گی جس طرح ہمارے خُداوند نے کہا برکت یافتہ ہوں گے۔ اگر کوئی خُد اکے کلام پر قائم رہتا ہے اور اِس پر انحصار کرتا ہے، چیزیں اُس کے ایمان کے مطابق اچھی طرح واقع ہوں گی۔ حتیٰ کہ اگر اِبلیس ہمیں آزمانے کی کوشش کرتا ہے، وہ یقینا دُور چلا جائے گا اگرہم کہتے ہیں، ”میں خُد اکے کلام پر ایمان رکھتا ہُوں۔ میں ایمان رکھتا ہُوں اُس کا کلا م دُرست جوابات رکھتا ہے۔“ یہ اِبلیس کے خلاف جنگ جیتنے کا طریقہ ہے۔
 
 
ہمیں یقینا خُد اکے کلام پر قائم رہنا چاہیے
 
اِس واسطے تم خُدا کے سب ہتھیار باندھ لو تاکہ بُرے دن میں مقابلہ کرسکو اور سب کاموں کو انجام دے کر قائم رہ سکو۔ پس سچائی سے اپنی کمر کس کر اور راستبازی کا بکتر لگا کر۔ اور
پاؤں میں صلح کی خوشخبری کی تیاری کے جوتے پہن کر۔ اور اُ ن سب کے ساتھ ایمان کی سِپر لگا کر قائم رہو۔ جس سے تم اُس شریر کے سب جلتے ہوئے تیروں کو بُجھا سکو۔ اور نجات کا خود اور رُوح کی تلوار جو خُدا کا کلا م ہے لے لو۔“(افسیوں ۶:۱۳ ۔۱۷)۔
حوالہ میں، ” پس سچائی سے اپنی کمر کس کر، خُدا کا کلام کسی کی کمر کو کسنے کے لئے ایک بیلٹ سے موازنہ کرتا ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں یقینا ہمارے ذہنوں کو خُدا کے کلام کے ساتھ کسنا چاہیے۔ وہ ہمیں سچائی کے کلام کی پیروی کرنے کے لئے کہہ رہا ہے تاکہ ہم خُدا کے ساتھ یک ذہن ہو سکیں۔ لیکن جس طرح یہ بیلٹ جسم کے گرد مضبوطی سے باندھا جاتا ہے، ہمیں بھی یقینا اپنے آپ کو خُد اکے کلام کے ساتھ مضبوطی سے منسلک رکھنا چاہیے۔ جب ہم خُداکے ساتھ یک ذہن ہیں، ہم فطری طو رپر ایمان رکھنے اور کہنے کے قابل ہو جاتے ہیں، ”میں ایمان رکھتا ہُوں ہر چیز اچھی طرح واقع ہو گی۔ میں پُریقین ہُوں ہر چیز سامنے آئے گی بالکل جس طرح خُدا نے کہا۔“
اگلا، ہمیں راستبازی کابکتر لگا نا ہے۔ ہمیں یقینا پانی اور رُوح کی خوشخبری کا بکتر لگا نا ہے جو کہتا ہے خُدا ہمیں بچا چکا ہے۔ ہمیں یقینا سچائی کے ساتھ، راستبازی کا بکتر لگاکر اپنی کمریں کسنی چاہیے۔ ہمیں یقینا قیمتی جواہرات کا بکتر لگانا چاہیے۔ ہمیں یقینا اِس عقیدہ پر اُنھیں لگانا چاہیے کہ خُدا ہمارے تمام گناہ معاف کر چکا ہے۔ ہمیں یقینا ہمارے پورے دل کے ساتھ خُد اپر ایمان رکھنا چاہیے۔ ہمیں یقینا نجات کی خوشخبری کی منادی بھی کرنی چاہیے جو سلامتی بخشتی ہے۔
