Search

उपदेश

مضمون 3: پانی اور رُوح کی خوشخبری

[3-4] یسوع کا بپتسمہ گناہ گاروں کے لئےنجات کا مشابہ ہے <۱۔پطرس۳:۲۰-۲۲>

یسوع کا بپتسمہ گناہ گاروں کے لئےنجات کا مشابہ ہے

<۱۔پطرس۳:۲۰-۲۲>

’’تھوڑے سے آدمی یعنی آٹھ جانیں پانی کے وسیلہ سے بچیں۔ اور اُسی پانی کا مشابہ بھی یعنی بپتسمہ یسوؔع مسیح کے جی اٹھنے کے وسیلہ سے اب تمہیں بچاتا ہے ۔اُس سے جسم کی نجاست کا دُور کرنا مراد نہیں بلکہ خالص نیت سے خُدا کا طالب ہونا مراد ہے۔وہ آسمان پر جا کر خُدا کی دہنی طرف بیٹھا ہے اور فرشتے اور اختیارات اور قدرتیں اسکے تابع کی گئی ہیں۔‘‘

 

 

کس کے وسیلہ سے ہم راستباز بن سکتے ہیں؟

خُدا کے فضل کے وسیلہ سے

 

بِلا شک خُدا ہمیں پہلےہی ہمارے اِس رُوئے زمین پر پیدا ہونے سے پیشترجانتاتھا۔وہ جانتا تھا کہ ہم گناہ گار پیدا ہوں گے اور ہم سب ایمانداروں کو اپنے بپتسمہ کے وسیلہ سے بچالیا، جس سےدُنیا کے تمام گناہوں کو اُٹھا لیا ۔اُس نے تمام ایماندروں کو بچالیا اور اُنہیں اپنے لوگ بنالیا۔

یہ سب کچھ خُدا کے فضل کا نتیجہ ہے۔ جیسا کہ زبور۸:۴ میں ارشاد ہے،’’انسان کیا ہے کہ تو اسکا خیا ل کرے؟‘‘چُھڑائے ہوئے لوگ جواپنے تمام گناہوں سے نجات یافتہ ہیں اُسکی خاص محبت کو حاصل کرنے والے ہیں۔وہ اُسکے اطفال ہیں۔ اِس بنا پر ہم،جوصرف اُس کے خُون اور رُوح پر ایمان رکھتے تھے ،خُدا کی اولاد بننے سے پیشتر،یعنی راستباز بننے اور نجات یافتہ ہونےاوراُسے باپ کہنے کا حق حاصل کرنے سے پیشتر کیاتھے؟ ہم گناہ گار تھے، فقط گناہ گار جو اِس جہان میں تقریباً۷۰یا ۸۰برس جینے کے لئے پیدا ہوئے تھے بشرطیکہ صحت مند ہوں۔

اِس سے پیشتر کہ ہم اپنے گناہوں سے پاک ہوئے، اوراِس سے پہلے کہ ہم یسوؔع کے بپتسمہ اوراُس کےخُون کی خُوشخبری پر ایمان رکھتے تھے، ہم ناراست لوگ تھے جنکی ہلاکت یقینی تھی۔

پولسؔ رسول نے فرمایاکہ جو کچھ وہ تھا یہ اُسکے فضل کی بدولت تھا۔اِسی طرح، ابھی ہم جو کچھ بھی ہیں قطعی طور پر اُس کے فضل کی وجہ سے ہیں۔ہم اُس کے فضل کے لئے اسکا شکر ادا کرتے ہیں۔خالق اِس دُنیا میں آیا اور ہمیں ، اپنی آل اولاد ، اپنے لوگ بناکر بچا لیا ۔ہم پانی اور رُوح کی نجات کے فضل کے لئے اُسکا شکر ادا کرتے ہیں۔

کیا وجہ ہے کہ وہ ہمیں اپنی آل اولاد، یعنی راستبازلوگ بننے کی اجازت دیتا ہے؟کیایہ اِس بنا پر ہے کیونکہ ہم دیکھنے میں خوبصورت ہیں؟ کیایہ اِس بنا پر ہے کیونکہ ہم بہت قابلِ احترام ہیں؟ یا کیایہ اِس بنا پر ہے کیونکہ ہم بہت اچھے ہیں؟ آئیں ہم اِس کے متعلق سوچیں اور شکر ادا کریں جہاں یہ واجب ہے۔

سبب یہ ہے کہ خُدا نے ہمیں اپنے لوگ بنانے کے لئے اور اپنے ساتھ آسمان کی بادشاہت میں ہمیں رہنے کی اجازت دینے کے لئے خلق کیا ۔خداوند خداٰ نے ہمیں اپنے ساتھ دوامی طورپر رہنے کی اجازت دینے کے لئےہمیں اپنے لوگ بنایا ۔یہ واحد وجہ ہے کیوں خُدا نے ہمیں مع ابدی زندگی برکت دی۔ اُس نے ہمیں اپنے لوگ اِس لئےنہیں بنایا کیونکہ ہم دیکھنے میں زیادہ خوبصورت ہیں ،زیادہ قابلِ احترام ہیں، یا اُسکی دوسری مخلوقات سے زیادہ بڑھ کرپارسا زندگی بسر کرتے ہیں۔ واحد سبب یہ ہے کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے۔

’’اور اسی پانی کا مشابہ بھی یعنی بپتسمہ یسوؔع مسیح کے جی اٹھنے کے وسیلہ سے اب تمہیں

بچاتا ہے۔‘‘(۱۔پطرس۳:۲۱)۔’’تھوڑے سے آدمی یعنی آٹھ جانیں پانی کے وسیلہ سے بچیں۔‘‘ (۱۔پطرس۳:۲۰)۔صرف چند جانیں ،ایک شہرمیں سے ایک اورایک خاندان میں سےدو جانیں بچی ہیں۔حسبِ دستور،کیا ہم دوسروں سے کچھ بہتر ہیں؟ ہرگز نہیں۔ ہم کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے،البتہ ہم کسی طرح پانی اور رُوح پراپنے ایمان کے توسط سے بچ گئے ہیں۔یہ معجزوں میں سے ایک معجزہ ہے کہ ہم بچ چُکے ہیں، اور یہ خُدا کی طرف سے ایک غیر مشروط نعمت اور برکت ہے کہ ہم اُسے اپنا باپ ،اپنا خُدا وند پکار سکتے ہیں۔ہم کبھی اُس بات سےانکارنہیں کر سکتے ۔ اگر ہم ہنوزگناہ گار ہی تھے تو کسطرح اُسے اپنا باپ اور اپنا خُدا وندپکار سکتے تھے؟

