Search

ስብከቶች፤

مضمون 5: گُناہ کا حقیقی اقرار

[5-1] کِس طرح گُناہ کا سچا اَور دُرست اِقرار کریں <۱۔ یوحنا۱:۹>

کِس طرح گُناہ کا سچا اَور دُرست اِقرار کریں
<۱۔ یوحنا۱:۹> 
’’اگر اپنے گناہوں کا اِقرار کریں تو وہ ہمارے گناہوں کے معاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچا اور عادل ہے۔‘‘
 
 

خون کی خوشخبری آدھی خوشخبر ی ہے

         
کیا ہم صِرف خون کی خوشخبری کے وسیلہ سے آسمان کی بادشاہی میں داخل ہو سکتے ہیں؟
کبھی نہیں ۔ ہمیں کامل خوشخبری پر ایمان لانا ہے (یعنی پانی اور روح کی خوشخبری پر )۔
 
  ۱۔یوحنا۱:۹صِرف راستباز پر لاگُو ہوتا ہے۔ اگر کوئی گنہگار جس کے گناہ ابھی تک معاف نہیں ہوئے ہیں اِس حوالہ کے الفاظ کے مطابق اپنے روز مرّہ کے گناہوں کی معافی کے لئے کوشش کرے اور اپنی خطاوٴں کا اِقرار کرے تو اُس کے گناہوں کا کفارہ نہیں ہوگا۔ کیا  آپ سمجھتے  ہیں میں یہاں  کیا  کہہ  رہا
ہوں ؟ یہ حوالہ اُن گنہگاروں پر لاگُو نہیں ہوتا جو ابھی تک نئے سِرے سے پیدا نہیں ہوئے ہیں۔
اِس دُنیا میں بہت سے لوگ ہیں جو ابھی تک نئے سِرے سے پیدا نہیں ہوئے ہیں لیکن وہ ۱۔یوحنا کے پہلے باب میں سے یہ حوالہ لیتے ہیں اور دُعا مانگتے اور معافی کی اُمید پر اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں ۔
لیکن کیا کوئی جو نئے سِرے سے پیدا نہیں ہوا ہے اپنی اعترافی دُعاوٴں کے وسیلہ سے اپنے گناہوں
سے مکمل چھٹکارہ حاصل کر سکتا ہے ؟ یہ انتہائی اہم نکتہ ہے جسے مزید آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں سمجھنا اور واضح کرنا ہے۔
یوحناؔ کا پہلا خط پڑھنے سے پہلے ، آپ کو فیصلہ کرنا ہے آیا یوحناؔ رسول ایک راستباز انسان تھا یا گنہگار ۔ مجھے آپ سے مندرجہ ذیل سوال پوچھنے کی اجازت دیں۔ کیا یوحناؔ رسول پانی اور روح کی خوشخبری پرایمان رکھنے کے و سیلہ سے نئے سِرے سے پیدا ہُواایک راستباز انسان تھا یا گنہگار؟
اگرآپ کہتے ہیں یوحناؔ رسول ایک گنہگار تھا آپ اپنے عقیدہ میں کتابِ مقدس کے مطابق غلط ہیں ۔ اگر یوحناؔ رسول ایک راستباز انسان تھا جو نئے سِرے سے پیدا ہوا جب وہ یسوعؔ پر ایما ن لایا ، تویہ واضح ہو جاتا ہے کہ اُس کا ایمان آپ سے مختلف تھا۔آپ کو یوحناؔ رسول کی طرح بالکل وہی ایمان رکھنا ہے ۔
