Search

उपदेश

مضمون 11: خیمۂ اِجتماع

[11-3] یہوواؔہ زِندہ خُدا <خروج ۳۴:۱۔۸>

یہوواؔہ زِندہ خُدا
>خروج ۳۴:۱۔۸<
پِھر خُداوند نے مُوسیٰؔ سے کہا پہلی لَوحوں کی مانِند پتّھر کی دو لَوحیں اپنے لِئے تراش لینا اور مَیں اُن لَوحوں پر وُہی باتیں لِکھ دُوں گا جو پہلی لَوحوں پر جِن کو تُو نے توڑ ڈالا مرقُوم تِھیں۔اور صُبح تک تیّار ہو جانا اور سویرے ہی کوہِ سِیناؔ پر آ کر وہاں پہاڑ کی چوٹی پر میرے سامنے حاضِر ہونا۔پر تیرے ساتھ کوئی اَور آدمی نہ آئے اور نہ پہاڑ پر کہِیں کوئی دُوسرا شخص دِکھائی دے۔ بھیڑ بکریاں اور گائے بَیل بھی پہاڑ کے سامنے چرنے نہ پائیں۔اور مُوسیٰؔ نے پہلی لَوحوں کی مانِند پتّھر کی دو لَوحیں تراشیں اور صُبح سویرے اُٹھ کر پتّھر کی دونوں لَوحیں ہاتھ میں لِئے ہُوئے خُداوند کے حُکم کے مُطابِق کوہِ سِیناؔ پر چڑھ گیا۔تب خُداوند ابر میں ہو کر اُترا اور اُس کے ساتھ وہاں کھڑے ہو کر خُداوند کے نام کا اِعلان کِیا۔اور خُداوند اُس کے آگے سے یہ پُکارتا ہُؤا گُذرا خُداوند خُداوند خُدایِ رحیم اور مہربان قہر کرنے میں دِھیما اور شفقت اور وفا میں غنی۔ہزاروں پر فضل کرنے والا۔ گُناہ اور تقصِیر اور خطا کا بخشنے والا لیکن وہ مُجرم کو ہرگِز بری نہیں کرے گا بلکہ باپ دادا کے گُناہ کی سزا اُن کے بیٹوں اور پوتوں کو تِیسری اور چَوتھی پُشت تک دیتا ہے۔تب مُوسیٰؔ نے جلدی سے سر جُھکا کر سِجدہ کِیا۔ 
 
 
ہمیں ڈھونڈنے کی ضرورت ہے حقیقتاً یہ خدا کون ہے جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں
 
آئیں ہم خروج ۳:۱۳۔۱۶ کی جانب مُڑتے ہوئے شروع کرتے ہیں: ” تب مُوسیٰؔ نے خُدا سے کہا جب مَیں بنی اِسرائیل کے پاس جا کر اُن کو کہُوں کہ تُمہارے باپ دادا کے خُدا نے مُجھے تُمہارے پاس بھیجا ہے اور وہ مُجھے کہیں کہ اُس کا نام کیا ہے؟ تو مَیں اُن کو کیا بتاؤُں؟خُدا نے مُوسیٰؔ سے کہا مَیں جو ہُوں سو مَیں ہُوں۔ سو تُو بنی اِسرائیل سے یُوں کہنا کہ مَیں جو ہُوں نے مُجھے تُمہارے پاس بھیجا ہے۔پِھر خُدا نے مُوسیٰؔ سے یہ بھی کہا کہ تُو بنی اِسرائیل سے یُوں کہنا کہ خُداوند تُمہارے باپ دادا کے خُدا ابرہامؔ کے خُدا اور اِضحاقؔ کے خُدا اور یعقُوبؔ کے خُدا نے مُجھے تُمہارے پاس بھیجا ہے۔ ابد تک میرا یِہی نام ہے اور سب نسلوں میں اِسی سے میرا ذِکر ہو گا۔جا کر اِسرائیلی بزُرگوں کو ایک جگہ جمع کر اور اُن کو کہہ کہ خُداوند تُمہارے باپ دادا کے خُدا ابرہامؔ اور اِضحاقؔ اور یعقُوبؔ کے خُدا نے مُجھے دِکھائی دے کر یہ کہا ہے کہ مَیں نے تُم کو بھی اور جو کُچھ برتاؤ تُمہارے ساتھ مِصرؔ میں کِیا جا رہا ہے اُسے بھی خُوب دیکھا ہے۔
 
 

