<رومیوں۱: ۱٧>
”اِس واسطے کہ اُس میں خدا کی راستبازی ایمان سے اور ایمان کیلئے ظاہر ہوتی ہے جیسا لکھا ہے کہ راستباز ایمان سے جیتا رہے گا۔ “
ضرور ہے کہ ہم ایمان سے جیتے رہیں
راستبازکیسے جیتا رہے گا؟ ایمان کے وسیلہ۔ راستباز ایمان سے جیتا ہے۔ در حقیقت، دنیا وی ’ایمان‘ بہت مشترک اور عام ہے لیکن یہ بائبل کا بہت بنیادی نقطہ ہے۔ راستباز صر ف ایمان سے جیتا ہے۔ راستبار کیسے جیتا ہے؟ وہ خدا پر ایمان لانے سے زندہ رہتا ہے۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ میں اِس حصہ سے آپکو یہ روشن خیالی دونگا کیونکہ ہم جسم میں ہیں اور روح القدس ہم میں بسا ہوُا ہے۔ ہم بہت سے حوالہ جات کا رُخ اپنی سوچ کے مطابق موڑ لیتے ہیں، نہ کہ بائبل کے حقیقی پوشیدہ مطلب کو جانتے ہیں، شائد ہم بائبل کے لفظی مطلب کو ہی سمجھتےہیں۔ ہم ایک ہی وقت میں روح اور جسم رکھتے ہیں۔ اِسلئے، بائبل مقدس کہتی ہے کہ، ہم راستباز، ایمان سے جیتے رہیں گے کیونکہ ہمارے پاس گناہوں کی معافی ہے۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ جسم کبھی نیکو کار نہیں ہو سکتا
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم جسم بھی رکھتے ہیں۔ اِس طرح، بہت سارے معاملات میں، ہم جسم کے اعتبار سے پرکھے جاتے ہیں۔ بعض اوقات، ہم پرکھتے ہیں اور جسمانی خیالات سے جڑی ہوئی کچھ چیزیں پا لیتے ہیں، اور جب یہ چیزیں ایمان کو پہنچتی ہیں تو ہم پوری طرح اِس پر ایمان نہیں لا پاتے۔تاہم ،بائبل مقدس سادگی سے بیان کرتی ہے کہ راستباز محض ایمان سے جیتا رہے گا۔ پھر اِسکا کیا مطلب ہے؟ آپ خیال کر سکتے ہیں کہاں ہیں وہ راستباز جو ایمان سے زندہ نہیں ہیں؟کیوں آپ اِس آیت پر اتنا زور دیتے ہیں؟ کیا یہ کلامِ پاک کی دوسری آیات میں سے ایک آیت نہیں؟
آج، میں آپکو اِس آیت کے متعلق بتانا چاہتا ہوں۔ ضرور ہے کہ ہم ایمان سے زندہ رہیں۔ہم اپنی جہالت کا احساس نہیں کرتے حتیٰ کہ جب ہم کچھ بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ہم خیال کرتے ہیں کہ ہم اِسکے متعلق اپنے خیالات کے مطابق خوب جانتے ہیں۔ وہ کونسا دشمن ہے جسکے خلاف ایک گنہگار برسرِ پیکار ہے؟ ایک شخص جو نئے سرے سے پیدا نہیں ہوُااپنی سوچوں اور اپنے جسم کے ساتھ جنگ کرتا رہتا ہے۔ کون نئے سرے سے پیدا ہونے والے شخص کے ساتھ برسرِ پیکار ہے؟ ایک شخص کے اندر روح اور جسم آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ آپ حیران ہونگے کہ کیوں میں اِس کو بار بار دہرا رہا ہوں جبکہ پہلے ہی میں اِس بات سے واقف ہوں، لیکن میں اِسے بار بار دہرانا اِس لئے پسند کرتا ہو ں کیونکہ یہ قیمتی کلام ہے۔
یہاں تک کہ ایک نئے سرے سے پیدا ہونے والے مقدس کی روح اور جسم بھی مسلسل ایک دوسرے سے جنگ کی حالت میں ہیں کیونکہ وہ بھی جسم رکھتےہیں۔جسم ایک طبعی حصہ ہے اور یہ ایمان سے زندہ رہنے کی بجائے زندگی کی تمام مشکلات کو سنوارنے، اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے۔جسم کا ایک اور حصہ ایسے راستباز شخص کا بھی ہے جو فراخدلی سے رہنا چاہتا ہے اور کوئی غلطی کئے بغیر کامیابی سے خدا تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے،جو کہ بائبل کے بتائے ہوئے اِس ایمان سے کہ راستباز ایمان سے جیتا رہے گا بہت دور کی زندگی ہے۔
پس، راستباز کاجسم بھی کاملیت تک پہنچنا چاہتاہے اور روحانی کاموں میں بھی وہ ہر روحانی مسئلہ
سے کامل طور پر نمٹنے کی کوشش کرتا ہے، اور اِسی دوران جسمانی کاملیت کی بھی اُمید کرتا ہے۔ مگر کیا کوئی جسم کے وسیلہ ایمان کی زندگی کی راہنمائی کر سکتا ہے؟ جیسا کہ پولوس نے کہا، ” چنانچہ جس نیکی کا ارادہ کرتا ہوں وہ تو نہیں کرتا مگر جس بدی کا ارادہ نہیں کرتا اُسے کر لیتا ہوں “ (رومیوں ۷٧:۱۹)،جسم کبھی بھلائی نہیں کرسکتا۔ہمارے جسم میں ایک جبلت پائی جاتی ہے کہ اگرچہ جسم گناہ کا پُتلا ہے اور گناہ کو روک نہیں سکتا تو بھی ہم خدا کے نزدیک لا خطا زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔
ہم ایمان کی زندگی کو جسم کے ساتھ جاری نہیں رکھ سکتے
