Search

مسیحی عقیدے پر عمومی سوالات

مضمنون نمبر۱ : پانی اور روح سے نئے سرے سے پیدا ہونا

1-22. بھلا کیسے میں کہہ سکتا ہوں،’’میں راستباز ہوں‘‘ جبکہ میں ہر روز گناہ کر رہا ہوں؟

ہم، نوعِ انسان کے طور پر، اپنے پیدا ہونے کے لمحے سے لے کر مرنے تک گناہ کرتے ہیں۔درحقیقت جہاں تک اِس کا تعلق ہے یہ ہماری بنیادی  فطرتوں کی وجہ سے ہے؛یعنی کہ ہم شروع سے گناہ کرتے ہیں۔ لہٰذا، کتابِ مقدّس ارشاد فرماتی ہے، ’’کوئی راستباز نہیں۔ ایک بھی نہیں۔‘‘(رومیوں۳:۱۰)۔یہ اِس بنا پر ہے کیوں پولسؔ رسول نے خُدا کےرُوبرُواِقرار کیا کہ ’’ یہ بات سچ اور ہر طرح سے قبول کرنے کے لائق ہے کہ مسیح یسوؔع گنہگاروں کو نجات دینےکے لئے دُنیا میں آیا جن میں سب سے بڑا میں ہوں۔‘‘ (۱۔ تیمتھیس ۱:۱۵)۔
’’مگر اب شریعت کے بغیر خُدا کی ایک راستبازی ظاہرہوئی ہے جسکی گواہی شریعت اور نبیوں سے ہوتی ہے۔یعنی خُدا کی وہ راستبازی جو یسوؔع مسیح پر ایمان لانے سے سب ایمان لانے والوں کو حاصل ہوتی ہے کیونکہ کچھ فرق نہیں ۔اسلئے کہ سب نے گناہ کیا اور خُدا کے جلال سے محروم ہیں۔ مگر اسکے فضل کے سبب سے اس مخلصی کے وسیلہ سے جو مسیح یسوؔع میں ہے مفت راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں۔‘‘ (رومیوں۳:۲۱- ۲۴)۔
 خُدا کی اِس ’’راستبازی ‘‘کا مطلب  ہے کہ یوؔحنا اِصطباغی نے یسوؔع کو یردؔن میں بپتسمہ  دیا۔  جب
اُس نے بپتسمہ لیا، تو اُس نے یوؔحناکو فرمایا، ’’اب تو ہونے ہی دے کیونکہ ہمیں اسی طرح ساری راستبازی پوری کرنامناسب ہے۔‘‘ (متی۳:۱۵)۔ اُس نے انتہائی راست اورمنصفانہ طریقے سے دُنیا کے گناہوں کو اُٹھالیاجب یوؔحنا اِصطباغی،تمام نسلِ انسانی کے نمائندہ نے،اُسے بپتسمہ دیا ۔چنانچہ ، یوؔحنااگلے ہی دن زور سے چِلا اُٹھاجب اُس نےیسوؔع کو بپتسمہ دیا،’’دیکھو یہ خُدا کا برّہ ہے جو دُنیا کا گناہ اُٹھالے جاتا ہے۔‘‘(یوحنا۱:۲۹)۔
اِس صورت میں یہاں’’دُنیا کےگناہ‘‘کاکیامطلب ہے ؟ اِس بناپر یہ ساری نسلِ انسانی کے تمامتر گناہوں کی  آدؔم اور حوؔا سے ،یعنی رُوئے زمین پر پہلے فردِ بشر سےلے کر، آخری فرد تک جو اِس دُنیا میں زندہ رہے گا،سب کی ترجمانی کرتا ہے۔ ماضی کے لوگ دُنیاسے تعلق رکھتے ہیں ، حال کے لوگ دُنیاسے تعلق رکھتے ہیں، اوروہ لوگ جو مستقبل میں جئیں گےوہ بھی دُنیاکا حصہ ہیں ۔ یسوؔع، الفا اور اومیگا، تمام زمانوں کےگناہوں کی خاطریردؔن  میں اپنے بپتسمہ اور صلیبی موت  کے وسیلہ سےآخری اور حتمی طور پر  دُنیا کے تمامترگناہ اُٹھاکر ایک ہی قربانی چڑھا چُکا تھا ۔ اور’اِسی طرح‘ ہم پاک ہو چُکے ہیں ۔
 کتابِ مقدّس واضح طور پر اعلان فرماتی ہے،’’اُسی مرضی کے سبب سے ہم یسوؔع مسیح کے جسم کے ایک ہی بار قربان ہونے کے وسیلہ سے پاک کیے گئے ہیں۔‘‘(عبرانیوں۱۰:۱۰)۔غور فرمائیں کہ یہ جملہ فعل حال مکمل میں لکھا ہوا ہے ۔ہم حتمی طور پر پاک اور بے گناہ بن چُکے ہیں،اُسی لمحے سے لے کر اب تک جب  ہم خُدا پر ایمان لائے اور ہمیشہ تک رہیں گے۔چونکہ خُداوندقادرِ مطلق خُداہے، وہ دُنیا کی ابتداو انتہاپرطائرانہ نظررکھتا ہے۔اِس کے باوجود کہ یہ تقریباً ۲۰۰۰ سال پہلے کی بات تھی جب اُس نے بپتسمہ لیا ، پھر بھی اُس نے تمام گناہوں کو اُٹھا لیا جو بنی نوع انسان دُنیا کی ابتداسے انتہا  تک کرتے ہیں۔ چنانچہ، صلیب پر مرنے سے پیشتر، اُس نے فرمایا،’’تمام ہوا‘‘(یوحنا۱۹:۳۰)۔ اُس نےتقریباً۲۰۰۰سال پہلے دُنیا کے تمام گناہ اُٹھالئے اور اُنہیں  دھونےکے سلسلے میں  صلیب پرمر گیا ۔