مجھے آپ سے ایک اور سوال پوچھنے کی اجازت دیں۔ کیا یوحنا ؔرسول راستبازوں یا گنہگاروں کو یہ خطوط لکھ رہا تھا ؟ یوحناؔ رسول راستبازوں کو خطوط لکھ رہا تھا ۔
اس لئے اگر گنہگار جو نئے سِرے سے پیدا نہیں ہوئے ۱۔یوحنا۱:۸۔۹ کا حوالہ دیتے ہیں اور اُنہیں اپنے آپ پر لاگُو کرتے ہیں تو یہ غلط ہوگا۔ اگر آپ کو راستباز بننا ہے خُدا کے سامنے اپنے گناہوں کا اِقرار کریں اور پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھیں۔ تب خُدا آپ کے تمام گناہوں کو خوشخبری کے ساتھ مٹا ڈالے گا جو پہلے ہی دُنیا کا گنا ہ دھو چکی ہے۔ 
یوحناؔ رسول کا ایمان اَیسا ہی ہے ۔ ۱۔یوحنا ۵باب میں وہ کہتا ہے کہ وہ ’’پانی ، خون او رروح ‘‘ پر ایمان رکھتا ہے ۔ کیا آپ یسوع ؔ مسیح پر ایمان رکھتے ہیں جو پانی ، خون اور روح کے وسیلہ سے آیا؟ کیا آپ صِرف یسوعؔ پر ایمان رکھتے ہیں جو صلیب کے وسیلہ سے آیا یا اپنے بپتسمہ ، اپنے خون اور روح کے وسیلہ سے آیا؟
کیا آپ صِرف خون کی خوشخبری پر ایمان رکھنے کے وسیلہ سے آسمان کی بادشاہی میں داخل ہو سکتے ہیں ؟ اگر آپ کا ایمان محض صلیبی خون کی خوشخبری پر ہے تو آپ صِرف آدھی خوشخبری کو سمجھتے ہیں۔اگر آپ صِرف صلیبی خون پر ایمان رکھتے ہیں ، کوئی شک نہیں آپ اپنے آپ کو ہر روز گناہوں کی معافی کی دُعائیں مانگتے ہوئے پائیں گے ۔ توقع یہ ہے کہ آپ ایمان رکھتے ہیں کہ آپ کے گناہ صِرف توبہ کی دُعاوٴں کے وسیلہ سے دھوئے جا سکتے ہیں۔
لیکن کیا آپ کے گناہ دُھل سکتے ہیں جب آپ صِرف صلیبی خون پر ایمان رکھتے ، توبہ  کرتے  اور اپنے روزمرّہ گناہوں کی معافی کے لئے دُعا مانگتے ہیں ؟ اگر آپ اِن لوگوں میں سے ایک ہیں ، تب آپ کے
گناہ آپ کے دل میں قائم رہیں گے کیونکہ کوئی بھی صِرف صلیبی خون پر ایمان رکھنے یا ہر روز توبہ کی دُعائیں مانگنے کے وسیلہ سے اپنے گناہوں کو نہیں دھو سکتا ۔ اگر آپ اِن لوگوں میں سے ایک ہیں تب آپ اَب تک پانی اور روح کی خوشخبری کو نہیں جانتے اور آپ کا ایمان نامکمل ہے ۔
یوحناؔ رسول نئے سِرے سے پیدا ہو چکا تھاکیونکہ وہ پانی اور خون اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھتا تھا ۔ لیکن آپ صِرف صلیبی خون پر ایمان رکھتے ہیں ۔ جب آپ بذاتِ خود خوشخبری کی صحیح سمجھ نہیں رکھتے ، آپ کیسے دوسروں کی نجات تک راہنمائی کر سکتے ہیں؟ آپ بذاتِ خود نئے سِرے سے پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ توبہ کی دُعاوٴں کے وسیلہ سے اپنے گناہوں کے کفارہ کی کوشش کر رہے ہیں ۔ یہ راستہ آپ کو کبھی بھی کہیں بھی نہیں لے جائیگا ۔