بڑا زور دے کر بیا ن کر رہا ہوں کہ ،جسم کے ساتھ سچائی کی زندگی بسر کرنا یہ حقیقی ایمان سے بہت دور ہے۔جب ہم بائبل کے نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں تو ہمارے خیالات و طبع بالکل خدا کہ مخالف ہے۔ جسم کے ساتھ کامل ٹھہرنا اور بغیر کسی مشکل سے ایمان کی زندگی کی طرف جانا یہ ناممکن ہے۔انسانی جسم خاک کی مانند ہے۔ بائبل مقدس بیان کرتی ہے، ” اُسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں “ (زبور۱۰۳ :۱۴) ۔یہاں تک کہ یہ بخارات کی مانند ہے جو تھوڑے وقت کیلئے ظاہر ہوُا اور پھر نہیں کیونکہ یہ ناتمام ہے۔
کیا ایک نئے سرے سے پیدا ہونے والے شخص اور نئے سرے سے پیدا نہ ہونے والے شخص دونوں کے جسم کے پاس پاک ٹھہرنے کی قابلیت موجود ہے؟ کیا ایک نئے سرے سے پیدا ہونے والا شخص جسمانی طور پر گناہ پر قابو پا سکتا ہے۔ اگر جسم گناہ پر قابو پا سکتا ہے تو ہمیں ایمان سے جیتے رہنے کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔کیا پھرہم جسم کی توانائی کے ذریعے زندہ رہنے کے قابل کئے گئے ہیں؟ یقیناً ہم جانتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آیا ہم یہ جانتے اور تسلیم کرتے ہیں کہ ، ہم نئے سرے سے پیدا ہوئے ہیں یا نہیں ، اس کے باوجود جسم اتنا کمزور ہے کہ وہ بدستور گناہ کرتا رہتا ہے۔
ہم اپنے جسم کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟ ہم اپنے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟ آپ شاید سوچتے ہیں کہ آپ اپنے آپ کو ٪۱۰۰ جانتے ہیں، لیکن آپ کی اپنی شناخت آپ کے حقیقی کردار سے بہت دور ہے کیوں کہ آپ واقعتا یہ نہیں مانتے کہ آپ گنہگار ہیں۔ اس بارے میں کیا خیال ہے کہ آپ خود کوکتنا جانتے ہیں؟ یہاں تک کہ ٪ ۵۰بہت زیادہ ہوگا۔ لوگ عام طور پر خود کو زیادہ سے زیادہ ۱۰ یا ٪۲۰ تک ہی سمجھتے ہیں۔ حقیقت میں ، وہ اپنے آپ کو ۱۰ یا ٪۲۰ہی جانتے ہیں ، پروہ خیال کرتے ہیں وہ خود کو ٪ ۱۰۰جانتے ہیں۔ جب انہیں لگتا ہے کہ انہوں نے انتہائی بُرے کام انجام دیئے ہیں تو وہ شرمندہ ہوجاتے ہیں اورخُداوندکی پیروی چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر ، وہ سوال کرتے ہیں کہ آیا وہ اپنے عقائد کو آخر تک برقرار رکھ سکتے ہیں یا نہیں ، اور اس نتیجے پر پہُنچتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے۔
گندا پانی اور بیہودگی نفسانی عقل سے نل کی طرح بہہ نکلتی ہے۔ اُنکے لئے پاکیزہ زندگیوں کی راہنمائی کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔” اوہ! میرے خیال میں خداوند کی پیروی زیادہ دیر تک کرنا نا ممکن ہے۔میرے خیال میں میرا جسم ایک ہی بار سب گناہوں کے مٹنے سے بہتر ہو گیا تھا،لیکن میرا جسم ابھی تک کمزور ہے اور اگرچہ میں بہت عرصہ پہلے نئے سرے سے پیدا ہو چکا تھا تو بھی میں جلد اپنی کاملیت سے گر جاتا ہوں۔ جسم بیکار اور بد صورت ہے۔“ ہم اپنے جسم کے متعلق قطاًنہیں جانتے اور خاص کر ہم اپنے جسم کی خطاؤں کا اعتراف بھی نہیں کرنا چاہتے۔ اِسطرح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب ہم دیکھتے ہے کہ جسم سے نفسانی خیالات نکلتے ہیں تو ہم جسم کو ایماندار زندگی کی طرف نہیں لے جا سکتے۔ ہم جسم کے وسیلہ زندگیوں کو ایمان کی طرف نہیں لےجاسکتے۔انسان کا جسم کیا ہے؟ اگر انسانی جسم کو اُسکی کوششوں سے خوب سدھارا جائے تو کیا یہ سال بسال پاکیزگی میں بڑھ کر پاک ہو جائے گا اور ہمارا جسم خدا کے نزدیک ایک کامل زندگی بسر کرے گا؟یہ مکمل طور پر ناممکن ہے، اور جسم آخری سانس تک گناہ کو روکے رہنے میں ہماری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔
پھر کیسے راستباز زندہ رہتا ہے؟
” اگر تم سے بھول ہو جائے اور تم نے اُن سب حکموں پر جو خداوند نے موسیٰ کو دیئے عمل نہ کیا ہو۔ یعنی جس دن سے خداوند نے حکم دینا شروع کیا اُس دن سے لیکر آگے آگے جو کچھ حکم خداوند نے تمہاری نسل در نسل موسیٰ کی معرفت تمکو دیا ہے۔ اُس میں اگر سہواً کوئی خطا ہو گئی ہو اور جماعت اُس سے واقف نہ ہو تو ساری جماعت ایک بچھڑا سوختنی قربانی کیلئے گذرانے تاکہ وہ خداوند کے حضور راحت انگیز خوشبو ہو اور اُسکے ساتھ شرع کے مطابق اُسکی نذر کی قربانی اور اُسکا تپاون بھی چڑھائےاور خطا کی قربانی کے لئے ایک بکرا گذرانے۔ یوں کاہن بنی اسرائیل کی ساری جماعت کیلئے کفارہ دے تو اُن کو معافی ملے گی کیونکہ یہ محض بھول تھی اور اُنہوں نے اُس بھول کے بدلے وہ قربانی بھی چڑھائی جو خداوند کے حضور آتشین قربانی ٹھہرتی ہے اور خطا کی قربانی بھی خداوند کہ حضور گذرانی۔ تب بنی اسرائیل کی ساری جماعت کو اور اُن پردیسیوں کوبھی جو اُن میں رہتے ہیں معافی ملے گی کیونکہ جماعت کے اعتبار سے یہ سہواً ہوُا۔ اور اگر ایک ہی شخص سہواً خطا کرے تو وہ یکسالہ بکری خطا کی قربانی کیلئے چڑھائے۔ یوں کاہن اُس شخص کی طرف سے جس نے سہواً خطا کی اُس کی خطا کیلئے خداوند کے حضور کفارہ دے تو اُسے معافی ملے گی۔ جس شخص نے سہواًخطا کی ہو اُس کیلئے تم ایک ہی شرع