یہوواؔہ خدا کون ہے؟

 
 عبرانی زبان میں خدا وند کا نام یہوواؔہ   یا  یہواؔہ  ہے، روایتاً  جیہوواہ ، اور یہوواؔہ  کا مطلب ہے وہ جو بذاتِ خود وجود رکھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، خُدا ایک مخلوق نہیں ہے، بلکہ وہ جو بذاتِ خود وجود رکھتا ہے، خالق جس نے تمام کائنا ت اور اِس میں ہر ایک چیزکو بنایا۔
آئیں ہم خروج ۶:۲۔۷پر ایک نظر ڈالیں:” پِھر خُدا نے مُوسیٰؔ سے کہا مَیں خُداوند ہُوں۔اور مَیں ابرہامؔ اور اِضحاقؔ اور یعقُوبؔ کو خُدایِ قادِرِ مُطلق کے طَور پر دِکھائی دِیا لیکن اپنے یہوواؔہ نام سے اُن پر ظاہِر نہ ہُؤا۔اور مَیں نے اُن کے ساتھ اپنا عہد بھی باندھا ہے کہ مُلکِ کنعاؔن جو اُن کی مُسافرت کا مُلک تھا اور جِس میں وہ پردیسی تھے اُن کو دُوں گا۔اور مَیں نے بنی اِسرائیل کے کراہنے کو بھی سُن کر جِن کو مِصریوں نے غُلامی میں رکھ چھوڑا ہے اپنے اُس عہد کو یاد کِیا ہے۔سو تُو بنی اِسرائیل سے کہہ کہ مَیں خُداوند ہُوں اور مَیں تُم کو مِصریوں کے بوجھوں کے نِیچے سے نِکال لُوں گا۔ اور مَیں تُم کو اُن کی غُلامی سے آزاد کرُوں گا اور مَیں اپنا ہاتھ بڑھا کر اور اُن کو بڑی بڑی سزائیں دے کر تُم کو رہائی دُوں گا۔اور مَیں تُم کو لے لُوں گا کہ میری قَوم بن جاؤ اور مَیں تُمہارا خُدا ہُوں گا اور تُم جان لو گے کہ مَیں خُداوند تُمہارا خُدا ہُوں جو تُم کو مِصریوں کے بوجھوں کے نِیچے سے نِکالتا ہُوں۔
تیسری بالائی آیت کہتی ہے، ” اور مَیں ابرہامؔ اور اِضحاقؔ اور یعقُوبؔ کو خُدایِ قادِرِ مُطلق کے طَور پر دِکھائی دِیا لیکن اپنے یہوواؔہ نام سے اُن پر ظاہِر نہ ہُؤا۔“  کِنگ جیمز ورژن میں، جملہ ”میرے خُداوند نام سے“ کو اِس طرح  ”میرے یہووا ؔہ نام سے“ لِکھا گیا ہے۔عبرانی لفظ یہوواؔہ  کامطلب ہے ”ایک وجود رکھنے والا“ یا ”ایک سچے خُدا کا مناسب نام۔“ خُد ا پہلے بنی نوع انسان کے لئے اپنے یہوواؔہ نام کو ظاہر نہیں کر چکا تھا۔ پس لوگ اُس وقت اُسے محض خُد اکے طور پر پُکارتے تھے۔ لیکن اب، اسرائیل کے لوگوں کوبچانے کے لئے، خُدا نے اِس دُنیا کے تمام لوگوں میں اپنے یہوواؔہ نام کو مشہور ہونے کی اجازت دینی چاہی۔”میَں جیہوواہ ہُوں۔ میَں یہوواؔہ  ہُوں۔ میَں جو ہُوں سو  میَں ہُوں، وہ جو بذاتِ خود وجود رکھتا ہے۔“ اِس طرح خُدا نے اپنے آپ کو پہچانے جانے کی اجازت دینی چاہی۔
خُدا وہ جو بذاتِ خود وجود رکھتا ہے، ”ابرہاؔم، اِضحاقؔ، اور یعقوبؔ کا خُد اہے۔“وہ حتیٰ کہ قدیم ترین زمانوں سے پہلے زِندہ رہ چکا ہے، حتیٰ کہ ہر چیز کے شروع ہونے سے پہلے۔ دوسرے لفظوں میں، خُدا زِندہ رہتا اور اَبدی طور پر وجود رکھتا ہے۔ خُدا اجازت دے چکاتھا کہ اسرائیل کے لوگ، ابرہامؔ کی نسل، ۴۳۰ سالوں کے لئے مِصر میں غلام بنے، اور تب وہ وعدہ کر چکا تھا وہ اُنھیں اُن کی غلامی سے چھُڑائے گا اور کنعانؔ کی سرزمین میں اُنھیں لے جائے گا۔ بالکل جس طرح وہ وعدہ کر چکا تھا، یہوواؔہ خُدا ۴۳۰سال بعد ظاہر ہوا، اور مُوسیٰ کواسرائیل کے لوگوں کو فرعونؔ کی ایذارسانی سے چُھڑانے کا حُکم دِیا۔ ”میَں یہوواؔہ ہُوں۔ میَں جو ہُوں سو میَں ہُوں، تمھارا خُدا۔ میرے لوگوں کو جانے دے۔“ اپنے لوگوں کی خاطر، اُس نے اپنے آپ کو مُوسیٰ کے سامنے ظاہر کِیا، اور فرعونؔ کو حُکم دیا کہ وہ اُس کے لوگوں کو جانے کی  اجازت دے، کیونکہ یہوواؔہ خُدا اسرائیل کے لوگوں کی تکلیفوں کو جانتا تھا۔ کیونکہ وہ جانتاتھا کہ اُس کے لوگ اُن کی تکلیفوں تلے کراہ رہے تھے، خُدا نے فرمایا کہ وہ اُنھیں اُن کی غلامی سے چُھڑائے گا۔
ابرہامؔ کے ساتھ اپنا وعدہ کرنے کے ۴۳۰سال بعد، خُد ااسرائیل کے لوگوں کے پاس آیا اور اُن پر اپنے آپ کو ظاہر کِیا۔ ”میَں یہوواؔہ ہُوں۔ میَں خُدا ہُوں۔ میَں وعدے کو پورا کرنے کے لئے آچکا ہُوں جو میَں نے ابرہامؔ، تمھارے باپ سے کِیا تھا،کہ اُس کی اولاد کو مِصر میں سے نِکال کر کنعانؔ کی سرزمین میں لے جاؤں گا۔ اور میَں تمھاری تمام تکلیفوں کو بھی جانتا ہُوں۔ اب فرعونؔ کے پاس جاؤ اور اُسے اِس طرح کہو۔“ یہ ہے یہوواؔہ خُدا نے کیا فرمایا۔
ہمیں یقینا ًاحساس کرنا چاہیے کہ خُدا حقیقت میں ابرہامؔ،اضحاقؔ، اور یعقوبؔ کاخُداہے۔  خُدا  ہمارا
ذاتی، آپ کا اور میرا بھی خُداہے۔ تب، اُس کا نام کیا ہے؟ اُس کا نام یہوواؔہ  ہے، مطلب وہ جو بذاتِ خود وجود رکھتا ہے۔ خُد احتیٰ کہ اِ س کائنات کی تخلیق سے پہلے وجود رکھ چکا ہے، جس طرح وہ جو بذاتِ خود وجود رکھتاہے، جس کا وجود کسی دوسرے سے حاصل نہیں ہو ا، بلکہ اپنے آپ کے وسیلہ سے۔
 
