Search

उपदेश

مضمون 4: روزمرہ کے گُناہوں کاحل

[4-1] کثیر کفّارے کی خوشخبری <یوحنا ۱۳:۱۔۱۷>

کثیر کفّارے کی خوشخبری

<یوحنا ۱۳:۱۔۱۷<

’’عیدِ فسح سے پہلے جب یسوؔع نے جان لیا کہ میرا وہ وقت آپہنچا کہ دُنیا سے رخصت ہو کر باپ کے پاس جاؤں تو اپنے لوگوں سے جو دُنیا میں تھے جیسی محبت رکھتا تھا آخر تک محبت رکھتا رہا۔ اور جب ابلیس شمعونؔ کے بیٹے یہوداہؔ اسکریوتی کے دل میں ڈال چُکا تھا کہ اسے پکڑوائے تو شام کا کھانا کھاتے وقت۔یسوؔع نے یہ جان کر کہ باپ نے سب چیزیں میرے ہاتھ میں کردی ہیں اور میں خُدا کے پاس سے آیا اور خُدا ہی کے پاس جاتا ہوں ۔دسترخوان سے اُٹھ کر کپڑے اُتارے اور رومال لیکر اپنی کمر میں باندھا۔اسکے بعد برتن میں پانی ڈال کر شاگردوں کے پاؤں دھونے اور جو رومال کمر میں با ندھا تھا اس سے پونچھنے شروع کئے۔ پھر وہ شمعوؔن پطرؔس تک پہنچا۔ اس نے اس سے کہا اے خُداوند! کیا تو میرے پاؤں دھوتا ہے؟ ۔یسوؔع نے جواب میں اس سے کہا جو میں کرتا ہوں تو اب نہیں جانتا مگر بعد میں سمجھے گا۔پطرؔس نے اس سے کہا کہ تو میرے پاؤں ابد تک کبھی دھونے نہ پائیگا۔ یسوؔع نے اسے جواب دیا کہ اگر میں تجھے نہ دھوؤں تو تو میرے ساتھ شریک نہیں۔ شمعوؔن پطرؔس نے اس سے کہا اے خُداوند! صرف میرے پاؤں ہی نہیں بلکہ ہاتھ اور سر بھی دھو دے۔یسوؔع نے اس سے کہاجو نہاچُکا ہے اسکو پاؤں کے سوا اور کچھ دھو نے کی حاجت نہیں بلکہ سرا سر پاک ہے اور تم پاک ہو لیکن سب کے سب نہیں ۔چونکہ وہ اپنے پکڑوانے والے کو جانتا تھا اسلئے اس نے کہا تم سب پاک نہیں ہو۔پس جب وہ اُن کے پاؤں دھو چُکا اور اپنے کپڑے پہن کر پھر بیٹھ گیا تو ان سے کہا کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟ ۔تم مجھے استاد اور خُداوند کہتے ہو اور خوب کہتے ہو کیونکہ میں ہوں۔ پس جب مجھ خُداوند اور استاد نے تمہارے پاؤں دھو ئے تو تم پر بھی فرض ہے کہ ایک دوسرے کے پاؤں دھو یا کرو۔کیونکہ میں نے تمکو ایک نمونہ دکھایا ہے کہ جیسا میں نے تمہارے ساتھ کیا ہے تم بھی کیا کرو۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ نو کر اپنے مالک سے بڑا نہیں ہوتا اور نہ بھیجا ہوا اپنے بھیجنے والے سے۔ اگر تم ان باتوں کو جانتے ہو تو مبارک ہو بشرطیکہ اُن پر عمل بھی کرو۔‘‘

 
 
کیوں یسوؔع نے عیدِ فسح سے ایک روز پہلے پطرؔس کے پاؤں دھو ئے؟ اُس کے پاؤں دھونے سے
تھوڑی دیرپہلےیسوؔع نے فرمایا،’’ تو اب نہیں جانتا مگر بعد میں سمجھے گا۔‘‘پطرؔس، یسوؔع کے شاگردوں کے درمیان سب سے اچھا شاگرد تھا۔ وہ ایمان رکھتا تھا کہ یسوؔع خداوند خداکا بیٹاتھا اور گواہی دی کہ یسوؔع مسیح تھا۔جب یسوؔع نے اُسکے پاؤں دھو ئے، تویقیناً ایسا کرنے کی اچھی بھلی وجہ تھی ۔ جب پطرؔس نے اپنے ایمان کا اقرار کیا کہ یسوؔع مسیح تھا، تو اِس کا مطلب تھا کہ وہ ایمان رکھتا تھا کہ یسوؔع نجات دہندہ ہے جو اُسے اُس کے تمامترپاپوں سے نجات دے گا۔
 
کیوں یسوؔع نے مصلوب ہونے سے پیشتر شاگردوں کے پاؤں دھو ئے؟
کیونکہ وہ اُن سے چاہتا تھاکہ وہ اُس کی کامل نجات کوسمجھیں ۔
 
کیوں اُس نے پطرؔس کے پاؤں دھو ئے؟ یسوع کو معلوم تھا کہ پطرؔس جلد ہی تین مرتبہ اُس کا انکار کرے گااور اِس بنا پر وہ مستقبل میں گناہ جاری رکھے گا۔
اگر، یسوؔع کے آسمان پر جانے کے بعد، پطرؔس کے باطن میں کوئی گناہ باقی ہوتا، تو وہ یسوؔع کے ساتھ ایک ہونے کےقابل نہ ہوتا۔ مگریسوؔع اپنےتمام شاگردوں کی کمزوریوں کو جانتا تھا اور وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ اُن کے گناہ اُس کے اور اُسکے شاگردوں کے درمیان حائل ہوں۔ چنانچہ، اُسے اُنہیں سکھانے کی ضرورت تھی کہ اُن کی تمام بدکاریاں پہلے ہی دُھل چُکی تھیں ۔اِس بنا پریہی وجہ تھی کہ اُس نے اپنے شاگردوں کے پاؤں دھو ئے ۔ یسوعؔ، اپنےمرنے اور اُنہیں چھوڑنے سے پیشتر، پُر یقین ہونا چاہتا تھا کہ وہ اُسکے بپتسمہ کی خُوشخبری پراوراِسی طرح، اپنے تمام عمر بھر کے گناہوں کی کامل بخشش پرمضبوطی سے قائم رہیں۔
یوحنا۱۳باب اُس کامل نجات کے متعلق بات کرتا ہے جس کی یسوؔع اپنے شاگردوں کے واسطے تکمیل کرچُکاتھا۔ اُن کے پاؤں دھونے کے دوران، یسوؔع نے اُنہیں اپنے بپتسمہ کی خُوشخبری کی حکمت کے متعلق بتایا جسکی وساطت سے تمام آدمی اپنی خطاؤں سے دُھل سکتے تھے۔
’’ مستقبل میں ابلیس سے دھوکامت کھانا۔ میں تمہارے تمام گناہوں کو دریائےیردؔن پر اپنے بپتسمہ کے ساتھ اُٹھاچُکا ہوں اورمیں اُن کی خاطر صلیب پر سزا سہوں گا۔اِس کے بعد، میں مردوں میں سے جی اُٹھوں گا اورآپ سب کے لئےاَزسرِ نَو پیدا ہونے کی نجات کو مکمل کردُوں گا۔ تمہیں یہ سکھانے کے لئے کہ میں بِلا شک تمہارے مستقبل کے گناہ پہلے ہی دھو چُکا ہوں، تمہیں گناہوں کی معافی کی اَصل خُوشخبری سکھانے کے لئے، میں اپنی مصلُوبیت سے پیشتر تمہارے پاؤں دھو رہا ہوں۔ یہ نئے سرے سے پیداہونے کی خُوشخبری کابھید ہے۔ آپ سب کوعین مین ایمان رکھنا چاہئے۔‘‘
ہم سب کووہی وجہ سمجھنی چاہئے کہ کیوں یسوؔع نے شاگردوں کے پاؤں دھو ئے اور یہ بھی جاننا چاہئے کہ اُس نے یہ کیوں فرمایا،’’ جو میں کرتا ہوں تو اب نہیں جانتا مگر بعد میں سمجھے گا۔‘‘صرف تب ہی ہم نئے سرے سے پیدا ہونے کی خُوشخبری پر ایمان لا سکتےہیں اوربذاتِ خود اَزسرِنَو پیداہوسکتے ہیں۔
 
 
اُس نے یوحنا۱۳:۱۲میں فرمایا
          
خطائیں کیا ہیں؟
وہ ایسے گناہ ہیں جو ہم اپنی کمزوری کی وجہ سے ہر روز کرتے ہیں۔
 
صلیب پر مرنے سے قبل، یسوؔع نے اپنے شاگردوں کے ہمراہ عیدِفسح منائی اور اُنہیں اپنے ذاتی ہاتھوں سے اُن کے پاؤں دھو نے کے ذریعہ سے گناہوں کی بخشش کی خُوشخبری کے لئےمطمئن کیا۔
’’ یسوؔع نے یہ جان کر کہ باپ نے سب چیزیں میرے ہاتھ میں کردی ہیں اور میں خُدا کے پاس سے آیا اور خُدا ہی کے پاس جاتا ہوں ۔دسترخوان سے اُٹھ کر کپڑے اُتارے اور رومال لیکر اپنی کمر میں باندھا۔ اسکے بعد برتن میں پانی ڈال کر شاگردوں کے پاؤں دھو نے اور جو رومال کمر میں با ندھا تھا اس سے پونچھنے شروع کئے۔ پھر وہ شمعوؔن پطرؔس تک پہنچا۔ اُس نے اُس سے کہا اے خُداوند! کیا تو میرے پاؤں دھو تا ہے؟ یسوؔع نے جواب میں اس سے کہا جو میں کرتا ہوں تو اب نہیں جانتا مگر بعد میں سمجھے گا۔‘‘ (یوحنا۱۳:۳ -۷)۔
اُس نے اپنے شاگردوں کو بپتسمہ کی خُوشخبری اور اپنے بپتسمہ کے پانی کے وسیلہ سے گناہوں کا کفّارہ سکھایا۔
اُس وقت، یسوؔع سے مُخلص ہونے کی وجہ سے، پطرؔس اُس وجہ کو سمجھنےکے قابل نہیں تھا کہ کیوں خُداوند کَرِیم یسوؔع نے اُس کے پاؤں دھو ئے ۔اِس بنا پر پطرؔس کے در حقیقت سمجھنے کے بعد کہ یسوؔع اُس کی خاطر کیا کرچُکا تھا، وہ طریقہ ء کارکہ جس طرح وہ یسوؔع پر ایمان رکھتا تھا بدل چُکا تھا۔یسوؔع اُسے گناہوں کی مغفرت کے متعلق، یعنی اپنے بپتسمہ کے پانی کی خُوشخبری کے متعلق سکھانا چاہتا تھا۔
دوسرے لفظوں میں، وہ فکر مند تھا کہ پطرؔس شاید اپنے آئندہ کے گناہوں، یعنی مستقبل میں اپنے جسمانی گناہوں کی وجہ سے، اُس کے پاس آنے کے قابل نہیں ہو گا۔ یسوؔع نے اُن کے پاؤں دھو ئے تاکہ ابلیس اُسکے شاگردوں کا ایمان نہ چھین سکے۔ بعدازاں،پطرؔس سمجھ گیا کہ کیاوجہ تھی؟
یسوؔع نے راہ تیار کی تاکہ جو کوئی اُسکے بپتسمہ کے پانی اور خُون پر ایمان لائے وہ ابد تک اپنے گناہوں سے رہائی پاسکے۔
 یوحنا۱۳باب میں، وہ کلمات جو اُس نے اپنے شاگردوں کے پاؤں دھو نے کے دوران فرمائے قلمبند ہیں۔ وہ نہایت اہم کلمات ہیں جو فقط نئے سرے سے پیدا ہوئے لوگ ہی حقیقی طور پر سمجھ سکتےہیں۔
اِس بنا پر وجہ کہ عید ِفسح کے بعد یسوؔع نے اپنے شاگردوں کے پاؤں دھو ئے اُن کی اچھی طرح
سمجھنے میں مدد کرنا تھا کہ وہ اُن کے تمام تر عُمر بھر کے گناہ پہلے ہی دھو چُکا تھا۔یسوؔع نے فرمایا، ’’ کیوںمیں تیرے پاؤں دھو رہا ہوں تو ہنوز نہیں سمجھتا، مگرتُوبعد میں جان جائے گا۔‘‘پطرؔس سے کہے جانے والے یہ الفاظ اُس میں ابدی رَستگاری کی صداقت پر مشتمل ہیں۔
ہم سب کواِسے جاننا چاہئے اور یسوؔع کے بپتسمہ پر ایمان رکھنا چاہئے، جو ہمارے تمام گناہوں اور بدکرداریوں کودھو چُکا ہے۔ یردؔن پر یسوؔع کا بپتسمہ ہاتھ رکھنے کے ذریعہ سے گناہوں کو سلسلہ وار منتقل کرنے کی خُوشخبری تھا۔ ہم سب کو یسوؔع کے کلمات پر ایمان لانا چاہئے۔ اُس نے جہان کے تمامتر گناہوں کواپنے بپتسمہ کے ذریعہ سے اُٹھالیا اور گناہوں کی معافی کو، سزا سہنے اورمصلوب ہونے کے وسیلہ سے مکمل کر دیا۔ یسوؔع نے تمام انسانوں کو اُن کے تمامتر گناہوں سے چُھڑانےکے لئے بپتسمہ لیا۔
 
 

ہماری تمام عُمر بھر کی خطاؤں کی بخشش یسوؔع کے بپتسمہ اور خُون کے ہمراہ مکمل ہوئی

 
راستبازوں کے خلاف ابلیس کا ’ پھندا‘ کیا ہے؟
ابلیس اُنہیں دوبارہ گناہ گار بنانے کے سلسلے میں راستبازوں کودھو کہ دینے کی کوشش کرتا ہے۔
 
یسوؔع اچھی طرح جانتا تھا کہ، اُس کے مصلُوب ہونے، جی اُٹھنے، اور آسمان پر جانے کے بعد، ابلیس اور جھوٹے ایمان کے مُبلغین آئیں گے اور شاگردوں کودھو کا دینے کی کوشش کریں گے۔ ہم پطرؔس کی گواہی کے توسط سے دیکھ سکتے ہیں،’’ تو زندہ خُدا کا بیٹا مسیح ہے‘‘کہ وہ یسوؔع پر ایمان رکھتا تھا۔مگراِس کے باوجود، یسوؔع پطرؔس کو ایک بار پھر گناہوں کی معافی کی خُوشخبری ذہن نشین کروانا چاہتا تھا۔ وہ خُوشخبری یسوؔع کا بپتسمہ تھی، جسکے ذریعہ سے اُس نے دُنیا کے تمامتر گناہوں کو اُٹھا لیا ۔ وہ اِسے ایک بار پھر پطرؔس، شاگردوں اوریہاں تک کہ ہم کوجو بعد میں آنے والے تھے سکھانا چاہتا تھا۔’’ جو میں کرتا ہوں تو اب نہیں جانتا مگر بعد میں سمجھے گا۔‘‘
جب کبھی بھی یسوؔع کے شاگردوں نے گناہ کیا، ابلیس نے، یوں کہہ کر، اُن کو ورغلایا اور اُن پر ملامت کی،’’ دیکھو! اگر تم ہنوزگناہ کرتے ہو، توکیسےتم کہہ سکتے ہوکہ تم گناہ سے منزّہ ہو؟تم نجات یافتہ نہیں ہو۔ تم محض ایک گناہ گار ہو۔‘‘اِس قسم کے چھوت کو روکنے کے لئے، یسوؔع نے اُنہیں بتایا کہ یسوع کے بپتسمہ پر اُن کاایمان اُن کےتمامتر عُمر بھر کے –– یعنی ماضی، حال اور مستقبل کے گناہوں کو پہلے ہی دھو چکا تھا۔
’’ تم سب جانتے ہو کہ میں نے بپتسمہ لیا! یردؔن میں میرے بپتسمہ لینے کی وجہ یہ تھی کہ تمہارے عُمر بھر کے سبھی گناہوں کو، اِسی طرح نسلِ انسانی کے موروثی گناہ کودھو ڈالوں۔کیا تم اب سمجھنے کے قابل ہو کہ کیوں میں نے بپتسمہ لیا، اور کیوں مجھے مصلُوب ہونا اور صلیب پر مرناپڑا؟ ‘‘یسوؔع نے شاگردوں کو یہ دِکھانے کے لئے اُن کے پاؤں دھو ئے کہ وہ اپنے بپتسمہ کے ذریعہ سے اُن کے تمام روزمرّہ کے گناہوں
کو اُٹھاچُکا تھا، اور یعنی وہ صلیب پر اُن کی خاطر سزا کو برداشت کرنے والا تھا۔
اب، میں اور آپ یسوؔع کے بپتسمہ اور خُون کی خُوشخبری پر اپنے عقیدے کے وسیلہ سے اپنے تمام گناہوں سے چھٹکارا حاصل کرچُکے ہیں، جو ہمیں اپنے تمام گناہوں کی بخشش حاصل کرنے کے قابل کرتاہے ۔یسوؔع نے ہماری خاطر بپتسمہ لیا اور مصلُوب ہُوا۔ وہ اپنے بپتسمہ اور خُون کے ساتھ ہمارے تمام گناہوں کودھو چُکا ہے۔ ہر وہ آدمی جوجانتا ہے اور گناہوں کے کفارہ کی خُوشخبری کا یقین کرتاہےاورجو سچائی پر ایمان رکھتا ہےوہ اپنے تمام گناہوں سے رَستگار ہے۔
 اِس کے بعد، اَز سرِ نَو پیدا ہوئے آدمی کو نجات پانے کے بعد کیا کرنا چاہئے؟ اُنہیں اپنےروزمرّہ کے گناہوں کوماننا چاہئے اور یسوؔع کے بپتسمہ اور خُون کی نجات پر، یعنی اپنے تمام گناہوں کے کفارہ کی خُوشخبری پر ایمان لانا چاہئے۔گناہوں کی بخشش کی خُوشخبری وہ چیز ہے جو ہم، اَز سرِ نَو پیدا ہوئے لوگوں کے، یعنی ہمارےذہنوں پرگہرے طور پر نقش ہونی چاہئے۔
فقط چونکہ آپ دوبارہ گناہ کریں گے، توکیااِس کا مطلب ہے کہ آپ دوبارہ گناہ گار بن گئے ہیں؟ہرگز نہیں۔ یہ جان کر کہ یسوؔع نے ہمارے تمامتر گناہوں کو اُٹھا لیا، تو کیسےہم دوبارہ گناہ گاربن سکتے ہیں؟ یسوؔع کا بپتسمہ اوراُس کاصلیبی خُون ہی ہمارے تمام گناہوں کےلئے کفارہ کی خُوشخبری تھا۔ہر آدمی جواِس گناہوں کی بخشش کی اَصل خُوشخبری پر ایمان لاتا ہے وہ، بِلا مستثنیٰ، ’ راستبازشخص کے طور پر‘اَز سرِ نَو پیدا ہوسکتا ہے۔
 
 

راستبازآدمی ہرگزدوبارہ گناہ گار نہیں بن سکتا

  
کیوں راستباز آدمی ہرگز دوبارہ گناہ گار
نہیں بن سکتا؟
کیونکہ یسوؔع پہلے ہی اُن کے تمام عمر بھر کے
گناہوں کا کفارہ دےچُکا ہے۔
 
اگر آپ گناہوں کی معافی، یعنی پانی اور رُوح کی خُوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں، مگر اِس کے باوجود محسوس کرتے ہیں کہ آپ اپنی روز مرّہ کی خطاؤں کی وجہ سےگناہ گارہی ہیں، تو آپ کو یردؔن پر جاناپڑے گا، جہاں یسوؔع نے ہمارے تمام گناہوں کو اُٹھانے کے لئے بپتسمہ لیا تھا۔ اگرآپ گناہوں کی بخشش پانے کے بعددوبارہ گناہ گار بن گئے، تو یسوؔع کو ایک بار پھر بپتسمہ لینا پڑے گا۔ آپ کو اپنے گناہوں کی بخشش پر یعنی یسوؔع کے بپتسمہ کی خُوشخبری پر ایمان رکھنا چاہئے۔ آپ کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ یسوؔع نے اپنے بپتسمہ کے ذریعہ سے آپ کے تمام گناہوں کو ایک ہی بارمنہا کردیا تھا۔ آپ کو یسوؔع مسیح پراپنے نجات دہندہ کے طور پر غیر متزلزل ایمان رکھناچاہئے۔
یسوؔع پراپنے نجات دہندہ کے طور پر ایمان رکھنے کا مطلب ہے کہ آپ یسوؔع کے بپتسمہ پر ایمان رکھتے ہیں، جس نے آپ کے عُمر بھر کے تمام گناہوں کو دُور کر دیا۔ اگر آپ واقعی اُس کے بپتسمہ، صلیب، موت، اور یسوؔع کے جی اُٹھنے پر ایمان رکھتے ہیں، تو آپ دوبارہ ہرگزگناہ گار نہیں بن سکتے، اِس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ آپ کس قسم کا گناہ کرچُکے ہیں۔ آپ اپنی پوری حیاتی میں اپنےتمام گناہوں سے ایمان کی بدولت چُھوٹ چُکے ہیں۔
یسوؔع مسیح نے اچھی طرح مستقبل کے گناہوں کو، یہاں تک کہ اُن گناہوں کو بھی دھو ڈالاجو ہم اپنی ذاتی کمزوریوں کی بنا پر کرتے ہیں۔ چونکہ یسوؔع کو اپنے بپتسمہ کی اہمیت پر زور دینا تھا، تو اِسلئے اُس نے، گناہوں کی بخشش کی خُوشخبری، یعنی کہ اپنے بپتسمہ کی رمزیت کے لئے پانی کے ساتھ اپنے شاگردوں کے پاؤں دھو ئے۔ یسوؔع مسیح نےخداوند خداکے کثیر کفارہ کے وعدہ کو پوراکرنےیعنی دُنیا کے تمام گناہوں کے لئے اور تمام نسلِ انسانی کو بچانے کے لئے بپتسمہ لیا، مصلُوب ہوا، مردوں میں سے جی اُٹھا، اورآسمان پرچڑھ گیا۔نتیجتاً، اُسکے شاگرد گناہوں کے کفارہ کی خُوشخبری، یعنی یسوؔع کے بپتسمہ، صلیب اور مردوں میں سے جی اُٹھنے کی منادی اپنی زندگیوں کے آخری پل تک کرنے کے قابل تھے۔
 