ہم ابھی تک نجات حاصل کرنے کے بعدبھی بِلا شک گناہ کرتے ہیں کیونکہ ہمارا جسم کمزور ہے۔ تاہم ، یسوؔع ہمیں اپنابپتسمہ لینےکے وسیلہ سے اپنے بدن پر تمام گناہ اُٹھا نے اور صلیب پراُن کی خاطر سزا سہنے کے وسیلہ سے ماضی، حال اور مستقبل کے تمام گناہوں سے چُھڑا چُکا ہے۔ یہ خُدا  کی  کامل اور راست
نجات ہے۔
اگر یسوؔع اپنے ہمراہ اُن گناہوں کو نہیں لے جا چُکا تھاجو ہم مستقبل میں کریں گے، تو ایک بھی آدمی اپنے روزمرّہ کے گناہ سے بچ نہیں سکتا تھا، ’’کیونکہ گناہ کی مزدوری موت ہے‘‘ (رومیوں۶: ۲۳)۔ جب یعقوؔب اور عیسؔوہنوز  اپنی ماں کے بطن ہی میں تھے توبِلا شک  اُنکے اچھایا بُرا کرنے سے قبل خُدا نے اُنہیں دو قوموں میں تقسیم کردیا، اور یعقوؔب سے محبت رکھی،مگر عیسؔو سے نفرت رکھی، اورارشاد فرمایا،’’بڑا چھوٹے کی خدمت کرے گا۔‘‘(پیدایش۲۵ :۲۳)۔یہ حوالہ ضمنی طور پر اشارہ  کرتا ہے کہ خُدا کی نجات کوہمارے اعمال کے ساتھ کوئی  سروکار نہیں ہے،البتہ یہ   اُن  لوگوں کو بخشی جاتی ہے جو خُدا کی کامل نجات کے اندر فقط اُس کے بپتسمہ اور مصلوبیت پرایمان لاتے ہیں۔
ہم بنی نوع انسان وجودِ گناہ گاری کے طور پر  پیدائش کے لمحے سےلے کر مرنے کےلمحے تک  جہنم جانےکے لئے پیشتر ہی مقرر ہیں،مگرخُدا نے پہلی ہی نظر میں ہمارے گناہوں کو پیشتردیکھا اوریسوؔع کے بپتسمہ اور صلیب کے وسیلہ سےآخری اور حتمی طور پر ہمارے تمام گناہوں کو دھوڈالاکیونکہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے ۔ ہم مُبارک دَور میں زندہ ہیں۔ یسعیاہ نبی نے فرمایا، ’’یروشلؔیم کو دلاسا دو اور اسے پکار کرکہوکہ اسکی مصیبت کے دن جو جنگ و جدل کے تھے گذرگئے ۔ اسکے گناہ کا کفّارہ  ہوا اور اس نے خُداوند کے ہاتھ سے اپنے سب گناہوں کابدلہ دو چندپایا۔‘‘(یسعیاہ ۴۰: ۲)۔یسوؔع کے بپتسمہ اور صلیب کی خوشخبری کے وسیلہ سے ہمارا گناہ کی غلامی کا دَور ختم ہوچُکا ہے ،ہر آدمی ، جو خوشخبری پر ایمان لاتا ہے اپنے تمام گناہوں سے آزاد ہو سکتا ہے ۔’’جو عہد میں ان دنوں کے بعد ان سے باندھونگا وہ یہ ہے کہ میں اپنے قانون انکے دلوں پر لکھونگا۔ اور انکے ذہن میں ڈالو نگا۔ پھر وہ یہ کہتا ہے کہ انکے گناہوں اور بے دینیوں کو پھر کبھی یادنہ کرونگا۔ اور جب انکی معافی ہو گئی ہے تو پھر گناہ کی قربانی نہیں رہی۔‘‘ (عبرانیوں۱۰:۱۶- ۱۸)۔
خُدا مزیدہمارے روزمرّہ کے گناہوں کوسزا نہیں دیتا اِسلئے کہ وہ پہلے ہی نسلِ انسانی کے تمام گناہوں کو  دھوچُکا ہے اوراُنہیں یسوؔع کے وسیلہ سےسزا دے چُکا ہے۔
 نتیجتاً، ہم جلد آنے والے خُداوندکاانتظار کرسکتے ہیں اور اُس کے کلام کی ،بِلا  گناہ راستبازوں  کے
طور پرپیروی کر سکتے ہیں،بِلا شک گو کہ  ہم اپنی زندگیوں میں ابھی تک گناہ کرتے ہیں۔