 
 ہمیں یقیناً خُد اکے نام کا مطلب سمجھنا چاہیے
 
یہ اشدضروری ہے کہ ہم جانیں اور ایمان رکھیں کہ خُد احقیقتاً وہ ہے جو بذاتِ خود وجود رکھتا ہے، ایک وہ جو ہمیں بنا چکا ہے، جو ہم پر حکومت کرتا ہے، اور جو ہمیں ہمارے گناہوں سے بچا چکا ہے۔ ہمیں یہوواؔہ  خُدا پر ہمارے حتمی خُد اکے طو رپر یقیناً ایمان رکھنا چاہیے، کیونکہ اِس یہوواؔہ خُدا نے حقیقت میں ساری کائنا ت کو تخلیق کِیا، اور حتیٰ کہ اب بھی وجود رکھنا جار ی رکھتا ہے۔
اسرائیل کے لوگوں کی طرح، آپ اور مَیں بھی خُدا پر ایما ن رکھتے ہیں، اور اُس کی حضوری کے سامنے اُس کے احکام بھی حاصل کر چکے ہیں۔ بالکل جس طرح اسرائیل کے لوگ ساری شریعت کو قائم رکھنے میں ناکا م ہو چکے تھے، ہم، بھی، شریعت کے وسیلہ سے زندہ رہنے میں ناکا م ہو چکے ہیں۔ اِسی طرح، خُدا کے سامنے ہمارے گناہوں کی وجہ سے، ہم بھی اِس قِسم کے انسان تھے جو بچ نہیں سکتے تھے بلکہ گناہ کی خوفناک عدالت کا ہدف تھے۔ دوسرے لفظوں میں، ہمارے گناہوں کی وجہ سے، ہم حقیقتاً ہمارے گناہوں کے لئے اُس کے وسیلہ سے ملعون ہونے سے بچ نہیں سکتے تھے۔
یہ ہے کیوں ہم میں سے ہر کسی کو ذاتی گناہوں کے لئے خُدا کے سامنے فِدیہ کے واسطے ایک کفارہ اَدا کرناچاہیے۔ ہمارے گناہوں سے نجات یافتہ ہونے کے لئے، ہمیں ہمارے ایمان کے ساتھ، ہماری ذاتی زندگی کے برابر فِدیہ کی قیمت خُد اباپ کو دینی تھی۔ ہمیں حقیقتاً اُس کی عادل عدالت کو مطمئن کرنے کے سلسلے میں اور خُداکی رحم پسند محبت کو ظاہر کرنے کے لئے اپنی ذاتی زندگی کی مساوی قربانی دینی تھی۔ صِر ف ہمارے گناہوں کے لئے زندگی کے حقیقی فِدیہ کو دینے کے وسیلہ سے خُد ااور ہم بنی نوع انسان کے درمیان صُلح بحال ہو سکتی تھی۔ یہ صِرف ایمان کے وسیلہ سے ہے کہ ہم ہمارے تمام گناہوں اور سزا سے آزاد ہو سکتے ہیں۔
کیونکہ بیشک یہ صورتحال ہے، جب کبھی ہم خُداکے سامنے جاتے ہیں، ہمیں، گناہوں کی وجہ سے
جو ہم اُس کے سامنے سرزد کر چکے ہیں تسلیم کرنا تھا، کہ ہم بچ نہیں سکتے بلکہ اِن گناہوں کے لئے پَرکھے جانا اور سزا یافتہ ہونا تھا۔ جب ہم خُدا پر ہمارے نجات دہندہ کے طورپر ایمان رکھتے ہیں، ہمیں حقیقتاً ضرور پہچاننا اور ماننا چاہیے کہ ہم ہمارے گناہوں کی وجہ سے جہنم کے پابند ہیں، اور مسیحا پر ایمان رکھتے ہیں، جو ہمارے گناہوں کی قیمت اَدا کرچکا ہے اور ہمارے ذاتی نجات دہند ہ کے طورپر گناہ کی عدالت سے ہمیں آزاد کر چکا ہے۔ جب ہم خُدا کے سامنے جا تے ہیں، ہمیں یقیناً یِسُوعؔ مسیح کے بپتسمہ اور خون پر ایمان رکھنا چاہیے، ہمارے گناہوں کی قربانی،یعنی مسیحا کے طورپر اُس پر ایمان رکھنا، اور اِسی طرح اُسے پہچاننا چاہیے۔ ہمیں یقیناً ماننا چاہیے کہ ہم سب اُس کے احکامات کو قائم رکھنے میں ہماری ناکامی کی وجہ سے خُدا کے سامنے گنہگار بن چکے ہیں، اور ہمیں یقیناً ایمان رکھنا چاہیے کہ یِسُوعؔ مسیح مسیحا ہمیں ہمارے گناہوں سے آزاد کر چکاہے۔
ہمیں یقیناً پہچاننا چاہیے ہم بچ نہیں سکتے تھے بلکہ خُد ا کی گناہ کی سز اکے لئے ہدف تھے۔ اِس طرح ہماری گنہگار ی کو ماننے کے وسیلہ سے، ہم گناہ کی معافی کی برکت کو حاصل کرنے کے اہل بن گئے جو خُدا ہمیں دے چکا ہے، اور ہم اپنے ایمان کی بنیاد تعمیر کرنے کے قابل تھے جو خُد اکے رحم کو ذخیرہ کر سکتی ہے اور اُس کی گناہ کی معافی کو حاصل کر سکتی ہے۔
ہمیں اُس کے ذاتی بیٹے بنانے کے لئے، خُد انے ہمیں اپنی ذاتی شبیہ پر بنایا، لیکن اُس نے ہمیں کمزوریوں میں پیدا ہونے کی اجازت دی۔ آدمؔ کی نسل کے طورپر، ہم سب گنہگاروں کے طور پر پید اہوئے ہیں، لیکن ہمیں اُس کے بیٹے بنانا یہ خُدا کی گہری عاقبت اندیشی ہے۔
ہم اَیسے انسان تھے جو بچ نہیں سکتے تھے بلکہ اپنے گناہو ں کے لئے پَرکھے جا سکتے تھے، لیکن اُس کی مرضی پوری کرنے کے لئے، خُد انے ہمارے پاس اُس کے ذاتی بیٹے کو بھیجا، اور ہمیں ہمارے تمام گناہوں سے معاف کر چکا ہے۔ یِسُوعؔ، خُدا کے بیٹے، نے اپنا بپتسمہ حاصل کِیا اور خُدا کے منصوبہ کی فرمانبرداری میں صلیب پر مر گیا۔ اِس لئے یہوواؔہ خُدا ہم میں سے اُن کو نئی زندگی دے چکا ہے جو ایمان رکھتے ہیں کہ دُنیا کے تمام گناہ یوحناؔ کے وسیلہ سے اُس کے بپتسمہ کے ساتھ اُس کے بیٹے پر لاد دئیے گئے تھے، یعنی اُس نے ہمیں صلیب پر اپنے خون کے ساتھ ہمارے تمام گناہوں سے بچا لیا، اور کہ اِس طرح اُس نے ہمارے گناہوں کی ساری سزا برداشت کی۔
یِسُوعؔ کا بپتسمہ اور اُس کا خون کفارے کی قربانی تھے جو، جب ہم ایمان رکھتے ہیں، نئی  زندگی حاصل
کرنے کے لئے، ہمارے تمام گناہوں سے نجا ت یافتہ ہو نے کے لئے، اور خُداکے بیٹے بننے کے لئے ہمیں اجازت دینے سے زیاد ہ تھے۔ ہمیں یقیناً ایمان رکھنے کے وسیلہ سے ہمارے تمام گناہوں سے نجات یافتہ ہونا چاہیے، اور ہمارے آسمانی، ارغوانی، اور سُرخ دھاگے اور بارِیک بٹے ہُوئے کتان پر ایمان کے ساتھ، ہمیں یقینا ًایمان کی وہ قِسم رکھنی چاہیے جو ہمیں خُدا کے بیٹے بننے کے لئے اجازت دیتی ہے۔ حقیقت میں، یہ حتمی سچ ہے کہ صِرف وہ جو اَیسا ایمان رکھتے ہیں بے شک خُدا کے ذاتی لوگ بن سکتے ہیں۔
 