جب ہم اِس حقیقت کے متعلق سوچتے ہیں کہ ہم بچ گئے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتاہے کہ خُدا ہم سے مکمل اور قطعی طور پر محبت کر چُکا ہے۔ کیا ہم اُسکا شکر ادا نہیں کرسکتے؟حالانکہ ہم قانون شکن زندگیاں گزارنے کے بعد پیدا ہوتے اور مر جاتے ،یعنی جہنم میں پہنچ جاتے ،اگر یہ اُس کی محبت اور برکات کے سبب نہ ہوا ہوتا۔ہم بار بار خُدا کا اُس کی برکات اورمحبت کے لئے شکر ادا کرتے ہیں جس نے ہمیں اُس کی نگاہوں میں اُس کی آل اولاد بننے کے قابل بنایا۔

 

 

ہمیں یسوؔع کے بپتسمہ کی بدولت قیمتی نجات بخشی گئی ہے

 

کیوں نوحؔ کے دَور کے لوگہلاک ہوئے؟

کیونکہ اُنہوں نے پانی(یسوؔع کے بپتسمہ )پر ایمان نہ رکھا۔

 

’’اور اسی پانی کا مشابہ بھی یعنی بپتسمہ، اب تمہیں بچاتا ہے۔‘‘۱۔پطرس میں یوں لکھا ہے کہ فقط آٹھ جانیں پانی کے وسیلہ سے بچیں ۔نوحؔ کے دور میں کتنے لوگ ہوں گے؟ ہمارے پاس یہ جاننے کا کوئی راستہ نہیں ،مگر آئیں ہم فرض کریں کہ وہاں تقریباً دس لاکھ لوگ تھے۔صرف نوحؔ کے خاندان کے آٹھ لوگ ہی دس لاکھ لوگوں میں سے بچے۔

آج بھی تقریباً یہی تناسب ہوگا۔وہ کہتے ہیں کہ اِس وقت رُوئے زمین پر چھ ارب سے زائد لوگ ہیں۔ کتنے سارے لوگ اُن کے درمیان اپنے گناہوں سے دُھل چُکے ہیں جو آج یسوؔع پر ایمان رکھتے ہیں ؟ اگر ہم صرف ایک شہر پر نظر ڈالیں ، تو اُن میں سے چند ایک ہی ہوں گے ۔

میرے شہر میں ، جو کہ تقریباً اڑھائی لاکھ لوگوں پر مشتمل ہے کتنے سارے لوگ اپنے گناہوں سے نجات یافتہ ہیں ؟ شاید ۲۰۰ ؟ اِس صور ت میں ، شرح کیا ہو گی ؟ اِس کا مطلب ہو گاکہ ایک ہزار میں سے ایک سے بھی کم مخلصی کی برکت حاصل کر چُکا ہے ۔ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کوریا میں ، تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ مسیحی ہیں ، جن میں کیتھولک شامل ہیں ۔ اِن میں سے ، کتنے سارے لوگ اُن کے درمیان پانی اور رُوح سے نئے سرے سے پیدا ہو چُکے ہیں ؟ ہمیں ذہن میں رکھنا چاہئے کہ نوح کے دَور میں رُوئے زمین کی مکمل آبادی میں سے فقط آٹھ جانیں ہی بچی تھیں۔ ہمیں جاننا چاہئے اور ایمان لانا چاہئے کہ یسوؔع نے اُن سب کے گناہوں کو دھو ڈالا جو اُس کے بپتسمہ پر ایمان لاتے ہیں ، جس کی وساطت سے اُس نے تمامتر گناہوں کو اُٹھا لیا ۔

ایسے بہت سارے لوگ نہیں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں کہ یسوؔع نے ہم سب کو اپنے بپتسمہ اور اپنے صلیبی خُون کے ساتھ چُھڑا لیا ۔ ’یسوؔع کے جی اُٹھنے ‘ کی مشہور تصویر کو دیکھیں ۔ کتنے سارے جی اُٹھے لوگ وہاں دکھائے گئے ہیں ؟ آپ اُنھیں یروشؔلیم کے قلعے سے یسوؔع کے وجود کی طرف آتے دیکھ سکتے ہیں جو اُن کے لئے اپنے بازوؤں کو کھولے ہوئے ہے۔ اندازہ لگائیں کہ اُن کے درمیان کتنے سارے ماہرِ علم الہٰیات اور مُبلغین ہیں ۔

 آج ، دُنیا میں ماہرِ علمِ الہٰیات کی بہتات ہے ، مگر ہم تھوڑے سے لوگ پاتے ہیں جو اِسے جانتے ہیں اور یسوؔع کے بپتسمہ پر مخلصی کی بنیادی سچائی کے طورپر ایمان لاتے ہیں ۔ بعض ماہرینِ الہٰیات کہتے ہیں

کہ اِس کی وجہ کہ یسوؔع نے بپتسمہ لیا یہ تھی کہ کیونکہ وہ حلیم تھا، اور بعض کہتے ہیں کہ اُس نے ہم ، بنی نوع انسان کی مانند بننے کے واسطے بپتسمہ لیا ۔

 مگر کتابِ مقدّ س میں قلمبند ہے کہ تمام رسولوں نے جن میں پطرؔس اور یوؔحنا شامل ہیں، یسوؔع کے بپتسمہ کی اُس پر ہمارے گناہوں کی منتقلی کے طور پر گواہی دی، اور ہم بھی اِس پر ایمان رکھتے ہیں۔

رسول صحائف میں گواہی دیتے ہیں کہ ہمارے گناہ یسوؔع پر اُس کے بپتسمہ کے ساتھ سلسلہ وار متنقل ہو گئے تھے ۔ یہ خُدا کے فضل کی کتنی اچرج گواہی ہے کہ ہم صرف اِس پر ایمان لانے کے توسط سے آزاد ہو سکتے ہیں ۔

  

 

مخلصی کے بپتسمہ کے بارے میں کوئی’شاید‘نہیں ہے

 

کون خُدا کی فراواں محبت حاصلکرتا ہے ؟

وہ شخص جو یسوؔع کے بپتسمہ اوراُس کے خُون پر ایمان رکھتا ہے

 