بالائی سارے کلام پر قائم رہنے کے بعد، ہمیں ہمارے پاؤں میں صلح کی خوشخبری کی تیاری کے جوتے پہننے چاہیے، اور نجات کی خوشخبری کی منادی کرنے کے لئے جانا چاہیے جو تمام لوگوں کو خُدا کی سلامتی بخشتی ہے۔ اگر ہم ہمارے گناہوں سے نجات یافتہ ہو چکے ہیں، ہم ہمارے مُنہ کے وسیلہ سے عقیدہ کا اِقرار کرنے کے لئے آتے ہیں۔ اور ہر وقت جب ہمارے گناہ اور بُرائی ظاہر ہوتے ہیں، ہمیں یقینا سچائی پر غورو خوض کرنے کے وسیلہ سے اُنھیں صاف کرنا چاہیے کہ خُد اپہلے ہی ہمارے تمام گناہ معاف کر چکا ہے۔ اُس نے ایسا یسوعؔ کے بپتسمہ اور اُس کے صلیبی خون کے وسیلہ سے کِیا۔ ہمیں یقینا خُدا کا شکر ادا کرنے کے وسیلہ سے جلال سے پُر زندگی گزارنی چاہیے۔ ہمیں یقینا پانی اور رُوح کی خوشخبر ی کی منادی کرنی چاہیے، جو ہر کسی کو سلامتی بخشتی ہے جو اپنے گناہوں سے آزاد نہیں ہو چکا ہے۔
 سب سے بڑ ھ کر، ہمیں یقینا ایمان کی سپر کے ساتھ بدکار کے خلاف لڑنا چاہیے ۔ جب شیطان حملہ کرتا ہے، ہمیں یقینا اُسے ایک ہاتھ میں ایمان کی سپر اور دوسرے ہاتھ میں سچائی کے کلام کے ساتھ
 دُور دھکیلنا چاہیے۔
تب ہمیں یقینا نجات کا خود پہننا چاہیے۔ ہمیں یہ کہتے ہوئے، نجات کے کلام کو قبول کرنا ہے، ”میں پانی اور رُوح کی خوشخبری کے وسیلہ سے اپنے تمام گناہوں سے بچایا گیا تھا۔ خُدانے اِس طریقہ سے میرے گناہوں کو معاف کِیا۔“ ہمیں ہمارے دماغ میں سچائی کو پہچاننا چاہیے۔ ہمیں یقینا خُدا کے کلام، نجات کے خود اور رُوح کی تلوار کو اِبلیس کے خلاف ہمارے ہتھیار بنانا چاہیے۔
اگر شیطان ہم پر حملہ کرتاہے، ہمیں یقینا تلوار نکالنی چاہیے اور اُسے شکست دینی چاہیے۔ ”خُدا نے یہ کہا! اور میں اِ س پر اِسی طرح ایمان رکھتا ہُوں! “ ہم خُد اکے کلام پر ایمان کے وسیلہ سے شیطان کو دُور بھگاتے ہیں۔ اگرہم خُد اکے کلام پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنی رُوحانی تلوار کو نکالتے ہیں، شیطان چلاتا ہُوا بھاگ جائے گا ”اُچ!یہ کِتنا زخمی کرتی ہے۔“ ہم شیطان کے کسی قسم کے حملہ کوبھی شکست دے سکتے ہیں اگر ہم صرف خُد اکے کلام پر ایمان رکھتے ہیں۔
آپ کو اِقرار کرتے ہوئے ایک ایسی مذہبی زندگی گزارنی چاہیے، ”میرا جسم کاملیت سے بہت دُور ہے لیکن میں خُداکا ایک آدمی ہُوں جو خلاصی حاصل کر چکا ہے۔ میں، ایمان کے وسیلہ سے، کلا م پر قائم رہ کر زندہ رہتا ہُوں جو خُدا مجھے بتا چکا ہے۔“ اگر ہم اِ س قسم کا ایمان رکھتے ہیں، ہم ہر وقت شیطان کو سچائی کی تلوار کے ساتھ بھگا سکتے ہیں جب بھی وہ ہماری وفا دار زندگیوں کو پریشان کرنے اور خلل ڈالنے کے لئے آتاہے۔ شیطان حتیٰ کہ نظر نہیں آتا اگر ہم محض زمینی الفاظ کے ساتھ جوابی حملہ کرتے ہیں۔ اِس طرح ہمیں یقینا یہ کہنے کے وسیلہ سے اُس کے خلاف لڑناچاہیے، ”یہ ہے خُدا نے کیا کہا۔“ تب شیطان خُداکے کلام کے اِختیار کے سامنے جُھک جائے گا۔
اگر ہم رُوح القدس سے معمور ایک زندگی گزارنا چاہتے ہیں، ہمیں یقینا خُداسے دُعا مانگنی چاہیے کہ کلیسیا، تما م مقدسین اور خُداکے خادمین اپنے آپ کو خوشخبری کی منادی کرنے کے لئے وقف کریں۔ ایک ایسی دُعا مانگنے کے وسیلہ سے،کہ ”مجھے دلیری سے خوشخبری کے بھید ظاہر کرنے کی اجازت دے،