 
اِس دُنیا کے مذاہب کی تمام الہٰی طاقتیں محض بنی نوع انسان  کی ذاتی بنائی ہوئی مخلوقات ہیں
 
یہوواؔہ خُدا، یِسُوعؔ مسیح، اور روح القدس سے علیٰحدہ، ساری دوسری طاقتیں بنی نوع انسان کے بذاتِ خود بنانے کے وسیلہ سے محض دُنیاوی طاقتیں ہیں۔ ماسوائے خُداکے، اِ س دُنیا میں کوئی چیز موجود نہیں ہے جو بذاتِ خود وجود رکھتی ہے۔ یہ ہے کیوں یہوواؔہ خُدانے فرمایا، ” میَں جو ہوں سو میَں ہوں۔
حقیقت میں، کیاکوئی موجود ہے جو بذاتِ خود وجود رکھتا ہے؟  بُدّھا اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا، اور اِس طرح وہ  صِرف خُد ا کی ایک مخلوق ہے۔ اِسی طرح کنفیوشیس ہے، اور اِسی طرح محمّد ہے۔ کیونکہ وہ سب اپنے والدین سے پید اہوئے تھے، اور اِس لئے صِرف خُد اکی بنائی ہوئی مخلوق ہیں۔ بُدھا کے بت جو اُس کے پیروکار ڈھال یا تراش چکے ہیں محض انسان کی، پتھروں یا دھاتوں کے ساتھ بنائی ہوئی ذاتی تخلیق ہیں جو خُدا نے بذاتِ خود پیدا کی تھیں۔ ہر چیز سورج سے لے کر چاند، ستارے، پانی، ہَوا، اور کائنات کی کہکشائیں، سب خُد انے بنائی تھیں۔ اِس دُنیا میں کچھ موجو دنہیں ہے جو خُدا نے نہیں بنایا تھا۔ حتیٰ کہ فرشتے، روحانی مخلوقات، سب خُداکے وسیلہ سے بنائے گئے تھے۔
صِرف ابرہامؔ، اِضحاقؔ، اور یعقوبؔ کا خُد ا، جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں یہوواؔہ  خُداہے،وہ جو بذاتِ خود وجود رکھتا ہے۔ یہوواؔہ  خُدا کسی دوسرے کے وسیلہ سے نہیں بنایا گیا تھا۔ صِرف وہ بذاتِ خود وجود رکھتا ہے، صِرف وہ تمام کائنات کا خالق ہے، اور صِرف وہ واحد ہے جس نے آپ کو اور مجھے بنایا۔ صِرف یہ یہوواؔہ  خُدا ہمیں ہمارے گناہوں سے بچانے کے لئے اور ہمیں اُس کے ذاتی لوگ بنانے  کے  لئے  اُس  کی مرضی
میں منصوبہ بنا چکا ہے۔
اِس کی وجہ یہ ہے کہ خُدا اِس طرح منصوبہ بنا چکا ہے جس نے ہمیں اِس دُنیا میں پیدا ہونے کے قابل بنایا جبکہ چِلاتے اور خالی ہاتھ لوٹتے ہوئے، اور یہ اِس منصوبہ کی وجہ سے ہے کہ وہ ہمیں اِس دُنیا میں تکلیف اُٹھانے کی اجازت دے چکاہے، تاکہ ہم بچ نہ سکیں بلکہ خُدا کو تلاش کریں اور اُس سے مِلیں۔
جب ہم کہتے ہیں کہ ہم خُدا پر ایمان رکھتے ہیں، ہمیں ضرورحقیقتاًماننا چاہیے کہ ہم مخلوق کی وہ قِسم ہیں جو ہمارے گناہوں کی وجہ سے اور خُد اکے احکامات کو قائم رکھنے کے لئے ہماری ناکامی کی وجہ سے، بچ نہیں سکتے بلکہ خُدا کے سامنے مو ت، جہنم، اور خوفناک تکلیفوں کی سزا کا سامناکرتے ہیں۔ ہمارا یِسُوعؔ مسیح یعنی مسیحا پر ہمارے نجات دہندہ کے طورپر ایمان رکھنے سے پہلے، ہمیں یقیناً پہلے اپنے آپ کو گنہگاروں کے طورپر پہچاننا چاہیے جو بچ نہیں سکتے بلکہ گناہ کی خوفناک عدالت کا سامنا کر سکتے ہیں اور جہنم میں پھینکے جا سکتے ہیں۔
 
 