لوگ ایمان رکھنے میں زود فہم ہیں کہ فقط یسوؔع پر ایمان رکھنا ہمیں بچا لے گا۔ تمام فرقہ جات اپنے عقائد میں نجات کے قائل ہیں ، اور بہت سارے لو گ گمان کرتے ہیں کہ یسوؔع کا بپتسمہ کسی مسیحی طبقے کا محض کوئی کٹّر عقیدہ ہے ۔ مگر یہ سچ نہیں ہے ۔ ہزارو ں کتب کے درمیان جنھیں میں پڑھ چُکا ہوں ، میں کسی کتاب کو نجات کے متعلق پانے کے اہل نہ ہُوا جو یسوؔع کے بپتسمہ اور خُون اور خُدا کی نجات کے

درمیان مخلصی کے تعلق کو صراحت کے ساتھ بتاتی ہو۔

فقط آٹھ جانیں نوؔح کے دَور میں بچیں۔ میں نہیں جانتا کہ کتنے سارے لوگ آج بچیں گے ، دوسری جانب غالباً بہت سارے نہیں ۔ وہ لوگ جو نجات یافتہ ہیں وہ ایسے لوگ ہیں جو یسوؔع کے بپتسمہ اور خُون پر ایمان لاتے ہیں ۔ بہت سارے گرجا گھروں میں جانے کے دوران ، میں بار بار تسلیم کرتا ہوں کہ تھوڑے سے لوگ ہیں جو یسوؔع کے بپتسمہ کی خُوشخبری کی منادی کرتے ہیں ، جو کہ سچی خُوشخبری ہے۔

اگر ہم بپتسمہ کی مخلصی اور یسوؔع کے خُون پر ایمان نہیں لاتے ، تو ہم ہنوز گناہ گار ہیں اور نجات یافتہ نہیں ہیں ، اِس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ کتنی وفاداری سے ہم گر جا گھر جاتے ہیں۔ ہم شاید اپنی پوری زندگیوں میں وفاداری سے گرجا گھر جا سکتے ہیں ، البتہ اگر ہنوز ہمارے باطنوں میں گناہ ہے ، تو ہم ہنوز گناہ گار ہی ہیں ۔

اگر ہم پچاس سا ل سے گرجا گھر جا چُکے ہیں ، مگر ہنوز اپنے باطنوں میں گناہ رکھتے ہیں، تو ہمارا پچاس سالہ ایمان کچھ نہیں بلکہ بطالت ہے ۔ اِس سے فقط ایک دن کا حقیقی ایمان رکھ لینا کہیں بہتر ہے ۔ اُن لوگوں کے درمیان جو یسوؔع پر ایمان رکھتے ہیں ، فقط وہ لوگ جو دُرستی سے یسوؔع کے بپتسمہ اور اُس کے خُون کے

مفہوم پر ایمان لاتے ہیں آسمان کی بادشاہی میں داخل ہوں گے ۔

حقیقی ایمان اِس عنصر پر ایمان لانا ہے کہ اِبنِ خُدا اِس دُنیا میں اُتر آیا اور جہان کے تمامتر گناہ اُٹھانے کے لئے بپتسمہ لیا ۔ یہ وہی ایمان ہے جو ہمیں آسمان کی بادشاہی میں لے جاتا ہے ۔ ہمیں یہ بھی ایمان لانا چاہئے کہ یسوؔع نے آپ کی اور میری خاطر صلیب پر خُون بہایا ۔ ہمیں اِسے بھی شکر ادا کرنے اور اُسے جلال دینے کے سلسلے میں جاننا چاہئے ۔

ہم کیا ہیں ؟ ہم مردوں اور عورتوں کی آل اولاد ہیں جو یسوؔع کے بپتسمہ اور خُون کے ساتھ نجات یافتہ ہوئے تھے ۔ کیسے ہم اُس کا شکر ادا نہیں کر سکتے ؟ یسوؔع نے ہمیں بچانے کے سلسلے میں یردؔن میں بپتسمہ لیا جب وہ تیس سال کاہوگیا۔ اِس طریقے سے ، اُس نے ہمارے تمام گناہ اُٹھا لئے اور ہماری خاطر صلیب پر سزا اُٹھائی ۔

 جب ہم اِس کے متعلق سوچتے ہیں ، تو ہم بچ نہیں سکتے بلکہ عاجزی سے اُس کا شکر ادا کریں گے ۔ ہمیں جاننا چاہئے کہ ہر چیز جو یسوؔع نے اِس دُنیا میں کی ہماری نجات کی خاطر تھی ۔ اَوّل ، وہ اِس دُنیا میں اُتر

آیا ، اُس نے بپتسمہ لیا ، صلیب پر مصلوب ہُوا، تین دن کے بعد مردوں میں سے جی اُٹھا ، اور اب رب ِ عالم کے دہنے ہاتھ پر بیٹھا ہُوا ہے ۔

 خُدا کی مخلصی ہم میں سے ہرایک کے لئے بِلا مستثنیٰ ہے۔ یسوؔع کی نجات آپ سب کے اور میرے لئے ہے ۔ ہم خُدا کی اُس کی محبت اور اُس کی برکات کے باعث تمجید کرتے ہیں ۔

ہم ایک خُوشخبری کا گیت جانتے ہیں جو یوں کہتا ہے ۔” ♫ایک خوبصور ت کہانی ہے ۔♫دُنیا کے اِتنے سارے لوگوں کے درمیان ، میں وہ خُوش نصیب ہوں جس کے پاس اُس کی محبت اور نجات ہے ۔♫ارے اُس کی محبت کتنی عجیب ہے ! ♫میرے لئے اُس کی محبت، میرے لئے اُس کی محبت، ایک خوبصورت کہانی ہے۔♫دُنیا میں اتنے سارے لوگوں کے درمیان ، ہم وہ خُوش نصیب ہیں جو نجات یافتہ ہیں، جو اُس کے لوگ بن گئے،ہم اُس کی محبت پہنے ہوئے ہیں۔♫ارےخُدا کی محبت، خُدا کا فضل۔♫ارے اُس کی محبت کتنی عجیب ہے! میرے لئے اُس کی محبت۔ “♫

یسوؔع آپ کو اور مجھے بچانے کے لئے نیچے اُترآیا، اور اُسکے بپتسمہ کی مخلصی بھی ہمارے لئے ہے۔ خُوشخبری محض کوئی پریوں کی کہانی نہیں؛ یہ صداقت ہے جو ہمیں ہماری بیگار کی زندگیوں میں سے نکال کر خُدا کی خوبصورت بادشاہی میں سر بلند کرتی ہے۔آپ کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ایمان خُدا اور آپ کے

درمیان تعلق ہے۔

 وہ ہمیں بچانے کے سلسلے میں اِس دُنیا میں اُتر آیا۔ اُس نے بپتسمہ لیا اور ہمارے گناہوں کو دھونے کے لئے صلیبی سزا کوبرداشت کیا۔