کوئی معنی نہیں رکھتا کوئی کس قدر جانفشانی سے دُعائیں مانگتا اور توبہ کرتا ہے ، اُس کے گنا ہ اُس کے دل سے دھوئے نہیں جاسکتے ۔ اگر آپ بعض اوقات محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے گناہ مٹائے جا چکے ہیں ، یہ صِرف آپ کا تصور اور جذبات کی مغلوبیت ہے۔ اگر آپ دُعا اور توبہ کرتے ہیں آپ ایک دن یا کچھ دیر کے لئے اپنے آپ کو تازہ دم محسوس کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں ۔ لیکن اِس طریقہ سے آپ کبھی اپنے گناہوں سے آزاد نہیں ہو سکتے ہیں ۔ 
گنہگار اپنے گناہوں سے چھٹکارہ کی اُمید پر دُعا اور توبہ کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے وہ ایک لمبے عرصے سے یسوعؔ پر ایمان رکھنے کے باوجود حتیٰ کہ ا بھی تک گنہگار ہیں۔ وہ پانی اور روح کی خوشخبری کو نہیں جانتے ۔ اگر آپ یسوعؔ پر ایمان رکھتے ہیں لیکن اب تک نئے سِرے سے پیدا نہیں ہوئے ہیں ، آپ بھی شاید ان لوگوں میں سے ایک ہیں ۔ اگر آپ روزمرّہ کی دُعاوٴں اور توبہ سے اپنے گناہوں کی معافی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، یہ ایک واضح گواہی ہے کہ آپ اب تک نئے سِرے سے پیدا نہیں ہوئے ہیں ۔ آپ کو فیصلہ کرنا ہے آیا آپ پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں جس طرح یوحنا ؔرسول نے کیا یا اپنے ایمان کو اپنے ذاتی خیالات اور جذبات پر قائم رکھناہے۔ ایک تو واضح سچ ہے ، اور دوسرا جھوٹ ہے۔
کتابِ مقدس کے مطابق سچی خوشخبری یہ ہے کہ یسوعؔ نے بپتسمہ لیا اور ایک ہی بار اور سب کے لئے دُنیا کے تمام گناہوں کو اُٹھا لیا اور صلیب پر سب گنہگاروں کے لئے دُکھ سہا ۔ اگر کوئی یسوعؔ کے بپتسمہ اور صلیب پر اُس کی موت پر ایمان رکھتا ہے ، وہ یک لخت اپنے تمام گناہوں سے نجات پائیگا ۔ دوسری طرف ، اگر کوئی اپنی بدکاریاں، توبہ کی دُعاوٴں کے ساتھ دھونے کی کوشش کرتا ہے ، وہ کبھی اپنے گناہوں سے آزاد نہیں ہوگا۔ کیا آپ اَیسا سمجھتے ہیں کہ آپ اپنے روزمرّہ کے گناہوں کو یادرکھ سکتے ہیں ؟ کیا خُد ااُن گناہوں کی پرواہ کرتاہے جن سے آپ نے توبہ نہیں کی ؟ کیا روزمرہ کے گناہوں کے مسئلہ کا واضح حل توبہ کی دُعائیں ہیں ؟ اِن سوالات کا واحد جواب نہیں ہے۔
 