یہوواؔہ خُدا سب کچھ جاننے والا اور قادرِمُطلق ہے

 
صِر ف خُدا سب کچھ جاننے والا اور قادرِ مُطلق ہے۔ خُدا جس نے حقیقتاً ہمیں بنایا اور دُنیا پر حکومت کرتا ہے۔ اِسے پہچاننے کے بعد، ہمیں تب یقیناً خُد اکے سامنے ماننا چاہیے کہ محض ہم حقیقی طور پر کس قِسم کے گنہگار ہیں یعنی، ہمیں یقیناً ماننا چاہیے کہ ہمارے گناہوں کی وجہ سے، ہم بچ نہیں سکتے ہیں بلکہ خُد اکے خوفناک غضب کا ہد ف ہو سکتے ہیں۔ اور ہمیں یقینا ًسچائی پر ایمان رکھنا چاہیے کہ خُد اکے برّے پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے جو ہمیں ہمارے گناہوں سے چھڑانے کےلئے آیا، اور ہمارے تمام گناہ اُس کے سَر پر ہمارے ہاتھوں کے رکھے جانے کے وسیلہ سے اِس قربانی کے برّے پر منتقل ہونے کی معرفت، ہمارے گناہ کے تمام مسائل حل ہو گئےہیں۔ یہ ہم ہیں جِنھیں یقیناً حقیقت میں پَرکھے جانا اور ہمارے گناہوں کے لئے مرنا چاہیے، لیکن کیونکہ اِس قربانی کے برّہ نے اپنے بپتسمہ کے ساتھ ہمارے تمام گناہ اُٹھا لئے، ہمارے گناہ دھوئے جا سکتے ہیں۔ ہمیں یقیناً اِس سچائی پرایمان رکھنا چاہیے۔ ہمیں یقیناً پہچاننا چاہیے کہ اِس قربانی کے برّہ کے وسیلہ سے، خُد اقادرِ مُطلق، جس کے لئے کچھ ناممکن نہیں ہے، ہم جو بچ نہیں سکتے تھے بلکہ جہنم کے پابند تھے،بےشک ہمیں ہمارے تمام گناہوں سے بچا چکا ہے۔ لو گ جو اِس طرح ایمان رکھتے ہیں یِسُوعؔ مسیح مسیحا کے سچے ایماندار ہیں۔
حقیقت میں، مسیح پر بےقاعدہ ایمان رکھنا غلط ہے۔جب ہم کہتے ہیں کہ ہم خُدا پر ایمان رکھتے ہیں، ہمارا ایمان یقیناً  کتابِ مقدس کی مضبوط بنیا د پر قائم کِیا جانا چاہیے۔ اور ہمیں اُس کے کلام پر سچائی کی بالکل پہلی اور طاقتور بنیاد مقرر کرنی ہے، جس نےفرمایا، ” میَں جو ہوں سومیَں ہوں۔میَں یہوواؔہ  ہوں۔
اسرائیل کے لوگ شریعت کو قائم رکھنے میں ناکا م ہو گئے  جس کی خُدا اُنھیں پیروی کرنے کا حُکم دے چکا تھا۔ احکامات جو خُدا نے اسرائیلیوں کو دئیے تھے ہم میں سے اُن کو بھی دئیے گئے تھے جو آج کے دَور میں رہ رہے ہیں۔ اگر آپ حقیقتاً خُدا پر ایمان رکھنا چاہتے ہیں، اور اگر آپ حقیقتاً اپنے ایمان کے ساتھ ابرہامؔ کے بیٹے بننا چاہتے ہیں، آپ کو یقیناً پہچاننا چاہیے کہ خُدا صِرف ۶۱۳احکامات اسرائیلیوں کو نہیں، بلکہ ہمیں بھی، اِس دُنیا میں ہر کسی کو، اور تمام کائنات کودے چکا ہے۔ اور ہمیں یقینا ًحقیقی طورپر پہچاننا چاہیے کہ ہم بھی اسرائیلیوں کی مانند، حُکموں کو قائم رکھنے میں ناکام ہو چکے ہیں، اور اِس طرح ہم موت کا مقدر رکھتے ہیں، کیونکہ، ” گُناہ کی مزدُوری مَوت ہے“(رومیوں ۶:۲۳)۔
ہمیں یقیناً ایمان رکھنا چاہیے کہ خُدا ہمارے گناہوں کو آسمانی، ارغوانی، اور سُرخ دھاگے کی سچائی کے ساتھ معاف کر چکا ہے۔ اَیسا کرنے کے لئے، ہمیں یقینا ًنجات کے سچ کی تلاش میں جانا چاہیے، جس کے وسیلہ سے ہمارا خُداوند ہمیں ہمارے گناہوں اور ہمارے گناہوں کی سزا سے آزاد کر چکا ہے۔
خُدا کے سخت احکامات کو قائم رکھنے میں ناکام ہو چُکنے کے باوجود، اگر ہم احساس نہیں کرتے ہیں کہ ہم خوفناک گنہگار ہیں، اور اگر ہم تسلیم نہیں کرتے ہیں کہ ہم ہمارے گناہوں کے لئے پَرکھے جانے کے پابند ہیں، تب ہم کبھی بھی مسیحا پر ایمان رکھنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ اگر لوگوں کو ایمان رکھناتھا کہ وہ آسمان میں داخل ہو جائیں گے حتیٰ کہ وہ گنہگار رہتے ہیں، جب، حقیقت میں،خُداپہلے ہی اُن کے گناہ عدالت کی کتاب میں محفوظ کر چکا ہے، تب وہ اپنےطورپرخُداکی شریعت کوتبدیل کرتے ہوئے، خُدا کے نام کو بے فائدہ لینے کا گناہ سرَزد کریں گے۔ اَیسے لوگ کبھی بھی اُن گناہوں سے نجات یافتہ ہونے کے قابل نہیں ہوں گے۔ وہ اپنے گناہو ں کے لئے ابدی طورپر پَرکھے جائیں گے، اور جہنم کی سزا کے ساتھ ملعون ٹھہریں گے،قطع نظر اِس کے آیا وہ خُدا پر ایمان رکھتے ہیں یا نہیں، وہ خُداکو نہیں پہچانتے ہیں۔ اِن لوگوں کو یقیناً فوراً توبہ کرنی چاہیے اور اپنی بے اعتقادی سے رجُوع لانا چاہیے۔
حتیٰ کہ اِس لمحہ پربھی خُد اہمارے دِلوں میں ہے، اور اِن تمام خلاؤں میں بذاتِ خود وجود رکھتا ہے۔ اور وہ ہمارے بارے میں ہر چیز کو جانتا ہے۔
گوخُدا زندہ ہے، لوگ موجود ہیں جو اُ س پرایمان نہیں رکھتے ہیں، بعض حتیٰ کہ اُسے طعنہ دیتے ہیں۔ لیکن ہم سب اپنے گناہوں کے لئے قربانی کے برّہ کی ضرورت رکھتے ہیں۔ یہ ہے کیوں خُدانے خیمۂ اِجتماع کی سوختنی قربانی کی قربانگا ہ پر اُن کے قربانی کے جانور کے ساتھ اسرائیلیوں کو فِدیہ کی قربانی دینے کے قابل بنایا،یعنی نجات کے طریقہ کی مطابقت میں جو خُدامقرر کر چکاتھا۔
خُدا بے شک وہ ہے جو بذاتِ خود وجود رکھتا ہے۔ وہ واحد ہے جو پہلے تھا، اور اب ہے۔ وہ خُد اہے جو زِندہ رہا، ظاہر ہوا، اور ہمارے ایمان کے آباؤاجداد سے بہت پہلے کلام کِیا، واحد جو زندہ رہتاہے، ظاہر ہوتا ہے، اور اب ہم سے کلام کرتا ہے، وہ جو ہمارے درمیان کام کرتا ہے، ہماری راہنمائی کرتاہے، اور ہماری زندگیوں پر حکومت کرتاہے۔
 