 
پطرؔس کی جسمانی کمزوری
 
کیوں پطرؔس نے یسوؔع کا انکار کیا؟
کیونکہ وہ کمزور تھا
 
کتابِ مقدّس ہمیں بتاتی ہے کہ جب پطرؔس کا کائفاؔ، یعنی سردار کاہن، کے ملازموں سے
آمناسامنا ہُوا اوراُس پر یسوؔع کے پیروکاروں میں سے ایک ہونے کا إلزام لگا، تو اُس نےیوں کہہ کراُس کادوبار انکار کیا، ’’ میں اِس آدمی کو نہیں جانتا۔‘‘اِس کے بعد، اُس نے لعنت کی اوراِسبات کی تین مرتبہ قسم کھائی۔
آئیں ہم متی۲۶:۶۹سے اِس حوالے کو پڑھیں۔’’ اورپطرؔس باہر صحن میں بیٹھا تھا کہ ایک لونڈی نے اسکے پاس آکر کہا تو بھی یسوؔع گلیلی کے ساتھ تھا۔ اس نے سب کے سامنے یہ کہہ کر انکار کیا کہ میں نہیں جانتا تو کیا کہتی ہے۔ اور جب وہ ڈیوڑھی میں چلا گیا تو دوسری نے اسے دیکھا اور جو وہاں تھے ان سے کہا یہ بھی یسوؔع ناصری کے ساتھ تھا۔ اس نے قسم کھا کرپھر انکار کیا کہ میں اس آدمی کو نہیں جانتا ۔ تھوڑی دیر کے بعد جو وہاں کھڑے تھے انہوں نے پطرؔس کے پاس آکر کہا بیشک تو بھی ان میں سے ہے کیونکہ تیری بولی سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اس پر وہ لعنت کرنے اور قسم کھانے لگا کہ میں اس آدمی کو نہیں جانتا اور فی الفور مرغ نے بانگ دی۔پطرؔس کو یسوؔع کی وہ بات یاد آئی جو اس نے کہی تھی کہ مرغ کے بانگ دینے سے پہلے تو تین بار میرا ا نکار کریگا اور وہ باہر جا کر زار زار رویا۔‘‘ (متی۲۶: ۶۹- ۷۵)۔
پطرؔس نے واقعی یسوؔع پر ایمان رکھا اور وفاداری سے اُس کی پیروی کی۔وہ ایمان رکھتاتھاکہ خُداوند کَرِیم یسوؔع اُسکا نجات دہندہ اور آنے والا’ نبی‘تھا۔البتہ جب یسوؔع پیلاؔطس کی عدالت میں پہنچااور اِس بنا پر اُس کے لئے حُکام کے سامنے یسوؔع کے ساتھ اپنے رشتہ کو چھپانا مشکل ہو گیا، تو اُس نےانکار کیا اوراُن کے سامنے اُس پر لعنت کی۔
پطرؔس یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ یسوؔع کا انکار کرے گا، مگریسوؔع جانتاتھا کہ وہ ایسا کرے گا۔ یسوؔع
پطرس کی کمزوری کو مکمل طور پر جانتا تھا۔چنانچہ،یسوؔع نے پطرؔس کے پاؤں دھو ئے اور اُس کے حافظے پر نجات کی خُوشخبری کنّدہ کر دی، جیسا کہ یو حنا ۱۳ باب میں مرقوم ہے، ’’ تم آئندہ مستقبل میں گناہ کروگے، البتہ میں پہلے ہی بِلا شُبہ تمہارے مستقبل کے گناہوں کوبھی دھو چُکا ہوں۔‘‘
 پطرؔس نے بِلا شک یسوع کا انکار کیا جب اُس کی زندگی خطرے میں تھی، مگریہ اُس کی جسمانی کمزوری کی وجہ سےہوا جس نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ لہٰذا، اپنے شاگردوں کو اُن کی مستقبل کی ناراستیوں سے بچانے کے لئے،یسوؔع نےپیشترہی اُن کے پاؤں دھو ئے۔
’’ میں تمہارے مستقبل کے تمامترگناہوں کا بھی کفارہ دُوں گا۔ مجھےمصلُوب ہونا پڑے گاکیونکہ میں نے بپتسمہ لیا اور تمہارے تمام گناہوں کو اُٹھالیا، اور میں تم سب کا حقیقی نجات دہندہ بننے کے لئے اُن سب کا دام چُکاؤں گا۔ میں تمہارا خُدائےقادر، تمہارا نجات دہندہ ہوں۔ میں تمہارے تمامترگناہوں کی پوری قیمت چُکاؤں گا، اور اپنے بپتسمہ اور خُون کے ذریعہ سے تمہارا چرواہا بن جاؤں گا۔میں تمہاری نجات کا چوپان ہوں۔‘‘
اِس سچائی کو اُن کے دلوں میں مضبوطی سے گاڑھنے کے لئے، یسوؔع نے عیدِ فسح کے بعد اُن کے پاؤں دھو ئے ۔ یہ خُوشخبری کی صداقت ہے۔
بِلا شک اَزسرِنَو پیداہونے کے بعد بھی، چونکہ ہمارا جسم کمزور ہے، اِسلئے ہم پھر گناہ کریں گے۔ بےشک، ہمیں گناہ نہیں کرنا چاہئے، البتہ جب ہم سخت بحرانوں سے دوچار ہوتے ہیں جس طرح پطرؔس ہوا، تواِس بنا پر ہم حقیقی طور پرایسی صورت میں بِلا قصد گناہ کرنے کا رجحان رکھتے ہیں۔ہم جسم میں زندگی بسر کرتے ہیں، لہٰذا ہم گاہے بگاہے اپنے گناہوں کی وجہ سے تباہی کی طرف جاتے ہیں۔جسم اُتنی دیر تک گناہ کرے گا جتنی دیر تک ہم اِس دُنیاوی جہان میں زندہ ہیں مگر یسوع نے اُن تمام گناہوں کو اپنے بپتسمہ اور صلیبی خُون کے ساتھ معاف کر دیا۔
ہم انکار نہیں کرتے کہ یسوؔع ہمارا نجات دہندہ ہے، مگر جب ہم جسم میں زندگی بسر کرتے ہیں، توہم خداوند خداکی مرضی کے برخلاف گناہ جاری رکھتے ہیں۔ یہ اِس وجہ سے ہے کیونکہ ہم جسم سے پیدا ہوئے ہیں۔
یسوؔع اچھی طرح جانتا تھا کہ ہم جسم میں زندہ رہنے کے دوران گناہ کریں گے، لہٰذاوہ ہمارے گناہوں کی قیمت اپنےبپتسمہ اور خُون کےساتھ ادا کرنے کی بدولت ہمارا نجات دہندہ بن گیا۔ وہ اُن تمام لوگوں کے گناہوں کو دفع کرچُکا ہے جو اُسکی نجات اور اُسکے جی اُٹھنے پر ایمان لاتےہیں۔ یہی وجہ ہے کیوں
تمامترچاروں اناجیل کا آغاز یوحناؔؔ اِصطباغی کی معرفت یسوؔع کے بپتسمہ سے ہوتا ہے ۔
اُسکی اِنسانی زندگی کا مقصد اَزسرِنَو پیداہونے کی خُوشخبری، یعنی نجات کی خُوشخبری کو پایۂ تکمیل تک پہنچاناتھا۔
          
کتنی دیر تک ہم جسم میں گناہ کرتے ہیں؟
ہم اپنی پوری عُمروں میں گناہ کرتے ہیں اُس دن تک جب تک ہم مر نہیں جاتے۔
 
جب پطرؔس نے مرغ کے بانگ دینے سے پہلے ایک بار نہیں،نہ ہی دوبار بلکہ تین بار اُس کا انکار کیا، تویقیناً اِس سے اُس کا دل کس قدر ٹوٹا ہوگا! وہ یقیناً کس قدر شرمندگی محسوس کرچُکا ہو گا! وہ یسوؔع کے سامنے قسم کھاچُکا تھا کہ وہ ہرگز اُس سے بے وفائی نہیں کرے گا۔ اُس نے اپنے جسم کی کمزوری کے باعث گناہ کیا،مگر اُس نے خودکوکتنا بد حال محسوس کیا ہو گا جب وہ اپنی کمزوری کے سامنے مغلوب ہو گیا اور یسوؔع کا انکارفقط ایک بار نہیں، بلکہ تین بار کیا؟وہ کتنا شرمندہ ہوا ہو گا جب یسوؔع نے ایک بار پھرترس کے ساتھ اُس پر نگاہ کی ہوگی؟
مگریسوؔع یہ ساری باتیں اوراِس سے بڑھ کرجانتاتھا۔ اِسلئے، اُس نے فرمایا،’’ میں جانتا ہوں کہ تم بار بار گناہ کروگے۔مگر میں اُن تمام گناہوں کو پہلے ہی اپنے بپتسمہ کے ساتھاُٹھاچُکا ہوں، مبادا کہ تمہارے گناہ تمہیں ٹھوکرکھلائیں اورتمہیں واپس گناہ گار میں بدل دیں،کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں میرے پاس واپس آنا ناممکن لگے۔ میں تمہاری خاطر بپتسمہ لینے کے وسیلہ سے کامل نجات دہندہ بن چُکا ہوں اور تمہارے تمام گناہوں کی خاطر سزا برداشت کی۔ میں تمہارا خُدا، تمہارا چوپان بن چُکا ہوں۔ اپنے گناہوں کی بخشش کی خُوشخبری پر ایمان لاؤ۔میں تم سےمحبت جاری رکھوں گابِلا شک چاہے تم جسم کے گناہ مسلسل کرتے ہی رہو۔ میں پہلے ہی تمہاری تمام بدکرداریاں دھو چُکا ہوں۔ گناہوں کی بخشش کی خُوشخبری ابد تک مؤ ثر ہے۔ تمہاری خاطر میری محبت بھی ابدی ہے۔ ‘‘
یسوؔع نے پطرؔس اور باقی شاگردوں سے ارشاد فرمایا،’’ اگر میں تجھے نہ دھو ؤں تو تُو میرے
ساتھ شریک نہیں۔‘‘اِ س بناپر وجہ یہ ہے کہ وہ یوحنا۱۳باب میں اِس خُوشخبری کے متعلق بولا کہ خلقِ خُدا کے لئے پانی اور رُوح سے اَزسرِنَو پیداہونا بہت ضروری تھا۔ کیا آپ اِس بات پر ایمان لاتے ہیں؟
۹ویں آیت میں ہے،’’شمعونؔ پطرؔس نے اس سے کہا’اے خُدا وند ! صرف میرے پاؤں ہی نہیں بلکہ ہاتھ اور سر بھی دھو دے۔ یسوؔع نے اس سے کہا جو نہاچُکا ہے اسکوپاؤں کے سوا اور کچھ دھو نے کی حاجت نہیں بلکہ سراسر پاک ہے۔‘‘
پیارے دوستو، کیا آپ آئندہ مستقبل میں ’ جسمانی‘ گناہ کریں گے، یاکیا آپ نہیں کریں گے؟ آپ یقینی طور پر گناہ کریں گے۔ مگریسوؔع نے فرمایا کہ وہ پہلے ہی حتٰی کہ مستقبل کے گناہوں کو، یعنی ہمارے جسم کی تمامتر بدکرداریوں کو اپنے بپتسمہ اور خُون کےساتھدھو چُکا تھا، اور اُس نےمصلوب ہونے سے پیشتربیّنہ طور پراپنے شاگردوں کو کلامِ حق، یعنی کفارہ کی خُوشخبری کے متعلق بتایا۔
چونکہ ہم اپنی تمام کمزوریوں کے ساتھ اپنے جسم میں زندگی بسر کرتے ہیں، ہم بچ نہیں سکتے بلکہ گناہ کرتے ہیں۔ یسوؔع نے اپنے بپتسمہ کے سَنگ دُنیا کے تمام گناہوں کودھو ڈالا۔وہ نہ صرف ہمارے سروں اور بدنوں کو، بلکہ ہمارے پیروں کوبھی، اِس بنا پریعنی، ہمارے مستقبل کےتمام گناہوں کو بھی دھو چُکا ہے۔ یہ اَزسرِنَو پیداہونے، یعنی یسوؔع کے بپتسمہ کی خُوشخبری ہے۔
یسوؔع کو بپتسمہ دینے کے بعد، یوحناؔؔ اِصطباغی نے گواہی دی،’’ دیکھو یہ خُدا کا برّہ ہے جو دُنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے ۔‘‘(یوحنا ۱:۲۹)۔ ہمیں قوی ایمان رکھنا چاہئے کہ دُنیا کے تمام گناہ یسوؔع پر اُس کے بپتسمہ کے دوران سلسلہ وار منتقل ہونے کے ذریعہ سے دُھل گئے تھے ۔
اِس پاپی دُنیا میں رہنے کے دوران، ہم بچ نہیں سکتے بلکہ گناہ کرتے ہیں۔یہ بیّنہ حقیقت ہے۔ جب کبھی ہمارے جسم کی کمزوریاں ظاہر ہوتی ہیں، تو ہمیں خود کو یاد دلانا چاہئے کہ یسوؔع نے ہمارےتمام گناہوں کو اور دُنیا کے تمام گناہوں کو معافی کی خُوشخبری کے ذریعہ سےدھو ڈالا اور اپنے خُون کے ساتھ اُن کی قیمت اَدا کر دی۔ ہمیں اپنےدلوں کی اتھاہ گہرائیوں سے اُس کا شکر ادا کرناچاہئے ۔آئیں ہم ایمان کے ساتھ اِقرار کریں کہ یسوؔع ہمارا نجات دہندہ اورخُداہے۔ خُداوند کَرِیم کی تمجید ہو۔
 اِس دُنیا میں موجود ہر آدمی بچ نہیں سکتا بلکہ جسم کے ساتھ گناہ کرتاہے۔ لوگ بِلا توقف اپنے
جسم کے ساتھ گناہ کرتے ہیں اور اپنے تا حیات گناہوں کی وجہ سےمرتے ہیں۔
 
 
خلقِ خُدا کے باطنو ں میں بُرے خیال
          
کسی شخص کو کیا ناپاک کرتا ہے؟
مختلف اقسام کے گناہ اور بُرے خیال
 
متی۱۵:۱۹- ۲۰میں یسوؔع ارشاد فرماتےہیں،’’ کیونکہ برُے خیال۔ خُونریزیاں۔ زناکاریاں۔ حرامکاریاں۔ چوریاں۔جھوٹی گوائیاں۔ بدگوئیاں دل ہی سے نکلتی ہیں۔یہی باتیں ہیں جو آدمی کو ناپاک کرتی ہیں مگر بغیر ہاتھ دھو ئے کھانا کھانا آدمی کو ناپاک نہیں کرتا۔‘‘کیونکہ کسی آدمی کے باطن میں گناہ کی مختلف اقسام اُسے ناپاک کرتی ہیں ،اِسلئے وہ ناپاک ہے۔
 
 
ہر آدمی کو اپنی ہی بُری فطرت کو اچھی طرح جاننا چاہئے
 
ہر آدمی کے باطن میں کیا ہے؟
گناہ کی بارہ اقسام(مرقس۷:۲۱-۲۳)
 
ہمیں یہ کہنے کے قابل بنناہے، ’’یہ بارہ اقسام کے گناہ لوگوں کے باطنوں میں پائے جاتے ہیں۔وہ سبھی میرے باطن میں موجود ہیں۔ میرے اندرگناہوں کی بارہ اقسام موجود ہیں جنکےمتعلق کتابِ مقدّس میں لکھا ہُوا ہے۔ ‘‘اِس بنا پر اِس سے پیشتر کہ ہم پانی اور رُوح سے اَزسرِنَو پیداہوں،ہمیں ماننا چاہئے کہ گناہ موروثی طور پر ہمارے باطنوں میں موجود ہیں۔ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم خداوند خدا کے آگے مکمل گناہ گار ہیں،مگر ہم اکثر اوقات ایسا نہیں کرتے۔ہم میں سے زیادہ تر لوگ ،یوں کہہ کر، اپنے گناہوں کے لئے بہانے گھڑتے ہیں،’’میرے باطن میں ویسے خیالات ہرگز نہیں ہیں ،میں فقط پل بھر کے لئے گمراہ ہو گیا تھا۔‘‘
مگریسوؔع نے نوعِ بشر کے متعلق کیافرمایا؟ اُس نے بیّنہ طور پر بیان کیا کہ آدمی کے دل میں سے جو کچھ نکلتا ہے وہی اُسے ’ناپاک‘ کرتا ہے ۔اُس نے ہمیں آگاہ کیا کہ لوگ اپنے باطن میں بُرے خیال رکھتے ہیں۔ آپ کیا سوچتے ہیں؟کیا آپ نیک یا بد ہیں؟کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر آدمی میں بُرےخیالپائے جاتے ہیں ۔جی ہاں، ہرآدمی کے خیال بُرے ہیں۔
چند سال پہلے، سیول میں ایک بڑاڈیپارٹمنٹل سٹوریکایک گرگیا۔وہ خاندان جنہوں نے اپنے عزیزوں کو کھو دیاانتہائی غمزدہ تھے،مگر بہت سارے لوگ وہاں اُس اَلمناک منظر سے لطف اندوز ہونے کے لئے گئے ۔
بعض لوگوں نےسوچا،”کتنے لوگ مرگئے؟۲۰۰؟ نہیں، یہ تعداد توانتہائی کم ہے۔ ۳۰۰؟ شاید؟ خیر،اِس بنیاد پر یہ زیادہ دلچسب اور قابلِ دیدنظارہ ہوتا اگرمرنےوالوں کی تعداد کم از کم ایک ہزارہوتی۔۔۔۔۔“ لوگوں کے دل گویا اِس قدر بُرے ہوسکتے ہیں۔ ہمیں اِسے قبول کرناچاہئے۔ اِس بنا پر یہ مرنے والوں کی کس قدر تحقیرہوئی ! یہ خاندانوں کے لئے کس قدر حوصلہ شکن بات تھی!بعض لوگ مالی طور پر تباہ ہو گئے۔
تماشائیوں میں سے بعض لوگ زیادہ ہمدرد نہ تھے۔ ’’اِس بنا پر یہ بہت زیادہ دلچسپ نظارہ ہوتا اگر اور لوگ مرجاتے!کیا ہی نظارہ ہوتا!کیا ہی ہوتا اگر یہی کام لوگوں سے بھرئے ہوئے بیس بال کے میدان میں ہواہوتا؟ہزاروں لوگ ملبے کے نیچے دفن ہوجاتے، کیا وہ نہ ہوتے؟کاش، جی ہاں! اِس بنا پر یہ یقینی طور پراِس سے کہیں زیادہ دلچسپی کا باعث ہوتا! ‘‘شاید کچھ لوگوں کے گویاایسےخیالات تھے۔ یہی وقوعہ کاروں کے حادثات کے متعلق سناجا سکتا ہے ۔بے چین تماشائی معمولی حادثوں سے مایوس ہونے کا رجحان رکھتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ہم گاہے بگاہے کس قدر بدکار ہو سکتےہیں۔ بے شک، ہم ایسے بُرے خیال ہرگز بلند آواز میں نہیں کہیں گے۔ ہم شاید اپنی زبانیں کھٹکا سکتے ہیں اور اپنی ہمدردیاں جُتلا سکتے ہیں جب ہم اچانک کسی حادثے کو دیکھتے ہیں، مگر چُپکے چُپکے، اپنے باطنوں میں،ہم اُس کے زیادہ قابلِ دید منظر ہونے کی خواہش کرتے ہیں ۔ہم خوفناک حادثات دیکھنا چاہتے ہیں، جہاں ہزاروں لوگ مر جائیں، جہاں تک یہ ہماری اپنی دلچسپیوں کے خلاف نہیں جاتے۔یہ طریقۂ کار ہے جس پر لوگوں کے دل کام کرتے ہیں ۔ ہم میں سے زیادہ ترلوگ اَزسر ِنَو پیدا ہونے سے پیشترگویا ایسےہی ہوتے ہیں۔
 
 
ہر آدمی کے باطن میں خُون
          
کیوں ہم گناہ کرتے ہیں؟
کیونکہ ہم اپنے باطنوں میں.بُرے خیال رکھتے ہیں۔
 
خداوند خدانے ہمیں ارشاد فرمایا کہ ہرایک آدمی کے مَن کے اندر خُونریزی موجودہے۔مگر بہت سے لوگ اِس بات کاخداوند خداکے سامنے یوں کہتے ہوئے،انکار کریں گے، ’’ کس طرح آپ یہ کہہ سکتے ہیں! میرے قلب میں کسی خُونریزی کے خیال موجود نہیں ہیں! کیسے آپ حتیٰ کہ مجھے ایسا شخص خیال کر سکتے ہیں!‘‘وہ لوگ ہرگز تسلیم نہیں کریں گے کہ اُن کے قلوب میں خُونریزی موجود ہے ۔ وہ
گمان کرتے ہیں کہ قاتل اُن سے کسی فرق نسل سے ہوتے ہیں۔
’’اُس دِن والی خبروں میں وہ پیشہ ور قاتل، جمگھٹےجوقتل و غارت کرچُکے ہیں اورلوگوں کواُن کےتہہ خانوں میں دفن کرچُکے ہیں،ایسے لوگ ہیں جو اپنے باطنوں میں خُونریزی رکھتے ہیں! وہ مختلف نسل کے لوگ ہیں۔ میں ہرگز اُن جیسا نہیں ہو سکتا! وہ بدمعاش لوگ ہیں! قاتل!‘‘ وہ مجرموں پر مشتعل ہوتے ہیں اورشور مچاتے ہیں،’’اُن بدکاری میں پیدا ہوئی نسلوں کو اِس رُوئے زمین کے چہرے سے مٹا دیناچاہئے! اُن سب کو سزائے موت دینی چاہئے!‘‘
مگربدقسمتی سے، قتل کی سوچ اُن مشتعل لوگوں کے باطنوں میں،اِسی طرح پیشہ ور قاتلوں، اور خُونیوں کےقلبوں میں موجود ہے۔ خداوند خداہمیں بتاتا ہے کہ تمام آدمیوں کے قلبوں میں، خُونریزی موجودہے۔ ہمیں خداوند خداکے کلام کو قبول کرنا چاہئے،جوبِلا شُبہ ہمارے باطنوں میں پوشیدہ چیزوں کو
دیکھتاہے۔اِس کے بعد، ہمیں تسلیم کرناچاہئے،’’میں اپنے قلب میں بمع خُون گناہ گارہوں۔‘‘
جی ہاں،خداوند خداہمیں بتاتا ہے کہ تمام خلقت کے قلبوں کے اندر، بُرے خیال،مشمول خُونریزی،پائے جاتے ہیں۔ آئیں ہم خداوند خداکے کلام کو قبول کریں۔لوگوں کی نسلیں جس قدرزیادہ بدکارہوتی جاتی ہیں،تمام اقسام کے ذاتی حفاظتی ہتھیار قتل وغارت کے ذریعےبنتے جاتے ہیں۔ یہ ہمارے دلوں میں خُونریزی کا نتیجہ ہے۔ آپ غصے ،یا خوف کے دَورے میں قتل کرسکتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہم میں سے ہر آدمی سچ مچ دوسروں کو قتل کردے گا،مگر ہم اپنے دلوں میں اِس کے متعلق سوچتے ہیں۔
ہم سب اپنے دلوں میں بُرے خیالوں کے ہمراہ پیدا ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ بے شک مارنے تک پہنچتے ہیں،اِس بنا پر نہیں کیونکہ وہ خصوصی طور پربطور قاتل پیدا ہوئےہیں، بلکہ دوسری جانب اِس وجہ سے ہے کیونکہ ہم سب قاتل بننے کے قابل ہیں۔ خداوند خداہمیں بتاتا ہے کہ ہمارے دلوں میں بُرے خیال اور خُونریزی موجودہے۔ یہ سچ ہے ۔ہم میں سے کوئی آدمی اِس سچائی سے مستثنیٰ نہیں ہے ۔
لہٰذا، ہمارے لئے سیدھی راہ خداوند خداکے کلام کو قبول کرنا اور اُس کی تعمیل کرنا ہے۔ ہم اِس دُنیا میں اِسلئے گناہ کرتے ہیں کیونکہ ہمارے باطنوں میں بُرے خیال پائے جاتے ہیں۔
 
 
ہمارے باطنوں میں زناکاری
          
خداوند خدافرماتا ہے کہ ہرآدمی کے قلب میں زناکاری پائی جاتی ہے۔ کیا آپ متفق ہیں؟کیا آپ تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کے قلب میں زنا کاری پائی جاتی ہے ؟جی ہاں،ہر آدمی کے قلب میں زناکاری موجودہے۔
یہ اِس بنا پر ہے کہ جسم فروشی اور دوسرے جنسی جرائم ہمارےمعاشرے میں پروان چڑھتے ہیں۔یہ کاروبار انسانی تاریخ کے ہردَور میں دولت کمانے کے یقینی طریقوں میں سے ایک ہے۔ دوسرے کاروبارشاید معاشی دباؤ سے متاثر ہو سکتے ہیں، مگر یہ گھناؤنے کاروبار زیادہ متاثر نہیں ہوتے، کیونکہ ہرفردِ بشر کے قلب میں زناکاری بسی ہوئی ہے۔
 