ہم خوشخبری کی خدمت کرنے پر مرکوز ایک زندگی گزاریں گے۔ یہ ایک رُوح القدس سے معمور زندگی ہے۔ رُوح القدس سے معمور ایک زندگی گزارنا تمام مقدسین کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ اگر ہمیں سچے مقدسین بننا ہے، ہمیں یقینا رُوح القدس سے معمور زندگی گزارنی چاہیے۔ ایک ایسی زندگی گزارنا تمام مقدسین کے لئے انتہائی ضروری ہے، بالکل جس طرح ہر جان کے لئے گناہوں کی معافی حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہ خُداکا حُکم ہے۔
 وہ جو اپنے گناہوں سے نجا ت یافتہ ہو چکے ہیں لیکن نہیں جانتے کیسے ایک وفاد ار زندگی گزارنی ہے کو یقینا جاننا چاہیے کہ اُنھیں رُوح القدس سے معمور زندگی گزارنی ہے۔ یہ ہے خُداکیا چاہتا ہے۔ مقدسین کو یقینا رُوح القدس سے معمور ایک زندگی گزارنی چاہیے جو خُدا کی مرضی ہے۔ رُوح القدس سے معمور ایک زندگی مقدسین کو اچھے کام کرنے کے وسیلہ سے خوشخبری کی منادی کرنے کے لئے ترقی دیتی ہے۔ وہ خوشخبری کی منادی کرنے، خُد اسے دُعا مانگنے، اور ایمان رکھنے اور خُدا کے کلام پر مضبوطی سے قائم رہنے سے محبت کرتے ہیں۔ ہمیں یقینا نجات کا خود اور راستبازی کا بکتر پہننا چاہیے اور یہ کہنے کے وسیلہ سے شیطان کو بھگانا چاہیے، ” میں ہمیشہ راستباز ہُوں۔“
چونکہ مقدسین رُوح القدس کی معمور ی رکھتے ہیں، وہ رُوح کے موافق چلتے ہیں اور رُوح القدس کی قُدرت حاصل کرنے کے قابل ہیں۔ وہ ایمان کی دُعا کے وسیلہ سے حاصل ہوئی خُد اکی برکات کے ساتھ اُس کا کام کر رہے ہیں۔ اور اُنھیں رُوح کے موافق چلنا چاہیے جب تک وہ شیطان کو شکست نہیں دیتے اور خُدا کے سامنے کھڑے نہیں ہو جاتے۔ لوگ جو خُدا کے تمام ہتھیار پہن سکتے ہیں صرف نئے سِرے سے پیدا ہوئے مسیحی ہیں جو رُوح القدس سے معمور ایک زندگی گزار سکتے ہیں۔
 ” کیونکہ ہمیں خون اور گوشت سے کشتی نہیں کرنا ہے بلکہ حکومت والوں اور اِختیار والوں اور اِس دُنیا کی تاریکی کے حاکموں اور شرارت کی اُن رُوحانی فوجوں سے جو آسمانی مقاموں میں ہیں۔“ (افسیوں ۶:۱۲)۔ اُن کی جنگ جو نئے سِرے سے پیدا ہوئے ہیں خون اور گوشت کی جنگ نہیں ہے تاہم، اُن کی جنگ جو رُوح القدس کی معموری رکھتے ہیں شرارت کی اُن رُوحانی فوجوں کے خلاف ہے اور اُن کے خلاف ہے جو ہماری وفاداری زندگیوں میں خلل ڈالتے، خوشخبری کی خدمت نہیں کرتے اور
ہمیں تنگ کرتے ہیں۔