 
سچ جو ہمیں یقیناًنہیں بھولنا چاہیے
 
گو ہم نجات یافتہ ہو چکے ہیں، ایک واحد چیز ہمیں یقینا ًکبھی بھی نہیں بھولنی چاہیے۔ وہ یہ ہے کہ گو ہم بچ نہیں سکتے تھے بلکہ اَبدی طورپر پَرکھے جا سکتے تھے، اُس کے بپتسمہ کے ساتھ اور صلیب پر اُس کا خون بہانے کے وسیلہ سے، ہمارا خُداوند ہمیں ہمارے گناہوں کی تمام اَیسی عدالت سے چھڑا چکا ہے۔ حقیقت میں، اُس دن تک جب ہم خُداوند کے سامنے کھڑے ہوں گے، ہمیں یقینا کبھی یہ سچائی نہیں بھولنی چاہیے اور ہمیشہ ہمارے دِلوں میں اِس پرایمان رکھنا چاہیے۔ ہمیں یقیناً اِس پر ایمان رکھنا چاہیے حتیٰ کہ جب ہم خُدا کی تعریف کرتے ہوئے آسمان کی بادشاہت میں ہیں۔ ہمیں یقیناً ہم کو اجازت دینے کے لئے،بالکل وہ لوگ جو بچ نہیں سکتے تھے بلکہ اپنے گناہوں کے لئے ابدی طورپر لعنتی ہو سکتے اور پَرکھے جا سکتے تھے، ہمارے خُداوند پر نجات دہندہ کے طورپر ایمان رکھنے کے لئے، اور ہمیں ابدی زندگی دینے کے لئے خُدا کا شکر اَدا کرنا چاہیے۔
ہمیں یقیناً ہمیشہ پانی اور روح کی خوشخبری کو پہچاننا چاہیے۔ کیا واقع ہو گا  اگر ہم نہیں  مانتے  ہیں کہ
 ہم ہمارے گناہوں کی وجہ سے ابدی طورپر پَرکھے جانے کے پابند ہیں؟ ہمارے لئے خُداکی تعریف کرنے کے لئے کوئی وجہ موجود نہیں ہو گی۔ خُدا حقیقتاً ہمیں بچا چکا ہے، فانی مخلوقات جو بچ نہیں سکتے تھے بلکہ ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہمیشہ پَرکھے جا سکتے تھے۔ یہ ہے کیوں ہمیں یقیناً ایمان رکھنا اور خُداوند کی پرستش کرنی چاہیےکیونکہ ہمارے خُداوند نے اپنا بپتسمہ حاصل کِیا اور ہماری خاطر اپنا خون بہایا۔ یہ ہے کیوں آپ کو، بھی، یقیناً ایمان رکھنا چاہیے،اور یہ ہے کیوں ہم سب کو یقیناًپانی اور روح کی خوشخبری کی منادی کرنی چاہیے۔ وہ جو بپتسمہ پر ایمان رکھتے ہیں جو یِسُوعؔ نے حاصل کِیا اور خون پر جسے اُس نے اُن کے گناہوں کے لئے بہایا اُن کے دِل ہیں جو خُداکی تعریف کرتے ہیں۔ کیونکہ خُدااُنھیں اُن کے گناہوں اورموت سے بچا چکا ہے، وہ اپنے ایمان کے ساتھ ہر روز اُس کی پرستش کرتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ بعض لوگ یِسُوعؔ کو غلط سمجھ چکے ہیں۔ اُن کا اُس کے بارے میں علم یک طرفہ اورآدھا خالی ہے۔وہ اِس قِسم کے لوگ ہیں جن کے ضمیر آلودہ ہو چکے ہیں، جو حتیٰ کہ احساس نہیں کرتے ہیں کہ وہ گناہ سرزد کر رہے ہیں جب، حقیقت میں، وہ بے شک تمام گناہ کی اقسام میں  نِگلے ہوئے ہیں۔ وہ جو گنا ہ سرزد کرتے ہیں اور اِسے گناہ کے طورپر حتیٰ کہ اب تک نہیں پہچانتے ہیں یہ گنہگاروں کے علاوہ کوئی دوسرے نہیں ہیں۔
گو ہم حقیقت میں کمزور مخلوق ہیں جو بچ نہیں سکتے بلکہ گناہ کرتے ہیں، ہمیں یقینا ًہمارے گناہوں کوماننا چاہیے جو ہم ہر وقت سرزد کرتے ہیں، اور ہمیں یقیناً ہمارے خُداوند کے بپتسمہ اور صلیب پر اُس کے خون کی تصدیق کرنی چاہیے یعنی، پانی اور روح کی خوشخبری۔ اِس لئے ہم حقیقت میں مانتے ہیں کہ ہم نہیں ہیں بلکہ خُداکے سامنے گنہگار ہو سکتے ہیں۔ اور پانی او ر روح کی خوشخبری پر حقیقتاً ایمان رکھنے کے وسیلہ سے، ہم سکون سے سانس لے سکتے ہیں۔ بے شک، پانی اور روح کی خوشخبری پر ایما ن رکھنے کے وسیلہ سے، ہم اپنے ذہنوں کا سکون حاصل کر چکے ہیں۔
جب میں بے گناہ ہونے کے بارے میں بولتا ہوں، اِس کا مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنے گناہوں کونہیں پہچانیں گے حتیٰ کہ جب ہم حقیقتاً اُنھیں سرزد کرتے ہیں۔ اِس کا مطلب نہیں ہے کہ وہ جو پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں گناہ کو گناہ کے طور پر پہچاننے کی ضرورت نہیں رکھتے ہیں۔ گو ہم حقیقت میں ہمارے تمام گناہوں سے آزاد کیے جا چکے ہیں، ہم پھر بھی گناہوں کو پہچانتے ہیں جو ہم سرزد کرتے ہیں یعنی وہ کیا ہیں ہمارے گناہوں کے طورپر۔ ہمیں کیا یقینا ًکبھی نہیں بھولنا چاہیے یہ  ہے کہ گو ہم بچ نہیں سکتے تھے بلکہ ہمارے گناہوں کی وجہ سے ابدی طور پر پَرکھے جاسکتے تھے، ہمارا خُداوند اپنے بپتسمہ، صلیب پر اپنے خون، اور اپنے جی اُٹھنے کے ساتھ ہمیں ہمارے تمام گناہوں اور گناہ کی سزا سے بچا چکا ہے۔ ہمیں یقینا ًکبھی بھی، ہمیشہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارا خُداوندہمیں، آسمانی، ارغوانی، اور سُرخ دھاگے کے ساتھ بچا چکا ہے، بلکہ اس پر ایمان رکھنا چاہیے اور اِس کے لئے اُس کی تعریف کرنی چاہیے۔ ہمیں یقیناًیادر کھنا چاہیے ہم پہلے کیسے تھے۔ یا د رکھیں کہ ہم پہلے اَیسی بے چاری مخلوق تھے جو بچ نہیں سکتے تھے بلکہ ہمارے گناہوں کے لئے ابدی طور پرپَرکھے جا سکتے تھے۔ اور ہمیں یقینا ًخُد اکی معرفت دی گئی گناہ کی معافی کی نجات کی تعریف کرنی چاہیے، اور ہر روز اُس کے نجات کے عظیم فضل کے لئے اُس کا شکر اَداکرنا چاہیے۔ اِس کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے یہ ایمانداروں کا پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان ہے۔
 
