> خروج ۲۶:۱۵۔۳۷ <
” اور تُو مسکن کے لِئے کِیکر کی لکڑی کے تختے بنانا کہ کھڑے کِئے جائیں۔ہر تختہ کی لمبائی دس ہاتھ اور چَوڑائی ڈیڑھ ہاتھ ہو۔اور ہر تختہ میں دو دو چُولیں ہوں جو ایک دُوسری سے مِلی ہُوئی ہوں۔ مسکن کے سب تختے اِسی طرح کے بنانا۔اور مسکن کے لِئے جو تختے تُو بنائے گا اُن میں سے بِیس تختے جنُوبی سِمت کے لِئے ہوں۔اور اِن بِیسوں تختوں کے نِیچے چاندی کے چالِیس خانے بنانا یعنی ہر ایک تختہ کے نِیچے اُس کی دونوں چُولوں کے لِئے دو دو خانے۔اور مسکن کی دُوسری طرف یعنی شِمالی سِمت کے لِئے بِیس تختے ہوں۔اور اُن کے لِئے بھی چاندی کے چالیس ہی خانے ہوں یعنی ایک ایک تختہ کے نِیچے دو دو خانے۔اور مسکن کے پِچھلے حِصّہ کے لِئے مغرِبی سِمت میں چھ تختے بنانا۔اور اُسی پَچھلے حِصّہ میں مسکن کے کونوں کے لِئے دو تختے بنانا۔یہ نِیچے سے دُہرے ہوں اور اِسی طرح اُوپر کے سِرے تک آ کر ایک حلقہ میں مِلائے جائیں۔ دونوں تختے اِسی ڈھب کے ہوں۔ یہ تختے دونوں کونوں کے لِئے ہوں گے۔پس آٹھ تختے اور چاندی کے سولہ خانے ہوں گے یعنی ایک ایک تختہ کے لِئے دو دو خانے۔اور تُو کِیکر کی لکڑی کے بینڈے بنانا۔ پانچ بینڈے مسکن کے ایک پہلُو کے تختوں کے لِئے۔اور پانچ بینڈے مسکن کے دُوسرے پہلُو کے تختوں کے لِئے اور پانچ بینڈے مسکن کے پِچھلے حِصّہ یعنی مغرِبی سِمت کے تختوں کے لِئے۔اور وسطی بینڈا جو تختوں کے بِیچ میں ہو وہ خَیمہ کی ایک حد سے دُوسری حد تک پُہنچے۔اور تُو تختوں کو سونے سے منڈھنا اور بینڈوں کے گھروں کے لِئے سونے کے کڑے بنانا اور بینڈوں کو بھی سونے سے منڈھنا۔اور تُو مسکن کو اُسی نمُونہ کے مُطابِق بنانا جو پہاڑ پر تُجھے دِکھایا گیا ہے۔اور تُو آسمانی۔ ارغوانی اور سُرخ رنگ کے کپڑوں اور بارِیک بٹے ہُوئے کتان کا ایک پردہ بنانا اور اُس میں کِسی ماہر اُستاد سے کرُّوبیوں کی صُورت کڑھوانا۔اور اُسے سونے سے منڈھے ہُوئے کِیکر کے چار سُتُونوں پر لٹکانا۔ اِن کے کُنڈے سونے کے ہوں اور چاندی کے چار خانوں پر کھڑے کِئے جائیں۔اور پردہ کو گُھنڈیوں کے نِیچے لٹکانا اور شہادت کے صندُوق کو وہیں پردہ کے اندر لے جانا اور یہ پردہ تُمہارے لِئے پاک مقام کو پاکترین مقام سے الگ کرے گا۔اور تُو سرپوش کو پاکترین مقام میں شہادت کے صندُوق پر رکھنا۔اور میز کو پردہ کے باہر دھر کر شمعدان کو اُس کے مُقابل مسکن کی جنُوبی سِمت میں رکھنا یعنی میز شِمالی سِمت میں رکھنا۔اور تُو ایک پردہ خَیمہ کے دروازہ کے لِئے آسمانی ارغوانی اور سُرخ رنگ کے کپڑوں اور بارِیک بٹے ہُوئے کتان کا بنانا اور اُس پر بیل بُوٹے کڑھے ہُوئے ہوں۔اور اِس پردہ کے لِئے کِیکر کی لکڑی کے پانچ سُتُون بنانا اور اُن کو سونے سے منڈھنا اور اُن کے کُنڈے سونے کے ہوں جِن کے لِئے تُو پِیتل کے پانچ خانے ڈھال کر بنانا۔ “
خیمۂ اِجتماع بذاتِ خود ۴۸ تختو ں کے ساتھ تعمیر کِیا گیا تھا؛ بیس بیس تختے شمالی اور جنوبی سمتوں کے لئے، چھ تختے مغربی سمت کے لئے، اور دو تختے عقبی دوکونوں کے لئے تھے۔ ہر تختے کی لمبائی ۵.۴ میٹر(۱۵فٹ) اورچوڑائی تقریباً۵.۶۷سینٹی میٹر(۲.۲فٹ) تھی۔ ہر تختے کو سیدھا کھڑا کرنے کے لئے، دو چاندی کے خانے اور دو چولیں تھیں جو ایک دوسرے کے ساتھ درست طریقےسے جڑے ہو ئے تھے۔ یہ ہمیں ایک بار پھر دکھاتا ہے کہ خُدا کی نجات صرف اُس کے فضل سےمسیح پر ایمان رکھنےکی بدولت ملتی ہے۔
مسیح میں ایمان کے وسیلے فضل سے نجات
زیادہ تر مسیحی جانتے ہیں اور یہاں تک کہ اِفسیوں ۲:۸۔۹ کے مشہور اقتباس کی تلاوت کرتے ہیں، ” کیونکہ تُم کو اِیمان کے وسِیلہ سے فضل ہی سے نجات مِلی ہے اور یہ تُمہاری طرف سے نہیں۔ خُدا کی بخشِش ہے۔اور نہ اَعمال کے سبب سے ہے تاکہ کوئی فخر نہ کرے۔ “ لیکن بدقسمتی سے، وہ نہیں جانتےکہ اُس کا فضل حقیقتاً کیا ہے اور اُنھیں نجات یافتہ ہونے کے لئے کس قِسم کا ایمان رکھنا چاہیے۔ تاہم، چاندی کے دوخانوں اور دو چولوں کا بھید جو درست طورپر اکٹھے جڑے ہوئے تھے ہمیں واضح طورپر خُدا کی نجات کے بھیدکو دکھاتا ہے۔
تختوں کی بنیاد پر رکھی گئیں”دو دو چولوں اور چاندی کے دو دوخانوں“ کی سچائی کوسمجھنےکےلیے،ہمیں پہلے خوشخبری کی بنیادی سچائی کو جاننے کی ضرورت ہے۔ خیمۂ اِجتماع کے سارے دروازے آسمانی، ارغوانی، اور سُرخ دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان سے بُنے ہوئے تھے۔ یہ چار رنگ ہمیں دکھاتے ہیں کہ ہمارے واسطے اپنے گناہوں اور تباہی سے نجات یافتہ ہونے کے لئے، بپتسمہ اور یِسُوعؔ کا خون ضروری تھا۔ اور وہ ہمیں یِسُوعؔ کی نجات کی سچائی پر، کسی بھی شک سے آزاد ایمان رکھنے کے قابل کرتے ہیں۔ ہمیں یقیناً سچائی کا واضح علم رکھنا چاہیے جو ہمیں بچا چکا ہے، جو آسمانی، ارغوانی، اور سُرخ دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان میں ظاہر کِیا گیاہے، اور اِس پر ایمان رکھنا چاہیے۔
یِسُوعؔ نے فرمایا، ” اور سچّائی سے واقِف ہو گے اور سچّائی تُم کو آزاد کرے گی “ (یوحنا ۸:۳۲)۔ اِس طرح، ہم سب کواِس روحانی سچائی کو جاننے کی معرفت جو خیمۂ اِجتماع کے پردےکے دروازہ اور پاکترین مقام کے پردہ میں ظاہر کیے گئے چار رنگوں میں پوشیدہ ہے اپنے گناہوں کی کامل معافی حاصل کرنی چا ہیے۔آسمانی،ارغوانی، اور سُرخ دھاگہ اور باریک بٹا ہواکتان خیمۂ اِجتماع کے دروازہ کا سامان ہیں۔
دوسرے لفظوں میں، یِسُوعؔ مسیح ہمارا نجات دہندہ،اور ایمان رکھنےوالوں کا بادشاہ ہے ،جوہمیں ایک ہی بار یوحنا ؔ سے بپتسمہ لینے اور ایک ہی بار ہمیشہ کے لئے اپنے ذاتی بدن پر ہمارے تما م گناہوں کو اُٹھانے کے وسیلہ سے، اور دنیا کے گناہوں کو لے جانے اور صلیب پر اپنا خون بہانے کے وسیلہ سے دنیا کے تمام گناہوں سے ہمیں نجات دے چکا ہے۔ یہ کہ یِسُوعؔ مسیح، جو بادشاہ ہے، یقینی طورپر ہمیں ہمارے گناہوں سے بچا سکتا تھا کیونکہ اُ س نے بپتسمہ لیا تھااور مصلوب کِیاگیاتھا۔اِس لئے، آسمانی اور سُرخ دھاگے ہمیں واضح اور یقینی سچائی کےبارےمیں بتاتے ہیں جنھیں اپنے گناہوں سے نجات یافتہ ہونے کے لئے ہم چھوڑ نہیں سکتے۔ ہمارے گناہوں کو اُٹھانے کے لئے، یِسُوعؔ نے یوحناؔ سے بپتسمہ لیا، اور دنیا کے گناہوں کو اُٹھانے اور صلیب پر اپنا خون بہانے کے وسیلہ سے، وہ ہمیں ایک ہی بار ہمیشہ کے لئے ہمارے تمام گناہوں سے، یوں اپنا نجات کا کام مکمل کرتے ہوئے بچا چکا ہے۔
یہاں، ہمیں یقیناً ایمان رکھنا چاہیے کہ آسمانی دھاگہ(یِسُوعؔ کا بپتسمہ)، سُرخ دھاگہ (اُس کا خون بہانا)، ارغوا نی دھاگہ (وہ ہمارا بادشاہ ہے)، اور باریک بٹے ہوئے کتان (وہ وسیع و عریض کلام کا خُدا ہے، اور ہمیں راستباز بنا چکا ہے) ہماری نجات کے لئے استعمال ہونےوالے تمام مواد ہیں۔ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ اگر اِس کے باوجود ہم اِن میں سے صرف ایک پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے اپنے تمام گناہوں سے نجات یافتہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں، تب ایسی نجات مکمل نہیں ہوگی۔ کیوں؟ کیونکہ خیمۂ اِجتماع کے ہر تختے کی بنیاد پر، تختے کو سہارا دینے کے لئے دو دو چولیں باہر کونکلتی ہوئی چاندی کے خانوں میں لگی ہوئی تھیں۔
کلامِ مقدس میں چاندی خُدا کے فضل، یعنی خُداکی بخشش کو ظاہر کرتی ہے۔ اور رومیوں ۵:۱۔۲ میں یوں لکھا ہوا ہے، ” پس جب ہم اِیمان سے راست باز ٹھہرے تو خُدا کے ساتھ اپنے خُداوند یِسُوعؔ مسِیح کے وسِیلہ سے صُلح رکھّیں۔جِس کے وسِیلہ سے اِیمان کے سبب سے اُس فضل تک ہماری رسائی بھی ہُوئی جِس پر قائِم ہیں اور خُدا کے جلال کی اُمّید پر فخر کریں۔ “ ہماری نجات کی ضمانت ہمیں تب ہی مل سکتی ہے جب ہمارا ایمان خُد اکے فضل کو درست طریقےسےپوراکرتا ہے۔ بالکل جس طرح خیمۂ اِجتماع کے ہر تختے کی بنیاد پر دو دو چولیں تھیں، اور یہ چولیں تختے کو سہارا دینے کے لئے چاندی کے خانوں میں لگی ہوئی تھیں، خُدا ہمیں بتارہا ہے کہ ہماری نجات تب مکمل ہوتی ہے صرف جب ہم اِسی طرح دونوں یِسُوعؔ کے بپتسمہ اور صلیبی خون پر ایمان رکھتے ہیں۔
ہم سب کو اِس وجہ اور حقیقی جوہر پر ایمان رکھنا ہے کہ کیوں ہر تختے میں باہرکو نکلی ہوئی دو دو چولیں تھیں۔
یہ دو خانے اور تختے کی دو چولیں پانی اور روح کی خوشخبری کا عکس ہیں، یعنی نئے عہد نامہ کے دَور میں یِسُوعؔ مسیح آئے گا، یوحناؔ اصطباغی سے بپتسمہ لے گا، مصلوب ہو گا، اپنا خون بہائے گا اور صلیب پر مر جائے گا، اور یوں ہماری نجات کو مکمل طورپر پورا کرے گا۔
گناہ کی معافی کا فضل،دوسرے لفظوں میں، صرف اُن دلوں پر اُنڈیلا جاتا ہے جو اپنی راست نجات پر حقیقتاً ایمان رکھتے ہیں جو یِسُوعؔ نے یوحناؔ سے بپتسمہ لینے اور اُن کے گناہوں کو مٹانے کے لئے صلیب پر اپنا خون بہانے کے وسیلہ سے پوری کی۔اِس طرح، اپنے گناہوں سے نجات یافتہ ہونے کے لئے، ہمیں ایمان کی ضرورت ہے جو یِسُوعؔ کے اِن دو کاموں پر ایمان رکھتا ہے۔ درحقیقت، خیمۂ اِجتماع کی ہر چیز یِسُوعؔ کا تفصیلی خاکہ فراہم کرتی ہے جو ہمیں ہمارے گناہوں سے بچا چکا ہے۔ یہ بِلا وجہ نہیں تھا کہ خُداوند نے اسرائیلیوں کو خیمۂ اِجتماع کے ہر تختے کے لئے دو دو چولیں اور چاندی کے دو دو خانے استعمال کرنے کا حکم دیاتھا۔