رکھنا خواہ وہ بنی اسرائیل میں سےدیسی ہو یا پردیسی جو اُن میں رہتا ہو ) “ گنتی۱۵: ۲۲-۲۹ (
” اور اگر تم سے بھول ہو جائے اور تم نے اُن سب حکمو ں پر جو خدا وند نے موسیٰ کو دیئے عمل نہ کیا ہو۔ “ بائبل مقدس میں اِس طرح کی ” سہواً خطا “ کے بہت سے بیانات ہیں۔ جسم سے سہواً خطا ہو جاتی ہے اور وہ کچھ ایسا کر بیٹھتا ہے جو نہیں کرنا چاہتا۔ میں آپکو بتاتا ہوں کہ اگر جسم کیلئے کامل ٹھہرنا ممکن تھا ،تو بھی گناہوں کی معافی حاصل کرنے کے بعد بھی کامل نہیں ٹھہر سکتا تھا ۔ جب ہم نجا ت پاتے ہیں فوراً جسم کامل طور پر راستباز دکھائی دیتا ہے۔لیکن درحقیقت، یہ ہمیں اِفشا کرنے میں ہماری مدد نہیں کرتا بلکہ اِس کی بجائے ہمیں چھپا لیتا ہے۔ جسم گندگی کی طرف راغب ہوتا ہے اور ہمیشہ گنا ہو ں کو سرزد کرتا ہے۔جسم ہمیشہ ایسے گنا ہ کرتا ہے جن سے خدا کو نفرت ہے۔کیا جسم بے شمار مرتبہ گنا ہ میں نہیں گرتا ہے؟۔ کیا جسم ہمیشہ ایسی زندگی گزرتا ہے، جیسی کہ خدا چا ہتا ہے؟ جسم ہمیشہ ا یسے کام کرتا ہے جو خدا کو پسند نہیں۔ جسم ہمیشہ بے قابو ہو کر گناہوں میں گر جاتا ہے۔
خدا کی شریعت دس احکا م پر مبنی ہے اور یہ ٦۱۳ا قسام کی مفصل شقو ں پر مشتمل ہے۔ ” میرے آگے تو اور مبعودوں کو نہ ما ننا۔ تو اپنے لیے کو ئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا۔ تو خدا وند اپنے خدا کا نام بے فائدہ نہ لینا۔ تو خدا وند اپنے خدا کے حکم کے مطابق سبت کے دن کو یاد کر کے پاک ماننا۔ اپنے باپ اور ماں کی عزت کرنا۔ تو خون نہ کرنا۔ تو زنا نہ کرنا۔ تو چوری نہ کرنا۔ تو اپنے پڑوسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دینا۔ تو اپنے پڑوسی یا اُسکے مال کا لالچ نہ کرنا ۔ “ پہلے چار احکام وہ احکام ہیں جو خدا کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ اِن احکامات کے بعد پانچویں حکم سے لےکر دسویں حکم تک وہ احکام ہیں جو انسان سے متعلق ہیں۔ لیکن کیا جسم شریعت کی تابعداری سے خوش ہے؟
یہا ں سڑکو ں پر پیدل چلنے والوں کیلئے حفاظت سے سڑک پار کرنے کے لئے سفید لائنیں دی
ہوتی ہیں۔ لیکن جسم کبھی بھی ٹریفک کے قوانین پر عمل کرنا نہیں چاہتا۔ تو بھی لوگ اِس خوف سے اِن لائنوں پر چل کر سڑک پار کرتے ہیں کہ دوسرے لوگ اُنہیں دیکھ رہے ہیں۔ در حقیقت ،وہ قانون کی تابعداری کرنا ہی نہیں چاہتے۔ اِسی لئے جب اِدھر اُدھر کوئی بھی نہیں ہوتا تو وہ ٹریفک کے اشاروں کو توڑ کر سڑک پار کر جاتے ہیں۔
جسم اپنے آپ گناہ کرتا ہے۔ اگر وہ اچھے تعلم یافتہ ہیں، تو خواہ لوگ اُنہیں دیکھیں یا نہ دیکھیں وہ ٹریفک کی پابندی کریں گے۔ تاہم، وہ صرف جسم کہ وسیلہ ہی اِسے تسلیم کرینگے۔ہم تو ٹریفک کے قانون کے مطابق سڑک پار کرنے تک سے نفرت کرتے اور جتنا ممکن ہو سکے اِس کی تابعداری نہ کرنے کی
کوشش کرتے ہیں۔
تو پھر، خدا کا ہمیں شریعت دینے کا مقصد کیا ہے؟ شریعت کے وسیلہ گناہ کی پہچان ہی ہوتی ہے (رومیوں ۳:۲٠)۔ شریعت کے وسیلہ، ہم جانتے ہیں کہ ہم ایسے گنہگار ہیں جو ہمیشہ دس احکام کی نافرمانی کرتے رہتے ہیں۔ہم ہمیشہ گناہ کرتے ہیں۔ شریعت ہمیشہ ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے بھلائی کریں اور برائی سے بچیں۔پھر بھی، ہمارا جسم ہمیشہ گناہ کی طرف مائل ہے کیونکہ یہ شریعت کو ماننے میں بہت کمزور ہے۔ بائبل مقدس بیان کرتی ہے کہ راستباز ایمان سے جیتا رہیگا۔ تاہم ، راستباز ، جس کے پاس یہ جسم ہے ، کیسے ایمان کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں؟ وہ اپنے جسم میں شریعت کے مطابق بھی نہیں رہ سکتے تو وہ کیسے زندہ رہیں؟ راستبازخُدا پر اعتماد کے ذریعہ زندہ رہتاہے۔
روح خدا کی مرضی کی پیروی کرنا چاہتی ہے، مگر جسم خدا کے دس احکام کی تمام شِقوں کی نافرمانی کرکے ہمیشہ گناہ کرتا ہے۔جسم کی رغبت گناہ کی جانب ہے ،اور وہ آج بھی اِس گناہ کو کرتا ہے اور کل بھی اِسے دہراتا ہے۔ یہاں کچھ ایسے گناہ بھی ہیں جنہیں جسم دوسرے گناہوں پرترجیح دیتا ہے۔انسان کا جسم اپنی ساری زندگی گناہ کرتا ہے۔کیا یہ درست ہے یا نہیں؟