یہ کیسی برکت ہے جب ایماندار خُدا کو اپنا باپ پکار سکتے ہیں! کیسے ہم اپنے عقائد کے ساتھ یسوؔع پراپنےنجات دہندہ کے طور پر ایمان رکھ سکتے ہیں اور گناہ سے آزاد ہو سکتے ہیں؟ یہ ہماری خاطر اُس کی بے پایاں محبت کی وجہ سے ممکن ہوا۔ہم اُسکی وجہ سے بچ چُکے ہیں، جس نے پہلے ہم سے محبت کی۔

 

 

یسوؔع نے ہمارے تمامتر گناہ آخری اور حتمی طور پر دھو ڈالے

 

’’اسلئے کہ مسیح نے بھی یعنی راستباز نے ناراستوں کے لئے گناہوں کے باعث ایک بار دکھ اُٹھایا تاکہ ہم کو خُدا کے پاس پہنچائے۔‘‘ (۱۔پطرس۳:۱۸)۔یسوؔع مسیح نے ہماری نجات کی خاطر بپتسمہ لیا اورآپ کو مجھے،یعنی ناراستوں کو بچانے کے سلسلے میں ایک ہی بار صلیب پر مرگیا۔

  

کیا ہم سب ایک ہی ساتھ اور حتمی طور پر نجات یافتہ ہوئے ہیں یا درجہ بدرجہ؟

سب ایک ہی ساتھ اور حتمی طور پر

 

وہ ہمیں خُدا کی عدالت سے بچانے کے سلسلے میں اِس رُوئے زمین پر ایک ہی بار مر گیا۔تا کہ ہم خُدا کی بادشاہی میں داخل ہو سکیں اورخُدا کے حضورابدالآباد زندہ رہیں، وہ اِس زمین پر بدن میں اُترآیا اور اپنے بپتسمہ،اپنی صلیبی موت ،اور اپنے جی اُٹھنے کے ساتھ، ایک ہی بار ہمارے تمام گناہوں کو مکمل طورپر اُٹھا لیا۔

کیا آپ ایمان لاتے ہیں کہ یسوؔع مسیح نے ہمیں اپنے بپتسمہ اور خُون کے ساتھ مکمل طورپربچا لیا؟

اگر آپ اُس کے بپتسمہ اورخُون کی خُوشخبری پر ایمان نہیں رکھتے، تو آپ نجات حاصل نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ہم نہایت کمزور ہیں،ہم اَز سرِ نَو پیدا نہیں ہو سکتے اگر ہم ایمان نہیں لاتے کہ یسوؔع نے مکمل طور پر ہمارے تمام گناہوں کو سب ایک ہی ساتھ اور حتمی طورپر اپنے بپتسمہ اورخُون کے ساتھ دھو ڈالا۔

اُس نے ہمارے تمام گناہوں کو اُٹھانےکے لئے بپتسمہ لیا اور ہماری خاطر صلیب پر سزاسہی۔ یسوؔع نے اپنے بپتسمہ اور خُون کی مخلصی کے ساتھ مسیحیوں کے تمامتر گناہوں کو آخری اور حتمی طور پر دھو ڈالا۔

اگر ہمیں ہر بار گناہ کرنے کے بعد تو بہ کرنی پڑے، ہروقت اچھے اور مخّیر بننا پڑے، اوراِس کے علاوہ گرجا گھر کو بہت ساری چیزیں پیش کرنی پڑیں تو ہمارے لئے نسلِ انسانی کے طور پر نجات یافتہ ہونا ناممکن ہو گا۔

چنانچہ ، ہماری اپنی نجات کے لئےیسوؔع کے بپتسمہ اور صلیبی خُون پر ایمان ناگز یر ہے۔ ہمیں یقیناً پانی اور خُون پر ایمان لانا چاہئے۔سادگی سے نیک کام کرنے کا ہمارے گناہوں کی مغفرت کے ساتھ کوئی سروکار نہیں ہے۔

اِس بنا پرغریب لوگوں کے لئے مہنگے سوٹ خریدنے یا پاسبانوں کو لذیذکھانے پیش کرنے سے آپ کی نجات کو کچھ فائدہ نہیں پہنچے گا۔ یسوؔع صرف اُن لوگوں کو بچاتا ہے جو اُسکے بپتسمہ اورخُون پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اگر ہم ایمان رکھتے ہیں کہ خُدا نے ہمیں یسوؔع کے ذریعہ سے اُسکے بپتسمہ اور خُون کے ساتھ سب ایک ہی ساتھاورحتمی طور پر بچا لیا، تو ہم نجات پائیں گے۔

 بعض لوگ گمان کر سکتے ہیں کہ اِس کے باوجود کہ بِلا شک خُدا نے کتابِ مقدّس میں اِس طرح ارشاد فرمایا،اُنہیں اِس پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔یہ اُن پرمنحصر ہے،البتہ ہمیں اُس کے کلام پر اُسی طرح ایمان رکھنا چاہئے جس طرح یہ لکھا ہوا ہے۔

عبرانیوں۱۰:۱-۱۰میں ،یوں مرقوم ہے کہ اُس نے ہمیں ایک ہی بار ہمیشہ کے لئے نجات بخشی۔ یہ سچ ہے کہ خُدا نے اُن لوگوں کو ایک ہی بار ہمیشہ کے لئے نجات بخشی جو یسوؔع کے بپتسمہ اور خُون پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہمیں بھی اِسی طرح ایمان رکھنا چاہئے۔ ’’ ♫ وہ ایک ہی بار مؤا، ہم سب کو ایک ہی بار نجات بخش دی۔ اَے بھائیو ،ایمان لاؤ اور نجات پاؤ۔ یسوؔع کے بپتسمہ تلے اپنے بوجھ رکھ دو۔♫ ‘‘یسوؔع نے ایک ہی بار بپتسمہ لینے اور ایک ہی بار خُون بہانے کےوسیلہ سے ہمیں سارے فسق و فجور اور گناہوں سےآخری اور حتمی طور پر بچا لیا۔

’’راستباز نے ناراستوں کے لئے‘‘(۱۔پطرس۳:۱۸) یعنی یسوؔع بےگناہ خُدا ہے، اور اُس نے کبھی گناہ نہیں کیا۔ وہ ہمارے پاس لوگوں کو اُن کے گناہوں سے بچانے کی خاطرجسم میں اُترآیا۔ اُس نے بپتسمہ لیا اور ہمارے تما م گناہوں کو اُٹھا لیا ۔ اُس نے ہمیں گناہ اوربےانصافی سے بچالیا۔