ہمیں ہمارے تمام گناہوں اور گناہ کی ساری لعنت سے مکمل طور پر بپتسمہ اور خون بہنے کے
کاموں کے وسیلہ سے بچایا اور آزاد کِیا گیا ہے جو خُدا ہمیں دے چکا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں، پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے ہی ہم خُدا کے بیٹے بننے کا حق حاصل کر چکے ہیں۔ ہمارا یمان جو خالص سونے کی مانند ہے خُد اکی اِس بخشش کوحاصل کرنے کے وسیلہ سے تعمیر ہو چکا ہے۔
کیا آپ ابھی تک نہیں جانتےکہ آپ واقعی کون ہیں حتیٰ کہ گو آپ یِسُوعؔ پر ایمان رکھتے ہیں؟
کیا آپ خود کو اچھاسمجھتے ہیں؟ کیا آپ اپنےآپ سے سوچتے ہیں کہ آپ ایک راست کردار رکھتے ہیں جو کسی بھی حالت میں اور کسی بھی شکل میں کسی بھی طرح کی ناراستی کو برداشت نہیں کرسکتا؟ کیا آپ کولگتاہے کہ آپ خُدا کے سامنے کسی نہ کسی طرح راستباز ہیں، صرف اِس وجہ سے کہ آپ خُدا کے احکام کو اپنے دلوں میں ہر روز قائم رکھتے ہیں اور انہیں ماننے اور اپنی زندگیوں میں اِن پر عمل کرنےکی کوشش کرتے ہیں؟ سب جو ہم کر رہے ہیں محض راستباز ہونے کا بہانہ کررہےہیں، جب کہ ہم پوشیدگی میں زناکاری اور حرامکاری کر رہے ہیں۔
آج کل،سینکڑوں چینل کیبل یا سیٹلائٹ ٹی وی سے دیکھنے کے لئے دستیاب ہیں۔ دن میں چوبیس گھنٹے چلنےوالے یہ چینل اپنے خصوصی پروگرام چلاتے ہیں اور اُنھیں مسلسل پیش کرتے ہیں۔ اِن چینلوں میں، سب سے زیادہ تجارتی طورپر کامیاب خصوصی چینل، سب سے بڑھ کر،نو جوانوں کے چینل ہیں۔ ایسے بہت سارے نوجوانوں کے چینل موجود ہیں جہاں ہر قِسم کافحش موادمحض اِن چینلوں کو پلٹ کر، دیکھنے کےلیےدستیاب ہے۔فحش ویب سائٹوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ، فحش ای میلوں کا ایک سیلاب اب دنیا کو طوفانِ نوحؔ کی طرح ڈبو رہاہے۔ ہر کوئی اِن فحش ویب سائٹوں کی بدکاریوں کی مذمت کرتا ہے، لیکن جب ہم ”سپلائی اور ڈیمانڈ کے قانون“ کے بارے میں سوچتے ہیں،تو اُن کی کامیابی کا مطلب صرف یہ ہو سکتا ہے کہ بے شمار لوگ اپنی پوشیدگی میں واقعی ایسی ویب سائٹوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
یہ عمل ہمیں دکھاتا ہے کہ ہم بنی نوع انسان بنیادی طورپر گناہ آلودہ اور فحش ہیں۔ کلام ِ مقدس
حرامکاری،زناکاری، اور شہوت پرستی کو بیان کرنے کے وسیلہ سے بنی نوع انسان کے گنہگار دلوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ خُدا نے فرمایا کہ یہ باتیں لوگوں کے دلوں میں سے نکلتی ہیں اور اُنھیں ناپاک کرتی ہیں،اور یہ واضح طور پر گناہ ہیں۔تو کیا ہم سب گناہ سے بھرے ہوئے نہیں ہیں؟ خُدانے بار بار فرمایا ہمارے اندر جوخصوصیات ہیں وہ گناہ ہیں۔
لیکن کیا ہم واقعی اِسے تسلیم کرتے ہیں؟ یہ کیسے ہے؟ کیا ہم اپنی آنکھیں بند کرکےاور کانوں کو ڈھانپ کر گنا ہ کی اُن خصوصیات سے بچ سکتے ہیں جو ہمارے اندر ہیں؟ ہم بچ نہیں سکتے بلکہ اپنے ذہنوں اور خیالات کے تصورات کے ساتھ ہر قِسم کے گناہ کرتے ہیں۔ کوئی معنی نہیں رکھتا ہم اپنے آپ کو کتنا ہی بتاتے ہیں کہ ہمیں ایسے گناہوں سے دُور بھاگنا ہے، اور اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم ایسا کرنے کے لئے کتنی کوشش کرتے ہیں، وہ سب فضول ہیں۔در حقیقت ، ہمارا جسم ایسا ہے کہ نہ صرف ہم کبھی بھی کامل مقدسین بن سکتے ہیں جو کوئی جسمانی گناہ نہیں کرتے، بلکہ ہم حقیقتاً اِ س سے دُور ہونے کی خواہش نہ ہونے کی وجہ سے گناہ کرنے سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ بنی نوع انسان کے جسم اور دل ہمیشہ اُن چیزوں سے دُور ہیں جو پاک ہیں، اور یہ ایک حقیقت ہے، مزید برآں، وہ نہ صرف گناہ کے قریب ہونا چاہتے ہیں، بلکہ وہ حتیٰ کہ زیادہ بڑے گناہ سرزد کرنا چاہتے ہیں۔
مشرق میں، بہت سارے لوگ اپنی پیدائش سے کنفیوشس کی تعلیمات سیکھتے ہیں، اور اِس لیے وہ اِن تعلیمات پر عمل کرنے کی سخت کوشش کرتے ہیں۔ دوسری طرف، مغرب میں،کیتھولک پرستی یا شرعی مسیحی کلیسیاؤں نے اِس کے مذہبی منظر نامے پر غلبہ حاصل کر لیا ہے، اور بہت سارے مغربی باشندے خُدا کی شریعت کو قائم رکھنے کی سخت کوشش کر چکے ہیں، یہ سوچتے ہوئے کہ وہ پاک سے پاک تر ہو سکتے ہیں جتنی دیرتک وہ زیادہ سے زیادہ سخت کوشش جاری رکھتے ہیں۔ لیکن اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اُن کا مذہبی پس منظر کچھ بھی ہو، جب وہ اپنے آپ کو خُداکے سامنے پیش کرتے ہیں اور اپنے حقیقی خول کی پرت اُتارتے ہیں،تو وہ سب محض گناہ کے ڈھیر اور بدکاروں کی نسل جیسے ہیں۔
بنی نوع انسان ناراست، عیبوں سے بھرپور، اور خاک اور راکھ سے بنے ہوئے گناہ کے ڈھیر ہیں۔ حتیٰ کہ نیک نظر آنے والے لوگ جواچھے اعمال نیک نامی کے لئے نہیں بلکہ اپنے خلوصِ دل سے کرتے ہیں، اور جو حقیقی طورپر اپنے نیک اعمال کی کوئی تعریف حاصل کرنے پر بے قرار ہوتے ہیں، حقیقت سے بچ نہیں سکتے کہ جب اُن کے بنیادی وجود خُدا کے سامنےظاہر ہوتے ہیں،تو وہ گناہ کے ڈھیر اور بدکاروں کی نسل ہیں۔ کیونکہ بنی نوع انسان کی راستبازی کی وکالت کرنا خُدا کے سامنے گناہِ کبیرہ ہے، لوگ گناہ کی سزا سے بچ نہیں سکتے جب تک وہ اپنی سزا کو نہیں پہچانتے اور پانی اور رو ح کی خوشخبری یعنی خُدا کی محبت کو قبول نہیں کرتے۔ خُدا کے سامنے،بنی نوع انسان کی کوششیں کسی بھلائی کی ترجمانی نہیں کر سکتی، حتیٰ کہ مٹی کے ذرے کے برابر بھی نہیں، اور بنی نو ع انسان کی مرضی اُس کے سامنے محض گندگی ہے۔
کلامِ مقدس میں، بنی نوع انسان کو اکثر لکڑی کے طورپر خیال کِیا گیا ہے۔ کیکر کی لکڑی کا ٹکڑا بذاتِ خود خُدا کی ہیکل کے داخلہ پر ایک ستون کے طورپر اُٹھایانہیں جا سکتا جب تک خُدا پہلے اُنھیں سونے کے ساتھ نہ منڈھتا۔ اور خُداکی معرفت بخشے گئے نجات کے فضل کے بغیر، لوگ خاک سے زیادہ کچھ نہیں ہیں جو بچ نہیں سکتے بلکہ آگ کی سزا کا سامناکرتے۔
تاہم، خُدا نے ہمارے تمام گناہوں اور خطاؤں کو یِسُوعؔ مسیح مسیحا کو بپتسمہ دلوانے اور موت تک خون بہانے کے وسیلہ سے دُور کر دیا، حتیٰ کہ ہم صرف گنہگارو ں کے طورپر رہے۔ اِس نجات کی مسیحا کے آنے سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے داؤد ؔ بادشاہ کی زبانی تفصیل سے پیشینگوئی ہوئی تھی: ” جَیسے پُورب پچھم سے دُور ہےوَیسے ہی اُس نے ہماری خطائیں ہم سے دُورکر دِیں جَیسے باپ اپنے بیٹوں پر ترس کھاتا ہے وَیسے ہی خُداوند اُن پر جو اُس سے ڈرتے ہیں ترس کھاتا ہے۔کیونکہ وہ ہماری سرِشت سے واقِف ہے۔اُسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں۔ “ (زبور ۱۰۳:۱۲۔۱۴)۔
خُدا کی راستبازی کوجاننے سے پہلے، بنی نوع انسان کی راستبازی ہماری زندگی کا معیار بن چکی تھی۔ مَیں، بھی، ایساہی تھا جب مَیں خُدا کی نجات کی بخشش کو نہیں جانتا تھا اور اُس کے کلام پر ایمان نہیں رکھتا تھا۔ درحقیقت ، مَیں اپنی کوئی راستبازی نہیں رکھتا تھا، لیکن مَیں پھر بھی اپنے آپ کو مہذب سمجھتا تھا۔ اِس لیے میرے بچپن سے لے کر،اب تک بہت سارے موقع موجودہیں جب مَیں بے انصافی برداشت نہ کر سکا اور حتیٰ کہ لوگوں کے ساتھ لڑ پڑا جن کے مقابلے کا مَیں نہیں تھا۔ ”ایک راست زندگی گزارنا“ میرا مقصد بن چکا تھا۔ اِس طرح، کیونکہ مَیں خُدا کے سامنے اپنے آپ کو دیکھنے میں ناکام ہو چکا تھا، مَیں اپنی ذاتی راستبازی سے بھرا ہوا تھا۔ پس مَیں نے اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ بہتر سمجھا اور راستباز ی سے زندہ رہنے کی بھرپور کوشش کی۔
لیکن میرےجیساوجود خُدا کی راستبازی کے سامنے محض ایک گناہ کے ڈھیر سے زیادہ نہیں تھا۔ مَیں کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو دس احکام یا ۶۱۳ قوانین میں سے ایک کوبھی برقرار رکھ سکتا تھا جس پر عمل کرنے کا خُد انے حکم دیاتھا۔ حقیقت یہ کہ مَیں اُنھیں قائم رکھنے کا ارادہ رکھتا تھا بذاتِ خود ایک ناراست عمل تھا جس نے خُدا کے کلام کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے مجھےگناہ کی سِوا کچھ کرنے سےمکمل طورپر نا اہل قرار دیا، اور یہ اُس پاک ذات کے خلاف تھا۔ بنی نوع انسان کی ساری راستبازی خُدا کے سامنے محض ناراستی ہے۔
یہ نسل، جس نے شہوت پرستی اور بدکاری کے سیلاب میں خُدااور اُس کی شریعت کو کھو دیا ہے، گناہ کا کوئی بھی شعور گنوا چکی ہے۔ تاہم، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ہم بنی نوع انسان بچ نہیں سکتے بلکہ ہر روز گناہ کرتے ہیں اور اِس لئے ہم بِلا مستثنیٰ جہنم میں جانے کا مقدر رکھتے ہیں۔