آئیں پانچویں حکم کو بغور دیکھیں۔ ” اپنے ماں اور باپ کی عزت کرنا۔“ یہ سراسرَ مناسب ہے، اور اگرچہ لوگ اِس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو بھی وہ تمام اوقات اِسے قائم نہیں رکھ سکتے۔ اسلئے ہم اِس پر گفتگو چھوڑکر اگلے کی طرف بڑھتے ہیں اِس سے اگلا حکم ہے ” تُو خون نہ کرنا۔“ ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی کو اپنی سوچوں میں قتل کر دیتا ہے ،مگر چند لوگ ایسے بھی ہیں جو حقیقت میں دوسروں کا خون کر دیتے ہیں۔تاہم،اِس سے اگلے حکم کی طرف چلتے ہیں کیونکہ خون کرنا ایک سنگین گناہ ہے ۔ اِس سے اگلاحکم یہ ہے ” تو زنا نہ کرنا “ اور ” تو چوری نہ کرنا۔“ یہ ایسےگناہ ہیں جو ہماری روز مرہ زندگی میں آسانی سے دیکھنے میں آتےہیں ۔ بعض لوگوں میں طبعی طور پر چوری اور زنا کاری کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے اِس گناہ کو اپنی عادت بنا لیتے ہیں۔ کیا وہ بیگانہ عورت کی آرزو نہیں کرتے؟ (بائبل فرماتی ہے بیگانہ عورت کی آرزو کرنا بھی ایک گناہ ہے)۔ وہ دوسروں کی اِملاک کو اُنکی اصل جگہ سے ہٹانے(چوری کرنے) میں خوب ماہر ہیں۔ جسم جب بھی چاہتا ہے ایسے برُے کاموں کو کرتا ہے۔
آئیں فرض کریں کہ ہم اِن دس احکام کے گناہوں میں سے صرف ایک یا دو اقسام کے گناہوں کو کرتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا ہمیں خدا کے نزدیک راستباز ٹھہرا سکتا ہے؟نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہم خدا کے نزدیک جسم کے وسیلہ نہ تو راست اور نہ ہی راستباز ہیں کیونکہ چھوٹے سے چھوٹا گناہ بھی ایک گناہ ہے۔ جسم
بار بار گناہ کرتا ہے یہ آج بھی گناہ کرتا ہے اور کل بھی اور اُس وقت تک گناہ کرتا ہے جب تک ہم مر نہ جائیں۔ جسم ہماری مدد نہیں کر سکتا بلکہ جب تک ہم مر نہ جائیں یہ خدا کے نزدیک گناہ کرتا رہتا ہے۔ پس،کیا آپ خدا کے نز دیک ایک دن کے لئے بھی پاک اور خالص پائے جاتے ہیں؟۔ آئیں جسم کو روح سے جُدا کر کے اِس پر نظر دوڑائیں۔ کیا آپ نے جسم کے وسیلہ کامل بننے کیلئے خدا کے نزدیک کبھی گناہ نہیں کیا؟ ہر ایک جب وہ اپنے بستر پر بُرے خیالات باندھتا ہے تو وہ گناہ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے خوابوں خیالوں میں خوبصورت عورتوں کہ متعلق بُرے خیالات باندھنے سے ہی وہ گنہگار ہو جاتا ہے وہ اپنی سوقیانہ تشبیہات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ہم سب گناہ کرتےہیں۔
جو کچھ بھی خدا ہمیں بتاتا ہے جسم وہ نہیں کرتا اور جو کچھ وہ کرنے سے منع کرتا ہے جسم وہی کام کرتا ہے۔ اگرچہ ہمارے گناہ مٹا دیئے گئے ہیں تو بھی ہمارا جسم وہی ہے۔ کیسے ہم کامل بن سکتے ہیں۔؟ اگر ہمارا جسم نا تمام ہے تو پھر پاکیزہ ہونے کا کیا طریقہ ہے؟ مگر، کیا یہ یسوع مسیح کے وسیلہ ممکن نہیں ہے؟
ہم وہ ہیں جو اِن گناہوں کو کر چکے ہیں ۔ کیا ہم یسوع کے نزدیک گناہ کر چکے ہیں؟— ہاں ،ہم گناہ کر چکے ہیں— کیا ہم اَب بھی گناہ کرتے ہیں یا نہیں؟— ہاں ہم کرتے ہیں۔ — کیا ہم گناہ کو جاری رکھے ہوئے ہیں؟— ہاں، یہ ہم سے ہو جاتا ہے— ہم جب تک جسم کے خیمہ میں ہیں تو ہماری موت کے دن تک کوئی نہ کوئی خطا ہم سے ہوتی رہے گی۔ ہم ایسے گنہگار ہیں جو اپنی آخری سانس تک کوئی نہ کوئی خطا کر ہی جاتے ہیں اور گناہ کو روک نہیں پاتے۔ پھر کیسے ہم اپنے سب گناہوں سے رہائی پا سکتے ہیں؟ سب سے پہلے، اگر آپ نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئے، تو آپ کو چاہئے کہ آپ خداوند کے نزدیک اپنے گنہگار ہونے کااعتراف کریں تاکہ وہ آپکے گناہوں کو مٹا ڈالے۔ مخلصی پانے کے بعد ،ہم کو اپنے گناہوں کا اقرار کرنے کی ضرورت نہیں ہےکہ ہم گنہگار ہیں، لیکن ہم نے اعتراف کر لیا ہے کہ ہم نے گناہ کیا ہے۔ جب ہم نے گناہ کیا ہے تو ہمیں شریعت کے ذریعہ اپنے آپ پر غور کرنے کے بعد اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا چاہئے ، یہاں تک کہ اگر ہم اچھے ہونے کے بہانے کبھی کبھی جسم کے ساتھ اچھےکام بھی کرتےہیں۔ ضرور ہے کہ ہم گناہ کےگناہ ہونے کا اعتراف کریں۔
ہم ایمان سے پاک ٹھہرے ہیں