لوگوں کےتمام گناہ پیدائش سے لے کرموت تک یسوؔع پر سلسلہ وار منتقل ہو گئے جب اُس نے بپتسمہ لیا اور سب لوگ سزا سے بچ گئے جب اُس نے خُون بہایا اورصلیب پرمرگیا۔ اُس نے گناہ گاروں کی خاطربپتسمہ لیا اوراُن کی جگہ پرنیابتہً مر گیا۔

یہ اُسکے بپتسمہ کا چُھٹکارہ ہے۔ یسوؔع نے ہم سب کو، جو گناہ گار تھے،سب ایک ہی ساتھ اور حتمی طور پر نجات بخش دی۔ ہم میں سے ہر آدمی کس قدر کمزورہے!یسوؔع نے ہمارے تمام گناہوں کو ہمارےجنموں سے لے کر مرگوں تک معاف کر دیا اورخود کو صلیبی سزاکے لئےقربان کر دیا۔ ہم لوگ جو یسوؔع پر ایمان رکھتے ہیں اُنہیں یہ ایمان رکھنا چاہئے کہ اُس نے ہمیں اپنے بپتسمہ اور خُون کے ساتھ آخری اور حتمی طور پر نجات بخش دی۔

ہم کمزور ہیں،مگریسوؔع نہیں۔ہم بےوفا ہیں،مگر یسوؔع نہیں۔ خُدا نے ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بچا لیا۔’’کیونکہ خُدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تا کہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔‘‘(یوحنا۳:۱۶) ۔خُدا نے ہمیں اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا۔اُس نے اپنے بیٹے کواُس پردُنیا کے تمام گناہ سلسلہ وار منتقل کرنے کے سلسلے میں بپتسمہ دلوایا،تا کہ وہ تمام بنی نوع انسان کی خاطر سزا برداشت کرسکے۔

یہ کتنی عجیب نجات ہے!یہ کتنی عجیب محبت ہے! ہم خُدا کا اُس کی محبت اور نجات کے لئے شکر ادا کرتے ہیں۔خُدا اُن لوگوں کوبچاتا ہے جو یسوؔع کے پانی اور خُون پر:یعنی یسوؔع کے بپتسمہ اور خُون بہے پر،اوراِس حقیقت پرایمان رکھتے ہیں کہ یسوؔع خُدا کا بیٹا ہے۔

وہ لوگ جو یسوؔع پر ایمان رکھتے ہیں یسوؔع کے بپتسمہ اور خُون کی سچائی پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے بچ سکتے ہیں اور راستبازوں کے طور پر ابدی زندگیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ہم سب کو یقینا ًاِس پر ایمان رکھنا چاہئے۔

کس نے ہمیں بچایا؟کیا یہ خُدا تھا جس نے ہمیں بچایا،یا یہ اُس کی مخلوقات میں سے کوئی ایک تھا جس نے ہمیں بچایا؟یہ یسوؔع تھا جو کہ خُدا ہے،جس نے ہمیں بچالیا۔ہم بچ گئے کیونکہ ہم نے خُدا کی خلاصی پر ایمان رکھا،اوریہ مخلصی کی نجات ہے۔

 

 

یسوؔع نجات کا خُدا وندہے

 

’مسیح‘ کا کیا مطلب ہے؟

کاہن، بادشاہ ،اور نبی

 

یسوؔع مسیح خُدا ہے۔ یسوؔع کا مطلب نجات دہندہ اور مسیح کا مطلب ’مسح کیا ہوا‘ہے۔ جس طرح عہدِ عتیق میں، سیموئیلؔ نے ساؤلؔ کو مسح کیا ، بادشاہوں کو مسح کیا جاتا تھا، کاہنوں کو مسح کیا جاتاتھا اورایک نبی کواپنی خدمت سرانجام دینےکے لئے، اُسےبھی مسح ہونا پڑتا تھا۔

یسوؔع اِس دُنیا میں آیا اور اُسے تین فرائض کے لئے مسح کیا گیا: یعنی کاہن ،بادشاہ اور نبی کا فرض۔ آسمانی کاہن کے طور پر،اُس نے تمام بنی نوع انسان کے گناہ اُٹھانے کے لئےبپتسمہ لیا۔

اپنے باپ کی مرضی کی تابعداری کرتے ہوئے، اُس نے باپ کے حضورخود کو گناہ کی قربانی کے طور پر پیش کر دیا۔ ’’راہ اور حق اور زندگی میں ہوں۔ کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا۔‘‘یسوؔع نے ہم میں سے اُن لوگوں کو بچالیا جو اُس پر یہ ایمان رکھتے ہیں کہ اُس نے اپنے بپتسمہ کی وساطت سے اورمصلوب ہونے کی بدولت ہمارے تمام گناہوں کو اُٹھانے کی معرفت منہا کردیا۔

’’ کیونکہ جسم کی جان خُون میں ہے‘‘(احبار۱۷:۱۱)۔یسوؔع نے بپتسمہ کے بعد صلیب پر خُون بہایا؛ اِس طریقے سے،خُدا کے حضوراپنی زندگی کوہمارے گناہوں کی قیمت کے طور پر قربان کیا تاکہ ہم ایماندار بچ جائیں۔

وہ صلیب پر مرنے کے تین روز بعد مردوں میں سے جی اُٹھااور اُس نے قیدی رُوحوں میں خُوشخبری کی منادی کی۔ وہ لوگ جو ہنوز نجات یافتہ نہیں ہیں،گناہ کی جیل میں رُوحانی قیدیوں کی مانند ہیں، اور اُن کے لئےیسوؔع سچی خُوشخبری،یعنی پانی اور خُون کی خُوشخبری کی منادی کرتا ہے۔ خُدا ہمیں بچانےکے لئے پانی اور رُوح کی خُوشخبری عطا کر چُکا ہے۔ہر آدمی جو اُس پر ایمان لاتا ہے وہ اَز سرِ نَو پیداہو سکتا ہے۔

 

 

یسوؔع کا بپتسمہ اور خُون گناہ گاروں کو بچاتاہے

                 

کیسے ہم خُدا کے سامنے خالص نیّتحاصل کر سکتے ہیں؟

یسوؔع کے بپتسمہ اور خُون پر ایمانرکھنے کے وسیلہ سے

 