ہم ناراست اور گناہ سے بھرےہوئےتھے،لیکن اب خُداوند نے ہمیں پانی اور روح کی خوشخبری سےہمارےگناہوں سے بچا کر اپنے لوگ بنالیا ہے
ہم سب ناراست تھے، لیکن نجات کی بخشش کے وسیلہ سے، خُداوند ہم جیسے انسانوں کوہمارے تمام گناہوں سے بچا چکا ہے۔ پاک مقا م کا ہر تختہ، جس کی اونچائی۵.۴ میٹر (۱۵ فٹ) اورچوڑائی۵.۶۷ سینٹی میٹر(۲.۲فٹ) تھی، کیکر کی لکڑی سے بنے ہوئےتھےجو سونے کے ساتھ منڈھے ہوئےتھےاور پاک مقام کی دیواروں کی طرح کھڑے ہوئے تھے۔ ہر تختے کے نیچے، تختے کو سنبھالنے کے لئے چاندی کے دو خانے رکھے گئے تھے۔ چاندی کے خانے یہاں ظاہر کرتے ہیں کہ خُد ا آپ کو اور مجھے مکمل طورپر اپنے آپ سے بچا چکا ہے۔
سچائی کہ خُدا ہمیں گناہ سے بچا چکا ہے اُس کی محبت ہے، جس میں یِسُوعؔ مسیح اِس زمین پر آیا اور ہمارے گناہوں کو اُٹھانے کے لئے بپتسمہ لیا، صلیب پر مرنے کی بدولت ہمارے گناہوں کی سزا برداشت کی، یوں ہمیں دنیا کے سب گناہوں اور ساری سزا سے بچا چکا ہے۔ نجا ت کی بخشش پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے جو وہ ہمیں عطا کر چکا ہے، ہم نئے سِرے سے پیدا ہو چکے ہیں، نجات کی یہ بخشش جو خُداوند ہمیں عنایت کر چکا ہے وہ سونے کی مانند خراب نہ ہونے والی ہے، اور اِس طرح یہ ابد تک لا تبدیل ہے۔
نجات جو خُداوند ہمیں عطا کر چکاہےوہ یِسُوعؔ کے بپتسمہ اور خون سے بنی ہے، اور یہ مکمل طور پر
اورواضح طورپر ہمارے تمام گناہوں کو مٹا چکی ہے۔ یہ ہے کیونکہ خُداوند ہمیں ہمارے تمام گناہوں سے بچا چکاہے یعنی آپ اور مَیں مکمل طورپر تمام گناہوں سے آزاد ہو سکتے ہیں جو ہم اپنے ذہن کے ساتھ، اپنے خیالات کے ساتھ، اور اپنے حقیقی اعمال کے ساتھ سرزد کرتے ہیں۔ نجات کی بخشش پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے جو خُدا ہمیں ہمارے دل میں دے چکا ہے، ہم اُ س کے قیمتی مقدسین بن چکے ہیں۔ خیمۂ اِجتماع کے ہر تختے کوسنبھالنےوالےدوخانوں کے ذریعے، خُدا ہمیں پانی اور روح کی نجات کے بارے میں بتا رہا ہے۔ خُدا ہمیں بتا رہا ہے کہ یہ سو فیصد اُس کا فضل اور بخشش ہے کہ ہم اُس کے بیٹے بن چکے ہیں۔
اگرہم یِسُوعؔ کے بپتسمہ اور خون پر سے اپنا ایمان نکال دیتے ہیں، تب ہمارے اندر کچھ بھی باقی نہیں ہے۔ہم سب ایسے انسان بن چکے تھے جو گناہ کی وجہ سے لعنتی ہونے کے پابند تھے۔ہم محض فانی تھے جو گناہ کی مزدوری موت کا اعلان کرتی ہوئی خُدا کی شریعت کی مطابقت میں اپنی یقینی موت کے سامنے کانپنے کے پابند تھے، جنھیں احساس کرنا اور ہمارا انتظار کرتی ہوئی آگ کی راست عدالت پر ماتم کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے اگر ہم پانی اور روح کی خوشخبری پر اپنا ایمان چھوڑ دیں تو ہم کچھ بھی نہیں ہیں ۔
ایک ایسے دَور میں رہتے ہوئے جو اَب گناہ کی بدولت سرایت کر چکاہے، ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری قسمت صرف گناہ کی عدالت کا انتظار کرنے والی بن چکی تھی۔ ہم ایسے فانی انسان تھے۔ تاہم، خُدا کا فضل ہم پر مکمل طورپر اُنڈیلا جا چکا ہے کیونکہ وہ ہمیں پانی اور روح کی نجات عطا کر چکا ہے۔ مسیحا اِس زمین پر آیا، یوحناؔ سے بپتسمہ لیا، اپنا خون بہایا اور صلیب پر مرگیا، پھر مُردوں میں سے جی اُٹھا، اوریوں ہمیں ہمارے تمام گناہوں، ہماری ساری ناراستی، اور ہماری تمام سزا سے بچا چکا ہے۔ پانی اور خون کی اِس کامل خوشخبری پرایمان رکھنے کے وسیلہ سے، اب ہم تمام گناہوں سے بچ چکے ہیں، اور ہم صرف اپنے ایمان کے ساتھ خُداکا شکر کر سکتے ہیں۔
اگرچہ ہم جسم کے لحاظ سے ناکافی ہیں، ہمارے کارکنان، خادمین اور مَیں تمام دنیا میں پانی اور روح کی اِس خوشخبری کی منادی کر رہے ہیں۔گو یہ دَور ایسا گناہ آلودہ ہے، کیونکہ ہم پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں، ہم خالصتاً، کسی بدکاری سے پاک خُداوند کی خدمت کرنے کے قابل ہو چکے ہیں۔ یعنی ہم اِس ذہن کو حاصل کر چکے ہیں ہماری ذاتی طاقت کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ کیونکہ خُداوند ہمیں اپنی نجات کے فضل میں ملبو س کرنے کے وسیلہ سے پاکیزگی عنایت کر چکا ہے۔
یہ اِس لیےہے کیونکہ خُداوند ہمیں گناہ اور سزا سے مکمل طورپر بچا چکا ہے کہ ہم اِس کی نجات کی
قُدرت سے ملبوس ہو چکے ہیں، اور یہ مکمل طورپر اِس وجہ سے ہے کہ ہم خالصتاً خُداوند کی خدمت کرنے کے قابل ہو چکے ہیں۔ کیونکہ خُداوند ہمیں پانی اور روح کے ساتھ ہمارے تمام گناہوں سے بچا چکا ہے، مَیں ایمان رکھتاہوں کہ ہم اپنی خامیوں کے باوجود اُس کی خدمت کر سکتے ہیں،ہم مزید اپنے گناہوں، خامیوں، اور سزا کے قیدی نہیں ہیں۔
کہ مَیں جو ہوں وہ بالکل خُدا کے فضل سے ہوں
واقعی، اگر ہمارے خُداوند کا فضل نہ ہوتا تو یہ سب ناممکن کام ہیں۔ تمام دنیا میں پانی اور روح کی خوشخبری پھیلانا اور اِس خوشخبری کی خالصتاً خدمت کرنا ہرگزممکن نہ ہوتا اگر یہ خُداوند کا فضل نہ ہوتا۔ یہ سوفیصد نجات کے فضل سے ہے جو خُدا ہمیں دے چکا ہے کہ آپ اور مَیں خوشخبری کا دفاع کرنے اوراِس کی خدمت کرنے کے لئے اپنی زندگیاں گزارنے کے قابل ہیں۔
ہم خُدا کی ہیکل کے ستون بن چکے ہیں (مکاشفہ ۳:۱۲)اور ایمان کے وسیلہ سے اُس کی بادشاہی کے لوگ بن چکے ہیں۔ کیونکہ خُداوند ہمیں سونے کی مانند ایمان عنایت کر چکا ہے، اب ہم خُداکے گھر میں زندگی گزارتے ہیں۔ اِس دَور میں جب دنیا گناہ کی وجہ سے سیلاب میں ہے اور ڈوب رہی ہے، ایک ایسا دَور جب زیادہ تر لوگ بھول رہے ہیں یا حتیٰ کہ خُدا پر کفر بک رہے ہیں،لیکن ہم صاف پانی سے دُھل چکے ہیں اور پاک ہو چکے ہیں، اور ہم پاک پانی پینے اور خالصتاً خُداوند کی خدمت کرنے کے قابل ہو چکے ہیں — الفاظ اِس بات کا اظہار نہیں کر سکتے کہ مَیں اِس برکت کے لئے کتنی گہرائی سے شکر گزار ہوں۔
بے شک ہمارا ایمان ایسا ہی ہے۔ ہم کیسے راستباز بن سکتے تھے؟ ہم کیسے اپنے آپ کو راستباز کہنے کے قابل ہو چکے ہیں جب ہم میں کوئی نیکی نہیں ہے۔ مَیں اور آپ جیسے گنہگار انسان کیسےبے گناہ ہوسکتے ہیں؟ کیا آپ اپنے جسم کی راستبازی کی بدولت بے گناہ اور راستباز بن سکتےتھے؟ جسم کے خیالات،آپ کی اپنی کوششیں، اورآپ کے اپنے اعمال — کیا اِن مَیں سے کوئی بھی آپ کو بے گناہ، راستباز لوگوں میں بدل سکتا تھا؟ کیا آپ پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے راستباز بن سکتے تھے؟ کیا آپ آسمانی، ارغوانی، اور سُرخ دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان میں ظاہرہوئی خُدا کی نجات پر اپنے ایمان کے وسیلہ سے راستباز بن سکتے تھے؟ کیا آپ مسیحا کے وسیلہ سے پوری ہوئی اور خُدا کے کلام میں ظاہر ہوئی پانی اور روح کی خوشخبری کی معرفت اپنی نجات پر ایمان رکھنے کے بغیر راستباز بن سکتےتھے؟ آپ کبھی ایسے نہیں بن سکتےتھے! ہم صرف سُرخ دھاگے پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے، کبھی راستباز نہیں بن سکتے۔
چونکہ یِسُوعؔ مسیح، ہمارے نجات دہندہ اور مسیحا نے، دنیا کے تمام گناہوں کو، بشمول ہماری پوری زندگی کے گناہوں کو کندھا دیا، بپتسمہ کے وسیلہ سے جواُس نے ہماری جگہ پر ہمارے تمام گناہوں کو مٹانے کے لئے یوحناؔ سے حاصل کِیا، ہم ایمان کے وسیلہ سے راستباز بن چکے ہیں۔ جس طرح پرانے عہد نامہ کی قربانی کا جانور گناہ اُٹھاتا تھا جب گنہگار یا سردار کاہن اُس کے سر پر اپنے ہاتھ رکھتے تھے، نئے عہد نامہ کے دَور میں، یِسُوعؔ نے یوحناؔ سے بپتسمہ لینے کی بدولت اُس پر منتقل ہوئے دنیا کے تمام گناہوں کو قبول کِیا۔ یِسُوعؔ نے درحقیقت اپنے بپتسمہ کے وسیلہ سے ہمارے تمام گناہوں کو اُٹھا لیا (متی ۳:۱۵)۔ اور اُس کی یوحناؔ نے یوں گواہی دی، ”یہ خُدا کا برّہ ہے جو دُنیا کا گُناہ اُٹھا لے جاتا ہے۔ “ (یوحنا ۱:۲۹)۔
اپنا بپتسمہ لینے کے بعد، یِسُوعؔ نےہماری نجات کے لیےاپنی زندگی کے اگلے تین سال گزارے، ہمارے تمام گناہوں اور سزا کو ختم کرکے یعنی صلیب پر جانے اور خُدا کے سامنے اپنا ذاتی بدن قربان کرنے کے وسیلہ سے، جس طرح بھیڑ اپنے بال کترنے والے کے سامنے خاموش رہتی ہے،وہ ہمیں نئی زندگی عطا کر چکا ہے۔
یہ اِس لیے ہے کہ یِسُوعؔ مسیح نے بپتسمہ کے وسیلہ سے ہمارے گناہوں کو اُٹھا لیا جو اُ س نے یوحناؔ سے حاصل کِیا کہ اُس نے اپنے آپ کوخاموشی سے حوالے کیا اور اُس کے دونوں ہاتھوں اور پاؤں پر کیل ٹھونکے گئے جب اُسے رومی سپاہیوں نے مصلوب کِیا۔صلیب پر لٹک کر، یِسُوعؔ نے سارا خون بہا دیا جو اُس کے بدن میں تھا۔ اور اُس نے ہماری نجات کے لئےحتمی دَوررکھا، اورکہا، ” تمام ہُؤا “ (یوحنا ۱۹:۳۰)۔
اِس طرح مرنے کے بعد، وہ تین دن بعد پھر مُردوں سے جی اُٹھا، آسمان کی بادشاہی پرچڑھ گیا، اور ہمیں ابدی زندگی دینے کے وسیلہ سے ہمارا نجات دہندہ بن چکا ہے۔ بپتسمہ کے وسیلہ سے جو اُس نے یوحناؔ اصطباغی سے حاصل کِیا دنیا کے گناہوں کو کندھےپرڈال کر، اور اپنی صلیب، جی اُٹھنے، اور صعود کے وسیلہ سے، یِسُوعؔ ہمارا کامل نجات دہندہ بن چکا ہے۔ لہٰذا، کلام ِ مقدس اعلان کرتا ہے، ” اور جب اِن کی مُعافی ہو گئی ہے تو پِھر گُناہ کی قُربانی نہیں رہی۔ “ (عبرانیوں ۱۰:۱۸)۔