 
گناہ گاروں کا پھل گناہ ہے
          
نوعِ بشرکا موازنہ کس چیزسے ہوتاہے؟
اُس درخت سے جو صرف گناہ کے پھل پیدا کرتا ہے
 
بالکل جس طرح سیب کا درخت سیب پیدا کرتاہے،ناشپاتی کا درخت ناشپاتی، کھجور کا درخت کھجور،اور خرمالو کا درخت خرمالے پیدا کرتا ہے، اُسی طرح ہم، جو اپنے باطنوںمیں ۱۲قسم کے گناہوں کے ہمراہ پیدا ہوئے ہیں،بچ نہیں سکتےبلکہ گناہ کے پھل پیدا کرتے ہیں۔
یسوؔع فرماتا ہے کہ جو کچھ کسی آدمی کے قلب سے نکلتا ہے وہی اُسے ناپاک کرتاہے۔ کیا آپ متفق ہیں؟ ہم صرف یسوؔع کے کلمات سے متفق ہو سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں، ’’جی ہاں،ہم گناہ گاروں ،یعنی بدکرداروں کی نسل ہیں۔ ہاں، اے خُداوند، تو ٹھیک ہے۔‘‘جی ہاں، ہمیں اپنی بدیوں کو تسلیم کرناچاہئے ۔ہمیں خداوند خداکے حضور اپنی ذاتی حقیقت کو تسلیم کرناچاہئے۔
بالکل جس طرح یسوؔع مسیح نے خداوند خداکی مرضی کی تعمیل کی، اُسی طرح ہمیں خداوند خداکے کلام کو قبول کرنا چاہئے اور اُسکی تعمیل کرنی چاہئے ۔یہ واحد راہ ہے جس کے ذریعے ہم پانی اور رُوح کے توسط سے اپنے تمام گناہوں سے بچ سکتے ہیں ۔یہ خدوند خداکی طرف سے نعمتیں ہیں۔
میرے ملک کو چار خوبصورت موسموں کی برکت ملی ہے۔ جونہی موسم پنپتے ہیں، تو مختلف اقسام کے درخت اپنے پھل پیدا کر تے ہیں۔ بالکل اِسی طریقے سے، ہمارے دلوں میں پائے جانے والے بارہ گناہ ہم پر قابض ہیں اوربِلا توقف ہم سے گناہ کراتے ہیں۔ آج، شاید خُونریزی ہےجو ہمارے دلوں پر قبضہ رکھتی ہےاور کل، شاید زناکاری ہو۔
اِس کے بعد،اَگلے دِن، بُرے خیال،پھرحرامکاری،چوری،جھوٹی گواہی۔۔۔ اوروغیرہ وغیرہ ۔ ہم سارا سال ،ہرمہینے ،ہر دن ،ہر گھڑی گناہ کرتے ہیں۔ہمارا ایک بھی دن کسی نہ کسی قسم کا گناہ کرنے سے خالی نہیں گزرتا۔ہم خود بخودقسمیں اُٹھاتے ہیں کہ ہم گناہ نہیں کریں گے، مگر ہم باز نہیں رہ سکتے اِسلئے کہ ہم اِسی طرح پیدا ہوئے ہیں۔
کیا آپ نے کبھی سیب کا ایسا درخت دیکھاہےجو سیب پیدا کرنے سے اِسلئے انکارکرےکیونکہ وہ ایسا کرنا نہیں چاہتا؟’’میں سیب پیدا کرنا نہیں چاہتا!‘‘بِلا شک خواہ وہ پھل پیدا نہ کرنے کا پکا ارادہ کر لے، توبھلا کیسے وہ سیب پیدا نہیں کرسکتا؟ پھول موسمِ بہا ر میں عین متوقع طور پر کھلیں گے، سیب اُگیں گے اور موسم گرما میں پکیں گے، اوراُن کا پھل توڑنے کے لئے تیار ہو گااورخزاں میں کھایا جائےگے۔
یہ قدرتِ الہٰی کا انتظام ہے،اور گناہ گاروں کی زندگی کو بھی یقیناًقدرت کے اِسی قانون کی پیروی کرنی چاہئے ۔گناہ گاربچ نہیں سکتے بلکہ گناہ کےپھل پیداکرتے ہیں۔
 
 

یسوؔع کے بپتسمہ اور صلیب کو‘ہمارے گناہوں کی خاطر کفّارہ دینا پڑا

          
یسوؔع کے فدیہ کا کیا مطلب ہے؟
یہ یسوؔع کے بپتسمہ(ہاتھ رکھنے) اوراُس کے صلیبی خُون کے وسیلہ سے گناہ کی قیمت کی ادائیگی ہے۔
 
آئیں ہم یہ معلوم کرنےکے لئےکتابِ مقدّس میں سے ایک حوالہ پڑھیں کہ کیسےگناہ گار ،بدکاروں کی نسل،خداوند خداکے حضور اپنے گناہوں کا کفارہ دے سکتے ہیں اور اپنی زندگیاں خُوشی سے جی سکتے ہیں ۔ یہ گناہوں کے کفارہ کی خُوشخبری ہے۔
احبار ۴باب میں، یوں ارشادہے، ’’اور اگر کوئی عام آدمیوں میں سے نادانستہ خطا کرے اور ان کاموں میں سے جنہیں خُداوند نے منع کیا ہے کسی کام کو کرکے مُجرم ہو جائے۔ تو جب وہ خطا جو اس نے کی اسے بتادی جائے تو وہ اپنی اس خطا کے واسطے جو اس سے سرزد ہوئی ہے ایک بے عیب بکر ی لائے ۔اور وہ اپنا ہاتھ گناہ کی قربانی کے جانور کے سر پر رکھے اور گناہ کی قربانی کے اس جانور کو سوختنی قربانی کی جگہ پر ذبح کرے۔اور کاہن اسکا کچھ خُون اپنی انگلی پر لیکرا سے سوختنی قربانی کی قربانگاہ کے سینگوں پر لگائے اور اسکاباقی سب خُون مذبح کے پایہ پر اُنڈیل دے۔ اور وہ اسکی ساری چربی کو الگ کرے جیسے سلامتی کے ذبیحہ کی چربی الگ کی جاتی ہے اور کاہن اسے مذبح پر راحت انگیز خُوشبو کے طور پر خُداوند کے لئے جلائے ۔یوں کاہن اسکے لئے کفارہ دے تو اسے معافی ملے گی۔‘‘(احبار۴:۲۷-۳۱)۔
عہدِ عتیق کے دَور میں، کیسےلوگ اپنے گناہوں کا کفارہ دیتے تھے؟وہ پہلے گناہ کی قربانی کے جانور کے سر پر اپنے ہاتھ رکھتےتھےاوراپنےگناہ اُس پر سلسلہ وار منتقل کردیتےتھے۔
 احبار کی کتاب میں درج ہے۔’’بنی اسرائیل سے کہہ کہ جب تم میں سے کوئی خُداوند
کے لئے چڑھا وا چڑھائے تو تم چوپایوں یعنی گائے بیل اور بھیڑ بکری کا چڑھاوا چڑھانا۔ اگر اسکا چڑھاوا گائے بیل کی سوختنی قربانی ہو تو وہ بے عیب نر کو لا کر اسے خیمہء اجتماع کے دروازہ پر چڑھائے تاکہ وہ خود خُداوند کے حضور مقبول ٹھہرے۔اور وہ سوختنی قربانی کے جانور کے سر پر اپنا ہاتھ رکھے تب وہ اسکی طرف سے مقبول ہو گا تاکہ اسکے لئے کفارہ ہو۔‘‘(احبار ۱:۲-۴)۔
جب اُس دَورکا کوئی آدمی اپنے مَن میں گناہ کو پہچان لیتا تھا،تواُسے گناہ کی قربانیاں تیار کرنی پڑتی تھیں جو گناہ کے فدیہ کے لئے استعمال ہوتی تھیں ۔اُسے گناہ کی قربانی کے سر پرگناہوں کو سلسلہ وار منتقل کرنے کے لئے اپنے ’ہاتھ رکھنے ‘پڑتے تھےجنہیں وہ کرچُکا تھا۔ پاک خیمہء اجتماع کے صحن کے اندر، وہاں سوختنی قربانی کی قربانگاہ تھی۔ یہ صندوق نما تھی، جو منبرکے میز سے ذراتھوڑی سی بڑی تھی، اور اُسکے ہر کونےپرسینگ تھے۔بنی اسرائیل اپنے گناہوں کا کفارہ گناہ کی قربانی کے جانور کے سر پر اپنے گناہوں کو سلسلہ وار منتقل کرنے اور اُس کا گوشت سوختنی قربانی کی قربانگاہ پر جلانے کے وسیلہ سے دیتےتھے ۔
خداوند خدانے احبار میں لوگوں سے ارشاد فرمایا’’وہ اپنی مرضی سے اسے خیمہء اجتماع کے صحن کے دروازہ پر اسے خُداوند کے حضور جلائیں۔‘‘اُن کے گناہ ،گناہ کی قربانی پر سلسلہ وار منتقل ہو جاتےتھے جب وہ اُس کے سر پر اپنے ہاتھ رکھتےتھے،اور اِس کے بعدگناہ گارذَبیح کا گلا کاٹتا اور اُس کاخُون سوختنی قربانی کی قربانگاہ کے سینگوں پرلگاتاتھا۔
اِس کے بعد،ذَبیحہ کے بدن کواُسکے اندرونی اعضاسےصاف کیاجاتا، اور اُس کا گوشت ٹکڑے
ٹکڑے کیا جاتااورسوختنی قربانی کی قربانگاہ پر جلا کر سوا کر دیا جاتا تھا۔اِس کے بعد،اُن کے کفارہ کے لئے گوشت کی راحت انگیز خُوشبوخداوند خداکے حضور چڑھائی جاتی تھی ۔اِس بنا پر یہ تھا کیسے وہ اپنے روزمرّہ کے گناہوں کا کفارہ دیتے تھے ۔
خداوند خدانے اُن کے سالانہ گناہوں کےلئے کفارہ کی ایک اور قربانی کی اجازت دی۔ یہ روزمرّہ کے گناہوں کے کفارہ کی قربانی سے مختلف تھی۔ اس صورتِ حال میں، سردار کاہن اکیلا، تمامتربنی اسرائیل کی جگہ پرگناہ کے ذَبیح کے سر پراپنے ہاتھ رکھتاتھا اور وہ رحم گاہ کی مشرقی جانب سات مرتبہ خُون چھڑکتاتھا۔نیز، زندہ بکرے کے سر پراُس کے ہاتھ رکھنے ہر سال کے ساتویں مہینہ کی دسویں تاریخ کوبنی اسرائیل کے رُوبرُو ادا ہوتے تھے (احبار۱۶:۵- ۲۷)۔
          
کون عہدِ عتیق کی گناہ کی قربانی کی ترجمانی کرتا ہے؟
یسوؔع مسیح
 
اب، آئیں ہم معلوم کریں کہ کیسے عہدِ جدید میں قربانی کا یہ نظام تبدیل ہوگیا اورکیسےخداوند خداکا ابدی آئین سالہا سال سےقائم ہے۔
کیوں یسوؔع کوصلیب پرمرنا پڑا؟ اُس نے اِس زمین پر کیا غلط کیاتھا کہ خداوند خداکواپنابیٹاصلیب پر مروانا پڑا؟ کس نے اُسے صلیب پر مرنے کے لئے مجبور کیا؟ جب کل عالم کے تمامترگناہ گار، بمعنی ہم سب، گناہ میں گرچُکے تھے، تویسوؔع اِس جہان میں ہمیں بچانے کی خاطر آیا۔
اُس نے دریائے یردؔن پر یوحناؔؔ اِصطباغی سے بپتسمہ لیا اور صلیب پرنسلِ انسانی کی جگہ پر تمام گناہوں کی سزا کو برداشت کیا۔وہ طریقہ جس سےیسوؔع نے بپتسمہ لیااور وہ طریقہ جس سے اُس نےصلیب پرخُونبہایا، عہدِ عتیق کے کفارہ کی قربانی سے، یعنی گناہ کی قربانی پر ہاتھ رکھنے اور اُس کاخُون بہانے سے بالکل ملتا تھا۔
یہ وہ طریقۂ کار تھا جو عہدِ عتیق میں کیاجاتاتھا۔ گناہ گار شخص گناہ کی قربانی پر اپنے ہاتھ رکھتاتھااوریوں کہہ کر اپنے گناہوں کااقرار کرتاتھا،’’ اےخُداوند، میں گناہ کرچُکا ہوں۔ میں خُون اورزنا
کرچُکا ہوں۔‘‘اِس صورت میں، اُسکے گناہ، گناہ کی قربانی پر سلسلہ وار منتقل ہو جاتےتھے۔
 بالکل جس طرح گناہ گارشخص گناہ کی قربانی کا گلا کاٹتا تھا اور اِسے خداوند خدا کے حضور چڑھاتا تھا، یسوؔع بھی اِسی طریقے سے ہمارےتمامتر گناہوں کا فدیہ دینے کے لئےقربان ہوگیا۔ یسوؔع نے اپنی
قربانی کے ذریعہ سےہمیں بچانے اور ہمارے تمام گناہوں کا فدیہ دینے کے لئے بپتسمہ لیا اوردار پر خُون بہادیا۔
دَر حقیقت، یسوؔع ہماری وجہ سے مرگیا۔ جب ہم اِسکے متعلق سوچتے ہیں، تو اِس بنا پر لوگوں کے تمام گناہوں کی خاطر اُن بے عیب جانوروں کو قربانیوں کےطور پرچڑھانے کا کیا مطلب تھا؟ کیاوہ تمام جانور جانتے تھے کہ گناہ کیا تھا؟ جانورگناہ کونہیں جانتے۔اُنہیں بے عیب ہی رہناتھا۔
بالکل جیسے وہ جانور مکمل طور پر بے عیب تھے، اِسی طرح، یسوع بھی، منزّہ عنِ الخطا تھا۔ وہ خُدائے قدوس، ابنِ خُداہے، اور اُس نے کبھی گناہ نہیں کیا۔ لہٰذا، اُس نے دریائے یردؔن پر اپنے بپتسمہ کی وساطت سےہمارے تمام گناہوں کواُس وقت منہا کر دیا جب وہ تیس برس کاہوگیا تھا۔
یسوؔع ہمارے گناہوں کی وجہ سے صلیب پرمرگیا جو اُس نے ہم سے لےلئے۔ یہ اُس کی خدمت برائےنجات تھی جس نےنوعِ انسان کے تمام گناہوں کودھو ڈالا۔
 
 
گناہوں کےلئے کفّارہ کی خُوشخبری کا آغاز
  
کیوں یسوؔع نے یردؔن میں یوحناؔ اصطباغی سے بپتسمہ لیا تھا؟
ساری راستبازی کو پورا کرنے کے لئے
 
متی۳ باب میں یوں درج ہے،’’ اس وقت یسوؔع گلیلؔ سے یردؔن کے کنارے یوحنا ؔکے پاس اس سے بپتسمہ لینے آیا۔ مگر یوحناؔ یہ کہہ کر اسے منع کرنے لگا کہ میں آپ تجھ سے
بپتسمہ لینے کا محتاج ہوں اور تومیرے پاس آیا ہے؟ ۔ یسوؔع نے جواب میں اس سے کہا اب تو ہونے ہی دے کیونکہ ہمیں اسی طرح ساری راستبازی پوری کرنا مناسب ہے۔ ‘‘(متی۳: ۱۳- ۱۵)۔
ہمیں یہ جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیوں یسوؔع نے بپتسمہ لیاجب وہ تیس برس کا تھا؟ اُس نے تمام خلقت کے گناہوں کا کفّارہ دینے اور خدوند خداکی ساری راستبازی کو پورا کرنے کے لئے بپتسمہ لیا۔تمام انسانوں کو اُن کے گناہوں سے بچانے کے لئے، یسوؔع مسیح، واحدِ حقیقی نے جو بے عیب تھا،یوؔحنا اِصطباغی سے بپتسمہ لیا۔
اِس طریقے سے، اُس نے دُنیاکے گناہ اُٹھا لئے اور تمام نسلِ انسانی کے گناہوں کاکفّارہ دینے کے لئے خود کوقربان کردیا۔ گناہ سے نجات یافتہ ہونے کے سلسلے میں، ہمیں مکمل حقیقت کو جانناچاہئےاور اِس پر ایمان لانا چاہئے۔اِس بنا پر اُسکی نجات پر ایمان لانااور نجات یافتہ ہونا ہم پر منحصر ہے۔
یسوؔع کے بپتسمہ کاکیامطلب ہے؟ یہ عہدِ عتیق میں ہاتھ رکھنےکے بالکل مساوی ہے۔ عہدِ عتیق میں، تمام لوگوں کے گناہ سردار کاہن کے ہاتھ رکھنے کے ذریعہ سے گناہ کی قربانی کے سر پر سلسلہ وار منتقل ہوتے تھے۔ اِسی طرح، عہدِ جدید میں، یسوؔع نےدُنیا کے گناہوں کو خود کو گناہ کی قربانی کے طور پر پیش کرنے اور یوحناؔؔ اِصطباغی سے بپتسمہ لینے کے وسیلہ سے اُٹھالیا۔
یوحناؔؔ بپتسمہ دینے والا ساری نسلِ انسانی کے درمیان سب سے عظیم انسان تھا، جوخداوند خداکی طرف سے نوعِ انسان کا نمائندہ مقررہُوا۔ نسلِ انسانی کے نمائندہ، یعنی انسانیت کےسردار کاہن کے طور پر، اُس نے یسوؔع پراپنے ہاتھ رکھے اور دُنیا کے تمام گناہ اُس پر منتقل کر دیئے۔ ’ بپتسمہ‘’ سلسلہ وار منتقل کرنے، دفن کرنے اوردھو نے ‘کی طرف پکا اشارہ کرتا ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ کیوں یسوؔع اِس دُنیا میں آیا اور یوحناؔؔ اِصطباغی سے بپتسمہ لیا؟ کیا آپ اُس کے بپتسمہ کا مفہوم سمجھتے ہوئے، یسوؔع پر ایمان رکھتے ہیں؟یسوع کے بپتسمہ کا مقصد ہمارے تمام گناہوں کو، یعنی اُن گناہوں کو اُٹھانا تھا جوہم،بدکرداروں کی نسل،اپنی ساری زندگیوں میں اپنے جسم کے ساتھ سرزد کرتے ہیں۔یوحناؔؔاِصطباغی نےہمارے تمامتر گناہوں کے کفّارہ کی حقیقی خُوشخبری کی تکمیل کے لئےیسوؔع کوبپتسمہ دیا۔
متی۳:۱۳-۱۷،’ اُس وقت‘ کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور یہ اُس وقت کو بیان کرتا ہے جس
وقت یسوؔع نے بپتسمہ لیا، یعنی وہ وقت جب دُنیا کے تمام گناہ اُس پرسلسلہ وار منتقل ہو گئے تھے۔
’ اُس وقت‘یسوؔع نے نسلِ انسانی کے تمام گناہ اُٹھالئے، تین سال کے بعد صلیب پر مر
گیا، اورتیسرے دن مردوں میں سے جی اُٹھا۔ دُنیا کے تمام گناہوں کودھو نے کے لئے، اُس نے آخری اور حتمی طور پر بپتسمہ لیا، اور آخری اور حتمی طور پرصلیب پرمرگیا،اور آخری اور حتمی طور پرمردوں میں سے جی اُٹھا۔ اُن لوگوں کی خاطرجو خداوند خداکے حضور اپنے گناہوں سے رَستگارہونا چاہتے ہیں، اُس نے دُنیا کے تمام گناہ کو اُٹھا لیا اور اُنہیں آخری اور حتمی طور پر بچا لیا۔
یسوؔع کو کیوں بپتسمہ لیناپڑا؟ کیوں اُسے کانٹوں کا تاج پہنناپڑااور اُسے کسی عام مُجرم کی طرح پیلاؔطس کی عدالت میں سزاجھیلنا پڑی؟ کیوں اُسے صلیب پرمصلوب ہونا پڑااوردَم نکلنے تک خُون بہاناپڑا؟سبھی بالائی باتوں کی وجہ یہ ہے کیونکہ اُس نے دُنیا کےتمامتر گناہوں کو،آپ کےاور میرے گناہوں کو، اپنے بپتسمہ کے توسط سے اپنے اوپر اُٹھالیا۔ ہمارے گناہوں کی خاطر، اُسے صلیب پرمرنا پڑا۔
ہمیں نجات کے کلام پر ایمان لانا چاہئے کہ خداوند خداہمیں بچاچُکا ہے اور اُسکے شکرگزار ہونا چاہئے۔ یسوؔع کے بپتسمہ، اُسکی صلیب،اوراُسکے جی اُٹھنے کے بغیر،ہمارےپاس کوئی نجات نہیں ہوگی ۔
جب یسوؔع نے دُنیا کے تمام گناہوں کو اُٹھانے کے لئےیوحناؔؔ سے بپتسمہ لیا،تو اُس نے ہمارے گناہوں کو اُٹھا لیااوراِس طرح، ہمیں بچا لیا جو اُس کی نجات کی خُوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں۔ کچھ ایسے لوگ ہیں جوگمان کرتےہیں ،’’یسوع نے بس موروثی گناہ اُٹھا یا تھا ،کیااُس نے نہیں اُٹھایا؟‘‘ مگروہ غلط ہیں۔
 کتابِ مقدّس میں یہ بات واضح طور پرقلمبند ہے کہ یسوؔع نے کل عالم کے تمامتر گناہوں کوآخری اور حتمی طور پر اُٹھا لیاجب اُس نے بپتسمہ لیا۔ ہمارے تمام گناہ،بشمول موروثی گناہ،دُھل چُکے ہیں۔یسوؔع متی۳:۱۵ میں فرماتا ہے، ’’کیونکہ ہمیں اسی طرح ساری راستبازی پوری کرنا مناسب ہے۔‘‘ساری راستبازی پوری کرنے کا مفہوم ہے کہ تمام گناہ ،بِلا مستثنیٰ، ہم سے لئے جاچُکے ہیں۔
کیا یسوؔع ہمارے تمام عُمر بھر کے گناہوں کو بھی اُٹھاچُکا ہے؟جی ہاں،وہ اُٹھاچُکا ہے۔ آئیں ہم پہلے احبار میں سےاِس بات کا ثبوت تلاش کریں۔ یہ کتاب ہمیں سردار کاہن اور یومِ کفّارہ کی قربانی کے متعلق بتاتی ہے۔
 
 
تمام بنی اسرائیلیوں کے سال بسال گناہوں کے لئےکفّارہ کی قربانی
 
کیا اسرائیلی اِس رُوئےزمین کی گناہ کی قربانی کے وسیلہ سےسب ایک ہی ساتھ ہمیشہ کے لئے  پاک ہو سکتے تھے؟
ہرگز نہیں
 
’’اورہاروؔن گناہ کی قربانی کے بچھڑے کو جوا سکی طرف سے ہے گذران کر اپنے اور اپنے گھر کے لئےکفّارہ دے ۔پھر ان دونوں بکروں کولیکر انکو خیمہء اجتماع کے دروازہ پر خُداوند کے حضور کھڑا کرے ۔اور ہاروؔن ان دونوں بکروں پر چٹھیاں ڈالے۔ ایک چِٹھی خُداوند کے لئے اور دوسری عزازؔیل کے لئے ہو۔ اور جس بکرے پر خُداٰوند کے نام کی چِٹھی نکلے اسے ہاروؔن لیکر گناہ کی قربانی کے لئے چڑھائے ۔لیکن جس بکرے پرعزازؔیل کے نام کی چِٹھی نکلے وہ خُداوند کے حضور زندہ کھڑا کیا جائے تاکہ اس سے کفّارہ دیا جائے اور وہ عزازؔیل کے لئے بیابان میں چھوڑ دیا جائے۔‘‘ (احبار ۱۶:۶- ۱۰)۔یہاں، ہاروؔن اسرائیلیوں کے سال بسال گناہوں کاکفّارہ دینےکے لئےجائے ملاپ خیمہء اجتماع کے دروازہ پر دوبکرے لیتاتھا۔
’’اور ہاروؔن ان دونوں بکروں پر چٹھیاں ڈالے۔ ایک چِٹھی خُداوند کے لئے اور دوسری عزازؔیل کے لئے ہو۔‘‘
قربانی کا ایک جانور روز مرّہ کے گناہوں کا شریعت کے مطابق کفّارہ دینے کے لئے یعنی قربانی کے سر پر اپنے ہاتھ رکھنے کے وسیلہ سےاُس پر گناہ گار کے گناہ سلسلہ وار منتقل کرنے کے سلسلے میں درکار ہوتا تھا۔مگر اسرائیلیوں کے سالانہ گناہوں کے لئے، سردار کاہن، تمام لوگوں کی جگہ پر،ہرسال کے ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو سال بھر کے گناہوں کو،گناہ کی قربانی پرسلسلہ وار منتقل کرتا تھا۔
احبار۱۶:۲۹-۳۱میں ،یوں مرقوم ہے،’’ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو تم اپنی اپنی جان کو دکھ دینا اور اس دن کوئی خواہ وہ دیسی ہو یا پردیسی جو تمہارے بیچ بو دو باش رکھتا ہو کسی طرح کا کام نہ کرے۔ کیونکہ اس روز تمہارے واسطے تمکو پاک کرنے کے لئےکفّارہ دیا جائیگا۔ سو تم اپنے سب گناہوں سے خُداوند کے حضور پاک ٹھہروگے۔ یہ تمہارے لئے خاص آرام کا سبت ہو گا ۔تم اس دن اپنی اپنی جان کو دکھ دینا۔ یہ دائمی قانون ہے۔‘‘(احبار ۱۶:۲۹-۳۱)۔
عہدِ عتیق میں،بنی اسرائیل روزمرّہ کے گناہوں کاکفّارہدینےکے لئےگناہ کی قربانی لاتےتھےاوریوں اقرارکرتے ہوئے،اُس کے سر پراپنے گناہوں کو منتقل کرتے تھے، ’’اے خُداوند،میں فلاں فلاں گناہ کرچُکا ہوں۔مہربانی سے مجھے معاف فرما۔‘‘اِس کے بعد، وہ گناہ کی قربانی کا گلا کاٹتا،کاہن کو اُس کا خُون دیتا، اور گھر واپس لوٹ جاتا،یوں مطمئن ہو جاتا کہ اب وہ اپنےگناہوں سےآزادتھا۔اِس طریقہ سے،گناہ کی قربانی گناہ گار کی خاطر،اپنے سر پر گنا ہ کے ساتھ مر جاتی تھی۔قربانی کا جانور گناہ گار کی جگہ پر ذبح ہوتا تھا۔عہدِ عتیق میں،گناہ کا ذَبیح بکرا،برّہ،بچھڑا ،یابیل ہو سکتا تھا، یعنی، پاک جانوروں میں سے کوئی ایک جنہیں خداوند خداممتاز کرچُکاتھا۔
خداوند خدانے،اپنے لامحدود رحم میں، کسی گناہ گارکی جگہ پراُس کے گناہوں کی خاطر مرنےکے لئے ایک جانور کی جان کو قربان کرنے کی اجازت دی۔
 حسبِ دستورعہدِ عتیق میں،گناہ گارکفّارہ کی قربانی کے ذریعہ سے اپنے گناہوں کا فدیہ دے سکتے تھے۔ گناہ گار کی خطائیں گناہ کی قربانی پر ہاتھ رکھنے کےوسیلہ سے منتقل ہوتی تھیں ،اور اُس کاخُون کاہن کو گناہ گار کے گناہوں کا کفّارہ دینے کے لئے دیا جاتا تھا۔
تاہم،اِس بنا پر ہر روز گناہوں کا کفّارہ دینا ممکن نہیں تھا۔نتیجتاً،خداوند خدانے اسرائیل کے تمام لوگوں کی جگہ پر سردار کاہن کو ہر سال کے ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کوتمام سال کے گناہوں کا کفّارہ دینے کی اجازت دی۔
اِس صورت میں یومِ کفّارہ پر سردار کاہن کا کردار کیاتھا؟اوّل، سردار کاہن ہاروؔن گناہ کی قربانی پر، لوگوں کے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئےاپنے ہاتھ رکھتا،’’اے خُداوند اسرائیل کے لوگ فلاں فلاں گناہ کرچُکے ہیں،مثلاًخُونریزی ،زناکاری ،حرامکاری،چوری،جھوٹی گواہی ،کفر۔۔۔۔۔‘‘
اِس کے بعد، وہ قربانی کے جانور کاگلا کاٹتا،اُسکا خُون لیتا،اور اُس خُون کو پاک ترین قربانگاہ کے
اندررحم گاہ کے اُوپرسات بار چھڑکتاتھا۔( کتابِ مقدّس میں،۷ کا عدد کا ملیت کا عدد ماناجاتا ہے۔)
اِس بنا پر یہ اُسکی ذمہ داری تھی کہ لوگوں کے سالانہ گناہوں کواُن کی جگہ پر گناہ کی قربانی کے سر پرمنتقل کرے، اور گناہ کی قربانی نیابتہ ًقربان ہوجاتی تھی۔
کیونکہ خداوند خداراست ہے، تمام لوگوں کو اُن کے گناہوں سے بچانے کے لئے، اُس نےلوگوں کی جگہ پر گناہ کی قربانی کو مرنے کی اجازت دی۔چونکہ خداوند خداواقعی رحیم ہے، اُس نے لوگوں کو اپنےبدلے میں قربانی کے جانور کی جان قربان کرنے کی اجازت دی۔اِس صورت میں،سردار کاہن رحم گاہ کی مشرقی جانب خُون چھڑکتاتھا،اوراِس طرح، یومِ کفّارہ پر، یعنی ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو،گزشتہ سال کےلئےلوگوں کے تمام گناہوں کا کفّارہ دیتاتھا۔
 