پھر ہم یہ اعتراف کرنے کے بعد گناہ کے مسئلہ سے کیسے نمٹیں گے؟ کیا ہم اِس ایمان کے وسیلہ کہ یسوع نے یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بپتسمہ پانے کے وسیلہ ہمارے سب گناہوں کو اُٹھا لیا اور ہماری مخلصی کیلئے اُسکی عدالت ہوئی اور وہ ہمیں چھڑانے کیلئے صلیب پر چڑھ گیا؟— ہاں— ہم ایمان رکھتے ہیں کہ وہ سب گناہ جو جسم کے وسیلہ ہو چکے تھے جب یسوع نے بپتسمہ لیا تو اُس نے اپنے اوپر لاد لئے تھے۔پھر اِس عبارت کا کیا مطلب ہے کہ ” راستباز ایمان سے جیتا رہے گا؟ “
روح پر ایمان، رکھیں نہ کہ جسم پر۔ صرف خدا پر، اُسکے کلام پراور اُسکی شریعت پر ایمان لانا ہمیں پاک کر سکتا ہے اور اُس پر ایمان لانے کے بعد ہی وہ ہمیں پاک کر سکتا ہے۔کیا یہ سچ ہے یا نہیں؟ ہاں یہ سچ ہے۔اگر ہم گناہوں کی معافی حاصل کرنے کے وسیلہ راستباز ٹھہرتے ہیں تو بھی جسم ابھی تک کمزور اور کاملیت سے بہت دورہے۔ بائبل مقدس فرماتی ہے ” کیونکہ راستباز ی کے لئے ایمان لانا دل سے ہوتا ہے اور نجات کیلئے اقرار منہ سے کیا جاتا ہے“ (رومیو ں ۱۰:۱۰)۔ لیکن جسم ہمیشہ کمزور اور بے تمام ہے بالکل اُسی طرح جیسا کہ پولوس رسول کا تھا۔اِسلئے ،نہ تو ہم راستباز ٹھہر سکتے اور نہ ہی اِس جسم کے ذریعے راستبازی تک پہنچ سکتے ہیں۔جسم راستباز زندگی نہیں گزار سکتا۔
وہ واحد راستہ جس کے وسیلہ راستباز زندہ رہ سکتا ہےصرف خدا پر ایمان لانا، یعنی،گناہوں کی معافی، اور اُن نعمتوں کو قبول کرناہے جو خدا ہمیں دے چکا ہے۔پس ہم خدا کی اُس راستبازی پر ایمان لانےکے وسیلہ پاک گنےِ جا سکتے اور راُسکی راستبازی پر انحصار کرنے کے وسیلہ جو ہم نے اُس سے حاصل کی راستباز ٹھہر سکتے ہیں ،اور ابدی زندگی میں شامل ہو سکتے ہیں۔ہماری ابدی زندگی کا انحصار خدا پر ایمان لانے پر منحصر ہے۔ اسلئے بائبل فرماتی ہے کہ راستباز ایمان سے جیتا رہے گا۔ ہم ایمان کے وسیلہ پاک ٹھہرتے ہیں اور اِسی ایمان کے وسیلہ اپنی زندگیاں گزارنے سے خدا کی راستبازی کو پا لیتے ہیں۔ اگرچہ جسم ناراست ہے تو بھی یہ احمقانہ طور پر پاک ٹھہرنے کی کوشش کرتا ہے حالانکہ یہ ناممکن ہے۔ہم صرف تب ہی زندہ رہ سکتے ہیں جب ہم اُس پر ہمارے خُدا، ہمارے آقا، اور ہمارے چرواہا کے طورپر ایمان رکھتے ہوئے خُدا کی مدد حاصل کرتے ہیں۔
اِس لئے پولوس رسول فرماتا ہے، ” راستباز ایمان سے جیتا رہے گا “ وہ پرانے عہد نامہ میں سے حبقوق کی کتاب سے یہ اقتباس دے رہا ہے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے، ” اِس واسطے کہ اُس میں (خوشخبری) خدا کی راستبازی ایمان سے اور ایمان کیلئے ظاہر ہوتی ہے۔ “ خدا کی راستبازی کیا ہے؟کیا یہ بالکل انسانی راستبازی کی طرح ہے؟ کیا یہ ہمارے گناہوں کو تھوڑا تھوڑا کم کر کے ہمیں پاک ٹھہرائے گی؟کیا ہم کامل ہیں کیونکہ ہم یسوع پر یقین کرنے اور ایمان لانے کے بعد اور کوئی گناہ نہیں کرتے ہیں؟
صرف خوشخبری میں، خدا کی راستبازی ظاہر ہوئی ہے اور صرف یہی ہمیں گناہوں کی معافی کے وسیلہ پاک ٹھہرا سکتی ہے کیونکہ ہم جسم کہ وسیلہ کبھی راستباز نہیں ٹھہر سکتے ہیں۔ ” اِس واسطے کہ اُس میں خدا کی راستبازی ایمان سے اور ایمان کیلئے ظاہر ہوتی ہے۔“ اِس کا مطلب ہے کہ ہم صرف ایمان کے وسیلہ راستباز ٹھہرے ہیں۔ راستباز خدا پر ایمان لاکر راستباز ٹھہرنے کے بعد زندہ رہ سکتا ہے۔ راستباز خداکی راستبازی کو پانے اور ایمان کے وسیلہ اُس کی بر کتیں حاصل کرنے سے راستباز ٹھہرتا ہے۔
ضرور ہے کہ ہم ایمان سے زندہ رہیں۔
ایمان سے جیتے رہنا ایسا ہے کہ۔ ایک انسان ریت کے ذروں سے بھی زیادہ آسانی سے ریزہ ریزہ ہو جائے قطع نظر اِس کے کہ وہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو۔ وہ کہتا ہے ” کہ خداوند میں ایسا کرونگا۔“ تاہم، جسم ایسا نہیں کر سکتا ہے۔ ہم گناہوں کی معافی حاصل کرنے کے بعد خداوند پر ایمان لانے اور گناہ کی غلامی سے آزادی کے کلام اور شریعت پر ایمان لانے کے وسیلہ جیتے ہیں۔ اگر ہم ایمان کی زندگیوں کی راہنمائی لمبے عرصہ تک کریں تو کیا جسم اچھی طبع میں بڑھ سکتا اور خوبصورتی میں تبدیل ہو جاتا ہے؟ نہیں کبھی نہیں۔ اِسلئے ،ایمان کی زندگی مکمل طور سے خدا پر ایمان کے وسیلہ ملتی ہے۔ ہم خوشخبری پر مکمل ایمان کے وسیلہ راستباز ٹھہرتے ہیں اور خدا پر ایمان لانے کے وسیلہ ہم اُسکی نعمتوں کو پانے کے ذریعے زندہ رہتے ہیں۔