صرف صلیب کے خون اور رفتہ رفتہ پاکیزگی کے نظریےپرایمان نےآپ کو کبھی بھی آپ کے گناہوں سے مکمل طور پر نہیں بچایا
مسیحیوں کو جاننا چاہیے کہ وہ صرف یِسُوعؔ کے صلیبی خون پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے اپنے گناہوں سے مکمل طورپر نجات یافتہ نہیں ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ لوگ اپنی آنکھوں اور اعمال کے ساتھ ہر روز گناہ کرتے ہیں، وہ محض صلیبی خون پر ایمان رکھنے کی بدولت اپنے گناہوں کو نہیں مٹا سکتے۔ آج کل لوگوں کی زندگیوں میں سب سے زیادہ سرزد ہونے والی، سرایت پذیر بدکرداریوں میں سے ایک جنسی بے راہ روی ہے۔ جیسا کہ واضح اور فحاش جنس پرستی کی ثقافت پوری دنیا میں پھیل گئی ہے، یہ گناہ ہمارے جسم میں پیوست ہے۔ کلام ِ مقد س ہمیں زنا نہ کرنے کا حکم دیتا ہے، لیکن آج کی حقیقت یہ ہے کہ اپنےاردگرد کے حالات کی وجہ سے بہت سارے لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی اِس گناہ کاارتکاب کرتے ہیں۔
خُدا اعلان کرتا ہے کہ جو کوئی کسی عورت پر بُری نظر سے دیکھتا ہے وہ پہلے ہی اپنے دل میں اُس کے ساتھ زنا کاری کر چکا ہے (متی ۵:۲۸)، اور پھر بھی جو ہماری آنکھیں ہر روز دیکھتی ہیں وہ سب فحاشی ہے۔اِس لیے لوگ ہر منٹ اور ہر سیکنڈ میں ایسے شہوت پرستی کے گناہ کر رہے ہیں۔ جب یہ صورتِ حال ہے،تو کیسے وہ اپنی توبہ کی دُعائیں پیش کرنے کے وسیلہ سے پاک ہو سکتے اور خُدا کی بادشاہی میں داخل ہو سکتے ہیں؟ کیسے وہ راستباز بن سکتے ہیں؟ کیا اُن کے دل راست بن جاتے ہیں جب وہ لمبے عرصے کے لئے خود کو نظم و ضبط کے تابع کرتے ہیں اور کسی طرح پاک ہو جاتے ہیں جب وہ بوڑھے ہوجاتے ہیں؟ کیا اُن کے کردار حلیم بن جاتے ہیں؟ کیا وہ زیادہ صابر بن جاتے ہیں؟ ہرگز نہیں! جو ہوتا ہے اِس کے بالکل برعکس ہوتاہے۔
چھانے والے مسیحی نظریات میں سے ایک ”رفتہ رفتہ پاکیزگی کا نظریہ“ ہے۔ یہ نظریہ زور دیتا ہے کہ جب مسیحی لمبے عرصے تک یِسُوعؔ کی صلیبی موت پر ایمان رکھتے ہیں، روزانہ توبہ کی دُعائیں مانگتے ہیں، اور ہر روز خُداوند کی خدمت کرتے ہیں، تو وہ آہستہ آہستہ پاک اور نیک مزاج بن جاتے ہیں۔ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ جتنا زیادہ وقت گزرتا ہے جب سے ہم نے یِسُوعؔ پر ایمان رکھنا شروع کِیا،اتناہی زیادہ ہم ایک ایسے شخص میں بدل جاتے ہیں جس کا گناہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور جس کے اعمال نیک ہیں، اور یہ کہ جب موت ہمارے قریب آتی ہے،تو ہم مکمل طور پر پاک اور اِس طرح مکمل طورپر بے گناہ بن جائیں
گے۔
اور یہ بھی سکھاتا ہے کہ چونکہ ہم ہر وقت توبہ کی دُعائیں پیش کر چکے ہوں گے، توہم ہر روز اپنے گناہوں سے دُھل چکے ہوں گے، جس طرح ہمارے کپڑے دھوئے جاتے ہیں، اور اِس لئے جب ہم آخر میں مریں گے،تو ہم خُدا کے پاس کسی ایسے شخص کے طورپر جائیں گے جو مکمل طورپر راستباز بن چکا ہے۔ بہت سارے لوگ ہیں جو اِسی طرح ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن یہ ایک فرضی قیاس آرائی ہے جو انسانی خیالات نےپیداکی ہے۔
رومیوں ۵:۱۹ فرماتاہے، ” کیونکہ جِس طرح ایک ہی شخص کی نافرمانی سے بُہت سے لوگ گُنہگار ٹھہرے اُسی طرح ایک کی فرمانبرداری سے بُہت سے لوگ راست باز ٹھہریں گے۔ “ یہ حوالہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم سب ایک انسان کی فرمانبرداری کے وسیلہ سے بے گناہ ٹھہرتے ہیں۔ آپ اور مَیں جو نہیں کر سکتے تھے، یِسُوعؔ مسیح نے اُسے حاصل کِیا جب وہ شخصی طورپر اِس زمین پرآیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ آپ اور مَیں بذاتِ خود گناہ سے آزاد نہیں ہو سکتے تھے، یِسُوعؔ نے ہماری جگہ پر ہمارے گناہوں کو مٹایا، ایسا کام جو نہ آپ نہ ہی مَیں کبھی کر سکتا تھا۔ اِس زمین پر آکر، بپتسمہ حاصل کرنے، مصلوب ہونے، اور پھر مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے وسیلہ سے، وہ آپ کو اور مجھے بچا چکا ہے اور ہمیں ایک ہی بار ہمیشہ کے لئے ہمارے تمام گناہوں سے پاک کر چکا ہے۔
یہ کہ یِسُوعؔ مسیح اپنے لوگوں کو اُن کے گناہوں کی معافی کے وسیلہ سے نجات دے سکتا تھا کیونکہ اُس نے خُدا کی مرضی کی فرمانبرداری کی۔ مسیحا کے طورپر خُدا کی مرضی پوری کرکے، یِسُوعؔ مسیح ہم پر اپنے بپتسمہ، صلیب، اور جی اُٹھنے کے وسیلہ سے نجات کا فضل نازل کر چکا ہے۔ یوں ہمیں نجات کی بخشش دینے کے وسیلہ سے، یِسُوعؔ نے کامل طورپر گناہ کی معافی پوری کی۔ اور اب، ایمان کے وسیلہ سے، ہم اِس نجات کے فضل سے مُلبس ہو چکے ہیں، کیونکہ خُداوند ہماری گناہ سے نجات کو پورا کر چکا ہے، جو کبھی بھی ہماری ذاتی جد وجہد کی بدولت حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔
تاہم، زیادہ تر مسیحی بپتسمہ پر ایمان نہیں رکھتے جو یِسُوعؔ نے حاصل کِیاتھا، بلکہ اِس کی بجائے صرف خون پر ایمان رکھتے ہیں جو اُس نے صلیب پر بہایا اوراپنے ذاتی اعمال کے وسیلہ سے راستباز ٹھہرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، حتیٰ کہ جیساکہ یِسُوعؔ نے بنی نوع انسان کے تمام گناہوں کو اُٹھا لیا جب اُس نے یوحنا ؔ سے بپتسمہ لیا، مگر لوگ پھر بھی اِس سچائی پر ایمان نہیں رکھتے۔ متی باب ۳ ہمیں بتاتا ہے کہ سب سےپہلا کام جو یِسُوعؔ نے اپنی عوامی زندگی میں کِیا تھا یوحنا ؔ سے بپتسمہ لینا تھا۔ یہ وہ سچائی ہے جس کی تصدیق انجیل کے چاروں مصنفین نے کی ہے۔
یِسُوعؔ نے یوحناؔ اصطباغی، بنی نوع انسان کے نمائندے اور عورتوں میں سے پیدا ہونےوالوں میں سب سے بڑے سے بپتسمہ لینے کی بدولت ہمارے گناہوں کو اُٹھا لیا، اور پھر بھی بہت سارے لوگ ہیں جو اِس حقیقت کو نظر اندا ز کرتے اور اِس پر ایمان نہیں رکھتے۔ ایسے لوگ اُس کے بپتسمہ پر ایمان رکھنے کے بغیر یِسُوعؔ پرا یمان رکھتے ہیں، اور کثرت سے صرف صلیبی قیمتی خون کی جو اُس نے بہایا تمجید کرتے ہیں۔ صلیب پر، یِسُوعؔ کی موت سے دُکھی ہو کر، وہ اپنے جذبات کواُبھارتے ہیں، اپنی تمجید میں ہر قِسم کا شور مچاتے،اور یوں چلاتے ہیں، ” ♫ خون میں حیرت انگیز قُدرت ہے۔♪ برّے کے قیمتی خون میں قُدرت، حیرت انگیز کام کرنے والی قُدرت ہے! ♫“ دوسرے لفظوں میں، وہ اپنے جذبات، جوش اور قوت سے بھڑک کر خُدا کے پاس جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن آپ کو یہ جان لینا چاہیے کہ وہ جتنا زیادہ ایسا کرتے ہیں، اُتنے ہی زیادہ ریاکار وہ بنتے جاتے ہیں، جوکہ مقدس ہونے کا ڈھونگ کرتے ہیں لیکن درحقیقت اپنے دلوں میں پوشیدگی سے گناہوں کو جمع کر رہے ہیں۔
ہم پانی اور روح کی خوشخبری کو جانےبغیر یِسُوعؔ پر اپنے نجات دہندہ کے طور پر کیسے ایمان رکھ سکتےہیں؟
جب ہم لوگوں کو خیمۂ اِجتماع کے بارے میں بات کرتے ہوئےسنتے ہیں،تو ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ
اُنہیں ذرا سا بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ واقعی کس کے بارے میں بات کر رہے ہیں ۔ جب خیمۂ اِجتماع پر ایمان رکھنے کی بات آتی ہے،تو کیسے ہم محض ایمان رکھ سکتے ہیں جس کسی طریقے سے ہم مطمئن ہوتے اور مناسب سمجھتے ہیں؟ کیونکہ گناہ سے نجات جو خُداوند مکمل کر چکا ہے بہت وسیع ہے، خُدا ہمیں یہ سمجھنے کے قابل کر چکا ہے کہ ہماری نجات کس قدر وسیع اور کتنے ٹھوس طریقے سے پوری ہو چکی ہے۔
خیمۂ اِجتماع کے ذریعے، اُس نے ہمیں یہ احساس بھی دلایا ہے کہ خُداوند آسمانی اور ارغوانی رنگ، یعنی پانی اور خون کے ساتھ ہمیں بچا چکا ہے۔ ہم احساس کرتے ہیں کہ ہمارے گناہوں کو مٹانے کے لئے، خُداوند ” نہ فقط پانی کے وسِیلہ سے بلکہ پانی اور خُون دونوں کے وسِیلہ سے آیا تھا۔“ (۱۔یوحنا ۵:۶)۔ پانی، خون، اور روح جس پرہم ایمان رکھتے ہیں ایک ہیں۔ یہ ایک انسان کے طور پر آنے، یوحناؔ اصطباغی سے بپتسمہ لینے، مرنے، اور پھر مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے وسیلہ سے ہے کہ خُداوند ہمیں بچا چکا ہے۔
خیمۂ اِجتماع کے وسیلہ سے، ہم نجات کے اِس مفصل خاکہ کو دریافت کرنے اور اِس پرایمان رکھنے کے قابل ہو چکے ہیں۔ ہر تختے کی دو چولوں اور چاندی کے دوخانوں کا مطالعہ کرنے کے وسیلہ سے، ہم اُس طریقہ کا احساس کرنے تک پہنچتے ہیں جس کے وسیلہ سے یِسُوعؔ ہمیں ہمارے گناہوں سے بچا چکا ہے۔ اور یوں ہم سچائی پا چکے ہیں کہ ہمیں ضرور یقینی طورپر آسمانی، ارغوانی، اور سُرخ دھاگے میں ظاہر کی گئی یِسُوعؔ کی خدمات پر ایمان رکھنا چاہیے۔