 

سچی توبہ اور اِقرار کا مقصد

                    
 اِقرار اوراچھے اعمال کی حد کیا ہے ؟
اگرچہ ہمیں اپنی پوری زندگیوں میں اپنے گناہوں کا اِقرار کرنا ہے، ہم کبھی بھی محض اپنی بدکاریوں کا اِقرار  کرنے اوراچھے أعمال وسیلہ سے نجات یافتہ نہیں ہو سکتے ہیں ۔
 
کتابِ مقدس میں توبہ کا مطلب غلط ایمان سے سچے ایمان کی طرف رجُوع لانا ہے،  اور راستباز کے لئے ، کسی کا اپنی غلطی کو تسلیم کرنا اور خوشخبری کی روشنی میں واپس لوٹنا ہے۔
اگر آپ اب تک گنہگار ہیں آپ کو مندرجہ ذیل کی طرح اِقرار کرنا چاہیے۔ ’’ پیارے خُدا، میں نے گناہ کِیا اور میں جہنم میں جانے کے لائق ہوں۔ لیکن میں اپنے گناہوں سے نجات حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہوں۔ مہربانی سے مجھے میرے تمام گناہوں سے بچا۔ میں اب تک نئے سِرے سے پیدا نہیں ہوا ہوں اور میں جانتا ہوں میں جہنم کا سزاوار ہوں ۔‘‘ یہ ایک دُرست اِقرار ہے۔
تب نئے سِرے سے پیدا ہوئے مقدسین کو کس قسم کا اِقرار کرنا چاہیے ؟ ’’ پیارے خُدا، میں جسم کی پیروی میں گناہ کرچکاہُوں ۔ میں ایمان رکھتا ہوں یسوعؔ نے یوحنا ؔ اصطباغی سے بپتسمہ لیا اور مجھے میرے تمام گناہوں سے بچا لیا، حتیٰ کہ ُان گناہوں سے بھی جو مجھ سے ابھی سرزد ہوئے ہیں ، جبکہ مجھے اپنے گناہوں کے لئے مرجانا تھا۔ میں خُداوند کا شکر اَداکرتا ہوں کہ وہ مجھے پانی اور  خون  کے  وسیلہ  سے بچا چکا
ہے۔‘‘نئے سِرے سے پیدا ہوئے اور نئے سِرے سے پیدا نہ ہوئے شخص کے اِقرار میں فرق ہے ۔ 
ہم سب کو یوحناؔرسول کی مانند وہی ایمان رکھنا چاہیے ۔ اگر آپ اپنے گناہوں کو اقرار کے پیچھے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں جوراستباز کے لئے ہے تب آپ موت سے کبھی نہیں بچیں گے جو کہ گناہ کی مزدوری ہے۔
تمام گنہگاروں کو جو نئے سِرے سے پیدا نہیں ہوئے ہیں اُنہیں اعترافی دُعاوٴں کے پیچھے چھپنے کو چھوڑدینا چاہیے اور پانی ، خون اورروح کی سچی خوشخبری پر ایمان رکھناشروع کر دینا چاہیے۔اُنہیں یوحنا ؔ رسول کے ایمان سے سیکھنا چاہیے اور اِسی طرح نجات حاصل کرنی چاہیے۔                     
گنہگار احساس نہیں کرتے اُن کے گناہوں کی عدالت کتنی خوفناک ہوگی ۔ خُدا کے سامنے خوفناک ترین گناہ پانی اور روح کی نئے سِرے سے پیدا ہونے کی خوشخبری پر ایمان نہ رکھناہے۔
 وہ سب جو یسوعؔ پرایمان رکھتے ہیں لیکن ابھی تک نئے سِرے سے پیدا نہیں ہوئے ہیں اُنہیں خُداکے سامنے اقرار کرنا چاہیے، ’’خُداوند میں اَیسا گنہگار ہوں جسے جہنم کی جلتی آگ میں ڈال دینا چاہیے ۔‘‘جب کہ یہ کہنے سے باز رہنا چاہیے، ’’خُداوند ، مہربانی سے میرے گناہوں کو دھو دے ۔ ‘‘جب گنہگار اپنے دل میں خوشخبری کو قبول کرتا ہے کہ یسوعؔ نے دریائے یردنؔ پراپنے بپتسمہ اور صلیب پر اپنے خون کے وسیلہ سے اُسے بچایا ، وہ اپنے تمام گناہوں سے آزاد ہوسکتا ہے۔ یہ خاص قسم کا اِقرار ہے جو گنہگار کو خُد اکے سامنے اپنے تمام گناہوں سے چھٹکارہ پانے کے سلسلے میں کرنا چاہیے۔                                                                                                                                    