یسوؔع مسیح ہمارا نجات دہندہ ہے، اوراِس کی ا۔پطرس۳:۲۱میں گواہی دی گئی ہے،’’اور اسی پانی کا مشابہ بھی یعنی بپتسمہ یسوؔع مسیح کے جی اُٹھنے کے وسیلہ سے اب تمہیں بچاتا ہے۔ اس سے جسم کی نجاست کا دور کرنا مراد نہیں بلکہ خالص نیت سے خُدا کا طالب ہونا مراد ہے۔‘‘یسوؔع کے بپتسمہ کا پانی گناہ گاروں کی نجات کے لئےلازم ہے۔

یسوؔع نےتمام گناہ گاروں کے گناہوں کو اپنے بپتسمہ کے ذریعہ سےیعنی اُن گناہوں کو اپنے آپ پر اُٹھانے کے وسیلہ سے دھو ڈالا ۔ کیا آپ یسوؔع کے بپتسمہ پر ایمان لاتے ہیں؟کیا آپ ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارے دل تمام گناہوں سےاُس کے بپتسمہ کے ذریعہ سے پاک ہو گئے ہیں؟ہمارے دل تمام گناہوں سے پاک ہو گئے ہیں، مگر ہمارا جسم اب بھی گناہ کرتا ہے۔

’نئے سرے سے پیدا ہونے‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی آدمی دوبار ہ گناہ نہیں کرے گا۔ ہم ،نئے سرے سے پیداہوئے لوگ ،بھی گناہ کرتے ہیں،مگر ہمارے دل اُس کے بپتسمہ پر ہمارے عقائد کی وجہ سےگناہ سےپاک رہتے ہیں۔اِس طرح بالائی حوالہ بیان کرتا ہے،’’ اس سے جسم کی نجاست کا دور کرنا مراد نہیں بلکہ خالص نیت سے خُدا کا طالب ہونا مراد ہے۔‘‘(ا۔پطرس۳:۲۱)۔

چونکہ یسوؔع نے میرے گناہ دھوڈالے ،اورچونکہ خُدا نے میری خاطر سزا قبول کی ، توکیسے میں اُس پر ایمان نہیں لا سکتا ؟یہ جان کر کہ یسوؔع نے جو خُدا ہے،مجھے اپنے بپتسمہ اور خُون کے ذریعہ سے بچالیا، تو کیسے میں اُس پر ایمان نہیں لا سکتا ؟ہم نے خُدا کے حضور نجات پائی اور اب ہمارے ضمیر پاک ہیں۔ ہم خُدا کے حضورمزید نہیں کہہ سکتے کہ یسوؔع نے ہمارے گناہوں کو مکمل طور پر نہیں دھویا، بالکل جس طرح

ہم نہیں کہہ سکتے کہ خُدا ہم سے محبت نہیں کرتا۔

ہمارے ضمیر نئے سرے سے پیدا ہونے کے بعدکہیں زیادہ حساس ہو جاتے ہیں اور وہ ہمیں خبر دار کرتے ہیں جب بھی ہم کوئی غلطی کرتے ہیں۔اگر ہمارے ضمیرکو بِلا شک ذرا سی بھی تکلیف ہوتی ہے ، تو ہم مکمل طور پر گناہ سے آزاد نہیں ہو سکتے جب تک ہم خود کویسوؔع کے بپتسمہ کی طاقت یاد نہیں دِلاتے ۔ یہ واحد راہ ہے جس سے ہم نیک ضمیر حاصل کر سکتے ہیں۔

جب ہمارے ضمیر ہمیں دِق کرتےہیں، تو اِس کا مطلب ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ یسوؔع کے بپتسمہ کا پانی گناہ کی ساری نجاست کو پاک کردیتا ہے۔ یسوؔع نے ہمارے تمام گناہ اپنے بپتسمہ کے ذریعہ سے اُٹھالئے اور ہمیں ، حتیٰ کہ ہمارے ضمیروں کو پاک صاف کر دیا۔ جب ہم واقعی اِس پر ایمان لاتے ہیں، تو ہمارے ضمیر بھی حقیقی طور پر پاک ہو سکتے ہیں۔ کیسے ہمارے ضمیر پاک ہو سکتے ہیں؟یسوؔع کے بپتسمہ اور خُون پر ایمان لانے کے توسط سے ۔ہر آدمی کے پاس پیدائش ہی سے بُرا اور گندا ضمیر ہے،اِس کے باوجود اگر ہم ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارے تمام گناہ یسوؔع پرمنتقل ہو گئےتھے ،تو ہم اُس داغ کو مٹا سکتے ہیں۔

یہ نئے سرے سے پیدا ہوئے آدمی کا ایمان ہے۔ یہ کوئی خود کارمفروضہ نہیں ہے، ایسی چیز جسے آپ با ہوش و حواس مانتے ہیں۔ کیا آپ کا ضمیر پاک ہے؟کیا یہ اِس وجہ سے پاک ہےکیونکہ آپ اچھی سیرت گزار چُکے ہیں، یا کیا یہ اِس بنا پر پاک ہے کیونکہ آپ کے تمام گناہ یسوؔع پرمنتقل ہو گئےتھے، اور آپ اُس پر ایمان رکھتے ہیں ؟یہ فقط اِس ایمان کے طُفیل سے ہے کہ آپ پاک ضمیر حاصل کرسکتے ہیں۔

اِس بنا پر جان دار الفاظ اور بے جان الفاظ پائے جاتے ہیں۔کیسے تمام لوگوں کے ضمیر پاک ہو سکتے ہیں؟وہ واحد راہ جس سے ہم راستباز بن سکتے اور پاک ضمیر حاصل کر سکتے ہیں یسوؔع کے کامل کفارے پر ایمان لانے میں ہے۔

 جب اُس کے بپتسمہ پر ایمان ہمیں پاک ٹھہراتا ہے، تو اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جسم کی نجاست دورہو چُکی ہے،بلکہ یہ مراد ہے کہ ہمارے ضمیر خُدا کے نزدیک پاک ہیں۔اِس بنا پر، وہ آیا، بپتسمہ

لیا، صلیب پرمر گیا، اور مردوں میں سے جی اُٹھا، اور اب خُدا کے دہنے ہاتھ بیٹھاہُوا ہے۔

جب وقت آئے گا ،تو وہ اِس دُنیا میں دوبارہ آئے گا۔’’دوسری بار بغیر گناہ کے نجات کے لئے اُنکو دکھائی دیگا جو اُسکی راہ دیکھتے ہیں۔‘‘(عبرانیوں۹:۲۸)۔ ہم ایمان رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں لینے آئے گا، جو بے قراری سے اسکا انتظار کرتے ہیں ،اور اسکے بپتسمہ اور خُون پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے گناہ سے مبّرا ہیں۔