راستباز ایمان سے جیتا رہے گا۔یہ ہے،ہم خدا پر ایمان لانے کے وسیلہ زندہ رہتے ہیں۔ کیا آپ اِس پر ایمان رکھتے ہیں؟ — ہاں —کیا آپ اپنے جسم کے مختلف انداز اور طور طریقوں سے واقف ہو چکے ہیں؟ کیا آپ خیال کرتے ہیں، ’میں قبول کرتا ہوں کہ میرے جسم کا صرف%۲٠حصہ بھلا ہے اگرچہ میرا جسم باقی حصوں میں ابھی تک درست نہیں‘؟۔ تاہم بائبل مقدس بیان کرتی ہے کہ راستباز ایمان سے جیتا رہیگا۔ خدا کہتا ہے کہ کوئی بھی جسم کہ ذریعے زندہ نہیں رہ سکتا یہاں تک کہ% ١.٠بھی نہیں۔ کیا آپ
خداوند کے دوبارہ آنے تک پاک رہنا چاہتے ہیں اور جسم کے وسیلہ تھوڑی سی بھی توقع رکھتے ہیں؟
باوجود اِسکے کہ ہم کتنے ہی گناہ کر چکے ہیں ہم یسوع پر ایمان لانے کے وسیلہ راستباز ٹھہر سکتے ہیں۔ اگر ہم یسوع پر ایمان نہیں رکھتے تو ہم کتنے ہی بھلے کیوں نہ ہوں ،اسکےباوجود ہم جسم میں گنہگار ہیں۔ جب ہم یسوع پر %١٠٠ایمان رکھتے ہیں تو ہم مقدس ٹھہرائے جاتے ہیں لیکن اگر ہم یسوع پر %١٠٠ایمان نہیں رکھتے تو ہم گنہگار ٹھہرائے جاتے ہیں۔ کیا اگر ہم کم گناہ کرتے ہیں تو خدا خوش ہوتا ہے۔؟ اگر ہم جسم کے وسیلہ راستباز ٹھہریں تو کیا اِس سے خدا خوش ہو تا ہے؟
خدا کی راستبازی ہمیں راست ٹھہراتی ہے
رومیوں۳:١-۸کو دیکھیں، ” پس یہودی کو کیا فوقیت ہے اور ختنہ سے کیا فائدہ؟ ہر طرح سے بہت۔ خا ص کر یہ کہ خدا کا کلام اُنکے سپرد ہوُا۔ اگر بعض بے وفا نکلے تو کیا ہُوا؟ کیا اُنکی بے وفائی خدا کی وفاداری کو باطل کر سکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ خدا سچا ٹھہرئے اور ہر ایک آدمی جھوٹا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ تو اپنی باتوں میں راستباز ٹھہرے اور اپنے مقدمہ میں فتح پائے۔ اگر ہماری ناراستی خدا کی راستبازی کی خوبی کو ظاہر کرتی ہے تو ہم کیا کہیں؟ کیا یہ کہ خدا بے انصاف ہے جو غضب نازل کرتا ؟ (میں یہ بات انسان کی طرح کہتا ہوں)۔ ہرگز نہیں۔ ورنہ خدا کیونکر دنیا کا انصاف کریگا۔ اگر میرے جھوٹ کے سبب سے خدا کی سچائی اُس کے جلال کے واسطے زیادہ ظاہر ہوئی تو پھر کیوں گنہگار کی طرح مُجھ پر حکم دیا جاتا ہے؟ اور ہم کیوں برائی نہ کریں تاکہ بھلائی پیدا ہو؟ چنانچہ ہم پر یہ تہمت لگائی بھی جاتی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ انکا یہی مقولہ ہے مگر ایسوں کا مُجرم ٹھہرنا انصاف ہے “ (رومیوں۳:۱-۸)۔١
پولوس رسول نے فرمایا، ” اگر ہماری ناراستی خدا کی راستبازی کی خوبی کو ظاہر کرتی ہے تو ہم کیا کہیں؟ کیا یہ کہ خدا بے انصاف ہے جو غضب نازل کرتا ہے؟ “ کیا خدا ناراست اور غلط ہے جو ایک انسان کو جس کا جسم اپنے مرنے کے دن تک گناہوں میں رہتا ہے کو اپنے فضل کے وسیلہ چھڑا لیتا ہے۔ پولوس رسول نے جواب میں اُن سے کیاکہا ” ہماری کمزوریاں اور زیادہ ظاہر ہوں تاکہ خدا کی راستبازی جو ہمیں ہمارے سب گناہوں سے بچاتی ہے اور بڑھے۔ پولوس رسول اُن سے مخاطب ہے جو اِس خیال میں بھٹک رہے ہیں کہ ایک انسان جو اپنی تمام زندگی گناہ میں گرا رہتا ہے کیسے پاک ٹھہر سکتا ہے؟وہ فرماتا ہے کہ انسانی کمزوری خدا کی راستبازی کو ظاہر کرتی ہے۔ بنی نوع انسان کا جسم اُسکی آخری سانس تک گناہ سے بچنے میں اُسکی مدد نہیں کر سکتا بلکہ اپنی کمزوری کے وسیلہ خداکی راستبازی کی عظمت کو بیان کرتا ہے۔
اگر کوئی اپنی راستبازی اور اپنی کوششوں سے راستباز ٹھہر سکتا تو پھر خدا کی راستبازی کا مطلب کچھ نہیں، کوئی بھی خدا کے وسیلہ %۹۷اور% ۳بھی اپنے کاموں سے نجات نہیں پاسکتاہے۔پولوس کہتا ہے، خدا اکیلا ہی اُن سب کو جو اپنے مرنے تک گنہگار ہیں یسوع پر ایمان لانے کے وسیلہ اُنہیں کامل نجات دیتا ہے۔ اِس طرح ہماری ناراستی خدا کی راستبازی کی خوبی کو ظاہر کرتی ہے۔ جب تک جسم مر نہیں جاتا ہر روز گناہ سے بچنے میں مدد نہیں کر سکتا یہاں تک کہ یہ ایک دن کیلئے بھی کامل بننے کے لائق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یسوع نے خدا کی راستبازی کی کثرت کو ظاہر کر کے اِن ناکامل گنہگاروں کو کامل نجات عطا کی ہے۔ اِسلئے، پولوس رسول فرماتا ہے، ” چنانچہ ہم پر یہ تہمت لگائی بھی جاتی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ اُنکا یہی مقولہ ہے مگر ایسوں کا مجرم ٹھہرنا انصاف ہے “ (رومیوں۳ :۸)۔