کون عہدِ عتیق کے مطابق قربانی کا برّہ ہے؟
یسوؔع جوکہ بے عیب ہے
 
سردار کاہن کو یومِ کفّارہ پر بنی اسرائیل کے لئے دو بکرے چڑھانے پڑتے تھے۔اُن میں سےایک عزازؔیل کا بکرا کہلاتا تھاجس کا مطلب’ بجھانا ‘ہے۔ بالکل اِسی طرح، عہدِ جدید کا عزازؔیل کا بکرا یسوؔع مسیح ہے۔’’ کیونکہ خُدانے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹابخش دیاتاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔‘‘(یوحنا۳:۱۶)۔
خداوند خدانے ہمیں اپنا اکلوتا بیٹا قربانی کے برّہ کے طور پر بخش دیا۔ اور ساری نسلِ انسانی کی خاطر قربانی کے برّہ کے طور پر، اُس نے یوحناؔؔ اِصطباغی سے بپتسمہ لیا،اور نجات دہندہ ،یعنی دُنیا کامسیحابن گیا۔ یسوؔع کا مطلب ’نجات دہندہ‘ہے اور مسیح کا مطلب ’ ممسوح بادشاہ‘ ہے،اِس طرح یسوؔع مسیح کا مطلب ،’’ خد اوند خداکا بیٹاہے جو ہم سب کو بچانے کے لئے آیا۔ ‘‘
بالکل جسطرح عہدِ عتیق میں یومِ کفّارہ پر لوگوں کے سالانہ گناہوں کا کفّارہ دیا جاتا تھا، اُسی طرح ،یسوؔع مسیح،تقریباً ۲۰۰۰سال پہلے، اِس دُنیا میں بپتسمہ لینے کے لئےآیااورہمارے تمام گناہوں کی خاطرکفّارہ کی خُوشخبری کو مکمل کرنے کےلئےصلیب پرمرتےدَم تک خُون بہایا۔
 اِس نکتہ پر،آئیں ہم احبار سے ایک حوالہ پڑھیں۔’’اور ہاروؔن اپنے دونوں ہاتھ اس زندہ بکرے کےسر پر رکھ کر اسکے اوپر بنی اسرائیل کی سب بدکاریوں اور اُن کے سب گناہوں اور خطاؤں کا اقرار کرے اور انکو اس بکرے کے سر پر دھر کر اسے کسی شخص کے ہاتھ جو اس کام کے لئے تیار ہو بیابان میں بھجوادے۔ اور وہ بکراان کی سب بدکاریاں اپنے اوپر لادے ہوئی کسی ویرانہ میں لے جائیگا۔ سو وہ اس بکرے کو بیابان میں چھوڑدے۔‘‘(احبار۱۶:۲۱- ۲۲)۔
یوں مرقوم ہے کہ تمام اسرائیلیوں کے گناہ اُس بکرے کے سر پر دھرے جاتے تھے جیسےکہ یہی بات احبار پہلے باب میں بھی قلمبند ہے۔ ’اُن کی تمام خطائیں‘اُن سبھی گناہوں کوبیان کرتی ہیں جو اُنہوں نےاپنے باطنوں میں اور اپنے جسم کے ساتھ سر زد کئے ۔ اور ’اُن کی تمام خطائیں‘سردار کاہن کے ہاتھ رکھنے کے ذریعہ سے گناہ کی قربانی کےسر پر دھردی جاتی تھیں۔
 
 
خداوند خداکی شریعت کے مطابق،ہمیں اپنے تمام گناہوں کا حقیقی علم حاصل کرنا چاہئے
                    
کیوں خداوند خدانے ہمیں شریعت عطا کی؟
ہمیں گناہ کا علم عطاکرنے کے لئے
 
خُدا تعالیٰ کی شریعت ۶۱۳ حکموں پر مشتمل ہے۔دراصل، جب ہم اِسکے متعلق سوچتے ہیں،تو ہم
وہ کام کرتے ہیں جو وہ ہمیں کرنے سے منع کرتا ہے اور وہ نہیں کرتے جو وہ ہمیں کرنے کا حکم کرتا ہے۔
چنانچہ،ہم گناہ گار ہیں۔ کتابِ مقدّس میں یوں لکھا ہے کہ خداوند خدانے ہمیں وہ احکام اپنے گناہوں کواچھی طرح پہچاننے کے سلسلے میں عطا کئے(رومیوں۳:۲۰)۔ اِس کا مطلب ہے کہ اُس نے ہمیں اپنے حکموں کی شریعت یہ سکھانے کے لئے عطا کی کہ ہم گناہ گار ہیں۔ اُس نے ہمیں اُنہیں اِس لئےعطا نہیں کیا کیونکہ ہم اُن کے مطابق جینے کے قابل ہیں، بلکہ ہمیں اپنے گناہوں کواچھی طرح پہچاننے کے لئے عطا کیا۔
لہٰذا اُس نے ہمیں اپنے احکام عمل کرنے کے لئے عطا نہیں کئے۔آپ کسی کتے سے انسان کی مانند جینے کی توقع نہیں کر سکتے۔اِسی طرح، ہم ہرگز خُدا کی شریعت کے مطابق نہیں جی سکتے، مگر فقط اُس کے
حکموں کی شریعت کے وسیلہ سے اپنے گناہوں کو اچھی طرح پہچان سکتے ہیں۔
 خُدا نے اُنہیں ہمیں عطا کیا کیونکہ ہم گناہ کے ڈھیر ہیں،مگر ہم حقیقی طور پر اِس کا احسا س نہیں کرتے۔”تم خُونی، حرامکار، بدکار ہو،“خُدا ہمیں حکموں کےتوسط سےمتناقض طور پر فرماتا ہے۔اُس نے ہمیں خُون نہ کرنے کا حکم دیا، مگر ہم اِس کے باوجود اپنے باطنوں میں اور گاہے بگاہے ،اپنے جسموں کے ساتھ خُون کرتے ہیں۔
تاہم، چونکہ شریعت میں یوں درج ہے کہ ہمیں خُون نہیں کرنا چاہئے، ہم جانتے ہیں کہ یوں کہہ کر،ہم خُونی ہیں،”ہاں، میں غلط تھا۔میں گناہ گار ہوں کیونکہ میں نے ایسا کام کیاجو مجھے نہیں کرنا چاہئے تھا۔ میں گناہ کرچُکا ہوں۔“  
اسرائیل کے لوگوں کو گناہ سے بچانےکے لئے، خُدا نے ہاروؔن کو عہدِ عتیق میں کفّارہ کی قربانی پیش کرنے کی اجازت دی، اور یہ ہاروؔن ہی تھا جو لوگوں کی خاطر سال میں ایک مرتبہ کفّارہ دیتا تھا۔
عہدِعتیق میں، خُدا کے سامنے یومِ کفّارہ پر گناہ کی دو قربانیاں پیش کرنی پڑتی تھیں۔ایک قربانی خُدا کے حضور چڑھائی جاتی تھی جبکہ اُسی دوران دوسری قربانی ہاتھ رکھنے کے بعد ، لوگوں کے تمام سال بھر کے گناہ اُس پر لاد کر بیابان میں بھیجی جاتی تھی۔اِس سے پیشتر کہ بکر ا کسی مناسب آدمی کے ہاتھ سے بیابان میں بھیجاجاتا، سردار کاہن زندہ بکرے کے سر پر اپنے ہاتھ رکھتااور اسرائیل کے گناہوں کا اِقرار کرتا تھا،”اے خُداوند، لوگ قتل، زناکاری، چوری، بُتوں کی پوجا کرچُکے ہیں۔۔۔۔ہم تیرے آگے گناہ کرچُکے ہیں۔“
 فلسطین کی سرزمین ریگستانی بیابان ہے۔چھوڑا ہوا بکرابے اَنت بیابان میں بھیجا جاتا تھااور آخرکار مر جاتاتھا۔ جب وہ بھیجا جاتا تھا ، تو اسرائیل کے لوگ اُسے دیکھتے رہتے تھےجب تک وہ دُور فاصلے پر غائب نہ ہو جاتا تھا، اور ایمان رکھتے تھے کہ اُن کے گناہ عزازؔیل کے بکر ے کے ساتھ چلے گئے تھے۔اِس طرح لوگ ذہنی سکون پاتے تھے، اور عزازؔیل کا بکرا تمام لوگوں کے سالانہ گناہوں کی وجہ سے بیابان میں مر جاتا تھا۔
اِسی طرزِعمل سے، خُدا نے ہمارے سب گناہوں کاخُدا کے برّہ، یسوع مسیح کے وسیلہ سے کفّارہ دیا۔ہمارے تمام گناہ مکمل طور پر یسوع کے بپتسمہ اور اُس کے صلیبی خُون کے طُفیل سے دُھل گئے تھے۔
 یسوع خُدا اور ہمارا نجات دہندہ ہے۔وہ خُدا کا بیٹا ہےجو تمام نوعِ بشر کو گناہ سے بچانے کے لئے آیا۔وہ خالق ہے جس نے ہمیں اپنی شبیہ پر پیدا کیااور ہمیں گناہ سے بچانے کی خاطراِس دُنیا میں اُتر آیا۔
نہ صرف ہمارے روزمرّہ کے گناہ جو ہم جسم کے ساتھ کرتے ہیں ، بلکہ ہمارے مستقبل کے تمام گناہ بھی اور ہمارے باطنوں اور جسم کے گناہ سبھی یسوؔع پر منتقل ہو گئے۔ اِس صورت میں، اُسے خُدا کی
ساری راستبازی،یعنی دُنیا کے تمام گناہوں کا مکمل کفّارہ دینے کے لئے یوؔحنا اِصطباغی سے بپتسمہ لینا پڑا۔
یسوؔع کے مصلو ب ہونے سے تین سال قبل، جب اُس نے اولاً اپنی خدمتِ عامہ کا آغاز کیا ، تو اُس نے دریائے یردؔن پر یوؔحنا اصطباغی سے بپتسمہ لینے کی معرفت جہان کے تمام گناہوں کو اُٹھا لیا۔ا ُس کی نسلِ انسانی کی نجات ہمارے تمام گناہوں کے فدیہ کے وسیلہ سے اُس کے بپتسمہ کے سَنگ شروع ہوئی۔
دریائے یردؔن میں، اُس جگہ جہاں وہ تقریباًکمر تک گہرا ہو سکتا ہے،یوؔحنا اِصطباغی نے یسوؔع کے سر پر اپنے ہاتھ رکھےاور اُسے پانی میں غوطہ دیا۔یہ بپتسمہ عہدِ عتیق میں ہاتھ رکھنے کے بالکل برابر تھا اور تمام گناہوں کو منتقل کرنے کا مساوی اثر رکھتا تھا۔
 پانی میں غوطہ لینے کا مطلب موت تھا، اور پانی سے باہر نکلنے کا مطلب جی اُٹھنا تھا۔اِس طرح، یوؔحنا
 اِصطباغی سے بپتسمہ لینے کے وسیلہ سے، یسوؔع اپنے فریضے کے سبھی تین اجزاکو :یعنی تمام گناہوں کو اُٹھانے، مصلوبیت، اور جی اُٹھنے کو پورا اور منکشف کرچُکا تھا۔
ہم بچ سکتے ہیں فقط اگر ہم اُن کلمات کی تعمیل کریں جن کے ساتھ یسوؔع نے ہمیں گناہ سے بچا لیا۔خُدا نے ہمیں یسوؔع کے طُفیل سے بچانے کا فیصلہ کیا، اور وہ عہد جو وہ عہدِ عتیق میں باندھ چُکا تھا اِس صورت میں پورا ہوچُکا تھا۔اِس عمل کے وسیلہ سے ، یسوؔع اپنے سر پر ہمارے تمام گناہوں کے ہمراہ صلیب کی طرف گیا۔
 
کس قسم کا کام ہمارے لئے باقی ہے جب سے یسوؔع نے ہمارے تمام گناہوں کو دھو ڈالا؟
ا ِس بنا پر سب جو ہمیں کرنا ہے خُدا تعالیٰ کے کلمات پر ایمان رکھنا ہے۔
 
یوحنا۱:۲۹ میں ،یوں درج ہے،’’دوسرے دن اس نے یسوؔع کو اپنی طرف آتے دیکھ کر کہا دیکھو یہ خُدا کا برّہ ہے جودُنیا کا گناہ اُٹھالے جاتا ہے۔‘‘یوحناؔ اِصطباغی نے گواہی دی،’’دیکھو یہ خُدا کا برّہ ہے جو دُنیا کا گناہ اُٹھالے جاتا ہے۔‘‘ جب اُس نے یردؔن میں بپتسمہ لیا تونسلِ انسانی کے تمام گناہ یسوؔع پر سلسلہ وار منتقل ہو گئے ۔اِس پر ایمان لائیں !تب آپ اپنے تمام گناہوں کے کفّارہ کے ساتھ مُبارک ٹھہریں گے۔
 ہمیں خداوند خداکے کلام پر ایمان رکھنا چاہئے۔ ہمیں اپنے ذاتی خیالوں اور ہٹ دھرمی کو بالائے طاق رکھنا چاہئے اور خداوند خداکے تحریری کلام کی تعمیل کرنی چاہئے۔ہمیں یقیناًبِلا کم و کاست یہ ایمان رکھنا چاہئے کہ یسوؔع نے دُنیا کے تمام گناہ اُٹھالئے۔
 یہ کہنا کہ یسوؔع نےدُنیا کے تمام گناہ اُٹھالئے، اور یہ کہنا کہ اُس نے ہمارے گناہوں کا فدیہ دینے
کےوسیلہ سے خداوند خداکی راستبازی کو پورا کردیاہو بہو ایک ہی بات ہے۔’ ہاتھ رکھنے‘اور ’بپتسمہ‘ کا بھی ایک ہی مطلب ہے۔
اِس کے علاوہ کہ آیا ہم کہیں’سب‘،’سب کچھ‘ یا’تمام‘اِن کا مطلب وہی رہتا ہے۔ عہدِ عتیق میں ’ہاتھ رکھنے‘ کےلفط کا مطلب عہدِ جدیدمیں بالکل قائم رہتا ہے ، ماسوائے کہ اُس کی جگہ پر لفظ ’بپتسمہ‘استعمال ہواہے۔
اِس بنا پرہم سادہ سچائی تک پہنچتے ہیں کہ یسوؔع نے دونوں بپتسمہ لیا اور ہمارے گناہوں کے فدیہ کی خاطر صلیب پر سزا کو برداشت کیا۔ جب ہم حقیقی خُوشخبری پر ایمان لاتے ہیں تو ہم نجات یافتہ ہو سکتے ہیں۔
جب کتابِ مقدّس فرماتی ہے کہ یسوؔع نے ’دُنیا کے تمام گناہ‘ اُٹھالئے(یوحنا۱:۲۹)، تو دُنیا کے گناہ کا کیا مفہوم ہے ؟اِس کا مطلب وہ تمام گناہ ہیں، جن کے ساتھ ہم پیدا ہوئےتھے، یعنی مراد یہ ہے، بُرے خیال،چوری، زناکاری ،لالچ، بدکاری ،کفر،تکبر ،ا وربیوقوفی جو ہمارے باطنوں میں بسے ہوئے ہیں۔اِ س میں تمام بدکاریاں اور خطائیں بھی شامل ہیں جو ہم اپنے جسم کےہمراہ اور باطن کے اندر کرتے ہیں۔
’’کیونکہ گناہ کی مزدوری موت ہے مگر خُداکی بخشش ہمارے خُداوند مسیح یسوؔع میں
ہمیشہ کی زندگی ہے۔‘‘ (رومیوں۶:۲۳)۔’’اور بغیر خُون بہائےمعافی نہیں ہوتی۔‘‘(عبرانیوں۹: ۲۲)۔ جیسا کہ اِن آیات میں ارشاد ہے، تمام گناہوں کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔یسوؔع مسیح نے ،تمام نوعِ انسان کوگناہ سے بچانے کے لئے، اپنی ہی جان قربان کر دی، اور ہماری خاطر گناہ کی قیمت آخری اور حتمی
طور پراَدا کردی۔
چنانچہ ،ہمیں اپنے تمام گناہوں سے آزاد ہونےکے لئے،سب کچھ جوہمیں کرنا ہے حقیقی خُوشخبری پر–– یعنی یسوؔع کے بپتسمہ اوراُسکے خُون، اور اُس کی الوہیت پر ایمان لانا ہے۔
 
 
کل کے گناہوں کا کفّارہ
                    
کیا ہمیں اپنے گناہوں کے لئےاور قربانی چڑھانے کی ضرورت ہے؟
پھر کبھی نہیں
 
آئندہ کل کے گناہ، پرسوں کے گناہ، اور وہ گناہ جو ہم اپنے مرنے کے دن تک کرتے ہیں،نیز،’ دُنیا کے گناہ‘ میں شامل ہیں،بالکل جیسے آج کے گناہ،، گزرے کل، اورگزرے پرسوں کے گناہ بھی’دُنیا کے گناہ‘میں شامل ہیں۔خلقِ خُدا کے پیدائش سے موت تک کے گناہ سب ’دُنیا کے گناہ‘ کا حصہ ہیں اوربھر پور طریقے سےدُنیا کے گناہ قطعی طور پر اُس کے بپتسمہ کےتوسط سے یسوؔع پرسلسلہ وار منتقل ہو گئےتھے۔وہ تمام گناہ جو ہم اپنے مرنے کے دن تک کریں گے پہلے ہی ہم سے دور ہوچُکے ہیں۔
ہمیں فقط اِس حقیقی خُوشخبری پر، یعنی خداوند خداکے تحریری کلام پر ایمان لانے اورنجات یافتہ ہونے کے لئے حق کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے تمام گناہوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے اپنے ذاتی خیالات بالائے طاق رکھ دینےچاہئے۔خیر آپ یہ پوچھ سکتے ہیں، ’’وہ کیسے ابھی تک نہ ہوئے گناہوں کو اُٹھا سکتاتھا؟‘‘تب، میں آپ سے جواب میں پوچھوں گا، ’’ کیایسوؔع کو ہر بار جب آپ گناہ کرتے ہیں واپس اِس دُنیا میں آنا چاہئے اور بار بار خُون بہاناچاہئے؟‘‘
اَزسرِنَو پیداہونے کی خُوشخبری کے اندر، ہمارے گناہوں کے فدیہ کا ضابطہ پایا جاتا ہے۔ ’’اور بغیر خُون بہائے معافی نہیں ہوتی۔‘‘(عبرانیوں ۹:۲۲)۔ جب کوئی آدمی عہدِ عتیق کے دَور میں اپنے گناہوں سے چُھٹکارہ پانا چاہتاتھا ،تو اُسے گناہ کے ذَبیح پراپنے ہاتھ رکھنے کے ذریعہ سےگناہوں کو منتقل کرنا پڑتا تھا،اور گناہ کے ذَبیح کو اُس کے گناہوں کی خاطر مرنا پڑتا تھا۔ حتی الوسع بالکل اِسی طرح، ابنِ خُدا تمام نسلِ انسانی کو بچانے کے لئے اِس دُنیا میں اُتر آیا۔
 اُس نے ہمارےتمام گناہوں کواُٹھانے کے لئے بپتسمہ لیا، ہمارے گناہوں کی قیمت ادا کرنے کے لئے صلیب پر خُون بہایا ،اور یوں کہہ کر صلیب پرجان دے دی کہ’’تمام ہوا۔‘‘ وہ تین دن کےبعد مردوں میں سے جی اُٹھا اور اب خداوند خداکے دہنے ہاتھ پر بیٹھاہُوا ہے ۔اِس طریقے سے،وہ ابد تک ہمارا نجات دہندہ بن چُکاہے۔
اپنے گناہوں سے مکمل طور پر معاف ہونے کے لئے ،ہمیں اپنے تمام طے کردہ خیالات کا دامن چھوڑدیناچاہئے اور مذہبی الہٰی تعلیم کو ترک کردینا چاہئے جو ہمیں ہر روز توبہ کی دعاؤں کے توسط سے اپنے روزمرّہ کے گناہوں سے خود کو آزاد کرنے کی ہدایت کرتی ہے۔ نسلِ انسانی کے گناہوں کاکفّارہ دینے کے سلسلے میں،شریعی قربانی، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ،گزراننی پڑی ۔عالمِ بالا پرخدوند خدانے دُنیا کے تمام گناہ اپنےہی بیٹے پراُس کے بپتسمہ کے ذریعہ سے سلسلہ وار منتقل کر دِیئےاورہماری خاطر اُسے مصلوب کر دیا ۔ اُس کے مردوں میں سے جی اُٹھنے کےساتھ، ہماری نجات مکمل ہوگئی۔
’’حالانکہ وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھایل کیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعث کچلاگیا ۔تو بھی اس نے ہماری مشقتیں اُٹھالیں اور ہمارے غموں کو برداشت کیا۔ پر ہم نے اُسے خُدا کا مارا کوٹا اور ستایا ہوا سمجھا۔۔۔۔پر خُداوند نے ہم سب کی بدکرداری اس پر لاد دی “یسعیاہ ۵۳ باب میں، یوں ارشاد ہےکہ دُنیاکی، یعنی تمام نسلِ انسانی کی سرتاسر خطائیں اور بدکرداریاں،یسوؔع مسیح
پرباضابطہ طور پر منتقل ہو گئیں۔
عہدِ جدید میں، افسیوں ۱:۴میں،یوں درج ہے ،’’اس نے ہم کو بنایِ عالم سے بیشتر اس میں چن لیا۔‘‘یہ حوالہ ہمیں بتاتا ہے کہ اُس نے ہمیں اُس میں بنائے عالم سے پیشتر چن لیا۔یہاں تک کہ دُنیا کی تخلیق سے قبل، خدوند خدانے ہمیں اپنے لوگ ، یعنی مسیح میں، بے عیب راستباز،بنانے کا فیصلہ کیا۔اِس سے پیشتر چاہے ہم کچھ بھی سوچ چُکے ہوں، اب ہمیں خداوند خداکے کلام ،یعنی پانی، خُون، اور رُوح کے کلمات پر ایمان لا ناچاہئے اور اُس کی تعمیل کرنی چاہئے۔
خداوند خدانے ہمیں بتایا کہ اُسکے برّہ یسوؔع مسیح نے،دُنیا کے گناہوں کو اُٹھالیا،اور تمام نسلِ انسانی کا کفّارہ دیا۔ عبرانیوں ۱۰ باب میں،یوں قلمبندہے،’’کیونکہ شریعت جس میں آئندہ کی اچھی چیزوں کا عکس ہے اور ان چیزوں کی اصلی صورت نہیں ان ایک ہی طرح کی قربانیوں سے جو ہر سال بلاناغہ گذرانی جاتی ہیں پاس آنے والوں کو ہر گز کامل نہیں کر سکتی۔‘‘(عبرانیوں۱۰:۱)۔
یہاں، یہ ارشاد ہے کہ ایک ہی طرح کی قربانیاں،جنہیں وہ بِلا توقف سال بسال گزرانتے ہیں ،اُنہیں ہرگز کامل نہیں کرسکتیں۔ شریعت آنے والی اچھی چیزوں کا عکس ہے، اور حقیقی چیزوں کی اصلی شبیہ نہیں ہے۔ یسوؔع مسیح ، مسیحا جو آنے والا تھا،اُس نےہمیں بپتسمہ لینے اور ہمارے گناہوں کے کفّارہ کے لئےمصلوب ہونے کے وسیلہ سےہمیشہ ہمیشہ کے لئے کامل کر دیا (بالکل جس طرح اسرائیل کے سالانہ گناہوں کاہمیشہ ہمیشہ کے لئے کفّارہ دیا جاتا تھا)۔
چنانچہ،یسوؔع نے عبرانیوں ۱۰ باب میں ارشاد فرمایا،’’ اور پھر یہ کہتا ہے کہ دیکھ میں آیا ہوں تاکہ تیری مرضی پوری کروں۔غرض وہ پہلے کو موقوف کرتا ہے تاکہ دوسرے کو قائم کرے۔اسی مرضی کے سبب سے ہم یسوؔع مسیح کے جسم کے ایک ہی بار قربان ہونے کے وسیلہ سے پاک کئے گئے ہیں۔اور ہر ایک کاہن تو کھڑا ہو کر ہر روز عبادت کرتا ہے اور ایک ہی طرح کی قربانیاں بار بار گذرانتا ہے جو ہر گز گناہوں کو دور نہیں کر سکتیں۔لیکن یہ شخص ہمیشہ کے لئے گناہوں کے واسطے ایک ہی قربانی گذران کر خُدا کی دہنی طرف جا بیٹھا۔اور اسی وقت سے منتظرہے کہ اس کے دشمن اس کے پاؤں تلے کی چوکی بنیں۔کیونکہ اس نے ایک ہی قربانی چڑھانے سے ان کو ہمیشہ کے لئے کامل کر دیا ہے جو پاک کئے جاتے ہیں۔اور رُوح القدس بھی ہم کو یہی بتاتا ہے کیونکہ یہ کہنے کے بعد کہ۔خُداوند فرماتا ہے جو عہد میں ان دنوں کے بعد ان سے باندھونگا وہ یہ ہے کہ میں اپنے قانون ان کے دلوں پر لکھوں گا اور ان کے ذہن میں ڈالوں گا۔ پھر وہ یہ کہتا ہے کہ ان کے گناہوں اور بے دینیوں کو پھر کبھی یاد نہ کروں گا۔اور جب ان کی معافی ہو گئی ہے تو پھر گناہ کی قربانی نہیں رہی۔‘‘(عبرانیوں۱۰:۹- ۱۸)۔
ہم ایمان لاتے ہیں کہ یسوؔع ہمیں اپنے بپتسمہ اور صلیبی خُون کی وساطت سےکل عالم کے تمامتر گناہوں سے نجات بخش چُکاہے ۔
 