کلامِ مقدس کےعلاوہ،اِس نجات کی اصل کہیں بھی نہیں مل سکتی۔ ہمیں نجات کی بخشش کی ضرورت ہے جو بپتسمہ اور صلیب کے اِن دو عناصر سے بنی ہوئی ہے۔ وہ جو اِس سچائی پر ایمان رکھتے ہیں تب وہ لوگ بن سکتے ہیں جو خُدا سے پیدا ہوئے ہیں۔ ہمیں ہمارے گناہوں سے پانی اور خون کے ساتھ آزاد کرنے کے وسیلہ سے، خُدا ہماری نجات کو مکمل طورپر پورا کر چکا ہے۔
دوسرے لفظوں میں، ہر تختے کے نیچے دو چولیں بنائی گئی تھیں اور چاندی کے دو خانوں میں ٹھونکی گئی تھیں۔ یہ سچائی ہمارے لئے اور ہمارے گناہوں کی معافی کے لئے بالکل ضروری اور انتہائی اہم ہے۔ سب سے زیادہ اہم، ہمیں یقیناً اپنی نجات پر ایمان رکھنا چاہیے جو خُدا ہمارے واسطے مکمل کر چکا ہے، کیونکہ اگر ہم آسمانی، ارغوانی اور سُرخ دھاگے کی سچائی پر ایمان نہیں رکھتے، ہم کبھی نجات یافتہ نہیں ہو سکتے۔
جس طرح مقدس خیمۂ اِجتماع کے ہر تختے کو سیدھا کھڑے رہنے کے لئے چاندی کے دو خانوں کی ضرورت تھی، جب یِسُوعؔ مسیح پر ایمان رکھنے کی بات آتی ہے، تو اُس کے فضل کی دو سچائیاں حتمی طور پر ضروری ہیں۔ وہ سچائیاں کیا ہیں؟وہ سچائیاں یہ ہیں کہ یِسُوعؔ نے بپتسمہ لینے کے وسیلہ سے ہمارے گناہوں کو اُٹھا لیا، اور یہ کہ اُس نے انھیں صلیب پر لے جانے اور مصلوب ہونے کے وسیلہ سے ہمارے گناہوں کی ساری سزا اور لعنتوں کو برداشت کِیا۔ جو کوئی راستباز بنتا ہے صرف ایسا بن سکتا ہے جب وہ مکمل طور پر کامل نجات کے اِن دو فضلوں پر ایمان رکھتا ہے۔ دونوں یِسُوعؔ کے بپتسمہ اور صلیبی خون پر ہمارا ایمان، اُس کی نجات کی بخشش کے دو محور،ہمیں خُدا کے گھر میں مضبوطی سے کھڑے کرتے ہیں۔جیسے چاندی کے دو خانوں میں دو چولیں لگائی گئی تھیں،تو ہر تختہ سیدھا کھڑا رہ سکتا تھا۔
اِس طرح، یہ ہمارے درست ایمان کے وسیلہ سے ہے جو اُس کی نجات کے دو محوروں پر یقین رکھتا ہےکہ ہم واقعی اُس کے بے عیب لوگ بن جاتے ہیں۔ یِسُوعؔ کی معرفت بخشی گئی پانی اور خون کی خوشخبری پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے، ہم سونے کی مانند ایمان رکھتے ہیں جو ابدتک لاتبدیل ہے۔ آسمانی، ارغوانی، اور سُرخ دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان میں ظاہر کی گئی پانی اور روح کی اِس خوشخبری پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے، ہم راستباز بن جاتے ہیں جو گناہ کی معافی کی کامل نجات حاصل کر چکے ہیں۔
اب تک کی الہٰیات اور پانی اور روح کی خوشخبری کا دَور
اِبتدائی کلیسیا کا دَور نکال کر، ۳۱۳ ء بعد از مسیح کے فرمان میلان سے لے کر، آج کی مسیحیت کو شامل کرتے ہوئے، مسیحیت،صلیب کی خوشخبری کوپھیلا رہی ہے جس نے یِسُوعؔ کے بپتسمہ کو نکال دیا ہے۔ ابتدائی کلیسیا کے دَور سے لے کر ۳۱۳ ء تک، جس نے مسیحیت کو نئے رومن مذہب کے طور پر قانونی حیثیت دی،مسیحیت پانی اور روح کی خوشخبری کی منادی کر چکی تھی، لیکن اِس کےبعد میں رومن کیتھولک کلیسیا مذہبی منظر نامےپر غالب آ گئی۔ پھر چودھویں صدی کےاوائل سے، ایک ایسی تہذیب جس نے ہر چیز کو انسان کے بنائے ہوئے خیالات پر مرکوز کِیا اور انسانیت کی بحالی کامطالبہ کِیا،سب سے پہلے شمالی اٹلی کے بعض خوشحال ریاستی شہروں میں اُبھرنی شروع ہوئی۔یہ نشاۃ ثانیہ کا دَور تھا۔
سولہویں صدی تک، اٹلی میں شروع ہونے والی اِس تہذیب کا ذیلی اثر پوری مغربی دُنیا میں پھیلنا شروع ہو گیا، اورانسانیت پسندی، انسان ساختہ فلسفے کا مطالعہ کرنےوالےعلماءنےعلمِ الہٰیات کا مطالعہ شروع کردیا۔ اپنے دماغ کے ساتھ کلامِ مقدس کی تشریح کرتے ہوئے، اُنھوں نے مسیحی الہٰی نظریوں کی تعمیر شروع کی۔ لیکن چونکہ وہ سچائی کو نہیں جانتے تھے،اِس لیے وہ کلامِ مقدس کو صحیح اور مکمل طور پر نہ سمجھ سکے۔لہٰذا جو کچھ وہ اپنے ذہنوں کے ساتھ نہ سمجھ سکے، وہ اُن سے اپنے دنیاوی علم اور خیالات کو گڈ مڈ کرنے کی بدولت مغلوب ہوئے،اور یوں اپنے مسیحی نظریا ت پیدا کرلیے۔
نتیجہ کے طور پر، مسیحی تاریخ میں مسیحی نظریات اور الہٰی تعلیمات کی ایک بڑی تعداد نےجنم لیا:مثلاًلوتھرن ازم، کیلون ازم، آرمینین ازم، نیوتھیالوجی، قدامت پسندی کا نظریہ، ریشنل ازم،تنقیدی تھیالوجی،صوفیانہ تھیالوجی، لبریشن تھیالوجی،حقوق نسواں تھیالوجی، بلیک تھیالوجی، اور حتیٰ کہ ملحدتھیالوجی ، وغیرہ۔
مسیحیت کی تاریخ بہت لمبی لگتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ اتنی لمبی نہیں ہے۔ ابتدائی کلیسیا کے دور سے لے کر تین سو سال تک، لوگ کلامِ مقدس کےبارےمیں جان سکتے تھے، لیکن اِس کے بعد جلد ہی قرونِ وسطیٰ، یعنی مسیحیت کا تاریک دَور شروع ہو گیا۔ اِس دَور میں، عام لوگوں کے لیےبائبل پڑھنا خود ایک جُرم تھا جس کی سزا سر قلم کر دیا جانا تھا۔ یہ ۱۷۰۰ء کی دہائی تک نہیں تھا جب الہٰی تعلیم کی ہوا چلنی شروع ہوئی، اور مسیحیت اٹھارویں اور انیسویں صدی میں پھولتی ہو ئی دکھائی دی جونہی اِس کے الہٰی نظریات متحرک اور فعال ہوئے، لیکن اب، بہت سارے لوگ صوفیانہ الہٰی تعلیم میں، اپنے ذاتی شخصی تجربات کی بنا پر خُدا پر ایمان رکھنے کا شکار ہوچکے تھے۔ لیکن اپنے الہٰی نظریات کےفرق کے باوجود، مسیحیت کی تمام شاخوں کے دھاروں میں ایمان کا ایک مشترک نقطہ نظر ہے، اوریہ، صرف یِسُوعؔ کے خون پر ایمان رکھنا ہے۔
لیکن کیا یہ سچ ہے؟ جب آپ اِس طریقہ سے ایمان رکھتے تھے،تو کیا آپ کے گناہ واقعی غائب ہو گئے تھے؟ آپ ہر روز گناہ کرتے ہیں۔ آپ اپنے دلوں، خیالات، اعمال، اور خامیوں کے ساتھ ہر روز گناہ کرتے ہیں۔تب کیا آپ صرف خون پر جو یِسُوعؔ نے صلیب پر بہایا ایمان رکھنے کے وسیلہ سے محض اِن گناہوں سے معاف ہوسکتے ہیں؟ یہ کہ یِسُوعؔ نے بپتسمہ لے کر ہمارے گناہوں کو کندھا دیا اور صلیب پر مرگیاکلامِ مقد س کے مطابق سچ ہے۔پھربھی بہت سارے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ اُن کے گناہ صرف صلیبی خون پر ایمان رکھنے اور ہر روز توبہ کی دُعائیں پیش کرنے کے وسیلہ سے معاف ہو چکے ہیں۔ کیا آپ کے دل اور ضمیر کے گناہ ایسی توبہ کی دُعائیں مانگنے کے وسیلہ سے پاک ہوئےہیں؟ یہ ناممکن ہے۔
اگر آپ مسیحی ہیں، تو آپ کو یقیناً اب جاننا اور اِس سچائی کی نجات پر ایمان رکھنا چاہیے، کہ یِسُوعؔ مسیح اِس زمین پر آیا اور یوحناؔ سے بپتسمہ لینے کے وسیلہ سے ہمارے دنیا کے گناہوں کو اُٹھا لیا۔ اِس کے باوجود، کیا آپ اِس حقیقت کونظر اندازکررہےہیں، اِسے جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے ، اورنہ ہی اِس پر ایمان رکھنے کی کوشش کرتے ہیں؟ اگر ایسا ہے، تو آپ یِسُوعؔ کا مذاق اُڑانے، اُس کے نام کو پست کرنے اور بے عزت کرنے کا گناہ کر رہے ہیں، اور آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ واقعی یِسُوعؔ پر اپنے نجات دہندہ کے طورپر ایمان رکھتے ہیں۔ یِسُوعؔ مسیح کی معرفت پوری ہونےوالی اِ س نجات سے یِسُوعؔ کے بپتسمہ کو نکالنے اور اُس پر کسی بھی طریقہ سے جو آپ چاہتے ہیں ایمان رکھنے کے وسیلہ سے، آپ کبھی بھی نجات کے فضل سے مُلبس نہیں ہو سکتے۔
پھربھی بہت سارے مسیحی اِس سچائی پر ایمان نہیں رکھتے جس طرح یہ ہے،کہ یِسُوعؔ ہمارے گناہوں کو مٹا چکا ہے، بلکہ اِس کی بجائے اپنے ذاتی خیالات کی پیروی کرتے ہیں اور سب آڑھی ترچھی سچائیوں پرجنھیں وہ چاہتے ہیں ایمان رکھتے ہیں۔ آج کل، اُن کے دل اُن کے غلط الہٰی ایمان رکھنے کے وسیلہ سے زیادہ سے زیادہ سخت ہو چکے ہیں، یہ ایمان رکھتے ہوئے کہ محض صلیبی خون پر ایمان رکھنےسے اُن کے گناہ مٹ سکتے ہیں۔
لیکن خُدا کی طرف سے منصوبہ بند نجات کا جواب درج ذیل ہے: ہم یِسُوعؔ کے بپتسمہ، اُس کی صلیبی موت، اور اُس کے جی اُٹھنے کے وسیلہ سے گناہ کی دائمی معافی حاصل کر سکتے ہیں۔اِسکے باوجودایسےبے شمار لوگوں کی تعداد اُٹھ کھڑی ہوئی ہے جو نجات کی اِس سچائی سے اُس کے بپتسمہ کو نکالنے کے وسیلہ سے یِسُوعؔ پرایمان رکھتی ہے،اور مندرجہ ذیل مساوات کو ایک ناقابلِ تغیر قانون کے طورپر غلط سمجھتے اور غلط ایمان رکھتے ہیں: ”یِسُوعؔ (صلیب اور اُس کا جی اُٹھنا) +توبہ کی دُعائیں + نیک اعمال =رفتہ رفتہ پاکیزگی سے حاصل کردہ نجات۔“ وہ جو اِس طریقے سے ایمان رکھتے ہیں صرف اپنے ہونٹوں کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنی گناہ کی معافی حاصل کر چکے ہیں۔ تاہم، سچائی یہ ہے کہ اُن کے دل حقیقت میں گناہ کے ڈھیر کے ساتھ بھرے ہوئے ہیں جو اب تک حل ہوئے بغیر قائم ہیں۔
کیا آپ اب تک اپنے دلوں میں گناہ رکھتے ہیں؟ اگر آپ اپنے دلوں میں گناہ رکھتے ہیں حتیٰ کہ
آپ اب یِسُوعؔ پر ایمان رکھتے ہیں، تو واضح طورپر، آپ کے ایمان کے ساتھ سنگین مسئلہ درپیش ہے۔ یہ اِس لیے ہے کیونکہ آپ یِسُوعؔ پر محض مذہبی معاملہ کے طورپر ایمان رکھتے ہیں آپ کے ضمیر پاک نہیں اور آپ گناہ رکھتے ہیں۔ تاہم، اصل حقیقت جس کا آپ احسا س کر سکتے ہیں کہ آپ اب تک اپنے دل میں گناہ باقی رکھتے ہیں بذاتِ خود انتہائی خوش قسمت بات ہے۔ کیوں؟ کیونکہ وہ جو واقعی احساس کرتے ہیں کہ وہ گناہ رکھتے ہیں پہچانیں گے کہ وہ بچ نہیں سکتے بلکہ اِس گناہ کی وجہ سے جہنم کے لائق ہیں، اور جب وہ ایسا کرتے ہیں تو وہ آخرکار روح میں غریب بن سکتے ہیں اور یوں حقیقی نجات کا کلام سننے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