ایک گنہگار کو صِرف یہ اِقرار کرنا ہے کہ وہ ابھی تک نئے سِرے سے پیدا نہیں ہوا ہے اور پانی اور روح کی خوشخبری پر ایمان رکھتا ہے ۔ تب وہ فوراًنجات پا جائے گا ۔ پانی اور روح کی خوشخبری کے وسیلہ سے ، تمام گنہگاروں کی نجات مکمل ہو گئی تھی۔ ’’اور کسی دوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلہ سے ہم نجات پا سکیں ۔ ‘‘ (اعمال ۴:۱۲)۔  خُدانے تمام گنہگاروں کو اُن کے گناہوں سے اپنے بیٹے یسوعؔ کو یوحناؔ اصطباغی کی معرفت بپتسمہ لینے اور صلیب پر مرنے کے وسیلہ سے نجات دی۔ 
خُداوند نے اُن تمام گناہوں کو دھو ڈالا جو لوگ اپنے جسم اور اپنے دلوں کے ساتھ اپنی پیدائش سے لے کر اپنی موت تک سرزد کرتے ہیں ۔ ہمیں نجات پانے کے لئے سچی خوشخبری پرایمان رکھنا ہے ۔ یہ واحد راستہ ہے جس سے ہم اپنے تمام گناہوں سے آزاد ہو سکتے ہیں اور حقیقتاً پاکیزہ ہو سکتے ہیں ۔ ہم ایک ہی بار اور ہمیشہ کے لئے راستباز بن سکتے ہیں جب ہم پانی اور روح کی سچی خوشخبری پر ایمان رکھتے ہیں۔
یسوعؔ نے بپتسمہ لیا ، دُنیا کے گناہوں کو اُٹھا لیااور صلیب پر اپنی زندگی کے وسیلہ سے اُن کی  قیمت
 اَدا کی اور تین دن بعد مردوں میں سے جی اُٹھا اوراب خُدا کے دہنے ہاتھ پر بیٹھا ہے ۔ یہی کامل سچائی ہے ۔
ہم سب کو یہ اقرار کرنا چاہیے ۔ ’’خُداوند میں بچ نہیں سکتا بلکہ اپنے مرنے کے دن تک گناہ کر تا رہونگا ۔ میں اپنی ماں کے پیٹ سے گنہگار پیدا ہوا ہوں اور تمام گناہوں کے قرض کی وجہ سے جو مجھ سے سرزد ہوئے ہیں ، مجھے جہنم کے جلتے شعلوں میں پھینک دیا جانا چاہیے۔ اس بناء پر میں یسوعؔ پر ایمان رکھنا چاہتا ہوں جو پانی ، خون اور روح کے وسیلہ سے آیا اور میرا نجات دہندہ بن گیا۔ ‘‘
بالکل اُسی طرح جیسے متی ۳باب میں لکھا ہے ، یسوعؔ نے تمام دُ نیا کا گناہ اُٹھا لیا ، جب اُسے دریائے یردنؔ میں بپتسمہ دیا گیا ،بشمول تمام گناہ جو ہم  مرنے  کے  دن  تک سرزد  کرتے  ہیں ۔ ’’ اور سچائی  سے
واقف ہو گے اور سچائی تم کو آزاد کرے گی۔‘‘  (یوحنا ۸ : ۳۲)۔
اگر یسوعؔ نے ہمیں صِر ف موروثی گناہ سے نجات دی تھی اور ہمارے ذاتی گناہوں کوہماری ذات کی معرفت خود حل کرنے کے بارے میں بتایا تھا، ہم مسلسل اَذّیت میں ہوں گے ۔ لیکن یسوعؔ نے ہمیں اپنے بپتسمہ اور خون کے وسیلہ سے ہمارے تمام گناہوں سے آزاد کیا ہے۔ ہمیں اَب کس بات کی فکر ہے ؟ جب ہم یسوعؔ کے بپتسمہ اور اُس کے صلیبی خون پر ایمان رکھتے ہیں ، اور خُداوند کا شکر اَدا کرتے ہیں تو رُوح القدس ہمارے دلوں میں سکونت کرتا ہے۔
 کیا آپ یسوعؔ پر ایمان رکھتے ہیں ؟ کیا آپ ایمان رکھتے ہیں کہ ُروح القدس آپ میں سکونت کرتا ہے ؟ آپ کے تمام گناہ یسوعؔ پر لاد دئیے گئے جب اُس نے اپنے بپتسمہ کے وسیلہ سے دُنیا کا تمام گناہ اُٹھا لیا۔ اُس نے بعد میں صلیب پر ہمارے گناہوں کے لئے دُکھ اُٹھایا اور ہمیں ہمیشہ کی لعنت سے آزاد کر دیا ۔ یہ سچی خوشخبری ہے۔
 