 
پانی اور رُوح سے اَز سرِ نَو پیدا ہونے کی نجات جو ہمارے قلبوں اور ذہنوں پر کندہ ہے
 
کیا ہم راستباز ہیں محض کیونکہ ہم اب سے گناہ نہیں کرتے؟
نہیں۔ہم راستباز ہیں کیونکہ یسوؔع نے ہمارے تمام گناہ اُٹھا لئے اور ہم اُس پر ایمان رکھتے ہیں۔
 
کیا آپ سب اُس کی کامل نجات پر ایمان رکھتے ہیں ؟––آمین––کیا آپ ایمان کے ساتھ خداوند خداکے کلام کی تابعداری کرتے ہیں کہ یسوؔع مسیح نے ہمیں بچانے کے لئے خود بپتسمہ لیااور صلیب پر خُون بہایا؟ہمیں اَزسرِنَو پیداہونے کے لئےیقیناًاُس کے کلام پر ایمان رکھناچاہئے۔ہم نجات یافتہ ہوسکتے ہیں جب ہم ایمان لاتے ہیں کہ یسوؔع مسیح نے، معافی کی خُوشخبری کےتوسط سے، ہمارےتمام گناہوں کو ،دُنیا کے گناہوں کے ساتھ ساتھ دھو ڈالا۔
ہم خداوند خداکی شریعت کی تابعداری کرنےکے وسیلہ سےہرگز بے گناہ نہیں بن سکتے،مگر ہم اُس کے کاموں پر اپنےایمان کےتوسط سے کامل بن سکتے ہیں۔ یسوؔع مسیح نے یردؔن پر اپنے بپتسمہ کے وسیلہ سے ہمارے تمام گناہ اُٹھالئے،فیصلےکو برداشت کیا اور صلیب پر ہمارے تمام گناہوں کی خاطر سزا کوسہا۔ اِس خُوشخبری پراپنے پورے مَنوں کے ساتھ ایمان لانے کے وسیلہ سے، ہم اپنے تمام گناہوں سے رہا ہو سکتےہیں اور راستباز ٹھہر سکتے ہیں ۔کیا آپ اِس پر ایمان لاتے ہیں؟
یسوؔع کا بپتسمہ ،اُسکی مصلوبیت اور جی اُٹھنا نسلِ انسانی کے تمام گناہوں کی بخشش کے واسطےہیں اور نجات کاقاعدہ خداوند خداکی لامحدود اور غیر مشروط محبت پرمبنی ہے ۔ خداوند خداہم سے محبت رکھتا ہےہم جیسے بھی ہیں اور وہ راست ہے، لہٰذا اُس نے ہمیں پہلے راستبازبنایا۔ اُس نے ہمیں ہمارے تمام گناہوں کویسوؔع پر اُس کے بپتسمہ کے وسیلہ سے منتقل کرنے کی معرفت راستباز بنایا۔
ہمارے تما م گناہوں کودھونے کے لئے ،اُس نے اپنے اکلوتے بیٹے،یسوؔع کو، ہماری خاطر اِس دُنیا میں بھیجا۔ اُس نے یسوؔع کو اپنے بپتسمہ کے وسیلہ سے دُنیا کے تمام گناہ اُٹھانے کی اجازت دی اور اِس کے بعد ہمارے تمام گناہوں کی سزااپنے بیٹے پر منتقل کر دی۔ اُس نےہمیں پانی اورخُون کی نجات، وسیلہ سے اپنی راستباز اولادبنایا۔
عبرانیوں۱۰:۱۶میں یوں لکھا ہے ،’’ میں اپنے قانون ان کے دلوں پر لکھوں گا اور ان کے ذہن میں ڈالوں گا۔‘‘
اپنے دلوں اور ذہنوں میں، کیاہم خداوند خداکے حضور گناہ گار ہیں یاکیا ہم راستباز ہیں؟اگر ہم خداوند خداکے کلام پر ایمان رکھتے ہیں،تو ہم راستبازٹھہرتے ہیں ۔یسوؔع مسیح نے ہمارے تمام گناہ اُٹھالئے اور اُن کی خاطر سزا برداشت کی۔ یسوؔع مسیح ہمارا نجات دہندہ ہے۔ شاید آپ یہ سوچیں،’’کیونکہ ہم ہر روز گناہ کرتے ہیں،تو کیسے ہم راستباز ٹھہر سکتے ہیں ؟ہم حتمی طور پرگناہ گار ہیں۔‘‘مگر جب ہم خداوند خداکے کلام پر ایمان رکھتے ہیں ،بالکل جس طرح یسوؔع مسیح نے با پ کی تابعداری کی، تو ہم راستباز بن جاتے ہیں۔
بےشک، جیسا میں پہلے کہہ چُکا ہوں،ہم اپنے پیدا ہونے سے پیشتر اپنے باطنوں میں گناہ رکھتے تھے۔اپنے دلوں میں گناہوں کی بخشش کی خُوشخبری لینے کے بعد، ہم نے اپنے تمام گناہوں سے نجات حاصل کرلی۔ جب ہم خُوشخبری سے واقف نہ تھے، اُسوقت ہم گناہ گار تھے۔ مگر جب ہم نے یسوؔع کی نجات پر ایمان لانا شروع کیا توہم راستبازبن گئے ،اور خداوند خداکی راستباز اولاد بن گئے۔ یہ راستباز بننے کا ایمان ہے جس کے متعلق پولسؔ رسول نے بات کی۔ اِس معافی کی خُوشخبری پر ایمان نے ہمیں’راستباز‘ بنا دیا۔
نہ پولسؔ رسول ،نہ ہی ابرہامؔ، نہ ہی ایمان کے آباؤ اجداد اپنے اعمال کے باعث راستباز ٹھہرے، بلکہ اِس کی بجائےوہ خداوند خداکے کلام،یعنی اُس کی گناہوں کی بخشش کی برکت کےکلمات پر ایمان لانے کی بدولت راستباز ٹھہرے۔
عبرانیوں۱۰:۱۸ میں لکھا ہے، ’’اور جب انکی معافی ہوگئی ہے تو پھر گناہ کی قربانی نہیں رہی۔‘‘ جیسا کہ لکھا ہے ،خداوند خدانے ہمیں بچایا تاکہ ہمیں اپنے گناہوں کی خاطر مرنا نہ پڑے۔
 کیا آپ اِس پر ایمان لاتے ہیں؟––آمین–
فلپیوں ۲باب میں لکھا ہے، ’’ویسا ہی مزاج رکھو جیسا مسیح یسوؔع کا بھی تھا۔ اس نے اگرچہ خُدا کی صورت پر تھا خُدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا۔ بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور انسانوں کے مشابہ ہو گیا۔ اور انسانی شکل میں ظاہر ہو کر اپنے آپ کو پست کر دیا اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی۔ اسی واسطے خُدا نے بھی اسے بہت سر بلند کیا اور اسے وہ نام بخشا جو سب ناموں سے اعلیٰ ہے ۔تاکہ یسوؔع کے نام پر ہر ایک گٹھنا جھکے۔ خواہ آسمانیوں کا ہو خواہ زمینیوں کا۔ خواہ انکا جو زمین کے نیچے ہیں۔ اور خُدا باپ کے جلال کے لئے ہر ایک زبان اقرار کرے کہ یسوؔع مسیح خُداوند ہے۔‘‘ (فلپیوں۲:۵-۱۱)۔
یسوؔع مسیح نے، جو اُس کے جلال کا پر تو اور اُس کی ذات کی ہو بہو نمائندگی ہے (عبرانیوں۱:۳)، اپنے لئے کسی لازوال شہرت کا تعاقب نہ کیا۔اِس کی بجائے،اُس نے خود خادم کی صورت اِختیار کی ، اورنوعِ انسان کی شکل میں آیا۔ اُس نے خود کو پست کیا اور ہمیں بچانے کی خاطر موت تک فرمانبردار رہا۔
غرض،ہم یسوؔع کی تمجید کرتے ہیں، ’’وہ ہمارا خُداتعالیٰ، نجات دہندہ، اور بادشاہ ہے۔‘‘ اِس بنا پروجہ کہ کیوں ہم خداوند خداکو جلال دیتے ہیں اور یسوؔع کی تمجید کرتے ہیں یہ ہے کہ یسوؔع نے آخر تک اپنے باپ کی مرضی کی تابعداری کی۔ اگر وہ تابعداری نہ کرتا، تو اِس وقت ہم ابنِ خُدا کو جلال نہ دے رہے ہوتے۔مگر چونکہ ابنِ خُدانے مرنے تک اپنے باپ کی مرضی کی تابعداری کی، اسلئے تما م مخلوقات اور اِس رُوئے زمین پرتما م لوگ اُسے جلال دیتے ہیں ،اورایسا ابدتک کرتے رہیں گے۔
یسوؔع مسیح خداوند خداکا برّہ بن گیا جس نےدُنیا کے گناہوں کو اُٹھالیا اور یہ لکھا ہے کہ اُس نے اپنے بپتسمہ کے ذریعہ سے اُنہیں اُٹھا لیاتھا۔ اب ،تقریباً۲۰۰۰سال گزرچُکے ہیں جب سے اُس نے دُنیا کے تمام گناہوں کو اُٹھالیا ۔آپ اور میں اپنے جنموں سے اِس دُنیا میں جی رہے ہیں ، اور ہمارے تمام گناہ بھی دُنیا کے گناہوں میں شامل ہیں۔
 
کیا ہم گناہ گار بن جائیں گے اگر ہم کل گناہ کرتے ہیں؟
نہیں، کیونکہ یسوؔع نے ہمارے ماضی،حال، اور مستقبل کے تمام گناہوں کو اُٹھا لیا۔
 
موروثی گنا ہ کو اپنی ذاتی عُمر بھر کی خطاؤں سے جُدا کئے بغیر، کیا ہم اپنی پیدائش ہی کے وقت سے
گناہ نہیں کرچُکے ؟––جی ہاں، ہم ایسا کرچُکے ہیں۔––
یسوؔع جانتا تھا کہ ہم اپنی پیدائش کے روز سے مرنے کے دن تک گناہ کریں گے، اِسلئے اُس نے پہلے ہی ہمارے تمام گناہ اُٹھا لئے۔ کیا آپ اب اِسے دیکھ سکتے ہیں؟اگر ہم۷۰ برس تک جئیں، تو ہمارے گناہ۱۰۰کوڑے کے ٹرکوں سےکہیں زیادہ بڑھ جائیں گے ۔مگریسوؔع نے ہمارے تمام گناہ اپنے بپتسمہ کےساتھ ایک ہی بار اُٹھا لئے اوراُنہیں اپنے ساتھ صلیب پر لے گیا۔
اگر یسوؔع نے بس موروثی گناہ اُٹھایا ہوتا، تو ہم سب ہلاک ہو جاتے اور جہنم میں چلے جاتے ۔ یہاں تک کہ اگر ہم محسوس کرتے کہ وہ ہمارے تمام گناہ نہیں اُٹھا سکتا تھا ، تو اِس سے یہ حقیقت ہرگز نہیں بدلے گی کہ یسوؔع ہمارے تمامتر گناہوں کومٹاچُکا تھا۔
کتنےگناہ ہم اِس دُنیا میں کر سکتے ہیں؟وہ سبھی گناہ جو ہم کرتے ہیں دُنیا کے گناہ میں شامل ہیں ۔
جب یسوؔع نے یوحناؔؔ کو اُسے بپتسمہ دینے کا حکم کیا ،تو بالکل یہی تھاکہ اُس کا کیا مطلب تھا ۔ یسوؔع نے خود گواہی دی کہ وہ ہمارے تمام گناہ اُٹھاچُکا تھا۔ خداوند خدانے یسوؔع کے آگے اپنے خادم کو بھیجا اوریسوؔع کو اُس سے بپتسمہ دلوایا۔ یوحناؔؔ، نسلِ انسانی کے نمائندہ سے، بپتسمہ لینے کی معرفت ،یعنی بپتسمہ لینے کے لئے اُس کے سامنے اپنا سرجُھکانے کی بدولت،یسوؔع نے تمام نوعِ بشر کےسرتاسر گناہوں کو اُٹھالیا۔
ہمارے۲۰سے۳۰کی عُمر ،۳۰ سے ۴۰،اور وغیرہ وغیرہ کے سبھی گناہ ؛ یہاں تک کہ ہمارے بچوں کے گناہ دُنیا کے گناہوں میں شامل تھے ،جنکو یسوؔع نے اپنے بپتسمہ کی وساطت سے اُٹھا لیا۔
کون کہہ سکتا ہے کہ اِس دُنیا میں گناہ موجود ہے؟ یسوؔع مسیح نے دُنیا کے گناہوں کو اُٹھالیا، اور ہم نجات یافتہ ہو سکتے ہیں جب ہم اپنے قلبوں میں،بِلا خفیف شک ،اُس پر: یعنی اُس کے بپتسمہ اور اُس کے قیمتی لہو بہانے پرایمان لاتے ہیں جویسوؔع نےہمارے گناہوں کا کفّارہ دینےکے لئے کیا۔
زیادہ تر لوگ اپنے ذاتی خیالوں میں لپٹی ہو ئی اپنی متلاطم زندگیاں جیتے ہیں، اور اپنی زندگیوں کے متعلق ایسےبات کرتے ہیں جیسے اگرچہ اُن کی زندگیاں بہت زیادہ اہم تھیں۔بہت سارے لوگ ہنگامہ خیز زندگیاں گزارچُکے ہیں۔میں نے بھی اَز سرِ نَو پیدا ہونے سے پیشتر ایسی ہی زندگی گزاری۔کیسے آپ معافی کی خُوشخبری،یعنی یسوؔع کے بپتسمہ اور اُسکے خُون کو نہیں سمجھ سکتے یا اُسے قبول نہیں کرسکتے؟
 
 
گناہ گاروں کی نجات مکمل ہوچُکی ہے
 
کیوں یسوؔع نے پطرؔس کے پاؤں دھو ئے؟
کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ پطرؔس اِس حقیقت پر قوی ایمان رکھے کہ وہ اپنے بپتسمہ کے وسیلہ سے پہلے ہی اُس کے مستقبل کے تمام گناہوں کودھو چُکا تھا۔
 
آئیں یوحنا ۱۹ باب پڑھیں ۔’’اور وہ اپنی صلیب آپ اُٹھائے ہوئے اس جگہ تک باہر گیا جو کھوپڑی کی جگہ کہلاتی ہے۔ جسکا ترجمہ عبرانی میں گلگتا ہے۔ وہاں انہوں نے اسکو اور اسکے ساتھ اور دوشخصوں کومصلوب کیا۔ ایک کو اِدھر ایک کو اُدھر اور یسوؔع کو بیچ میں۔ اور پیلاؔطس نے ایک کتابہ لکھ کر صلیب پر لگا دیا۔ اس میں لکھا تھا۔یسوؔعؔؔ ناصری یہودیوں کا بادشاہ۔اس کتابہ کو بہت سے یہودیوں نے پڑھا۔ اسلئے کہ وہ مقام جہاں یسوؔع مصلوب ہوا شہر کے نزدیک تھا اور وہ عبرانی ۔ لاطینی اور یونانی میں لکھا ہوا تھا۔‘‘(یوحنا ۱۹:۱۷-۲۰)۔
پیارے دوستو، یسوؔع مسیح نے دُنیا کے تمام گناہ اُٹھالئے اوراُسے پیلاؔطس کی عدالت میں مصلوب ہونے کا حکم دیا گیا۔ اب آئیں ہم سب مل جُل کر اِس منظر کے متعلق سوچیں۔
۲۸ آیت سے،’’اسکے بعد جب یسوؔع نے جان لیا کہ اب سب باتیں تمام ہوئیں تاکہ نوشہ پورا ہو توکہا میں پیاسا ہوں۔وہاں سرکہ سے بھراہوا ایک برتن رکھا تھا۔ پس انہوں نے سرکہ میں بھگوئے ہوئے سپنج کو زوفے کی شاخ پر رکھ کر اسکے منہ سے لگایا۔ پس جب یسوؔع نے وہ سرکہ پیا تو کہا کہ تمام ہوا اور سرجھکا کر جان دے دی۔‘‘ ( یوحنا۱۹:۲۸-۳۰)۔
یسوؔع نے فرمایا ’’تمام ہوا‘‘ اوراِس کے بعد صلیب پرجان دے دی۔ تین دن کے بعد، وہ مردوں میں سے جی اُٹھا اور آسمان پر چڑھ گیا۔
یوحناؔؔ اِصطباغی سے یسوؔع کا بپتسمہ اوراُس کی صلیبی موت ایک دوسرے سے لازمی طور پر جُڑے
ہوئے ہیں؛اِن میں سے ایک کے بغیر دوسرے کے وجود کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اِسلئے، آئیں ہم خُداوند یسوؔع کی ہمیں اپنی معافی کی خُوشخبری کے سَنگ بچانے کے لئے تمجید کریں۔
نوعِ بشر کاجسم ہمیشہ جسم کی خواہشوں کی پیروی کرتا ہے، لہٰذا ہم بچ نہیں سکتے بلکہ جسم کے ساتھ گناہ کرتے ہیں۔یسوؔع مسیح نے ہمیں ہمارے جسم کے گناہوں سے بچانے کے لئےاپنا بپتسمہ اور خُون بخش دیا۔ اُس نے اپنی خُوشخبری کے ہمراہ ہمیں ہمارےجسم کے گناہوں سے بچا لیا۔
وہ لوگ جو اپنے گناہوں کی مکمل معافی حاصل کرتے ہیں وہی یسوؔع پر ایمان لانے کے ذریعہ سے کسی بھی وقت آسمان کی بادشاہی میں داخل ہو سکتے ہیں، جو بیتؔ الحم میں پیدا ہوا، یردؔن میں بپتسمہ لیا، صلیب پر جان دی اور تین روزکے بعد جی اُٹھا۔ ہم خُداوند کی تمجید کرتے ہیں اور اُسکے نام کو ابد تک جلال دیتے ہیں۔
یوحناؔؔ کی انجیل کے آخری باب میں،یسوؔع مردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد گلیلؔ کو گیا۔ وہ پطرؔس کے پاس گیا اور اُس سے ارشاد فرمایا،’’ اے شمعونؔ یوحناؔؔ کے بیٹے کیا تو ان سے زیادہ مجھ سے محبت رکھتا ہے؟‘‘اور پطرؔس نے اُسے جواب دیا،’’ ہاں خُداوند تو تو جانتا ہی ہے کہ میں تجھے
عزیز رکھتا ہوں۔‘‘اِس کے بعدیسوؔع نے اُسے فرمایا،’’ تومیرے برّے چرا ۔‘‘
پطرؔس نے سب باتوں کو، یعنی یسوؔع کے بپتسمہ اور اُسکے خُون کی خُوشخبری کو، گناہوں کی بخشش کواچھی طرح جانا۔ اب، پانی اور خُون کی خُوشخبری پر ایمان لا کرجس نے اُسے اُس کےگناہوں کی بخشش عطا کی اور اچھی طرح جان کر کہ کیوں یسوؔع اُسکے پاؤں دھو چُکا تھا، یسوؔع پر اُس کا ایمان زیادہ قوی ہو گیا۔
آئیں ہم دوبارہ یوحناؔؔ۲۱:۱۵ کا مطالعہ کریں۔ ’’ اور جب کھانا کھاچُکے تو یسوؔع نے شمعونؔ پطرؔس سے کہا اے شمعون ؔیوحناؔؔ کے بیٹے کیا تو اِن سے زیادہ مجھ سے محبت رکھتا ہے؟ اس نے اس سے کہا ہاں خُداوند تو تو جانتا ہی ہے کہ میں تجھے عزیز رکھتا ہوں۔ اس نے اس سے کہا ۔تو میرے برّے چرا۔‘‘وہ اپنے برّے پطرؔس کے سپرد کر سکتا تھاکیونکہ پطرؔس اسکا شاگرد تھا، جو مکمل طور پر نجات یافتہ ہوچُکا تھا، اور اِسلئے بھی کہ پطرؔس راستباز اور خداوند خداکا کامل خادم بن چُکا تھا۔
دُوسری جانب اگر پطرؔس اپنے روزمرّہ کے گناہوں کے باعث دوبارہ گناہ گار بن جاتا، تو یسوؔع اُسے گناہوں کے فدیہ کی خُوشخبری کی منادی کرنےکا حکم نہ دےچُکا ہوتا، اسلئے کہ وہ، جن میں دوسرے شاگردبھی شامل ہیں، بچ نہیں سکتا تھا بلکہ جسم میں ہر روز گناہ کرتا تھا ۔تاہم، یسوؔع نے اُنہیں اُس خُوشخبری کی منادی کرنے کا حکم دیا جس نےاُن کے تمام گناہ مٹا ڈالے، کیونکہ وہ یسوؔع کے بپتسمہ اور اُسکےصلیبی خُون پر، یعنی گناہوں کےلئےکفّارہ کی خُوشخبری پر ایمان لائے۔
 