 

یہوواؔہ خُدا حتیٰ کہ اب بھی زندہ ہے

 
بالکل جس طرح خُداابرہامؔ، اِضحاقؔ، اور یعقوبؔ کا خُداتھا، وہ اب آپ کااور میرا خُدا ہے۔ ”کیو نکہ خُدا اَبتری کا نہیں بلکہ اَمن کا بانی ہے“(۱۔کرنتھیوں ۱۴:۳۳)۔وہ اُن مسیحیوں کاخُد انہیں ہے جو نمودونمائش اور زَرق بَرق اعمال والے ہیں، بلکہ وہ اُن کا خُدا ہے جو پانی اور روح کی خوشخبری پر ایما ن رکھتے ہیں۔ ہم وہ ایمان رکھتے ہیں جو خُداکے کلام پر ایمان رکھتا ہے اور اُس کی ”ہاں“ کے ساتھ فرمانبرداری کرتا ہے۔ خُد اہمارا خُداہے۔ جب وہ حقیقتاً ہمیں بتاتا ہے، ”تم جہنم کا مقد ر رکھتے ہو،“ ہم اُسے کہتے ہیں، ”ہاں، آپ صحیح ہیں۔“جب وہ ہمیں بتاتاہے، ”تم تمھارے مرنے کے دن تک گنا ہ کرنا جاری رکھو گے،“ تب ہم پھربھی کہتے ہیں، ’’ہاں، آپ صحیح ہیں۔“ اور جب وہ ہم سے کہتا ہے، ”لیکن مَیں تمہیں حقیقتاً اپنے آسمانی، ارغوانی، اور سُرخ دھاگے اور بارِیک بٹے ہُوئے کتان کے ساتھ بچا چکا ہوں،“ ہم صِرف، ایک بار پھر، کہہ سکتے ہیں ”ہاں، آپ بالکل صحیح ہیں۔“ اِس طرح ہم خُدا کے لوگ بن چکے ہیں جو ہمیشہ ”ہاں“ کے ساتھ اُس کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ مَیں اُس کے فضل کے لئے ہمارے خُد اکا شکر اَدا کرتاہوں جو ہمیں پانی اور روح کی خوشخبری کے ساتھ بچا چکا ہے۔
ہمیں اپنے دِلوں میں یقیناً ایمان رکھنااور پہچاننا چاہیے کہ ہمارا خُداوند بے شک  ہمیں  پانی،  خون،
اور روح کے وسیلہ سے ہمارے تمام گناہوں سے بچاچکا ہے، اور یوں ہمیں خُداکی بادشاہت کے لوگ بنا چکا ہے۔ ایمان رکھنے کے وسیلہ سے خُد اوند کا شکر اَداکریں کہ پانی اور روح کی خوشخبری نجات کا تحفہ ہے جو خُدا آپ کو دے چکا ہے۔
مَیں ہمیشہ خُدا کی میرے ایمان کے ساتھ مجھے ابدی طور پر، جو حقیقتاً بچ نہیں سکتا تھا بلکہ میرے گناہوں کی وجہ سے جہنم کا پابند تھا، پانی اور روح کی خوشخبری کے ساتھ بچانے کے لئے تعریف کرتا ہوں۔ یادر کھیں ہم سب حقیقت میں پیتل کے تھے یعنی، ہم خُد اکی عدالت سے بچ نہیں سکتے تھے اور اِس لئے ہم بچ نہیں سکتے بلکہ ہماری گناہ سے نجات کے لئے، ہمیں اُس کے آسمانی، ارغوانی، اور سُرخ دھاگے اور بارِیک بٹے ہُوئے کتان کے ساتھ بچانے کے لئے خُدا کی تعریف کرتے ہیں۔ اور ہمیں یقیناً اِن آسمانی، ارغوانی، اور سُرخ دھاگے اور بارِیک بٹے ہُوئے کتان میں چھپے ہوئے خوشخبری کے سچ پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے اُس کا شکر اَد اکرناچاہیے۔
صِر ف یہوواؔہ  خُد اتمام بنی نوع انسان کا خُد اہے۔ اور وہ تمام نسلِ انسانی کا خُدا یعنی نجات دہند ہ بن چکا ہے۔ ہم سب کو یقیناً یہوواؔہ  خُدا پر ہمارے ذاتی خُداکے طورپر ایمان رکھنا چاہیے۔