 

 

ایمان کا طبی تجربہ

 

کیا ہم یسوؔع کے بپتسمہ کے بغیرنجات یافتہ ہو سکتے ہیں؟

ہرگز نہیں

                 

ہم نے اپنے ڈائی جیون چرچ میں ایک طبی اوربِلا منصوبہ تجربہ کیا۔

ڈائی جیون چرچ کے ریورنڈ پارک نے ایک جوڑے کو بتایا کہ یسوؔع کے بپتسمہ کے مفہوم کو ظاہر کرنے کے بغیر دُنیا میں کوئی گناہ نہیں تھا۔ اُس کا خاوند پیغامات کے دوران سونے کا عادی تھا جب وہ دوسرے گرجا گھروں میں جاتا تھاکیونکہ تمام پاسبان جب منادی کرتے تھے تو اُس کے دوران یسوؔع کے بپتسمہ کے وسیلہ سے مخلصی کو خارج کر دیتے تھے ،یوں اُسے ہر روزتوبہ کرنے پر مجبور کرتے تھے۔

 مگر یہاں ہمارے ڈائی جون چرچ میں، اُس نے اپنی دو نوں آنکھیں کھول کر پیغام کو سنا،کیونکہ اُسے بتایا گیا کہ اُس کے تمام گناہ یسوؔع پر منتقل ہو گئے تھے۔ اِس سے اُسکی بیوی کو آسانی ہو گئی کہ وہ اُسے اپنے ساتھ گرجا گھر آنے پر قائل کرسکے ۔

ایک دن، وہ گرجاگھر میں بیٹھا تھا اور اُس نے رومیوں ۸:۱ کو سُنا۔’’ پس ۱ب سے جو مسیح یسوؔع میں ہیں ان پر سزا کاحکم نہیں۔‘‘اِس کے بعد، اُس نے فوراً سوچا،’ اوہ، اگر کوئی آدمی یسوؔع پر ایمان رکھے، تووہ آدمی گناہ سے مبّرا ہے۔چونکہ میں یسوؔع پر ایمان رکھتا ہوں ، میں بھی گناہ سے مبّرا ہوں۔‘

لہٰذا اُس نے اپنے سالے اور اپنے کئی دوستوں کو ایک ایک کرکے فون کیا اور کہا،’’ کیا تمہارے باطن میں گناہ ہے؟تو پھر، تمہارا ایمان درست نہیں ہے۔‘‘اِسطرح، ریورنڈ پارک کا نقصان ہوگیا۔ اِس کا خاوند یسوؔع کے بپتسمہ سے ناواقف تھا مگر اُس نے اِصرار کیا کہ وہ اب گناہ سے مبّرا تھا۔ اِس کے بعد، اُس جوڑے میں مسائل برپا ہونے شروع ہوئے۔اُس کی بیوی زیادہ کٹّر مذہبی تھی، مگروہ ہنوز اپنے باطن میں گناہ رکھتی تھی اِسی اثنا میں جبکہ اُسکے خاوند نے کہا وہ گناہ سے مبّراتھا۔اُس کاخاوند بس چند مرتبہ ہی گرجا گھر گیا،مگر وہ پہلے ہی گناہ سے مبّرا تھا۔

اُس کی بیوی پُر یقین تھی کہ وہ دونوں ہنوز اپنے باطنوں میں گناہ رکھتے تھے۔ اُنہوں نے اِس کے متعلق بحث شروع کر دی۔اُس کے خاوند نے اِصرار کیا کہ وہ بے گناہ تھاکیونکہ’’پس اب جو مسیح یسوؔع میں ہیں اُن پر سزاکا حکم نہیں۔‘‘ اوراُس کی بیوی نے دلیل پیش کی کہ وہ ہنوز اپنے باطن میں گناہ رکھتی تھی۔

تب ایک دن،اُس کی بیوی اِس بات کے متعلق اِس قدرتاؤ میں آئی کہ اُس نے آگے جانے اورریورنڈ پارک سے پوچھنے کا فیصلہ کیا کہ اُس کا کیا مطلب تھا جب اُس نے کہاتھا کہ تمام گناہ یسوؔع پر منتقل ہو گئے تھے۔

لہٰذا ایک دن ،شام کی عبادت کے بعد ،اُس نے اپنے خاوند کو گھر بھیج دیا اورریورنڈ پارک سے سوال پوچھنے کے لئے پیچھے ٹھہر گئی۔ اُس نے کہا، ’’میں جانتی ہوں کہ آپ ہمیں کچھ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں، مگرمیں پُر یقین ہوں کہ کوئی اہم حصہ پوشیدہ ہے۔ برائے مہربانی مجھے بتائیں کہ وہ کیا ہے۔‘‘ اِس صورت میں، ریورنڈ پارک نے اُسے پانی اور رُوح کے وسیلہ سے نئے سرے سے پیدا ہونے کے متعلق بتایا۔

 وہ فوراًہی سمجھ گئی کہ رومیوں۸:۱ میں کیوں لکھا ہوا تھا، ’’پس اب جو مسیح یسوؔع میں ہیں ان پر سزا کا حکم نہیں۔ ‘‘اُس نے بِلا تاخیر اِس پر ایمان رکھا اور نجات حاصل کرلی۔ بالآخر وہ اچھی طرح سمجھ گئی کہ ہمارے تمام گناہ اُس کے بپتسمہ کے وسیلہ سےیسوؔع پر منتقل ہو گئے تھے،تاکہ وہ لوگ جو مسیح میں ہیں اُن پر سزا کا حکم نہ ہو۔

اُس نے تحریری کلام کو سمجھنا شروع کیا۔ آخر کار اُس نے پا لیا کہ نجات کی کنجی یسوؔع کا بپتسمہ تھا اوریعنی ہم اُس کے بپتسمہ کی مخلصی کے وسیلہ سے راستباز بن سکتےتھے۔

حقیقت میں،اُس کا خاوند گھر نہ گیا بلکہ باہر اُسکا انتظار کر رہاتھا۔اُس نے اُس کی گواہی سنی کہ اُس کے سبھی گناہ پاک ہو گئے تھے،اور اُس نے نہایت خُوشی سے پوچھا، ’’اچھا،توکیاتم اب نجات یافتہ ہو؟‘‘