کیا ہم خدا کے وسیلہ راستباز ٹھہر سکتے ہیں؟ کیا ہمارا جسم گناہوں کی معافی حاصل کرنے کے بعد کامل ٹھہر سکتا ہے؟ نہیں جسم ایسا نہیں کر سکتا۔ کیا میں اور آپ دنیا کے باقی تمام لوگوں کو اِس سوال سے باہر چھوڑ سکتے ہیں، کہ جسم کے وسیلہ راستباز ٹھہریں؟—نہیں — لیکن کیا خداوند ہمیں کامل طور پر نجات دے چکا ہے؟ — ہاں— خداوند ہمیں کامل طور پر ہمارے سب گناہوں سے نجات دے چکا ہے۔ اگر ہم یسوع پر پورے دل سے ایمان لاتے ہیں تو کیا ہم پھر بھی گناہ آلود ہی ہیں —نہیں — ہم ناراست ہی کیوں نہ ہوں اگر ہم یسوع پر پورے دل سے ایمان لاچکے ہیں تو پھر ہم پاک ہیں۔
خدا نے فرمایا، ” پھر تم سُن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ جھوٹی قَسم نہ کھانا بلکہ اپنی قَسمیں خداوند کیلئے پوری کرنا۔ لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ بالکل قَسم نہ کھانا۔ نہ تو آسمان کی کیونکہ وہ خدا کا تخت ہے۔ نہ زمین کی کیونکہ وہ اُس کے پاؤں کی چوکی ہے۔ نہ یروشلیم کی کیونکہ وہ بزرگ بادشاہ کا شہر ہے۔ نہ اپنے سر کی قَسم کھانا کیونکہ توایک بال کو بھی سفید یا کالا نہیں کر سکتا۔ بلکہ تمہارا کلام ہاں ہاں یا نہیں نہیں ہو کیونکہ جو اِس سے زیادہ ہے وہ بدی سے ہے “ (متی۵:۳۳ -۳۷)۔ قَسم کھانا خود ایک گناہ ہے کیونکہ آپ جو قَسم کھاتے ہیں اُسے پورا نہیں کر سکتے۔ اسلئے بعد میں کچھ کرنے کیلئے نہ تو قَسم کھائیں اور نہ ہی ضامن بنیں۔ صرف اُس کے کلام پر اعتقاد رکھیں، تو پھر آپ جیتے رہیں گے۔ اگر ہم اُس کی راستبازی پر ایمان رکھیں تو آپ راستباز ٹھہر سکتے ہیں اور اگر آپ اِس پر ایمان رکھیں تو خداوند ضرور آپ کی مدد کریگا۔
یہاں بہت سی بدعتیں ہیں۔ ہم جسم کا ایک معیار رکھتے ہیں اور اِس کے مطابق پرکھے جاتے ہیں کیونکہ ہم جسم کے خیمہ میں ہیں۔ اسلئے، ہمارے درمیان ایک پرکھنے والا ہے جو خدا کے کلام پر ایمان میں شریک نہیں ہے۔ ہمارے درمیان دو فیصلہ کرنے والے ہیں۔ ایک ہم خود اور دوسرا ہمارا خداوند یسوع المسیح ہے۔ اِسلئے یہ دونوں ہم پر حکومت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم جسم کی شریعت کی طرف زیادہ میلان کر لیتے ہیں اور اُس کے ساتھ ہی پرکھے جاتے ہیں۔ کیونکہ ہم جسم میں ہیں۔ جسم ہمیں بتاتا ہے، ” آپ اچھے ہیں حتیٰ کہ آپ برائی کرتے جائیں ۔ اگر آپ کا جسم %١٠٠راستباز نہیں تو میں آپکو راستباز ٹھہراؤں گا۔“ جسم کا پرکھنے والا ہمیشہ آپکو اچھے نمبر دیگا۔
تاہم ،خدا کی راستبازی کو پرکھنے والے کا مطالبہ ہے کہ ہم %١٠٠پاک ہُوں۔ وہی پاک ہیں جنہوں نے ایمان کے وسیلہ گناہوں کی معافی حاصل کر لی ہے اور رایمان کے وسیلہ راستباز ٹھہرائے گئے ہیں۔اِسلئے، اُس کی خوشخبری پر ایمان رکھیں جو پہلے ہی خداکی راستبازی تک پہنچ چکی ہے۔ ہم پہلے ہی راستباز ٹھہرائے جا چکے ہیں،جو خدا پر ایمان لاتے ہیں وہ واقعی جیتے رہیں گے۔ وہ خدا کی حمایت سے مبارک ٹھہرتے ہیں۔ راستباز ایمان سے جیتا رہے گا۔اِس کا مطلب ہے کہ بے ایمان اور وہ جو جسم کے اعتبار سے زندہ ہیں زندہ نہ رہیں گے۔ میں آپکو ایک بہت بڑی تصویر کا صر ف ایک چھوٹا سا حصہ ہی بتا رہا ہوں۔ میں آپکو بار بار یہ بتا رہا ہوں اور اِسکے مفہوم کو تفصیلاً بیان کر رہا ہوں، اُسی طرح جیسے ہم ہڈیوں کو بار بار اُس وقت تک اُبالتے ہیں جب تک یہ سفید سُوپ میں نہ بدل جائے۔
ہمیں ایمان کی ضرورت ہے
بائبل مقدس کو جاننا بہت ضروری ہے، لیکن یہ جاننا زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ ہم کتنا ایمان رکھتے
ہیں۔ بعض لوگ کتابِ مقدس میں صرف خدا کی تخلیق پر ہی یقین رکھتے ہیں۔ بعض لوگ دونوں خدا کے آسمان و زمین کو خلق کرنے اور یسوع مسیح کے صرف حقیقی گناہوں کو دھونے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ ایمان رکھتے ہیں کہ اُن کے روزانہ کے گناہ ہر روز دور ہو جایا کریں گے۔وہ جسم کی شریعت کے مطابق اپنی عدالت خود کرتے ہیں۔ ہم کتنا ایمان رکھتے ہیں؟ راستباز ایمان سے جیتا رہے گا۔ راستباز ٹھہرنا اور زندہ رہنا صرف ایمان کے وسیلہ ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ اِبتدا سے لےکر انتہا تک ،ہمیں خدا پر ایمان رکھنے کی ضرورت ہے۔
اسلئے آپ کتنا ایمان رکھتے ہیں؟ کیا آپ نے کبھی نفسانی خیالات میں جکڑ کر یہ خیال کرتے ہوئے اپنے آپکو جانچا ہے ” میں بالکل ٹھیک ہوں “ میرا جسم بہت اچھاہے یا ’ میَں‘ ایمان لانے میں بہت کمزور ہوں۔ کیا آپ نے اپنا حساب کرتے وقت اپنے آپ کو آج %۸۰اور اگلے دن %۹۵نمبر دیئے ہیں لیکن یہ خیال کرتے ہوئے کہ اگر میں پیدا نہ ہوتا تو میرے لئے اچھا ہوتا، ا گلے دنوں میں صرف%۵نمبر دیئے ہوں،کیا آپ ایسا سوچتے ہیں؟ — ہاں — میں ایسا کرتا ہوں۔