 
اے خُداوند تُو جانتا ہےکہ میں تجھے عزیز رکھتا ہوں
          
کیا آپ دوبارہ’ گناہ گار ‘بن جائیں گے جب آپ دوبارہ گناہ کریں گے؟
نہیں۔یسوؔع نے یردؔن پر میرے مستقبل کے تمام گناہوں کوپہلے ہی اُٹھا لیا۔
 
آئیں ہم پطرؔس سے یسوؔع کے فرمان کے متعلق غور کریں۔ ’’ اے شمعون یوحناؔؔ کے بیٹے کیا تو ان سے زیادہ مجھ سے محبت رکھتا ہے؟ ہاں خُداوند تو تو جانتا ہی ہے کہ میں تجھے عزیز رکھتا ہوں۔ ‘‘اُس کامحبت کا اقرار سچاتھا، وہ اِسطرح بے ساختہ نکلا گویا جیسے تما م گناہوں کے کفّارہ کی خُوشخبری پر ایمان میں سے برپا ہواتھا۔
اگر یسوؔع پطرؔس اور باقی شاگردوں کوگناہوں کی بخشش کی خُوشخبری اُن کے پاؤں دھونے کے ذریعہ سےنہ سکھاچُکا ہوتا، تو وہ اِس طو رسے اپنی محبت کا اظہار کرنے کے لائق نہ ہوتے ۔
اِس کی بجائے جب یسوؔع نے اُن کے پاس آیا اور پوچھا،’’ کیا تو ان سے بڑھکر مجھ سے محبت رکھتا ہے؟ ‘‘پطرؔس یوں کہہ چُکاہوتا،’’ اےخُداوند، میں فقط نامکمل آدمی ہوں ۔میں وہ گناہ گار ہوں جو اِن چیزوں سے بڑھکر تجھ سے محبت نہیں کر سکتا۔ مہربانی سے مجھے اکیلا چھوڑ دے۔‘‘اور پطرؔس، خود کو یسوؔع سے چھپانے کےلئے، بھاگ جاتا۔
مگر آئیں ہم پطرؔس کے جوابات پر غور کریں۔ وہ گناہوں کی بخشش کی خُوشخبری، یعنی یسوؔع کے بپتسمہ اوراُس کےخُون کے سَنگ مُبار ک ٹھہرا جس نے تمام نسلِ انسانی کو بچالیا۔
چنانچہ، پطرس یوں کہنے کے قابل تھا،’’ ہاں خُداوند تو تو جانتا ہی ہے کہ میں تجھے عزیز رکھتا ہوں۔‘‘محبت کا یہ اقرار اُس کےیسوؔع کی معافی کی خُوشخبری پر ایمان سے پیدا ہوا۔پطرؔس نے گناہوں کی بخشش کی حقیقی خُوشخبری پر ایمان رکھا، جسکے ذریعہ سے یسوؔع دُنیا کے تما م گناہ اُٹھاچُکا تھا ۔اِس میں مستقبل کے گناہ شامل تھے، جنہیں لوگ اپنی خامیوں اور جسم کی کمزوریوں کی وجہ کرنے پر مجبور تھے۔
پطرؔس بِلا لغزش گناہوں کی بخشش کی خُوشخبری پر ایمان رکھتا تھا، اورچونکہ وہ یہ بھی ایمان رکھتا تھا کہ یسوؔع خداوند خداکا برّہ تھا، اِسلئے وہ بِلا جھجک خُداوندکو جواب دینے کے قابل تھا۔ یسوؔع کی نجات گناہوں کی بخشش کی خُوشخبری سے پیدا ہوئی، اور اِس طریقے سے،پطرؔس اپنے روزمرّہ کے گناہوں سے بھی آزاد ہوچُکاتھا۔ پطرؔس نےپوری دُنیا کے گناہوں کی بخشش کی خُوشخبری کےوسیلہ سے نجات پر ایمان رکھا۔
کیا آپ بھی پطرؔس جیسے ہیں؟ کیا آپ محبت کر سکتے ہیں اور یسوؔع پر توکل کر سکتے ہیں، جس نے اپنی معافی کی خُوشخبری کے سَنگ، اپنے بپتسمہ اور خُون کے ہمراہ ہمارےتمامتر گناہوں کو اُٹھا لیا؟ کیسےآپ نہ ایمان لا سکتے ہیں نہ ہی اُس سے محبت کرسکتےہیں؟ کوئی دوسری راہ نہیں ہے۔
اگر یسوؔع نے بس ماضی یا حال کے گناہ ہی دُور کئے تھے اور ہمارے پاس مستقبل کے گناہ چھوڑ دیئے تھے، تو ہم اُسطرح تمجید کرنے کے قابل نہیں ہوں گے جسطرح اب ہم کرتے ہیں۔اِس بنا پر مزید برآں، ہم سب یقیناًجہنم میں جائیں گے۔ چنانچہ، ہم سب کواعلانیہ جتانا چاہئے کہ گناہوں کی بخشش کی خُوشخبری پر ایمان لانے سے ہم بچ چُکے ہیں ۔
جسم ہمیشہ گناہ کی طرف راغب ہوتاہے، اِس طرح ہم بِلا توقف گناہ کرتے ہیں۔ لہٰذا، ہمیں یقیناً اقرار کرنا چاہئے کہ گناہوں کے کثیر کفّارہ کی خُوشخبری پر ایمان جو یسوؔع ہمیں عطا کرچُکا ہے، یعنی یسوؔع کے بپتسمہ اور خُون کی خُوشخبری، ہمیں رہا کرچُکی ہے۔
اگر ہم گناہوں کے کفّارہ کی خُوشخبری پر ایمان نہیں لاتے، جو کہ یسوؔع کا بپتسمہ اور خُون ہے تو کوئی بھی ایماندار اپنے عُمر بھر کے گناہوں سے نجات یافتہ نہیں ہو گا۔مزیدبرآں، اگر ہم اقرار کرنے اور ہر بارتوبہ کرنے کے وسیلہ سے اپنے سارے عُمر بھر کے گناہوں سے رہا ہوتے، توغالباً ہم راستباز ٹھہرنے میں بہت سُست ہوں گے اوراپنے قلبوں میں ہمیشہ گناہ رکھیں گے ۔
اگر یہی صورتِ حال ہوتی، تو ہم واپس گناہ گاربننے کی طرف رُجُوع کریں گے اور یسوؔع سے محبت
نہیں کریں گےیااُسکی قربت حاصل نہیں کریں گے۔اِس طرح، ہم یسوؔع کی نجات پر ایمان لانے اور اپنی زندگیوں کے اختتام تک اُسکی پیروی کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔
یسوؔع نے ہمیں گناہوں کی بخشش کی خُوشخبری بخشی اور اُنہیں بچا لیا جو ایمان لائے ۔ وہ کامل نجات دہندہ بن چُکا ہے اورہماری ساری روزمرّہ کی تمام خطاؤں کودھو چُکا ہے تاکہ ہم حقیقی طور پر اُس سے محبت کرسکیں۔
ہم ایمانداررہ نہیں سکتے بلکہ یسوؔع کے بپتسمہ ا ور خُون کی خُوشخبری، یعنیاپنے گناہوں کی بخشش سے محبت کرتے ہیں۔ تمام ایماندار ہمیشہ کے لئےیسوؔع سے محبت کر سکتے ہیں اور گناہوں کی بخشش کی خُوشخبری کے ذریعہ سے جو یسوؔع ہمیں عنایت کرچُکا ہے نجات کی محبت کے اسیر بن سکتے ہیں۔
جان سے عزیزوں! اگریسوؔع یہاں تک کہ کوئی معمولی سا گناہ پیچھےچھوڑ دیتا، تو آپ یسوؔع پر ایمان لانے کے لائق نہیں ہوں گے ، نہ ہی آپ گناہوں کی بخشش کی خُوشخبری کےگواہ بننے کے قابل ہوں گے۔ آپ خداوند خداکے خادم کے طورپر کام کرنے کے لائق نہیں ہوں گے۔
دوسری جانب، اگر آپ گناہوں کی بخشش کی خُوشخبری پرایمان لاتے ہیں، تو آپ اپنے تمام گناہوں سے بچ سکتے ہیں۔وہ آپ کواپنے تمام گناہوں سےبچنے کی اجازت دیتاہے، جب آپ ، یسوؔع کے کلام میں قلمبند،معافی کی اِس حقیقی خُوشخبری کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
 
 
’’ کیاتُو اِن سے زیادہ مجھ سے محبت رکھتا ہے؟ ‘‘
                    
کیا چیز ہمیں کسی بھی اورچیزسے بڑھ کر یسوؔع سے محبت کر نے کے قابل بناچکی ہے؟
ہمارے لئے اُس کے بپتسمہ کےطُفیل سے اُس کی محبت، جس نے ہمارے تمام گناہوں کو، حتیٰ کہ ہمارے مستقبل کے گناہوں کو بھی دھو ڈالا
 
خداوند خدانے اپنے برّوں کو اپنے اُن خادموں کے سپرد کر دیا، جنہوں نے مکمل طورپرگناہوں کی بخشش کی خُوشخبری پر ایمان رکھا۔ یسوؔع نے تین بار پوچھا’’ اے شمعون یوحناؔؔ کے بیٹے کیا تو ان سے زیادہ مجھ سے محبت رکھتا ہے؟ ‘‘اورپطرؔس نے ہر بار جواب دیا ’’ ہاں خُداوند تو تو جانتا ہی ہے کہ میں تجھے عزیز رکھتا ہوں۔‘‘اب آئیں ہم پطرؔس کے جوابوں پر غور کریں ۔ہم دیکھتے ہیں کہ یہ اُسکی مرضی کا کوئی تاثر نہیں تھا، بلکہ گناہوں کی بخشش کی خُوشخبری پر اُس کا ایمان تھا۔
جب ہم کسی سے محبت کرتے ہیں، اوراگر وہ محبت ہماری مرضیوں پرمبنی ہے تووہ اُس وقت ڈگمگا سکتی ہےجب ہم کمزور ہو جا تے ہیں۔البتہ اگروہ محبت خداوند خداکی محبت کے زور پر مبنی ہو، تو پھر وہ ابد تک باقی رہے گی۔ خداوند خداکی محبت، اسماً، ہمارے تمام گناہوں کی خاطر کثیرکفّارہ، یسوؔع کے بپتسمہ کا پانی اور رُوح کی نجات بالکل ایسے ہی ہے۔
گناہوں کی بخشش کی خُوشخبری پرہمارا ایمان یقیناً ہماری محبت اور خُداوند کے کاموں کی بنیاد بنا چاہئے۔ اگر ہم نے اُس سے صرف اپنی مَن مرضیوں کے ساتھ محبت رکھی، توہم کل کو ٹھوکر کھاجائیں گے اور اپنی ہی بدکرداریوں کے باعث خود سے نفرت کرنے کی نوبت تک پہنچ جائیں گے۔مگریسوؔع نے ہمارے تمام گناہ:یعنی موروثی گناہ، ہمارے ماضی کےروز مرّہ کےگناہ، آج اور کل کے گناہ، ہماری تمامتر حیاتیوں کے سارے گناہ دھو ڈالے۔ اُس نے کسی آدمی کو اپنی نجات سے باہر نہیں رہنے دیا۔
یہ سب سچ ہے ۔ اگر ہماری محبت اور عقائد ہماری اپنی مَن مرضیوں اورمصمم عزائم پر تکیہ کرتےہیں، تو ہم اپنے عقائد میں ناکام ہو جائیں گے۔مگرکیونکہ ہماری محبت اور عقائد معافی کی خُوشخبری پرموقوف ہیں جو یسوؔع نے ہمیں عطا کرچُکا ہے تو ہم پہلے ہی خداوند خداکی آل اولاد، یعنی راستبازلوگ ہیں۔چونکہ ہم پانی اور رُوح کی نجات پر ایمان رکھتے ہیں، اسلئے ہم گناہ سے بَری ہیں۔
اِس حقیقت کی وجہ سے کہ ہماری نجات آگئی ہے، وہ ہمارے باطن میں اچھائی کی شکل وصورت سے نہیں آئی، بلکہ خداوند خداکی محبت اورہمارےگناہوں کی بخشش کے وسیلہ سےاُس کی سچی نجات کی شریعت سے، ہم راستباز ہیں، اِس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ ہم زندگی میں کتنے ہی نامکمل یا کمزور ہیں۔ ہم آسمان کی بادشاہی میں داخل ہوں گے اور ساری ابدیت تک خُدا کی تمجید کریں گے۔ کیا آپ اِس پر ایمان لاتے ہیں؟
 ۱۔یوحنا۴:۱۰بیان کرتا ہے،’’محبت اس میں نہیں کہ ہم نے خُدا سے محبت کی بلکہ اس میں ہے کہ اُس نے ہم سے محبت کی اورہمارے گناہوں کے کفّارہ کے لئے اپنے بیٹے کو بھیجا۔‘‘یسوؔع نے ہمیں پانی اور رُوح کے سَنگ بچالیا، لہٰذا ہمیں معافی کی خُوشخبری ،یعنی یسوؔع کے بپتسمہ اور اُسکے خُون پر ایمان رکھنا چاہئے۔
 اگر خداوند خداہمیں گناہوں کی بخشش کی خُوشخبری کے سَنگ نہ بچاتا، تو ہم نجات حاصل نہیں کر سکتے تھے، اِس بات کی کوئی وقعت نہیں کہ بھلےہم کتنی شدت سے ایمان رکھتے۔ مگریسوؔع نے ہمارےتمام گناہ دھو ڈالے جو ہم اپنے باطنوں میں اوراپنے جسم کے ساتھ کرتے ہیں۔
ہمیں راستباز بننے کے سلسلے میں، ہمیں یقیناًپانی اور رُوح کے کلمات پر یعنی کفّارہ کی خُوشخبری پر ایمان کے توسط سے اپنی نجاتوں کی یقین دہانی کرنی چاہئے۔ دُنیا کے تمام گناہوں کی بخشش کی خُوشخبری یسوؔع کے بپتسمہ اور اُسکے خُون پر مشتمل ہے۔معافی کی خُوشخبری حقیقی ایمان کاموضوع، نجات کی حقیقی بنیاد، اور خداوند خداکی بادشاہی میں داخل ہونے کی کنجی ہے۔
 
 
ہمیں اپنی ذاتی مَن مرضیوں کا ایمان دفع کرنا چاہئے
          
کہاں سےحقیقی ایمان حاصل ہوتا ہے؟
یہ خُداوند کی محبت سے حاصل ہوتا ہے،جو پہلے ہی ہمارے مستقبل کے تمام گناہوں کودھو چُکا ہے۔
 
کسی کی ذاتی منشا سے پیدا ہوا ایمان یا محبت نہ حقیقی محبت ہے نہ ہی حقیقی ایمان ۔اِس دُنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو پہلے نیک ارادوں کے ساتھ یسوؔع پر ایمان لاتے ہیں ،اِس کے بعداپنے عقائد کو اپنےقلبوں میں گناہ کی صعوبت کی وجہ سے پورے کا پورا ترک کر دیتے ہیں۔
مگر ہمیں یقیناً اچھی طرح جاننا چاہئے کہ یسوؔع نے دُنیا کے تمام گناہوں کو: نہ صرف معمولی بدکاریوں کو، بلکہ بڑے بڑے گناہوں کو بھی دھو ڈالا جو لاعلمی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
اور یوحنا۱۳ باب میں، اپنے شاگردوں کوسکھانے کے سلسلے میں کہ اُس کی نجات کتنی باگرفت اور دوامی طور پر مؤثر تھی، یسوؔع نے مصلوب ہونے سے پہلےاپنے شاگردوں کو جمع کیا۔ اپنے شاگردوں کے ہمراہ کھانا کھانے کے دوران وہ اُٹھا اوراُن کے دلوں میں اپنی کثیر نجات کی صداقت کندہ کرنے کے لئے اُن کے پاؤں دھو ئے۔ ہم سب کو معافی کی خُوشخبری کو جاننا چاہئے اور اِس پر ایمان رکھنا چاہئے، جویسوؔع نے شاگردوں کو اُن کے پاؤں دھو نے کے ذریعہ سے سکھائی۔
مگرپطرؔس نےپہلے پہل یسوؔع کو سختی سے اُسکے پاؤں دھو نےسےمنع کردیا۔ ’’ تومیرے پاؤں کبھی ابد تک دھو نے نہ پائے گا۔‘‘اور یہ اُسکے اپنے ذاتی مَن سے پیدا ہوئے ایمان کا اظہار تھا۔مگریسوؔع نے اُسے ارشاد فرمایا،’’ جو میں کرتا ہوں تو اب نہیں جانتا مگر بعد میں سمجھے گا۔‘‘
اب، پانی اور رُوح کی خُوشخبری کے سَنگ، ہم کتابِ مقدّس کے کلمات کو سمجھ سکتے ہیں جو ہماری
سمجھ سے بالا تر تھے۔ یہ کلامِ حق؛ پانی اور رُوح کی خُوشخبری، گناہوں کی بخشش ہے، جو کسی گناہ گار کو اپنے پورے دل کے ساتھ ایمان لانے کے وسیلہ سے راستبازبننے کی اجازت دیتی ہے۔
پطرؔس باقی شاگردوں کے ہمراہ مچھلیاں پکڑنے کوگیا، بالکل جس طرح وہ یسوؔع سے ملنے سے پیشتر کرتے تھے۔اِس کے بعد، یسوؔع نے اُن کے سامنے ظاہر ہوااور اُنہیں پُکارا۔ یسوؔع اُن کے لئے کھانا تیارکرچُکا تھااور ناشتہ کرنے کے دوران، پطرؔس نے اُن کلمات کے معنی کو اچھی طرح جان لیا جو یسوؔع اِس سے پیشتر فرماچُکا تھا۔’’ جو میں کرتا ہوں تو اب نہیں جانتا مگر بعد میں سمجھے گا۔‘‘بالآخر وہ اچھی طرح جان چُکا تھا کہ بہت پہلے اُس کے پاؤں دھو نے کے وسیلہ سے یسوؔع کا حقیقی طور پر کیا مطلب تھا۔
’’ خُداوند نے میرے تمامتر گناہوں کودھو ڈالا۔وہ تمام گناہ جو میں اپنی کمزوریوں کی وجہ سے کرتا ہوں، وہ تمام گناہ جو میں مستقبل میں بھی کروں گااُن میں شامل ہیں۔‘‘پطرؔس نے اپنے مَن اور عزم سے پیدا ہوئے ایمان کو ترک کردیا، اوریسوؔع کے بپتسمہ اور خُون، یعنی گناہوں کی بخشش کی خُوشخبری پرقدم جمانے شروع کر دیئے۔
ناشتے کے بعد،یسوؔع نے پطرؔس سے پوچھا،’’ کیا تو ان سے زیادہ مجھ سے محبت رکھتا ہے؟ ‘‘اب یسوؔع کی محبت کے اندر ایمان کے سَنگ مضبوط ہو کر، پطرؔس نے اِقرار کیا۔’’ ہاںخُداوند تو جانتا ہی ہے کہ میں تجھے عزیز رکھتا ہوں ۔‘‘پطرؔس ایساجواب دے سکتا تھا اِسلئے کہ وہ اچھی طرح جان چُکا تھاکہ یسوؔع کا کیا مطلب تھا جب اُس نے فرمایا،’’ مگر بعد میں سمجھے گا۔‘‘وہ اپنے حقیقی ایمان، یسوؔع کےبپتسمہ اورخُون، یعنی گناہوں کی بخشش کی خُوشخبری پرایمان کا اقرار کرنے کے قابل تھا۔
 
 
بعدازاں، وہ خداوند خداکا سچا خادم بن گیا
          
اِس تجربہ کے بعد، پطرؔس اور باقی شاگردوں نے اپنے آخری سانسوں تک خُوشخبری کی منادی کی۔ یہاں تک کہ پولؔس نے، جو بے رحمی سے مسیحیوں کو ستاچُکاتھا، روؔمی سلطنت کے اُس کٹھن دَور میں خُوشخبری کی گواہی دی۔
 
کیسےآپ خداوند خداکے سچے خادم بن سکتے ہیں؟
اپنے تمام گناہوں کے سبب سے اُس کے ابدی کفّارہ پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے
 
یسوؔع کے بارہ شاگردوں کے درمیان، یہوداؔہ نے یسوؔع کو بیچ ڈالا اور بعد ازاں خو د کو پھانسی دے لی۔اِس بنا پر یہ پولسؔ رسول تھا جس نے اُس کی جگہ لی۔شاگرد اپنے درمیان متیاہؔ کو منتخب کرچُکے تھے مگر وہ پوؔلس تھا جسےخداوند خدانے چُنا، اِس طرح پولسؔ یسوؔع کا رسول بن گیااور اُس نے دوسرے شاگردوں کے ہمراہ گناہوں کی معافی کی خُوشخبری کی منادی کی۔
یسوؔع کے زیادہ تر شاگرد شہیدوں کے طور پر فوت ہوئے۔ یہاں تک جب اُنہیں موت کی دھمکیاں ملیں، تواُنہوں نے اپنے عقائد کا انکار نہ کیا اور حقیقی خُوشخبری کی بشارت جاری رکھی۔
 وہ یقیناً اِس طرح منادی کرچُکے ہیں: ’’ یسوؔع مسیح اپنے بپتسمہ اور خُون کےسَنگ آپ کے تمام جسمانی گناہوں کو، یعنی کہ، اپنی گناہوں کی بخشش کی خُوشخبری کے ساتھ دھو چُکا ہے۔
یسوؔع نے یردؔن میں اپنے بپتسمہ کے سَنگ آپ کے گناہوں کو اُٹھا لیا اور آپ کی خاطر صلیب پر سزا برداشت کی۔یسوؔع کے بپتسمہ اوراُس کے صلیبی خُون کی خُوشخبری پر ایمان لائیں، اور نجات پائیں۔‘‘
اِس اَصل خُوشخبری کو سننے اور اِس پر ایمان لانے سے بے شک بہت سارے لوگوں نے نجات
حاصل کر لی۔ اِس بنا پریہ یسوؔع کے بپتسمہ، اُسکے خُون، اور اُسکی رُوح کی خُوشخبری پر ایمان کی قوت تھی۔ شاگردوں نے پانی اوررُوح کی خُوشخبری کی، یوں کہتے ہوئے، منادی کی،’’ یسوؔع خداوند خدا اور نجات
دہندہ ہے۔‘‘ یہ اِس وجہ سے ہے کہ وہ پانی اور رُوح کی خُوشخبری کی گواہی دےچُکے ہیں کہ آپ اور میں یسوؔع کے بپتسمہ اورخُون کی خُوشخبری کواپنی نجات کے طور پر سن سکتے ہیں،اور گناہ سے آزاد ہو سکتے ہیں۔ خداوند خداکی بے اَنت محبت اور یسوؔع کی کامل نجات کی وجہ سے، ہم سب یسوؔع کے شاگردبن چُکے ہیں۔
 کیا آپ سب ایمان لاتے ہیں؟ یسوؔع نے ہم سے اِتنی محبت رکھی کہ اُس نے ہمیں پانی اور رُوح کی، یعنی معافی کی خُوشخبری بخش دی، اور ہم یسوؔع کے راستباز شاگرد بن چُکے ہیں۔ اُنہیں معافی کی حقیقی خُوشخبری سکھانے کے سلسلے میں، یسوؔع نے اپنے شاگردوں کے پاؤں دھو ئے۔
یسوؔع نے اپنے شاگردوں کے پاؤں اُنہیں اور ہمیں یہ سکھانے کے لئےدھو ئے کہ دُنیا کے تما م گناہ، مشمول وہ تمام گناہ جو ہم اپنی ساری زندگیوں میں کرتے ہیں، اُسوقت مکمل طور پردُھل گئے جب اُس نے بپتسمہ لیا اور صلیب پر خُون بہا یا۔ ہم یسوؔع کا اُس کی محبت اور معافی کی خُوشخبری کے لئے شکر ادا کرتے ہیں۔
یسوؔع نے اپنے شاگردوں کے پاؤں دھو نے کے ذریعہ سے ہمیں دو باتیں سکھائیں۔ اوّل، اُنہیں اِس بنا پر یہ سکھاناتھا، بالکل جس طرح کہ وہ ارشار فرماچُکا تھا،’’ جو میں کرتا ہوں تو اب نہیں جانتا مگر بعد میں سمجھے گا، ‘‘یعنیکہ ہمارے تمام گناہ معافی کی خُوشخبری، یسوؔع کے بپتسمہ اور خُون کے توسط سےدُھل گئے تھے۔ دوسرا سبق یہ تھا کہ جسطرح یسوؔع خود کوگناہ گاروں کوبچانےاور اُنہیں راستبازبنانےکے لئے فروتن کرچُکا تھاہم، جو اَز سرِ نَو پیدا ہوئے ہیں، اُنہیں بھی معافی کا مژدہ سنانے کے وسیلہ سے دوسروں کی خدمت کرنی چاہئے۔یہ ہمارا حق ہے جو پہلے آئے کہ اُن لوگوں کی خدمت کریں جو بعد میں آتے ہیں۔
وہ دو وجوہات کہ کیوں یسوؔع نے عیدِ فسح کے دن شاگردوں کے پاؤں دھو ئےبالکل واضح ہیں اور وہ اُس کی کلیسیا کے اندر آج بھی وجود رکھتی ہیں۔
کوئی شاگرد ہرگزاپنے اُستاد سے بڑا نہیں ہو سکتا۔چنانچہ، ہم دُنیا کو اِس طرح خُوشخبری سناتے ہیں اور اِسکی خدمت کرتے ہیں جیسے گویا ہم یسوؔع کی خدمت کررہے تھے۔ ہمیں، جو پہلے نجات یافتہ ہوئے، اُن کی خدمت کرنی چاہئےجو ہم سے بعد میں آتے ہیں۔ہمیں یہ سبق دینے کے لئے، یسوؔع نے شاگردوں کے پاؤں دھو ئے۔مزید برآں، پطرؔس کے پاؤں دھو نے کے وسیلہ سے، اُس نے ہمیں دکھایا کہ وہ کامل نجات دہندہ تھا تاکہ ہم دوبارہ کبھی ابلیس سےہرگزدھو کہ نہ کھائیں۔
آپ سب گناہوں کی بخشش، یعنی پانی اور رُوح کی خُوشخبری پر ایمان لا نے کے وسیلہ سے نجات
یافتہ ہو سکتے ہیں۔ یسوؔع نے اپنے بپتسمہ، مصلوبیت، اور جی اُٹھنے کے سَنگ ہمارے تمام تر گناہ دھو ڈالے ۔فقط وہ لوگ جو اُسکی خُوشخبری پر ایمان لاتے ہیں ابد تک دُنیا کے گناہوں سے آزاد ہوسکتے ہیں ۔
 