اگر آپ خُدا سے گناہ کی معافی حاصل کرنا چاہتے ہیں، تب آپ کے دلوں کو یقیناً تیار ہونا چاہیے۔ وہ جن کے دل خُد اکے سامنے تیار ہیں وہ مانتے ہیں، ”اَے خُدا،مَیں گناہ کی معافی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ مَیں لمبے عرصے سے یِسُوعؔ پر ایمان رکھ چکا ہوں، لیکن مَیں اب تک گناہ رکھتاہوں۔کیونکہ گناہ کی مزدوری موت ہے، مَیں بچ نہیں سکتا بلکہ جہنم میں پھینکا جاؤں گا۔“ اِس طرح وہ اپنے آپ کو مکمل طورپر گنہگار کے طور پرپہچانتے ہیں۔ وہ جو خُد اکے کلام کو پہچانتے ہیں، وہ جو ایمان رکھتے ہیں کہ خُداکا کلام یقیناً بالکل اُسی طرح پورا ہوتا ہے جیسا یہ فرماتا ہے — اُن کے علاوہ کوئی دوسرے نہیں ہیں جن کے دل تیار ہیں۔
خُدا ایسی جانوں سے بِلا مستثنیٰ ملتاہے۔ ایسے لوگ اُس کا کلام سنتے ہیں، اپنی ذاتی آنکھوں کے ساتھ کلام کودیکھتے ہیں اور اِس کی تصدیق کرتے ہیں، اور ایسا کرنے سے وہ احساس کرتے ہیں، ”آہ، مَیں غلطی سے ایمان رکھ چکا تھا۔ اور لوگوں کی اَن گنت تعداد اب غلط ایمان رکھ رہی ہے۔“ اور پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے، اِس سے قطع نظر کہ دوسرے کیا کہتے ہیں، تب وہ اپنےگناہ کی معافی حاصل کرتے ہیں۔
وہ لوگ جو اپنے تمام گناہوں سے نجات یافتہ ہوچکے ہیں اُنہیں یقیناًپانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھ کر اپنے ایمان کا دفاع کرنا چاہیے
تاہم، یہ دنیا اَن گنت بُرےنظریات سے بھری ہوئی ہے جو حتیٰ کہ نئے سِرے سے پیدا ہوئے لوگوں کے دل کو بھی پریشان اور ناپاک کر سکتے ہیں۔ خُداوند یِسُوعؔ نے ہمیں آگاہ کِیا، ” خبردار فرِیسِیوں کے خمِیر اور ہیرودؔیس کے خمِیر سے ہوشیار رہنا“ (مرقس ۸:۱۵)۔ لیکن ہم حتیٰ کہ شمار نہیں کر سکتے کہ ایسی کتنی خمیری تعلیمات موجود ہیں، جو لوگوں کے دل کو صرف ایک مرتبہ سننے کی وجہ سے ناپاک کر رہی ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ دنیا کس طرح جنسی بے راہ روی میں ڈوب رہی ہے۔
ہمیں جو ایمان رکھتے ہیں یقیناً ٹھیک ٹھیک جاننا چاہیے ہم کس قِسم کے دَور میں اَب زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے ایمان کی حفاظت کرنی چاہیے۔ پھربھی جب ہم ایسی گنہگار دنیا میں رہتے ہیں، ہمارے دلوں میں وہ ناقابل تسخیر سچائی ہے یعنی خُداوند ہمیں گناہ سے آزاد کر چکا ہے۔ گواہی کا کلام جو ہماری لاتبدیل نجات کی شہادت دیتا ہے پانی اور روح کی خوشخبری ہے۔ ہمیں یقیناً سچائی پر ایمان رکھنا چاہیے جو نہ دنیا سے کانپتی ہے نہ ہی اِس کی طرف کھینچی چلی جاتی ہے۔
اِس دنیا کی ہر چیز سچ نہیں ہے۔ خُد انے ہمیں بتایا کہ راستباز دنیا پر غالب آتے ہیں۔ یہ لاتبدیل سچی خوشخبری پر اُن کے ایمان کے وسیلہ سے ہے کہ راستباز اِبلیس پر غالب آتے ہیں اور دنیا پر فتح پاتے ہیں۔ گو ہم ناکافی ہیں، ہمارے دل، ہماری خیالات، اور ہمارے بدن پھر بھی خُداکا گھر ہیں اور ایمان کے ساتھ نجات کی خوشخبری پر مضبوطی سے کھڑے ہوئے ہیں۔ ہم پانی او ر خون کی خوشخبری پر مضبوطی سے کھڑے ہوئے ہیں جس کے ساتھ خُداوند ہمیں بچا چکا ہے۔
اِس وجہ سے، ہم خُدا کے بے حد شکر گزار ہیں۔ کوئی معنی نہیں رکھتا اِس دنیا میں گناہ کتنی بہتات سے ہے، کم ازکم ہم راستبازواقعی بے داغ ضمیر اور ایمان رکھتے ہیں جو ہمارے دلوں میں سونے کی مانند چمکتا ہے۔ ہم سب راستباز ایسی زندگی گزاریں گے جو اِس ایمان کے وسیلہ سے دنیا پر غالب آتی ہے۔ خُداوند کی آمدِ ثانی کے دن تک، اور حتیٰ کہ جس طرح ہم اُس کی بادشاہی میں ہیں، ہم میں سے سب اِس ایمان کی تمجید کریں گے۔ ہم ابد تک خُداوند کی تمجید کریں گے جو ہمیں بچا چکا ہے اور اپنے خُداکی تمجید کرتے ہیں جو ہمیں یہ ایمان عنایت کر چکا ہے۔
جیساکہ یہ سچا ایمان جو ہم اپنے ساتھ رکھتے ہیں خُدا کے سامنے چٹان پر کھڑاہے، یہ کسی بھی حالت میں نہیں ہلتا۔ اِسی طرح، کوئی معنی نہیں رکھتا ہمارے ساتھ کیا ہوتا ہے جب تک ہم اِس زمین پر خُداوند کے سامنے کھڑے ہونے کے دن تک زندگی گزارتے ہیں، ہم ایمان کے وسیلہ سے اپنے دلوں کا دفاع کریں گے۔ حتیٰ کہ اگر ہر چیز اِس دنیا میں تباہ ہو جاتی ہے، حتیٰ کہ اگر یہ دنیا گناہ میں ڈوب رہی ہے، اور حتیٰ کہ یہ دنیا پرانے دَور کے صدومؔ اور عمورہ ؔ سےبھی بد تر ہو جاتی ہے، ہم اِس دنیا کی پیروی نہیں کریں گے، بلکہ ہم پاکدامنی سے خُدا پر ایمان رکھیں گے، ہم اُس کی راستبازی تلاش کریں گے، اور ہم وہ کام کرنے جاری رکھیں گے جو نجات کے اِن دو نعمتوں کو (یِسُوعؔ کے بپتسمہ اور اُس کی صلیبی موت کو)، یعنی خُدا کے حقیقی فضلوں کوپھیلاتےہیں۔
وہ جو حقیقی خوشخبری پر ایمان رکھنے کا دکھاوا کرتے ہیں
بعض لوگ، اگرچہ وہ حقیقت میں پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان نہیں رکھتے، پھربھی آسمانی، ارغوانی، اور سُرخ دھاگے کی سچائی پر ایمان رکھنے کادکھاوا کرتے ہیں۔ لیکن ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایسے لوگ خلوصِ دل سے پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے اپنے دلو ں میں گناہ رکھتے ہیں۔ وہ اُن کی مانند ہیں جو پانی میں لوہے کی کلہاڑی گنوا دیتے ہیں، جو اُنھوں نے اپنے ہمسائیوں سے اُدھا رلی تھی (۲۔سلاطین ۶:۵)۔
اِسی ملتے جلتے اسلوب میں، جونہی ضروریات پڑتی ہیں، بعض لوگوں کے لئے تھوڑی دیرتک پانی اور روح کی خوشخبری سےاستفادہ کرنا ممکن ہے۔ لیکن یہ ایمان رکھنے کے بغیر کہ پانی اور روح کی یہ خوشخبری سچی ہے، وہ منادی کرتے وقت یا رفاقت رکھتے ہوئےحقیقی ایمان کے ساتھ بولنے کے قابل نہیں ہیں۔ اور وہ جو سچائی پر ایمان نہیں رکھتے ہیں افسوسناک طورپر اپنی ایمان کی زندگی کو کوستے ہوئے ختم ہوجاتے ہیں۔ لیکن پانی اور روح کی خوشخبری کی سچائی نہیں بدلتی، اور اسی لیے اُنھیں یقیناً پانی اور روح کی اِس خوشخبری پر ایمان رکھنا چاہیے۔
لیکن عبرانیوں ۷:۱۲ کا حوالہ دیتے ہوئے، جو فرماتا ہے، ” اور جب کہانت بدل گئی تو شرِیعت کا بھی بدلنا ضرُور ہے،“ بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں،”شریعت بھی بدل گئی ہے۔ پس نجات جو یِسُوعؔ نے پوری کی حقیقی طور پر پرانے عہد نامہ کے اُسی طریقہ کے مطابق مکمل نہیں ہوئی تھی۔یِسُوعؔ مسیح آیا اور ہمیں صرف صلیب پر، ایک نئے طریقہ سے مرنے کی معرفت بچا چکا ہے۔“ بعض دوسرے لوگ دعویٰ کرتے ہیں، ”ایسا لگتا ہے کہ یہ اُس وقت تھا جب یِسُوعؔ صلیب پر مرگیاتھا تب خُدا نے ہمارے گناہوں کو اپنے بیٹے پر منتقل کِیا تھا۔“
لیکن ایسے دعوےٰ سب عیب دار اور بے بنیاد ہیں۔ ہم یہ کہتے ہوئے آسانی سے اُن کے دعووٰں کو غلط ثابت کر سکتے ہیں، ”تب کیا اِس کا مطلب ہے کہ خُدا نے صرف یِسُوعؔ کو مصلوب کِیا جو بے گناہ تھا اور تب ہی اُس پر دنیا کے گناہوں کو منتقل کر دیا؟“ جب ہم خُداکے کلا م پر ایمان رکھتے ہیں،تو ہمیں یقیناً اِس پر ایمان رکھنا چاہیے جس طرح یہ ہے،اوراپنے ذاتی خیالات پر زور نہیں دینا چاہیے۔ حتیٰ کہ اگر ہم اپنے ذاتی تنازعے رکھتے ہیں، اگر کلامِ مقدس بتاتا ہے کہ یہ تنازعے غلط ہیں، تب ہمیں اپنی ذاتی راستبازی کو توڑنا ہوگا
اور خُدا کے کلام پر ایمان رکھناہوگا۔
جتنا زیادہ وقت گزرتا ہے، اُتنی ہی زیادہ شکر گزار اور قیمتی حقیقت ہے کہ خُداوند ہمیں پانی اور روح کی خوشخبری کے ساتھ بچا چکا ہے۔ جب ہم نے اپنے ذاتی خیالات کے مطابق ایمان رکھا، توایسےوقت بھی آئے جب ہماری ایمان کی زندگی خطرے میں پڑ گئی اور ہم کلیسیا سے تقریباً دُور ہوگئے ۔ لیکن بالکل جس طرح دو چولوں نے خیمۂ اِجتماع کے ہر تختے کو پکڑا یعنی چاندی کے دو خانوں میں لگنے کی بدولت، یِسُوعؔ کی سچائی پر ہمارا ایمان،کہ اُس نے بپتسمہ لینے اور اپنا خون بہانے کے وسیلہ سے ہمارے گناہوں کو اُٹھا لیا، ہمیں مضبوطی سے قائم رکھتا ہے۔ یوحناؔسے بپتسمہ لینے اور مصلوب ہونے اور اپنا خون بہانے کے وسیلہ سے ہماری سزا برداشت کرنے کی بدولت، ہمارا خُداوند ہمیں ہمارے تمام گناہوں سے بچا چکا ہے۔ اِس طرح، ہمارا ایمان ابد تک متزلزل نہیں ہوگا۔
امثال ۲۵:۴ فرماتی ہے، ” چاندی کی مَیل دُور کرنے سے سُنار کے لِئے برتن بن جاتا ہے۔ “ اِس حوالے کی مانند، حتیٰ کہ جتنی زیادہ گندی، بُری، اور آلودہ باتیں ہمارے جسمانی خیالات میں اُبھرتی ہیں، اپنے بپتسمہ اور خون کے ساتھ، یِسُوعؔ ہمیں اِن گندی باتوں سے، بنی نوع انسان کے گناہوں سے پاک کر چکا ہے، اور ہمیں خُدا کی راستبازی کے خادم بنا چکا ہے۔ خُد اوند ہمیں دنیا کے گناہوں سے پاک کر چکا ہے۔یوحناؔ سے بپتسمہ لینے کے وسیلہ سے اور یوں ایک ہی بار ابد تک ہمارے سب گناہوں کو قبول کرنے، اور مصلوب ہونے او راپنا خون بہانے کے وسیلہ سے اور یوں ہمارے گناہوں کی ساری سزا اُٹھانے کی بدولت، یِسُوعؔ صاف طورپر ہمیں دنیا کے گناہوں سے بچا چکا ہے۔