بعض اوقات تو میں سنجیدگی سے ایسا سوچتا ہوں۔حتیٰ کہ جب میں اپنے آپ کو تسلی دے رہا ہوتا ہوں، تو بھی میں یہ خیال کرتا ہوں، ” اگر میں خداوند کو نہ جانتا اور نہ اُس پر ایمان لاتا تو یہ میرے لئے بہتر ہوتا۔ ایمان کے وسیلہ ایک نذر کی ہوئی زندگی گذارنا مشکل سے مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اَب تک تو یہ بہت خوفناک ہو چکا ہے۔ میں ماضی کو یکجا کرنے اور مستقبل کو دیکھنے کے لئے ایک مشکوک حالت میں ہوں۔ میں ایمان سے زندگی بسر کرنے سے ابھی تک کسی نہ کسی طرح قابلِ تعریف ہوں۔ لیکن خداوند اَب سے میں تیرے ساتھ پورے طور پر چلنے کے قابل نہ ہونگا۔ جب سے میں نے تجھے جانا ہے میں گناہ میں کتنااحساس ہو چکا ہوں۔جب سے میں نے تجھے جانا ہے تب سے بہت سے خیالات اور تصورات مجھ سے باہر آچکے ہیں۔ میں تجھے بالکل جانے بغیر ہی، اے خداوند، تیری معمولی سی پیروی کر چکا ہوں۔ لیکن اَب ،مجھ میں تیری اور زیادہ پیروی کرنے کے لئے کوئی خود اعتمادی باقی نہیں رہی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ خدا پاک اور کامل ہے۔ اوہ! خداوند، میں اور زیادہ تیری پیروی نہیں کر سکتا۔ مجھے اعتماد نہیں ہے۔ “
اِسلئے، خدا وند ہمیں بتاتا ہے کہ ایمان سے زندہ رہیں کیونکہ وہ ہمیں بہتر طور پر جانتا ہے۔ وہ کہتا ہے، ” ضرور ہے کہ تم راستباز رہو اور ایمان کے وسیلہ مبارک ٹھہرو۔ تمہارے سب گناہ یسوع مسیح پر اُسکے بپتسمہ کے وسیلہ لاد دیئے گئے تھے۔ جب بھی میں تمہارے جسم کو شریعت کی کسوٹی پر پرکھتا ہوں تو تم ہمیشہ گناہ کرتے ہو۔ اِ سلئے اعتراف کرو کہ تم گناہ کو روکنے میں مدد نہیں کر سکتے۔ کیا آپ کا نجات دہندہ آپ کے سب گناہ اُٹھا لے گیا ہے یا نہیں؟— ہاں ،اُس نے ایسا کیا —کیا آپ کے سب گناہ آپکے نجات دہندہ پر لادے گئے یا نہیں؟ — ہاں — تو کیا آپ گناہ میں ہیں یا نہیں؟ —نہیں —کیا خداوند نے آپکو مخلصی دی ہے یا نہیں؟— ہاں — تو پھرگہرے اور سیاہ دن نور سے روشن دنوں میں ایک گیت کے اُن الفاظ کی طرح بدل جائیں گے کہ: ” آج میری روح میں نور سورج کی طرح چمک اُٹھا۔“
ہم دوبارہ گنہگار نہیں ٹھہر سکتے
جب ہم مستقبل کے متعلق سوچتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ ہم نا اُمید ہوں، لیکن جب ہم ایمان سے خداوند کی طرف دیکھتے ہیں تو یہ تابندہ اور روشن ہے۔ اِس لئے ،خدا کہتا ہے کہ راستباز ایمان سے جیتا رہے گا۔ کیا آپ اِس پر ایمان رکھتے ہیں؟— ہاں — ہم نے ایمان کے وسیلہ ہی مخلصی پائی اور اِسی کے وسیلہ زندہ بھی رہتے ہیں۔ کیا ہم اِس پر ایمان رکھتے ہیں؟ ہم خدا پر ایمان لانے کے وسیلہ زندگی پاتے ہیں۔ صرف راستباز ہی ایمان سے جیتا رہے گا۔کیا آپ یہ ایمان رکھتے ہیں؟ — ہاں — کیا آپ جسم کو سدھارنے کے ذریعے خدا کی راستبازی کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔—نہیں — جب جسم برائی کرتا ہے توکیا خدا کی راستبازی بے اثر ہو جاتی ہے۔ کیا ہم پھر گنہگار بن جاتے ہیں؟ —نہیں— پولوس رسول نے گلتیوں۲:۱۸میں فرمایا، ” کیونکہ جو کچھ میں نے ڈھا دیا اگر اُسے پھر بناؤں تو اپنے آپکو قصور وار ٹھہراتا ہوں۔ “ جو ایمان رکھتا ہے کہ اُسکے گناہ بپتسمہ کے وسیلہ یسوع مسیح پر لاد دیئے گئے تھے اور یہ کہ اُسکے گناہوں کی خاطر صلیب پر اُسکی عدالت ہوئی ایسا شخص پھر کبھی بھی گنہگار نہیں ہو سکتا۔ ایک شخص جو یسوع کا انکار نہیں کرتا، فی الفور پاک اور بے گناہ ٹھہرایا جاتا ہے کیونکہ اُسکے سب گناہ اُس پر لادے گئے اور وہ پھر کبھی دوبارو گنہگار نہیں ہو سکتا ہے۔کیا آپ نے اُسے پالیا ہے؟ — ہاں—
خدا جس نے ہمیں مخلصی دی ہمیشہ ہمارا خداوند اور ہمارا باپ ہے۔ خدا ہمیشہ ہماری مدد کرتا ہے اور دنیا کے آخر تک ہمارے ساتھ ہے۔ اِسکا سبب یہی ہے کہ وہ کہتا ہے ’’ ایمان سے زندہ رہیں۔ اگر تم مجھ پر ایمان رکھو گے تو میں تمہاری مدد کروں گا۔ جو نئے سرے سے پیدا ہوتے ہیں فرشتے آکر اُنکی خدمت کرتے ہیں۔ “ فرشتے ہمارے اور خدا کے درمیان خادم ہیں۔ وہ خداوند کو ہمارے متعلق ہر ایک بات بتاتے ہیں۔ خدا ہمیں اپنے فرزند ٹھہراتا ہے۔ ہم فطری طور پر گنہگار تھے۔ ہم جسم کے کاموں کے وسیلہ کبھی راستباز نہیں ٹھہر سکتے ہیں ،لیکن ہم ایمان کے وسیلہ راستباز ٹھہرائے جا چکے ہیں۔
ہم خداوند کا شکر ادا کرتے ہیں۔ خداوند ایمان کے وسیلہ ہمارا چوپان اور باپ بن چکا ہے۔