 
اُس خُوشخبری پر ایمان لائیں جس نے ہمارے تمامترروزمرّہ کے گناہوں کودھو ڈالا
 
ہم معافی کی خُوشخبری، پانی اور رُوح کے کلمات پر ایمان لانے کے توسط سے ابلیس کے دغوں کو منقطع کر سکتے ہیں۔خلقِ خُدابِلا چُوں چراں ابلیس سےدھو کہ کھا جاتی ہے اور ابلیس مسلسل اُن کے کانوں میں سر گوشیاں کرتا ہے؟ یہ جان کر کہ لوگوں کے جسم بِلا توقف دُنیا میں گناہ کرتے ہیں،تو کیسےوہ کبھی گناہ سے مبرّا ہو سکتے ہیں؟سب لوگ گناہ گار ہیں۔
 تاہم، ہم جواب جانتے ہیں۔ ’’ یہ جان کر کہ یسوؔع نے اپنے بپتسمہ کے سَنگ ہمارے بدن کے تمامتر گناہوں کو اُٹھا لیا،تو کیسے کوئی ایماندار گناہ کے ہمراہ ہو سکتا ہے؟ ‘‘یسوؔع نے گناہ کی پوری کی پوری قیمت ادا کر دی ،لہٰذاہم پر واجب الادا کون سی قیمت باقی ہے؟
اگر ہم پانی اورخُون کی خُوشخبری پر ایمان نہیں لاتے، تو ابلیس کے الفاظ صائب الرائے لگتے ہیں۔البتہ، اگر ہم اپنی جانب خُوشخبری رکھتے ہیں، تو ہم خداوند خداکے کلام کی صداقت پر غیر متزلزل عقائد رکھ سکتے ہیں۔
ہمیں لازماً پانی اور خُون سے اَزسرِنَو پیداہونے کی خُوشخبری پر ایمان رکھنا چاہئے ۔سچا ایمان یسوؔع کے بپتسمہ، اُسکے صلیبی خُون، اُسکی موت اور جی اُٹھنے پر یقین کرنا ہے ۔
کیا آپ کبھی پاک خیمہء اجتماع کے نمونہ کی کوئی تصویر دیکھ چُکےہیں؟ یہ چھوٹا ساخیمے کاگھر ہے ۔ وہ گھر دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، بیرونی حصہ پاک مقام ہے اور اندرونی حصہ پاک ترین مقام ہے، جس کے اندر رحم گاہ واقع ہے۔
اِس کے اندر پاک خیمہء اجتماع کے بیرونی صحن میں کل ۶۰ ستون کھڑے ہیں، اور پاک جگہ ۴۸تختوں پر مشتمل ہے۔ہمیں یقیناًخداوند خداکے فرمانوں کے مفہوم کو سمجھنے کے لئےاپنےذہنوں میں پاک خیمہء اجتماع کی تصویربنانی چاہئے۔
 
 
خیمہء اِجتماع کے صحن کا دروازہ کس چیز سے بنا ہوا تھا؟
          
خیمہء اِجتماع کے صحن کا دروازہ کس چیز سے بنا ہوا تھا؟
آسمانی،ارغوانی،اورسرخ رنگ کےبُنے ہوئے پردے اور باریک بٹے ہوئے کتان کےدھاگےسے
 
خیمہء اجتماع کے صحن کا دروازہ خروج۲۷:۱۶ میں بیان کیا گیا ہے، ’’ اور صحن کے دروازہ کے لئے بیس ہاتھ کا ایک پردہ ہو جو آسمانی۔ ارغوانی اور سرخ رنگ کے کپڑوں اور باریک بٹے ہوئے کتان کا بنا ہو ۔ اور اس پر بیل بوٹے کڑھے ہوں۔ اسکے ستون چار اور ستونوں کے خانے بھی چار ہی ہوں۔‘‘خیمہء اجتماع کے صحن کے دروازہ کے لئےاستعمال ہوئی چیزیں آسمانی، ارغوانی، سرخ کپڑا
اور باریک بٹا ہوا کتان تھا۔وہ پیچیدگی سے بُنا ہوااوربے حد رنگین تھا۔
خداوند خداموسیٰؔ کو آسمانی، ارغوانی، اورسرخ کپڑے کے ساتھ رنگین دروازہ بُننے کا حکم دےچُکا تھا تاکہ ہر کسی کوجائے داخلہ تلاش کرنے میں آسانی ہو۔ آسمانی، ارغوانی، سرخ کپڑے اورباریک کتانی دھاگے سےبُنا ہوا دروازہ چار ستونوں پرلٹکتا تھا۔
یہ چار چیزیں خداوند خداکی نجات کے تفصیلی خاکے کی نمائندگی کرتی ہیں، جنکے ذریعہ سےاُس نے اُن سب لوگوں کوبچایا جو خداوند خداکے بیٹےپر، یسوؔع کے بپتسمہ اور خُون کے وسیلہ سے، اور اُسکے خُدا ہونے پر ایمان لائے۔
پاک خیمہء اجتماع کی تعمیر میں استعمال ہوئی ہرچیزخصوصی معنی رکھتی ہے اور وہ خداوند خداکے کلام اور یسوؔع کے ذریعہ سے نسلِ انسانی کو بچانے کےلئے اُس کے منصوبوں کو پیش کرتی ہے۔
اب، پاک خیمہء اجتماع کے صحن کے دروازہ کے لئے کتنی ساری مختلف چیزیں استعمال ہوئی تھیں؟ اُس میں چار مختلف چیزیں استعمال ہوئی تھیں؛ آسمانی، ارغوانی، سرخ کپڑا، اورباریک کتانی دھاگہ۔ یہ چاروں نئی پیدائش کی خُوشخبری پر ہمارے ایمان کے استحکام کی مدد میں انتہائی معنی خیزہیں۔ اگر وہ اہم
نہ ہوتے، تو یہ معلومات کتابِ مقدّس میں اتنی بڑی تفصیل کےساتھ قلمبند نہ ہوتی۔
پاک خیمہء اجتماع کے صحن کے دروازہ کے لئےاستعمال ہوئی تمام چیزیں ہماری نجات پر قابلِ غور معانی عائد کرتی ہیں۔چنانچہ، خُدانے یہ باتیں موسیٰؔ پر ظاہر کیں اور اُسے ہو بہو ویسا کرنے کا حکم دیاجیسا اُسے ارشاد ہوا تھا۔
 
 
خداوند خداکی خُوشخبری کے اندر آسمانی، ارغوانی،اور سرخ کپڑے کا کیا مطلب ہے؟
 
خیمہء اجتماع کے لئے استعمال ہوئی تمام چیزوں نےکس کی نمائندگی کی؟
یسوؔع کی اُس کے بپتسمہ اور خُون کے وسیلہ سےنجات کی
 
پاک خیمہء اجتماع کے اندر، آسمانی، ارغوانی، سرخ کپڑا اورباریک بٹا کتانی دھاگہ پھر اُس پردہ کے لئے استعمال ہوا جو پاک مقام اور پاک ترین مقام کے درمیان لٹکتاتھا۔ ہو بہو چیزیں سردار کاہن کے لباسوں کے لئے استعمال ہوتی تھی، جو سال میں ایک ہی بارپاک ترین مقام میں داخل ہو سکتا تھا۔
آسمانی بٹا ہوادھاگہ یسوؔع کے بپتسمہ کی ترجمانی کرتا ہے ۔۱۔پطرس۳:۲۱ میں، یوںارشاد ہے۔’’ اور اسی پانی کا مشابہ بھی یعنی بپتسمہ اب تمہیں بچاتاہے۔‘‘پطرؔس نےاِس آیت میں یسوؔع کے بپتسمہ کی، جس کے ذریعہ سے اُس نے دُنیا کے تمام گناہ اُٹھا لئے، کفّارہ کی نجات کے مشابہ کے طور پرتصدیق کی۔ ہمارے تمام گناہ یسوؔع پر اُس کے بپتسمہ کے وسیلہ سے سلسلہ وار منتقل ہو گئے ۔ اِسلئے، آسمانی بٹا ہوادھاگہ، یعنی یسوؔع کا بپتسمہ، نجات کے کلام کاسب سے اہم حصہ ہے۔
سرخ بٹا ہوادھاگہ یسوؔع کے خُون کی نمائندگی کرتاہے، اور ارغوانی بٹا ہوادھاگہ اُس کی الوہیت–– یسوؔع کے بادشاہ اور خُداکے طور پرمرتبے کی ترجمانی کرتا ہے۔بٹے ہوئےدھاگے کے تینوں
رنگ یسوؔع اور اُس کی نجات پر ہمارے ایمان کے لئےلازمی تھے۔
شاندار بیرونی کُرتہ جو سردار کاہن پہنتاتھاوہ افود کہلاتا تھا، اور افود کا جُبہ بھی پورے کا پورا آسمانی تھا۔ سردار کاہن اپنےسر پرایک پگڑی پہنتا تھا، جس پرخالص سونے کے پتّر پر یہ کندہ تھا، ’’ خُداوندکے لئے مقدّس ۔‘‘وہ پتر، بھی، پگڑی سے آسمانی ڈوری کے ساتھ ہی باندھا جاتا تھا۔
 
 
آسمانی بٹے ہوئےدھاگہ کے وسیلہ سے ظاہر کی گئی سچائی
 
آسمانی بٹا ہوادھاگہ کس کی ترجمانی کرتا ہے؟
یسوؔع کے بپتسمہ کی
 
میں نے کتابِ مقدّس میں آسمانی بٹے ہوئےدھاگے کے مفہوم کوتلاش کیا۔ کتابِ مقدّس آسمانی رنگ کے متعلق کیافرماتی ہے؟ ہمیں آسمانی، ارغوانی، اور سرخ کپڑوں کے درمیان آسمانی بٹے ہوئے دھاگے کو سمجھناچاہئے۔
آسمانی دھاگہ’ پانی‘کی نمائندگی کرتا ہے، یعنی کہ، یسوؔع کے بپتسمہ کی۔ یسوؔع مسیح نے یوحناؔؔ اِصطباغی کے وسیلہ سے دُنیا کے تمام گناہ اُٹھانے کے لئے بپتسمہ لیا (متی ۳:۱۵)۔
اگر یسوؔع اپنے بپتسمہ کے سَنگ دُنیا کے تمام گناہ نہ اُٹھاتا، تو ہم خداوند خداکے آگے پاک نہیں ٹھہر سکتے تھے۔ اِسلئے،یسوؔع مسیح کو اِس دُنیا میں آنا پڑااوردُنیا کے تما م گناہ اُٹھانے کے لئے یوحناؔؔاِصطباغی کی معرفت دریائے یردؔن پر بپتسمہ لیناپڑا۔
اِس بنا پر وجہ کہ کیوں پاک خیمۂ اِجتماع کے صحن کے دروازہ پر آسمانی بٹا ہوادھاگہ استعمال ہونا تھا یہ تھی کیونکہ ہم یسوؔع کے بپتسمہ کے بغیر پاک نہیں بن سکتے تھے ۔
سرخ بٹا ہوا دھاگہ اُس کےخُون، یسوؔع کی موت کی ترجمانی کرتا ہے۔ ارغوانی دھاگہ یسوؔع
کی الوہیت کو بیان کرتا ہے، اِس طرح، یسوؔع کا مقام بطور’’ واحد حاکم۔ بادشاہوں کا بادشاہ اور خُداوند وں کا خُداوند ہے۔‘‘(اتیمتھیس۶:۱۵)۔
صداقت یہ ہے کہ سرخ بٹا ہوادھاگہ مسیح کےخُون کی نمائندگی کرتا ہے، جس نے تمام نسلِ انسانی کے گناہ کی قیمت ادا کرنے کے لئے صلیب پر خُون بہایا ۔ یسوؔع مسیح اِس دُنیامیں تما م نسلِ انسانی کے گناہ اپنے بپتسمہ کے وسیلہ سے اپنے اوپر اُٹھانے کے لئے جسم میں آیا، اورصلیب پر خود کوقربان کرنے کے وسیلہ سے گناہ کی ساری قیمت ادا کردی۔ یسوؔع کا بپتسمہ اور خُون ہی معافی کی حقیقی خُوشخبری ہے جس کی عہدِ عتیق کے پاک خیمۂ اِجتماع کے لئےاستعمال ہوئےبٹے ہوئےدھاگوں کے رنگوں کے وسیلہ سے پیشینگوئی کی گئی ہے۔
خیمہء اجتماع کے ستون کیکر کی لکڑی کے بنے تھے، اور خانے پیتل کے تھےاور پیتل کے خانے چاندی کے پتروں کے ساتھ منڈھے گئے تھے۔
تمام گناہ گاروں کو ان کے گناہوں کی سزاملتی تھی کیونکہ گناہ کی مزدوری موت ہے۔ اِس سے پیشترکہ کوئی آدمی خداوند خداکی طرف سے نئی زندگی حاصل کرنے کی برکت پا سکتا، اُسے عہدِ عتیق کے دور میں اپنے گناہوں کی خاطر قربانی پیش کرنی پڑتی تھی۔
تاہم، عہدِ جدیدمیں یسوؔع کا بپتسمہ، جو پاک خیمہء اجتماع کے آسمانی بٹے ہوئےدھاگہ کے وسیلہ سے پیش کیا گیا ہے، ہمارے تمامتر گناہوں کو اُٹھاچُکا تھا۔ یسوؔع ہمارے گناہ صلیب پر لے گیا، خُون بہایااور اُن کی خاطرسزا سہی اورایسا کرنے سے، اُس نے ہم سب کو بچا لیا جو معافی کی خُوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں۔ وہ بادشاہوں کا بادشاہ اورخُدائے قدوس ہے۔
عزیزمسیحیو، یسوؔع کا بپتسمہ یسوؔع کی نجات تھا، جس نے ہمیں ہمارے تمام گناہ اُٹھا نے کے وسیلہ سے بچالیا۔ یسوؔع، جوخُداہے، اِس دُنیا میں جسم کے اندر اُتر آیا(ارغوانی بٹا ہوادھاگہ)؛ اُس نے دُنیا کے تمام گناہوں کواُٹھانے کے لئے بپتسمہ لیا(آسمانی بٹا ہوادھاگہ)؛ وہ مصلوب ہوااورہماری جگہ پر سزا برداشت کرنے کے لئے صلیب پرخُون بہایا(سرخ بٹا ہوادھاگہ)۔بلاشُبہ یسوؔع کا بپتسمہ ہمیں سبق دیتا ہے کہ وہ تمام نسلِ انسانی کا حقیقی نجات دہندہ بن چُکا تھا۔
ہم اِسے رنگوں میں بھی دیکھ سکتے ہیں جو پاک خیمۂ اِجتماع کے دروازہ کے لئے استعمال ہوئے تھے۔ اُس دروازہ کےکپڑے کی آسمانی، ارغوانی، اور سرخ بٹے ہوئے باریک کتانی دھاگے کے ساتھ کڑھائی کرنے سے ہمیں واضح طور پر خداوند خداکی نجات کی سچائی کے متعلق آگاہ کرنا تھا ۔
 یہاں باریک بُنے ہوئے کتانی کپڑے کا مطلب ہے کہ اُس نے ہم سب کو بِلا مستثنی ہمارے
 گناہوں سےبچا لیا۔یہ کفّارہ کی نجات کے لئےقطعی طور پرلازمی تھا۔
ہم پاک خیمہء اجتماع کے دروازہ کے لئے استعمال ہوئی اشیا سے دیکھ سکتے ہیں کہ یسوؔع مسیح نے ہم گناہ گاروں کو، بِلامنصوبہ،اتفاقاً ہی نہیں بچا لیا۔ اُس نے، خداوند خداکے پورے منصوبہ کی انتہائی احتیاط سے تعمیل کرتے ہوئے، بپتسمہ لیا، مصلوب ہوا، اور نسلِ انسانی کی نجات مکمل طور پرپوری کرنےکے لئے مردوں میں سے جی اُٹھا۔ آسمانی، ارغوانی، اور سرخ دھاگے، یعنی معافی کی خُوشخبری کی چیزوں کے ساتھ، یسوؔع نے اُن سب کوبچالیا جو اُسکی نجات پر ایمان لائے ۔
 
 
عہدِ عتیق کا پیتل کا حوض عہدِ جدید کے بپتسمہ کا عکس تھا
          
کیوں کاہن پاک مقام میں داخل ہو نے سے پہلے اپنے ہاتھ اور پاؤں دھو تے تھے؟
کیونکہ اُنہیں خداوند خداکے سامنے بِلا کسی گناہ کے کھڑے ہو نا پڑتا تھا۔
 
وہ حوض بھی پیتل کا بنا ہوا تھا۔ پیتل اُس سزا کی نمائندگی کرتا ہے جو یسوؔع نے ہماری خاطر جھیلی۔ پانی کےبرتن نے خُوشخبری کے کلام کی ترجمانی کی جو ہمیں بتاتا ہے کہ ہماری تمام ناراستیاں دُھل گئی تھیں۔
اِس بنا پر وہ ہم پر ظاہر کرتا ہے کہ کیسے روزمرّہ کے گناہوں کودھو یا جاتا تھا۔ ساری کی ساری نسلِ انسانی کے روزمرّہ کے گناہ یسوؔع کے بپتسمہ کے کلمات پر ایمان لانے کی بدولت دُھل سکتے ہیں۔
سوختنی قربانی کی قربانگاہ سزا کی نمائندگی کرتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ، یسوؔع کا پانی ، جو آسمانی رنگ کا ہے، یعنی یوحناؔؔ اِصطباغی سےیسوؔع کا بپتسمہ، گناہوں کے لئےکفّارہ کی خُوشخبری ہے (متی۳:
۱۵؛۱۔یوحنا۵:۵۔۱۰)۔ یہ کفّارہ کے ذریعہ سے نجات کی خُوشخبری کے لئے گواہی کا کلا م ہے۔
۱۔یوحنا ۵باب میں ،یوں درج ہے ،’’اور وہ غلبہ جس سے دُنیا مغلوب ہوتی ہے ہمارا ایمان ہے ۔اور گواہی دینے والے تین ہیں۔ رُوح اور پانی اور خُون اور یہ تینوں ایک ہی بات پر مُتفق ہیں۔‘‘ وہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ جو خداوند خداکے بیٹے پر ایمان لاتا ہے وہ خود میں پانی، خُون، اور رُوح کی گواہی رکھتا ہے۔
خداوند خدانے ہمیں کفّارہ کی خُوشخبری پر ایمان کےوسیلہ سے پاک ہونے اور پاک خیمۂ اِجتماع میں داخل ہونے کی اجازت بخشی ۔لہٰذا، اب ہم ایمان میں جی سکتےہیں، خداوند خداکے کلمات پر پَل سکتےہیں، اُس سے برکت پا سکتے ہیں، اور راستبازکی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔خداوند خداکے لوگ بننے کا مطلب کفّارہ کی خُوشخبری پر ایمان لانے کے ذریعہ سے نجات حاصل کرنا اور خیمہء اجتماع کے اندرجیناہے۔
آج بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاک خیمۂ اِجتماع کے دروازے کے آسمانی، ارغوانی، اورسرخ بٹے ہوئےدھاگوں کے معنی کے متعلق سوچے بغیربس ایمان لے آناہی کافی ہے۔ اگر کوئی آدمی اِن چیزوں کو جاننے کے بغیر ایمان لائے، تو اُس نروناری کا ایمان حقیقی نہیں ہوگا، اِسلئے کہ اُس نر وناری کے باطن میں تب بھی گناہ موجود ہو گا۔ ایسا آدمی کفّارہ کی خُوشخبری، یعنی پانی، خُون، اور رُوح کی خُوشخبری کے ذریعہ سے اَز سرِ نَو پیدا ہونے کی سچائی پربے اعتقادی کی وجہ سے اپنے باطن میں ہنوز گناہ رکھے گا۔
اگر کسی آدمی کو کسی اور آدمی کو جانچنے کے لئے کہا جائے جسے وہ بمشکل جانتا تھا، اوربالفرض،اُس سامع کو خُوش کرنے کے لئے، وہ کہے،’’ جی ہاں، میں اِس شخص کا یقین کرتا ہوں۔ بے شک، میں کبھی اُس آدمی سے نہیں ملا، مگر میں اِس کے باوجود اُس کا یقین کرتا ہوں۔ ‘‘کیا آپ گمان کرتے ہیں کہ وہ سامع یہ سُن کر خُوش ہوجائےگا؟ ہو سکتا ہے کہ آپ میں سے بعض لوگ انسانی معاملات میں اِسی طرح پیش آئیں، مگر یہ اُس قسم کا اعتقاد نہیں ہے جو خُدا ہم سے چاہتا ہے۔
 خداوند خداچاہتا ہےکہ ہم گناہوں کی بخشش کی خُوشخبری ، یعنی آسمانی (یسوؔع کے بپتسمہ) ،
ارغوانی (یسوؔع کی الوہیت)، اور سرخ بٹے ہو ئےدھاگے (یسوؔع کے خُون) کے وسیلہ سے یسوؔع کی نجات پر ایمان لائیں ۔ہمیں، یسوؔع پر ایمان لانے سے قبل، جانناچاہئے کہ کیسے اُس نے ہمیں تمام گناہوں سے مخلصی بخشی۔
جب ہم یسوؔع پر ایمان لاتے ہیں، تو ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ کیسےاُس نے ہمیں ہمارے تمام گناہوں پانی
 (یسوؔع کے بپتسمہ)، خُون (اُسکی موت)، اور رُوح (یسوؔع کےخُداہونے) کے ذریعہ سے بچا لیا ۔
 جب ہم واقعی سمجھ لیتے ہیں، تو ہم سچے اور کامل عقائد کا تجربہ کر سکتے ہیں ۔ ہمارے عقیدے اِس صداقت کو جاننےکے بغیرہرگز مکمل نہیں ہوں گے۔حقیقی ایمان فقط یسوؔع کی نجات کی گواہی، معافی کی خُوشخبری، اوریسوؔع کے نسلِ انسانی کے حقیقی نجات دہندہ ہونے کوسمجھنے کے وسیلہ سے حاصل ہوتا ہے۔
اِس صورت میں، وہ کیا ایمان ہےجو اِسی طرح یسوؔع کی تضحیک کرتاہے؟ آئیں ہم اِسے دیکھیں۔
 