جب ہم خُداوند کی خوشخبری کے لئے رُوحانی جنگ لڑنے کو جاتے ہیں، ہمیں یقینا خود اور رُوح کے ہتھیار پہن لینے چاہیے۔ اگرہم اِس جنگ میں محض عام کپڑے پہنتے ہیں، ہم زخمی ہو جائیں گے۔ اِس طرح، ہمیں یقینا ہتھیاروں کو پہننا چاہیے۔ ہمیں تلو اروں، سپروں اور خودوں کی ضرورت ہے۔ جنگ جیتنے کے لئے، ہمیں یقینا جنگ سے پہلے مکمل طورپر تیار ہونا چاہیے۔ ہمیں یقینا بکتر لگانا چاہیے، اپنی کمریں کسنی چاہیے اور دونوں پاؤں میں جوتے پہننے چاہیے۔تب، تلوار کے ساتھ اور ایک ہاتھ میں سپر کے ساتھ، ہمیں یقینا ہمارے دشمنوں کو شکست دینی چاہیے۔ یہ رُوح القدس سے معمور ایک زندگی ہے۔
 
 
ہمیں یقینا خوبصور ت خوشخبری کو قائم رکھنا چاہیے
 
پولو سؔ نے ہمیں بتایا، ” رُو ح القدس کے وسیلہ سے جو ہم میں بسا ہُوا ہے اِس اچھی امانت کی حفاظت کر۔“ (۲۔تیمتھیس ۱:۱۴)۔ اچھی امانت کیا ہے؟ یہ پانی اور رُوح کی خوشخبری ہے جس نے ہمیں ہمارے گناہوں سے بچایا۔ ططس ۳:۵ میں یہ کہتا ہے، ”تو اُس نے ہمکو نجات دی مگر راستبازی کے کاموں کے سبب سے نہیں جو ہم نے خود کیے بلکہ اپنی رحمت کے مطابق نئی پیدائش کے غسل اور رُوح القدس کے ہمیں نیا بنانے کے وسیلہ سے۔‘‘ ہمارے خُداوند نے تمام گناہ دھو دئیے جو ہم اِس دُنیا میں سرزد کر چکے تھے، صلیب پر مرگیا اور جی اُٹھا۔ ہمیں یقینا اِس خوبصورت خوشخبری کو قائم رکھنا چاہیے۔ ہمیں یقینا نجات کا خود اور راستبازی کا بکتر پہننا چاہیے اور سچائی کے ساتھ ہماری کمروں کو کسنا چاہیے۔ ہمیں یقینا پانی اور رُوح کی خوشخبری پر ایمان رکھنا چاہیے۔
اپنے آپ کو اِس طریقہ سے لیس کرنے کے بعد، ہمیں یقینا شیطا ن کے خلاف جنگ جیتنی چاہیے۔ صرف تب ہم فتح حاصل کرنے اور اِسے دوسروں کے ساتھ بانٹنے کے قابل ہوں گے۔ ہمیں شیطان کے خلاف جب تک ہم خُداوند کی بادشاہی میں داخل نہیں ہوجاتے کے دن تک، جو ہمار ا ورثہ ہے بہت ساری رُوحانی جنگیں لڑنی ہو ں گی اور اُس سے بہت ساری ٹرافیاں حاصل کرنی ہوں گی۔ جتنی زیادہ جنگیں ہم ہمارے مخالف کے خلاف جیتتے ہیں، اتنی زیادہ آسان اگلی جنگ ہوگی۔ ہم سب کو یقینا اُس کی بادشاہی کے بڑھنے اور پھیلنے کے لئے دُعا مانگنی چاہیے۔ تب ہم رُوح القدس سے معمور ایک زندگی حاصل کر چکے ہوں گے۔
ہمیں یقینا ہمارے گناہوں کے معاف ہونے سے مطمئن نہیں ہونا چاہیے بلکہ یقینا رُوح القدس سے معمور ایک زندگی گزارنی چاہیے۔ خوشخبری کے لئے اور ہمارے اچھے کاموں کے لئے، ہمیں یقینا خُدا کے کلام پر ایمان رکھنا چاہیے۔ ہمیں یقینا رُوح القدس کے وسیلہ سے راہنمائی پانی چاہیے اور خُدا کے کلام پر قائم رہنے کے وسیلہ سے اور اِس پر ایمان رکھتے ہوئے زندہ رہنا چاہیے، تاکہ شیطان کے خلاف جنگ نہ ہاریں اور تباہ نہ ہوں۔