اِس طرح، وہ جو پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں اپنی دائمی نجات کی ضمانت پاتے ہیں۔ ہمارے اعمال بعض اوقات پریشان حال نظر آ سکتے ہیں، لیکن پانی اور روح کی خوشخبری ہمارے ایمان کو مضبوطی سے تھامےرکھتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے چاندی کے خانے اپنے دو چولوں کے لگنے کی وجہ سے ہر تختے کو تھام کر رکھتے تھے۔
نجات کا دائمی فضل جو ہمیں تھامتا ہے
اَب آئیں ہم اپنی توجہ بینڈوں کی طرف موڑیں جو خیمۂ اِجتماع کے تختوں کو مل کر تھامتے تھے۔ خروج ۲۶:۲۶۔۲۷ فرماتا ہے، ” اور تُو کِیکر کی لکڑی کے بینڈے بنانا۔ پانچ بینڈے مسکن کے ایک پہلُو کے تختوں کے لِئے۔اور پانچ بینڈے مسکن کے دُوسرے پہلُو کے تختوں کے لِئے اور پانچ بینڈے مسکن کے پِچھلے حِصّہ یعنی مغرِبی سِمت کے تختوں کے لِئے۔ “ خیمۂ اِجتماع کی مکمل شکل مستطیل نما تھی۔ خیمۂ اِجتماع کے دروازہ پر اور پاکترین مقام کے پردہ کے لئے ستون رکھے گئے تھے، اوریہ باقی تختوں سے بناہوا تھا۔ یہ تختے پانچ بینڈوں کے ساتھ گرداگرد لپٹے ہوئے تھے۔
اِن بینڈوں کو پکڑنے کے لئے، پانچ سونے کے کڑے ہر تختے پر ڈالے گئے تھے، اور بینڈے بذاتِ خود، کیکر کی لکڑی کے بنے ہوئے تھے، اور سونے کے ساتھ منڈھے ہوئے بھی تھے۔ پانچ پانچ بینڈے خیمۂ اِجتماع کی تمام تینو ں، شمال، جنوب، اور مغرب سمتوں کے تختوں پر لگے ہوئے تھے۔ جیساکہ تختے اِن بینڈوں کی معرفت سونے کے کڑوں میں سے گزرتے ہوئے کھڑے ہوئے تھے، وہ مضبوطی سے قائم رہتے تھے۔ اِس طرح اپنی بنیاد میں چاندی کے خانوں سے سہارا لے کر، اور باہم اپنے پہلوؤں پر پانچ بینڈوں کے ذریعے گرفتہ ہوئے، تختے مضبوط اور پکے کھڑے رہتے تھے۔
اور جس طرح اڑھتالیس تختے گردا گرد پانچ بینڈوں سے لپٹے ہوئے تھے اور ایک دوسرے کو سہارا دیتے تھے، خُدا کے لوگ بھی پانی اور روح کی خوشخبری کے ساتھ خُدا کے ساتھ بندھےہوئے ہیں۔ خُدا کی کلیسیا ایسی جگہ ہے جہاں وہ جو پانی اور روح کی نجات کی بخشش حاصل کر چکے ہیں باہم اکٹھے ہوتے ہیں اور اپنی ایمان کی زندگیاں گزارتے ہیں۔ یِسُوعؔ نے پطرسؔ سے فرمایا کہ وہ اپنی کلیسیا کی بنیاد پتھر پر رکھے گا (متی ۱۶:۱۸۔۱۹)اِس طرح، وہ جگہ جہاں خُدا کی بادشاہی اُن کے اکٹھے ہونے سے تشکیل پاتی ہے جو گناہ کی معافی حاصل کر چکے ہیں وہ خُدا کی کلیسیا ہے۔ خُدا ہمیں دکھا رہا ہے کہ وہ ہمیں آسمانی، ارغوانی، اور سُرخ دھاگے میں ظاہر کیے گئے یِسُوعؔ کے کاموں کے ساتھ دنیا کے گناہوں سے مکمل طورپر بچا چکا ہے۔
خروج ۲۶:۲۸ فرماتا ہے، ” اور وسطی بینڈا جو تختوں کے بِیچ میں ہو وہ خَیمہ کی ایک حد سے دُوسری حد تک پُہنچے۔ “ یہ وسطی بینڈا ایک ہی مرتبہ ایک جانب سے تمام تختوں کو باندھنے کے لئے کافی لمبا بنایا گیا تھا۔ تب، اِس وسطی بینڈے کا جو تختوں کے بیچ میں سے ایک حد سے دوسری حدتک پہنچتا تھا کیا مطلب ہے؟ اِس کا مطلب یہ ہے کہ راستباز ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہوتے ہیں، اور یہ کہ اُن کا ایمان ایک دوسرے کے ساتھ رفاقت رکھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، خُداوند کی معرفت بخشی گئی پانی اور روح کی خوشخبری کے وسیلہ سے پوری ہوئی نجات پر ایمان رکھنے کی بدولت، وہ ایمان میں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں۔ راستباز اپنے ایمان کے وسیلہ سے روبرو ملتے ہیں۔ یہ ہے کیوں جب ہم اپنے ساتھی مقدسین یا خادموں سے ملتے ہیں اوراُن کے ساتھ رفاقت رکھتے ہیں،تو ہم حقیقتاً دلوں کی اس میل جول کو محسوس کر سکتے ہیں۔
”ایک ہی خُداوند ہے۔ ایک ہی ایمان۔ ایک ہی بپتسمہ“
آئیں ہم اِفسیوں ۴:۳۔۷ کی طرف رجوع کریں: ” اور اِسی کوشِش میں رہو کہ رُوح کی یگانگی صُلح کے بند سے بندھی رہے۔ایک ہی بدن ہے اور ایک ہی رُوح۔ چُنانچہ تُمہیں جو بُلائے گئے تھے اپنے بُلائے جانے سے اُمّید بھی ایک ہی ہے۔ایک ہی خُداوند ہے۔ ایک ہی اِیمان۔ ایک ہی بپتِسمہ۔اور سب کا خُدا اور باپ ایک ہی ہے۔ جو سب کے اُوپر اور سب کے درمِیان اور سب کے اندر ہے۔اور ہم میں سے ہر ایک پر مسِیح کی بخشِش کے اندازہ کے مُوافِق فضل ہُؤا ہے۔ “ پولُسؔ رسول نے ہمیں روح کی یگانگی کوصلح کے بند سے باندھ کر رکھنے کی کوشش کرنے کو کہا۔ یِسُوعؔ کے بپتسمہ اور صلیب سے—جب ہم اِن دونوں سے نجات کی بخشش کوحاصل کرتے ہیں، تب صلح ہمارے دل میں آتی ہے۔ جب ہم اپنے دلوں میں گناہ کی معافی حاصل کرتے ہیں، تب ہم مسیح میں ایک خاندان بن جاتے ہیں، مختصراً، ہم ایک بدن بن جاتے ہیں۔
”ایک ہی خُداوند ہے۔“ یِسُوعؔ مسیح جو ہمیں بچا چکا ہے ایک ہی ہے۔ ”ایک ہی ایمان۔“ آ پ کس پر ایمان رکھتے ہیں؟ آپ یِسُوعؔ کے پانی اور خون اور روح کی نجات پر ایمان رکھتے ہیں، جو آسمانی، ارغوانی، اور سُرخ دھاگے اور باریک بٹے ہوئے کتان میں ظاہر کی گئی ہے۔ ”ایک ہی بپتسمہ۔“ پولُسؔ رسول نے ایک بار پھر یِسُوعؔ کے بپتسمہ پر زور دیا۔ اُس نے یہاں صلیب کا حوالہ نہیں دیا، بلکہ اِس کی بجائے اُس نے یِسُوعؔ کے بپتسمہ پر زور دیا جس نے تمام ایمانداروں کو غیرمشروط طورپر پاک کِیا۔ہمارےلیے اُس کے بپتسمہ پر اپنا ایمان رکھنے کے واسطے مسیح میں بپتسمہ لینا ہے اور یوں مسیح کو پہننا ہے (گلتیوں ۳:۲۷)۔ ”ایک ہی خُداوند ہے۔“ خُدا ایک ہے۔ یہی خُدا ہمیں اپنے ذاتی بیٹے کو بھیجنے کے وسیلہ سے بچا چکا ہے۔
یہ تمام چیزیں پانی، خون، اور روح پر ایک ایمان کو بیان کرتی ہیں (۱۔یوحنا ۵:۸)۔ یہ ہے جب ہم پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارے دل ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں۔ وہ جو گناہ کی معافی حاصل کرچکے ہیں ایک دوسرے سے روبرومل سکتے ہیں۔ کچھ اوقات ایسے بھی ہو سکتے ہیں جب ہم ایک دوسرے کو مکمل طورپر نہیں سمجھ سکتے۔ لیکن جس طرح وسطی بینڈا ایک حد سے آخری حد تک تختوں کے درمیان میں سے گزرتا تھا، اگر وہ واقعی اپنے دل کے مرکز میں گناہ کی معافی حاصل کرچکے ہیں، تب وہ سب ایک دوسرے کےساتھ بات چیت کر سکتے ہیں۔ ”یہ بھائی بھی گناہ سے نجات یافتہ ہو چکا ہے، لیکن اُس کا جسم کمزور ہے اور اُس کے د ل میں بہت سی جسمانی باقیات ہیں۔ باقی سب کی مانند، وہ، بھی، بدکار کی نسل ہے، لیکن خُداوند پھر بھی پانی اور روح کی خوشخبر ی کے ساتھ اُس کا گناہ ختم کر چکا ہے۔“ اِس طرح، وہ ایک دوسرے کو سمجھنے اور خُداوند کی پرستش کرنے کے لئے آتے ہیں۔
لوگ خواہ کتنےہی ناکافی کیوں نہ ہوں، اگر وہ گناہ کی معافی حاصل کرتے ہیں اور کلیسیا میں رہتے ہیں، تب اُن کے چہرے روشن ہو جائیں گے، اُن کے خیالات جگمگا اُٹھیں گے، اوراُن کے دل بھی چمک جائیں گے، اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ گفت و شنید کے قابل ہوں گے۔ راستباز ایک دوسرے کو روبرو دیکھ سکتے ہیں۔ اِسے کیا ممکن بناتا ہے؟ اِسے ایما ن ممکن بناتا ہے۔ وہ ایک دوسرے کو رو برو، کسی دوسری حالت کی وجہ سے نہیں دیکھتے بلکہ ایمان کی وجہ سے دیکھتے ہیں۔ تب، بعض دوسرے لوگوں کے ساتھ گفت و شنیدکرنے میں ہماری نااہلی کی کیا وضاحت کرتا ہے؟ ہم اپنے دلوں کو اُن کے ساتھ نہیں بانٹ سکتے جو مسیح میں نہیں ہیں، کیونکہ وہ، اپنے دلوں میں، سچائی،یعنی پانی اور روح کی خوشخبری پر ایما ن نہیں رکھتے۔ وہ جو پانی اور روح کی اِس خوشخبری پر ایما ن نہیں رکھتے وہ ہمارے ساتھ بالکل رفاقت نہیں رکھ سکتے۔
بھائیو اور بہنو، خُداکی کلیسیا دراصل کیا ہے۔ یہ اُن لوگوں کا اجتماع ہے جو یِسُوعؔ مسیح میں پاک ہوئے، مقدس کہلاتے ہیں (۱۔کرنتھیوں ۱:۲)۔ یہ اُن لوگوں کا اجتماع ہے جو سچائی پر ایمان رکھتے ہیں کہ یِسُوعؔ مسیح بپتسمہ لینے کے وسیلہ سے اُن کے گناہ دھو چکا ہے،کہ وہ اُنھیں اُن گناہوں کو اُٹھانے اور صلیب پر اُ ن کی ساری سزا برداشت کرنے کے وسیلہ سے بچا چکا ہے، اور یعنی وہ پھر مُردوں میں سے جی اُٹھا اور اُن کا ذاتی نجات دہندہ بن چکا ہے۔ خُدا کی کلیسیا کوئی اور نہیں بلکہ اُن لوگوں کا اجتماع ہے جو پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے ایک بن چکے ہیں۔
یہ اِس لیے ہے کیونکہ یہ ایمان دونوں میرے اور آپ کے دل میں ہے یعنی ہم ایک دوسرے کو روبرو دیکھ سکتے ہیں جب ہم اُس کی کلیسیا میں ہوتے ہیں۔جس طرح خُدا ہماری ظاہر ی شکل و صورت کو نہیں بلکہ ہمارے دلوں کے مرکز کودیکھتا ہے جب وہ ہمیں دیکھتا ہے،اسی طرح ہم جو گناہ کی معافی حاصل کر چکے ہیں ظاہری شکل و صورت کو نہیں دیکھتے، بلکہ ہم ایک دوسرے کے ایمان کے مرکز کو دیکھنے کی بدولت رفاقت رکھتے ہیں۔ ” کیا یہ شخص واقعی دل سے سچائی پر ایمان رکھتا ہے؟‘‘— یہ وہی ہے جس کی ہم تلاش کرتے ہیں۔ کوئی معنی نہیں رکھتا کہ اُس کی شخصیت میں کیا فرق ہو، یہ بالکل معنی نہیں رکھتا جب تک کہ وہ ”ایک ہی خُدا وند،ایک ہی ایمان، ایک ہی بپتسمہ؛ سب کے خُدا اور ایک ہی باپ پر“ ایمان نہ رکھتا ہو۔