 
وہ ایمان جویسوؔع کی تضحیک کرتا ہے
 
کیا ایمان کے لئے اشد ضروری ہے؟
یسوؔع کے بپتسمہ کاٹھیک علم
 
آپ کواچھی طرح جاننا چاہئے کہ یسوؔع پر ا ندھا دُھند ایمان رکھنا اُس کی تضحیک کرنا ہے۔ اگر آپ سوچتے ہیں،’’اِس بنا پر میں ایمان لانا دُشوار پاتا ہوں،مگر جیسا کہ وہ خداوند خدااور ابنِ خُداہے، مجھے اُس پرہر حال میں ایمان لانا پڑےگا،‘‘اِس صور ت میں آپ یسوؔع کی تضحیک کر رہے ہیں۔اگر آپ واقعی اَز سرِ نَو پیدا ہونا چاہتے ہیں،توآپ کو یقیناًیسوؔع کے بپتسمہ اورخُون،یعنی کفّارہ کی خُوشخبری پر ایمان لاناچاہئے۔
یسوؔع پرکفّارہ کی خُوشخبری کو جانے بغیر ایمان لانابالکل ایمان نہ رکھنے سےزیادہ بدترہے۔صرف یسوؔع کے خُون کی خُوشخبری کی منادی کرنا صداقت کو جانے بغیر فضول محنت ہے۔
یسوؔع یہ نہیں چاہتا کہ کوئی بھی آدمی اُس پراندھادھندایمان لاکر منادی کرتاپھرے، یا اُس پر بِلا وجہ ایمان رکھے۔ وہ چاہتا ہےکہ ہم کفّارہ کی خُوشخبری کو جاننے کے وسیلہ سے اُس پر ایمان لائیں۔
جب ہم یسوؔع پر ایمان لاتے ہیں، تو ہمیں مانناچاہئے کہ کفارے کا مژدہ، یسوؔع کا بپتسمہ اور خُون
ہے ۔ جب ہم یسوؔع پر ایمان لاتے ہیں، تو ہمیں خداوند خداکے کلام کے ذریعہ سے کفّارہ کی خُوشخبری کو سمجھناچاہئے اور خاص طور پر جاننا چاہئے کہ کیسے اُس نے تما م گناہوں کودھو ڈالا۔
ہمیں یہ بھی جانناچاہئے کہ اِس بنا پرپاک خیمہء اجتماع کے دروازہ پر آسمانی، ارغوانی، اور سرخ رنگ کےدھاگے کیا عائد کرتے ہیں۔اِس صورت میں، ہم حقیقی ایمان حاصل کر سکتے ہیں جو ابد تک باقی رہے گا۔
 
 
ہم یسوؔع، یعنی آسمانی، ارغوانی، اور سرخ بٹے ہوئےدھاگےکی پوری طرح آگاہی پر ایمان لانےکے بغیر ہرگز اَزسرِنَو پیدا نہیں ہو سکتے
          
کاہن پاک مقام میں داخل  ہونے سے پہلےکیا کرتے تھے؟
وہ پیتل کے حوض کے پانی کے ساتھ اپنے ہاتھ اور پاؤں دھو تے تھے۔
 
ہمارے خُداوندیسوؔع نے ہمیں بچا لیا۔ ہم بچ نہیں سکتے بلکہ خُداوند کی تمجید کرتے ہیں جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اُس نے کس قدرکاملیت سے ہمیں بچا لیا ۔ہمیں پاک خیمہء اجتماع پر نظر کرنی چاہئے۔ اُس نے ہمیں پاک خیمۂ اِجتماع کے آسمانی، ارغوانی، اور سرخ بٹےدھاگے کے ذریعہ سے کفارے کی خُوشخبری کے الفاظ بخشےاورہمیں اُن کے سَنگ بچا لیا۔ ہم خُداوند کا شکر اور اُسکی تعریف کرتے ہیں۔ گناہ گار خوفناک سزا میں سے گزرنے کے بغیر پاک مقام میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔
 کیسے کوئی آدمی اپنے گناہوں کی سزا پانے کے بغیر پاک مقام میں داخل ہو سکتا تھا؟ یہ ناممکن تھا۔ اگر ایساآدمی جائےممنوعہ میں داخل ہوتاتھا، تووہ بالکل وہیں کا وہیں مرجاتاتھا۔ اِس بنا پر یہ بدترین سزا تھی۔کوئی گناہ گارہرگز پاک مقام میں داخل ہونے اور زندہ رہنے کی اُمید نہیں کر سکتا تھا۔
ہمارے خُداوند نےہمیں پاک خیمہء اجتماع کے دروازہ میں چھپے ہوئے بھیدکے وسیلہ سے بچالیا۔اُس نے ہمیں آسمانی، ارغوانی، سرخ بٹے ہوئےدھاگے اورباریک کتانی کپڑے کے ہمراہ، بچالیا ۔ اُس نے اِن باتوں کے ذریعہ سے ہمیں اپنی نجات کے بھیدسے آشکارہ کیا۔ کیا آپ اور میں اِس طرح نجات یافتہ ہوئے تھے؟
 اگر ہم آسمانی، ارغوانی، اور سرخ دھاگے کے الفاط پر ایمان نہیں لاتے، تو کفّارہ کی خُوشخبری
کے ذریعہ سے کوئی نجات نہیں ہو سکتی۔آسمانی رنگ خداوند خداکی نمائندگی نہیں کرتا؛ اِس بنا پریہ یسوؔع کے بپتسمہ کے علاوہ کسی اور چیز کی نمائندگی نہیں کرتا۔یہ یسوؔع کا بپتسمہ ہی ہے جس نے ہمارے تمام گناہ اُٹھا لئے ۔
کوئی آدمی آسمانی دھاگے پر ایمان لائے بغیر زیادہ سے زیادہ سوختنی قربانی کی قربانگاہمیں داخل ہو سکتا ہے ۔تاہم، وہ پاک مقام میں داخل نہیں ہو سکتا جہاں خُدا رہتا ہے۔
لہٰذا، اِس سے بیشتر کہ ہم پاک خیمہء اجتماع کے دروازہ سے داخل ہوں، ہمیں آسمانی دھاگے (یسوؔع کے بپتسمہ)، سرخ دھاگے (اُس کےصلیبی خُون)، اور ارغوانی دھاگے (یسوؔع کےخُدا اور ابنِ خُداہونے) پر ایمان لانا چاہئے۔ صرف جب ہم ایمان لاتے ہیں توہم خدوند خداکے مقبولِ نظر بنتے ہیں اورہم پاک ترین مقام کے پردہ کےوسیلہ سے داخل ہونے کی اجازت پاتے ہیں۔
بعض لوگ خیمہء اجتماع کے بیرونی صحن میں داخل ہوتے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ وہ اندر ہیں۔مگر یہ نجات نہیں ہے ۔ ہمیں نجات حاصل کرنے کے لئے کتنا آگے جانا چاہئے؟ ہمیں پاک ترین مقام میں داخل ہونے کے قابل بنناچاہئے۔
پاک ترین مقام میں داخل ہونے کے سلسلے میں، ہمیں پیتل کے حوض سے گزرنا پڑتا ہے۔ پیتل کا حوض یسوؔع کے بپتسمہ کی نمائندگی کرتا ہے، اور ہمیں یسوؔع کے بپتسمہ کے سَنگ اپنے روزمرّہ کے تمام گناہ دھو نےچاہئے اور پاک مقام میں داخل ہونے کے لئے پاک بننا چاہئے۔
عہدِ عتیق میں، کاہنوں کوداخل ہونے سے پیشتر خود کودھو نا پڑتا تھا، اور عہدِ جدید میں، یسوؔع نے اپنے شاگردوں کے اُن کی عُمر بھر کی خطاؤں کومٹانے کی نمائندگی کرنے کے لئےپاؤں دھو ئے۔
خداوند خداکی شریعت فرماتی ہے، ”کیونکہ گناہ کی مزدوری موت ہے مگر خُدا کی بخشش ہمارے خُداوند یسوؔع مسیح میں ہمیشہ کی زندگی ہے۔“ (رومیوں ۶:۲۳)۔خُدابِلا مستثنی ٰہر آدمی کو گناہوں کی سزا دیتا ہے،مگر اُس نے اُنہیں اپنے لختِ جگر پر منتقل کیا اوراِس کی بجائے اُسےسزادی۔ یہ خداوند خداکی محبت، یعنی اُس کی نجات ہے۔ حقیقی نجات صرف اُسوقت حاصل ہوتی ہے جب ہم کفّارہ کی خُوشخبری پر ایمان لاتے ہیں جو، بپتسمہ، خُون، موت اور یسوؔع کےجی اُٹھنے پر مشتمل ہے۔
 
 
اَزسرِنَو پیداہونے کے سلسلے میں، کسی آدمی کو ہرگزکتابِ مقدّس کی صداقت، یعنی گناہوں کے کفّارے کی خُوشخبری کی حقارت نہیں کرنی چاہئے
 
ہمارے کرنے کے لئےکیا واحد چیز باقی ہے؟
خُوشخبری ،یعنی خداوند خداکے تحریری کلمات پرایمان لانا ہے۔
 
میں ہرگز دوسرے لوگوں کی حقارت نہیں کرتا۔ جب کوئی آدمی کوئی ایسی بات کرتا ہے جس سے میں واقف نہیں ہوں، تو میں اُس سے میرے سامنے نرمی سے واضح کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔ مگر جب میں نے پاک خیمۂ اِجتماع کے ضمنی مفہومات کے متعلق پوچھا، تو مجھے کوئی نہ بتا سکا۔
اِس کے بعد میں کیا کر سکتا تھا؟ مجھے واپس کتابِ مقدّس کی طرف رُجوع کرنا پڑا۔ کتابِ مقدّس میں، کہاں خیمہء اجتماع کے متعلق بات کی گئی ہے؟ اِسےخروج میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اگر کوئی آدمی اِس کتاب کو غور سے پڑھےتو وہ آدمی خداوند خداکے تحریر ی کلمات کے وسیلہ سے، اُس کا مفہوم سمجھ سکتا ہے۔
پیارے دوستو، آپ یسوؔع پربے دھڑک ایمان لانے سے نجات یافتہ نہیں ہوسکتے۔ آپ محض باقاعدگی سے گرجا گھر جانے کے ذریعے سے اَزسرِنَو پیدا نہیں ہو سکتے۔ ہمیں معلوم ہے کہ یسوؔع نے نیکدُیمسؔ سے کیا فرمایا۔’’میں تجھ سے سچ کہتا ہوں جب تک کوئی آدمی پانی اور رُوح سے پیدا نہ ہو وہ خُدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔بنی اسرائیل کا اُستاد ہو کر کیا تو ان باتوں کو
نہیں جانتا؟۔‘‘(یوحنا۳: ۵، ۱۰)۔
وہ تما م لوگ جو یسوؔع پر ایمان لاتے ہیں اُنہیں آسمانی دھاگے (جب اُس نے بپتسمہ لیا تو دُنیا کے
 تمام گناہ یسوؔع پر منتقل ہو گئے)، سرخ دھاگے (ہمارے تمام گناہوں کی خاطر یسوؔع کی موت)، اور ارغوانی دھاگے (یسوؔع نجات دہندہ، خُدا، اورابنِ خُدہے) یعنی سبھی پر ایمان لانا چاہئے۔
ہمیں یہ ایمان لاناپڑے گا کہ یسوؔع دُنیا کے تمام گناہ گاروں کا نجات دہندہ ہے۔اِس ایمان کے بغیر، کوئی آدمی ہرگزاَزسرِنَو پیدانہیں ہو سکتا، نہ ہی کوئی آدمی خداوند خداکی بادشاہی کے پاک مقام میں داخل ہو سکتا ہے ۔ یہاں تک کہ کوئی آدمی اِس کے بغیراِس دُنیا میں دین داری سے نہیں جی سکتا۔
کیا یہ اِس قدر آسان کام نہیں ہو گا اگرکوئی آدمی محض یسوؔع پر ایمان لانے کے ذریعہ سے اَزسرِنَو پیداہو سکے؟ ––جی ہاں––’’ ♫تم نجات یافتہ ہو۔میں نجات یافتہ ہوں۔ ہم سب نجات یافتہ ہیں۔♫‘‘ کتنی اچھی بات ہے! مگر بہت سارے لوگ ایسے ہیں جویسوؔع پر حقیقتاً’اَز سرِ نَو پیدا ہونے‘ کے بغیرایمان رکھتے ہیں۔
ہمیں کتابِ مقدّس کی سچائی کوجاننے کے ساتھ ساتھ یسوؔع پر بھی ایمان رکھناچاہئے۔ ہمیں کتابِ مقدّس سےگناہ کی معافی کی خُوشخبری اور پاک خیمہء اجتماع میں داخل ہونے اور ایمان کی دُنیا میں خداوند خداکے ساتھ رہنےکے سلسلے میں، آسمانی، ارغوانی، اور سرخ دھاگے کے مفہوم کوسمجھنا چاہئے۔ ایمان کے خیمہء اجتماع کے اندر، ہم اُس وقت تک خُوش رہ سکتے ہیں جب تک یسوؔع ہمیں اپنی بادشاہت میں لینے کے لئے دوبارہ نہیں آجاتا۔اِس بنا پرہمارے لئے یسوؔع پر ٹھیک طرح سے ایمان رکھنالازم ہے۔
 
 
حقیقی خُوشخبری آسمانی بٹے ہوئےدھاگے کے ساتھ تطہیر کو جنم دیتی ہے
          
یسوؔع کی صلیب کے ساتھ ساتھ، ہماری نجات کے لئے ناگزیر شرط کیا ہے؟
یسوؔع کا بپتسمہ
 
لوگ گمان کرتے ہیں کہ وہ غلطیاں کئے بغیر کامل طور پر جی سکتے ہیں۔تاہم، وہ جتنی زیادہ نیکی کرنے کی سخت کوشش کرتے ہیں،اتنی زیادہ جلدی وہ اپنی خامیوں کو دریافت کریں گے۔بنی نوع انسان بالکل ادھورے ہیں،لہٰذا اُن کے لئے گناہ کرنے سے بازرہنا ناممکن ہے ۔تاہم، کیونکہ یسوؔع نے ہمیں آسمانی، ارغوانی، اور سرخ دھاگے،یعنی کفّارے کی خُوشخبری کے ذریعہ سے بچا لیا ، ہم پاک بن سکتےہیں اور خداوند خدا کے پاک مقام میں داخل ہو سکتے ہیں۔
اگر خُدا ہمیں آسمانی، ارغوانی، اور سرخدھاگے کے ساتھ نہ بچاتا، تو ہم خود بخود پاک مقام میں داخل ہونے کےقابل ہرگز نہ ہوتے ۔اِس کی کیا وجہ ہے؟ اگر صرف وہ لوگ جواپنے جسم کے مطابق کامل طور پر زندہ ہیں پاک مقام میں داخل ہو سکتے، توکوئی فرد نہیں ہو گا جواِس قابل ٹھہرے۔جب کوئی آدمی سچی خُوشخبری کو جاننےکے بغیر یسوؔع پر ایمان لاتا ہے، تو وہ آدمی صرف اپنے باطن میں اور گناہوں کا اضافہ کرتا ہے۔
یسوؔع نے ہمیں اپنی حزم و احتیاط سے تیار کی گئی نجات کے سَنگ؛ یعنی آسمانی، ارغوانی، اورسرخ کپڑے، اورباریک کتانی دھاگے کی نجات سے بچالیا۔اُس نے ہمارے تمام گناہ دھو ڈالے۔کیا آپ اِس پر ایمان لاتےہیں؟ ––جی ہاں–– کیا آپ اپنے دل میں معافی کی خُوشخبری کی سچائی رکھتے ہیں اور اِسکی گواہی دیتے ہیں؟ –– جی ہاں–– صرف جب آپ خُوشخبری کی گواہی دیتے ہیں توآپ اپنے ماتھے پر سونے کا پتّر لگا سکتے ہیں جو فرماتاہے،’ خُداوندکے لئے مقدس ‘اور’ شاہی کاہنوں کے فرقہ‘(۱۔پطرس۲:۹)میں شامل ہو سکتے ہیں۔ صرف اِس کے بعد آپ لوگوں کےسامنے کھڑے ہوسکتے ہیں اور اُنہیں بتا سکتے ہیں کہ آپ خداوند خداکے خادم ہیں، جوشاہی کاہن کے طورپر خدمت کر رہے ہیں۔
سردار کاہن کی پگڑی سونے کے پتّرپر مشتمل ہے اور یہ پتّر آسمانی ڈوری سےباندھا جاتا ہے۔ آسمانی ہی کیوں؟ اِسلئے کہ یسوؔع نے معافی کی خُوشخبری کےہمراہ ہمیں بچا لیا، اپنے بپتسمہ کے وسیلہ سے ہمارے تمام گناہ اُٹھا لئے اور ہمیں بے گناہ بناڈالا۔عہدِ جدید کا بپتسمہ، عہدِ عتیق میں ہاتھ رکھنے کے مساوی ہے۔
اِس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ کتنی ذمہ داری اور خلوصِ نیت سے ہم یسوؔع پر ایمان رکھتے ہیں، ہم آسمانی، ارغوانی، سرخ دھاگے کے پوشیدہ الفاظ کواچھی طرح جاننےکےبغیر’ خُداوندکے لئے مقدس‘نقش شدہ پتّر کو حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔
کیسے ہم راستباز بن گئے؟ متی۳: ۱۵ میں لکھا ہے،’’ کیونکہ ہمیں ا سی طرح ساری راستبازی پوری
کرنا مناسب ہے۔‘‘یسوؔع نے بپتسمہ لیا اور ہمیں دُنیا کے تمام گناہوں سے بچا لیا ۔ اپنے بپتسمہ کے وسیلہ سے، اُس نے ہمارے تمام گناہوں کو اُٹھا لیا، اور ہم ایماندار لوگ راستباز بن چُکے ہیں۔
ہم کیسے کہہ سکتے تھے کہ ہم گنا ہ سے خالی ہیں بالفرض اگریسوؔع کا بپتسمہ نہ ہوتا؟ یہاں تک کہ اگر ہم یسوؔع پر ایمان لاتے، اور اُس کی صلیبی موت کو سوچ کر، چیختے چلاتے،تواِس دُنیا کے تمام آنسو ہمارے تمامترگناہوں کونہیں دھو سکتے تھے۔جی نہیں۔ اِس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ چاہے ہم کتنا ہی چلاتے اور توبہ کرتے، ہمارے گناہ ہمارے اندرہی رہ جاتے۔
’ خُداوندکے لئے مقدس۔‘چونکہ اُس نے اپنے بپتسمہ اور خُون کے سَنگ ہمارے تمامتر گناہوں کو اُٹھا لیا،خُداوند نے ہم سب گناہ گاروں کے تمام گناہوں کو یسوؔع پرسلسلہ وار منتقل ہونے کی اجازت دی، اورکیونکہ نجات کا کلام کتابِ مقدّس میں قلمبند ہے، تو ہم اپنی تمام بدکرداریوں اور کمزوریوں کے باوجود، اپنےعقیدےکےوسیلہ سے راستباز بن چُکے ہیں۔
 لہٰذا، اب ہم خداوند خداکے حضور کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اب ہم راستباز کے طور پرجی سکتے ہیں
اور دُنیامیں خُوشخبری کی منادی کر سکتے ہیں۔ ’’ ♪میں نجات یافتہ ہو۔ تم نجات یافتہ ہو۔ ہم سب نجات یافتہ ہیں ۔♪‘‘ہم خداوند خداکےپُر فضل منصوبہ کے مطابق نجات حاصل کرچُکے ہیں۔
اپنے باطن میں کفّارہ کی خُوشخبری کے کلمہ کے بغیر، کوئی نجات نہیں، اِس بات کی کوئی قدر نہیں کہ آپ کتنی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔یہ یک طرفہ محبت کے بارے میں ایک مشہور کور ین گانےکے مساوی ہے۔” ♪ہائے ، میرا دل بلاوجہ دھڑکتا ہے جب بھی میں اُسے دیکھتا ہوں،ہر بار جب میں اسکے قریب ہوتا ہوں۔میں بِلا شک یک طرفہ محبت میں مبتلا ہوں۔♪ ‘‘میرادل تیزی سے دھڑکتا ہے،مگر اُس کا نہیں۔ میری محبت کبھی نہیں پلٹی۔بد قسمتی سے، بہت سارے مسیحی اب تک خدوند خداکے نزدیک یک طرفہ محبت میں مبتلا ہیں۔
بہت سارے لوگ ایسا سوچنے کا رجحان رکھتے ہیں کہ نجات بہت سارے مختلف لوگوں کے لئے مختلف طریقوں سے حاصل ہوتی ہے۔ وہ پوچھتے ہیں،’’ کیوںیہ صرف بپتسمہ کی خُوشخبری کے وسیلہ سے حاصل ہوگی؟ ‘‘مگر یہ ہرگز کامل نجات نہیں ہو سکتی تھی بالفرض اگر وہ یسوؔع کے بپتسمہ کی خُوشخبری نہ ہوتی۔یہ واحد راہ ہے جس سے ہم خداوند خداکے حضورراستباز بن سکتے ہیں کیونکہ یہ واحد راہ ہے جس سے ہم اپنے تمام گناہوں سے مکمل طور پرپاک صاف ہوسکتے ہیں ۔
 
 
کیا آسمانی بٹے ہوئےدھاگے،وہی نجات موجوہ ہے جو یسوؔع نے ہمیں بخشی ہے؟
          
ہمیں کیاچیز راستباز بنا چکی ہے؟
آسمانی، ارغوانی، اور سرخ دھاگے کی خُوشخبری
 
نجات آسمانی، ارغوانی، اور سرخ دھاگے کی خُوشخبری کے ذریعہ سے تمام نسلِ انسانی کے لئےخداوند خداکاتحفہ ہے۔ یہ تحفہ ہمیں پاک خیمہء اجتماع میں داخل ہونے اور سکون سے جینے کے قابل کرچُکا ہے۔یہ ہمیں راستبازبناچُکا ہے، ہمیں کلیسیا کے اندر جینے، اور کلیسیا کے وسیلہ سے پاک صحائف کے مطابق تربیت حاصل کرنےکے قابل کرچُکا ہے۔
 جب بھی ہم خداوند خداکے حضور دعا کرنے کے لئے جاتے ہیں، تو خُوشخبری ہمیں اُس کی محبت کےساتھ برکت دیتی ہے۔یہ اِس بنا پر ہے کہ کیوں نجات ہمارےلئے اِس قدر بیش قیمت ہے۔یسوؔع ہمیں ’ چٹان پر‘ایمان کا گھر بنانے کا حکم کرتا ہے۔یہ چٹان اُس کے بپتسمہ کی خُوشخبری ہے۔ ہم سب کو نجات پانی چاہئے، نجات کے سَنگ جینا چاہئے، آسمان پر جانا چاہئے، ابدی زندگی حاصل کرنی چاہئے، اور خُداکی آل اولاد بننا چاہئے۔
پیارے دوستو، کفّارہ کی خُوشخبری کی وجہ سے، ہم ایمان کے سَنگ پاک خیمہء اجتماع میں داخل ہونے کے قابل ہیں۔اپنےتمام گناہوں کودھو نے (یسوؔع کےبپتسمہ) اور صلیبی سزا کے سبب سے، یعنی ہم یسوؔع کے بپتسمہ کی خُوشخبری پر ایمان لانے کے وسیلہ سے نجات پاچُکے ہیں۔
 ہمارے تمام گناہوں کےلئے کثیرکفّارہ، یعنی یسوؔع کا بپتسمہ اور خُون، وہ خُوشخبری ہے جس نے ہمارے تمام گناہ دھو ڈالے۔کیا آپ اِس پر ایمان لاتےہیں؟ حقیقی خُوشخبری آسمانی کفّارہ کی خُوشخبری ہے جس نے مکمل طور پر ہمارے تمام ترگناہوں کودھو ڈالا۔
ہم کفّارہ کی خُوشخبری پر ایمان لانے کےوسیلہ سےاَزسرِنَو پیداہوچُکے ہیں۔ یسوؔع ہمیں کفّارہ کی خُوشخبری بخش چُکا ہے، جس نے ہمارے روزمرّہ کے تمام گناہوں اورحتٰی کہ مستقبل کے تمام گناہوں کو
دھو ڈالا۔ خُداوند کی تمجید ہو۔ہیلیلویاہ!
پانی اور رُوح کی خُوشخبری (یعنی پانی اور خُون کی خُوشخبری) ہی وہ حقیقی خُوشخبری ہے جسکی یسوؔع مسیح نے تکمیل کی اوربشارت دی ۔ یہ کتاب یسوؔع کی خُوشخبری، یعنی پانی اور رُوح کی خُوشخبری کا بھید ظاہر کرنےکے لئےلکھی گئی تھی۔
کیونکہ بہت سارے لوگ مکمل سچائی کو جاننےکےبغیر، یسوؔع پر ایمان رکھتے ہیں، وہ ہنوز صرف
 اپنے بنیاد پرست ہونے یا مسیحی علمِ الہٰیات (برائے نام فلسفیانہ علمِ الہٰیات) کی دُنیا میں مذہبی متعدد مناصب پرست ہونے پرشیخیاں بگھار رہے ہیں؛ مختصراً، وہ بدعت اور سوء فہم میں زندہ ہیں۔لہٰذا، ہمیں واپس جاناچاہئے اور حقیقی خُوشخبری پر ایمان لاناچاہئے۔ ابھی بہت دیر نہیں ہوئی ۔
میں اُن لوگوں کے لئے دوسری کتاب میں زیادہ تفصیل میں جاؤں گا جن کے پاس پانی اور رُوح سے اَز سرِ نَوپیدا ہونے کے متعلق سوالات ہیں۔