 کیا آپ مجھے سمجھتے ہیں؟ صرف تب ہم رُوح القدس سے معمور زندگیاں رکھیں گے۔ میں اُمید کرتا ہُوں کہ آپ بھی پانی اور رُوح کی خوشخبری کی خدمت کریں گے اور انحصار کریں گے اور خُداکے کلام کی پیروی کریں گے۔ آئیں ہم سب شیطان سے جانوں کو بچانے کاکام کریں۔ ہم رُوح القد س سے معمور زندگیاں گزار سکتے ہیں جب تک خُداوند دوبارہ نہیں آتا۔ رُوح القدس کی بھرپوری حاصل کرنا دوسرا حُکم ہے جو خُدانے ہمیں دیا۔ اُس کا شکر ہو۔ ہم ہمارے دلوں میں گناہوں کی معافی کی وجہ سے رُوح القد س کی معموری رکھ سکتے ہیں۔ اور اگر یہ رُوح القدس کی معموری نہ ہوتی، میں رُوح القدس سے معمور ایک زندگی شروع نہیں کر سکتا تھا۔ میں خُداکا ہمیں رُوح القدس سے معمور زندگیاں گزارنے کے لئے اجازت دینے کے واسطے شکر ادا کرتا ہُوں۔
کیا آپ ایمان رکھتے ہیں کہ آپ رُوح القدس کی معموری رکھ سکتے ہیں؟ ہم میں سے وہ جو اپنے گناہوں سے معاف ہو چکے ہیں، ہم رُوح القدس کی معموری رکھتے ہیں۔ لیکن وہ جو اپنے گناہ مٹا نہیں چکے ہیں اب تک رُوح القدس کی معموری نہیں رکھتے ہیں۔ وہ جو نہیں جانتے یا پانی اوررُوح کی خوشخبری پر ایمان نہیں رکھتے ہیں رُوح القدس کی معموری نہیں رکھتے ہیں۔ دُنیا کے تمام لوگ جہنم میں پھینک دئیے جائیں گے اگر وہ رُوح القدس کی معمور ی نہیں رکھتے ہیں۔
 چونکہ ہم ہمارے دلوں میں کوئی گناہ نہیں رکھتے، ہم رُوح القدس کی معمور ی رکھتے ہیں ۔ اور
کیونکہ رُوح القدس ہمارے دلوں میں سکونت کرتا ہے، ہم رُوح القدس سے معمور ایک زندگی گزار سکتے ہیں۔ ہم، جو رُوح القدس کی معموری رکھتے ہیں، کو یقینا رُوح القدس کے ساتھ بھرنے کے سلسلے میں رُوح کی خواہش کی فرمانبرداری کرنی چاہیے۔ جتنا زیادہ ہم رُوح کی خواہش کی فرمانبرداری کرتے ہیں، اتنا زیادہ ہمارا ایمان ایک پوری وردی کے جنگجو کی مانند مضبوط بنتا جاتا ہے۔ لیکن اگر ہم رُوح کی فرمانبرداری میں ناکام ہو جاتے ہیں، یہ ہمارے لئے اُسی طرح ہے جس طرح ہمارے ہتھیار کو اُتار دیا جانا۔
آئیں ہم رُوح القدس کے کلام کے وسیلہ سے بڑھیں اور ایک ایمان کے مرد بن جائیں۔ جب ہم رُوح القدس کے الفاظ سنتے ہیں،تو ہمارا ایمان ترقی کرتا ہے کیونکہ خُد اکہتا ہے، ”پس ایمان سننے سے پیداہوتا ہے اور سننا مسیح کے کلام سے۔“ (رومیوں ۱۰:۱۷)۔ اِس لئے حتیٰ کہ اگر شیطان ہم پر حملہ کرتا ہے، ہم اِن کلمات پرہمارے ایمان کے وسیلہ سے محفوظ رہتے ہیں۔ شیطان اُن پر حملہ نہیں کر سکتا جو پانی اور رُوح کی خوشخبری پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے ایمان کی سپر کے ساتھ لیس ہو چکے ہیں۔ وفادار لوگ اپنے ایمان کے ساتھ شیطان کے حملوں کو روکنے کا اِختیاررکھتے ہیں۔
 آئیں ہم ایمان کے ساتھ رُوح القدس سے معمور زندگیاں گزاریں۔ رُوح القدس سے معمور ایک زندگی تمام دُنیا میں وفاداری کے ساتھ پانی اوررُوح کی خوشخبری کی منادی کرنے والی زندگی پر لاگو ہوتی ہے ۔ ایسی ایک زندگی رُوح القدس سے معمور زندگی ہے۔