کیونکہ ہم ایمان رکھتے ہیں، ہم ستون اور خیمۂ اِجتماع کے تختے بن چکے ہیں،اور کیونکہ ہم ایمان رکھتے ہیں، ہم خُدا کا خاندان بن چکے ہیں۔ کیا آپ پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں؟ یہ اس لیے ہے کیونکہ ہم ایمان رکھتے ہیں کہ ہم تمام دنیا میں نجات کا نور پھیلا رہے ہیں، جس طرح خالص سونا (ایمان) خُدا کے گھر میں چمکتا ہے۔ ہم اپنے دلوں کو اُن کے ساتھ بانٹ سکتے ہیں جو حال ہی میں گناہ کی معافی حاصل کر چکے ہیں، کیونکہ روح القدس اُن کے دلوں میں بھی سکونت کرتا ہے۔ اگر صرف ہم گناہ کی معافی حاصل کر چکے ہیں، تب ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں، لیکن اگر ہم گناہ کی معافی حاصل نہیں کر چکے ہیں، تب ہم ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت نہیں کر سکتے۔ ظاہری شکل و صورت کی بنیادپر لوگوں میں امتیازکرنےوالے گنہگار ایک دوسرے کے ساتھ شکل، دولت، یا شہرت جیسے سطحی پہلوؤں کی بنیاد پر مختلف سلوک کرتے ہیں، لیکن ہم راستباز اپنے دلوں میں ایسا نہیں کرتے۔ راستبازوں کے پاس کوئی امتیاز نہیں ہے۔
جب لوگ پہلی بارگناہ کی معافی حاصل کرتے ہیں،تو مَیں اکثر اُن سے پوچھتا ہوں، ” کیا آپ واقعی گناہ کی معافی کر چکے ہیں؟ کیا آپ اب تک گناہ رکھتے ہیں، یا کیا آپ کے گناہ غائب ہو چکے ہیں؟ ویسے، آپ کےذہن میں کلامِ مقد س کے بارے میں بہت سارے سوالات ہونے چاہیے، کیا آپ کے ذہن میں نہیں ہیں؟ اپنی ایمان کی زندگی کےساتھ ساتھ وقت پر اُن سے پوچھیں۔اِس کے علاوہ، آپ کی خامیاں ظاہر ہوں گی اور آپ غالباً راستے میں کچھ غلطیاں کریں گے۔ لیکن راہنما اور وہ جو کلیسیا میں آپ سے پہلے جا چکے ہیں آپ کی مدد کریں گے، تاکہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے۔“
بھائیو اور بہنو، ہم راستبازوں کو کلیسیا کی ضرورت ہے۔ خیمۂ اِجتماع کا مطلب خُدا کی کلیسیا بھی ہے۔ وہ جو پانی اور خون پر ایمان نہیں رکھتے خُد اکی کلیسیا میں نہیں آ سکتے اور اِس میں سکونت نہیں کر سکتے۔ وہ جو آسمانی، ارغوانی، اور سُرخ دھاگے میں ظاہر کی گئی پانی اورروح کی خوشخبری پر ایمان نہیں رکھتے نہ آسکتے ہیں نہ ہی اُس کی کلیسیا میں سکونت کر سکتے ہیں۔ صرف وہی جو سچائی پر ایمان رکھتے ہیں کلیسیا میں سکونت کر سکتے ہیں،اور خُدا کے لوگ اور اُس کے کارکنان بن سکتے ہیں، اور خُدا کےجلال کوبھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ صرف خون یا اُن کے جسم کی کسی قابلیت سے نہیں ہے کہ لوگ خُدا کے بچےبن سکتے ہیں۔ کوئی معنی نہیں رکھتا کہ بعض پادری کتنے ہی بااختیار ہو ں، اگر وہ پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان نہیں رکھتے، تب وہ خُدا کے بچے نہیں ہیں۔
یِسُوعؔ جو پانی اور خون کے وسیلہ سے آیا تھاہمیں کامل طورپر بچا چکا ہے
جب خُداوند اِس زمین پر آیا تواِس کا خلاصہ اُس کی پیدائش، بپتسمہ، خون بہانے، اور جی اُٹھنے کے وسیلہ سے کِیا جا سکتا ہے۔ یہ سب اُس کی گناہ کی معافی کی خدمات ہیں۔ یِسُوعؔ آسمانی، ارغوانی، اور سُرخ دھاگے کی اپنی خدمات کے ساتھ اپنا مقصد پورا کر چکا ہے۔ خیمۂ اِجتماع میں ظاہر کیے گئے آسمانی، ارغوانی،اور سُرخ دھاگے گناہ سے ہماری اپنی نجات کے لئے تھے۔ خُدا کی نجات اتنی وسیع ہے کہ ہمیں اپنے ذاتی طریقے سے اُس پر ایمان نہیں رکھناچاہیے۔ ہمیں اُس کی نجات پر ایمان رکھنا ہے جس طرح یہ ہے۔
ہمارے ایمان کو درست طورپر اُس کی نجات کی دو سچائیوں: اُس کے بپتسمہ اور اُس کے صلیبی خون کے عین مطابق ہونا چاہیے۔ یہ ہے کیوں چاندی کے دو خانوں کے سوراخوں کے لئے دو چولیں درست طورپر لگتی تھیں۔ ہم اِس سچائی کو جو یِسُوعؔ ہمیں عطا کر چکا ہے محض دنیا کے علم میں سے ایک کے طورپر خیال نہیں کرسکتے اور صرف اِسی طرح اِس پر ایمان نہیں رکھ سکتے۔ آپ اور مَیں وہ لوگ ہیں جو چاندی کے دو خانوں میں ظاہر کیے گئے یِسُوعؔ کے نجات کے کاموں پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے خُدا کے سامنے گناہ سے نجات یافتہ ہو چکے ہیں۔
خیمۂ اِجتماع ہمیں یِسُوعؔ کے مفصل طریقہ نجات کے بارے میں بتاتا ہے، اور یہ نجات دراصل ہمارے لئے پہلے ہی پوری ہو چکی ہے۔ نجات کی دو بخششوں پر ایمان رکھیں جو خُدا آپ کو دے چکا ہے۔ سونا جو خیمۂ اِجتماع میں استعمال ہوا ایمان کو عائد کرتا ہے۔ اگر آپ سچائی پر ایمان رکھتے ہیں جس طرح یہ ہے، تب نجات اور خُداوندکا جلال آپ کے ہو سکتے ہیں، لیکن یہ آپ کے نہیں ہو سکتے اگر آپ ایمان نہیں رکھتے۔ کیا آپ ایمان کے وسیلہ سے خیمۂ اِجتماع کے اندر رہنا چاہتے ہیں، یعنی خُدا کے جلال میں ملبوس اور اُ س کے وسیلہ سے محفوظ ہو کر، یا کیا آپ ایمان نہ رکھنے کو جاری رکھتے ہوئے ابد تک لعنتی ٹھہرنا چاہتے ہیں؟ اگر آپ صرف صلیبی خون پر ایمان رکھتے ہیں، تب آپ نجات یافتہ نہیں ہو سکتے۔ آپ کو یقیناً ایمان رکھنا چاہیے کہ صلیبی خون اور بپتسمہ ایک ہی ہیں۔ خُداوند کی بخشش اِن دو نوں سے مل کر بنی ہے۔
خُدا کا روح ہمارے دلوں میں بستا ہے صرف جب ہم اِن دو عناصر پر (یِسُوعؔ کے بپتسمہ اور خون بہانے پر) ایمان رکھتے ہیں۔ روح القدس اُن کے دلوں میں کبھی سکونت نہیں کرتا جو اِن پر ایمان نہیں رکھتے۔ اگر آپ صرف اپنے ہونٹوں کے ساتھ اپنے ایمان کا اقرار کرتے ہیں لیکن اپنے دلوں میں ایمان نہیں رکھتے، اور اگر آپ کا علم محض علمی مشق سے زیادہ نہیں ہے، تب آپ کبھی نجات یافتہ نہیں ہو سکتے۔ نجات یافتہ ہونے کے لئے، آپ کو پہلےحد بندی کی ایک واضح لکیر کھینچنی چاہیے جو آپ کی نجات کی حدود طےکرتی ہے: ”اب تک، مَیں نجات یافتہ نہیں ہو چکا تھا۔ نجات جس پر مَیں ایما ن رکھتا تھا حقیقی نجات نہیں تھی۔ لیکن یِسُوعؔ پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے جو پانی اور خون کے وسیلہ سے آیا، اب مَیں نجات یافتہ ہو چکاہوں۔“ لوگ اُسی وقت راستباز بن سکتے ہیں جب وہ پہلے کم ازکم ایک بار گنہگار بنتے ہیں۔ اُنھیں تسلیم کرنا چاہیے کہ غیر نجات یافتہ کے طورپر، وہ اپنے گناہوں کی وجہ سے لعنتی ہونے کے لائق ہیں، اورپھرپانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے کامل طورپر نجات یافتہ لوگ بن جاتے ہیں۔
آسمانی، اور ارغوانی دھاگے، یِسُوعؔ کے بپتسمہ اور خون کے ساتھ،ہمیں یقیناً اپنی کامل نجات حاصل کرنی چاہیے۔ اپنے بپتسمہ اور خون کے ساتھ، خُداوند ہمیں کامل نجات کی بخشش عنایت کر چکا ہے۔ ہمیں اپنے ذاتی خیالات پر مبنی ایمان رکھنے سے روکنے کے لئے، خُداوند نے اِس نجات کو خیمۂ اِجتماع کے وسیلہ سےبھی تفصیل سے ظاہر کِیا۔ کیونکہ یہ نجات بہت قیمتی اور کامل ہے، یہ ہر کسی کے لئے ایمان رکھنے کے واسطے لازوال ہے۔ اُس کی نجات کے محض ایک پہلو ، صلیبی خون پر ایمان مت رکھیں، بلکہ یِسُوعؔ کے بپتسمہ اور خون دونوں پر ایک ساتھ ایمان رکھیں! اگرہمارے درمیان کوئی ہے جو اب تک نجات یافتہ نہیں ہے، تب یہ میری پُرخلوص اُمید ہے کہ وہ ایمان رکھ کر، اب بھی، اِس سچائی کے وسیلہ سے نجات یافتہ ہوگا۔
کیا ہمارے درمیان کوئی ہے جو اب بھی اکیلے یِسُوعؔ کے خون پر ایمان رکھتا ہے؟ بہت سارے مسیحی ہیں جو اب بھی ایسی نیم پختہ خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن میری اُمید ہے کہ ایسا غلط عقیدہ ہمارے دلوں پر پھر کبھی چڑھائی نہیں کرے گا۔ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کچھ بھی ہو، مَیں غیر نجات یافتہ لوگوں کی بھیڑسے تعلق نہیں رکھ سکتا۔ ہم وہ لوگ ہیں جو اِن دو چیزوں (آسمانی اور سُرخ دھاگے) — یعنی، یِسُوعؔ کے بپتسمہ اور خون پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے مکمل طورپر نجات یافتہ ہو چکے ہیں۔ مَیں نجات کی اِن دو بخششوں کے لئے خُداکا شکر ادا کرتاہوں جس کے وسیلہ سے خُداوند مجھے بچا چکا ہے۔ کیونکہ خُدا میری نجات کو مکمل طورپر پورا کر چکا ہے، مَیں پہلے ہی لعنتوں اور عدالت سے بھی آزاد ہو چکا ہوں۔
واقعی، ہماری نجات جو آسمانی، اور سُرخ دھاگے سے حاصل ہو چکی ہے تمام الفاظ سے بالاتر قیمتی ہے۔ یاد رکھیں اور ایمان رکھیں کہ آپ کی نجات نہ محض صلیبی خون کے وسیلہ سے مکمل ہوتی ہے، نہ ہی محض یِسُوعؔ کے بپتسمہ کے وسیلہ سے، بلکہ دونوں بپتسمہ اور صلیبی خون کے وسیلہ سے مکمل ہوتی ہے، اور یہ اِن دونوں پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے ہے کہ آپ خُدا کے بچےبن سکتے ہیں۔ ہم پانی اور روح کی خوشخبری کے کلام پر،اُس بھیدسے جو خیمۂ اِجتماع کے تختوں کی دو چولوں اور چاندی کے دو خانوں میں پوشیدہ ہے ایمان رکھنے کے وسیلہ سے ابدی زندگی حاصل کر چکے ہیں۔
مَیں اپنے خُداوندکاپورےدل سے شکر ادا کرتاہوں جو ہمیں دنیا کے گناہوں سے بچا چکاہے۔ ہیلیلویاہ!