 
راستباز کا اِقرار
                    
کسی راستباز کا سچا اِقرار کیاہے؟
اِقرار کرنا کہ وہ ہر روز گناہ کرتے ہیں لیکن اِس حقیقت پر ایمان رکھنا کہ یسوعؔ نے اُن کے روز مرّہ کے گناہوں کو آج سے تقریباً ۲۰۰۰؁سال پہلے دھو دیا۔
 
۱۔یوحنا ۱:۹ فرماتا ہے ، ’’اگر اپنے گناہوں کا اقرار کریں تو وہ ہمارے گناہوں کے معاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچا اور عادل ہے ۔‘‘ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اُس شخص کو جو پانی اور روح کی خوشخبری پرایمان رکھنے کا فیصلہ کرتا ہے یقینا اپنے گناہوں کا اقرار یہ کہتے ہوئے کرنا چاہیے۔ ’’خُداوند ، میں بچ نہیں سکتا بلکہ اپنی تمام زندگی گناہ کروں گا لیکن میں جانتا ہوں میں اپنے تمام گناہوں سے توبہ کی دُعاوٴں کے وسیلہ سے بچ نہیں سکتا ۔ میں ایمان رکھتا ہوں کہ گناہ کی مزدوری موت ہے اور یسوع ؔ کے بپتسمہ اور اُس کی مصلوبیت کے علاوہ کچھ بھی میرے تمام گناہوں کو نہیں دھو سکتا ۔ میں اِقرار کرتا ہوں میں نے آج گناہ کیا ہے لیکن میں ایمان رکھتا ہوں یسوعؔ نے یہ گناہ یردنؔ پر  ۰۰۰ ۲؁ سال پہلے ہی دھو دیا جومجھ سے آج سرزد ہواہے۔‘‘ اگرکو ئی شخص اِس طرح دُعا مانگتا ہے ، اُس کے ضمیر پر حاوی گناہ کامسئلہ فوراً حل ہو جائے گا۔                       
وہ جو پہلے ہی نئے سِرے سے پیدا ہو چکے ہیں اُنہیں صِرف اپنے گناہوں کا اقرارکرنا ہے ۔ وہ صِرف تصدیق کرتے ہیں کہ یسوعؔ نے پہلے ہی اُسے دھو ڈالا ہے جوبھی گناہ وہ کرتے ہیں ۔ کیونکہ یسوعؔ نے بپتسمہ لیا اورگنہگاروں کے لئے ۲۰۰۰؁ سال پہلے مر گیا ، کوئی بات نہیں وہ کتنے ہی کمزور ہیں، اُن کے تمام گناہ مکمل طورپر دھو دئیے گئے ہیں۔
 یہ حوالہ جوآج ہم نے پڑھا ہے راستباز کے لئے بہت اچھا ہے ۔ لیکن اگر ایک گنہگار اِس آیت کو لیتا ہے اور اِسے غلط طریقے سے استعمال کرتا ہے ، اُس کا جہنم میں خاتمہ ہو جائے گا ۔ تاہم، یہ کتابِ مقدس میں سے سب سے زیادہ غلط استعمال ہونیوالے حوالوں میں سے ایک ہے ۔ یہ ایک لمبے عرصے کے لئے مسیحیوں کے درمیان انتہائی غلط سوجھ بوجھ کا موجب بنا رہا ہے۔ایک کہاوت ہے کہ نیم حکیم خطرہ جان۔اگر ایک اناڑی حکیم اُس سے زیادہ کرنے کی کوشش کرتاہے جس کے وہ قابل ہے ، وہ شاید اپنے مریض کا خاتمہ کردے۔