 مگر اُسے سننے کے بعد کہ اُس کے پاسبان نے اُس کی بیوی کو کیا بتایا، وہ شش و پنج میں پڑ گیا۔ اس نے پہلے کبھی یسوؔع کے بپتسمہ کی خُوشخبری کے متعلق نہیں سنا تھا ۔وہ پُر یقین تھا کہ وہ بِلا شُبہ یسوؔع کے بپتسمہ کے بغیر مزید اپنے باطن میں گناہ نہیں رکھتا تھا۔ لہٰذا گھرپر، اُنہوں نے پھر بحث کی۔

اِس بار ،صورتِ حال اُلٹ تھی۔اُس بیوی نے خاوندکو دبایاکہ آیا وہ اپنے باطن میں گناہ رکھتا تھا یا نہیں؟ اُس نے اُس سے پوچھا کہ کیسے وہ بے گناہ ہو سکتا تھاجب کہ وہ یسوؔع کے بپتسمہ پر ایمان نہیں رکھتا تھا ؟ اُس نے اُسے اپنے ضمیر میں گہری نظر سے جھانکنے کے لئے اُبھارا۔اِس کے بعد، اُس نے اپنے ضمیر کے معائنے کے دوران احساس کیا کہ اُس کے باطن میں ہنوز گناہ موجود تھا۔

لہٰذا، وہ ریورنڈپارک کے پاس آیا اور اقرار کیا کہ اُس کے باطن میں گناہ موجو دتھا ۔ اُس نے پوچھا،’’ جب وہ بکرے کے سر پراپنے ہاتھ رکھتے تھے، تو کیا یہ اُسےذبح کرنے سے پہلے ہوتا تھا، یااُسے ذبح کرنے کے بعد؟‘‘ اُس نے کبھی پانی اوررُوح کی خُوشخبری کو نہیں سنُا تھا، اسلئے وہ بُری طرح اُلجھ گیا۔

 یہ اِس رُوحانی تجربہ کا حاصل کلام تھا۔یسوؔع کو اُس پردُنیا کے تمام گناہ منتقل کرنےکے لئے بپتسمہ لیناپڑا۔فقط اِس شرط پر ہی وہ سُولی پر مر سکتا تھاکیونکہ گناہ کی مزدوری موت ہے۔

’’ کیا وہ قربانی کے جانور کے سر پراپنے ہاتھ اُسےذبح کرنے سے پہلے یابعدمیں رکھتے تھے؟‘‘ اُس نے یہ سوال پوچھا کیونکہ وہ ہاتھ رکھنے اور یسوؔع کے بپتسمہ کے بارے میں اُلجھن کا شکار تھا۔ لہٰذا ریورنڈ پارک نے یسوؔع

کے بپتسمہ کی مخلصی کو اُس کے سامنے تفصیل سے واضح کیا۔

اُس دن، خاوند نے پہلی مرتبہ پانی اور رُوح کی خُوشخبری کو سُنا اورچُھٹکارہ پا گیا۔ اُس نے صرف ایک ہی بار خُوشخبری کو سُنا اور آزادہوگیا۔

یہ یسوؔع کے بپتسمہ کوخارج کرنے کا تجربہ تھا۔ ہم شاید کہہ سکتے ہیں کہ ہم کوئی گناہ نہیں رکھتے، مگرہم یقیناً ہنوزیسوؔع کے بپتسمہ کے بغیر اپنے باطنوں میں گناہ رکھتے ہیں ۔ لوگ عموماً کہتے ہیں کہ یسوؔع نے سُولی پرمرنے کی بدولت سارا گناہ پاک کردیا ،مگر صرف وہ لوگ جو یسوؔع کے بپتسمہ اور خُون پر ایمان لاتے ہیں وہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ حقیقی طور پر خُدا کے حضور کوئی گناہ نہیں رکھتے۔

ریورنڈ پارک نے اِس جوڑے کے ساتھ یہ ثابت کیا کہ ہم اپنے گناہوں سےیسوؔع کے بپتسمہ پر ایمان کی معرفت کفارے کےبغیر مکمل طور پر چھٹکارہ حاصل نہیں کر سکتے۔

 

 

نجات کا مشابہ:یعنی یسوؔع کا بپتسمہ

 

نجات کا مشابہ کیا ہے؟

یسوؔع کا بپتسمہ

 

’’اور اُسی پانی کا مشابہ بھی یعنی بپتسمہ اب تمہیں بچاتا ہے۔‘‘یسوؔع ہمارے جگ میں ہمارے تمام گناہ دھونے اور ہمارے ضمیروں کوبرف کی مانند سفید کرنےکے لئے اُتر آیا۔ ہم اپنےتمام گناہوں سے پاک ہیں کیونکہ یسوؔع نے اپنے بپتسمہ کے ذریعہ سےاپنے آپ پر اُن سب کو اُٹھالیا۔ اُس نے

اپنے بپتسمہ اور خُون کے ساتھ ہمیں بچالیا۔چنانچہ، تمام مخلوقات کو اُس کے آگے گٹھنےٹیکنےچاہئے۔

 یسوؔع پر ایمان ہمیں بچاتا ہے ۔ ہم یسوؔع پر ایمان لانے کے باعث خُدا کی آل اولاد بن جاتے ہیں اور آسمان پر جاتے ہیں ۔ ہم یسوؔع پر ایمان لانے کی بدولت راستباز بن جاتے ہیں۔ ہم شا ہی کاہنوں کا فرقہ ہیں۔ ہم خُدا کو اپنا باپ پکار سکتے ہیں۔ ہم اِس سنسار میں رہتے ہیں، مگر ہم بادشاہ ہیں۔

کیا آپ واقعی ایمان رکھتے ہیں کہ خُدا نے ہم میں سے اُن لوگوں کو نجات بخشی جو پانی اور رُوح کی مخلصی پر ایمان لاتے ہیں ؟ ہماری نجات یسوؔع کے بپتسمہ کے بغیرہرگز مکمل نہیں ہو سکتی ۔وہ ایمان جسےخُدا اور یسوؔع سچ مانتے ہیں اُس کے بپتسمہ، اُس کی صلیب، اور رُو ح کی خُوشخبری پر ایمان ہے ، جس نے ہمیں مکمل طور پر بچالیا ۔یہ واحد سچا ایمان ہے۔

ہمارے گناہ اُس وقت دُھل گئے جب یسوؔع نے اُنہیں اپنے بپتسمہ کے ساتھ اُٹھالیا۱ور ہمارے تمام گناہوں کی قیمت ادا کردی جب اُس نے سُولی پر خُون بہایا۔ مسیح یسوؔع نےہمیں پانی اور رُوح کےساتھ بچا لیا۔ جی ہاں! ہم ایمان لاتے ہیں!