یہ زندگی کا اصول ہے کہ کِسی کو اعلیٰ تربیت یافتہ ہونا ہے اور اپنے فرائض کو خوش اسلوبی سے سرانجام دینے کے لئے تجربہ کاربننا ہے ۔ بالکل یہی ایمان کی دُنیا میں ہوتاہے۔ وہ لو گ جو خُدا کے کلام کی تعلیم دیتے ہیں اُنہیں اِسی طرح سے سچائی کو پہنچانا ہے جس طرح وہ دُرست اور صاف طورپر تحریرکی گئی ہے اور وہ جواُن سے سیکھتے ہیں اُنہیں ایمان رکھنا ہے جو کچھ اُن کو سکھایا جاتاہے۔
اگر مناداپنے پیروکاروں کو غلط الہٰی تعلیم سکھاتے ہیں ، یا اگر ایماندار کتابِ مقدس کو غلط طورپر سیکھتے ہیں دونوں کیلئے اِس کا نتیجہ صِرف عدالت اور جہنم ہو گا۔ صِرف نئے سِرے سے پیدا ہوئے لوگ کتابِ مقدس کو دُرستگی سے سکھا سکتے ہیں ۔ حتیٰ کہ اچھی دوائی مریض کو مار سکتی ہے اگر یہ غلط طور پر تجویز کی گئی ہے ، اور بالکل یہی خُد ا کے کلام کو سیکھنے اور سکھانے کے بارے میں بھی ہے ۔ یہ اتنا ضروری ہے جتنی کہ آگ ہماری زندگیوں میں ۔ لیکن بالکل جس طرح یہ تباہی برپا کرے گی اگر آگ کو بچوں کے ہاتھوں میں دیا جاتا ہے ، خُداکا کلام بھی غلط ہاتھوں میں خوفناک تباہی برپا کر سکتا ہے۔
ہمیں راستباز کے اِقرار اور گنہگاروں کے اِقرار کے درمیان فرق میں شناخت کرنی ہے۔ ۱۔یوحنا ۱:۹ راستبازوں کے لئے ہے ۔ جب راستباز آدمی ایمان کے ساتھ خُداوند کے سامنے اپنے گناہوں کا اِقرار کرتاہے ، وہ اُن سے آزادہو جاتاہے کیونکہ یسوعؔ نے آج سے تقریباً ۲۰۰۰ ؁سال پہلے ہی تمام گناہوں کودھو دیاتھا۔
گنہگاروں کا یہ ایمان رکھنا غلط ہے کہ اُن کے گناہ جب بھی وہ معافی کے لئے دُعا مانگتے ہیں ہر وقت دھوئے جاتے ہیں ۔ جب کوئی نئے سِرے سے پیدا نہیں ہوا ہے کیا اُس کے گناہ صرف اِقرار کے وسیلہ سے دھوئے جا سکتے ہیں؟
خُدا عادل ہے ۔ اُ س نے اِس دُنیا میں اپنے اِکلوتے بیٹے کو بھیجا اور اُس کے بپتسمہ کے وسیلہ سے اُسے دُنیا کے تمام گناہوں کو اُٹھانے دیا اور وہ اُن سب کو نجات دیتا ہے جو اُس کے پانی کے بپتسمہ اور اُس کے صلیبی خون پرایمان رکھتے ہیں ۔ اس لئے ، جب ایک راستباز شخص اپنے گناہوں کااِقرار کرتا ہے ، خُدا اُسے بتاتا ہے کہ یسوعؔ نے تقریبا ً آج سے ۲۰۰۰ ؁سال پہلے ہی تمام گناہوں کو اُٹھا لیاتھا ۔ اَیسا شخص اِس طرح تصدیق کرتاہے کہ اُس کے دل میں کوئی گناہ موجود نہیں ہے ، حتیٰ کہ گو اُس کا جسم اب بھی گناہ کرتا ہے۔